شیخ ایاز : کراچی کے دن اور راتیں / قسط-۲
شیخ ایازکی مشہور زمانہ سندھی تصنیف کا اردو ترجمہ“ کراچی کے دن اور راتیں” کے نام سے پروفیسر کرن سنگھ نے کیا ہے- نیوز پلس 24 کے قارئین کے لئے اس غیر مطبوعہ کتاب کو قسطوں میں شائع کیا رھاہے- ایڈیٹر
دسمبر 29 ، 1988
میں یوں تو ہر سال یکم جولائی یا اس سے ایک دو دن بعد کراچی آتا ہوں، کیوں کہ یکم جولائی سے ۷ اگست تک نہ صرف ہائیکورٹ بلکہ سیشن کورٹ میں بھی ویکیشن ہوتی ہے۔ اس مرتبہ ۲۲ جون کو میرے بیٹے سلیم نے ویانا سے فون کیا تھا کہ وہ اور اس کی بیوی لبنیٰ ۲۵تاریخ کو واپس آرہے ہیں کیوں کہ لبنیٰ کے بھائی سہیل کالاہور میں کار کے حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔ سلیم گزشتہ سال پوسٹ گریجویٹ تعلیم،کے لیے ویانا گیا تھا اور اسے غالباً یکم جون کو ڈپلوما کی سند ملی تھی ۔ اس لیے اس نے لبنیٰ کو سیر و تفریح کے لیے بلالیا تھا۔ لبنیٰ کا چچا زاد شوکت خواجہ بون (جرمنی) میں تجارت کرتا ہے اور اس کا ماموں محمود پرویز ناروے میں مستقل رہائش پذیر ہے۔شوکت کی بیوی جرمن ہے۔ لبنیٰ کا بھائی سہیل ‘ جولاہور میں کسی نجی فرم میں ملازم تھا‘ جون کے دوسرے ہفتے میں کارکے حادثے میں اس کاانتقال کرگیاتھا۔ لبنیٰ اس وقت سلیم کے ساتھ بون میں تھی۔ سہیل چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ لبنیٰ کے والدنے مصلحتاً لبنیٰ کو فون پر اطلاع نہ دی تھی کہ کہیں لبنیٰ کو زیادہ صدمہ نہ پہنچے اور وہ پردیس میں رنجیدہ ہو جائے۔مجھے سلیم نے مزید فون پر بتایا کہ لبنیٰ کی بہن نینا جو اپنے شوہر کے ساتھ قطر میں رہتی ہے‘ اس نے اپنے ماموں کو ناروے میں فون پر اطلاع دی تھی‘ اور اس کے ماموں نے جب یہ اطلاع شوکت خواجہ کو فون پر دی تھی تو اسے یہ خبر نہ تھی کہ سلیم اور لبنیٰ شوکت کے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں ابھی صرف ویانا‘ بون، کلون،سوئزرلینڈ ‘ زیورچ‘ جینوا اور میونخ گھوم سکے تھے کہ انھیں یہ اطلاع ملی۔اطلاع ملتے ہی ۲۵ تاریخ کو واپس لوٹنا پڑا۔ (سلیم روس کے علاوہ سارا یورپ پہلے ہی دیکھ چکا ہے) سلیم کے ساتھ میری ننھی پوتی نین تارا بھی تھی‘ جو تین سال کی ہے اور اس کی ماں اس کو پیار سے ’’بٹو‘‘ کہتی ہے۔
سلیم کوچونکہ ۲۵ جون کو آنا تھا اس لیے میں نے اور زرینہ نے سکھر سے شالیمار ایکسپریس میں۲۵ تاریخ کی ریزرویشن کرائی۔ لبنیٰ بھائی کے صدمے سے رو رو کر بے حال ہو گئی تھی‘ میں نے سلیم کو ویانا ہی میں فون پر کہہ دیا تھا کہ وہ ہمارے لیے نہ ٹھہرے اور لبنیٰکو ماں باپ کے پاس لاہور لے جائے۔ میں نے فون پر لاہور میں اس کے سسر کو بھی مطلع کر دیا تھا‘ جو وہاں کامرس کالج کے پرنسپل ہیں۔
