دھواں اور “کالی شلوار” کے بارے میں- سعادت حسن منٹو
میں ساقی بک ڈپو دہلی کی مطبوعہ کتاب بعنوان “دھواں ” کا مصنف ہوں ۔ یہ کتاب میں نے 1941 میں جب کہ میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازم تھا، ساقی بک ڈپو کے مالک میاں شاہد احمد صاحب کے پاس غالباً تین یا ساڑھے تین سو روپے میں فروخت کی تھی۔ اس کے جملہ حقوق اشاعت اب ساقی بک ڈپو کے پاس ہیں ۔ اس کتاب کے جو نسخے میں نے عدالت میں دیکھے ہیں ، ان کے ملاحظہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے ۔ چوبیس افسانوں کے اس مجموعے میں جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں، دو افسانے بعنوان “دھواں “، اور “کالی شلوار” استغاثے کے نزدیک عریاں اور فحش ہیں ۔ مجھے اس سے اختلاف ہے، کیوں کہ یہ دونوں کہانیاں عریاں اور فحش نہیں ہیں ۔
کسی ادب پارے کے متعلق ایک روزانہ اخبار کے ایڈیٹر، ایک اشتہار فراہم کرنے والے اور ایک سرکاری مترجم کا فیصلہ صائب نہیں ہو سکتا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ تینوں کسی خاص اثر، کسی خاص غرض کے ماتحت اپنی رائے قائم کر رہے ہوں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں حضرات ایسی رائے دینے کے اہل ہی نہ ہوں ۔ کیوں کہ کسی بڑے شاعر، کسی بڑے افسانہ نگار کے افسانوں پر صرف وہی آدمی تنقید کر سکتا ہے جو تنقید نگاری کے فن کے تمام عواقب و عواطف سے آگاہ ہو۔
استغاثے نے میرے دو افسانوں پر کوئی بصیرت افروز تنقید نہیں کی۔ صرف اتنا کہہ دینے سے کہ یہ دونوں افسانے فحش ہیں، اس آدمی کی جو روشنی کا خواہش مند ہے، جو اپنے عیوب و محاسن جاننا چاہتا ہے اور ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے ، ہر گز ہرگز تسکین نہیں ہوتی۔ میں اگر جواب میں صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو جاؤں کہ یہ دونوں افسانے فحش نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ میں اندھیرے میں اور بھی اضافہ کروں گا۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گا اور جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا، اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں ۔ طریق استعمال ہی ایک ایسی چیز ہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو بھی فحش بنا دیتا ہے ۔ میرا خیال ہے کوئی بھی چیز فحش نہیں ہے ۔ لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہو سکتی ہے، اگر ان کو فحش طریقے پر پیش کیا جائے ۔ چیزیں فحش بنائی جاتی ہیں ، کسی خاص غرض کے ماتحت عورت اور عورت کا رشتہ فحش نہیں، لیکن جب اس رشتے کو چوراسی آسنوں یا جوڑدار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کو غلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناؤنا، مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا۔
فحش اور غیر فحش میں تمیز کرنے کے لیے شاید یہ مثال کام دے سکے ۔ ایک آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے ننگی عورتوں کی بہت سی تصویریں پیش ہوئیں ۔ ان میں سے کسی نے بھی جیسا کہ ظاہر ہے ، دیکھنے والوں کا اخلاق خراب نہ کیا اور نہ ان کے شہوانی جذبات ہی کو ابھارا۔ البتہ ایک تصویر جس میں عورت کا سارا بدن کپڑوں میں مستور تھا اور ایک خاص حصہ اس ترکیب سے نیم عریاں چھوڑدیا گیا تھا کہ دیکھنے والوں کے جذبات میں گدگدی سی ہوتی تھی، فحش قرار دی گئی، کیوں ؟ اس لیے کہ آرٹسٹ کی نیت میں فرق تھا اور اس نے جان بوجھ کر لباس کو کچھ اس طرح اوپر اٹھا دیا تھا کہ دیکھنے والوں کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ جائے اور وہ اپنے تصور سے مدد لے کر اس نیم عریاں حصے کو عریاں دیکھنے کی کوشش کریں ۔
بنگال کی وہ ستم رسیدہ عورت جس کے پاس تن ڈھانپنے کو صرف چند چیتھڑے میسر ہیں، ہرگز عریاں قرار نہیں دی جا سکتی۔ مگر کسی کلب کی وہ تیتری یقینا فحش اور عریاں ہے جو نمائش کی خاطر بلاؤز میں سے اپنے پیٹ اور اپنی چھاتیوں کو باہر جھانکنے کی اجازت دیتی ہے ۔ تحریر و تقریر میں شعر و شاعری میں، سنگ سازی و صنم تراشی میں،فحاشی تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہیے ۔ اگر یہ ترغیب موجود ہے ، اگر اس کی نیت کا ایک شائبہ بھی نظر آ رہا ہے تو وہ تحریر،وہ تقریر، وہ بت قطعی طور پر فحش ہے ۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ ترغیب “دھواں ” میں موجود ہے یا نہیں ؟ آئیے ہم اس افسانے کا تجزیہ کرتے ہیں ۔
