عبدﷲ حسین کا ایک افسانہ – سمندر ـ انیس اکرام فطرت
”یہاں سمندر فیروز کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اس وقت جہاں تم موجود ہو وہاں و قت تھم گیا ہے۔ اور ایک ایک پَل پر سے تمہارا اختیار اُٹھ گیا ہے کہ یہاں میں حکومت کرتا ہوں۔ اس لےے نہیں کہ میں لافانی ہوں اور طاقت ور ہوں اور غصیل ہوں…. اس لےے کہ جب پَل پَل پر تمہارا اختیار تھا تو تم نے ہاتھ بڑھا کر کسی تک پہنچنا ہی نہ چاہا۔ اور آخر بے اختیار ہو کر بیٹھ گئے اور اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتے کہ جو پیچھے مُڑ کر دیکھ سکتے ہیں اُن کا اختیار پَل پَل سے نہیں اُٹھا۔ اس لےے کہ انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور پہنچ گئے اور ایک بدن میں دوسرے بدن کو شامل کرلیا اور شامل ہو گئے اور آگے پیچھے کے خود حاکم ہیں۔“ (ص71)
یہ اقتباس فیروز کے بنیادی المیے کی عکاسی کرتا ہے۔ فیروز ڈھلتی ہوئی عمر کے ایسے حصے میں ہے جس میں انسان کے بدن کی طاقت روبہ زوال اور اپنی سوچوں اور اپنے غیر مرئی اور مرئی طور پر ڈھلتے ہوئے بدن اور اعضاءپر اپنی ہی گرفت اور اپنا اختیار کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسان اپنے بدن کے موم کے پُتلے کو بہت نرمی اور آہستہ روی سے مسلسل پگھلتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے، خواہشوں اور بے بسی کے نرغے میں…. یہ حاصلات اور لاحاصلیوں کے حساب کتاب کا دور ہوتا ہے۔ حاصلات زیادہ بھی ہوں تب بھی ان کی تعداد کم پڑ جاتی ہے کہ کم لاحاصلیوں کی شدت اور گہرائیاںاور جذبوں کی بیکراں خلش حاصلات کی زیادہ تعداد کو روندتی ہوئی دل و جاں کی اذیتوں کا باعث ہوتی ہیں۔ پھر یہی دورِ حیات پچھتاﺅں اور شاید ندامتوں کا دور بھی ہوتا ہے یادِ ماضی حافظے کی بازگشت کا روگ بن جایا کرتی ہے۔ تب بعض انسان ماضی کے اندھے کنوئیں میں اُلٹے لٹکے بے آواز مسلسل صدائیں دیا کرتے ہیں۔
انسان کی زندگی کی محرومیاں اور لاحاصلیاں نوع بہ نوع اور لاتعداد ہو سکتی ہیں مگر محبت اور حیاتِ انسانی کی اصل بنیاد اور بقا کی ضامن جنسی محبت کی تشفی سے متعلق محرومیاں اور لاحاصلیاں دل و جان کا روگ بن کر باطنی الاﺅ کو سدا روشن رکھتی ہیں خواہ انسان کا بدن گریز پارہے، ذہنی اور نفسیاتی جولانیاں ہمہ وقت سر اُٹھاتی رہتی ہیں کچھ ایسا ہی مسئلہ ”سمندر“ کے مرکزی کردار فیروز کا ہے جو اُردو ادب کے عظیم افسانہ نگار عبدﷲ حسین کی تخلیق ہے۔ عبدﷲ حسین حیاتِ انسانی کی سفاک حقیقتوں کو آسانی اور روانی سے قاری کے قرطاس ذہن پر منکشف کرتا جاتا ہے کہ قاری کہانی کے ماحول اور فضا کے طلسمات میں جکڑا ہوا کرداروں کے ساتھ اُن کے سائے میں آگے ہی آگے بے اختیار بڑھتا چلا جاتا ہے۔
”سمندر“ میں یوں تو کئی کردار ہیں مگر وقت اور سمندر بطور کردار سب سے زیادہ متحرک، زندہ اور لافانی کردار ہےں۔ فیروز اگرچہ مرکزی کردار ضرور ہے لیکن فیروز تو وقت اور سمندر کی انگلی تھامے، اپنی محرومیوں اور لاحاصلیوں کی گھڑی اٹھائے جادہ پیمائی پر مجبور ہے۔
نہ شجر سایہ دار نہ پڑاﺅ، رستوں کی بے کلی اور تنہائی اُس کی شریک سفر ہے۔ یہ سفر انسانی زندگی کا سفر ہے، یہ سفر بحری جہاز میں سمندر کا سفر ہے، یہ سفر انسان کی باطنیت کا سفر ہے جس کی راہیں اجنبی، نامہرباں اور منزل بے نشاں، نامعلوم، جو انسان کا مقدر ہے جس میں وہ بے اختیار ہے۔ لہٰذا چاہے وقت تھم چکا ہو پڑاﺅ کو ٹھہراﺅ سے الگ ہو کر رستوں کی دُھول اور دُھند میں سفر جاری رکھنا ہی پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیروز زندگی اور حیات کے تحرک آمیز لمحوں میں اعمال اور متحرک سرگرمیوں کا شریک ہے لیکن ڈھلتے سورج کے سمے انسان کا قد چھوٹا اور سائے لمبے ہو جاتے ہیں۔ سورج پیچھے اور سایہ آگے اور انسان اُس سائے کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور رہتا ہے فیروز اسی رستے اور سفر کامسافر ہے۔ وہ ا جنبی اور نامہرباں سایوں کی حقیقت سے آشنا ہے مگر پھر بھی چند لمحوں کے لےے ہی سہی، ان پر اپنے اختیار کی کمندیں ڈال کر ان چند لمحوں کا حاکم بننا چاہتا ہے۔ اُس کے حافظے کی بازگشت اُسے وہ وقت یاد دلاتی ہے ، اُسے چرکے لگاتی ہے جب اُسے واقعی پل پل پر اختیار حاصل تھا مگر اس نے خود ہی ہاتھ بڑھا کر کسی بدن تک پہنچنا نہ چاہا تھا کہ بدن نے بدن کو نہ شامل کیا نہ شامل ہوا۔
دنیائے ادب میں ”المیہ“ کی یہی کلاسیکی صورت ہوتی ہے کہ جب کوئی کردار اپنے المیے کا خود ہی ذمہ دار ہو۔ اسی صورت میں المیہ کی شدت اور حدت بے پناہ ہوتی ہے۔ فیروز اسی نوع کے المیہ کا شکار ہے کہ اختیار کے بیتے لمحوں میں اُس نے خود ہی ہاتھ نہ بڑھایا اور کسی تک نہ پہنچنے کا فیصلہ اس کا اپنا ہی تھا۔ لیکن اب وہ ایک بدن میں دوسرے بدن کو شامل کرنے کی اذیت ناک خواہش میں مبتلا ہے جبکہ اس وقت وہ جہاں موجود ہے وہاں وقت تھم چکا ہے۔ پھر بھی وہ مٹھی میں ریت لےے اپنی عمر کے گہرے سایوں کی لپیٹ میں وقت کے سمندر کو پاٹنا چاہتا ہے۔ یہی کہانی ہے فیروز کی۔
(II)
کہانی کا آغاز کیلیڈونیا بحری جہاز جو اٹلانٹک کو پار کر رہا ہے اور جہاز کے عرشے پر ریلنگ کے ساتھ کھڑی ایک خوبصورت معصوم بچی سمندری بگلوں کو گِن رہی ہے۔ ”ایک دو تین …. پندرہ سولہ سترہ۔“ یہ چھ سالہ بچی جہاز پر فیروز کی پہلی دوست ہے جو دراصل فیروز کا معصوم دل ہے جو اُس کے پہلو سے نکل کر ساری دُنیا سے دور قدرت کی مہربان اور آسودہ آغوش میں خوابوں، خواہشوں کی استراحت کے ساتھ محو سفر ہے۔ فیروز ایسے انسانوں کا دل معصوم بچے کی طرح ہی ہوتا ہے کہ تمام عمر اپنی معصوم خواب نما خواہشوں کے سحر میں رہتا ہے۔ ایک لمحہ فیروز کے موتی جیسے خواب سمندر کی کف میں کرنوں سے لپٹے جھلملاتے اگلے ہی لمحے میں ریگ زارِ وجود کے سینے پر لہریا سانپ جیسے نشان چھوڑتے ہوئے اوجھل ہو جاتے تب وہ لوٹ آتا اپنی پناہ گاہ میں، اپنے کیبن میں….