شالیمار میں ہمارے ساتھ‘ میری بیٹی یاسمین اور اس کی بیٹیاں بھی تھیں‘ جو حیدر آباد واپس جارہی تھیں‘ یاسمین کی شادی محمد ابراہیم جو یو کے بیٹے سے ہوئی ہے‘ اوراس کی بڑی بیٹی روماسا‘ میرے زیر اثر رہی ہے، بہت ذہین ہے۔ روماسا نام بھی میں نے رکھا ہے۔ وہ گیارہ سال کی ہے اور اسے لکھنے پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔اس لیے ہم نے معمول کے مطابق بوئنگ میں ریزرویشن نہیں کرائی اور اس باربیٹی اور نواسیوں کے ہمراہ شالیمارایکسپریس میں آئے تھے۔ حیدر آباد اسٹیشن پر میرا داماد مظفر جویو جو انجینئر ہے آیا‘ یاسمین اور اپنی بیٹیوں کو لے گیا۔ میں حیدر آباد سے کراچی تک زرینہ سے باتیں کرتا رہا، وہ کچھ بیمار تھی اس کی دل کی دھڑکن بڑھ گئی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ اس وقت ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں ہیں‘ مگر ان کی بھی اپنی خوب صورتی ہے۔ خزاں کا موسم کبھی کبھی تو بسنت سے بھی پیارا لگتا ہے‘ اس زندگی کا پل پل غنیمت ہے۔ بہتر ہے کہ اس کے لیے اس قوت کا احسان مند رہا جائے جو ہم کو چلا رہی ہے۔ ابھی تو بیٹے بیٹیاں‘ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں ہیں جن کی زندگیاں ہمارے بعد بھی رہیں گی ۔ جب ہم نہ ہوں گے تب بھی جیسے ہم ان میں ہوں گے۔ زندگی کا سلسلہ یوں ہی چلتا ہے اور بالآخر فتح تو موت پر زندگی کو ہے نہ کہ زندگی پر موت کو۔ میں نے اس سے کہا کہ میری گزشتہ کتاب ’’برگد کی چھاوں پہلے سے گھنی‘‘ کے ایک باب میں موت کا ذکر کچھ زیادہ ہے مگر اس میں بھی میں نے اس سلسلے کا ذکر کیا ہے جو میرے بعد بھی جاری و ساری رہے گا۔ ماہتاب محبوب نے یہ کتاب پڑھ کر مجھے فون کیا تھا کہ یہ نظم پڑھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو آگئے تھے۔
کبھی ہوا دروازہ کھولے
میرے گھر میں در آئے گی
اور مجھے کرسی پہ نہ پاکر
مایوسی سے لوٹ جائے گی
میری میز پر سو سو کاغذ
بکھرے ہوں گے میں نہ ہوں گا!
گیت ادھورے میں نہ ہوں گا!
اور نہ جانے کیا کیا ہوگا‘ میں نہ ہوں گا!
میر اخیال ہے کہ د وچار ماہ قبل جب وہ میرے گھر سکھر آئی تھی۔ تب اس نے میرے کھانے کی میز پر کئی کتابیں‘ نوٹ بک اور ادھرُ ادھر پڑے اوراق دیکھے تھے۔ میں اسی میز پر لکھتا بھی ہوں اور کھانے کے وقت کتابوں کو سمیٹ سموٹ کر‘ سرکاکر کھانے کی پلیٹیں رکھتا ہوں (یہ عادت مجھ میں حشو کیول رامانی سے پڑی تھی۔ اُس کے فلیٹ میں چاروں طرف کتابیں‘ رسالے اخبارات‘ جنڈی اور کاشی کی اشیاء پرانے سکے وغیرہ پڑے رہتے تھے۔ وہ انھیں سمیٹ کر سونے کے لیے جگہ بنالیتا تھا۔ وہ لاابالی زندگی Bohemian life مجھے آج تک پسند ہے) مگر وہ جوزندگی کے لازمی خاتمہ کا خوف ہے‘ جس کا ذکر میں نے مذکورہ بالا نظم میں کیا ہے۔ مجھ میں کچھ عرصہ رہتا ہے اور کسی صوفی کی طرح فنا کا تصور میری زندگی پر ہمیشہ کے لیے چھا جاتا ہے۔ میں نے شالیمار ایکسپریس میں کچھ پنجابی لڑکیاں دیکھیں‘ جو ہمارے قریب بیٹھی تھیں‘ جوانی میں کتنی کشش ہوتی ہے! ایک تو رقیہ عتیق جیسی تھی‘ جسے‘ میرے دوست احمد سلیم نے مجھ سے متعارف کرایا تھا۔ اس کے آڑو کی طرح گال تھے اور اس کی آنکھوں میں کتھا کلی کی ویدنا تھی۔ ایک مرتبہ ہم اسلام آباد میں راول ڈیم میں کشتی میں بیٹھے تھے کہ اس نے مجھ سے روس کے سفر کے بارے میں پوچھا ‘ میں نے اسے بتایا کہ روس کی عورتیں اس طرح آزاد تھیں جس طرح ہوا میں پرندے۔ ایک بار ہم سمرقند سے تاشقند جارہے تھے ہم نے دیکھا کہ تاجک مزدور عورتیں ایک ٹرک میں ناچتی گاتی جارہی تھیں۔ قدسیہ بانو نے ہاتھ کے اشارے سے ٹرک کو رکوایا اور ہمارے تیسرے ہم سفر خاطر غزنوی نے ان سے فارسی میں کہا ’’مہربانی فرما کر ٹرک سے نیچے اُتر کر ہمیں ناچ کر دکھائیں‘‘ وہ ٹرک سے نیچے اتر کر زمین پر ناچنے لگیں۔ میں نے جامشورو میں اس طرح پرندوں کو املی کے درخت پر ناچتے دیکھا تھا۔ ایک دم بے پروا‘ بے فکر اور آزاد! اس کے بعد میں نے اسے اپنی روسی گائیڈ آرینا کے بارے میں بتایا وہ ’’غیر ملکی زبانوں کے ادارے (Institute of Foreign Languages)
کی گریجویٹ تھی اور کچھ عرصہ فرانس میں روسی سفارت خانے میں رہی تھی اور پاستر ناک کے ناول ’’ڈاکٹر زواگو‘‘ کا فرانسیسی ترجمہ پڑھا تھا۔ جب میں نےاس سے پاستر ناک کے ناول اور شاعری کے متعلق گفتگو کی تو وہ حیران رہ گئی۔ اس نے حیرانی سے کہا ’’تم نے سندھ میں رہ کر پاستر ناک کا اتنا گہرا مطالعہ کیسے کیا؟‘‘ پھر ہم نے روسی شاعری پر مزید گفتگو کی اور آندرے ووزنیسیکی‘ رسول حمزا توف‘ ایوگینی‘ یوتو شینکو کی شاعری کے متعلق بات چیت کی‘ میں نے اسے بتایا کہ آننا اخھاتووا پر لینن گراڈ کے گھیراؤ میں کیا گزرا اورشاعر مینڈلس ٹام کو اسٹالن نے کیوں مروادیا تھا۔ یہ سن کر وہ مجھ سے بہت مانوس ہو گئی اور ہم تاشقند ہوٹل کے کمرے میں روسی شیمپئن بھی پیتے رہے اور شعراء ‘ سرگیہی‘ یسینن اور ولادیمیر‘ مایا کوفسکی اور الکساندر بلوک کے دور‘ اس وقت کی افراتفری اور نئے ماحول میں ڈھلنے کی نہایت تکلیف دہ کوشش پر آدھی رات تک گفتگو کرتے رہے۔ شیمپئن کی تیسری بوتل آرینا کے چہرے پر موتیے کے پھولوں کی طرح کھل اٹھی تھی اور روسی میں کچھ بولتے ہوئے اس نے میرے گلے میں بانھیں ڈال دی تھیں۔ یہ سن کر رقیہ عتیق نے مجھ سے تھوڑے روکھے پن سے کہا ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم میں اتنی Male Chauvinism ہے‘‘ اور میں یہ سن کر شرما گیا تھا۔ شالیمار ایکسپریس میں‘ میں نے اس وقت سوچا کہ پرندے جب ہم عمر خوب صورت لڑکیوں کو دیکھتے ہوں گے تو انھیں ایک جیسی لگتی ہوں گی جس طرح ہمیں رنگین چڑیاں(Canaries) ایک جیسی لگتی ہیں۔ مگر انھیں قریب جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی طبیعتیں کتنی مختلف ہیں۔
