لفظوں میں تصویریں
ممتاز حسین
Publisher: Sang-e-Meel PublicationsPublishing date: 2014Language: UrduUS:PK: Sang-e-Meel PublicationsIN: |
تصویر اور تحریر دونوں ہی ممتاز حسین کی شخصیت کا حوالہ ہیں۔ وہ برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔ مصوری اور فلم سازی کے ساتھ ساتھ اُن کا رشتہ تحریر سے بھی جڑا ہے۔ مصوری اور فلم سازی کے شعبوں میں وہ اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کامیابی سے کرچکے ہیں اور اُن کے فن کو امریکا، سوئٹزر لینڈ اور بھارت سمیت مختلف ممالک میں پذیرائی حاصل ہو چکی ہے جب کہ کئی بین الاقوامی اداروں کی جانب سے اُن کی فن کارانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاچکا ہے۔ ممتاز حسین نے فلم سازی کی طرح افسانہ نگاری میں بھی عمومی ڈگر پر چلنے کی بجائے اپنی راہ آپ پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن اُن کے ہاں انفرادیت محض دوسروں سے الگ نظر آنے کے جذبے سے جنم نہیں لیتی بل کہ دراصل یہ اُن کے تخلیقی جوہر اور فن کارانہ صلاحیتوں کی دین ہے۔ اُن کا پہلا مجموعہ ’’گول عینک کے پیچھے‘‘ 2010ء میں شائع ہوا۔ ’’لفظوں میں تصویریں‘‘ اُن کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے اور یہ دونوں ہی کتابیں ’’سنگ میل ‘‘پبلی کیشنز نے شائع کی ہیں۔ زیر نظر مجموعے میں ہر افسانے کے ساتھ اس کے موضوع یا تھیم پر ممتاز حسین کی بنائی گئی پینٹنگز بھی شامل ہیں۔ پینٹنگز اور افسانوں کا تال میل بعض جگہوں پر انتہائی دلچسپ ہے اور پُر قوت تاثر چھوڑتا ہے۔ ’’باکمال ظہور ہم کلام ممتاز‘‘ کے عنوان سے مجموعے میں شامل افسانہ اس کی منفرد مثال ہے۔ ممتاز حسین زندگی اور ادب سے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو عصمت اور منٹو کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں تخلیق کاروں نے حقیقت نگاری کو ذریعہ اظہار بنایا جب کہ ممتاز حسین کے ہاں علامت، تجرید اورفنتاسی کا برتاؤ بھی نظر آتا ہے۔ ممتاز حسین نے افسانے کی ہیئت اور تیکنیک میں لگا بندھا انداز اپنانے کی بجائے تجربات کا راستہ اپنایا ہے ۔ مثلاًمجموعے کا پہلا افسانہ ’’کوّا بھونکتا کیوں ہے؟‘‘ طلسماتی حقیقت نگاری اور فنتاسی کا رنگ لیے ہوئے ہے اور ساتھ ہی اس میں معاشرتی تضادات کو بڑی مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ منٹو ہماری ادبی روایت کے وہ نام ہے، جس نے انسانی جبلت کو بڑی کامیابی سے افسانے کا موضوع بنایا۔ ممتاز حسین نے اپنے ادبی آدرش کو نبھاتے ہوئے کئی ایسے افسانے لکھے ہیں، اُن میں ’’ممتاز‘‘، ’’انار کلی‘‘ اور ’’گونگھا‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ ممتاز حسین فلم سازی سے وابستہ ہیں، اس کے علاوہ کریٹیو رائٹنگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کرچکے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانوں کا اختتام باقاعدہ ’’کلائمکس‘‘ کی صورت میں ہوتا ہے۔ وہ اساطیر کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اوریہ رنگ اُن کے افسانوں میں بھی کہیں مدہم اور کہیں واضح دکھائی دیتا ہے۔ ’’لفظوں میں تصویریں‘‘ میں 16افسانے شامل ہیں ،جن میں ہیئت اور تکنیک کے اعتبار سے خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ توقع ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ افسانوی ادب کے قارئین کے لیے مسحور کُن تجربہ ثابت ہوگا۔ کتاب کی طباعت بھی عمدہ ہے۔ آرزئوں کا موسم ’’آرزئوں کا موسم‘‘ الویرا یاسمین علی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے اُن کا شعری مجموعہ ’’برگِ دل‘‘ کے نام سے شائع ہو کر قارئین سے پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔الویرا کی شاعری میں غم ِدوراں بھی ہے اور غمِ جاناں بھی، مگر اظہارِ غم میں ایک ’’تہذیب‘‘ ہے۔ دراصل یہ تہذیب اُن کی مہذب شخصیت کی غماز ہے۔ وہ اپنے غموں پر دوسری شاعرات کی طرح نہ تو چیختی ہیں او رنہ برہمی کا اظہار کرتی ہیں۔ اُن کے اظہار ِغم میں بھی ایک سلیقہ ہے ،جو اُن کی عمر بھر کی ریاضت کا ثمر ہے۔الویرا علی نے عصر حاضر کے مردانہ معاشرے میں مہذب نسائی جذبات کی، جس طرح پیش کش کی ہے، اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ اگر ہم نے گزشتہ ادوار کی طرح عورتوں کی شعری اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کیا اور اُنھیں محض امور خانہ داری تک محدود رکھا، تو آنے والا زمانہ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔انسانی جذبات و خیالات کو محبتوں اور خلوص کی شکل دی جائے، تو وہ شاعری کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام الویرا یاسمین علی کا ہے، جن کی شاعری دل کی گہرائیوں میں اُتر کر دھیمی دھیمی آنچ دیتی ہے۔ وصل اور فراق کا حسین تضاد اُن کی تمام غزلوں میں عجب سا حسن پیدا کرتا ہے، جو قاری کو اپنی اولین چاہت کی یاد دلاتا ہے۔ موضوعات کا تنوع شاعرہ کی قادرالکلامی ظاہر کر رہا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام بُک ہوم کے چیئرمین رانا عبدالرحمن نے کیا ہے۔ایم سرور نے معیاری پروڈکشن، دیدہ زیب سرورق اور اعلیٰ کاغذ پر شائع کی گئی ہے۔کتاب مارکیٹ میں موجود ہے۔ براہ راست منگوانے کے لیے بُک ہوم بُک سٹریٹ -46 مزنگ روڈ ،لاہورسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ (روزنامہ دنیا- رانا محمد آصف)
تبصرہ کتبالحمرا ،۲۰۱۴ – حسسن اسکری کاظمی Imtiaz Piracha, Dawn, Oct 12, 2014
|