افسانہ – قائم دین
علی اکبر ناطق
ہاں تو بول اس ڈبے کھری کا کیا لے گا؟ ویسے ایک بات کہوں ؟ چوری کا مال ہے سوچ کے مول لگانا ۔
کل کلاں پُلس آگئی تو اس کے ساتھ بھی مُک مکا کرنا پڑے گا۔
نور دین نے بھینس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
دیکھ میاں نوری، پانچ ہزار سے ایک ٹکا نیچے نہیں لوںگا۔ اٹھارہ لیٹر دودھ سویرے شام باٹوں سے تول لینا۔قطرہ کم ہوا تو تھڑے پر مونچھ منڈواؤںگا۔ رہی پُلس کی بات ! اگر تجھے کوئی پوچھے، سیدھا میرے چھپر کی راہ دکھانا، میں جانوں اور پُلس ۔ قمّے نے صاف روکھے پن سے مول بتاتے ہوئے کہا۔
پانچ ہزار ، قہر خدا کا آخر بھینس ہی تو ہے ، کوئی ہاتھی تھوڑی ہے۔ پھر تم کون سا مول لے کے آئے ہو۔ مفت کی مارہے۔ تین ہزارلو اور کمبل سے جان چھڑاؤ ۔ نورا پھر بولا۔ مائی نذیراںکو تو پچھلے مہینے بیل برابر گائے ایک ہزار ہی میں دے دی اور مجھ سے پانچ ہزار مانگتے ہو۔
اے چل ، مفت کی مار ہے۔ بارڈر پار سے مال چوری کرکے لانا تو ایک طرف، ذرا آدھی رات کو دریا پار کرکے ہی دکھا دے۔ ایسی تین بھینسیں مفت میں نہ دوں تو نظام دین کا نطفہ نہیں۔ قمّا تلخی سے بولا، پوہ کی ٹھنڈی راتوں کو چڑھتا ستلج پار کرکے ڈِیلے کے جنگلوں میں کالے سانپوں کی سریاں پاؤں سے کچلنا اماں جی کا کھیل نہیںاور پھر بارڈر پار۔ یہ مال سِکھڑے کوئی ہتھیلی پر رکھ کر نہیں کھڑے ہوتے ۔ موت کے منہ سے نکال کے لاتا ہوں۔ اور تجھے مفت میں دے دوں اگرپانچ میں لینی ہے تولے، ورنہ اپنا رستہ ناپ، مائی نذیراںکا تجھے ٹھیکہ ہے کیا ؟ بچاری کا آگا نہ پیچھا، اکیلا دم ۔ میں اُسے مفت میں دوں یا پیسے لوں، تجھے کیا درد ؟
قمّے کی بات سن کر نور دین کھسیانا سا منہ لے کر باڑے سے باہر نکل آیا ۔ ادھر قمے نے جلدی سے بھینسوں کو ٹرک پر لادنے کی تیاری کی ۔ جو اس کا بھائی جلال دین رات ہی منڈی احمد آبادسے کرایے پر لایاتھا۔جس میں چھ بھینسیں اور دوگائے لاد کر لائلپور کی منڈی میں لے گیا۔
اُدھر جلال دین مال لے کر چلا۔ اِدھر قصّہ خوانیاں شروع ہو گئیں۔ بھائی شادے خاں، قمّے نے مونچھ پہ ہاتھ پھیر کر حُقّے کا ایک لمبا گھونٹ بھرا۔ جب میں دریا کے کنارے پہنچا تورات کے نو بجے تھی۔ رات گھُپ اندھیری ایسی کہ عزرائیل بچارے کے بھی ساہ نکل جائیں۔ اُدھر ستلج کا ٹھاٹھیں مارتا ٹھنڈا پانی۔میں نے دل میں کہا ۔ لے بھئی قمیا،تیرا رب راکھا اور سائیں چانن شاہ تیرا مددگار۔ ماردے چھلانگ دریامیں۔ بس پھر ایک دو منٹ ٹھنڈ لگی۔ اس کے بعد تو میں دریا سے چیرتا ہوا گزرا ۔ پندرہ منٹ میں رب سائیں کے کرم سے اگلے کنارے پر تھا۔
اور ڈِیلے کا جنگل کیسے پار کیا ؟ وہاں تو گلہریوں کی طرح سانپ ناچتے ہیں ۔ شمس علی نے حیرانی سے پوچھا،،
شمّے خاں ، ڈِیلے کا نہیں ، سانپوں کا جنگل کہو، سانپوں کا۔قمّا میٹھی دھوپ میں انگڑائی لیتے ہوئے بولا ، اتنے موٹے ہیں کہ بندے کو ثبوتا کھا جائیں، ڈکارلینا تو الگ بات ، زبان تک نہیں چاٹتی۔ بس دو کروٹیں لیں بندہ ہضم۔
قسم چانن شاہ کی ان آنکھوں نے بیسیوں بندے ڈِیلے کے اس جنگل میں غائب ہوتے دیکھے۔ دوچار تو میرے سامنے نگل گئے۔
اب میں کوئی بچہ تھا ؟ جو اس کا توڑ نہ جانتا۔ پیر نظام بخش سے منتر اسی اوکھٹ کے لئے تو سیکھا۔ بس بھائی ادھر میں نے منتر پڑھا، اُدھر باشک ناگ، کل ساڑ،ارگن ناگ، پدم ناگ، کھپرا، کلچوڑیا، سنگچوڑ، کلہریاایک ایک کرکے سلامی کو حاضر ہوئے۔ نیل بانیا منکر ہواتو ایک پھونک مارکے دھواںکر دیا۔
لیکن سور پر تو منتر چلتے اور میں جانتا ہوں دس بیس نہیں ، سینکڑوں سور اس جنگل میں ہیں۔ گویا ہندوستانی فوج کٹاریں منہ میں دبائے پھرتی ہو۔ اُن سے کیسے نبھی ؟ حامدی نے لقمہ دیا۔
واہ حامدی واہ، یہ تو نے خوب کہی، یہ دیوار سے لگی چھ پھلی برچھی کو دیکھو، کاٹتے وقت دشمن اور سور میں فرق نہیں کرتی۔ پندرہ سور کاٹ کے دیکھ کتنا آرام سے لیٹی ہے۔ جنم جنم کی ساتھی۔ بھاگ بھری نے رات کمال کردیا۔