اگرچہ فیروز کو اپنے بے اختیار ہو جانے کا گہرا احساس خود بھی ہے لیکن اُسے یہ احساس دوسرے بھی دلاتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر دُکھی سا بھی رہتا ےہ۔ میڈم سی گل (بچی کی ممی) سے دوسری ملاقات میں جب فیروز نے اُسے سلام کیا تو وہ
”بڑے اخلاق اور بڑے وقار اور بڑی علیحدگی سے مسکرائی اور جا کر پاس کی کرسی پر بیٹھ گئی۔“
میڈم ایک شائستہ اور پُروقار جوان عورت ہے۔ فیروز بڑی آہستہ روی اور بغیراحساس دلائے اُس کی طرف مائل ہو جاتا ہے جب کہ دوسری ملاقات کے باوجود اُس کا بڑی علیحدگی سے مسکرانا فیروز کے لےے اس کی خواہش کی پسپائی کا باعث ہے کہ اب وہ جہاں موجود ہے اور وہاں وہ ہاتھ بڑھا کر کسی تک پہنچنا چاہتا ہے، ان لمحوں پر اپنے اختیار کی کمند پھینکنا چاہتا ہے مگر خود کو بے اختیار محسوس کرتا ہے۔
”میں نے گن لےے ہیں، کل اٹھارہ تھے آج بیس ہو گئے ہیں…. دو کہاں سے آئے۔ ”مسٹرفے روز دو کہاں سے آئے ہیں…. پتا نہیں دو کہاں سے آئے ہیں۔“
”ای نڈ….”میں نے لمبی سانس لی…. ای نڈ تمہاری امی۔“ آخر میں نے کہہ دیا۔
”ہمارے ساتھ کیوں نہیں آتی۔“
”ممی کہاں گئی“…. ”وہ دوسری طرف بیٹھی ہے۔“ اور
”تمہارے ڈیڈی۔“ ”ڈیڈی نہیں ہیں۔“
ای نڈ بولی۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
”کہاں ہیں۔“
فیروز اور ای نڈ (بچی) کے درمیان درج بالا مکالمہ فیروز کا بچی کی ممی کی طرف مائل ہونے کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ بگلوں کی تعداد کا بیس ہونا۔ ”تمہاری ممی، ہمارے ساتھ کیوں نہیں آتی؟“ ”تمہارے ڈیڈی“، ”ڈیڈی نہیں ہیں“۔ اور اس پر فیروز کا اطمینان کا سانس لینا۔ یہ سب واضح اشارے ہیں اور ان کے بعد تو فیروز اور زیادہ کھل کر بچی سے کہتاہے۔ جب بچی کہتی ہے کہ ممی میرے لےے پُل اور بُن رہی ہیں تو فیروز جواب میں کہتا ہے۔
”مجھے پتا ہے۔“ پھر کہتا ہے کہ
”ای نڈ ممی سے کہنا مسٹر فے روز تمہاری باتیں کر رہے تھے۔‘
بچی کہتی ہے ”میری باتیں کر رہے تھے۔“
فیروز کہتا ہے ”نہیں ممی کی۔“ بچی پوچھتی ہے ”کیا باتیں کررہے تھے۔“ فیروز جواباً کہتا ہے ’اررر۔ اچھا مت کہنا۔“
فیروز کی بچی سے اس قسم کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ میڈم سی گل (بچی کی ممی) تک پہنچنا چاہتا ہے اُس کے دل میں یہ خواہش بار بار سر اُٹھاتی ہے اور اس کے لےے کسی حد تک ذرا محتاط انداز میں کوشش بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ ایسے معاملات میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
”لنچ کے بعد ڈائیننگ ہال سے نکلتے ہوئے میڈم سی گل سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی (یا کہ میں نے غیر شعوری طور پر…. یا عمداً؟…. ہال سے اپنی روانگی کے وقت کو اس طور متعین کیا تھا؟) وہ اکیلی تھی….“
افسانہ نگار کی باریک بینی اور ایسے معاملات سے متعلقہ ایسے کردار کی نفسیاتی معاملہ بندی اور اپنا مقصد و مدعا حاصل کرنے کے لےے نفسیاتی سطح پر منصوبہ بندی کی جزیات بالکل حقیقت پسندانہ اور بے حد قابل داد ہیں۔ اس ملاقات میں فیروز میڈم کو ہیلو کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور اُس سے بچی کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہے۔ مگر میڈم کی لاتعلقی کا انداز اور رویہ دیکھ کر اُسے سخت مایوسی ہوتی ہے۔
”مگر اس کی اس لافانی، لاتعلق اور ا جنبی اور پُراخلاق مسکراہٹ کو دیکھ کر میرا خون سرد پڑ گیا۔“
اور پھر….”ہم نے خاموشی سے سیڑھیاں طے کیں۔ یہاں اُس نے پھر مجھے سر کی بے نام سی جنش کے ساتھ الوداع کیا۔ اوپر جانے سے پہلے کوشش کے باوجود میں ایک لحظے کے لےے ٹھٹک کر اس کے شاندار متحرک جسم کو دیکھنے سے باز نہ رہ سکا کہ اس عورت کے جسم میں ایک اسرار تھا۔“
فیروز اور میڈم کی اس ملاقات اور اس کے فیروز کے ذہن پر جو جذباتی اثرات اور دونوں کرداروں کی نقل و حرکت اور باڈی لینگوئج کی جیسی عکاسی کہانی نگار نے کی ہے وہ حقیقت نگاری کی ایک بہت عمدہ مثال ہے۔ یہ چند لمحوں کی متحرک تصویر ہے جس میں قاری صرف تصوراتی نہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ عملی طور پر ان کرداروں کے ساتھ ہے بلکہ قاری تیسرا کردار بن جاتا ہے مگر خاموش۔
میڈم کی باڈی لینگوئج کے لےے افسانہ نگار نے لافانی، اجنبی اور پُراخلاق مسکراہٹ، سر کی بے نام جنبش سے الوداع کہنا، کے الفاظ استعمال کرکے مکمل تصویر کشی کی ہے۔ جبکہ فیروز کی ذہنی کشمکش کے لےے، خون سرد پڑ گیا، خاموشی سے سیڑھیاں طے کرنا، میڈم کے الوداع کے انداز، ٹھٹھک کر شاندار اور متحرک جسم کو دیکھنا، اور جسم میں ایک اسرار۔ بھی ایک حقیقی اور مکمل تصویر کشی کی مثال ہے۔
