زاہدہ حنا – اردو ادب میں صنفی کردار کی صورت گری
دنیا کی تمام موجود اور معلوم کہانیاں مادر سری سماج کے زوال کے بعد لکھی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’گل گامش کی داستان‘‘ ہو یا مصر میں کھدائیوں کے دوران برآمد ہونے والے پیپرس پر لکھی جانے والی کہانیاں، سب ہی مرد کے خود مختار، حاکم اور زورآور ہونے کے قصے ہیں جبکہ عورت محکوم، کمزور اور غلط فیصلے کرنے والی نظر آتی ہے۔
ان کہانیوں میں مرد اگر میدان کارزار میں اپنے دشمنوں کو زیر کررہا ہے تو عورت ایسی ہی کسی جنگ کے نتیجے میں قید ہورہی ہے، بازار میں بک رہی ہے۔ عشق کی داستان ہے تو عموماً اس داستان میں مرد باوفا ہے اور عورت بے وفا۔ ’’عہد نامۂ قدیم‘‘ کے پہلے باب ’’تخلیق‘‘ کو لیجیے جس میں آدم و حوا کی کہانی بیان کی گئی ہے اس میں حوا، آدم سے کمتر ہے، تب ہی وہ آدم کی پسلی سے پیدا کی گئی۔ حوا کی پیدائش کا سبب رب الارباب سے آدم کی شکایت تھی کہ وہ باغ عدن میں تنہائی محسوس کرتا ہے۔ یعنی حوا، آدم کی دل بستگی کے لیے پیدا ہوئی۔ شیطان کے بہکاوے میں آدم نہ آیا جبکہ حوا نہ صرف یہ کہ اس بہکاوے میں آئی بلکہ اسی کی وجہ سے آدم کو جنت سے نکالا گیا۔
عالمی ادب پر اگر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو الف لیلہ کی شہرزاد کی جان اس شہریار کے ہاتھ میں ہے جو ہر صبح رات کی دلہن کو قتل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے کہ شہرزاد اپنی ذہانت اور ہر رات ایک نئی مگر نامکمل کہانی سنانے کے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے اپنی جان بچا لیتی ہے۔ الف لیلہ کی وہ کہانیاں جو شہرزاد نے بیان کیں ان میں بھی مرد کی بالادستی جھلکتی ہے جبکہ عورت اپنی ذہانت اور بعض مقامات پر عیاری کے ذریعے مشکل مرحلے طے کرتی نظر آتی ہے۔ عورت اور مرد کے صنفی کرداروں کا کچھ یہی عالم بوکیشیو کی ’’ڈی کیمرون‘‘ کا ہے۔
ہمارے سماج میں مرد اور عورت کے جو صنفی کردار متعین ہیں اس کا اندازہ ان دو کہانیوں سے لگایا جاسکتا ہے جو ہم میں سے بیشتر نے اپنے بچپن میں اپنی ماؤں یا نانیوں دادیوں سے سنی ہے۔ ان میں سے ایک چڑے اور چڑیا کی کہانی ہے جس میں ’’چڑیا لاتی ہے دال کا دانہ اور چڑا لاتا ہے چاول کا دانہ، دونوں مل کر کھچڑی پکاتے ہیں۔‘‘ اس کہانی کی مادہ کردار چڑیا، کہانی کے نَر کردار چڑے کے ہاتھوں سزا کو پہنچتی ہے اور کنویں میں ڈبو دی جاتی ہے اور یوں صنفی اعتبار سے نَر کی حاکمیت مستحکم ہوتی ہے جبکہ پودنے اور پودنی کی کہانی میں ’’راجہ مارے پودنی، ہم لڑنے مرنے جائیں‘‘ کے نعرے کے ساتھ پودنا اپنی عزت و حرمت کے لیے نہ صرف یہ کہ راجہ کے محل پر چڑھائی کردیتا ہے بلکہ اس کے حامی و مددگار جن میں چیونٹیاں، دریا، آگ اور آندھی سب ہی شامل ہیں اس کے کان میں گھس کر راجہ کے محل تک پہنچتے ہیں، راجہ کے سپاہیوں کو ہلاک کرتے ہیں اور محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔
بچوں کو سنائی جانے والی یہ کہانیاں ہمیں یہ اشارہ دیتی ہیں کہ ہم نے اپنے پدرسری سماج میں عورت اور مرد کے لیے جو صنفی کردار متعین کیے ہیں ان کا انطباق پرندوں کی دنیا پر بھی کیا ہے، اسی لیے چڑیا اگر جھوٹ بولے تو اس کی سزا میں چڑا اسے جان سے مارنے کا حق رکھتا ہے اور کسی پودنے کی پودنی اگر اٹھالی جائے تو پودنا چونکہ نَر ہے چنانچہ مادہ کی عصمت و عفت کا محافظ ہے، سو وہ نہ صرف یہ کہ خود راجہ کے محل پر دھاوا کرتا ہے بلکہ اس کے بلاوے پر سارا سماج اس کی مدد کو چل پڑتا ہے اور اس کی پودنی اسے واپس دلانے کے معرکے میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ کہانیاں بچپن ہی سے لڑکیوں اور لڑکوں کے ذہن میں ان کے صنفی کردار کو متعین کرنے کا کام کرتی ہیں۔