قصہ مختصر،قمّے نے داستان آگے بڑھاتے ہوئے کہا سوروں کو پھاڑتا اور سانپوں کو کچلتا ہوا، رات ایک بجے پھجا سیئاں کی بھینی پر پہنچا اور ایک ایک کرکے ساری بھینسیں کھول کر آگے کر لیں۔ مونجی کے کھیت سے ہوتے ہوئے ایک گھنٹے میں بارڈر سے ادھر لے آیا ۔
توکیا سِکھڑا افیم کھا کے سویا تھا جو جاگا نہیں ؟ ارشاد علی نے پوچھا۔
سالا آدمی کہاں ؟ بھینس ہے، روزانہ چار جگ لسّی پی کے سوتا ہی۔ جو اتنی لسّی پی لے ،پھر وہ تو کیا اس کے نصیب بھی سوجاتے ہیں۔ قمّا سردیوںکی اس روشن دھوپ میں تھڑے پر بیٹھا گاؤں کے لوگوں کو اپنی اس واردات کے قصّے سنا رہا تھا کہ دور سے مولوی سراج دین تسبیح پھیرتا ہوا قریب آیا اور قمّے کو مخاطب کرکے کہنے لگا۔ قمّے مالِ غنیمت مبارک ہو۔ سنا ہے رات اللہ نے تیری بڑی مدد کی۔ پورے آٹھ مویشی لایاہی۔ بس کافروں کے ساتھ جہاد کا آج کل یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ اللہ نے چاہا تو تیری بخشش یقینی ہے۔
تمام لوگوں نے مولوی کی اس بات کو غور سے سنا اور قمّے کی طرف رشک سے دیکھا۔ جسے سن کر قمّا بھی فخر سے مونچھوں پر ہاتھ پھیرنے لگا اور مصنوعی عاجزی سے مولوی کی طرف جھکا۔پھرمولوی صاحب نے پندرہ بیس منٹ اسلام اور کفر پر واعظ کہا۔ اس کے بعد قمّے کے گھر سے تمام لوگوں کے لئے چائے بن کر آگئی ۔جسے سب مزے سے پینے لگے۔ چائے پینے کے بعد مولوی سراج دین اُٹھ کر جانے لگا تو سب کھڑے ہوگئے۔ دو قدم چل کر مولوی صاحب پھر رُکے اور قمّے کو مخاطب کر کے بولی۔ پُترقمّے ،مسجد کا حصّہ جلدی بھیج دینا۔ کہیں خدا ناراض نہ ہوجائے۔
بس مولوی صاحب جلال دین منڈی سے واپس آجائے تو سب سے پہلے مسجد کا حصّہ آئے گا۔قمّے نے تڑ سے جواب دیا۔
لے بھئی قمّے آج سے تیسرے روز بھادوں کی سولہ ہے۔ خانو سیال نے بیٹھتے ہوئے کہا، میں نے تجھ پردو ہزار کی جھنڈی رکھ دی ۔ حمیدا گجر اس دفعہ کشتی میں جیت کے نہ جائے۔ شام دین اور فیضے نے اُس پر شرط لگائی ہے۔
چاچاخانو،تُو فکر نہ کر، حرامی کو ایسا دھوپی پٹڑا دوںگا کہ آئندہ دس پُشتوں تک کوئی کشتی نہ کھیلے گا۔ گینڈے کی اولادنے پچھلے سال مائی جمن کے پُتر کی ٹانگ توڑ دی ۔ اور پسلیوں پر بھی بلاوجہ زور دیتا رہا۔ قمّا تڑپ کو بولا ،وہ تو کہو سردار نبی بخش نے کشتی چھڑادی ورنہ تو یہ اس کو مارنے ہی لگا تھا۔ مگر یہ تو بتا کہااتنے پیسے کہاں سے آگئے ؟ جو پورے دوہزار لگا رہے ہو۔ اور پھر کتوں کی لڑائی اور کبڈی پر بھی تو شرطیں بندھنا ہیں۔
پُتر تو اس کی پروا نہ کر۔ خانو سیال بولا ،اس دفعہ گنے اور مونجی کی فصل نے سارے دلدّر دور کردیئے ۔ پورے ایک لاکھ کی فصل ہوئی ۔ قرضہ ورضہ دے کربیس ہزار اس کڑے وقت کے لئے بچا رکھا ہی۔ لیکن اس سال تو نے بھی تو تین چوریاں کیں۔ وہ کیا ہوئیں ؟ جہاں تک مجھے پتا ہی، کم سے کم ڈیڑھ لاکھ کامال ہوگا۔ جانو، شریفا، شمّا اور کالو نائی تو اسی کام میں لاٹوں کے مالک بن گئے اور تو وہی پھانگ کا پھانگ۔
چاچا کیا بتاؤں، قمّا تاسّف سے بولا۔ جس دن چوری کر کے لاتا ہوں۔ دوسرے دن ہی آدھا گاؤں ادھار لینے آجاتا ہی۔ اور آج تک کسی نے ایک پائی واپس نہیں کی۔ پولیس تیسرا حصہ الگ مارلیتی ہی۔ اس کے علاوہ پندرہ لوگ گھر کے اور اللہ بخشے بھائی رحمت کا کنبہ الگ۔ بس سمجھو ادھر آیا اور ادھر
نکل گیا۔ خیر چاچااس قصے کو چھوڑ ۔ اس دو ہزارمیں سے ایک ہزار میرا اورباقی کا تیرا۔ اللہ نے چاہا تو سولہ بھادوں کو چانن شاہ کا میلہ رنگ دوںگا۔
میلے میں ابھی تین دن تھے چک قاسم شاہ اور اردگرد کے دس پندرہ گاؤں جو دریا کی ٹھاڑ میں پڑتے تھے سب میلے کے علاوہ ہر چیز بھول گئی۔ پہلوانوں کو مالشیں ہورہی ہیں۔کتوں اور مرغوں کی خدمتیں دگنی ہوگئیں۔ چانن شاہ کے مزار کے دائیں پہلو دریا کے کنارے اکھاڑے کی جگہ ہل چلا کر خوب نرم کر دی گئی۔ مزار پر جھنڈیاں اور رنگ برنگے دوپٹے لہرانے لگی۔ دُور دُور سے گاؤں کی عورتیں مزار پر گھی کے چراغ جلانے آئیں اور منتوںکا دودھ بٹنے لگا۔ ملنگوں نے بوٹی کے رگڑے اور حق علی کے نعرے اور تیز کر دیئے۔