اس کے بعد رات کا منظر ہے۔ بہت زرد رنگ کا نصف چاند سمندر پر جھکا ہوا تھا اور سمندر جاگ رہا تھا۔ یہاں سمندر فیروز سے ہم کلام ہوتا ہے جو دراصل فیروز کی ہمکلامی ہے۔
”تم باتیں کرتے ہو، لیکن نہیں کرتے گو کرنا چاہتے ہو مگر نہیں کرسکتے۔“ اور
”اس لےے نہیں کہ نحیف و نزار ہو اور گویائی سے محروم ہو۔ اس لےے کہ پہنچنا نہیں چاہتے بلکہ پانا چاہتے ہو، شامل کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہونا چاہتے ہو صرف حاصل کرنا چاہتے ہو، اولین معصومیت کو جو کھو چکی ہے اور پیچھے ناکارہ جسم چھوڑ گئی ہے۔“
اس کے جواب میں فیروز کا یہ بیان کہ ”اب میں اس کی بکواس کا عادی ہوتا جارہا تھا“ ۔ فیروز کی باطنی کشمکش اور تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ دراصل حاصل اور لاحاصل کے درمیان کی سرزمین میں ادھورے وجود اور ادھورے ارادے کے ساتھ اپنی نیم رضامندی پر پختگی کی ملمع کاری کے ذریعے حاصل کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے لیکن اس کا اختیار بے بس ہو چکا ہے کہ اوّلین معصومیت کھو چکی اور پیچھے ناکارہ جسم چھوڑ گئی ہے۔ یہ روح اور ماس کا بُعد ہے جو عمر کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے کہ ماس ہمت ہار جاتا ہے۔ لیکن روح نفس کی گرہ تارِ عنکبوت سے علیحدہ نہیں ہو سکتی لہٰذا مسلسل تقاضا کرتی ہے، صدائیں دیتی ہے اُسی اوّلین معصومیت اور اختیار کو، لیکن بارش کے چند قطرے صحرا کی پیاس اور تشنگی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔
عبﷲ حسین نے فیروز کے المیے کو اپنے فلسفیانہ اندازِ تحریر کے ذریعہ سے خصوصاً فیروز اور سمندر کے درمیان مکالمے یا فیروز کی ہم کلامی سے، ایک آفاقی انسانی صورتِ حال میں تبدیل کردیا ہے۔ جو عبدﷲ حسین کا عمومی طرزِ تحریر ہے جو ان کے افسانوں اور ناولوں کو اعلیٰ شاہکار اور ارفع ادبی معیار پر فائز کرنے کا باعث ہے۔
اگلی صبح تیز ہوا اور ابر آلود مطلع میں جب ساحل کی سیاہ لکیر غائب ہو چکی تھی، گویا سمندر کے نیلگوں پانیوں اور آسمان کے گہرے نیلے رنگ آپس میں ہم آغوش تھے اور قدرت کے ان حسین مظاہر کے درمیان خاکی انسان غائب ہو چکے تھے تب فیروز نے ان کے درمیان آنے کی کوشش کی مگر تیز ہوا نے انسانی خاکی وجود کو دھکیل دیا کہ کبھی قدرت اپنے فقیدالمثال لافانی ملکوتی حسن کے جبروت میں ملاوٹ پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا فیروز نیچے لاﺅنج میں آکر اپنے دوست ہینگرین جوڑے اور ان کی غیر معمولی طور پر حسین، دوست جرمن لڑکی کے ساتھ برج کھیلنے میں مصروف ہوگیا۔ وہ جان بوجھ کر بار بار بازی ہارتا رہا کہ شاید وہ اس نئی خوبصورت لڑکی کی قربت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتا تھا کیونکہ بازی ہارنے کے باوجود خوش رہتا ہے۔ اسی دوران میں ای نڈ آکر بگلوں کے اکیس ہو جانے کی خبر دیتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بگلوں کی تعداد اور فیروز کے نفسیاتی تصرف میں آنے والی عورتوں کی تعداد میں کوئی نہ کوئی ربط ہے جیسا کہ پہلے ان کی تعداد بیس تھی نئی جرمن لڑکی کے ساتھ یہ تعداد اب اکیس ہوجاتی ہے۔
اب فیروز اِی نڈ کی ہمراہی میں ڈیک پر آتا ہے اور متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ یہ تلاش ظاہر ہے اِی نڈ کی ممی کی ہے۔ اسی دوران میں تھوڑے وقفہ کے بعد فیروز کے نفسیاتی تصرف میں ایک اور خوبصورت چہرے ”اینا“ کا اضافہ ہوتا ہے۔ جو جہاز کی فرسٹ ہوسٹس ہے۔ ”ہیلو ہائے“ کے بعد اینا فیروز سے ایلافٹزجیرلڈ کا ریکارڈ
“I am glad there is you
In this world of ordinary people”
مانگتی ہے۔ فیروز بھاگتا ہوا کیبن سے لا کر اُسے دے دیتا ہے۔ کیبن میں وہ چند لمحوں کے لےے ہاتھ لٹکائے گم صُم کھڑا رہتا ہے۔ یہ اس کی بہت پرانی کیفیت تھی جس سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ یہ کیفیت فیروز کی باطنی مستقل بے سکونی اور افسردگی کو ظاہر کرتی ہے۔ اینا اُسے لنچ کے بعد اسٹاف روم میں آنے کے لےے کہتی ہے کہ دونوں مل کر یہ ریکارڈ سنیں گے۔
اسٹاف روم میں فیروز اور اینا مل کر ایلا کا گیت سنتے ہیں۔ باتوںباتوں میں اینا کہتی ہے میں ایلا کی عاشق ہوں۔ فیروز بھی یہی الفاظ دہراتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ ”اس حساب سے ہم ایک دوسرے کے عاشق ہوتے ہیں۔“
وہ ہنسی ”ہوسکتا ہے۔” ہو سکتا ہے “۔ اینا کہتی ہے۔
”ہاں! صرف جیومیٹری کے حساب سے۔“