اس حوالے سے جدید اردو ادب کی بات کی جائے تو اس کا آغاز 1801ء میں میرامن کی ’’باغ و بہار‘‘ سے ہوا۔ یوں کہہ لیجیے کہ سنہ 2002ء میں اردو ادب 200 برس کا ہوا۔ ان دو صدیوں کے دوران اس نے اپنے سماج کی جو عکاسی کی اس میں واضح طور پر مرد کی بالادستی نظر آتی ہے۔ مرد حاکم ہے، عورت محکوم، زندگی میں فیصلے مرد کرتا ہے، عورت ان فیصلوں کی تعمیل کرتی ہے۔ مرد غیر عورتوں سے دل کی دنیا آباد کرتا ہے، عورت اس ناانصافی پر اُف نہیں کرتی، غرض روایتی مردانہ اور نسائی کردار کے عکس اردو ادب میں واضح نظر آتے ہیں۔
اس روایت سے بہت اہم انحراف ہمیں انیسویں صدی میں دنیا اور اردو کی سب سے طویل داستان ’’داستانِ امیر حمزہ‘‘ میں نظر آتا ہے جو 46 ہزار صفحوں پر مشتمل ہے۔ اس داستان کے بے شمار نسائی کرداروں نے اردو ادب کے روایت پرست قاری کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا۔ یہ نسائی کردار مردانہ وار فیصلے کرتے، جنگیں لڑتے اور مردوں پر مرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس داستان میں جابجا عورتوں کی عملداری ہے۔ میدانِ جنگ میں گھوڑے وہ دوڑائیں، تلوار سے، تیر سے، جادو سے، سحر سے مردوں کو وہ زیر کریں۔ انہیں گرفتار کرکے گھوڑے کی پشت پر ڈال کر ساتھ لے آئیں، محفل ناؤنوش سجائیں اور داد عیش دیں۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں یہ داستان برصغیر کے سماج کی رسوم و روایات سے کھلی بغاوت تھی۔ اس کے صفحوں پر سانس لیتے ہوئے مرد اور عورتیں، دونوں ہی اپنے متعین صنفی کردار سے روگردانی کرتے نظر آتے ہیں۔
اردو ادب میں ’’داستان امیر حمزہ‘‘ کا معاملہ ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر سے ہی برصغیر پر برطانوی راج کے مکمل تسلط، لوگوں کی جدید مغربی تعلیم سے آشنائی اور ملک کے صنعتی دور میں داخلے نے اردو ادب پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اردو میں وہ ادیب ابھرے جنہوں نے عورتوں کی تعلیم، پردے سے نجات اور ان کے حقوق کی بات کی۔ یہ وہ ادیب تھے جنہوں نے عورت اور مرد کے روایتی صنفی کردار کو مسترد کیا۔ ان میں سے دو اہم ترین نام سید سجاد حیدر یلدرم اور مرزا عظیم بیگ چغتائی ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم اردو کے ان اولین ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے عورت کو مرد کے برابر لانے کی آرزو کی۔ ان کے افسانوں میں عورت اپنے متعین صنفی کردار سے انحراف کرکے پردہ ترک کرتی ہوئی، جدید تعلیم حاصل کرتی ہوئی اور مخلوط محفلوں میں شریک ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شاید اسی کا اثر تھا کہ ان کی بیگم نذر سجاد حیدر کے ناولوں میں بھی عورت اپنے روایتی صنفی کردار کو ترک کرتی ہے۔
عورت اور مرد کے روایتی صنفی کرداروں سے انحراف کرنے میں مرزا عظیم بیگ چغتائی کا نام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں ایک نئی عورت کی صورت گری کی۔ یہ وہ تعلیم یافتہ اور روشن خیال عورت ہے جو صنفی مساوات پر مبنی ایک نئی اور خوبصورت دنیا میں مرد کی ساتھی کے طور پر سانس لیتی ہے۔ انہوں نے اپنے مشہور ناولٹ ’’شہزوری‘‘ میں ایک ایسے نسائی کردار کو لکھا جو ناخواندہ اور کم حیثیت ہے لیکن اسے اپنے حقوق کا مکمل شعور ہے۔ ’’شہزوری‘‘ کی ہیروئن حسب نسب، طبقاتی اونچ نیچ اور مردانہ بالادستی کے اصولوں کو جس طرح تہ و بالا کرتی ہے، اس کی مثال اردو ادب میں نہیں ملتی۔ عورت اور مرد کے روایتی صنفی کرداروں کو تلپٹ کرتا ہوا اور سر کے بل کھڑا کرتا ہوا ایسا نسائی کردار اردو ادب میں پھر کبھی تخلیق نہیں ہوا، وہ بھی ایک مرد کے قلم سے۔