توت اور نیم کے گھنے سایوں میں دھمالیں پڑیں تو ٹھاڑ میں گویا زندگی جاگ اُٹھی۔ بچوں سے بوڑھوں تک ہر کوئی مزار کی طرف رواں ہوا۔ مزار کے اردگرد کے بیسیوں ایکڑ کی زمین مٹھائی ، جلیبی اور پکوڑوں والوں کی دکانوں سے بھر گئی۔
پندرہ کی رات دربارپر ہر طرف سے گھی، گیس اور تیل کے چراغ جل اُٹھی۔نقالوں بھانڈوںکی ٹولیوں نے اپنے اکھاڑوں کے لئے الگ الگ جگہوں پر قبضے جمائے۔ اور آدھی رات تک تیاریوں میں مصروف رہی۔ چاند کی چودہویں کا دودھ برس رہا تھا اور خوشی کا میلہ تھا کہ شفیع کمبوہ نے خبر دی ،دریا کاپانی معمول کی سطح سے بلند ہو رہا ہے۔ اپنا اپنا بندوبست کرلو۔ تو اچانک لوگوں میں اضطراب پھیل گیا۔
رفیق جوئیہ گھر سے ریڈیو اُٹھا لایا۔ آٹھ دس دن سے وہ یہ خبر سن تو رہے تھے کہ دریا کا پانی چڑھنے والا ہے۔ مگر وہ اسے افواہ ہی سمجھے۔ کیونکہ ہرسال ایسی افواہیں اُڑتی تھیں لیکن پانی کبھی بھی خطرے کی حد تک نہ چڑھا۔ ہاں، بیس سال پہلے ایک سیلاب آیا تھا۔ جس نے ان کا کافی نقصان کیا ۔پھر اُس کے بعد ایسی کوئی مصیبت نہ آئی۔
رات ایک بجے تمام لوگ ریڈیو کے گرد بیٹھ گئے اور خبروں میں سیلاب کے بارے میں سننے کے لئے تیار ہوئے۔ مگر تمام خبروں میں سیلاب کا ذکر تک نہ تھاپھر حتٰی کہ لوگ میلے کو بھول کر دریا کی طرف دیکھنے لگے۔ یہاں تک کہ پانی کی آواز دور تک سنائی دینے لگی۔ تقریباَ تین بجے رات تک دریا نے اپنے پہلے کنارے ڈبو دیئے اور فصلیں چاٹنے لگا۔ اب تو خوف و ہراس ایسا پھیلا کہ خلقت میں بھگڈر مچ گئی۔ کچھ ہی دیر میں پانی جب مزار کے قریب آگیا تو دکانوں والوں نے جلدی جلدی دکانیں بڑھائیں۔ نقال اور بھانڈ اکھاڑے سمیٹنے لگے۔ اور لوگ اپنے اپنے گاؤں کی طرف بھاگے مگر ان کے پہنچنے سے پہلے دریا گاؤں کی کچی دیواریں کھا چکا تھا۔
رات کے سمے لوگ جو کچھ سمیٹ سکے ، اسے سمیٹا باقی وہیں چھوڑ کر بڑے بند کی طرف جانے لگی۔ ٹرالیاں ، چھکڑے اور گدھی ریڑیاں جُت گئیں۔ مگر دریا کی رفتار اِن سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ تیزوتند شور اُٹھاتادریا فیلِ مست کی طرح چڑھا آتا تھا۔ قمّے نے دیکھا تو اس نے اپنی بھینسوں اور کنبے کے علاوہ ہر شے وہیں چھوڑ دی اور انہیں ہانکتا ہوابڑے بند کی طرف بڑھنے لگا۔
صبح پانچ بجے قمّا اور دریا برابر بند پرپہنچے۔ بند پر قمّے کی طرح اوربھی سینکڑوں لوگ دور تک کنارے پر بیٹھے ہوئے تھی۔ جنہوں نے عاقبت اندیشی سے کام لے کر جلدی ٹھاڑ چھوڑ دی تھی۔قمّے نے کنارے پر کھڑے ہو کر جب دریا کو دیکھا تو اسے ایسے لگا جیسے زمین کے اندر سے پانی کا بڑا اژدھا نکل آیا ہو۔
ہزاروں چھپر بہے چلے جاتے تھے۔ سینکڑوں بکریاں اور گائے بھینسیں تیرتی اور ڈوبتی ڈباتی بند کی طرف آنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اچانک اس کی نظر ارشاد علی پر پڑی جواپنے دو بچوں اور بیوی کو بمشکل سنبھالے ،ہانپتا ہوا بند کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قمّے نے جیسے ہی دیکھا چھلانگ لگا کر چیتے کی سی پھرتی سے ارشاد علی کے پاس پہنچ گیااور دونوں بچے اُچک کر بند کی طرف بڑھا۔ ارشاد علی کی جان میں جان آئی۔ لیکن اب قمّے کو چین کہاں ادھر ادھر سے ڈوبتوں نے پکارنا شروع کر دیا۔ اور یہ دریا سے بند پر اور بند سے دریا میں کئی چکر لگادیئے۔ بیسیوں کو کھینچ کھینچ کے باہر لایا۔ مولوی سراج دین ، چوہدری نور دین،فیض چوہدری خان سیال اور سینکڑوں گاؤں والے بند پر بیٹھے لاچاری کے عالم میں ، مکئی، گیہوںاور باجرے کے غلوں کو پانی میں تیرتے دیکھ رہے تھی۔اب دریا کا پانی اتنا بلند تھا کہ بند کی آخری حدوں کو چھونے لگا۔ بڑے بڑے درختوں کی چوٹیاں ڈوبنے سے بچ گئیں۔ جو پرندوں سے ڈھکی پڑی تھیں۔ دریا نے کئی درخت بھی جڑسے اکھیڑ دیئے ۔ ہزاروں مویشی ڈوب گئے۔ جنہیں پانی بہا ئے لئے جاتاتھا۔ اکا دکاانسانوں کی لاشیں بھی تیرتی نظر آئیں اور دریا کا پاٹ میلوں تک پھیل گیا۔ ایسی حالت میں قمّے نے دوپہر ڈھلتے تک اپنی ڈوبی ہوئی بستی سے بند پر خدا جانے کتنے چکر لگائے اور تھک کر نڈھال ہوگیا۔ اس کے باوجود ہر ایک کی نظر امداد کے لئے اسی پر پڑتی اور وہ ہر چکر میں بند پر پہنچ کر ایک تفاخرانہ انداز سے لوگوں پر نظر ڈالتا جیسے کہہ رہا ہو دیکھا ! میں جو تم کو اپنے کارنامے گنواتا تھا۔ اب توان پر یقین آیا کہ نہیں ؟ میرے علاوہ آج کون دریا کا سامنا کرنے والا ہے ؟ایسی نظر مار کر دوبارہ کسی مہم کے لئے بپھرے ہوئے پانی میں چھلانگ لگا دیتا۔ لیکن انسان آخر انسان ہی۔دوپہر تک تھک کر نڈھال ہوگیا۔ بیوی نے یہ حالت دیکھی تو روکنے لگی کہ اب نہ کودنا۔ آہستہ آہستہ اس کا اپنا جوش بھی کافی ٹھنڈا پڑگیا۔ مگر وہ یہ سوچ کر کہ لوگ اسے نامردی کا طعنہ دیں گے۔ دوبارہ پانی میں کود جاتا ۔ یہاں تک کہ سہ پہر ہوگئی ۔پھراچانک یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی کہ لوگوں کی مدد کے لئے پاک فوج دریا میں اُتر آئی ہے۔ اب اس نے جلدی سے اپنے قبیلے کو لیا اور ،،چک جندِّکا،، میں فوج کے لگائے ہوئے خیموں میں سے ایک خیمے میں جا بیٹھا۔ پھر ایسا سویا کہ دوسرے دن دوپہرہونے پر آنکھ کھلی۔ وہ جلدی سے اُٹھا اور بند کی طرف بھاگا۔ دیکھا تو ہر طرف سکون تھا۔ رات تک ہر چیز یا تو ڈوب گئی یا بہہ چکی تھی۔ جدھر نظر جاتی سوائے پانی کے کچھ نظرنہ آیا۔ ہاںمگر پانی پر اُڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے پرندے ضرور
قلابازیاں لگا رہے تھی۔ جیسے ٹھاڑ کی بربادی پرخوشیاں مناتے ہوں۔ اُنہیں دیکھ کر زندگی میں پہلی دفعہ اس کے آنسو نکلے۔ وہ شام تک بند پر کھڑا رہا۔ آج وہ اس قدر بوجھل تھا کہ کچھ بھی ہو جاتاوہ پانی میں داخل نہ ہوتا۔ سورج ڈوبنے لگا تو قمّے کومحسوس ہوا کہ اسے شدت سے بھوک لگی ہی۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے توپرسوںشام سے کچھ نہیں کھایا ۔ وہ اپنے خیمے کی طرف لوٹ گیا۔ اس کے بعد تو گویا اس کا معمول بن گیا۔ روزانہ صبح بند پر آکربیٹھ جاتا اور میلوں پر پھیلے ہوئے دریا کے پاٹ کودیکھتا رہتا۔اورشام کے بعد خیمے کی طرف لوٹ جاتا۔ ساتویں روز اس نے دیکھا ،پانی اپنی سطح سے نیچے اُتررہا ہی۔ پہلے دو دن تو آہستہ آہستہ،پھر تیزی سے سمٹنے لگا۔ اور ہرروز تقریباَ دو فٹ نیچے چلا جاتا ۔غالباَ بیس دن کے اند اندر دریا کا پانی اپنے پہلے کناروں میں سمٹ گیا۔ لیکن زمین میں نمی اور کیچڑ اس قدر تھا کہ لوگوں کا آباد ہونا ابھی ناممکن تھا۔ جگہ جگہ تالاب بن گئے۔ ادھر ادھر مردہ جانوروں کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ جنہیں سارا سارادن گدھیں اور کوے نوچتے رہتے ۔سینکڑوں درخت زمین پر لیٹے تھی۔ جن میں کوڑا کرکٹ پھنسا ہواتھا۔اسی حالت میں سیلاب کے بعد چار ماہ گزر گئے۔اِدھراب لوگ خیموں کی زندگی سے تنگ آچکے تھی۔وہ چاہتے تھے کہ جلدی سے اپنے ٹھاڑ میں جابسیں۔ مگر جدھر دیکھتے، گڑھوں میں کھڑے پانی سے تعفن اُٹھ رہا تھا۔ ہر طرف طرح طرح کی جھاڑیاںاُگ آئیں جن کی اوٹوں میں ہزارہا بلّیات نے جنم لے لیا۔کیڑے مکوڑوں اور سانپوں کی بہتات ہوگئی۔اس عالم میں خیمے سے نکلنے والا پہلاشخص قمّا تھا۔ جو اپنی بستی کیلئے بے چین تھا۔ اس کے بعدلوگوں کا تانتا بندھ گیا۔
قمّے نے جیسے ہی دریا بُرد گھر میں قدم رکھا۔ اس کے جسم میں ایک بجلی سی کوند گئی۔تمام گھر والوں کو ساتھ لیا ،کیچڑ اور مٹی گارے سے دیوار بنانی شروع کی۔جسے دیکھتے ہوئے سارا گاؤں حوصلے میں آگیا۔ حتٰی کہ دو مہینے میں بستی دوبارہ بس گئی۔ زمین آہستہ آہستہ تعفن اور غلاظت نگلنے لگی۔ لوگوں نے مردہ ہڈیاں اور انجر پنجر دفن کردیئے۔ اپنی اپنی زمینوں کی دوبارہ حد بندیاں کی گئیں۔ اور چھ ماہ کے اندر ہی ہل پھر چلنے لگے۔ بستی کے بہت سے درخت اُکھڑ چکے تھی۔ لوگوں نے سائے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں دوبارہ پودے لگا دیئے۔ قمّے کے گھر میں بھی تین کیکر اور ایک بیری کا درخت تھا۔ جس پر سارا دن کوے اور چڑیاں شور مچاتے ۔ جن کی آواز کانوں میں ایک قسم کا رس گھولتی تھی۔ سیلاب اُن درختوں کو بھی بہا کر لے گیا۔ لہٰذا قمّے نے بھی بند کے اوتاڑ سے ایک بیری کا پودا لا کر گھر میں لگا دیا۔جو دریا کی زرخیز زمین میں خوب پنپنے لگا۔ دن گزرتے گئی۔ حتٰی کہ تین سال بعد تو ایسے ہوگیا،جیسے سیلاب کبھی آیا ہی نہ ہو۔ قمّے نے دوبارہ اپنا کاروبار شروع کر دیا۔