اُس نے بڑی آہستگی ، لیکن مضبوطی سے میرا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا اور اُٹھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ یہ باتیں اور فیروز کا اینا کے کندھے پر ہاتھ رکھنا۔ فیروز کی طرف سے پیش قدمی کی ایک اور کوشش تھی۔ جسے اینا نے بہت آہستگی کے ساتھ گریز کی صورت میں ظاہر کیا۔ اس کے بعد دونوں میں اِدھر اُدھر کی کچھ گفتگو جاری رہتی ہے۔ گفتگو کے دوران اینا فیروز سے پوچھتی ہے کہ کینیڈا کیا کرنے آئے تھے۔ وہ جواب میں کہتا ہے ”پڑھنے پڑھانے“۔ وہ سخت متعجب لہجے میں پوچھتی ہے ”پڑھنے؟“ فیروز کہتا ہے ”بالکل! کیا میں اب پڑھنے کے قابل نہیں رہا۔“ وہ جواباً کہتی ہے ”میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“ وہ ندامت سے ہنسی۔ ”میرا خیال تھا شاید تجارت وغیرہ کے سلسلے میں آئے ہو۔“ میں نے حلق میں سخت بدمزگی محسوس کی…. پہلا گیت ہم نے خاموش بیٹھ کر سنا۔ بدمزگی آہستہ آہستہ زائل ہونے لگی۔ اس گفتگو میں ”پڑھنے پڑھانے“ اور ”تجارت وغیرہ کے سلسلے“ کے الفاظ اور فیروز کو حلق میں سخت بدمزگی کا احساس ہونا فیروز کی اینا سے اپنی بڑی اور ڈھلتی عمر کے غماض ہیں۔ جو فیروز کے لےے کسی حد تک نفسیاتی شرمندگی کا باعث ہیں۔ لیکن وہ اُسے چھپائے چھپائے اینا کے پاس بیٹھا رہتا ہے اور پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی ہیں۔ اینا اُسے آنے والے متوقع سمندری طوفان کے بارے میں بھی اطلاع دیتی ہے۔ پھر فیروز سے پوچھتی ہے کہ ”تم شادی شدہ؟“ وہ کہتا ہے ”نہیں (فیروز یہاں جھوٹ بولتا ہے)…. اور تم؟“
”میں۔“ وہ ہنسی۔ سمندر سے بیاہی جا چکی ہوں۔“
”میں سمندر ہوں۔“ فیروز نے بازو پھیلا کر کہا۔
وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ریکارڈ ختم ہو چکا تھا۔
”اب مجھے ڈیوٹی پر جانا ہے۔“ اُس نے ریکارڈ اُتار کر میرے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ”بہت بہت شکریہ۔“
”اررر….رکو“ میں نے تھوک نگلا۔
”ابھی…. پکچر دکھایا جانے والا ہے چلو دیکھیں“ ۔ کہانی کا یہ آخری اہم موڑ ہے اور فیروز کی آخری زوردار کوشش کہ وہ اینا تک پہنچ سکے۔ لیکن یہاں بھی اُسے ناکامی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اُمید کی ہلکی سی کرن اُس کے دل و جاں میں ٹمٹماتی رہتی ہے اور وہ اس مکالمے کو کسی نہ کسی طور آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ اُمید کی یہ کرن اس وجہ سے بھی ہے کہ اینا کہتی ہے ”اس وقت میری اور جگہ پر ڈیوٹی ہے۔ کل دیکھیں گے۔“ (پکچر) فیروز پوچھتا ہے ”شام کو ڈانس پر آﺅ گی؟“ وہ کہتی ہے ”یہ میری آفیشل ڈیوٹی میں شامل ہے۔ خدا حافظ۔“ ”خدا حافظ خوبصورت لڑکی۔“ وہ خوش ہو کر مسکرائی اور باہر نکل گئی۔ ڈنر کے وقت تک فیروز جہاز کی رنگا رنگیوں اور خوشنما ہنگاموں سے الگ اپنے بستر پر لیٹا سگریٹ پیتا اور چھت کو گھورتا رہا۔ جو اس کی ناآسودگی اور بے چینی کو ظاہر کرتا ہے۔ کھانے کے بعد ڈانس ہال میں اینا کے ساتھ ڈانس کرتے ہوئے معمولی گفتگو بھی کرتا ہے۔ ”تم تو بہت اچھا ناچ لیتے ہو۔“ اینا نے نیم سنجیدگی، نیم تمسخر سے کہا۔ ”شکریہ“۔ ”میرا خیال تھا اب دھیمے پڑ چکے ہوگے۔“ ”میری صحت اللہ کے فضل سے بڑی اچھی رہی ہے۔“ میں نے پنجوں پر اُٹھ کر اپنے آپ کو اُس کے برابر لاتے ہوئے کہا…. اس کے بعد دوسری بار میوزک کے ختم ہونے پر اینا فیروز سے کچھ کہے بغیر باہر چلی جاتی ہے۔
اب یہاں پر فیروز جب باہر آکر سمندر کے روبرو ہوتاہے تو سمندر کہتا ہے :
”تم مجھ سے جنگ کرنے چلے ہو۔ جیسے کہ عمر بھر جنگ کرتے رہے ہو۔…. مگر پچھتاﺅ گے اور ہار جاﺅ گے جیسے کہ عمر بھر ہارتے رہے ہو۔“
یہ فیروز کی شکست کی آواز ہے۔ جو وہ سننا نہیں چاہتا۔ سمندر اپنی گفتگو جاری رکھتا ہے۔
”….مگر اب لڑھک چکے ہو۔ اور رکنا نہیں جانتے کہ اس میں پابندی ہے اور تم نہ پابند ہو نہ قوی ہو اور نہ میری آواز سن سکتے ہو کہ ہار چکے ہو اور تسلیم کرنا نہیں چاہتے کہ اس میں تمہاری آخری شکست ہے اور بڑھتی ہوئی، ہر دم قریب آتی ہوئی آخری شکست تمہیں بولائے دے رہی ہے اور ہاری ہوئی جنگ کو جاری رکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔“
سمندر کی اس تلخ نوائی کے بعد جب فیروز واپس ہوتا ہے تو سمندر ا ُس کے عقب سے ایک خوفناک، مجبور اور غصیلے قہقہے کے ذریعہ فیروز کا تمسخر بھی اُڑاتا ہے۔ اور غصہ کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس نے جب مڑ کر حیرت سے دیکھا تو سمندر ”پھنکار کر اٹھ بیٹھا تھا اور اس کی تاریک چھاتی بیک حجم اٹھ رہی تھی اور بیٹھ رہی تھی۔“ فیروز بھی اس کے جواب میں قہقہہ لگاتا ہے۔ یہ فیروز کی خود فریبی ہے کہ وہ باطنی سچی اور کھری سرزنش پر قطعاً کوئی توجہ نہیں دیتا کیونکہ وہ تو اینا کے جسم کے اسرار کے نرغے میں ہے۔ جس سے وہ کسی طور بھی آزاد ہونے کو تیار نہیں ہے۔ جنسی تحریک اور ترغیب اس قدر زوردار اور ضدی ہوتی ہے کہ تسکین کے بغیر ٹل نہیں سکتی۔ فیروز ایسی ہی کیفیت میں جکڑا ہوا ہے۔ حالانکہ کیبن میں آنے کے بعد وہ اعصابی کمزوری کے لےے ٹانک لیتا ہے اور سونے کے لےے حسب معمول خواب آور گولیاں استعمال کرتا ہے۔