ایک بار راحت نے یہ کہتے ہوئے میرے من میں کتنی جلن پیدا کردی تھی کہ ’’تم کیا سمجھتے ہو‘ میں نے وسکی نہیں پی ہے یا کسی غیر مرد کے ساتھ وقت نہیں گزارا ہے؟ میں اپنی بہن کے پاس ساؤتھ افریقا بحری جہاز میں جارہی تھی اور ایک انگریز کے ساتھ اس کے کیبن میں آدھی رات تک میں نے وسکی پی تھی‘‘ یہ کہہ کر اس نے مسکرا کر اپنی چوٹی میرے منہ پر ماری تھی۔ وہ مصورہ تھی‘ میں اس کی بے حد عزت کرتا تھا مگر اس سے یہ سننے کے لیے تیار نہ تھا کہ س نے آدھی رات تک کسی غیر مرد کے ساتھ جہاز کے کیبن میں وسکی پی تھی ۔میں‘ جس نے خود‘ یہ گناہ کئی بار کیا ہے‘ اس وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ مکمل میری نہیں تھی۔ اپنا کچھ حصہ کسی اور کے پاس چھوڑ آئی تھی۔ زندگی کتنی تیزی سے گزر جاتی ہے! شالیمار ایکسپریس کی رفتار تو کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے کانوں میں ایڈگر ایلن پوکی نظم (Never More)گونجنے لگی۔صرف یادداشتیں رہ جاتی ہیں اور وہ من میں اس طرح رہتی ہیں جیسے بہتے دریا میں لکڑیاں تیرتی ہوئی بالآخر کسی بھنور میں چکر کھا کر غرق ہو جاتی ہیں۔
میں نے سوچا کہ کیا ایسا بھی کوئی انقلاب ہے جس کے آنے کے بعد کبھی انسان کے لبوں پر سردآہ نہ آئے۔ رشید بھٹی کے انتقال کے بعد اس کے چہلم پر رسول بخش پلیجو کے رفیق‘ عالم شاہ نے مجھ سے کہاتھا ’’رونا بے کار ہے‘ اس موت کو قوت میں بدلا جائے‘‘ میں نے دل میں کہا ’’تم اس کی موت کو بھلے قوت میں بدلو‘ خود رشید بھٹی بھی یہی چاہتا ۔وہ سمجھتا تھا کہ زندگی اپنے طور پر بے معنی ہے اور اس میں انسان کو خود معنی پیدا کرنے ہیں اور تم سنجھتے ہو کہ موت اپنے طور پر بے معنی ہے اور اس میں معنی پیدا کرنے ہیں، مگر میرے لیے دوسری والی بات زیادہ اہم ہے۔ رشید بھٹی مر گیا‘ کہاں گیا‘ پھر لوٹ کر آئے گا بھی یا نہیں!‘‘
یہی خیال تھے جو ‘ ماہتاب محبوب کو ’’برگد کی چھاوں پہلے سے گھنی‘‘ کی کچھ نظموں میں نظر آئے تھے۔ مگر یہ دیوانگی مجھ میں کچھ عرصے تک رہتی ہے اور پھر زندگی کا سفر شالیمار ایکسپریس کی طرح تیز رو ہو جاتا ہے ابھی تک میری فرائڈ (Freud) میں پہلے جیسی دلچسپی برقرارہے۔ ایڈلر(Adler) اور انسان کی نفسیات میں اختیار کی ہوس میں میری دلچسپی صرف اتنی ہے کہ جو بھی صاحب اختیا ر ہیں ان کی منشا اور مقاصد کو سمجھ سکوں البتہ ژونگ (jung)کی نفسیات میں میری دل چسپی بڑھ گئی ہے اور اس کی زندگی کے آخری لمحات پر مبنی اس کی کتاب کو میں نے بڑے دھیان سے پڑھا ہے اس کی زندگی میں جو واقعات رونما ہوئے وہ تحقیق طلب ہیں ان کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی تاہم ان کے متعلق غورکرتارہتا ہوں کہ کیا حالات کا پیشگی علم (Pre-congniton of Eveents)ایک حقیقت ہے؟ فلسفۂ مادیت تو اس سے صاف انکاری ہے کیوں کہ حالات کا پہلے علم ہوسکتا ہے تو پھر ماضی حال اور مستقبل بیک وقت موجود ہیں اور ہم جاکر تصوف کی کسی کھائی میں گر جاتے ہیں۔ مگر ژونگ (Jung)کی طرح کئی باتیں میری زندگی میں بھی آئی ہیں جن کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ مثلاً روشن سے میری گہری دوستی تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ میرا پہلا پیارتھی ‘اس کی شادی ہوچکی تھی وہ کراچی میں رہتی تھی سال ڈیڑھ سال بعد وہ اپنی والدہ سے ملنے شکار پور آتی تھی ایک بارمیں سکھر سے جیک آباد قتل کے کسی مقدمے کی پیروی کے لیے گیاتھا‘ جیکب آباد سے واپس آتے ہوئے جب میں سکھر اور شکار پور چوراہے پر پہنچا تو میں نے ڈرائیور سے کہا کہ شکار پور روشن کے گھر چلو۔ اگر چہ کہ یوں اچانک اس طرف جانے کابظاہر کوئی سبب نہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ وہ شکار پور آئی ہوگی۔ وہ حال ہی میں امریکا سے واپس آئی تھی اور مجھے کچھ تحائف بھی بھجوائے تھے اس لیے میں سمجھا تھا کہ مجھ پر اس کا غصہ کم ہوگیا ہوگا جو اسے میری بے وفائی پر تھا میں اس کے گھر گیا تو وہ موجود تھی مگر اسے اب تک مجھ پر غصہ تھا اور اس نے مجھ سے سیدھے منہ بات نہ کی ’’روشن‘‘ تو جیسے میرے لیے شکار پور ہی تھی۔ وہ باغ جس میں کئی کرنوں کے پودے تھے جن میں تیز خوشبو تھی۔وہ کنوؤں پر رہٹ اور ان کے پاس شہتوت کے درختوں پر طوطوں کی اڑانیں۔ بھینسوں کے باڑے میں تازہ دودھ کی دھاریں اور ان کے نیچے رکھی ہوئی تانبے کی بالٹیاں وہ چنبیلی کی کلیاں جو میں ہر شام اس کے لیے لے کر جاتا تھا جب وہ میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ روشن کے یہاں سے واپسی پر دو تین دن تک مجھ پر اس کا جنون سوار رہا اوراس بات کا دکھ بھی رہا کہ میں اس سے دل کھول کر باتیں نہ کرسکا تھا۔ اس واقعہ کے چوتھے دن میرے ایک دوست کاسکھر سے کراچی تبادلہ ہوا۔ ہم نے اس رات مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا ۔میں اسے اپنی کار میں روہڑی اسٹیشن چھوڑنے گیا، میں ابھی پلیٹ فارم پر ہی تھا کہ میں نے روشن کو ویٹنگ روم سے آتے ہوئے دیکھا وہ واپس کراچی جارہی تھی‘ جب گاڑی میں جاکر بیٹھی تو میں اس کے پیچھے گیا اور گاڑی کے دروازے کو پکڑ کر اسے بلایا ’’روشن۔‘‘ وہ مجھے دیکھ کر گاڑی سے اتر آئی اور مجھ سے کہا۔ ’’تم نے پی ہوئی ہے یہاں ریلوے اسٹیشن پر تماشا لگاؤ گے کیا؟ دراصل مجھے اب بھی تم پر غصہ ہے‘ اب میں شادی شدہ ہوں، اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں شرمندہ ہو کر اس کے کمپارٹمنٹ کے آگے سے ہٹ گیا۔
بعد ازاں روشن کو حکومت سندھ نے سری لنکا بھیج دیاتھا وہاں سے واپسی پر وہ اپنی خود نوشت لکھ رہی تھی۔ میرا دوست کہانی کار شیخ حفیظ‘ روشن سے اکثر ملتا رہتا تھا دو چار ماہ بعد جب میں ہائی کورٹ میں کیس کے سلسلے میں کراچی گیا تو وہاں شیخ حفیظ نے مجھے بتایا کہ روشن بڑی تیزی سے اپنی خود نوشت مکمل کررہی ہے۔