اب دریا کے پارکا آٹھ کلو میٹر میں پھیلا ہوا ڈِیلے کا جنگل پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور گھناؤنا ہو چکا تھا۔ جنگل میں پانی جو کبھی ٹخنوں کے برابر تھا۔ وہ گھٹنوںگھٹنوں ہوگیا۔ بِچھو، سانپ ، نیولے اور نہ جانے کون کون سے حشرات الارض رینگتے پھرتے ۔کئی اژدھے لوٹیں مارتی، گیڈروں، سوروں کی گڑ گڑاہٹیں ،اُلُوؤںاور چڑبلوں کا شور کانوں کی سماعت چھین لیتا۔ ایسی خوفناک صورت حال میں آدمی رات تو کیا دن کو بھی وہاں سے نہیں گزرتا تھا۔ مگر قمّے کے لئے یہ کوئی عجیب بات نہ تھی ۔ اس نے جنگل میں کئی ایک جگہیں اپنے ٹھکانے کے لئے بنائی تھیں۔ بچپن ہی سے وہ جنگل کی اونچ نیچ سے واقف تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ کون سی جگہ زیادہ خطرناک ہے اورکون سی کم۔ اگر کوئی بلا سے واسطہ پڑے تو کیسے بچا ؤ کرنا ہے ؟ وہ اپنے پاس آگ کا بندوبست ضرور رکھتا۔اُسے آگ نے کئی دفعہ خطرناک صورتِ حال سے نکالاتھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے ہی قمّا دریا پار کرکے ڈِیلے کے جنگل میں آجاتااور بیچو ںبیچ آٹھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ہندوستان کی سرحد پر پہنچ جاتا۔ رات کے پچھلے پہر بارڈر کراس کرکے گائے، بھینس، بیل یا بھیڑ بکریاں جو کچھ ہاتھ لگتا ہانک کر ڈِیلے کے اسی جنگل سے ہوتا ہوادریا پر آتا اور صبح دس بجے سے پہلے اپنے گاؤں پہنچ جاتا۔ قمّا ہر چوری میں کم از کم دو ماہ کا وقفہ ضرور رکھتا۔ ہندوستانی رینجر سے کئی دفعہ پاکستانی رینجر کو شکایات بھی وصول ہوئیں۔ لیکن ڈِیلے کا جنگل دونوں کے لئے مشکل پیدا کئے ہوئے تھا۔ جب کہ قمّے کے لئے وہی جنگل نعمت تھا۔ سیلاب کے بعد دس سال گزر گئے اس عرصے میں قمّے نے خدا جانے کتنے لمبے ہاتھ مارے ۔اس نے اپنے گاؤں کو مویشیوں سے بھر دیا۔ سیلاب میں غارت ہونے والے کئی
لوگوں کے چولہے مفت میں جلائے ۔بہت سوں کو سستے داموں بیچتا رہا۔
پہلے پہل تو پاکستانی رینجر اسے نظر انداز کرتی رہی لیکن اب صورتِ حال زیادہ بگڑگئی تھی کیونکہ ہندوستانی رینجر کا دباؤ مسلسل بڑھ رہاتھا۔ لہٰذا پاک رینجر نے سنجیدگی سے چوروں کو پکڑنے کے بارے میں سوچا۔ دریا سمیت ڈِیلے کے جنگل کی خفیہ ناکہ بندی کر دی گئی۔ جگہ جگہ چھاپے مارے گئے ۔ جس میں پہلے مہینے ہی شمّا اور کالو پکڑے گئے لیکن قمّا ہاتھ نہ آیا ۔ جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ چوری کرنے سے پہلے پورے علاقے کی جاسوسی کرتا ۔ تاکہ حالات کا جائزہ لے سکی۔ اس نے اپنے والد کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت سے تجربات حاصل کئے تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اسے کس طرح مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ہی۔ اس کے باپ نے اسے بہت سے گر بتائے تھی۔ لہٰذا اس سال اس نے صرف دو کامیاب چوریاں کیں ۔
دوسری چوری اس نے دسمبر کی انتہائی سرد رات میں کی۔ جس میں وہ پوری گیارہ بھینسیں ہندوستانی علاقے سے تین کلو میٹر اندر جاکر لے آیا تھا۔ یہ چوری ایسی نہ تھی کہ جسے نظر انداز کر دیا جاتا۔ دوطرفہ رینجر ز میں ایک بھونچال آگیا۔ اور افسرانِ بالا سے انتہائی سرزنش ہوئی۔ ان حالات میں رینجرز نے اپنی سرگرمیاں انتہائی سخت اور تیز کردیں۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ مال جنگل سے ہوکے نکلتا ۔ پھر بھی رینجرزنے تہیہ کر لیا، چاہے کچھ بھی ہو اب چور ضرور پکڑا جائی، مخبر تیار کئے گئے اور مکمل بندوبست انتہائی خفیہ طریقے سے کیا۔