اگلی صبح وہ پھر ڈیک پر موجود ہے۔ سمندر بگلوں کی تعداد چوبیس (24) ہو گئی ہے۔ وہ تین بار ان کی گنتی کرتا ہے کل رات ٹانک پینے اور خواب آور گولیاں کھانے سے سمندر کے قہقہے کی اصل نوعیت کافی حد تک فیروز پر ظاہر ہونے لگی تھی۔ گویا اعصابی کمزوری کی وجہ سے اُسے سمندر کی باتوں (یا ہم کلامی) کی سچائی کا کسی حد تک یقین آرہا تھا۔
لیکن اب صبح کے وقت وہ خود کو چاق و چوبند محسوس کرنے کے باوجود سمندر کی کھری کھڑی بتاوں کا اثر قبول کرنے لگتا ہے۔ حقیقت کو جھٹلانے کی قوت آہستہ آہستہ کمزور سے کمزور تر ہوتی جاتی ہے۔ جب انسان کو جسمانی و اعصابی کمزوری کی حقیقت کو مجبوراً تسلیم کرنا پڑے تو اس کی قوتِ ارادی میں بھی ضعف پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں انسان کا ذہنی و نفسیاتی ردعمل بھی شدید ہوتا ہے جو ہیجانی کیفیات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
اپنی آخری شکست کا فیروز کو اب کافی حد تک احساس ہو چکا ہے۔ لہٰذا اُس کی مایوسی اُس کے ذہنی انتشار اور نفسیاتی ہیجان کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ کردیتی ہے۔
عبدﷲ حسین نے فیروز کے ذہنی و نفسیاتی انتشار، جھنجھلاہٹ اور ہیجان کی مرئی تجسیم کاری، سمندری طوفان کی بلاخیزیوں کے ذریعے سے بے حد عمدہ انداز میں کی ہے۔ سمندر کے مختلف روپ جو افسانہ نگار نے نہایت مہارت، باریک بینی اور گہرے مشاہدے کی بنا پر پیش کےے ہیں، وہ بے حد تحسین کے حقدار ہیں۔ یہ مختلف روپ دیکھتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے کئی کلاسیکی شاہکار اس حوالے سے قاری کے ذہن میں عکس در عکس چلے آتے ہیں خصوصاً ”موبی ڈک“، ”اولڈ مین اینڈ دا سی“، ”یولسیس“، ”رہائم آف دی این شنٹ میرینز“، وغیرہ۔ سمندر کی وسعت و گہرائی۔
شانت اور پُرسکون سطح۔ لہروں کی آہستہ روی سمندر میں چھوٹے بڑے متحرک ٹیلے جو جگہ جگہ سے اُچھلتے ہوئے۔ جہاز کا سطح سمندر کو جا لگنا، ڈیک کا اُٹھتے اُٹھتے آسمان سے جا لگنا اور سمندر کا نظروں سے غائب ہو جانا۔ سمندر کی پھنکار، تیز ہوا اور فضا میں سیٹیاں بجنا۔ جہاز کا ڈولنا، فیروز کا لڑھکتے ہوئے ڈیک کی ریلنگ سے ٹکرانا، سمندری بگلے، اندھیرے سے پرے اندھیرا اور بیکراں اور عمیق اندھیرے کے اسرار میں گم سمندر کا لافانی دیو کروٹیں بدل رہا تھا اور جاگنے کے لےے بے کل، سمندر میں بارش، وزنی جہاز کا تنکے کی طرح بہے جانا، سمندر کا اندھا خونخوار غصیل قوی الجثہ درندہ، غصیل، لافانی اور طاقتور، غرضیکہ مصنف نے اتنی باریک بینی سے اتنی زیادہ جزیات بیان کی ہیں کہ انھیں یکجا کرنا مشکل امر ہے۔ اسی طرح بحری جہاز سے متعلقہ اور جہاز کے اندر کی تفصیلات اَن گنت ہیں، جن کو پڑھتے ہوئے قاری عملی طور پر خود کو جہاز کا ایک مسافر محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ اور پھر جہاز میں ہونے والی روزمرہ کی سرگرمیوں کی تفصیلات بھی بہت دلچسپ اور حقیقت نگاری کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔
فیروز اپنے بارے میں حقیقت کو تسلیم کےے جانے کے باعث اور لاحاصلی کے احساس کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکا ررہتا ہے۔ایسی فرسٹریشن کے نتیجے میں بعض اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ہے کئی مرتبہ وہ طوفان کے دوران میں ہی ’پورٹ ہول‘ کا ڈھکن اُٹھاتا ہے اور ایک مرتبہ وہ ڈھکنا اٹھا کر گول سبز شیشے کے ساتھ منہ لگا کر دانت ننگے کر کے سمندر کا منہ چڑاتا اور مُکا ہوا میں لہراتا ہے اور سمندر سے کہتا ہے ”تڑپو“…. جواب میں شیشے پر سمندر کی زوردار چپت کو محسوس کرتا ہے اور پیچھے ہٹ کر ڈھکنا گراتے ہوئے تضحیک آمیز قہقہہ لگاتا ہے۔ سمندر کے بارے میں محسوس کرتا ہے کہ وہ کئی مرتبہ فیروز سے مخاطب ہونا چاہتا ہے۔ پھر وہ شیشے سے کان لگا کر سمندر کی بات سننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ایسی ہی کچھ اور باتیں اور حرکات و سکنات کے ذریعہ فیروز اور سمندر کے درمیان جاری چپقلش اور تصادم کا پتا چلتا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل فیروز کی باطنی چپقلش، خلفشار اور خود سے تصادم کی عکاسی ہے جو بے حد عمدہ انداز میں کی گئی ہے۔
