منٹو اور چھاتیاں – محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
تم پر کئی گھنٹوں کی جرح اور اُسکے بعد نصف صدی سے بھی زیادہ سوچ بچار کے بعد ہم اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تم عورت کی چھاتیوں کو چھاتیاں کہنے پر کیوں مُصِر ہو۔
تمہارا کہنا ہے کہ میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اُسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا۔ عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا اُسترہ نہیں کہسکتے۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟
منٹو میاں عورت کا وجود فحش نہیں ہے لیکن بہت سے شرفاء کو عورت کی چھاتیوں کے بارے میں پڑھ کر فحش خیالات آتے ہیں۔
میاں کبھی اردو کی وہ شاعری یا نثر پڑھی ہے جو شرفاء نے لکھی ہے؟ اُنہیں تو کبھی چھاتیوں کا ذکر کرتے ہوئے مونگ پھلی، میز یا اُسترے کا سہارا نہیں لینا پڑا۔
انہوں نے تو دیوان کے دیوان مختلف طرح کے پھلوں سے تشبیہات دے کر بھر دیے۔ امرود سے لے کر تربوز تک ہر طرح کی چیز موجود ہے لیکن تم پھر بھی مُصِر ہو کہ چھاتی کو چھاتی ہی کہو گے۔
یہاں اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے گفتگو نہیں ہو سکتی کیوں کہ ہوسکتا ہے اس مضمون کو ہماری مائیں بہنیں بھی پڑھ رہی ہوں۔ وُہ کیا سوچیں گی کہ ہماری اسلامی جمہوریہ کے ججوں کو عورت کے جسم کے بارے میں بحث کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟
سچی بات یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چھاتیاں کسی شریف مسلمان عورت کی ہوں یا کسی آوارہ یہودی عورت کی۔۔۔حتٰی کہ اگر چھاتی کو عورت کے بدن سے کاٹ کر علیحدہ بھی کردیا جائے تو ہمارے لیےتو وہ چھاتی ہی رہے گی اور ہمارے شریف شہریوں کو راہِ راست سے ہٹاتی رہے گی۔
اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ کسی فروٹ کی دکان پر جاؤ، وہاں کھڑے رہو، کھڑے رہو، پھر اپنی کہانی کے پلاٹ، اپنی ہیرؤئن کی جسامت کے مطابق پھل کا انتخاب کرو اور بڑے ادب اور احترام کے ساتھ تشبیہ کے طور پر استعمال کرو۔