انیس اکرام فطرت – عبدﷲ حسین کی کہانیوں کے کرداروں کا المیہ
(1)
باطنی عددم اطمینان، ناخوشی، افسردگی، اُداسی اور تنہائی…. عمومی طور پر عبدﷲ حسین کی کہانیوں کے کرداروں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ان کرداروں کی زندگیاں ظاہری طور پر نارمل ہیں۔ دُنیاوی، مادی ضروریات، گھر، بنگلہ، گاڑیاں، سامانِ عیش و آرام، دولت، زمینیں، جائیدادیں، اولاد، اور وہ سب کچھ جس کے لےے ایک عام آدمی خواہش رکھتا ہے وہ سب ان کو میسّر ہے۔ مگر وہ عدم اطمینان، بے سکونی، ناخوشی، افسردگی، اُداسی اور تنہائی کا مسلسل شکار رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ زندگی کے ہمہ وقت تحرک اور روزمرہ کے معمولات، اعمال و وظائف سے جُڑے ہوئے ہیں۔ گویا ظاہری زندگی کے متحرک رواں دواں ہجوم میں شامل ہونے کے باوجود وہ باطنی سطح پر اس سرزمین زیست میں اجنبی، جلاوطن اور مہاجر ہیں۔
عبدﷲ حسین کی کہانیوں کے کرداروں کی عمومی طور پر یہی کیفیت ہے لہٰذا اُن میں ایسی باطنی کیفیات کے حوالے سے بڑی گہری مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ اُن کی زندگیوں کے معمولات، طرزِ عمل اور رویئے کافی حد تک آپس میں مماثلت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کے طرزِ عمل اور رویوں کا تعین کرنے والی وجوہات یا ان کے المیوں کی نوعیت مختلف ہے۔
مثال کے طو ر پر بلانکا (”ندی“) کا المیہ اُس کی پیدائش کا حادثہ ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کی غیر قانونی اولاد ہے۔ اس بات کا علم ہی بلانکا کے لےے سُوہانِ روح بن چکا ہے۔ پیدائش کا یہ المیہ اس کی سائیکی کا مستقل حصہ ہے جو اُس کے نفسیاتی اُلجھاﺅ، ہیجان، طرزِ عمل اور سماجی روّیوں کا تعین کرتا ہے۔ ثروت (”پھول کا بدن“) کا المیہ بلانکا سے مختلف ہے، وہ محبت کی ناکامی اور لاحاصلی کا شکا رہے۔
ثروت ایک طرف تو اپنے محبوب نعیم (جو ثروت کی محبت سے ناآشانا تھا) کی بے اعتنائی اور عدم توجہی کی وجہ سے المیے کا شکار ہوئی اور دوسری طرف خود اپنی زبان سے محبت کا اظہار نہ کر سکنے اور معاشرہ کی بے جا پابند روایات اور لڑکی کی مرضی معلوم کےے بغیر شادی کر دینے کی روایت نے اُسے المیہ سے دوچار کیا ہے۔ اُس کے بدن کی ناآسودگی اُس کے لےے روحانی آزار بن جاتی ہے جس کے ردعمل میں شادی شدہ ہونے کے باوجود وہ نعیم سے اپنی محبت کا جسمانی خراج وصول کرتی ہے اور اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
شوکت (”رات“) زندگی میں اپنی محبت (جمال) حاصل کر لیتا ہے۔ اس سے شادی کرتا ہے۔ کارزارِ جہاں میں اپنی محنت اور جدوجہد سے ایک کامیابی صحافی بن جاتاہے۔ اُسے ایک متوسط طبقے کی اچھی زندگی میسّر ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود باطنی طور پر وہ ایک انجان سی لاحاصلی اور مغائرت کا شکار رہتا ہے۔ زندگی کے معمولات میں جمال کے ساتھ گھومتے پھرتے ہوئے وہ عجیب و غریب اور مضحکہ خیز حرکات کرتا ہے۔ ایک نامعلوم سی بے کلی اور تنہائی کا شکار رہتا ہے۔ اس کے باطن میں ایک وسعت پذیر خلا در خلا ٹھہر سا گیا ہے جس میں اُس کی روح بھٹکتی پھرتی ہے۔ اور پھر وہ آخرکارخود کو سمندر کی گہری وسعتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ شوکت (شوکی) کا المیہ زندگی کی بے معنویت، لا یعینیت اور بے وقعتی کے احساس سے جنم لیتا ہے۔
اسی طرح شیخ عمر دراز اور اس کے بیٹے آفتاب (”مہاجرین“) کے المیے کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہے لیکن یہاں زندگی بے معنویت، لایعنیت اور بے وقعتی کا احساس نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ شیخ عمر دراز جو متوسط طبقے کا خوشحال فرد ہے ”کچھ کہے سنے اور ظاہر کےے بغیر اپنے آپ کو“ بندوق مار کر خود کشی کر لیتا ہے اور بے معنویت کا یہ احساس اگلی نسل میں بھی منتقل ہوتا ہے۔
”وقت کی اور عمر کی اور آدمی کے بدن کی کوئی حقیقت نہیں اور صرف ایک شے پر دُنیا کا وجود قائم ہے اور وہ آدمی کے دل کی یاد ہے جو نسل در نسل دُنیا کو باندھتی ہے۔“
یہ احساس آدمی کے دل کی یاد سے پھوٹتا ہے اور اس دل کی یاد پر دُنیا کا وجود قائم ہے۔ اور دل کی یاد کے سامنے وقت، عمر اور انسان کے بدن کی کوئی حقیقت یا حیثیت نہیں۔ یادیںہمیشہ گزرے ہوئے لمحوں، دنوں یا سالوں پر محیط ہوتی ہیں جو وقت کے گزر جانے، عمر کے ڈھلنے اور بدن کی شکست و ریخت کا پیمانہ ہوتے ہیں۔ پیچھے رہ جانے والا وقت، گزرے ہوئے مقام، جگہیں، گھر، گلیاں، بازار، کھیت کھلیان، باغات، درخت، پھول کلیاں، ندیاں، بارشیں، منظر، لوگ، رویئے ،ماحول، اشیا اور پوری زندگی، جب یہ سب کچھ پیچھے رہ جائے تو انسان اُن کی یادوں کے ساتھ وقت کے ہر اگلے پڑاﺅ میں، جہاں بہت کچھ اور بعض اوقات سب کچھ بدل چکا ہوتا ہے، وہاں وہ انسان ایک مہاجر ہوتا ہے۔ دل کی یادیں انسان کے خاتمہ تک اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ لہٰذا اس معمورہ دنیا میں ہر انسان ایک مہاجر ہے اور دل کی یادیں جس پر دُنیا کا وجود قائم ہے اس مہا جر کا کل اثاثہ ہوتی ہیں۔ دنیا کی ساری خواہشیں اور ساری مادی اشیاءحاصل ہو بھی جائیں تب بھی دل کی یاد کے سامنے یہ سب کچھ بے معنی، بے وقعت اور لایعنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ جس سے اُکتاہٹ اور نفسیاتی ہیجان پیدا ہوتا ہے اور بعض حساس لوگ اس اُکتاہٹ اور ہیجان سے تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں جیسا کہ آفتاب کا والد شیخ عمر دراز کرتا ہے۔ (یا ”رات“ کا کردار شوکت کرتا ہے۔)