اس کے بعد فیروز کوریڈور کے چکر لگاتے ہوئے ایک بار پھر اینا کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اینا نے نہایت بے اعتنائی سے فیروز کو خداحافظ کہتے ہوئے دروازہ بند کرلیا۔ اس در سے مایوس ہو کر اب وہ تین چار بار میڈم سی گل کے دروازے سے گزرتا ہے اور آخرکار دستک دیتا ہے۔ لیکن یہاں بھی اِدھر اُدھر کی چند باتوں کے بعد میڈم سی گل بڑے اخلاق اور بڑی مضبوطی سے ”خداحافظ فیروز“ کہہ کر دروازہ بند کر لیتی ہے۔ اسی مایوسی کے عالم میں وہ پورٹ ہول کا ڈھکن کھول کر اُسی طرح سمندر کو ”تڑپو“ کہہ کر مُکا ہوا میں لہراتا ہے۔
برفانی طوفان تھم جانے کے بعد جہاز پر بھرپور رنگا رنگ، جیتی جاگتی، متحرک، اٹھکیلیاں کرتی، خوشی، آزاد اور حسن سے سجی سجائی زندگی لوٹ آئی تھی۔ آئرش سمندر پُرسکون تھا اور بگلوں کی تعداد چھبیس ہو گئی تھی۔ اب یہاں فیروز کی ملاقات پھر میڈم سی گل سے ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان معمولی سے خوشگوار ماحول میں اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی ہیں۔ فیروز کو دور سے اینا بھی گزرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ گفتگو کے آخر میں فیروز میڈم سے پوچھتا ہے کہ تم رقص پر کیوں نہیں آتیں۔
میڈم کا چہرہ گلابی سا ہوتا ہے اور وہ کہتی ہے ”مجھے پسند نہیں۔“ دور پرلے سرے پر ایک بار پھر اُسے اینا نظر آتی ہے۔ میڈم سے الگ ہو کر وہ اِدھر اُدھر متلاشی نظروں سے گھومتا رہتا ہے اور پھر شام کو ”ٹیورن“ میں چلا جاتا ہے جہاں موسیقی کا راج ہے۔
”ٹیورن“ میں وہ ایک بڑے ذہنی حادثے سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ دراصل اُس کی آخری شکست ہے۔ اسی ذہنی حادثے کے نتیجہ میں کہانی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے جو اس کہانی کو نسبتاًکمتر موضوع سے اُٹھا کر ایک ارفع و بلند تر موضوع سے گرہ کر دیتا ہے اور یہ ایک شاہکار کہانی بن جاتی ہے۔
مجید امجد کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ارضی اور نسبتاً کمتر موضوع کو ڈرامائی انداز میں کسی ارفع، ماورائی اور آفاقی موضوع کی طرف لے جاتا ہے اور اس میں المیہ اور دکھ کا عنصر نمایاں ہوجاتا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ جان ڈان کی شاعری کا بھی ہے، اور عبدﷲ حسین بھی اسی فکری قبیلے کا تخلیق کار ہے۔
ڈنر کے بعد ”ٹیورن“ میں فیروز نے جو منظر دیکھا تو ”ایک بے وجہ، بے موقع اور لاحاصل غصہ دھوئیں کی طرح آہستہ آہستہ میرے دماغ کو چڑھنے لگا۔“اور وہ منظر یہ تھا کہ ا یک نوجوان لڑکا ایک کونے میں بیٹھی اینا کو اپنے پورے وجود اور دیوانگی کے ساتھ مسلسل چوم رہا تھا۔ فیروز کے لےے یہ شکست کے ساتھ ساتھ تذلیل کا منظر تھا۔ اگرچہ اینا پر فیروز کا کسی قسم کا کوئی حق نہیں تھا وہ ایسے کسی بندھن سے آزاد تھی، لیکن فیروز کی پچھلے دنوں کی لگاتار کوششوں نے اپنے تئیں اینا سے تعلق اور لگاﺅ کا ایک بندھن باندھ رکھا تھا اور جو اُمید کی ایک کرن تھی ۔اس منظر نے اُسے بھی ختم کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی شکست اور تذلیل سخت غصے کی صورت اختیار کر گئی اور اُس نے زبردستی اینا کو بازو سے کھینچتے ہوئے رقص کے لےے مجبور کر دیا۔ لیکن وہ کھچی کھچی اور ناراضگی کے ساتھ رقص کرتی رہتی ہے۔ دونوں کے درمیان خاموش جنگ جاری رہتی ہے۔ اینا سختی سے ہال میں جا کر رقص کرنے کے لےے کہتی ہے دونوں رقص ہال میں آکر پھر رقص میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اس دوران دونوں میں مختصر بات ہوتی ہے مگر فیروز اینا کی آنکھوں میں عجیب سی جھلک کو محسوس کرتا ہے۔ اینا زیادہ تر اس دوران میں خاموش رہتی ہے، آنکھوں کی یہ جھلک جو کسی گہرے دُکھ، یاسیت، مغائرت اوربے معنویت کے گہرے احساسات کا پتہ دیتی ہے، جو زندگی اور زندگی کی سرگرمیوں میں رغبت سے لاتعلقی اور گریز کی پرچھائیوں میں سسکتی ہے۔ ”برلین کی گلیو ںمیں“ کی دُھن اینا کے حافظے کی بازگشت کی سسک بن کر سارے ماحول میں گونج رہی ہے۔ ”اینا نے گانے کے لےے منہ کھولا، اس کے ہونٹ ہلے، پھر وہ دفعتاً ڈھیلی پڑ گئی اور بے جان شے کی طرح میری طرف کھچی آئی۔ اُس کے قدم رُک گئے اور ٹانگیں جواب دینے لگیں۔ میں نے دونوں بازوﺅں سے پکڑ کر اس اُسے اوپر کھنچا۔ اُس نے دوبارہ آہستہ آہستہ میرے سینے پر سر مارا پھر اُسے وہیں رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔“
یہاں اینا کے کردار کی ایسی پرت کھلتی ہے جس کے سامنے فیروز کی خواہش چراغِ سحری کی طرح ماند پڑ جاتی ہے۔ وہ بڑے گہرے حساس دل کے ساتھ اینا کی اس کیفیت کی اذیت کو محسوس کرتا ہے۔ اینا کی روح کے نہ جانے کتنے زخم، کتنے دُکھ درد اُس کی جان نے سنبھال رکھے تھے جو فیروز کی بار بار کی دستک سے شرار بن کر شرربارِ نفس ہوئے۔