پندرہ فروری کی سہ پہرقمّا دریا پر پہنچا تو اسے ارشاد علی سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ قمّے کے ہاتھ میں چھَوی دیکھ کر ارشاد مسکرایااور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر گاؤں کی طرف مڑ گیا ۔ قمّے نے سوچا ارشاد کتنا حرامی ہے ،میری دو بھینسوں کے پیسے کھا گیا۔ چھ ماہ ہوگئے ایک ٹکانہیں دیا۔ اب نزدیک آکر سلام لینے سے بھی گیا۔ اُس نے سوچا اب میں سارا مال منڈی میں ہی بھیجا کروںگا۔ گاؤں والوں کو کسی جانور کی دُم بھی نہیں دوں گا۔ اتنے مشکل حالات میں موت کے منہ سے جانور نکال کر لاتا ہوں اور یہ گاؤں والے بیٹھے بٹھائے مفت میں لے جاتے ہیں۔ خبیث بعد میں پیسے بھی نہیں دیتے۔
خیررات دو بجے قمّا جیسے ہی ڈِیلے کے جنگل سے نکلا اور ہندوستان میں داخل ہونے لگا۔پاک رینجر نے اچانک دبوچ لیا۔ قمّے کو اتنا موقع بھی نہ مل سکاکہ وہ جنگل میں دوبارہ داخل ہوجائے۔ وہ حیران ہوا کہ انہیں کیسے پتہ چلا ۔وہ اسی تذبذب میں تھا کہ اس کی مشکیں کَس دی گئیں اور رینجر ہیڈ کوارٹر میں لے جا کر مار پیٹ شروع کردی ۔ قمّے نے اپنی زبان ایسی بند کی کہ رینجر کا ہر طریقہ فیل ہوگیا۔ دو مہینے تک قمّے کو اتنی مار پڑی کہ زمین ہل جاتی تھی۔ روزانہ مار کھانے کے بعد قمّا مسلسل سوچتا،آخر اس کی مخبری کرنے والا ہے کون ؟ چھ ماہ تک رینجر نے قمّے سے اُگلوانے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ شلوار میں چوہے چھوڑے گئے، اُلٹا لٹکایا گیا، پانی میں غوطے دیئے ۔ اور مار تو اتنی دی کہ خود رینجر والوں کو اس پر ترس آنے لگا۔جب وہ کسی طرح بھی نہ مانا تو شراب کا کیس بنا کراسے منڈی احمد آباد تھانے بھیج دیا ۔ لیکن ان چھ ماہ کے دوران قمّا جسمانی اور دماغی طور پر بالکل نڈھال ہو چکا تھا۔ کیونکہ رینجرکے خوف سے ایک تو گاؤں میں سے کسی نے آکر اُس کی خبر نہ لی اور دوسرا یہ کہ اُس کا بھائی جلال دین رینجر کی مار برداشت نہ کرتے ہوئے چار ماہ پہلے مرگیا۔ اُسے ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا۔ قمّے کو منڈی احمد آباد تھانے میںچھ ماہ تک رکھا گیا۔ اور ہلکی پھلکی دوائیاں بھی دیتے رہے مگر بخار نہ اُترا ۔ آخر ایک دن تھانے دار نے اُسے بلایا اور تھوڑی بہت سرزنش کر کے چھوڑ دیا۔
حوالات سے نکلتے ہی اُس نے ہلکی سی انگڑائی لی اور تھوڑی دیر کے لئے تھانے کی بیرونی دیوار کے ساتھ کیکر کے سائے میں بیٹھ گیا۔ یہ سردیوں کی ایک ٹھنڈی دوپہر تھی۔ اُس کے اُوپر کوئی کپڑابھی نہ تھا۔ ہوا کی ایک سر د لہر اُس کے سینے کو چیر تی ہوئی نکل گئی۔ منڈی احمد آباد کے تھانے سے اس کا گاؤں بائیس کلو میٹردُور تھا۔ اُس نے باجرے کے کھیت کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ بخار سردی کی وجہ سے زیادہ تیز ہوتا چلا گیااور سر میںشدید دردبھی ہونے لگا۔ لیکن وہ چلتا گیا۔ رات ایک بجے کے قریب اُسے ایک چکر سا آیااور وہ گِر پڑا۔
صبح سات بجے شریف حسین نے قمّے کے بیٹے طفیل کو بتایا کہ تیر ا باپ خربوزوں کے کھیت میں بے ہوش پڑا تھا۔میں بڑی مشکل سے اُسے ہوش میں لایا تو وہ اُس وقت سے کچھ اُلٹی سیدھی مار رہا ہی۔ اُس نے ہمیں پہچانابھی نہیں۔ خدا خیر کری۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اُس کا دماغ چل گیا ہی۔ اُسے بہت تیز بخار بھی ہی۔ مجھے لگتا ہے بخار اُس کے سر کو چڑھ گیا ہے۔