لیکن اگلی نسل کا آفتاب اگرچہ اسی قسم کی ذہنی اور نفسیاتی اذیت میں گرفتار ہے مگر وہ اپنے باپ کی طرح خودکشی نہیں کرتا یا شاید ابھی چالیس سال کی عمر تک وہ اس سطح کے شدید نفسیاتی الجھاﺅ اور ہیجان تک نہیں پہنچا کہ اپنی زندگی ہی ختم کرڈالے۔ کہانی نگار نے اس موڑ پر کہانی ختم کردی ہے اس کے علاوہ اس کہانی میں شیخ عمر دراز کے پورے قصے میں ایک چھوٹا بچہ (آفتاب) باپ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اسی طرح آفتاب کے پورے قصے میں کبھی اُس کا چھوٹا بیٹا فاروق قصے کا ایک کردار ہے۔ گویا یہ گھرانہ ایک اُداس نسل ہے۔ دونوں قصوں کے ماحول میں فرق ہے۔ پہلے قصہ میں دیہات اور ماحول کی وسعت اور جزیات نگاری میں مصنف کی کمال ہنرمندی کے ساتھ ساتھ ایک نوع کی یکسانیت کا احساس بھی اُبھرتا ہے۔ جبکہ آفتاب والے قصہ میں ایک بھرپور شہر کا ماحول بھرپور جزیات اور تفصیلات کے ساتھ بہت خوبی سے دکھایا گیا ہے۔ دونوں کردار (شیخ عمر دراز اور آفتاب) کہانی میں موجود ماحول میں گھومتے پھرتے ہوئے اُس ماحول سے وابستہ اپنے اپنے ماضی کی یادوں کے عکس در عکس اژرنگ میں کھوئے رہتے ہیں۔ اُن کے ذہن، دل اور تصورات میں اُن کے ماضی اور حال کی اَن گنت تصویریں آگے سے پیچھے کی طرف اور پیچھے سے آگے کی طرف مسلسل حرکت پذیر رہتی ہیں۔ دل کی یاد ماضی اور حال کی یادوں کے اندھیروں اجالوں میں لےے لےے گھومتی رہتی ہیں۔
”دھوپ“ میں سعید کی کہانی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بلکہ ”دھوپ“ اور ”مہاجرین“ جُڑواں کہانیاں محسوس ہوتی ہیں۔
”بارش شراٹے سے ہو رہی تھی اور دن کا اجالا گھٹتا جا رہا تھا۔ آفس کے اندر کوئی شے بڑی نازک مگر قدیم اور زورآور ٹوٹ کر آزاد ہو چکی تھی۔ اور لہو کے ساتھ گردش میں تھی۔ وہ دل کے سر ہونے تک جیتا رہا تھا اور اس بات پر نہ خوش تھا نہ خفا۔ بس بارش کے اَن گنت قطروں کی تھاپ کو اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا اور دل میں جانتا تھا کہ ان میں نہ رنگ ہے ، نہ بوُ، نہ لے صرف حیات ہے۔“
درج بالا سطریں کہانی کا اختتام ہیں۔ شراٹے کی بارش، دن کے اجالے کا گھٹنا، اندر کسی نازک قدیم زورآور شے کا ٹوٹ کر آزاد ہونا، لہو کے ساتھ گردش میں رہنا، دل کے سر ہونے تک جیتے رہنا، اس بات پر نہ خوشی نہ خفگی، بارش کے قطروں میں نہ رنگ، نہ بو اور نہ ہی لے کا ہونا، صرف حیات کا ہونا، یہ سطریں سعید کی کہانی اور اس کے المیے کا نچوڑ ہیں۔ تیز بارش اور دن کے اجالے کا گھٹنا دراصل ماضی کی یادوں کے ساتھ ڈھلتی عمر میں آئندہ زندگی کے کم ہونے کے احساس کا کرب ہے۔ ماضی کی یادیں بارش کے قطروں کی طرح ہیں جن میں نہ رنگ ہے نہ بو اور نہ ہی لے باقی ہے بس یہ یادیں ہیں اور زندہ ہیں اور ان کے ساتھ سعید بھی۔ وہ نازک قدیم اور زورآور شے جو ٹوٹ کر آزاد ہو کر خون کی گردش میں شامل ہو چکی ہے وہ اُس کے جوان ماضی کی ایک خواہش جو اب حسرت بن کر لہو میں رینگتی ہے اور وہ دل کے سر ہونے تک جیتا رہا مگر اس نازک قدیم اور زورآور آرزو کو عمر رفتہ میں دشتِ رائیگاں کی جادہ پیمائی اور مسافتوں کے لاحاصلی نے پاشکستہ کردیا ہے۔ یہی وقت کا جبر ہے۔ پاشکستہ مسافر لاحاصل آرزوﺅں تمناﺅں کی گٹھڑی اٹھائے گم سُم، اب راستے اُسے کے لےے چلتے ہیں آرزوئیں تمنائیں خزاں کے خشک زرد پتوں کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکتی ہیں۔ مسافر کے دل میں منزل پانے کی خواہش کی شدت اور قوت کی حدت کم ہو چکی ہے۔ وہ زندہ زندگی کی کشش سے آزاد، بے نیاز اور غیر جانبدار ہوگیا ہے۔ جذبات وکیفیات بے رنگ، یک رنگ ہو چکے، نہ خوشی نہ غم سب کچھ ایک جیسا۔ یہ سب کردار دریا کی گزرگاہ پر آباد ہونے والے بھربھری ریت کے ٹیلوں کی طرح ہیں۔ وقت اور زندگی کا بہاﺅ ان کو مٹا دیتا ہے۔ بربادی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ وہ اپنے وجود کو یا تو خود ہی مٹا دیتے ہیں یا اسے لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وجود میں حیات تو باقی رہتی ہے مگر زندگی نہیں۔ اس حیات میں ان کے لےے نہ رنگ ہوتا ہے نہ بو، نہ لے۔ بس ایک حیاتِ بے مصرف جو نہ چلتی ہے نہ رُکتی ہے۔
عبدﷲ حسین کے افسانوں میں وقت بھی ایک کردار ہے، بہت توانا، زورآور اور بے بس کرد ینے والا۔ زیر نظر تمام کہانیوں میں یہ کردار بہت اہم ہے۔ زورآور اور بے بس کر دینے والا۔ ”جلا وطن“ میں بوڑھے کی کہانی، ”ندی“ میں ندی اور نیاگرافالز کا پانی زندگی اور وقت کی علامت ہے۔ ”ندی“ کی کہانی ایک اہم کردار سلطان حسین کی زبانی ہے اور ساری کہانی گزرے ہوئے وقت کے دُھندلکوں میں لپٹی ہوئی آہستہ آہستہ اپنی پرتیں کھولتی ہے۔ ”سمندر“ کا تو مرکزی کردار ہی وقت ہے۔ یہاں زندگی اور وقت ایک دوسرے کا “Melting Pot” بن گئے ہیں اور یہ “Melting Pot” پھیل کر سمندر کے کردار میں ڈھل گیا ہے جو فیروز سے مکالمہ کرتا ہے اور کبھی یہاں مکالمہ اور خودکلامی آپس میں مدغم ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ سمندر کا پھیلاﺅ، وسعت، گہرائی اور جبروت فیروز کی لاحاصلی اور دل کی کسک کو اٹھا کر ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے پھینک دیتا ہے یہاں وقت اور زندگی سمٹ کر ایک ندی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ فیروز اپنے ماضی ، گزرے ہوئے وقتوں کے کنول ندی کے پانی میں تیرتے ہوئے دیکھ کر دل میں کسک کی اُٹھان کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ اور پھر وہ دل کی یاد کی کاغذی ناﺅ کو اسی ندی کے حوالے کر دیتا ہے کہ ندی کا یہ پانی یادوں کی کاغذی ناﺅ کو نیاگرافالز کی اُچھلتی برفانی لہروں تک لے جائے کہ ان لہروں کی جھاگ میں بلانکا کی خوشبو اُٹھتی ہے جو خوشبو بکھیرتی ہے فیروزکے دل کے مضافات میں۔
اسی طرح ”دھوپ“ ، ”مہاجرین“، ”واپسی کا سفر“، ”رات“، وقت اور وقت کے تسلسل کے عنوانات ہیں۔ ان کہانیوں میں وقت آگے اور پیچھے کی طرف دوڑتا ہے ۔ حال سے ماضی کے دُھندلے جزیروں کی طرف اور ماضی سے حال کے جنگلوں کی طرف اور یوں حیات کی رگوں میں دوڑتے ہوئے ان کرداروں اور ان کی کہانیوں کو جنم دیتا ہے۔ لیکن ان کرداروں کی آنکھوں سے آنسو بن کر نہیں ٹپکتا۔ ”دھوپ“ اور ”مہاجرین“ جُڑواں کہانیوں کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ ان کہانیوں کے خدوخال میں بہت مشابہت جھلکتی ہے۔ دونوں کہانیوں میں انسانی زندگی کی تمام خوشیاں، غم، دُکھ، اُداسیاں، تنہائیاں، یادیں، نسل در نسل رواں نظر آتی ہیں۔ دونوں کہانیوں میں باپ اور بیٹے ساتھ ساتھ ہیں۔ بیٹے آنے والا کل ہیں جبکہ باپ ماضی میں اپنے باپ کے ساتھ گزرے ہوئے وقتوں کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ یوں ان کہانیوں میں ماضی اور حال ایک اکائی کی صورت اختیار کر گئے ہیں لہٰذا اس کرہ ارض کی اسٹیج پر ہونے والے ڈرامے میں سب پر غالب اور زورآور کردار وقت ہے جو سب کچھ طے کرتا ہے اور سب کچھ کا خاتمہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ ”یہ وقت کا ظلم ہے جس پر ہم قادر نہیں جس کی۔۔۔۔۔۔“ اس میں انسانی کردار ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، یہ انسانی ڈراما صدیوں سے کھیلا جارہا ہے۔ اس کا آغاز اور انجام کوئی نہیں اس میں کوئی انٹرول نہیں۔ ہر شے گول ہے اس لےے ہر شے اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یہ تواتر ہے جس کی وجہ سے یکسانیت پیدا ہوتی ہے۔
عبدﷲ حسین کی کہانیوں میں اور ناولوں میں بھی فلسفہ وجودیت (Existentialism) بے معنویت اور لایعینیت (Absurdily) کی گہری چھاپ ملتی ہے جو ان کہانیوں کو ادبی فلسفہ کا درجہ عطا کرتی ہے۔
مضمون کی طوالت سے بچنے کے لےے یہاں میں صرف تین کرداروں سے متعلق اپنی معروضات تھوڑی تفصیل کے ساتھ پیش کروں گا۔ میں اپنی معروضات کو صرف کہانیوں کے کرداروں کے حوالہ تک محدود کروں گا۔ کہانیوں کے باقی فنی اور فکری پہلوﺅں کے جائزہ کے لےے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہوگی۔
جہاں انسانی تعلقات اور رشتوں ناتوں کے نتیجہ میں انسانوں میں باہمی چپقلش، رقابتیں، دشمنیاں اور نفرتیں جم لیتی ہیں، وہاں ان میں باہمی رواداری، قرابتیں، دوستیاں، محبتیں اور حسن سلوک کی مثبت قدریں بھی رواج پاتی ہیں۔ خیر و شر انسانی بستیوں کی ہی فصلیں ہیں جو رویوں کے ہر دم بدلتے موسموں کی بدولت ہی پھلتی پھولتی ہیں۔ وسیع تر تناظر میں یہی خیر و شر تمام عالمی ادب کی مشترکہ اساس اور میراث ہے۔ انسانی رابطے، باہمی میل جول، رشتے ناتے، عمل ردعمل، سیاسی، سماجی، معاشی، نفسیاتی، طبقاتی، اجتماعی، انفرادی، نظریاتی اور مابعد الطبیعاتی نظریات و اعتقادات اور انسانی روّیوں کے مثبت و منفی ملاپ یا ٹکراﺅ اور غیر مرئی عمرانی معاہدے کے نتیجہ میں انسانی سماج اور تمدن و تہذیب کی صورت گری تشکیل پاتی ہے اور یہی تمام عناصر ادب اور دیگر فنون کی آبیاری کرتے ہیں۔
جس طرح کسی بھی سماج میں ہر فرد معاشرے کی اجتماعی صورت گری میں برابر کا شریک ہوتا ہے اسی طرح ناول، افسانہ، یا ڈراما میں بھی انسانی کردار انفرادی سطح کے ساتھ ساتھ باہمی میل ملاپ، رویوں اور عمل ردعمل کے ذریعہ فن پارے کی مجموعی شکل و صورت بناتے ہیں۔ ان فن پاروں میں رونما ہونے والے واقعات یا تو کرداروں کے عمل ردعمل کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں یا پھر یہ واقعات خارجی طور پر وقوع پذیر ہونے کے بعد کرداروں پر ہونے والے اثرات اور ان کے ردعمل سے ان فن پاروں کا ارتقاءہوتا ہے۔
اس نقطہ نظر سے جب ہم عبدﷲ حسین کی کہانی ”ندی“ کو دیکھتے ہیں تو اس میں اہم اور مرکزی کردار بلانکا ہے۔ ساری کہانی اُسی کے اردگرد گھومتی ہے۔ عبدﷲ حسین کی کہانیوں کے کرداروں میں یہ کردار سب سے زیادہ مضبوط اور شاہکا کردار ہے۔ یہ بلاشبہ کردار نگاری کے حوالے سے اُردو ادب کے چند بے مثال کرداروں میں شامل ہے۔
