کابُلی والا ۔ رابندر ناتھ ٹیگور
میری پانچ برس کی بچّی ، جس کا نام منی ہے ، گھڑی بھر کو خاموش نہیں رہتی ۔ایک دِن صبح سویرے میں اپنے ناول کا سترہواں باب لکھ رہا تھا ،
منی نے آکر کہا :
بابوجی ! سبودھ (میرانوکر) کوّے کو کاگ کہتا ہے ، وہ کچھ نہیں جانتا ۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں اُس نے دوسری بات شروع کردی : ’’ دیکھیے بابوجی ! بھولا
کہتا ہے کہ آسمان میں ہاتھی اپنی سونڈوں سے پانی برساتے ہیں ، بھولا ایسی ہی جھوٹی باتیں کرتا ہے ۔ ‘‘ میں نے ہنس کر منی سے کہا :’’ منی تو بھولا کے ساتھ جاکر کھیل ، مجھے اِس وقت کام کرنا ہے ۔ ‘‘
میرا گھر سڑک کے کنارے ہے ۔ایک دِن منی میرے کمرے میں کھیل رہی تھی ، اچانک وہ کھیل چھوڑ کر برآمدے میں دوڑ گئی اور زور زور سے ’’ کابُلی والے ___اُو کابُلی والے ‘‘ پکارنے لگی ۔
کابُلی والے کے کندھے پر میوے کا تھیلا اور ہاتھ میں انگوروں کی پٹاری تھی ۔ موٹے کپڑے کا ڈھیلا ڈھالا کُرتا پہنے ، صافہ باندھے ، لمبے ڈیل ڈول کا ایک کابُلی سڑک پر آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا ۔
منی کی آواز سُن کر ، ہنس مُکھ کابُلی والے نے گھوم کر دیکھا۔ منی گھبرا گئی اور اُس کابُلی کو پھاٹک میں آتا دیکھ کر اندر بھاگ گئی ۔ اس لیے کہ منی کی ماں کہا کرتی تھی کہ کابُلی والے بچوں کو تھیلے میں ڈال کر لے جاتے ہیں ۔
میں نے منی کا خوف دور کرنے کے لیے اُس کو اندر سے بُلایا ۔ کابُلی اپنی جھولی سے کِشمش نکال کر منی کو دینے لگا ۔ منی کسی طرح لینے پر راضی نہ ہوئی ، اُس کا شبہ اور بھی بڑھ گیا ۔ وہ ڈر کر مجھ سے لپٹ گئی، کابُلی والے سے میرا تعارف اس طرح ہوا۔
میں ایک روز کسی ضروری کام سے باہر جارہا تھا، دروازے پر دیکھا کہ منی اُس کابُلی سے بڑے مزے سے باتیں کر رہی تھی ۔ وہ بادام اور کِشمش لیے ہوئے تھی ۔ میں نے کابُلی سے کہا : ’’ یہ سب کیوں دیا ؟ اب مت دینا ۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں نے جیب سے ایک اٹھنّی نکال کر کابُلی کو دی ۔ اُس نے بلا جھجک اٹھنّی لے کر جیب میں ڈال لی ۔
جب میں کام سے لوٹ کر گھر آیا ، تو میں نے دیکھا کہ اُس اٹھنّی کی وجہ سے گھر میں بڑا شور مچا ہوا ہے ۔ منی کی ماں اُس سے ڈانٹ کر پوچھ رہی ہے کہ تو نے اُس سے اٹھنّی کیوں لی ؟ منی کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے ۔ اُس نے کہا : ’’ میں نے نہیں مانگی ، وہ اپنے آپ دے گیا۔ ‘‘ میں منی کو لے کر باہر چلا گیا۔
معلوم ہوا کہ یہ کابُلی کا دوسرا پھیرا نہیں تھا وہ روز گھر آتا تھا اور پستے بادام دے کر اُس نے مُنی سے دوستی کر لی تھی ۔
کابُلی کا نام رحمت تھا ۔ رحمت اور منی کی عمر میں زمین آسمان کا فرق تھا ، پھر بھی دونوں ایک دوسرے کے دوست ہوگئے ۔ اُن دونوں میں کچھ بندھی ٹکی باتیں ہوتی تھیں ۔
کابُلی والا کہتا :’’ منی سُسرال جاؤگی ؟‘‘ منی نہیں جانتی تھی کہ سُسرال کسے کہتے ہیں ؟ لیکن بھلا وہ چُپ رہنے والی کہاں تھی ۔ وہ تو اُلٹا کابُلی سے پوچھتی : ’’ تم سُسرال جاؤ گے ؟‘‘ رحمت گھونسا تان کر کہتا : ’’ میں تو سُسرے کو ماروں گا ۔ ‘‘ یہ سُن کر منی خوب ہنستی ۔ ہر سال جب جاڑے کا موسم ختم ہونے لگتا ، تو رحمت اپنے وطن جانے کی تیاری کرتا اور گھر گھر جاکر اپنا روپیہ وصول کرتا ، مگر ایک بار منی سے ملنے ضرور آتا۔