عبدﷲ حسین کی کہانیوں میں اُن کا فلسفہ حیات اپنی تہہ بہ تہہ پرتیں کھولتا ہے۔ اس فلسفیانہ زاویہ¿ نگاہ میں انسانی حیات کے ایک مرحلہ پر جنسی کشش و لذت بھی بے معنی، فضول اور بے سُود ہوجاتی ہے۔ اُن کی کہانیوں کے کئی کردار اسی مرحلہ حیات سے گزرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ مثلاً ”پھول کا بدن“ میں ثروت نعیم سے کہتی ہے ”بے سُود، سب بے سود ہے، بے سود۔“…. ”لاحاصل، فضول، فضول۔“ …. ”وہ بے دلی سے بولی ”میرا گھر آگیا ہے۔“
جب حساس اور نازک دل انسان پر دکھوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں، خواہشوں، خوابوں کا خون ہوتا ہے اور لاحاصلی اُس کے لےے مقدر ٹھہرتی ہے تو ا یسا انسان اندر سے بے سُدھ اور مردہ ہوجاتا ہے لہٰذا ایسی صورت میں کوئی خارجی ترغیب، کشش اور لذت اُس کی باطنی سرزمین کے بنجر پن سے نئی کونپلوں اور کلیوں کی نمو نہیں کرسکتی۔ لیکن جب دل میں گریہ شور کرتا ہے اور طوفان اٹھاتا ہے تب کسی بھی دستک پر یہی بنجر سرزمین اپنا اندوختہ اُگل دیتی ہے۔ یہاں اینا ایسی ہی اذیت ناک کیفیت سے دوچار ہوتی ہے۔ لیکن کہانی کا موضوعی ارتفاع یہاں رُکتا نہیں بلکہ ایک اور رُخ سے اوپر اٹھتا ہے۔ اینا فیروز سے کہتی ہے (اس کی آواز گہری اور حیرت انگیز تھی) ”تمہیں پتا ہے میں نے کیا کیا دیکھا ہے؟“ ان سادہ سے الفاظ میں کتنا بیکراں دُکھ اور کتنی گہری اذیت ہے کتنا کرب ہے۔
(یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر اپنی ٹکی لگائے جاتا ہے)
”کیا کیا دیکھنے“ کے بعد اب اس سارے میں سب کچھ بے معنی، کمتر، فضول اور بے سود ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر کبھی اس سب کچھ میں کچھ معنی پیدا ہو سکے ہیں تو اس کی صرف اور صرف ایک ہی صورت ہے کہ ایسا حساس انسان کسی دوسرے کے لےے لمحاتی سہی، کچھ آسودگی، طمانیت اور سُکون کا باعث بنے، خواہ اس کے لےے اُسے اپنے پلیتھن سے دوسرے کی ٹکی لگانے کی اجازت ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
’تم سمجھتے ہو کہ اس کے بعد انسان کے دل میں کسی جذبے کی خواہش رہ جاتی ہے؟“ لیکن کسی کو تو ٹکی لگانے کی اجازت دینی ہی پڑتی ہے۔ اسی لےے…. ”اس وقت کونے میں ایک صوفے پر ایک لڑکا بیٹھا (جو اس سے بارہ سال چھوٹا تھا) اینا کو بے تحاشا چوم رہا تھا اور وہ خاموش بیٹھی تھی۔“
اور ”تھوڑی سی کشمکش کے بعد اینا نے بڑی آہستگی اور بڑی بے حسی کے ساتھ اُسے اپنے سے جدا کیا اور وہ اُس کی گود میں سر رکھ کر بظاہر سو گیا…. لڑکے نے وہیں پڑے پڑے چند ایک سبکیاں لیں۔ پھر وہ اٹھا اور اُسے دوبارہ چومنے لگا …. اچانک وہ اٹھا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ اینا دونوں ہاتھ گود میں رکھے بے حس نگاہوں سے شراب کے گلاس کو گھورتی رہی۔“
اینا کے دل میں کسی جذبے کی خواہش تو باقی نہیں رہی کہ اُس نے کیا کیا نہیں دیکھ رکھا تھا۔ پھر بھی وہ اپنے سے بارہ سال کم عمر کے لڑکے کی آسودگی کا باعث اس لےے بنتی ہے کہ وہ لڑکا بے گھر ہے، ساری دُنیا میں وہی اس کا گھر ہے جہاں اُس کی ماں رہتی ہے لیکن وہ وہاں جا نہیں سکتا کہ موت راہ میں گھات لگائے ہے۔ وہ کمیونسٹ ملک مشرقی جرمنی سے فرار ہو کر آیا تھا، مگر ماں کے پاس وہاں واپس جانا چاہتا ہے، معصوم نوجوان کا اتنی بڑی دنیا میں ماں کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ واپسی پر راستے میں مارا بھی جا سکتا ہے اور گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن وہ رات کے اندھیرے میں سرحد پار کرے گا، کہ ماں کے پاس پہنچے۔ کتنی اذیت اور کتنا کرب اُس کی رگوں میں ہمہ وقت رینگتا رہتا ہوگا۔ موت نے اُس کی زندگی کے کشکول میں ماں کے پیار اور قرب کو تاک رکھا ہے۔
کسی بھی جذبے کے دل میں باقی نہ رہ جانے کے باوجود، بے دلی اور بے حسی کی کیفیات کے ساتھ لڑکے کے کرب اور موت کے خوف کی اذیت کو، لمحاتی طور پر ہی سہی، کم کرنے کی آسودگی کی خاطر اینا کے جذبے نے اُس کے کردار کو ارتقاءاور ارتفاع سے ہمکنار کر دیا ہے۔
اینا کی نوجوان جرمن لڑکے سے دردمندی اور ہمدردی کی وجہ انسانی رشتے کے علاوہ ایک اور بھی ہے اور وہ یہ کہ لڑکا مشرقی جرمنی کا رہنے والا ہے۔ اینا کا آبائی گھر بھی کبھی مشرقی جرمنی میں ہوا کرتا تھا۔ جہاں وہ پیدا ہوئی۔ جہاں اُس کا لڑکپن کا سہانا دور گزرا۔ مکان کے سامنے کی سیڑھیوں پر دھوپ میں وہ اپنی بلی کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ ماں کھانے کے وقت اندر سے اُسے آوازیں دیا کرتی تھی۔ بیک یارڈ میں جہاں اُس کا باپ بیٹھ کر اخبار پڑھا کرتا تھا وہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔
”زندگی میں سب کچھ دیکھ لینے کے بعد انسان کو صرف اپنے لڑکپن کا زمانہ یاد آتا ہے اور وہ جگہیں۔“ اور ”گرمیوں کے دنوں میں جب شام پڑتی تھی“۔ وہ رک گئی، اور پھر اس نے آہستہ سے فیروز کے بازو کو چھوا اور بولی ”وہ دیکھو ہماری ننھی دوست“۔ ای نڈ اپنی ماں کے قریب ہی کھیل رہی تھی۔
اینا کا نوجوان لڑکے سے غیر محسوس مگر گہرا جذباتی تعلق مشرقی جرمنی میں گرمیوں کی شام اور لڑکپن کی معصومیت اور ماں باپ کے قرب کی حدت کے حوالوں سے گرہ ہوتا ہے۔ فیروز کو اینا کی باتوں اور کڑوی سچائیوں کی وجہ سے حلق میں بدمزگی کا جو احساس ہوتا ہے، وہ فیروز کے کردار کے ارتقاءاور اتفاع کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اس گفتگو سے پہلے تک صرف اپنی ذات کے خول میں قید اپنی سفلی خواہشوں کی تکمیل کے لےے ہی بے چین رہتا تھا، مگر زندگی کے بالاتر تلخ حقائق سے آشنا ہونے کے بعد اور دوسرے انسانوں کا درد محسوس کرنے کے بعد کمتر خواہشوں کی بدمزگی متلی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔
فیروز کی یہ بدمزگی اور متلی اُس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب اینا اُسے میڈم سی گل کی تلخ زندگی کے بارے میں بتاتی ہے۔اینا اور نوجوان لڑکے کی طرح میڈم سی گل بھی ”بے گھر“ ہے اور زندگی کی سفاکی کے بالمقابل بے بس اور بے حس ہے۔
عبدﷲ حسین کے ہاں ”بے گھر“ ہو جانے کا مسئلہ بہت شدت کے ساتھ اُبھرتا ہے۔ ”جلاوطن“، ”واپسی کا سفر“، ”مہاجرین“ وغیرہ اور ناولوں کے کئی ایک کرداروں کے حوالے سے اس مسئلہ کو انھوں نے مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔
میڈم سی گل ہمبرگ (جرمنی) کی رہنے والی ہے۔ اینا فیروز سے پوچھتی ہے ”جانتے ہو کیا کرتی ہے؟“، ”نہیں“۔ ”سٹرپ ٹیز‘۔ ”ایں“۔ میرا منہ کھل گیا۔ ”ہاں! اور اس بچی کا باپ اس سے شادی کےے بغیر چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اُس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ”اس کا گھر کہاں ہے؟“ یہ الفاظ ”اس کا گھر کہاں ہے۔“ کتنے اذیت ناک اور دل چیر دینے والے ہیں جو ناقابل علاج سفاک حقیقت کے ترجمان ہیں۔
”اس وقت میں نے پہچانا، یہ وہی جگہ تھی، جہاں پر ہم کھڑے تھے۔ میں نے سہم کر اندھیرے میں دیکھا۔ سمندر کی تاریک چھاتی اُٹھ رہی تھی اور بیٹھ رہی تھی، اُٹھ رہی تھی اور بیٹھ رہی تھی“۔
اب یہاں زندگی کے جس موڑ پر فیروز زندگی کے روبرو کھڑا ہے وہاں اینا آخری بار اُسے مخاطب کرتی ہے۔ اینا کی یہ باتیں عبدﷲ حسین کا فلسفہ حیاتِ انسانی ہے جس کا اِندمال ”باقی سب تنہائی ہے“۔ جیسے مہاتما بدھ نے اپنے آخری خطاب کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے ”میرے دوستو! عزیزو تمام دُکھ ہے۔“ عبداللہ حسین کی کہانیوں میں بے گھر ہونے کی اذیتیں، لاحاصلی اور مغائرت کی اندوہناکی، خوابوں خواہشوں کی تشنگی، اور تنہائی کا کرب ”تمام دُکھ ہے“ کی ہی پرچھائیاں ہیں اور کیا ہے بس….
اینا کہتی ہے ۔
”یہ وہ بہادر نسل ہے جس نے سب کچھ کھویا ہے مگر اپنا ذہن محفوظ رکھا ہے۔ اور انسانی ذہانت حساب کتاب کا نہیں انسانی ذہانت دوسرے کے دُکھ کو پہنچاننے اور ہاتھ بڑھا کر اس میں شریک ہونے کا نام ہے۔ اس لےے تم محض شریک ہو سکتے ہو یا نہیں ہو سکتے۔ چاہے وہ دُکھ ہی کیوں نہ ہو، اس لےے کہ ہر وہ سانس جو تم لیتے ہو تم ضائع کرتے ہو اُس وقت بھی جب وہ ابھی تمہارے اندر ہوتا ہے اور زندہ و سلامت متحرک ہوتا ہے وہ ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔“
”کہ اوّلیں معصومیت کے کھو جانے کے بعد انسانی ذہانت کی سعادت صرف اُن کے نصیب میں ہوتی ہے جو دنیا کے حسن کو دیکھ کر وصال کی نہیں توصیف کی سعی کرتے ہیں کہ یہی ایک راستہ اس میں شامل ہونے کا ہے۔ باقی سب تنہائی ہے۔“
”میری پرانی رقیق بدمزگی، حلق سے نکل کر سارے بدن پر پھیلتی جارہی تھی۔ اینا پتا نہیں کب کی جا چکی تھی۔ میں بھاری قدموں سے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا اور سامنے سمندر سرد اور تاریک اور پُرسکون تھا۔ کوئی آواز نہ تھی…. ہر طرف خاموشی تھی۔“
اس کہانی کے کرداروں فیروز، میڈم سی گل، اینا اور نوجوان لڑکے کے لےے زندگی کتنی بے رحم اور حقیقتیں کتنی سفاک ہیں۔ ان کی زندگیوں کی بے رحمی اور سفاکی کی کہانی میں دُکھ اور المیے کا عنصر اور کیفیات شامل کردی ہیں جس کی بنا پر یہ کہانی لافانی شاہکار قرار پاتی ہے۔ یہی عبﷲ حسین کا کمالِ فن ہے۔