انیسویں صدی کے آخر میں رشیدۃ النساء ہمیں ایک تمثیلی ناول میں عورت اور مرد کے روایتی کردار کو تحریر کرتی اور ساتھ ہی اس میں قدرے تحریف کرتی نظر آتی ہیں لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے ہی صغرا ہمایوں مرزا، نذر سجاد حیدر، والدہ افضل علی، مسز حجاب امتیاز علی اور متعدد دوسری خواتین کی تحریریں ملتی ہیں۔ ان میں سے کئی نے اپنی تخلیقات میں عورت اور مرد کے روایتی صنفی کردار سے انحراف کیا اور پڑھنے والوں کو چونکا دیا۔
’’انگارے‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا جس نے اردو ادب کو پریم چند، کرشن چندر، ڈاکٹر رشید جہاں، عصمت چغتائی، عزیز احمد، بیدی، منٹو، قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، شوکت صدیقی اور دوسرے بہت سے بڑے نام دیے۔ ان ادیبوں نے جہاں اپنی کہانیوں میں مردوں اور عورتوں کے روایتی صنفی کرداروں کی عکاسی کی، وہیں وہ باغی اور منحرف مردانہ اور نسائی کردار بھی لکھے جو کسی طور روایتی نہ تھے۔ ان ادیبوں میں منٹو اور عصمت کا نام سرفہرست ہے۔ ان دونوں نے اپنے سماج کی منافقتوں کو عیاں کرنے کے لیے ایسے افسانے لکھے جو عورت اور مرد کے روایتی صنفی کردار کو منسوخ کرتے نظر آتے ہیں۔
عصمت چغتائی کی کہانیاں ایک طرف رہیں، ان کے ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ اور ’’معصومہ‘‘ کے نسائی کردار معاشی طور پر خود مختار زندگی گزارتے ہوئے، فلمی دنیا کی بھول بھلیوں میں پھرتے ہوئے، تمام پرانی روایتوں اور اس میں سانس لیتے ہوئے روایتی نسائی کرداروں پر خط تنسیخ کھینچ دیتے ہیں۔ یہ کام جیلانی بانو اور واجدہ تبسم نے اپنے اپنے طور پر کیا۔
قرۃ العین حیدر نے اگر روایتی نسائی کرداروں کو اپنے افسانوں اور ناولوں میں بیان کیا تو اس جدید تعلیم یافتہ اور خود مختار عورت کی بھی کردار نگاری کی جو ’’سیتاہرن‘‘ میں سیتا مرچندانی، ’’آگ کا دریا‘‘ میں چمپا احمد اور ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ کی ہیروئن کی صورت نظر آتی ہے۔ تمام رواجوں اور روایتوں کو مسترد کرتی ہوئی، اپنے لیے نئے صنفی کردار کا تعین کرتی ہوئی۔
گذشتہ پچاس برس کے دوران اردو ادب میں متعدد نئے نام سامنے آئے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم، اس کے نتیجے میں لاکھوں کا اپنی جڑوں سے اکھڑ جانا، قتل و غارت، بیروزگاری، غربت، عورت کا جنسی استحصال، سماج پر مغربی تہذیب کی یلغار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جنسی اشتعال، شہروں میں نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات، سیاسی استبداد، نظریاتی سخت گیری اور مذہبی تعصبات نے اردو ادیبوں کو متنوع موضوعات دیے۔ ان موضوعات پر مختلف ادیبوں نے اپنے اپنے رنگ سے قلم اٹھایا۔ ان ادیبوں میں خواتین بھی ہیں اور مرد بھی۔ ان میں سے بہت سوں نے عورت اور مرد کے بارے میں جو کہانیاں لکھیں ان میں دونوں کے روایتی صنفی کرداروں کی عکاسی ہوتی ہے لیکن ایسے ادیب بھی ہیں جن کے افسانوں اور ناولوں میں ہمیں روایتی صنفی کرداروں سے جزوی یا کلّی انحراف ملتا ہے۔
ادب اپنے زمانے اور زمینی حقائق کی نقش گری کرتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ سماج میں عورت اور مرد کے روایتی صنفی کردار بدل جائیں اور ادب گزرے ہوئے زمانے کے رشتوں اور حالتوں کا بیان لکھتا رہے۔ اردو ادب میں مردانہ اور نسائی کرداروں کے حوالے سے ایک واضح تبدیلی رونما ہورہی ہے، یہ سماج میں عورت اور مرد کے بدلتے ہوئے رشتوں اور کرداروں کی عکاس ہے۔
زاہدہ حنا ایک مصنفہ اور گالم نگار ہیں۔ ٢٠٠٦ میں انہیں صدارتی پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا جسے انہوں نے احتجاجا قبول نہیں کیا۔