نظم – بے یقین بستیاں
علی اکبر ناطق
وہ اک مسافر تھا، جا چکا تھا
بتا گیا تھا کہ بے یقینوں کی بستیوں میں کبھی نہ رہنا
کبھی نہ رہنا کہ اُن پہ اتنے عذاب اتریں گے جن کی گنتی عدد سے باہر
وہ اپنے مُردے تمھارے کاندھوں پہ رکھ کے تم کو جُدا کریں گے
تم اُن جنازوں کو قریہ قریہ لیے پھرو گے
فلک بھی جن سے ناآشنا ہے جنہیں زمینیں بھی رد کریں گی
وہ کہ گیا تھا ہمیشہ ذلت سے دُور رہنا
کہ بدنصیبوں کا رزقِ اوّل اُنہیں زمینوں سے پیدا ہوتا ہے
جن زمینوں پہ بھورے گِدّہوں کی نوچی ہڈی کے ریزے بھکریں
تم اپنی رائے کو استقامت کی آب دینا
جسے پہاڑوں کی خشک سنگیں بلندیوں سے خراج بھیجیں
غلام ذہنوں پہ ایسی لعنت کی رسم رکھنا
جو تیری نسلوں پھر اُن کی نسلوں پھر اُن کی نسلوں تلک بھی جائے
تمہیں خبر ہو، شریف لوگوں کی اُونچی گردن لچک سے ایسے ہی بے خبر ہے
سوادِ غربت میں خیمہ گاہوں کی جیسے گاڑی ہوں خشک چوبیں
کبھی نہ شانے جـُھکا کے چلنا
کہ پست قامت تمہارے قدموں سے اپنے قدموں کو جوڑ دیں گے
وہی نحوست تمہیں خرابوں کی پاسبانی عطا کرے گی
سراب آنکھوں کے راستوں سے تمھارے گردوں میں ریت پھینکیں گے اور سینے کو کاٹ دیں گے
وہ کہ گیا تھا یہی وہ علت کے مارے وحشی ہیں جن کی اپنی زباں نہیں ہے
یہ جھاگ اُڑاتے ہیں اپنے جبڑوں سے لجلجے کا تو گڑگڑاہٹ کا شور اُٹھتا ہے
اور بدبو بکھیرتا ہے
یہی وہ بدبخت بے ہنر اور بے یقیں ہیں کہ جن کی دیّت نہ خوں بہا ہے
سو اِن کی قربت سے دور رہنا، نجاتِ دل کا سبب بنے گا
وہ اک مسافر تھا کہ گیا ہے۔