47ء سے پہلے کی دلی اپنے کچھ ایسے فرزندوں کے واسطے سے پہچانی جاتی تھی جو اپنے آپ کو بڑے فخر سے دلی کا روڑا کہتے تھے۔ استدلال یہ تھا کہ ہم نے دلی کی بہت خاک چھانی ہے۔ ہر گلی ہر کوچے کی خاک کو ہم نے چھانا پھٹکا ہے۔ اس حساب سے دیکھیں لاہور شہر کا بھی ایک روڑا ہے۔ اس کا نام ہے عبدالمجید شیخ۔ کتنے سال ہو گئے لاہور کی کہانیاں سنائے چلے جا رہے ہیں۔ یہ کہانیاں ختم ہونے ہی نہیں آ رہیں۔
یہ جو کتاب ہمارے پیش نظر ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ وہ روڑا ابن روڑا ہے۔ ان کے والد حمید شیخ ان سے بڑھ کر لاہور کا روڑا تھے۔ انھوں نے اپنے وقت میں پاکستان ٹائمز کے کتنے صفحے سیاہ کر ڈالے مگر پھر ہوا یہ کہ ع
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
اب بیٹا اس راہ پر گامزن ہے۔ کتنا کچھ لاہور کے بارے میں سنا ڈالا ہے۔ لیکن ہنوز روز اول والا مضمون ہے۔ افسوس کہ یہ سب کچھ انھوں نے انگریزی میں لکھا ہے۔ لیکن خیر اب انھوں نے اپنی ایک جلد کا ترجمہ اردو میں کرا ڈالا ہے۔ مترجم ہیں وحید رضا بھٹی کتاب کا نام ہے ’قصے لاہور کے‘ چھاپا ہے اسے سنگ میل نے تو لیجیے اب وہ لاہورئیے بھی جو انگریزی سے نا آشنا ہیں اس کتاب کو پڑھ کر لاہور کے روڑے بن جائیں گے۔
لیجیے پہلے ہی بیان میں مجید شیخ نے ستیا جی کے زمانے میں لاہور کو پہنچا دیا۔ کہتے ہیں رامائن سب سے پہلے تو والمیک نے لکھی تھی۔ اس میں یہ ذکر آیا ہے کہ سیتاجی بن باس سے جب صحیح سلامت واپس آئیں اور اجودھیا میں رچ بس گئیں تو ایک مرتبہ پھر انھیں دیس نکالا ملا اس مرتبہ وہ راوی کے کنارے اس مقام پر آئیں جہاں والمیک نے اپنی کٹیا ڈال رکھی تھی۔ سیتاجی ان دنوں حمل سے تھیں۔ یہاں وہ بیٹا پیدا ہوا جس کا نام لوہ یا لاہو تھا۔ پھر رفتہ رفتہ یہاں ایک نگر آباد ہو گیا۔ اس کا نام لاہور پڑ گیا۔ دلیل وہ یہ لائے ہیں کہ لاہور کے قلعہ کے اندر ایک مندر بھی ہے۔ یہ مندر اسی زمانہ کی یاد گار ہے۔
اب ان بیبیوں کا ذکر سنو جو بی بی پاک دامن کے ہمراہ لاہور کی ایک گلی میں دفن ہیں۔ یہ بیبیاں کون تھیں۔ اور بی بی پاک دامن کس تقریب سے۔ کہتے ہیں کہ مقبول عام روایت یہ ہے کہ یہاں حضرت رقیہ کی قبر تھی جہاں مقبرہ تعمیر کرایا ایک ہزار برس پہلے افغان حملہ آور محمود غزنوی نے۔ حضرت رقیہ کون تھیں وہ حضرت علیؓ کی بیٹی تھیں اور مسلم بن عقیل کی زوجہ جو امام حسین ؓکے ایلچی کے طور پر کوفہ پہنچے تھے اور وہیں ان کی شہادت ہوئی۔ باقی بیبیاں بھی جن کی قبریں یہاں ہیں اسی پاک گھرانے کی تھیں۔
اب کنھیا لال کی تحقیق سنو۔ اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ چھ بہنیں تھیں بی بی حج‘ بی بی تاج‘ بی بی حر‘ بی بی گوہر‘ بی بی شہناز۔ عوامی روایت کے مطابق واقعہ کربلا کے بعد مکہ معظمہ سے روانہ ہوئیں اور یہاں پہنچیں۔ اس مقبرہ میں ایک جانب ایک لوح پر درج ہے کہ داتا گنج بخش ہفتے کے ہفتے یہاں آ کر فاتحہ پڑھتے تھے۔ اس سے مطلب یہ نکلا کہ یہ قبریں ایک ہزار سال پرانی ہیں۔
یہ سب بیبیاں کنواری رہیں۔ ان سب کو ملا کر بی بی پاک دامن کہا جانے لگا۔
