بے یقین بستیوں میں
علی اکبر ناطق
Paperback: Publisher:
|
غالب ایسا صاحب ہوش ہے کہ عالم جنوں میں بھی اپنے “بکے” کا ادراک رکھتا ہے ،حالا نکہ ان دونوں کیفیتوں کے مابین علاقہ تضاد کا ہے لیکن یہ بندۂ خدا ادراک کے علاوہ نہ صرف اپنا خوف بھی باقی رکھتا ہے ، بلکہ یہ عیارانہ دعا کرنا بھی نہیں بھولتا کہ مجنون جا ن کر اس سے درگذر کیا جائے۔ بتائیے ایسے غالب کا کوئی کیا کرے ۔ بہرحال عمومیت سے استثنیٰ رکھنے والے غالب ایسے یا ایسے غالب ، اقلیم شاعری میں شاذ ہی ملتے ہیں، ان کی عظمت لا ریب…!
اب اگر وہ اپنی شاعری کو احتجاج کی شاعری ہی سمجھ بیٹھا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہت سے ایسے جینوئن شاعر موجود ہیں جو نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کہا۔ شاعر اپنی تخلیق پر سند ہوتا ہے نہ اپنا رازداں۔ ناطق خود کو جان پاتا تو کبھی نہ لکھتا کہ وہ احتجاج (محض) کا شاعرہے۔ غلام ذہنوں پہ ایسی لعنت کی رسم رکھنا کالی گردن پیلی آنکھوں والی بن کی ایک چڑیل وہ مدعی ہیں، ان کو فاختہ عزیز ہے گروہ زندہ تھے تو زندوں میں وہ شامل کب تھے “بے یقین بستیوں میں” میں ایسی مثالوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جن میں غصے کی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ ان میں Anger,Anguish,Ire,Aversionاورسب سے زیادہIndignationکی حالتیں پائی جاتی ہیں۔جواوپر کی ان مثالوں کے اعماق میں دکھائی دیتی ہیں۔ احتجاج محض تو استمنابالیدکی ایک مثال ہے اور اس کا مقصد Catharsisہوتا ہے، ایک مقام پر پہنچ کر احتجاجی ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور پھربس۔ میں کہتا ہوں ناطق کے ہاں Indignationکا پہلو غالب آتا ہے۔ یہ غصے کی وہ حالت ہے جب ایک باعزت آدمی سر بازارذلیل وخوارکردیا جاتا ہے اور ردعمل میں وہ مارڈالنے یا مارے جانے کی حد تک چلا جاتا ہے۔ ایسے عالم میںقتل بھی سرزد ہوجائے تو قاتل کوسزائے موت نہیںدی جاتی، اسے غصے کی جائز حالت بھی قراردیا جاتا ہے۔ لہٰذا ناطق بھیے ! تم احتجاج کے نہیں میرے نزدیک Indignationکے شاعرہواورIndignationاحتجاج سے آگے کا عالم ہے۔ میں جو کچھ دیکھ ، سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ تم میدان میں نکل آئے ہو اوراب مبارزت طلب ہو کہ تمہیں قتل کرڈالا جائے یا تمہارے ہاتھوں قتل ہوا جائے ۔ تم نے “مقابل” کے شجرۂ نسب کو “انجب” کہہ کر اپنے بچنے کا کوئی پہلو نہیں رکھا بلکہ سیدھے سبھاؤدونسلا قرار دے کر خطرناک منطقے میں داخل ہو چکے ہو۔ مورخ اورشاعر میں فرق یہ ہے کہ مورخ نثرمیں وہ کچھ قلم بند کرتا ہے جو بیت چکی ہے لیکن شاعر وہ کچھ لکھتا ہے جو ابھی عالم امکان میں ہے۔ اپنی جگہ دونوں اہم لیکن شاعری کی اہمیت یوں بڑھی کہ اس کے بیانات فطرت کو محیط اور کائنات گیر ہوتے ہیں۔ آگسٹس ولئیم ہارے اور جولیئس چارلس ہارے نے اپنی مشترکہ تصنیف Guessess at Truthمیں لکھا ہے کہ