یہ 1998 ء کی بات ہے ۔ قمّے کو پاگل ہوئے اٹھارہ سال ہوگئے۔ شروع شروع میں تو بہت علاج کرا یا۔ گاؤں کے حکیم کے دیسی نسخوں سے لے کر پیر چراغ شاہ کے تعویذ آزمائے۔ مگر پاگل پن بڑھتا ہی گیا۔ اس عرصے میں وہ کبھی کبھی تندرست بھی ہو جاتا مگر یہ حالت چند دنوں سے زیادہ نہ رہتی۔ پچھلے دس سال سے تو وہ ایک لمحے کے لئے بھی ٹھیک نہ ہوا۔ اب اُس نے گاؤں والوں کو گالیاں بھی دیناشروع کر دیں۔ جو سامنے سے گزرتا اسے بیہودہ گالیاں دیتا۔ رفتہ رفتہ حالت یہاں تک پہنچی کہ وہ لوگوں کو ڈھیلے اُٹھاکرمارنے لگا۔ یہ حالت دیکھ کر لوگ اُس سے کترا کر گزرنے لگی۔ ادھر یہ اُن کی اِس حرکت سے مزید اشتعال میں آکر گالیاں دیتاہوا پیچھے بھاگنے لگا۔ جسے لوگوں نے کچھ عرصہ تو برداشت کیا ۔ مگر اب وہ تنگ آگئے اور قمّے کے بیٹے کو شکایتیں آنے لگیں۔ جب شکایات شدت اختیار کر گئیں تو ایک دن طفیل نے قائم دین کو ایک چھوٹی سی زنجیر سے اُسی کی چارپائی کے ساتھ باندھ دیاتاکہ گھر سے نہ نکلے۔ قائم دین دو تین دن تو اسی حالت میں رہا ۔ مگر ایک رات چارپائی سمیت باہر نکل کر گاؤں کے چوک میں بیٹھ گیا اورپھر وہی گالیاں دینے لگا۔ یہ دیکھ کر طفیل نے اُس کی چارپائی گھر میں کھڑے بیری کے درخت سے باندھ دی ۔اب قائم دین گھر کے افراد کوسارا سارا دن کوستااور زنجیر پٹختا رہتا۔ یوں دو تین ماہ اِسی طرح گزر گئی۔ ایک دن خدا جانے کیسے زنجیر ٹوٹی اور قائم دین آزاد ہوگیا۔ قدرت خدا کی، طفیل گھر پر نہیں تھا۔ عورتوں سے پکڑا نہ گیا۔ وحشت عروج پر تھی۔ شام تک کئی ایک کو زخمی کر دیا۔ اور بہت سوں کو بیہودہ گالیاں دیں۔ گاؤں میں بہت ہنگامہ ہوا۔ کم بخت نے ارشاد علی کی بیٹی کو تو ایسی اینٹ ماری ، بیچاری سیدھی ہسپتال جا پہنچی۔دوئم، مسجد میں گھس کر تمام نمازیوں کے سروں پر خاک ڈال دی اور جوتے اُٹھاکرکنویں میں پھینک دیئے۔ اُس کی اِس حرکت سے طفیل عتاب میں آگیا۔ مولوی صاحب نے بُرا بھلا کہا۔ چوہدری عاشق علی نے طفیل کو بلا کر کہہ دیا،اگر تمہارے باپ نے آئندہ کوئی ایسی حرکت کی تو گاؤں سے اپنا بستر گول کر جانا۔ بڈھے نے بیس سال سے سب کو پاگل بنا رکھا ہے۔ یا تو اِسے باندھ کے رکھو ورنہ زہر دے کر قصہ پاک کرو۔ تاکہ روز کی چخ چخ سے جان چھوٹے ۔ لہٰذا طفیل نے قائم دین کو اب جو زنجیر مارا۔ وہ ایک مست ہاتھی کے لئے بھی کافی تھا۔ اُس نے آتے ہی لوہار سے پندرہ کلو کا ایک لوہے کا زنجیر اور دو کلو کا دیسی تالا بنواکر قائم دین کو بیری کے موٹے تنے سے باندھ دیا۔پاس ایک چارپائی رکھ دی۔ کہ چاہے تو چارپائی پر لیٹ جایا کری، ورنہ زمین تو ہے۔
قائم دین کی بہوصبح وشام کھانا اُس کے سامنے رکھ دیتی کہ وہ سگی بھتیجی بھی تھی۔ کوئی اور نزدیک جاتا تو وہ کھانا بالکل نہ کھاتا تھا۔قائم دین کو اس زنجیر سے بندھے آج چھ ماہ ہو چکے تھی۔ بائیں ٹخنے پر گہرے زخم واضح دکھائی دینے لگے۔ پچھلے چھ ماہ سے بہو برابر اُس کا صبح وشام گند بھی صاف کرتی۔ یہ اُس کے معمول میں شامل تھا۔
پچھلے اکیس برسوں میں بیری کا درخت اس قدر پھیل گیا کہ پورے احاطے کو اپنے گھیرے میں لے آیا۔ ہری بھری لچکیلی شاخوں پر گلہریاں اور طوطے چڑیاں چہکتیں رہتیں ۔ بعض اوقات قائم دین کے سر پر بھی آکر بیٹھ جاتیں۔اور چوں چوں کا شور اس قدر بلند کرتیں کہ قائم دین کی پوری توجہ ادھر ہو جاتی۔ اب وہ سارا سارا دن بیری کی شاخوں پرپُھدکتی گلہریوں ،رس چوستی شہد کی مکھیوں اور ہرے پتوں کے درمیان چہکتی چڑیوں کو دیکھتا رہتا۔ آہستہ آہستہ اُن سے اتنا مانوس ہوگیا کہ کسی اور طرف توجہ بھی نہ کرتا۔اب گالی دینا تو الگ بات اُس نے بولنا ہی بند کردیا۔ بس ٹُک ٹُک بیری کی شاخوں کو دیکھتا اور چہکتے ہوئے پرندوں میں ہی مگن رہتا۔
