گلیوں کے لوگ
ا قبال حسن خان
Publisher:Bazm-e-Takhleeq Adab, PakistanPublishing date: 2012Language: UrduUS:PK:IN: |
اردو زبان میں داستان کی اہمیت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ ناول آتے آتے یہ روایت نسبتاً کمزور پڑ گئی۔ اہم اردو ناول نگاروں میں چند ہی نام ہیں جو انگلیوں کی پوروں پر یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ انہی میں سے ایک اقبال حسن خان ہیں جن کی ناول نگاری میں بہت وسیع امکانات موجود ہیں۔ جب آپ ,,شہزادے کی سرگزشت‘‘،’’آخرِ شب‘‘ اور زیر نظر ناول دیکھتے ہیں تو تینوں کی موضوعات میں خاصا تنوع نظر آتا ہے، جو کہانی کی اٹھان اور بعد میں بنت کے ساتھ ساتھ نبھایا گیا ہے۔ جہاں تک اس ناول میں موجود مختلف زبانیں بولنے والے کرداروں اور ان کے محاورے کا تعلق ہے، تو صاحبو! اس پُلِ صراط پر سے ہمیں اقبال صاحب بخوبی گزرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ ہر کردار ایک جیتا جاگتا، باتیں کرتا ہوا ذی نفس دکھائی دیتا ہے۔ اس ناول کی مجموعی فضا میں آزادیت (مولانا ابوالکلام آزاد کا فلسفہ) جھلکتی نظر آتی ہے، بلکہ کئی مقامات پر تو ان کی جامع مسجد دہلی میں کی گئی تقریر بہت یاد آئی۔ مذہبی اختلافات کو جس طریقے سے اس دور میں ہوا دی گئی اور اس کے نتیجے میں جو مظاہر سامنے آئے، اس ناول نے ان کا بہت خوب صورتی سے احاطہ کیا ہے۔ قاری کا مصنف کی آرا سے اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن ناول کا آہنگ اتنا دل کش اور سادہ ہے کہ وہ اسے مکمل پڑھے اور اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ ’’گلیوں کے لوگ‘‘ ہمارے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی زوال کی ایک ایسی داستان ہے جو Pluralism سے ہوتے ہوئے ایک متشددانہ اور Intolerent معاشرے کی صورت میں آج ہمیں درپیش ہے۔ ہمیں اس نہج پر پہنچانے والے سارے کردار، ملک سرفراز، مولانا عماد الدین، پتن خان وغیرہ کی صورت میں ہمارے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، لیکن اصل میں یہ کہانی شکنتلا، بسم اﷲ جان اور کامریڈ صفدر جیسے گلیوں میں گھومتے پھرتے عام انسانوں کی ہے جن کی حالت زار علامہ اقبال نے اپنے ایک مصرع میں بڑی صراحت سے بیان کر دی ہے کہ اقبال حسن خان کی کہانی لکھنے کی Baptis چوںکہ ٹیلی ویژن سے ہوئی ہے (وہ متعدد کام یاب ٹی وی ڈرامے اور سیریلز تخلیق کر چکے ہیں) اس لیے وہ کہانی لکھتے وقت لکھاری کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ تبھی تو ’’گلیوں کے لوگ‘‘ کا قاری محض قاری نہیں رہتا بلکہ ناظر بھی بن جاتا ہے۔ اس ناول کے پڑھنے کا تجربہ پاکستان کی تاریخ پہ ایک خوبصورت ڈکومینٹری دیکھنے سے کم نہیں ہے اور ڈکومینٹری بھی ایسی کہ جس کی انگریزی میں یوں تعریف کی گئی ہے: It is a creative interpretation of actuality فرانسیسی مصنف تونگی شغیغ (Henri Charriere) اپنی سوانح عمری (Papilon)میں قید تنہائی کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ قید تنہائی کے دوران آدمی جو سوچتا ہے، اسے دیکھ بھی سکتا ہے۔ اقبال حسن کی Visualizationیہ بتاتی ہے کہ اُنہوں نے زندگی کی ’قید تنہائی‘ کاٹ رکھی ہے۔ اسی لیے ان کی منظر نگاری، سرسری نہیں (جو کہ اپنے ارد گرد کو محض دیکھنے سے آتی ہے) بلکہ ایسی ہے کہ جو اپنے اطراف کو محسوس کرنے اور برتنے سے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے ۔ ’’گلیوں کے لوگ‘‘ پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ اب ہمارے لیے آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ ہم چھیاسٹھ سال پیچھے جائیں اور اپنی آزادی کا سفر کا کراچی کے اس ریلوے کلرک سے دوبارہ شروع کریں! تبصرہ کتب’’گلیوں کے لوگ ‘‘:تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ ممتاز رفیق – ا قبال حسن خان کے ناول گلیوں کے لوگ پر ایک تاثراتی تحریر پروفیسر غازی علم الدین ”گلیوں کے لوگ” کا تنقیدی وتجزیاتی اِحصاء
|