شیخ ایاز : کراچی کے دن اور راتیں /قسط-۱
شیخ ایازکی مشہور زمانہ سندھی تصنیف کا اردو ترجمہ“ کراچی کے دن اور راتیں” کے نام سے پروفیسر کرن سنگھ نے کیا ہے- نیوز پلس 24 کے قارئین کے لئے اس غیر مطبوعہ کتاب کو قسطوں میں شائع کیا رھاہے- ایڈیٹر
دسمبر پیش لفظ
میں نے یہ کتاب اگست 1988 کے وسط میں مکمل کی تھی اس دوران یہ پتا نہین چلتا تھا کہ سورج کب طلوع ہورہا ہے اور کب غروب ،شاید جو کچھ ہونے والا تھا اس کا ادراک میرے من میں ہورہا تھا ،مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ پیالہ بھر چکا ہے اور اب چھلکنے والا ہے۔ جب تک ادل سومرو نے کتاب کی نقل تیار کی الیکشن ہوگئے اور سندھ میں سے رجعت پرستوں کی جڑیں اکھڑ گئیں، پوری سندھی قوم کی اتفاق رائے اور دیگر صوبوں میں اکثر یتی ووٹوں سے شہید بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئی‘ ایشیاء کی بد ترین آمریت سے اس دھرتی کو نجات ملی اور آئندہ امن اور محبت کے امکان پیدا ہوئے جیسے ہی یہ کتاب مکمل ہوئی فیروز احمد نے اپنے ادارے کی زیر اشاعت کتابوں میں اس کا اشتہار دے دیا، دو سال قبل جب میں نے حید ر آبادمیں سندھی ادبی سنگت کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی تھی تو اپنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا تھاکہ ایک سیاست دان کی طرح تو میں سیاست میں حصہ نہ لوں گا اور نہ ہی ون یونٹ کے دور کی طرح پورے سندھ میں شہر شہر کے ادبی اجتماعات اور جلسوں میں شریک ہوکر اپنے ادب کو بائیں بازو کی سیاست کا ہم رکاب بناسکوں گا‘ تاہم دن رات قلم کی مزدوری کرکے کتابیں لکھ کر، انھیں شائع کراکر اس دور کی ترقی پسند سیاست کی ضرور حوصلہ افزائی کروں گا ۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ میری محنت کارآمد ہوئی ہے میری تحریریں سندھ کی نئی اور پرانی نسل میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ہیں اور میری ادبی تحقیقات کو وہی احترام اور محبت حاصل ہوگئی ہے جودس سال پہلے تھی بلکہ اس کااظہار پہلے سے بھی زیادہ ہورہا ہے اگر میری ادبی تخلیقات اس وقت کام آسکیں جب سندھ کے وجود کو خطرہ ہوتو مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ یہ صدیوں تک زندہ رہیں گی یا نہیں ۔
میں چاہتا تو سوویت ادب پر دوتین سوصفحات لکھ سکتا تھا مگر کتاب بہت ضخیم ہوجاتی اس لیے اختصار سے کام لیا اور سرسری نظر ڈالی ہے تاہم سولزے نٹسن پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے کیوں کہ وہی مزاہمت کی بڑی سے بڑی زندہ نشانی ہے۔
میں نے فی الحال روس کا سفر نامہ ادھورا چھوڑدیا ہے کیوں کہ اب یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ روس کی تاریخ اور ترقی کے بارے میں اعداد و شمار غلط اور مغالطے پر مبنی ہیں۔
آخر میں اپنے نوجوان دوست ادل سومرو کا شکر گذار ہوں جس نے انتہائی لگن سے اس کی خوشخط کاپی تیار کی اور قابل اشاعت بنایا اگر وہ مدد نہ کرتا تو میری بے انتہا مصروفیات کی وجہ سے اس کتاب کی اشاعت میں مزید تاخیر ہوتی۔
شیخ ایاز
25 Dec 1988
28 Jul 1988
27 جولائی کو اسلم اظہر* نے مجھے فون کیا کہ کراچی پریس کلب میں 28 تاریخ کو ساڑھے تین بجے شام ایک اجلاس ہو رہا ہے، جہاں شریعت آرڈیننس ،حدود آرڈیننس اور نئے قانون شہادت کی مذمت کی جائے گی،اگرچہ میری طبیعت ناساز تھی، مگرمیں اس کے اصرار پر اسے انکار نہ کر سکا۔ اس نے کہا کہ 28 تاریخ کووہ ،نسرین* یا ہوری نورانی* مجھے گھر سے لے لیں گے۔ دراصل مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ اکثر مقرر کہیں گے کہ یہ آرڈیننس شریعت کے مطابق نہیں ہے‘ اسلام کی روح کے منافی ہے اور اس لیے اسے منسوخ کیا جائے‘ میرے لیے مسئلہ اتنا دقیق نہ تھا۔ سیدھی بات تھی۔ شریعت آرڈیننس‘ حدود آرڈیننس‘ یا قانون شہادت(Law of Evidence)شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں‘ یہ سارے قانون اقوام متحدہ کے اعلان نامہء انسانی حقوق (Declaration of Human rights) اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق پر قائم کردہ کمیٹی کے منشور Charters) میثاق(Covenants) اور عہد ناموں (Protocals)کے خلاف ہیں اور چوں کہ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہے لہٰذا یہاں مذکورہ بالا شریعت وغیرہ کے قوانین نافذ نہیں کیے جاسکتے۔ میں نے اسلم اظہر سے کہا کہ کراچی میں بارش کے بعد مجھے زکام اور کھانسی ہوگئی ہے اور میں تسلسل سے بول نہیں سکوں گا۔ اس نے کہا کہ آپ بولیں یا خاموش رہیں‘ ہر صورت میں آپ کی موجودگی ضروری ہے۔ مجھے یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ کس طرح ترقی پسند ہر آدمی سے کام لینا جانتے ہیں!۔
1970میں سارتر (Sartre) اور سیمون دی بیور(Simon De Beauvoir) فرانس کی سیاست میں کوئی مرکزی حیثیت نہ رکھتے تھے‘ پھر بھی نہ صرف وہ بائیں بازو والوں کے اخبار) La Cause de people عوام کا مقدمہ) کے مدیر بنائے گئے تھے بل کہ اس کے پرچے پیرس کے چوراہوں پر بیچنے کے لیے بھی آمادہ کیے گئے تھے اور یہ پرچے تقسیم کرتے ہوئے ان کے فوٹو گراف بھی لیے گئے جو نہ صرف اخبارات میں شائع ہوئے بل کہ نوجوانوں میں جوش و خروش پید اکرنے کے لیے ان میں تقسیم بھی کیے گئے تھے۔ میں نے وہ فوٹو گراف کسی کتاب میں دیکھے ہیں‘ جن میں ورم زدہ بوڑھی سیمون کے ہاتھ میں اخبارات ہیں‘ دبلا اور بوڑھا سارتر اس کے پہلومیں کھڑا ہے۔ فوٹو دیکھ کر مجھے ہنسی آئی تھی اور ان کے لیے بے انتہا عزت بھی پیدا ہوئی تھی‘ پیرانہ سالی میں جوانی کا ساتھ دینے کا یہ بہترین طریقہ ہے نوجوانوں کی پکار پر زندگی کو بدلنے کے لیے پیرس کے دانشوروں کا یہ ساتھ، ان کے لیے دل میں عزت ہی پیدا کر سکتا ہے۔
میں چاہتا تو سوویت ادب پر دوتین سوصفحات لکھ سکتا تھا مگر کتاب بہت ضخیم ہوجاتی اس لیے اختصار سے کام لیا اور سرسری نظر ڈالی ہے تاہم سولزے نٹسن پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے کیوں کہ وہی مزاہمت کی بڑی سے بڑی زندہ نشانی ہے۔
میں بھی عمر کے اس موڑ پر سارتر اور سیمون کی طرح اپنا زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے میں گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ وہی میرا دنیا کو بدلنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ اور میں اسی طرح اپنی بات زیادہ موثر طور پر پیش کر سکتا ہوں،مگر میں نوجوانوں سے اپنا طبعی ساتھ بالکل توڑنا بھی نہیں چاہتا اور کبھی کبھی ان کی صحبت میں رہ کر دنیا کو ان کی آنکھوں سے دیکھ کر اپنا دیدہ و دل تازہ کرنا چاہتا ہوں۔
آج 28 تاریخ ہے، صبح ہی سے تیز ہوا کے ساتھ بارش بھی خوب برس رہی تھی۔ پانی نالوں کی طرح بہہ رہا تھا ۔ہوری بیمار تھی اس لیے اس نے اپنے دیور کو بھیجا کہ مجھے کار میں پریس کلب لے جائے وہ سہ پہرساڑھے تین بجے پہنچا،بارش اب بھی زور دار برس رہی تھی۔ جب ہم پریس کلب پہنچے تب بھی بارش ہو رہی تھی۔ نہ صرف احاطے میں رکھی ہوئی کرسیاں گیلی ہو گئیں تھیں بل کہ ان کے اوپر تنا ہوا ٹینٹ ہر جگہ سے ٹپک رہا تھا۔ اسلم اظہر اور اس کی بیوی نسرین ٹینٹ کے نیچے کھڑے تھے۔ میرا استقبال کر کے انھوں نے مجھے ایک کرسی پیش کی۔ نسرین نے کہا کہ اگر میں تقریر نہ کرنا چاہوں تو اپنی کوئی نظم پڑھوں۔ مگر میں نے اس سے کہا ’’میرا گلا خراب ہے میں کچھ بھی کروں گا تو کھانسی ہوگی‘‘ پریس کلب کا ہال کسی ا ور میٹنگ کے لیے چار بجے سے مخصوص کررکھا تھا۔ یوں بھی اس چھوٹے ہال میں آئے ہوئے سب لوگ سما نہیں سکتے تھے۔ ویسے تو شاید بے نظیر بھی آتیں مگر عین اسی وقت کسی ہوٹل میں انھیں انسانی حقوق کے لیے آسٹریا حکومت کی جانب سے برونو کرسکی ایوارڈ (Bruno Kiriesky Award) دینے کی کوئی تقریب ہو رہی تھی۔ تاہم کچھ اور سیاسی لیڈروں کو آنا تھا۔ اتنے میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دراب پٹیل، جس نے بھٹو صاحب کے متعلق اختلافی فیصلہ (Dissenting Judgement) دیا تھااور اپنی نوکری گنوا بیٹھے تھے آگئے ، انھیں اسٹیج پر صدارت کے لیے بلایا گیا ان کے بعد مجھے او رکچھ دیگر شخصیات سے کہا گیا کہ اسٹیج پر تشریف لائیں اسٹیج پر دیگر مدعوئین میں، کوئٹہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین، قومی محاذ آزادی کے چیئرمین معراج محمد خان، جو ابھی حال ہی میں جی ایم سید کے سندھ نیشنل الائنس میں شامل ہوئے ہیں، پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے نمائندے جام ساقی، جس نے ابھی حال ہی میں جی ایم سید سے اس لیے احتجاج کیاہے کہ الائنس کے دو ممبر محمد ہارون اور الٰہی بخش سومرو، مرکزی وزیر مقرر ہوئے تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کی این پی پی کے اہم رکن کمال اظفر،عاصمہ جہانگیر،اعتزاز احسن ،افتخار جیلانی(کذا)،اسلم اظہر، نسرین اظہر اور زہرا داؤدی، سب نے آرڈیننس اورجنرل ضیاء الحق کے خلاف نہایت سخت تقریریں کیں۔ انھوں نے نہ صرف پاکستان میں ہندو ،مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی وغیر کے لیے برابری کے حقوق پر زور دیا بل کہ کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ فرض کریں کہ شریعت میںیہ قوانین ہیں تب بھی انھیں یہ قبول نہیں کیوں کہ یہ ا قوام متحدہ کے تسلیم شدہ حقوق کے خلاف تھے۔ یہ بھی بار بار دہرایا گیا کہ ’’خواتین ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں اور کوئی بھی صاحب بصیرت آدمی اس موضوع پر ملاؤں کے خیالات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔برسات کے باوجودپنڈال میں ہزار کے قریب خواتین اور مرد جمع ہوئے تھے۔ جلسے میں کئی اشتہار تقسیم کیے گئے جن میں ایک حال ہی میں گلگت بلتستان میں ڈھائے گئے مظالم پرمبنی تھا‘ گلگت بلتستان کی عوام پر افغان مجاہدین نے بڑے ظلم کیے تھے۔ افغان مجاہدین نے کوشش کی تھی کہ افغانستان کے قریب ایسی جگہ حاصل کریں جہاں سے وہ افغانستان میں جا کر حملہ کر سکیں، مگر گلگت اور بلتستان کی مقامی آبادی نے ان کی مخالفت کی تھی اس لیے گلگت اور بلتستان میں خون ریزی کی گئی تھی جس پر پاکستان کی حکومت نے چشم پوشی کی تھی۔اس سلسلے میں گلگت بلتستان جمہوری محاذ کا رسالہ ’’جمہور‘‘ بھی تقسیم کیا گیا تھا ’’بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ نے بھی ایک اشتہار
“On Shariat and Hudood Ordinance and Politico constitutional Dilemmas of Pakistan.”
تقسیم کیا گیا جس میں جنرل ضیاء الحق کی غیر جمہوری حکومت، ملٹری، بیورو کریسی اور ملاشاہی گٹھ جوڑ اور ملک کے کثیر القومی‘ کثیر الثقافتی‘ اور کثیر المذہبی کردار سے انحراف پر سخت تنقید کی گئی تھی۔’’بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ کا رسالہ ’’سہب‘‘ بھی تقسیم کیا گیا تھا جس میں ہوچی منہ اور قومی جمہوری آزادی پر اچھے خاصے مضامین تھے۔
میں رات کو تقریباً 9 بجے واپس گھر آیابارش اب بھی مسلسل برس رہی ہے۔ چاہتا ہوں کہ آندرے یید(Andre Gide) کی طرح روزنامچے (Journals) لکھوں مگر پہلے‘ 25 جون(جب سے کراچی آیا ہوں) سے آج تک سارا احوال لکھوں۔ اب کچھ بھولنے لگا ہوں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے بہت کچھ بھولتا جارہا ہوں۔
* اسلم اظہر‘ بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان ٹی وی کے ڈائریکٹر جنرل تھا۔ اس نے بلراج ساہنی کی طرح کراچی میں ’’دستک‘‘ کے نام سے پیپلز تھیٹر شروع کیا ہے۔ جرمن ڈرامہ نویس بریخت کے کچھ ڈرامے‘ جس میں اس کا ڈراما گلیلیو بھی شامل ہے۔ اسٹیج پر کیے تھے ۔ وہ بائیں بازو کی تحریکوں میں سرگرمی سے حصہ لیتا ہے اور اس نے نوجوانوں میں کافی شعور پیدا کیا ہے۔ نسرین اسلم اظہر کی بیوی ہے۔
* ہوری ۔مکتبہ دانیال کی مالکہ‘ مرحوم ملک نورانی کی بیٹی ہے۔