میں نے اس سے کہا’’ ابھی تو زندگی پڑی ہے اتنی جلدی کیا ہے؟ ‘‘میں نے اسے روشن کے لیے پیغام دیا۔ دوسرے دن حفیظ نے کہا۔ اسے سخت بخار تھا اس لیے وہ پیغام نہ دے سکا۔ تیسرے دن مجھے سکھر جانا تھا سامان ٹیکسی میں رکھ کر حفیظ سے کہا۔ ’’چلو پہلے کھارادر چلتے ہیں۔‘‘ جب ٹیکسی کھارادر روشن کے گھر کے قریب پہنچی تو حفیظ نے کہا۔ تم ادھر ٹیکسی ہی میں ٹھہرو میں اس سے پوچھ لوں کہ تمھیں وہاں لے جاؤں یا وہ خود تم سے گھر کے پچھلے دروازے پر ملنے آئے گی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر اس نے بتایا تھا کہ اسے تو ہوش ہی نہیں ہے اور وہ بخار میں بڑبڑا رہی ہے مجھے مناسب نہیں لگتا کہ تم اوپر جاؤ۔ میں نے روشن کے گھر کو اس طرح دیکھا جیسے اسے آخری بار دیکھ رہا ہوں ریل میں مجھے ساری رات نیند نہ آئی۔ سکھر پہنچ کر میں دو تین دن تک صبح شام پیتا رہا۔ تیسرے دن شام کو میرے پاس رشید بھٹی اور مقبول صدیقی آئے۔ انھوں نے کہا ہم رات کو کراچی جارہے ہیں تمھیں کوئی کام ہوتو بتاؤ میں نے انھیں کہا ۔ میرا گمان ہے کہ روشن مرجائے گی یوں لگتا ہے کہ مجھے ’’علم سابقہ ‘‘* کا فہم ہورہا ہے آپ وہاں پہنچتے ہی حفیظ شیخ سے کہنا کہ وہ مجھے اس کی صحت کے متعلق تار بھیجے۔ دوسرے دن میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ حفیظ کی تار ملی۔
’’پھول مرجھا چکا ہے بہت دیر ہوگئی ہے‘‘
روشن بھرپور جوانی میں مرگئی مجھے اس وقت یوں محسوس ہوا جیسے میرے لیے کائنات کا انت ہوگیا ہے مگر کیا ایک بھولی بھالی لڑکی کائنات کا انت ہوسکتی ہے؟چنبیلی کے پھول اس کے بغیر رات کو کھل رہے تھے اور علی الصبح تتلیاں اسی طرح اڑرہی تھیں!
میں نے ٹھنڈی آہ بھر کے سعدی کی غزل کے یہ مصرعے گنگنائے:
اے سارباں آہستہ راں کہ راہ جانم می رود
واں دل کہ باخود داشتم با دل ستانم بی رود
من ماندہ ام مہجور ازو بیچارہ و رنجور ازو
گوئی کہ نیشی دور ازو دور استخوانم می رود
(اے سارباں آہستہ چل کہ میری جان کے آرام میں خلل پڑ رہا ہے۔جو دل میرے پاس تھا وہ دل لوٹنے والے کے ساتھ جارہا ہے میں اس سے نہ صرف بچھڑا رہا ہوں بلکہ بے چارا اور دکھیارا بھی رہا ہوں ۔ اس کے ہجر کا دکھ میری ہڈیوں میں سرایت کر گیا ہے۔)
ریل گاڑی مستفعلن مستفعلن کرتی جنگ شاہی پار کرچکی تھی۔ ایک اور تصویر ابھر کر آنکھوں کے سامنے آگئی۔
بارش پڑرہی تھی ہم گل چہر کے درخت کے نیچے کھڑے تھے کہ راحت نے مجھ سے کہا۔’’ سچ بتاؤ تم مجھ میں روشن تلاش کررہے ہو ۔ تم مجھ سے محبت کررہے ہو یا روشن کے عکس سے۔‘‘
’’پاگل روشن کوانتقال کیے ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں میں اس کو بھول چکا ہوں جبکہ تمہارا وجود ایک حقیقت ہے، تمھارا روشن سے کیا تعلق؟
راحت نے میرے ساتھ کافی وقت گزارا تھا مجھے اب بھی وہ رات یاد ہے جب بھٹ شاہ پر وہ میرے ساتھ بیٹھی تھی اور علن فقیر میری وائی گارہا تھا۔
عشق بنا آرائیں‘ آیا اپنی جھولی بھرے
پھر کیا کوئی کرے*