اب ایک اور کہانی سنو۔ مجید شیخ کہتے ہیں کہ ’’لاہور کے ایک نواحی علاقے میں گرد اور گرمی سے بے حال گلی میں سے گزرتے ہوئے میں نے ایک سبزی فروش کو یہ صدا لگاتے سنا۔ ’’نہ لینا سنگھ‘ نہ ڈیہنا سنگھ ٹماٹر اصلی گجر سنگھ۔ کیا مزے کا جملہ تھا۔ میں نے اس بوڑھے شخص سے پوچھا تھا کہ یہ بول اس نے کہاں سنا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ لاہور کے ارائیں خاندان کا فرد ہے‘ یہ خاندان پچھلی پانچ نسلوں سے سبزیاں بیچ رہا ہے۔ یہ بولی تب سے اس خاندان کی زبانوں پر ہے۔ مطلب کا پتہ نہیں۔
مجید شیخ کی تحقیق کہتی ہے کہ ابدالی نے ایک حملہ کے بعد لاہور کو ایک بھنگی سردار لہنا سنگھ کے حوالے کیا۔ لہنا سنگھ نے دو اور سکھ سرداروں کو بھی شریک اقتدار کر لیا۔ صوبہ سنگھ اور گجر سنگھ۔ ان تین سرداروں نے بڑے اطمینان سے تیس سال تک یہاں حکومت کی۔ یہ تین سردار تین حکیم کہلاتے تھے۔ بولی میں ان تین کا حوالہ ہے۔
اب ایک اور قصہ سنئے۔ ’حسو تیلی کے روحانی معجزے‘۔ حسو کا اصل نام شیخ حسو تھا۔ ذات کا تیلی۔ پیدائش سے وفات تک لوہاری دروازے میں رہا۔ اناج کی ایک دکان اسے وراثت میں ملی تھی جو اب چوک جھنڈا کہلاتی ہے۔ حسو تیلی اپنی دکان میں بٹھا رہتا۔ چپ چاپ لوگوں کا مشاہدہ کرتا۔ اور تسبیح پڑھتا رہتا تھا۔ اکثر آنکھیں بند رکھتا۔ کوئی گاہک آتا تو اسے خود ہی اناج تولنے کے لیے کہہ دیتا۔ تو گاہک خود اناج تول کر لے جاتا۔ کوئی گاہک انکار کرتا تو اسے وہ سودا دینے سے انکار کر دیتا۔ لوگوں کو جلدی پتہ چل گیا کہ کوئی اگر ادا شدہ رقم سے زیادہ مالیت کا اناج تول کر لے جاتا تو گھر پہنچنے تک فالتو اناج غائب ہو جاتا تھا۔
لاہور کے بارے میں بے شمار کتابوں میں حسو تیلی کے کرشموں کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی شہرت جلد ہی دور دور پھیل گئی۔ اس نے اپنی نشانی کے طور پر دکان کے سامنے ایک جھنڈا گاڑ دیا۔ حسو کے تعلقات شاہ حسین المعروف لال حسین سے بہت تھے وہ کہا کرتے حسوشاہ حسین ہے اور شاہ حسین حسو ہے۔
اگر آپ چوک جھنڈا جائیں تو دیکھیں گے کہ لوگ اس کمرے میں جہاں حسو بیٹھا کرتا تھا تیل کے دیے اور موم بتیاں جلاتے ہیں۔ یہ سلسلہ مادھو لال حسین کے پیروکاروں نے شروع کیا تھا۔
ایک اور کہانی اس طرح ہے۔ وہ شخص جس نے تاج محل ڈیزائن کیا۔ وہ لاہور کا استاد احمد تھا جسے شہنشاہ شاہجہاں نے نادر العصر کا خطاب عطا کیا تھا۔ ایک ماخذ کے مطابق استاد احمد لال قلعہ کے عماروں میں شامل تھے۔ استاد دیگر ناموں سے بھی معروف تھے جیسے استاد خاں آفندی۔ استاد محمد عیسیٰ خاں اور عیسیٰ آفندی۔ تاج محل کا ڈیزائن کسی ایک ماہر تعمیرات کا کام نہیں تھا۔ مختلف ماہرین جمع کیے گئے تھے وہ شخص استاد احمد تھا جس نے مغلیہ دربار کو مشورہ دیا کہ کہاں کہاں سے بہتریں کاریگر برآمد کیے جا سکتے ہیں۔ اور یہ کہ ان کی تلاش کس طرح کرنی ہو گی۔ ترکی سے اسماعیل خاں آیا جو ’نیم کرہ‘ بنانے کا ماہر تھا۔ اور گنبد بنانے میں جوہر قابل تھا لاہور کا ایک اور ماہر کاظم خاں اگرہ پہنچا وہ خالص سونے کے کلس کی ڈھلائی میں مہارت رکھتا تھا۔ دلی کے نگینہ ساز چرنجی لال کو بطور سنگ تراش منتخب کیا گیا۔ شیراز کا امانت خاں خطاط اعلیٰ مقرر ہوا۔ ایک اور لاہوری محمد حنیف معماروں کا نگراں مقرر ہوا۔ اس طرح یہ منصوبہ پروان چڑھا۔
مگر استاد احمد کون تھا۔ اصل میں وہ موچی دروازے کا رہائشی تھا۔ جو اگرہ جا کر نادر العصر کے خطاب سے نوازا گیا۔
Intizar Hussain, 11 May 2015, Express News