ایک دِن میں اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا ، اچانک گلی میں بڑا شور و غُل سنائی دیا۔ میں نے کھڑے ہوکر دیکھا : رحمت کو دو سپاہی باندھے لیے جارہے تھے ، پیچھے سے لڑکوں اور راہ گیروں کا مجمع چلا آرہا تھا ۔ رحمت کے کُرتے پر خون کے دھبے تھے اور ایک سپاہی کے ہاتھ میں خون سے بھری چھُری تھی ۔ میں بھاگا ہوا گیا اور سپاہیوں کو روک کر پوچھا :’’کیا بات ہے ؟‘‘ معلوم ہوا کہ پڑوس میں ایک چپراسی نے رحمت سے ایک چادر لی تھی اور اب وہ دام دینے سے انکار کرتا تھا ، اس پر جھگڑا ہوگیا اور رحمت نے غُصّے میں آکر چپراسی پر چُھری سے حملہ کردیا۔
رحمت اس بے ایمان چپراسی کو سیکڑوں گالیاں دے رہا تھا ۔ اس بیچ میں ’’ کابُلی والے ___او کابُلی والے ‘‘ پکارتی ہوئی منی بھی وہاں آگئی ۔
رحمت کا چہرہ دَم بھر کے لیے خوشی سے کھِل اُٹھا منی نے آتے ہی اُس سے پوچھا: ’’تم سُسرال جاؤ گے ؟‘‘
رحمت نے ہنس کر کہا :’’ہاں وہیں جا رہا ہوں ۔ ‘‘ اُس نے دیکھا کہ اِس جواب سے منی کو ہنسی آگئی ۔ تب اُس نے گھونسا دکھا کر کہا:’’میں سُسرے کو مارتا تو ضرور ، لیکن کیا کروں میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ ‘‘
کچھ دنوں کے بعد اِس جرم میں رحمت کو سات سال کی سزا ہوگئی ۔ اِس واقعے کے بعد کئی سال گزر گئے ، منی کابُلی والے کو بھول گئی ۔
منی بڑی ہوگئی اور پھر اُس کی شادی بھی طے ہوگئی ۔ آخر کار شادی کی تاریخ آپہنچی۔ مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا ۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا کچھ کام کررہا تھا، اچانک اُس وقت رحمت پہنچا۔ پہلے تو میں اُس کو پہچا ن نہ سکا ، لیکن اُس کی ہنسی سے سمجھ گیا کہ یہ رحمت ہے ، میں نے پوچھا: ’’کیوں رحمتکب آئے ؟‘‘
’’کل ہی شام کو جیل سے چھوٹا ہوں ۔‘‘
میں نے کہا :’’ آج تو میں بہت مصروف ہوں ، پھر کبھی آنا ۔ ‘‘
وہ اُداس ہوکر جانے لگا ، لیکن پھر ہچکچاتے ہوئے بولا:’’ بابوجی ! منی کہاں ہے ؟‘‘
میں نے کہا :’’ آج گھرمیں کام ہے ، منی سے بھی مُلاقات نہ ہوگی ۔‘‘وہ اُداس ہوگیا۔
’’ اچھّا ۔۔۔۔بابو جی سلام ۔ ‘‘ کہہ کر جانے لگا۔
مجھے جیسے دھکاّ سا لگا ۔ جی چاہا کہ اُس کو بُلالوں ۔ اِتنے میں دیکھا کہ وہ خود ہی واپس آرہا ہے ۔پاس آکر اُس نے کہا : ’’ یہ کچھ کِشمش بادام منی کے لیے لایا تھا ، اُس کو دے دیجیے ۔ ‘‘ میں نے اس کی قیمت ادا کرنی چاہی ۔ تب اُس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :’’ آپ کی مہربانی میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ مجھے قیمت نہ دیجیے ، بابوجی ! منی جیسی میری بھی بیٹی ہے ، اِسی لیے میں اُس کے لیے میوہ لاتا تھا ۔ میں یہاں سودا بیچنے نہیں آتا ۔ ‘‘
منی اتنا کہہ کر اُس نے کُرتے کے اندر سے ایک میلے کاغذ کی پڑیا نکالی ۔ بڑی احتیاط سے پڑیا کھول کر میرے سامنے رکھ دی ۔ اُس کاغذ پر ایک چھوٹے سے ہاتھ کا نشان تھا۔ اپنی بیٹی کی اِس نشانی کو چھاتی سے لگا کر رحمت اتنی دور سے میوہ بیچنے کلکتہ آیاتھا۔
یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، میں سب کچھ بھول گیا ، بس یہ بات یاد رہ گئی کہ میں بھی باپ ہوں اور وہ بھی باپ ہے ۔ میں نے اُسی وقت منی کو اندر سے بُلایا ۔ منی شادی کے کپڑے اور زیور پہنے ہوئے آئی اور شرمائی شرمائی میرے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ اُس کو دیکھ کر کابُلی گھبرا سا گیا اور بات بھی نہ کرسکا۔ پھر اُس نے ہنس کر کہا: ’’ منی ! تو سُسرال جارہی ہے ؟‘‘
اب منی سُسرال کے معنی سمجھنے لگی تھی ، اُس نے شرما کر سر جھکا لیا ۔ رحمت کچھ سوچ کر زمین پر بیٹھ گیا ، جیسے اُس کو یکایک احساس ہوا کہ اُس کی لڑکی بھی اِتنے دنوں میں بڑی ہوگئی ہوگی ۔ اِن آٹھ برسوں میں اُس کا کیا ہوا، کون جانے ! وہ اُس کی یاد میں کھو گیا۔