بلانکا کے کردار کا مسئلہ بنیادی طور پر وہ نفسیاتی ہیجان اور اذیت ہے جو اس کی پیدائش کے حادثے (جس کا اُسے علم ہے) کی پیداوار ہے۔ اور اس اذیت سے چھٹکارا کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ اس حادثے سے صرف نفسیاتی الجھاﺅ اور مسلسل ذہنی اذیت نے ہی جنم نہیں لیا بلکہ اس کے علاوہ تنہائی، بیگانگی، ناخوشی و افسردگی بھی بلانکا کا مقدر بن چکی ہے۔ اگرچہ جرم اُس نے نہیں کیا مگر وہ خود کو مجرم سمجھتی ہے اور یہ سب کچھ وہ سارے جہان سے چھپا کر زندگی کے تحرک اور ہنگاموں میں شامل ہے۔ یہ راز وہ کہانی کے کلائمکس پر صرف سلطان حسین پر افشاءکرتی ہے۔ وہ بھی شاید اس لےے کہ وہ جانتی ہے کہ سلطان حسین اس سے واقعی محبت کرتا ہے لیکن وہ اس سے شادی نہیں کر سکتی۔
”تمہارا گھر یہاں سے کتنی دور ہے۔ اُس نے پوچھا۔ آٹھ ہزار میل۔ سلطان…. اس نے کہا، ہم زندگی میں ہزاروں میل طے کریں گے لیکن یہ آٹھ ہزار میل شاید کبھی طے نہ کر پائیں۔ میں تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔“
اور پھر وہ کہتی ہے:
”میں تمہیں یہ سب کچھ اس لےے بتا رہی ہو ںکہ تم سے شاید دوبارہ ملاقات نہ ہو۔“
سلطان سے وہ باتیں کرنا چاہتی تھی۔ دراصل وہ اپنے دل کا غبار ہلکا کرنا چا ہتی تھی۔ صرف Catharsis کے لیے۔ اور پھر وہ جانتی تھی کہ سلطان اپنے وطن لوٹ جانے والا ہے۔ آٹھ ہزار میل دور۔شاید ہمیشہ کے لےے۔ اور شاید اُس سے دوبارہ کبھی ملاقات نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ وہ سلطان سے گفتگو میں واضح اور کھلے الفاظ میں میرو (جو اپنے وطن اٹلی واپس جا چکا ہے) سے اپنی چاہت، اور محبت کا اظہار کرتی ہے۔
”اُن دنوں میں اُس کے (میرو کے) پیچھے دیوانی ہو رہی تھی کیونکہ وہ مجھے تباہ کرنے پر قادر تھا۔“
میرو سے اپنی محبت کا اقرار اور اظہار وہ کہانی میں متعدد بار کرتی ہے۔ میرو کہانی میں حاضر نہیں غائب ہے اُس محبت کا اظہار اور اُس کا ذکر وہ بیتے دنوں کے حوالے سے صرف سلطان سے ہی کرتی ہے۔ لیکن میرو سے اُس کی محبت بھی یک طرفہ تھی وہ سلطان کو بتاتی ہے:
”یہ میری خوش قسمتی ہے۔ وہ بولی، کہ آج تک میرو کے علاوہ کسی مرد نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ اور میرو نے خود ہی میرے قریب آنے سے احتراز کیا۔ اُ س نے مجھ پر بڑا احسان کیا اور میں اُس کی شکر گزار ہوں لیکن سلطان….“
درج بالا مکالموں کے اقتباسات میں بلانکا کی زبان سے نکلنے والے الفاظ، لہجہ اور ادائیگی اور مکالمے کی بُنت بہت خوبصورت اور حقیقت پسند ہونے کے ساتھ بلانکا کے کردار، اُس کی شخصیت (جس کا مکمل خاکہ کہانی میں مختلف جگہوں پر اُس کے خدوخال انداز اور طرزِ تکلم کے ذریعے کہانی نگار نے تصویر کیا ہے) اور اس کے المیہ اور ذہنی ہیجان کے عین مطابق ہے۔ ان مکالموں کی ظاہری اور باطنی گہرائی کا کرب اور کسک قاری کو فوری متاثر کرتا ہے۔
میرو سے متاثر ہونے اور محبت کرنے کی ایک وجہ تو بالکل واضح ملتی ہے وہ یہ کہ میرو اور بانکا کی پیدائش کا حادثہ ایک جیسا ہے۔ دونوں کے المیے کا دُکھ یکساں ہے اور وہ اسی حوالے سے میرو سے مطابقت پاتی ہے۔ میرو واحد مرد ہے جسے وہ اپنے ہی قبیلے کا فرد سمجھتی ہے۔ لیکن محبت کی شدید خواہش کے باوجود میرو کی طرف سے بے اعتنائی نے اُسے اور زیادہ تنہا اور دُکھی کردیا ہے۔
میرو اپنے وطن واپس جا چکا ہے ۔ اب وہ اس کی یادوں میں کسک بن کربستا ہے۔ لیکن وہ میرو کو ایک ”سمبل“ کہتی ہے۔ وہ اُس کے لےے کس چیز کا سمبل ہے؟ محبت کا؟ بے اعتنائی و بے وفائی کا؟ ماضی میں ملاقاتوں اور خوشگوار لمحوں کا؟ بھائی چارے کا؟ یا اُس جرم کی مماثلت کا جو دونوں کے ماں باپ سے الگ الگ سرزد ہوا؟ یا محرومی اور لاحاصلی کا؟
بلانکاسلطان کو بتاتی ہے:
”میں اُن دنوں اُس (میرو) کے پیچھے دیوانی ہو رہی تھی کیونکہ وہ مجھے تباہ کر دینے پر قادر تھا…. لیکن اُس (میرو) نے مجھ سے کہا۔ زندگی میں اگر خوش رہنا ہے تو دنیا سے بھائی چارہ کرو پاگل لڑکی۔ باقی سب بیکار ہے۔ سب بھول جاﺅ، میں نے اطمینان کا سانس لیا اور آہستہ آہستہ اپنی دیوانگی پر قابو پانے لگی۔ لیکن میرے پاس اُس کا ذہن نہ تھا۔ وہ اپنے حادثے کو بھول گیا تھا میں اپنے حادثے کو نہیں بھول سکی۔“
پھر اُس نے ایک مرتبہ سلطان سے کہا :
”میرو کو کون یاد کرتا ہے۔ وہ تو محض ایک سمبل تھا، ”سمبل“ ، ”ہاں“ اُس نے مختصراً کہا۔
دفعتاً سلطان بلانکا کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگتا ہے۔ کیونکہ سلطان حسین پر جہاں بلانکا کی شخصیت کے کچھ اسرار کھلے وہاں ”بھائی چارہ“ اور ”سمبل“ کے الفاظ نے حیرت اور اسرار کا ایک اور پردہ بلانکا کی شخصیت کے گرد تان دیا۔
دراصل اندر کی مستقل بے اطینانی اور کرب ناک افسردگی نے بلانکا کی سائیکی کو بری طرح متاثر کیا وہ اپنے بارے میں سب کچھ دنیا سے چھپانے کے لےے کئی قسم کی شخصیات میں بٹ چکی اُسے اپنی پہچان اور شناخت چاہےے۔ زندگی میں ظاہری شمولیت اُس کی شخصیت کا ایک روپ ہے وہ دوستوں سے ملتی جلتی ہے پوری یونیورسٹی میں مشہور ۔ دوستوں کے ساتھ مختلف تقاریب اور ریستورنٹس میں جاتی ہے۔ کبھی کبھی عجیب و غریب حرکتیں کرتی ہے قہقہے بھی لگاتی ہے۔ ڈانس کی محفلوں میں شرکت کرتی ہے۔ کئی ایک دوستوں سے قربت کے تعلقات بھی قائم کرتی ہے۔ سلطان کو چومنے کے لےے بھی کہتی ہے۔ مختلف موضوعات پر فنکارانہ انداز میں گفتگو بھی کرتی ہے۔ موضوعات میں کتابیں، مو سیقی، سیاسیات، مختلف اسکینڈلز وغیرہ شامل ہوتے ہیں لیکن وہ یہ سب کچھ لوگوں کو خصوصاً مردوں کو مرعوب کرنے کے لےے کرتی ہے اور مردوں سے بچنے کے لےے ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ کیونکہ کسی کو بھی قربت کی ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دینا چاہتی۔ لہٰذا اس نے اپنے اوپر کئی خول چڑھا رکھے ہیں۔ ایک زرّہ بکتر سی پہن رکھی ہے۔ وہ سلطان کو یہ بات اس طرح کہتی ہے:
”گھر میں میری دو شخصیتیں ہو گئی ہیں۔ یہاں پہنچنے پر تین ہو گئیں۔ چار ہو گئیں، پتا نہیں کتنی ہو گئیں“
کئی شخصیتوں میں بٹا ہوا انسان، Persnality Crisis یا Identity Crisis یعنی شخصیت کی شناخت کے مسئلہ سے دوچار رہتا ہے۔ شناخت کے بغیر قدموں تلے زمین نہیں رہتی جہاں وہ قدم جما کر چل سکے اور وہ معاشرہ میں مُعلق شخصیت بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے کردار کا انجام خودکشی یا موت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
”رات“ میں شوکت خودکشی کرتا ہے اور ”مہاجرین“ میں شیخ عمردراز۔ جبکہ ”ندی“ میں بلانکا بظاہر حادثاتی موت کا شکار ہوتی ہے۔ لیکن کہانی کار نے ”پولیس رپورٹ کے مطابق“ کے الفاظ استعمال کرکے یعنی رپورٹ کے مطابق بلانکا کی موت حادثاتی تھی۔ اس واقعہ میں بھی خود کشی کے امکان کی گنجائش رکھی ہے۔
بلانکا کی پیدائش کے حادثے کو عبدﷲ حسین نے انفرادی سطح سے اُٹھا کر آفاقیت کے بامِ عروج تک پھیلا دیا ہے جس سے یہ کہانی ایک انسان کی کہانی نہیں بلکہ ازل میں انسان کی تخلیق اور پیدائش اور اس کے اس کرہ ارض پر ورود و ظہور کی کہانی بن گئی ہے۔
”دنیا میں تمام بچوں کی پیدائش محض حادثاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔“
”گو اس کرہ ارض پر ساری انسانی آبادی کی پیدائش محض حادثاتی نوعیت کی ہے۔“
”یہ وقت کا ظلم ہے جس پر ہم قادر نہیں۔“
اور
”یہ لوگ زمانے کا ضمیر ہوتے ہیں۔“
”اس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ تم اکیلی نہیں ہو…. بلانکا۔“
بلانکا کا مسئلہ ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے۔ معاشرہ ایسے بچوں کو کسی طور بھی قبول نہیں کرتا۔ اُنھیں برابری کا مقام نہیں دیتا۔ اُنھیں اُن کے ماں باپ کے جرم کی سزا ملتی ہے۔ حالانکہ وہ معصوم اور بے گناہ ہوتے ہیں۔ بلانکا کو بھی ایسے دوسرے بچوں کی طرح پیدائش کے بعد لاوارث بچوں کے ہوم میں داخل کردیا گیا تھا۔ ماں باپ نے اپنے چند لمحوں کی آسودگی اور جسمانی لذت کی خاطر کسی کو صدیوں کے کرب اور ہر لمحہ سانسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو اٹھانے کے جبر مسلسل کے لےے جنم دیا۔ کسی کی لمحاتی لذت آمیز آسودگی کسی دوسرے کے لےے ہمیشہ رِستا رہنے والا زخم بن جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ وہ اسی کرب کے ساتھ سانسوں کا بوجھ اٹھائے جلوسِ جہاں میں سرگرداں رہتی ہے۔ بلانکا اس بوجھ کی تھکن کے باوجود اس جلوسِ کارواں سے علیحدہ ہو کر پڑاﺅ نہیں کرنا چاہتی اور اس نے اپنی ریزہ ریزہ روح کو چھپانے کے لےے اپنے تھکے وجود پر کئی خول چڑھا رکھے ہیں۔ یہ خول کسی کو بھی اپنے اندر جھانکنے سے روکنے کے لےے ایک ڈھال ہے۔ بلانکا کی ظاہری شخصیت میں بڑی کشش ہے۔ چنچلتا ہے، شوخی ہے، قہقہے ہیں، جذبات ہیں اور ایک نوع کی بے نیازی ہے۔ وہ زندگی کے ہنگاموں میں شامل رہتی ہے ۔ لیکن اُس کے باطن میں دُکھ، تنہائی اور اُداسی نے سَن لگا رکھی ہے۔ جسے پاٹنے پر وہ قادر نہیں ہے یہ سفاک وقت کا ظلم ہے جو ہر حال میں سہنا پڑتا ہے۔
بلانکا پر اپنی پیدائش کے المیہ کا راز اُس وقت کھلا تھا جب وہ اپنے دوست رابرٹ کے ساتھ جھوٹ موٹ کے میاں بیوی بن کر لاوارث بچوں کے ہوم گئے تھے جس کا ذکر وہ سلطان سے کرتی ہے۔
”لیکن جاتے جاتے اپنی بدحواسی میں وہ (ہوم کی میٹرن) مجھے بتا گئی کہ یہ لڑکی سترہ سال ہوئے اُس (میٹرن) کے سامنے ہی لائی گئی تھی، اور یہ کہ جاڑوں کی اُس صبح کو یہ لڑکی شہر سے باہر باغ کے ایک بنچ پر ٹھٹھرتی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس کی ماں کے بارے میں کسی کو علم نہ تھا باپ قانونی طور پر شاید کوئی تھا ہی نہیں۔“
جاڑوں کے سرد موسم میں باغ کی ٹھنڈی فضا اور بنچ کی ٹھنڈک بلانکا کی رگوں میں ہمہ وقت ٹھٹھرتی تھی۔ اُس کا جسمانی وجود زندگی کے ہنگاموں کی حدت کے حصار میں رہتا مگر اس کی روح کسی مردہ خانے کی ٹھٹھری فضا میں مُعلق رہتی۔ لیکن زندگی کی حدت کا حصار آخرِ کار ٹوٹنا ہی تھا اور بس روح کی ٹھنڈک نے ماس کی حدت کے حصار کو توڑ ڈالا اور دونوں نیاگرافالز کی برفانی لہروں کی آغوش میں باہم ہم آہنگ ہوئے۔
(2)
بلانکا کے مقابلہ میں ثروت (پھول کا بدن) کا المیہ کمتر سطح کا ہے۔ ایک اعتبار سے ثروت اور بلانکا کے کرداروں میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے وہ دونوں جیتی جاگتی زندگی کے معمولات میں شریک ہیں۔ لیکن دونوں اندرونی طور پر غیر مطمئن ناخوش، افسردہ اور بے سکون ہیں گو دونوں کی باطنی کشمکش اور ہیجان کی وجوہات بالکل مختلف ہیں۔
ثروت تیس بتیس سالہ ایک شادی شدہ لڑکی ہے۔ اس کی بے اطمینانی، ناخوشی اور افسردگی کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے رسم و رواج اور روایات کے مطابق لڑکی سے اُس کی شادی کے لےے مرضی یا رائے معلوم نہیں کی جاتی یا اُسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ثروت یہ الفاظ نعیم سے کہتی ہے:
