غلام باغ : مرزا اطہر بیگ کا ایک اہم ناول
مرزا اطہر بیگ کے ناول’غلام باغ‘ کی اشاعت اردو فکشن کی تاریخ میں یقیناً ایک اہم واقعہ ہے ۔ جو لوگ اطہر بیگ کی کہانیاں پڑھتے اور ڈرامے دیکھتے رہے ہیں وہ کوئی بارہ برس سے اسکی اشاعت کے منتظر تھے ۔
مصنف نے جب 1994 میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تو مداحوں کا خیال تھا کہ ایک برس کے اندر اندر ناول انکے ہاتھوں میں ہوگا لیکن یہ انتظار پھیلتا ہوا بارہ طویل برسوں پر محیط ہوگیا۔
تاہم اب جبکہ یہ ناول قطع و برید اور ترمیم و تصحیح کے تمام مراحل سے گزر کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا ہے تو اْن کو اپنا یہ انتظار بے ثمر محسوس نہیں ہوا۔
اگر آپ بیسویں صدی کے دوران فکشن میں ہونے والے مختلف النوع تجربات سے آگاہ ہیں تو’غلام باغ‘ کی نثر اور اس کے بیانیے کی بْنت آپکو اجنبی محسوس نہیں ہوگی اور ذرا سا غور کرنے پر آپکو معلوم ہو جائے گا کہ مصنّف نے زبان کی اْن مجبوریوں، پابندیوں اور کم مائیگیوں کے چیلنج کو قبول کیا ہے جو کسی بھی غیر روائیتی فِکر اور نادر طرزِ ادا کے راستے کی دیوار بن سکتی ہیں، اور پھِر روایتی زبان کے سانچے میں رہتے ہوئے غیر روایتی بات کر کے دکھائی ہے ۔
زبان و بیان کا یہ سارا کھیل اپنے جوہر میں لمحہء موجود کو گرفت میں لینے کا کھیل ہے ۔
مرزا اطہر بیگ نے صورتِ حال کو اپنے لئے اِس سے بھی زیادہ پیچیدہ یوں بنا لیا ہے کہ وہ گزرتے وقت میں موجود ایک سے زیادہ اعمال و افعال کو بیک وقت اپنے بیانیئے کی گرفت میں لینے کی سعی کرتے ہیں۔
ہم سب کا روزمرہ تجربہ ہے کہ ہر لمحے ہمارے ارد گرد زندگی کہلانے والے ہنگامہٴ رستخاخیز کے کئی مناظر چل رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً راہ چلتے ہماری جیب سے اگر ایک سکّہ زمین پر جاگرے تو ہم شاید خود کو لعن طعن کریں گے ، سوچیں گے کہ اسے اْٹھانے کے لئے زمین پہ جھکنا چاہیئے یا اس نقصان کا کڑوا گھونٹ بھر کے آگے نکل جانا چاہیئے ۔ اگر ہمارا کوئی ہم سفر بھی ہے تو شاید وہ بھی سِکے کے بارے میں اور خود ہمارے بارے میں کوئی رائے قائم کر رہا ہوگا۔ سڑک کے پار کھڑے ایک بھکاری نے اگر سکّہ گرتے دیکھ لیا ہے تو وہ الگ اس تک رسائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہوگا۔۔۔ لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ہم، ہمارا ہم سفر اور بھکاری جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں یا کر رہے ہیں وہ تمام اعمال بیک وقت سرزد ہو رہے ہیں۔ جبکہ کاغذ پر انکا بیان آگے پیچھے تین الگ الگ اکائیوں میں ظاہر ہوا ہے ۔ کیا بیان کی کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ یہ تینوں اعمال آگے پیچھے آنے کی بجائے اپنی مساوی اہمیت کے ساتھ بیک وقت بیان ہوسکیں؟
مرزا اطہر بیگ کے سامنے یہ سوال ایک چنوتی کی شکل میں موجود ہے اور وہ اس سے کماحقْہ عہدہ برا ہوتے نظر آتے ہیں۔
تاہم اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 878 صفحات کے ضخیم ناول میں مصنف ہر وقت لمحہء موجود کی تتلی کو گرفت میں لینے کی کوشش ہی کرتا رہا ہے ۔ ناول میں اور بھی بہت کچھ ہے ۔
بقول ڈاکٹر سہیل احمد خان ’غلام باغ ایک بہت وسیع دائرے کا ناول ہے ۔ اس کے بیانیئے میں ماضی کی آسیبی پرچھائیاں، حال کی بے ترتیبی اور مستقبل کا الجھاوٴ ایک دوسرے سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔ اس تصادم سے جو شور پیدا ہوتا ہے وہ ہماری موجودہ عصری کیفیت کا شور ہے ۔ نو آبادیاتی دور سے نکلنے کے بعد چاروں طرف سے گھیرتے ہوئے بڑے بڑے جال، اْن میں گرفتار خلقت کا اضطراب اور انتشار اور اس انتشار میں زندگی کی معنویت کی تلاش کی بے سود کاوشیں۔ یہ سب کچھ اس ناول کا ’پوسٹ کولونیل‘ دائرہ متعین کرتا ہے ‘۔
اس ناول میں بیانیے ، کردار نگاری، فلسفہء حیات اور خود فلسفہء فکشن نگاری کی کئی جہتیں موجود ہیں۔
ہم یہاں ناول کے صفحہ نمبر 390 سے کچھ سطور نقل کرتے ہیں۔ یہ سطور اس نیلے رجسٹر میں درج ہیں جو ناول کے ہیرو کبیر مہدی نے اپنے ذاتی نوٹس کے لئے مخصوص کر رکھا ہے ۔ کبیر مہدی کے ذریعے مصنف فکشن نگاری کے معروف ترین ذرائع پر اپنی رائے کچھ یوں دیتا ہے :
’ فکشن کے خالق کو خدا بننے کا اختیار کس نے دیا ہے ؟ اْس کی ہر افسانوی حرکت میں خدا بننے کا دعویٰ چھْپا ہوا ہے ۔ اْسے ایسا عالمِ کْل اور قادرِ مطلق بننے کا حق کس نے دیا ہے ؟ وہ کسی بھی متنفس کے شعورحتیٰ کہ لا شعور کی گہرائیوں میں اْتر کر اْس کے بطونِ ذات کے جملہ اسرار کی خبر لاتا ہے اور پھر زمان و مکان کی قید سے بھی ماورا ہوکر کائنات کے کسی بھی گوشے ، کسی بھی واقعے کی جزئیات بیان کرتا ہے ۔ اگر وہ کسی واحد متکلم کی ذات کو اختیار کرتا ہے تو پھر ٰ میںٰ کی اْس کھڑکی کی راہ سے ، سب کچھ دیکھ لینے کا دعویٰ کرتا ہے ‘۔
بارہ برس کی طویل مدت میں تکمیل پانے والا یہ ضخیم ناول اْردو فکشن کے کھڑے پانی میں ایک بھاری پتھر کی طرح گِرا ہے اور اسکی لہریں دیر تک اور دْور تک ہلچل مچائیں گی۔
سانجھ پبلی کیشنز لاہور کے شائع کردہ اس ناول کی قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے جوکہ کتاب کی صخامت، کاغذ اور جلد بندی کے معیار کو دیکھتے ہوئے بہت کم معلوم ہوتی ہے ۔
مصنف نے جب 1994 میں یہ ناول لکھنا شروع کیا تو مداحوں کا خیال تھا کہ ایک برس کے اندر اندر ناول انکے ہاتھوں میں ہوگا لیکن یہ انتظار پھیلتا ہوا بارہ طویل برسوں پر محیط ہوگیا۔
تاہم اب جبکہ یہ ناول قطع و برید اور ترمیم و تصحیح کے تمام مراحل سے گزر کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا ہے تو اْن کو اپنا یہ انتظار بے ثمر محسوس نہیں ہوا۔
اگر آپ بیسویں صدی کے دوران فکشن میں ہونے والے مختلف النوع تجربات سے آگاہ ہیں تو’غلام باغ‘ کی نثر اور اس کے بیانیے کی بْنت آپکو اجنبی محسوس نہیں ہوگی اور ذرا سا غور کرنے پر آپکو معلوم ہو جائے گا کہ مصنّف نے زبان کی اْن مجبوریوں، پابندیوں اور کم مائیگیوں کے چیلنج کو قبول کیا ہے جو کسی بھی غیر روائیتی فِکر اور نادر طرزِ ادا کے راستے کی دیوار بن سکتی ہیں، اور پھِر روایتی زبان کے سانچے میں رہتے ہوئے غیر روایتی بات کر کے دکھائی ہے ۔
زبان و بیان کا یہ سارا کھیل اپنے جوہر میں لمحہء موجود کو گرفت میں لینے کا کھیل ہے ۔
مرزا اطہر بیگ نے صورتِ حال کو اپنے لئے اِس سے بھی زیادہ پیچیدہ یوں بنا لیا ہے کہ وہ گزرتے وقت میں موجود ایک سے زیادہ اعمال و افعال کو بیک وقت اپنے بیانیئے کی گرفت میں لینے کی سعی کرتے ہیں۔