وہ واقعی میری زندگی میں موتیے اور موگرے کی جھولی بھر کر آئی تھی جس کی مہک میں‘ میں اب تک مہکا ہوا ہوں۔ صبح ہلکی بارش پڑرہی تھی۔ جب راحت سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی مجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ یہ میری تقدیر میں پہلے ہی طے ہوچکا تھا کہ ہم ملیں گے جب میں نے اسے دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ وہی ہے جسے میں کب سے تلاش کررہا ہوں اسے دیکھ کر میرا تن من چمک اٹھا تھا وہ پورے چال سال میرے کانٹے میں پھنسی رہی اور پھر وہ کانٹا اچانک ٹوٹ گیا اور وہ دریا کی لہروں میں تیرتی ہوئی دور چلی گئی مگر میں نے اس کا قرض اتارا ہے اور اسے اپنی شاعری میں امر بنادیا ہے ۔میں نے اپنی کتاب ’’رن میں رم جھم‘‘ میں اس پر مسدس کے انداز میں اسی (۸۰) بند لکھے ہیں تاہم پھر بھی ابھی تک اس کا قرض مجھ پر واجب ہے اور میں سوچ رہا ہوں اس کا قرض کس طرح اتاروں؟ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں بے حجاب ہوکر کیوں نہ لکھوں؟ محبوباؤں کے نام کیوں بدل دیتا ہوں؟ روسو کوصدیاں گذر گئیں ہیں لیکن مجھ میں اس کے جتنی جرأت پیدا نہیں ہوئی ہے! کیا میں اس سماج کے پرخچے نہیں اڑا سکتا؟ کیا میں جاگیرداری دور سے اب تک نہیں نکل سکا ہوں؟ اپنے عشق کو گھما پھرا کر میں عورت کو پردہ نشین بنا کر کیوں پیش کرتا ہوں؟ کیا میں ان کی امانت میں خیانت کرنے سے گھبراتا ہوں؟ کیا پورا سچ لکھنا خیانت ہے؟ معلوم نہیں مجھ میں سرمد کی طرح جرأت برہنگی کب پیدا ہوگی؟ گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ جھمپیر کے پاس رکی‘ سامنے آج کی حقیقت بیٹھی ہوئی تھی جس کے ساتھ میں نے ساری زندگی گذاری ہے اور اب اس کے سر میں بھی چاندنی آنے لگی ہے۔ میرے بیٹے انیس نے دبئی میں جب اپنی ماں کی تصویر کلاپر کاش کو دکھائی تھی تو اسے بہت پسند آئی تھی۔ زرینہ بڑھاپے تک ایک خوب صورت عورت رہی ہے ۔ایک مصور کے خواب کی طرح اس کی کالی گہری آنکھیں ہیں ۔ ہمارے گھر جب سندری اورا تم آئے تھے تو سندری کو زرینہ پربہت پیار آیا تھا اوراس نے شاید تنبیہہ کے لیے مجھے بمبئی سے ایک کتاب (Tolistoy,s wife) ڈاک کے ذریعے بھیجی تھی جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ ٹالسٹائی جینیس (Genius) تو تھا مگر اس کا اسی کی بیوی کے ساتھ گذارا کتنا مشکل تھا۔
میری زندگی میں کتنے ہی لوگ آئے ہیں؟ کتنے چہرے کتنی ہاتھ کی ریکھائیں ہر ایک کا اپنا رنگ ہے ہرایک کی اپنی ادا۔ یہ زرینہ جو اینجلز کی کتاب “Origin of Family” کو ثابت کررہی ہے، ابھی تک میرا ساتھ نبھا رہی ہے۔ صرف زندگی کے آخری اسٹیشن پر کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیتا ہر ایک اپنی راہ لیتاہے، کہاں جاتا ہے؟کدھر جاتا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔ دیکھیں روس کے سائنس دان Perestroika کے بعد اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔
انیس ہمیں لینے کے لیے کراچی اسٹیشن پر رات کو گیارہ بجے موجود تھا۔ اس کے بیٹے شیری (شہریار) اور سنی بھی اس کے ساتھ تھے۔ کار میں اس کے گھر گئے اس کی بیوی حنا سے دعا سلام کرکے‘ بتی بجھا کر میں سو گیا۔