”تمہیں پتا ہے اس کا مطلب؟ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں معقول شریف لڑکی اللہ میاں کی گائے ہوتی ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جو حیوان مال ہوتی ہے۔ محض قبول کر لی جاتی ہے۔ اور نظرانداز کردی جاتی ہے اور مستقل نظرانداز کی جاتی ہے….مستقل۔“
شادی سے متعلق لڑکی کی مرضی یا رائے نہ معلوم کرنے یا اُسے نظرانداز کرنے کے نتیجے میں احساسِ کمتری لڑکی کی سائیکی کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ وہ ساری عمر ماتحتی اور تابع فرمانی میں گزار دیتی ہے۔ یہ ماتحتی اور تابع فرمانی اگرچہ خاندان اور معاشرہ میں لڑکی کی حیثیت کو کمتر درجہ دیتی ہے اور ایک انسان کو حیوان یا اللہ میاں کی گائے کی کمترین سطح تک گرانے کے مترادف ہے یہ نفسیاتی احساس کمتری اُس کی آئندہ زندگی کے اعمال اور روّیوں کا تعین کرتا ہے۔ یہ مستقل احساس اپنی جگہ عورت کے لےے ایک المیہ سے کم نہیں لیکن اگر لڑکی کسی سے محبت کرتی ہو اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہو تو یہ المیہ اُس کے لےے سوہانِ روح بن جاتا ہے اور بعض اوقات آئندہ کی زندگی میں وہ لڑکی معاشرہ سے انتقام لے کر اپنے شدید ردعمل کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسری وجہ نعیم کا غیر شعوری رویہ ہے۔ ثروت مشرقی روایات میں پلی بڑھی لڑکی ہے وہ نعیم کو شدت سے چاہتی ہے لیکن کبھی اس چاہت کا اظہار واضح اور کھلے انداز میں نہیں کر سکی۔ نعیم اُس کی چاہت سے بالکل بے خبر اور بے نیاز رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ثروت کے گھر والوں کے کہنے پر نعیم ثروت کی شادی محمود سے کروا دیتا ہے۔ جب کہ ثروت اندر ہی اندر نعیم کی طرف سے لاتعلقی اور بے توجہی پر سخت دُکھی اور رنجیدہ ہے۔ اس بات کا اظہار وہ کہانی میں اک موڑ پر کرتی ہے۔ ثروت کی شادی شدہ زندگی بظاہر بہتر اور معمول کے مطابق گزر رہی ہے۔ اُس کا شوہر محمود ایک اچھا نسان ہے۔ اُس نے کبھی ثروت کو دکھ یا تکلیف نہیں پہنچائی۔ اس صورتِ حال میں ثروت کے المیہ کی ذمہ داری خود اُسی کے اوپر ہے۔
حقیقی زندگی کی سفاک حقیقتیں اپنا جال بُنتی رہتی ہیں لیکن ثروت جیسے کردار اپنے پرانے خوابوں کے جال میں پھنسے پھنسے ہی زندگی بتا دیتے ہیں اور کبھی ان سفاک اور ناپسندیدہ حقیقتوں کے جال کو توڑنے کا موقع مل جاتاہے تو یہ اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو زندگی کے چند لمحوں سے گرہ کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ ثروت بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ وہ لڑکپن اور اوائل جوانی میں تو نعیم کی محبت حاصل نہ کر سکی لیکن لڑکپن کی محبت کی تشنگی اس کا نہ بھول جانے والا خواب بن کر اس کے دل و جاں کے کانچ گھر میں جھلملاتا رہا۔ لہٰذا ایک دن اُس نے اپنی شادی شدہ زندگی کی سفاک حقیقت کی آہنی دیوار کو توڑ ڈالا اور اپنا بدن نعیم کے حوالے کردیا۔
یوں ایک طرف اس نے معاشرے کے رسم و رواج اور بندھنوں سے بغاوت کی اور دوسری طرف نعیم سے اس بے توجہی کا انتقام لے لیا۔ اپنی اوّلین محبت کی خواہش کی یک پہلو تسکین اور نعیم سے انتقام لینے کے بعد ثروت پُرسکون ہو کر گھر لوٹ جاتی ہے۔ نعیم اُسے گھر تک چھوڑنے جاتا ہے۔ یہ گفتگو ہوتی ہے:
”پیدل چلتے ہیں، فاصلہ ہی کتنا ہے۔“
”بے سود“ ، ”ہونہہ؟“
”سب بے سود ہے۔ بے سود۔“
”ایں“؟ ”لاحاصل ، فضول، فضول۔“
”نہیں ثروت رکو میری بات سنو۔“
”تم لوگ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہو۔“
وہ بے دلی سے بولی۔
”میرا گھر آگیا ہے۔“ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ جب وہ اُس کے گھر کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا تو وہ پلٹ کر کھڑی ہو گئی۔ ”تم اب جاﺅ۔“
”کہاں؟“ ”جاﺅ“۔ ”مگر ثروت“۔
”نہیں نعیم۔“ وہ بولی ”اب تم جاﺅ۔“
گھر کے اندر ثروت کا شوہر اخبار پڑھ رہا ہے۔ کچھ دیر بعد ثروت دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اس کا شوہر اُس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہتا ہے۔ گویا زندگی سے اپنی مرضی کا حصہ چھین لینے کے بعد اب وہ معمول کی زندگی گزارنے کے لےے تیار ہے۔ لیکن اندر کی کسک تو ختم نہیں ہوتی۔
”اور اس کا خاوند پاس بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا تو وہ کوشش کر کے مسکرائی اور بولی ”آج دفتر نہیں گئے۔“
لیکن یہ کسک زندگی سے اپنا حصہ چھین لینے کے باوجود ختم کیوں نہیں ہو جاتی۔؟
دراصل انسان اپنی اِڈ (Id) کے جبر میں اپنی مرضی کا حصہ تو زندگی سے چھین لیتا ہے مگر بہرحال…. ایسا اطمینان اور سکون لمحاتی ہی ہوتا ہے۔ جو حقیقی زندگی کی سنگلاخ زمین میں ثمرآور نہیں ہوتا۔ انسان کے لاشعور میں اور اُس کی گہری حساسیت میں کہیں ایک چنگاری بھڑک اُٹھتی ہے۔ اور وہ نیم پچھتاوے جیسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ اپنی محرومیوں، لاحاصلیوں کو ساتھ ساتھ لےے اور پھر حصہ چھیننے کے عمل کی لمحاتی مسرّتوں کے حصول کے بعد بھی اپنے آپ کو ایک خلاءمیں مُعلق پاتا ہے۔ وہ شدت سے تنہائی اور اکیلے پن کی متلی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ثروت نعیم سے اپنے لڑکپن کی محبت کا خراج تو وصول کر لیتی ہے لیکن ….