ہم سب کا روزمرہ تجربہ ہے کہ ہر لمحے ہمارے ارد گرد زندگی کہلانے والے ہنگامہٴ رستخاخیز کے کئی مناظر چل رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً راہ چلتے ہماری جیب سے اگر ایک سکّہ زمین پر جاگرے تو ہم شاید خود کو لعن طعن کریں گے ، سوچیں گے کہ اسے اْٹھانے کے لئے زمین پہ جھکنا چاہیئے یا اس نقصان کا کڑوا گھونٹ بھر کے آگے نکل جانا چاہیئے ۔ اگر ہمارا کوئی ہم سفر بھی ہے تو شاید وہ بھی سِکے کے بارے میں اور خود ہمارے بارے میں کوئی رائے قائم کر رہا ہوگا۔ سڑک کے پار کھڑے ایک بھکاری نے اگر سکّہ گرتے دیکھ لیا ہے تو وہ الگ اس تک رسائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہوگا۔۔۔ لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ہم، ہمارا ہم سفر اور بھکاری جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں یا کر رہے ہیں وہ تمام اعمال بیک وقت سرزد ہو رہے ہیں۔ جبکہ کاغذ پر انکا بیان آگے پیچھے تین الگ الگ اکائیوں میں ظاہر ہوا ہے ۔ کیا بیان کی کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ یہ تینوں اعمال آگے پیچھے آنے کی بجائے اپنی مساوی اہمیت کے ساتھ بیک وقت بیان ہوسکیں؟
مرزا اطہر بیگ کے سامنے یہ سوال ایک چنوتی کی شکل میں موجود ہے اور وہ اس سے کماحقْہ عہدہ برا ہوتے نظر آتے ہیں۔
تاہم اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 878 صفحات کے ضخیم ناول میں مصنف ہر وقت لمحہء موجود کی تتلی کو گرفت میں لینے کی کوشش ہی کرتا رہا ہے ۔ ناول میں اور بھی بہت کچھ ہے ۔
بقول ڈاکٹر سہیل احمد خان ’غلام باغ ایک بہت وسیع دائرے کا ناول ہے ۔ اس کے بیانیئے میں ماضی کی آسیبی پرچھائیاں، حال کی بے ترتیبی اور مستقبل کا الجھاوٴ ایک دوسرے سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔ اس تصادم سے جو شور پیدا ہوتا ہے وہ ہماری موجودہ عصری کیفیت کا شور ہے ۔ نو آبادیاتی دور سے نکلنے کے بعد چاروں طرف سے گھیرتے ہوئے بڑے بڑے جال، اْن میں گرفتار خلقت کا اضطراب اور انتشار اور اس انتشار میں زندگی کی معنویت کی تلاش کی بے سود کاوشیں۔ یہ سب کچھ اس ناول کا ’پوسٹ کولونیل‘ دائرہ متعین کرتا ہے ‘۔
اس ناول میں بیانیے ، کردار نگاری، فلسفہء حیات اور خود فلسفہء فکشن نگاری کی کئی جہتیں موجود ہیں۔
ہم یہاں ناول کے صفحہ نمبر 390 سے کچھ سطور نقل کرتے ہیں۔ یہ سطور اس نیلے رجسٹر میں درج ہیں جو ناول کے ہیرو کبیر مہدی نے اپنے ذاتی نوٹس کے لئے مخصوص کر رکھا ہے ۔ کبیر مہدی کے ذریعے مصنف فکشن نگاری کے معروف ترین ذرائع پر اپنی رائے کچھ یوں دیتا ہے :
’ فکشن کے خالق کو خدا بننے کا اختیار کس نے دیا ہے ؟ اْس کی ہر افسانوی حرکت میں خدا بننے کا دعویٰ چھْپا ہوا ہے ۔ اْسے ایسا عالمِ کْل اور قادرِ مطلق بننے کا حق کس نے دیا ہے ؟ وہ کسی بھی متنفس کے شعورحتیٰ کہ لا شعور کی گہرائیوں میں اْتر کر اْس کے بطونِ ذات کے جملہ اسرار کی خبر لاتا ہے اور پھر زمان و مکان کی قید سے بھی ماورا ہوکر کائنات کے کسی بھی گوشے ، کسی بھی واقعے کی جزئیات بیان کرتا ہے ۔ اگر وہ کسی واحد متکلم کی ذات کو اختیار کرتا ہے تو پھر ٰ میںٰ کی اْس کھڑکی کی راہ سے ، سب کچھ دیکھ لینے کا دعویٰ کرتا ہے ‘۔
بارہ برس کی طویل مدت میں تکمیل پانے والا یہ ضخیم ناول اْردو فکشن کے کھڑے پانی میں ایک بھاری پتھر کی طرح گِرا ہے اور اسکی لہریں دیر تک اور دْور تک ہلچل مچائیں گی۔
سانجھ پبلی کیشنز لاہور کے شائع کردہ اس ناول کی قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے جوکہ کتاب کی صخامت، کاغذ اور جلد بندی کے معیار کو دیکھتے ہوئے بہت کم معلوم ہوتی ہے ۔