غالباَ بیس جون 1999کا دن تھا ۔طفیل اپنی بیوی کے ساتھ حجرہ شاہ مقیم فوتگی پرگیاہواتھا۔ وہ قائم دین کی ذمہ داری اپنے پڑوسی نذیرے کو سونپ گیا۔ کیونکہ اسے حجرہ میں دو چار دن لگ جانے تھے۔ انہی دنوں یہ خبر اُڑی کہ ہندوستان نے ستلج کا پانی چھوڑ دیا ہی۔ خبر اس وقت پہچی جب پانی بالکل نزدیک پہنچ گیا۔اس خبر نے سارے ٹھاڑ میں ہراس پھیلا دیا۔ پھر بھی ٹھاڑ والوں کے پاس بچنے کے لئے کچھ وقت تھا۔ لوگوں کو بتیس سال پہلے کا سیلاب یاد تھا۔ اُنہوں نے جلدی جلدی اپنے بوریا بستر لپیٹے اور بند کی طرف بھاگے ۔ ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ جو وقت ملا ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی ہر ایک چیز بچا لے جائیں۔ لہٰذا ہر آدمی کام میں اس قدر مصروف تھا کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ جسے دیکھو اپنا سامان گڈ اور چھکڑوں پر لادے بند کی طرف بھاگا جاتا ہی۔ مکانوں کی چھتوں سے شہتیر نکال لئے گئے اور ایک ایک چیز سمیٹ لی۔ نذیرے نے بھی جلدی سے اپنا سامان باندھا۔ وقت بہت کم تھا جب کہ پانی تیز رفتاری سے ٹھاڑ کی طرف بڑھ رہا تھا۔اُس نے اپنے تمام مویشی اور سامان دو تین چکر میں بند پر پہنچا دیئے۔ اتنے میں پانی گھر میں داخل ہوکر تخنوں سے اوپر اُٹھنے لگا۔ طفیل کو جب سیلاب کی خبر ہوئی تو وہ جلدی سے منڈی احمد آبادآنے والی بس پر بیٹھا تاکہ وقت پر پہنچ سکے۔وہ منڈی احمد آباد پہنچا تو شام کے پانچ بج رہے تھی۔ اگلا رستہ اس نے پیدل طے کرنا تھا۔ کیونکہ ان علاقوں میں بس یا تانگے وغیرہ نہیں جاتے تھی۔ اُدھرگاؤں میں پانی گھٹنوں سے اُوپر آ چکا تھا۔ شام چھ بجے تک دریا نے بچی کھچی دیواریں اور مکان بھی برابر کردیئے۔قائم دین کی چارپائی پانی میں ڈوب چکی تھی۔ لیکن وہ بے فکری سے پریشانی میں دوڑتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے میں مگن تھا۔ ہر ایک کو اپنی پڑی تھی۔ لوگ قائم دین کوزنجیرسے بندھا ہوادیکھتے اور گزر جاتے۔ نذیرے نے بند پر پہنچ کرسُکھ کا سانس لیا۔اور سوچا ،شُکر ہے ،ہر چیز سلامت پہنچ گئی۔ مگر اچانک اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُسے خیال آیا کہ طفیل نے قائم دین کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی تھی۔ مگر افراتفری میں کچھ یاد نہ رہا۔ اُس نے چاہا کہ واپس گاؤں جائے مگر پانی کے شور اور اندھیرے سے ڈر گیا۔سوچنے لگا پانی تو بہت بلند ہو چکا ہی۔ اور زنجیر کی چابی بھی میرے پاس نہیں،لہٰذا اب جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
پانی جب قائم دین کے گھٹنوں سے اُوپر اُٹھاتووہ بیری کے تنے سے لپٹ گیا۔ اور بیری پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن پاؤں میں بندھا زنجیررکاوٹ بن گیا۔ طفیل ابھی تک آٹھ کلو میٹر اپنے گھر سے دور تھا۔ کبھی بھاگتا اورکبھی چلتا۔ مگر اتنا فاصلہ چند گھنٹوں میں طے کرنا آسان بات نہ تھی۔ جب کہ ٹھاڑ میں پانی بھی گھٹنوں سے اُوپرہوچکا ہو۔ رات نو بجے کے قریب پانی جب قائم دین کے کاندھوں تک پہنچا تو اُس نے شدت سے اپنے پاؤں جھٹکنے شروع کئی۔ کبھی ہاتھوں سے زنجیر کھیچتااور زور سے ہاتھ پاؤں مارتا۔کبھی بیری پر چڑھنے کی کوشش کرتا لیکن پھر زنجیرآڑے آجاتا۔ آخر ستّرسال کا بڈھا پندرہ کلو وزنی لوہے کے زنجیر سے کہاں تک زور آزمائی کرتا، نڈھال سا ہو گیا اور جس قدراُوپر اُٹھ سکتا تھا ،اُٹھ کر بیری کے تنے سے چمٹ گیا۔مگر پانی تھا ، کہ تھوڑی دیر بعد مزید بلند ہو جاتا۔ اب قائم دین کوئی پانچ فٹ کی بلندی تک زنجیر سمیت بیری کے تنے سے چمٹا ہوا تھا۔ اُس کے ہاتھ پاؤں اِس قدر وزنی زنجیر کو اُٹھا کر چھپکلی کی طرح مسلسل چمٹے رہنے سے شل ہوگئے ۔ اُس پر ستم یہ کہ پانی نے اپنی سطح اور بلند کر لی۔رفتہ رفتہ پانی اتنا بلند ہوگیا کہ قائم دین غوطے کھانے لگا۔ وہ بار بار زنجیر سے پاؤں پٹختااور غوطے کھاتارہا۔ مگر سب کچھ بے سود تھا۔ اندھیری رات میں سوائے پانی کے اُسے کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ یہاں تک کہ رات دس بجے اچانک پانی کا پہلا گھونٹ اُس کے منہ میں داخل ہوا ۔پانی اس قدر زیادہ تھا کہ قائم دین سانس نہ لے سکا۔ بے بسی کے عالم میں اُس کے منہ سے ایک زور کی چیخ نکلی۔ جس کی آواز سے پورا ٹھاڑ سہم گیا۔ پھر پانی کے اندر کچھ دیرتک ایک بھر پورہلچل ہوئی پھرایک خاموشی چھا گئی۔ ایسی خاموشی جس میں موت کی سی وحشت ہو ۔طفیل ابھی تک اپنے گاؤں سے چار کلومیٹر دور تھا ۔