”اب اُس سے منہ موڑ کر لیٹ گئی تھی۔ اور دیوار کو تکے جا رہی تھی اور اس کا لمبا تاریک بدن جس کو ڈھانپنے کی بھی اس نے تکلیف نہ کی تھی، مسلسل جھرجھرا رہا تھا اور وہ ہلکی ہلکی گہری اور ملفوف آوازوں میں ہنسے جا رہی تھی، ہنسے جارہی تھی، یا شاید روئے جارہی تھی۔“
نعیم نے کئی بار چاہا کہ اُٹھ کر دیکھے۔ یہ ہنسنے کی آواز تھی یا کہ رونے کی، مگر کوشش کے باوجود وہ ایسا نہ کر سکا۔ بعض اوقات انسان کی ہنسی میں رونا اور رونے میں ہنسی شامل ہوتی ہے۔ ثروت بدن کی تشنگی مٹا لینے کے بعد جس کیفیت سے دوچار ہے وہ کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ اُس کی ہنسی معاشرہ کے بلاجواز بندھنوں اور پابندیوں کو توڑنے کے بعد کا تمسخر ہے جبکہ اُس کا رونا اس کے لاشعور کی گہرائیوں میں کہیں دبے ہوئے ارتکابِ جرم کے کلبلاتے ہوئے احساس کا نتیجہ ہے۔
دیگر زیر نظر کرداروں کی طرح ثروت بھی زندگی کی لغویت اور بے معنویت کا شکار ہے جس کا بھرپور اظہار درج ذیل ا لفاظ میں ہوتا ہے۔
”بے سود۔ سب بے سود ہے ۔ بے سود۔“
”لاحاصل، فضول، فضول۔“
”تم لوگ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہو۔“
وہ بے دلی سے بولی ”میرا گھر آگیا ہے۔“
”تم اب جاﺅ۔“ ”نہیں نعیم۔“ ”اب تم جاﺅ۔“
اور پھر ثروت کا اپنے خاوند سے بات کرتے ہوئے، کوشش کر کے مسکرانا اور یہ کہنا ”آج دفتر نہیں گئے۔“
٭٭
شوکت (رات) کے المیے کی وجہ اُس کی شدید فرسٹریشن اور گہرا ڈپریشن ہے۔ ایسی نفسیاتی بیماریاں، مایوسی، بے دلی، خود ترسی، بیزاری اور خود کو مظلوم سمجھنے جیسی کیفیات کا باعث بنتی ہےں۔ ایسے انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول اور لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایسے لوگ اکثر اوقات عجیب و غریب ردعمل کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ تنہائی میں الگ تھلگ چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں اور بعض اوقات مضحکہ خیز حرکات کرتے ہیں۔ کبھی اونچا اونچا بولنا شروع کر دیتے ہیں اور شور مچاتے ہیں۔ اور کبھی مسلسل باتیں کرنا، زیادہ کھانا کھانا اور بعض اوقات نیند سے گھبرا کر اٹھنا یا بے خوابی کا شکار رہنا۔ ماحول اور لوگوں سے خوفزدہ رہنا یا پھر جنسی عمل میں شدت اور تندی (حیوانی محبت) ایسی شدت و تندی سے ایسے لوگوں کا وقتی طور پر کیتھارسس ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے فرسٹریشن اور ڈپریشن میں کچھ کمی آجاتی ہے۔ بہت زیادہ خواہشات اور توقعات جب پوری نہیں ہوتیں یا زندگی میں لگاتار ناکامیوں کا سامنا کرنے والے عموماً ان بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ حساسیت یا اپنی کسی جسمانی یا کسی دوسری خامی کی وجہ سے احساس کمتری کا پیدا ہونا بھی ایسی نفسیاتی بیماریوں کی وجہ بن جاتا ہے۔
شوکت کی زندگی کے ماضی اور حال کے تانے بانے پوری کہانی میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جب اس کا بچپن تھا تب ان کا گھرانہ خوشحال تھا۔ اس دور کی کئی یادیں اور تصویریں اُس کے ذہن کے کینوس پر اُبھرتی اور ڈوبتی رہتی ہیں۔ سکون کے دن، دوستیاں، اسکول کے راستے کا ماحول، ہمسایہ ایک بچپن کی ساتھی لڑکی کے ساتھ لگاﺅ، اس لڑکی موت، باپ کی موت کے مناظر، باپ کی موت کے بعد غربت و مفلسی کا دور، اور مشکلات، یونیورسٹی کا دور، اس دور کے ہنگامے، دوستیاں، دشمنیاں، ریاض سے دوستی اور پھر رقابت اور دشمنی، جمال سے محبت، یہ سب کچھ شوکت کی یادوں میں پوری قوت اور شدت کے ساتھ محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ عملی زندگی میںبطور جرنلسٹ ملازمت، کے باوجود غیر مطمئن زندگی بسر کرنا۔
ریاض کے ساتھ دوستی اور پھر رقابت کا تعلق شوکت کے لےے ایک بڑے گہرے ذہنی الجھاﺅ کا باعث بنتا ہے۔ یونیورسٹی لائف میں دونوں جمال سے محبت کرتے ہیں یہ رقابت کا ایک رُخ تھا اور دوسرا اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں دونوں کا مدمقابل آنا جبکہ تیسرا پہلو ریاض کی امارت و خوشحالی بھی ہے۔ اگرچہ جمال کی محبت اور الیکشن میں شوکت ریاض کو شکست سے دوچار کر دیتا ہے لیکن فتح مندی کی خوشی شاید اس کے باطن میں چراغ روشن نہیں کرتی ہے۔ شاید وہ ریاض کی دولت اور شان و شوکت سے اندار ہی اندر اتنا مرعوب ہے کہ اس کو شکست دینے کے باوجود بھی اُسے حقیقی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ عملی زندگی میں بطور جرنلسٹ وہ ریاض کے اخبار میں ملازمت کرتا ہے پھر یہ ملازمت چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی وجہ بھی شاید یہ ہے کہ وہ ریاض پر فتح پانے کے باوجود اس کے ماتحت بطور ملازم کام کرنے پر اس کی فتح مندی کا احساس تفاخر ماند پڑ جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ لکھنا لکھانا چھوڑ دیتا ہے۔ ریاض کی ملازمت چھوڑ دینے کے کچھ عرصہ بعد شوکت جمیلہ کے شدید اصرار پر دوبارہ ریاض سے ملازمت کے لےے کہتا ہے ریاض اُسے دوبارہ ملازمت دینے کے لےے تیار ہوجاتا ہے۔ وہ کچھ رقم بھی ایڈوانس دیتا ہے لیکن وہ مروجہ صحافتی انداز اور صحافتی تقاضے اپنانے کے لےے شوکت سے اصرار کرتا ہے جبکہ شوکت صحافتی معیار کے بارے میں آئیڈیل ازم کا شکار ہے لہٰذا شوکت سب کچھ ٹھکرا کر واپس لوٹ جاتا ہے۔ جمال سے شادی کے کچھ عرصہ بعد وہ غربت و مفلسی کی ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس میں گھر کے سامان کے علاوہ جمال کو تحفے میں دی گئی ساڑھیاں تک بِک جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ شوکت کو اس بات کا علم بھی ہو جاتا ہے کہ ریاض نے جمال کو چند ساڑھیاں دی ہیں۔