شاعری فطرت کے تصویری رسم الخط کی کلید ہے۔ دونوں بھائی اس سوچ میں یک سمت ہیں کہ شاعر شارح ہے فطرت کا، درست! ممکن ہے اس عہد کے شاعر ایسے ہی رہے ہوں لیکن شاعر پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ کسی وقت بھی وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔وہ روایات کا باغی تو ہوتا ہی ہے، بعض اوقات فطرت کو تصویر سے رہائی دلا کر اپنی”ہیروغ لافیت”میں قید بھی کرلیتا ہے۔ وہ فطرت کا تنخواہ دارنہیں ہوتا، آزادروح لے کر آتا ہے اور اسے آزاد ہی رکھتا ہے ، اپنے اردگرد کوئی حصار کوئی فصیل برداشت نہیں کرتا خواہ وہ اسی کی حفاظت کے لیے ہو۔ جسے خوب کہتا ہے کہ اس کے کسی ناخوب پر نظر پڑجائے تو لمحے بھر کا توقف کیے بغیر اس کی نشاندہی اسی شدومد سے کرتا ہے، جس شددمد سے اس کا مدح سرا رہا ہوتا ہے۔سوشاعر دوست بھی بہت اچھا ہوتا ہے اوردشمن بھی بہت برا ۔ اس کی فطرت کائنات پرہوتی جوہر ثانیہ اپنی تعمیر بھی کرتی ہے اور تخریب بھی ،دویک سرمتضاد مراحل ۔ اس عمل میں کبھی خود کو خوبصورت بنا لیتا ہے اور کبھی بدشکل، کبھی ایک شکل پر نہیں رہ سکتا ۔ یکسانیت اسے کھلتی ہے، خواہ یہ اس کی اپنی ہی ذات میں کیوں نہ ہو۔ یہی عمل”بے یقین بستیوں میں” میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کا شاعر اپنی خوش شکلی اور بدصورتی سے آگاہ ہے۔ ایک پل میں اپنے مسخے ہونے کی شہادت دیتا ہے تو دوسرے پل میں اپنے حسن کی گواہی بھی فراہم کرتا ہے۔ پشت در پشت بلا فصل وہ اجداد مرے اورآخرمیں اے مرا نام و نسب پوچھنے والے سن لے یہ وہ پشتینی کراہت ہے جسے شاعر نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اسی کراہت کے حوالے سے اپنا تعارف بھی کراتا ہے۔ نظم” کیچوا “کے مصرعے ملاحظہ ہوں۔ ایسی تنہائی جہاں پر رینگتی ہے زندگی اکثر تخلیقات میں تجربات عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں جن سے آپ یا تو اپنی زندگی میں گذرچکے ہیں یا کسی بڑے ادب پارے کی وساطت سے اس سے پہلے سے آشنا ہیں تو یہ بڑے ادب پارے کا ایک ادنیٰ اعادہ ہوتی ہیں۔ایسے تجربات تخلیق کار آپ کے ساتھ Shareکرتے ہیں اور آپ فوری طور پر ان کو شناخت کر لیتے ہیں۔ مشاعروں کی اکثر غزلیں اس کی مثال ہیں۔ ایسے مواقع پر ہم کسی نئے تجربے کے بجائے اپنے کسی شناسا تجربے سے دوچار ہو کر حظ اٹھاتے ہیں ۔ حظ کی اس نوع میں اس شناسا تجربے کا Nostalgiaبھی کارفرما ہوتا ہے۔ بعض اوقات کوئی ادب پارہ یہ کرتا ہے کہ آپ کو پہلے سے متعارف کسی ادب کے منطقے میں داخل کرنے کے لیے عمومی ذرائع اور پٹے ہوئے راستوں سے گریز کرتے ہوئے ایک مختلف قرینے سے لاتا ہے، تو یہ انوکھے پن کی ایک اضافی خوشگوارفضا پیدا کردیتا ہے۔ یہ بھی بہرحال اپنی جگہ ایک بات ہے ناطق کے ہاں فی الحال وہ مقام تو نہیں آیا کہ وہ اپنے قاری کو کسی لمس نایافتی تجربے سے دوچار کرپائے، البتہ اس کے یہاں متعدد مراحل ایسے آتے ہیں جہاں وہ ہمیں ہمارے جانے پہچانے تجربات سے ایک مختلف مقام اورفضا میں ملاقات کراتا ہے۔ وہ اس جانے پہچانے منطقے میں ایک ہٹے ہوئے راستے سے داخل ہوتا ہے، لہٰذا اس راستے کے اسرار بھی اس کے بیعانہ میںشامل ہوجاتے ہیں۔ “ہڈیوں کے دفینے” میں ایک متھ بنانے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں تاریخی رائیگانی کی ایک ایسی فضا باندھی گئی ہے جو ہم مختلف شاعروں کے ہاں محسوس کرچکے ہیں ۔ خود میں نے اس کیفیت پر نظمیں کہی ہیں۔لیکن ناطق کے ہاں اس کی فضا بندی کے لیے مختلف اوزار استعمال کیے گئے ہیں ۔ کنواں، تیشہ، بین کرتی گڑھے پاٹنے والیاں ، مردوں کی سلیقہ نا آشنائی، ریت پر چڑھی موت کی زرد رنگت اور دیگر لوازم۔ آخر میں ایسا منظر ہے جس میںموت کی زرد رنگت والا حد نظر تک پھیلا ہوا ایک لق ودق ریگستان اور اس میں چٹخا اور کڑکڑاتا ہوا ایک مردہ اور قریب ہی ایک تیشہ ، اس منظر کا ہول پِتّا پانی کردیتا ہے۔ “بانسوں والا جنگل” کی فضا بڑی ہری بھری اور ریشمی ہے، ہری لچکیلی شاخیں ، صبح ازل سے جاری پانی، گھنیرے پتوں کے سائے ، مست خنک مدہوش ہوائیں ، خوابیدگی کا کیف اور اگلے ہی قدم پر اس ماحول کا ہول ۔ پرانے وقتوں میں مجرم کو اذیت ناک موت مارنے کا ایک طریقہ یہ بھی رہا ہے کہ اسے بانسوں کے جنگل میں بانس کے کسی پودے کے اوپر باندھ کر یوں لٹادیا جاتا تھا کہ اس کے جسم کا نرم حصہ اس کے اوپر آئے ۔ کہا جاتا ہے کہ بانس کا پودا راتوں رات بڑھتا ہے۔ اب یہ پودا اس شخص کے جسم کی راہ سے اپناقد نکال کر پار ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ سسک سسسک کر پل پل موت سے دوچار رہتا ہے۔ ہول اور خوف کی ایسی نظمیں اردو ادب میں بہت Rear ، البتہ انگریزی ادب میں ان کی مثالیں فراواں ہیں۔ بے یقینی یا تشکیک کا مرحلہ ایسا نہیں جس سے ہم نہ گذرے ہوں۔ اپنی اپنی استطاعتوں اور رسائیوں کے مطابق ہم بے یقینیوں سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ بے یقینی یا تشکیک اپنے حامل کے باطنی محل وقوع اور رقبے کا تعین کرتی ہے۔ کسی تخلیق کا درجہ اسی قدر بلند ہے جتنا اس تشکیک (یا اس کے تیقین) کا۔ تصوف اور مابعد الطبیعات میں تشکیک باقاعدہ ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ تشکیک کا مقام اکثر تیقن کے بعد قطرے کا عشرت فنا سے دوچار ہونے کا ابدی ۔ لا زمانی اور لاامکانی مرحلہ آتا ہے۔ تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ تیقن کے بعد تشکیک کا کوئی ایک آدھ سالمہ باقی رہ جاتا ہے۔ ایسا ہوجائے تو سارا سفر غتربودہوکر رہ جاتا ہے۔سالک کے لیے اس سے زیادہ تباہ کن مرحلہ کوئی اور نہیں ہوتا۔ اس حادثے میں ایک ذات کے Pixel اتنے فاصلوں پر چلے جاتے ہیں کہ اس کی شخصیت کی کوئی پہچان ہی نہیں رہتی لیکن ناطق کی بے یقین بستیاں ایک مختلف المیے سے دوچار ہیں ۔ وہ اپنے ہاں جس باطنی تاریخ سے استفادہ کرتا ہے اس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بے یقین بستیاں تشکیک سے کبھی گذری نہیں اور نہ ہی لمحۂ موجود میں اس سے دوچار ہیں۔ تشکیک اپنی ذات پر اعتماد پیدا کرتا ہے۔یہ سب سے زیادہ محرک اور اکساہٹ پیدا کرنے والا جذبہ ہے۔ ناطق کی بے یقین بستیوں کے مکینوں کا قضیہ یہ ہے کہ یہ تشکیک سے دوچار ہوئے بغیر ہی بے یقینی میں مبتلا ہیں۔ یہ بے تشخص کرداروں کی آبادیاں ہیں، بربادیاں جن کا مقدر ہیں ۔ یہ وہ بے ذات کردار ہیں جن کا خود پر کوئی اعتماد نہیں۔ اپنے ہونے کے یقین سے بے بہرہ ، یہ بے مغز لوگ نہ سمجھتے ہیں ، نہ سوچ سکتے ہیں ، کوئی اوردماغ ان کے لیے سوچتا اور کوئی اور آنکھ ان کے لیے دیکھتی ہے ۔ یہ زندہ نہیں بلکہ زندگی ان پر کسی حادثے کی طرح وارد ہوئی ہے۔ یہ علی اکبر ناطق کا المیہ ہے اور یہ ہی اس کی شاعری کا قضیہ میں محسوس کرتا ہوں۔ “بے یقین بستیوںمیں” کی ایک خوبی اس کی نظموں کا لینڈسکیپ “ازم” ہے۔ اس کے لینڈ اسکیپ بڑے حقیقی اور رومانی ہیں۔ ایسی نظموں میں وہ ہمیں محض مصوری کے نمونے نہیں دکھاتا بلکہ ایسا سحر طاری کرتا ہے کہ ہم اس کے منظروں میں خود کو گھومتا پھرتا محسوس کرتے ہیں اور جن پھل پھول کا وہ ان میں ذکر کرتا ہے بعض مقامات پر ان کے ذائقے اور نکہتیں تک محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ایک اچھی نظم کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے سمجھے جانے سے پہلے ہی اپنا ابلاغ کرادیتی ہے ۔ اس کے اندر سمائی ہوئی کیفیت اس کی پہلی ہی خواندگی میں قاری تک پہنچ جاتی ہے۔ اس حوالے سے بھی ناطق خوش بخت واقع ہوا ہے کہ وہ اپنی نظموں کے آہنگی تارپود کے ذریعے قاری کو اس کیفیت میں بڑی کامیابی اورسرعت کے ساتھ لے جاتا ہے۔ یقیناََ بعض مقامات پر لفظ کے استعمال میںاس سے چوک ہوئی ہے بعض جگہ بحور واوزان میں بھی نقائص پڑے ہیں لیکن اس کے لہجے کی توانائی اور تازگی اس طرف دھیان کم ہی جانے دیتی ہے۔ بہرحال وہ ایک توانا شاعر کے طور پر ہمارے سامنے آیا ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ اگر اس نے عجزوانکسارکا دامن تھام لیا تو بڑی فتوحات حاصل کرے گا۔ نظم – بے یقین بستیاں وہ اک مسافر تھا، جا چکا تھا علی اکبر ناطق
|