مولانا حسرت – تاریخ صحافت کے پرانے چراغ
طارق علی میر
Born—1904
|
مولانا چراغ حسن حسرت ؔکا شمار ان ہمہ جہت اہل قلم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے بیک وقت صحافت،ادب اور تاریخ کے قرطاس پر نوع نوع کی رنگ آمیزیاں کیں ۔ ان کے قلم کی نو ک سے روشنائی کے جو قطرے پھوٹتے تھے ، وہ موتیوں کی طرح ان فنون کو چمکاتے رہے حسرت ؔکا تعلق اصل میں جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے معروف کپور خاندان سے تھا ،جو بہت پہلے اسلام کے نور سے بہرہ ور ہواتھا۔ 22 جون 1903ء کو ان کا جنم پونچھ کی تحصیل صدرون کے ایک گائوں کھوئی رٹا میں اس وقت ہوا ،جب پونچھ چار تحصیلوں یعنی باغ، حویلی، مینڈھر اور صدرون پر مشتمل ایک آزاد ریاست ہوا کرتی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں ہوئی اُس کے بعد مزید تعلم کیلئے لاہور چلے گئے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ مختلف سیاسی ، سماجی اور ادبی تنظیموں کاحصہ بنتے گئے- ۔ 1947میں بٹوارے نے حسرتؔ کے خاندان کو بھی آر پار میں بانٹ دیا۔ اگر چہ وہ خود لاہور کے ہو کر رہ گئے لیکن ان کی ایک بہن پونچھ میں رہے گئی ،جن کی اولاد آج بھی پونچھ میں مقیم ہے اور ان میں حسرت کے د و بھانجے مسعوالحسن مسعود اور محمودا لحسن محمود ہیں جو مقامی سطح کے سرکردہ شاعر ہیں ۔ مسعو الحسن مسعود کا انتقال تو چند برس قبل ہوا۔لہٰذا حسرت روایات کے اب محمود ہی ہیں۔ محمودا لحسن محمود نے راقم کے ساتھ ایک نجی گفتگو کے دوران بتایا ’’ میرے ماموں چراغ حسن حسرت 1947تک ہر سال شوق و محبت سے پونچھ آیا کرتے تھے اور انہیں اپنے علاقہ سے بے حد انس تھا اور یہی وجہ رہی کہ ان کی وصیت کے مطابق حسرت کی آخری آرام گاہ پرجوکتبہ نصب کیا گیا ہے اس پر لکھا ہے ’’ مولانا چراج حسن حسرت کشمیری ‘ ‘۔ تقسم کے بعدمولانا حسرت کا اکثر وقت لاہورکے ایک کافی ہائوس میں گزرتا تھا ۔ صحافت اور شاعری میں جب حسرتؔ کی دھوم مچی تو اُس وقت کے اُردو کے سربرآوردہ روزنامہ ’زمیندار‘ کے مدیراعلیٰ مولانا ظفر علی خان نے حسرتؔ کو ’زمیندار‘ کا مدیر بنا دیا اور حسرتؔ نے کئی تنقیدی مضامین’ سند بادجہازی ‘کے نام سے بھی لکھے۔ان مضامین میں انہوں نے پونچھ کا نقشہ بھی کھنچا ہے جس سے ظاہر ہو تا تھا کہ پونچھ کی یادیں ہمیشہ ان کے تخلیقی عمل کا حصہ رہی ہیں ۔ 1947 سے قبل جب متحدہ ہندستان کی تحریک آزادی نے زور پکڑا تو حسرت اُن ابتدائی صحافیوں اور ادیبوں میں شامل تھے جو تحریک آزادی کے ستون بنے اور مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ساتھ جڑے رہے ۔ مولانا آزاد کی شخصیت سے گو کہ پہلے سے ہی متاثر تھے اسلئے حسرتؔ کی نظر ‘نظریاتی طور کانگریس پر ٹھیر تی تھی ۔سیاسی اور صحافتی سرگرمیوں کیلئے حسرت کا دوسرا پڑاو لاہور کا عرب ہو ٹل بنا لیکن عرب ہوٹل کی ان نشستوں کا زمانہ مالی اعتبار سے کچھ زیادہ خوشگوار نہ تھا۔ چراغ حسین حسرت کے تخلیقی کارناموں پر اُردو کے نامور صحافی ، ادیب وقائد آغا شورش کاشمیری نے ایک تفصیلی مقالہ میں لکھا ہے۔ ۔’’حسرت پہلے عرب ہوٹل میںبیٹھ کراسلامیہ کالج کے نوجوانوں سے محفل لگاتے تھے۔ ان دنوں اخباروں کا حال بھی پتلا پتلا تھا اور کئی مہینے تنخواہ کا انتظار رہتا ‘‘۔ان کے مطابق حسرت کے ایک جگری دوست شیخ غلام محمد تھے اور دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر تھے اور شاید حسرتؔ کے احباب میں ان سے زیادہ مخلص دوست آخری وقت تک کوئی نہ رہا۔حسرت صاحب نے خود ایک تحریر میں لکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم چھڑی تو میری تنگی کے دن شروع ہوگئے اور فوج میں بھرتی ہو کر فوجی گزٹ کا ایڈیٹر ر مقرر ہوا ۔ جنگ ختم ہوئی تو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک ہوگیا ۔ جنگ چھڑتے ہی سب سے پہلے مجلس احرار نے برطانوی فوج میں بھرتی ہونے کے خلاف نعرہ بلندکیا ، حسرت عرب ہوٹل سے اٹھ کر دفتر احرار میں پہنچے ۔ شورش کاشمیری نے حسرت مرحوم پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھا ہے ’’ ادب اور صحافت کی عام گفتگو میں حسرت اپنے سواشاذ ہی کسی کومانتے تھے ۔ مزاج اُن کا یہ تھاکہ نئی پود کا ذکرخیر کرتے ہوئے ہچکچاتے اور ہمعصروں میں دوچار کی تعریف کرتے لیکن مین میخ ان میں بھی نکالتے ۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو وہاں کے محکمہ بحالیات کے ہفتہ وار اخبارمہاجرین میں حسرت چیف ایڈیٹر ہوگئے اور کشمیر کے حوالے سے ’’نوا ئے کشمیر ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم تحریر کر تے رہے جس میں کشمیرکی سیاسی صورت حال پر تبصرہ کر تے رہے ۔ اسی اثناء میں میاں افتخار الدین نے امروز کی نیو رکھی، فیض کو اس کا چیف ایڈیٹر بنایا ، حسرت ایڈیر ہوگئے اور ’’امروز‘‘ کے دوران حسرت نے لاہو کے ایک کافی ہائوس کو منتخب کیا اورمرتے دَم تک یہیں نشست جماتے رہے ۔یہاں زیادہ تر سیاسی لوگ ان کے گرد بیٹھے اور مطائبات سے متمتع ہوتے تھے ۔ ان نوجوانوں سے ان کی جھڑپیں بھی ہوتیں،چہلیں بھی،چوچلے بھی۔ آغا شورش نے حسرت صاحب کا خاکہ کھنچتے ہوئے بیان کیا ہے’’حسرت میں ادب کا ذوق معراج پر تھا اور زبان وبیان دونوں کے دھنی تھے۔ نثرونظم ان کے مرکب تھے ۔اسی کمال فن نے ان میں اناپیدا کی ۔اس انا کی بدولت خوردوں سے بھی گاہے بگاہے اُلجھ پڑتے ۔ جس کا بعد میں انہیں افسوس ہوتا۔ دل ان کا آئینہ تھا۔ ان کے قلم میں دل آزاری نہیں تھی ۔یہی حال ان کی زبان کا تھا۔ بات چیت میں پھبتیوں کی جھاڑ باندھنے کے باوجود لہجہ کی آبرو قائم رکھتے ۔تاہم اس قسم کی باتیں ضرور کرجاتے جس سے کسی خوردکی تحقیر ہو اور وہ احتجاج کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ ان نوجوانوں میں ان کا احترام بہت زیادہ تھا لیکن کبھی کبھار وہ خود ہی انہیں کشیدہ ہونے کا موقع دے دیتے ۔تقسیم کے بعد حسرت نے کئی بار پونچھ آنے کیلئے سرکار سے اجازت بھی طلب کی لیکن کشمیر کے تئیں ان کی سر گرمیاں ہمیشہ حائل رہی اور وہ اپنے آبائی وطن کو نہ دیکھے پائے۔ آخر وہ وقت آہی گیا جب اس چراغ کی روشی دھیمی پڑ نے لگی اور 26جون 1955ء کو سہ پہر کے لگ بھگ داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی… اوریہ چراغ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔ Intizar Hussain, 15 January 2015, Express Urdu Reviews |