محبت میں کامیابی، جمال سے شادی اور ایک مشہور کامیاب جرنلسٹ بن جانے کے باوجود شوکت اُداسی اور لایعنیت کا شکار رہتا ہے۔ کیونکہ اس کا ماضی اور حال اس کے لےے مستقل نفسیاتی اذیت کا باعث ہے جس کی وجہ سے وہ فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اور آخر کار سمندر میں ڈوب کر خودکشی کرلیتا ہے۔
٭٭
شوکت کے المیے کے بارے میں کہانی کے درج ذیل اقتباسات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاض شوکت کی بیوی جمال سے پوچھتا ہے :
”جمال آخر ہوا کیا، آخر…. ہوا …. کیا….ہے۔“
”مجھے کچھ پتا نہیں ریاض۔“ وہ مایوسی سے سر ہلا کر بولی۔
”ایک سیدھا سادہ نارمل اور ذہین انسان تھا۔“ اور ….“ وہ اداسی سے بولا۔ ”بڑا خوش بخت آدمی تھا۔ ہم ساری عمر سے اُسے جانتے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ رہے ہیں۔ پھر یہ بیٹھے بٹھائے اُس کو آخر کیا ہو گیا ہے۔ جمال مجھے شک ہوتا ہے کہ تمہیں سب پتا ہے۔ مگر مجھ سے چھپاتی رہی ہو۔“ (ریاض)
”مجھے کچھ پتا نہیں ریاض۔“ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
”میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ ہر وقت کھاتا رہتا ہے یا سویا رہتا ہے یا مسخرے پن کی حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ میں سویرے سے شام تک باتیں کرتی ہوں اور میری کوئی بات نہیں سنتا۔ کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔ جو پیسے ہوتے ہیں ضائع کردیتا ہے۔“ اور اس نے اس کی تند حیوانی محبت کا ذکر کرنا چاہا مگر رُک گئی۔ ”گھر میں کچھ بھی نہیں رہا۔“ آخر وہ بولی۔
”مگر یہ بات۔“ اُس نے ہوا میں ہاتھ پھیلا کر سوال کیا۔ ”میرے لےے اب ایک راز بن چکی ہے۔ کوئی واقعہ ”کوئی حادثہ“ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ پھر یہ اُسے کیا ہوگیا ہے، کیا ہوگیا ہے جمال۔“
”مجھے کچھ پتا نہیں۔“ وہ رو کر بولی ”مجھے کچھ پتا نہیں۔“
”وہ تند خو اور زہریلا ہو چکا تھا اور کوئی رابطہ کسی سے نہ رکھتا تھا اور مشین کی طرح سردمہر تھا۔“
”اور اندھیرے میں صرف سانسوں کی مدہم پھنکار رہ گئی جو بلند ہوتی ہوئی کچھ دیر کے بعد ماتمی سرد آہوں میں تبدیل ہو گئی۔ کمرے میں سخت حبس ہوگیا۔“
٭٭٭
اس کہانی (رات) کے چاروں کردار شوکت، ریاض، جمال اور جمیلہ اپنے اپنے حوالے سے تنہائی،لاحاصلی، دہنی اذیت اور اُداسی کا شکار ہیں۔ ریاض اور جمیلہ محبت کی ناکامی جبکہ شوکت اور جمال محبت میں کامیابی کے باوجود تنہائی اور اُداسی کی اذیت اور بے دلی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ایسی زندگی بسر کر لینے پر قادر ہوتے ہیں جبکہ شوکت اس زندگی سے ہار جاتا ہے۔ اور اپنے وجود کو سمندر کی تندوتیز لہروں کے سپرد کردیتا ہے۔
(3)
المیہ (Tragedy) قدیم یونانی ڈراما کے حوالے سے (جسے دیگر اصنافِ ادب پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے) ایسے ”انسانی اعمال کی نقل“ جن کے ذریعہ سے دردمندی، ترس اور دہشت و خوف کے اثرات اور جذبات پیدا ہوتے ہوں جو کسی عمل کو دیکھ کر ذہنی یا نفسیاتی ہیجان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ کسی فن پارے میں ایسا عمل ہیرو یا مرکزی کردار (Protagonist) سے سرزد ہو اور ا سکی کسی باطنی خامی یا سوچ کی غلطی (Error of Judgement) کا نتیجہ ہو۔ اور یہ سوچ کا مغالطہ اس کے زوال اور تباہی و بربادی پر منتج ہو۔
المیہ کے اس نقطہ نظر سے جدید دور میں انحراف کے باوجود اس میں المیہ کے کچھ بنیادی عناصر کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ ہم اسی نقطہ نظر سے عبدﷲ حسین کے متذکرہ کرداروں کے المیہ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
بلانکا کے کردار کا المیہ دردمندی، ترس اور دہشت کے اثرات و جذبات تو پیدا کرتا ہے لیکن اس المیہ کو تقدیر کی کارگزاری تو کہا جا سکتاہے کردار کی سوچ کی غلطی کا نتیجہ ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ پیدائش کے حادثہ کی ذمہ داری بہرطور کردار کے کسی عمل کا نتیجہ تو نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی خارجی حادثہ کو المیہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو پھر اسے مکمل المیہ سے تعبیر کیا جا سکتاہے۔
ثروت کے عمل سے دردمندی، ترس اور دہشت ضرور جنم لیتی ہے۔ نعیم سے اس کی یکطرفہ محبت کو سوچ کے مغالطہ کے زُمرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ ثروت کے نعیم کے ساتھ جنسی عمل سے کسی حد تک کیتھارسس بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ثروت کا انجام دردمندی یا خوف پیدا نہیں کرتا کیونکہ وہ آخر میں اپنی شادی شدہ نارمل زندگی میں واپس لوٹ جاتی ہے۔
شوکت کا المیہ بہرحال دردمندی، ترس اور دہشت کے اثرات و جذبات طاری کرتا ہے۔ جہاں تک سوچ کے مغالطے کا تعلق ہے یہ عنصر بھی یہاں پایا جاتا ہے۔ شوکت کی ریاض سے توقعات اور اپنے طرزِ صحافت کے بارے میں آئیڈل ازم…. ریاض کا شوکت کی توقعات کے برعکس رویہ ظاہر کرنا اور شوکت کے طرزِ صحافت کو معاشرہ میں قبولیت کی سند نہ ملنا، اس کی مثالیں ہیں۔ اور پھر اس کی خودکشی کا انجام المیہ کے کلاسیکی یونانی نقہ نظر کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا اس المیہ کو ہم ایک مکمل المیہ کہہ سکتے ہیں۔