مسعود ایک کمسن لڑکا ہے ۔ غالباً دس بارہ برس کا، اس کے جسم میں جنسی بیداری کی پہلی لہر کس طرح پیدا ہوتی ہے، یہ اس افسانے کا موضوع ہے ۔ ایک خاص فضا اور چند خاص چیزوں کا اثر بیان کیا گیا ہے جو مسعود کے جسم میں دھندلے دھندلے خیالات پیدا کرتا ہے، ایسے خیالات جن کا رجحان جنسی بیداری کی طرف ہے ۔ یہ بیداری وہ سمجھ نہیں سکتا، لیکن نیم شعوری طور پر محسوس ضرور کرتا ہے ۔ بے کھال کا بکرا جس میں سے دھواں اٹھتا ہے، سردیوں کا ایک دن جب بادل گھرے ہوتے ہیں اور آدمی سردی کے باوجود ایک میٹھی میٹھی حرارت محسوس کرتا ہے، ہانڈی جس میں سے بھاپ اٹھ رہی ہے، بہن جس کی ٹانگیں وہ دباتا ہے، یہ سب عناصر مل کر مسعود کے بدن میں جنسی بیداری پیدا کرتے ہیں ۔ جوانی کی اس پہلی انگڑائی کو وہ غریب سمجھ نہیں سکتا اور انجام کار اپنی ہاکی اسٹک توڑنے کی ناکام سعی کرتا تھک جاتا ہے ۔ یہ تھکاوٹ اس بے نام سی چنگاری کو اس “کچھ کرنے ” کی تحریک کو دبا دیتی ہے ۔
“دھواں ” میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کیفیت، ایک جذبے، ایک تحریک کا نہایت ہی ہموار نفسیاتی بیان ہے ۔ اصل موضوع سے ہٹ کر اس میں دورازکار باتیں نہیں کی گئیں ۔ اس میں ہمیں کہیں بھی ایسی ترغیب نظر آتی جو قارئین کو شہوانی لذتوں کے دائرے میں لے جائے ۔ اس لیے کہ افسانے کا موضوع “شہوت” نہیں ہے ۔ استغاثہ اگر ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کی کم نظری ہے ۔ خشخاش کے دانے افیم کی گولی بننے تک کافی مرحلے طے کرتے ہیں ۔
میں نے اس کہانی میں کوئی سبق نہیں دیا۔ اخلاقیات پر یہ کوئی لکچر بھی نہیں۔ کیوں کہ میں خود کو نام نہاد ناصح یا معلم اخلاق نہیں سمجھتا۔ البتہ اتنا ضرور سمجھتا ہوں کہ اس لڑکے کو مضطرب کرنے والی چیزیں خارجی تھیں ۔ انسان اپنے اندر کوئی برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ خوبیاں اور برائیاں اس کے دل و دماغ میں باہر سے داخل ہوتی ہیں ۔ بعض ان کی پرورش کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے ۔ میرے نزدیک قصائیوں کی دکانیں فحش ہیں، کیوں کہ ان میں ننگے گوشت کی بہت بدنما اور کھلے طور پر نمائش کی جاتی ہے ۔ میرے نزدیک وہ ماں باپ اپنی اولاد کو جنسی بیداری کا موقع دیتے ہیں، جو دن کو بند کمروں میں کئی کئی گھنٹے اپنی بیوی سے سرد بوانے کا بہانہ لگا کر اس سے ہم بستری کرتے ہیں ۔
ہندوستان میں بچوں کے اندر بہت کمسنی ہی میں جنسی بیداری پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس کی وجہ کسی حد تک آپ کو میرے افسانے کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہے ۔
اتنی چھوٹی عمر میں جنسی بیداری کا پیدا ہونا میرے نزدیک بہت ہی بھونڈی چیز ہے یعنی اگر میں کسی چھوٹے بچے کو جنسیات کی طرف راغب دیکھوں تو مجھے کوفت ہو گی۔ میرے صناعانہ جذبات کو صدمہ پہنچے گا۔ افسانہ نگار اس وقت اپنا قلم اٹھاتا ہے، جب اس کے جذبات کو صدمہ پہنچتا ہے ۔ مجھے یاد نہیں کیوں کہ بہت عرصہ گذر چکا ہے لیکن “دھواں ” لکھنے سے پہلے مجھے کوئی منظر، کوئی اشارہ یا کوئی واقعہ دیکھ کر ضرور ایسا صدمہ پہنچا ہو گا جو افسانہ نگار کے قلم کو حرکت بخشتا ہے ۔
افسانے کا مطالعہ کرنے سے یہ امر اچھی طرح واضح ہو سکتا ہے کہ میں نے اس بے نام سی لذت میں، جو مسعود کو محسوس ہو رہی تھی، خود کو یا قارئین کو کہیں شریک نہیں کیا۔ یہ ایک اچھے فنکار کے قلم کی خوبی ہے ۔ اس افسانے میں سے میں چند سطور پیش کرتا ہوں، جن سے افسانہ نگار کے غایت درجہ محتاط ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔ اس نے کہیں بھی مسعود کے دماغ میں شہوانی خیالات کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا، ایسی لغزش افسانے کا ستیا ناس کر دیتی:
(1) مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہوا، جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ (2) کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں ۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازی گر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا بھی اسی طرح پھسلتا ہو گا۔ (3) بکرے کے گرم گرم کوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا، کلثوم کو اگر ذبح کیا جائے تو کھال اترنے پر کیا اس کے گوشت میں سے دھواں نکلے گا۔ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اسی طرح صاف کر دیا جس طرح وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔
خط کشیدہ الفاظ اس بات کے ضامن ہیں کہ مسعود کا ذہن کہیں بھی شہوت میں ملوث نہیں ہوا۔ وہ اپنی بہن کی کمر دباتا ہے جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں ۔ ٹانگیں دباتا ہے تو اس کا خیال بازی گر کی طرف چلا جاتا ہے جس کا تماشا اس نے ایک بار اپنے اسکول میں دیکھا تھا اور جب سوچتا ہے کہ اس کی بہن ذبح کر دی جائے تو کیا اس کے گوشت میں سے دھواں نکلے گا تو فوراً اسے بری بات سمجھ کر اپنے دماغ سے نکال دیتا ہے اور خود کو مجرم سمجھتا ہے ۔
خدا جانے استغاثہ اس افسانے کو فحش کیوں کہتا ہے جس میں فحاشی کا شائبہ تک موجود نہیں ۔ اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چا ہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا، عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا استرا نہیں کہہ سکتے ۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے ؟ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کو بکری کا ایک معصوم بچہ ہی معصیت کی طرف لے جاتا ہے ۔ دنیا میں ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو مقدس کتابوں سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں اور ایسے انسان بھی آپ کو مل جائیں گے، لوہے کی مشینیں جن کے جسم میں شہوت کی حرارت پیدا کر دیتی ہیں، مگر لوہے کی ان مشینوں کا جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کوئی قصور نہیں ۔ اسی طرح نہ بکری کے معصوم بچے کا اور نہ مقدس کتابوں کا۔ ایک مریض جسم، ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے ۔ جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انھی کے لیے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے ۔
میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لیے ہیں ۔ نارمل انسانوں کے لیے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے ۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ جو کسی ادب پارے کو ایک ہی دفعہ میں نگل نہیں جاتے ۔ روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمے اچھی طرح چبا کر کھاؤ۔ لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے
پڑھنے کے لیے بھی یہ اصول ہے کہ ہر لفظ کو، ہر سطر کو، ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمھارے دماغ میں پیدا ہو گا، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے اچھی طرح ہضم ہو سکے ۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے، جس کے لیے تم لکھنے والے کو ذمے دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی، تمھاری بدہضمی کی ذمے دار کیسے ہو سکتی ہے ؟
میں ایک مثال سے اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔ فرانس میں ایک بہت بڑا افسانہ نگار موپساں گذرا ہے، جنسیات اس کا محبوب موضوع تھا۔ بڑے بڑے ڈاکٹر وں اور ماہرین نفسیات نے اس کے افسانوں کا اپنی علمی کتابوں میں حوالہ دیا ہے ۔ اپنے ایک افسانے میں وہ ایک لڑکے اور لڑکی کی داستان بیان کرتا ہے جو بے حد الہڑتھے
پہلی رات کے متعلق دونوں نے سنی سنائی باتوں سے ایک عجیب و غریب تصویر اپنے ذہن میں کھینچ رکھی تھی۔ دونوں اس خیال سے کپکپا رہے تھے کہ خدا معلوم کتنی بڑی لذت ان کو پہلی رات کے ملاپ سے ملے گی۔ دونوں کی شادی ہو گئی۔ دولہا ماہ غسل منانے کی خاطر دلہن کو ایک ہوٹل میں لے گیا۔ وہاں پہلی رات کو”اس رات کو” جس میں دونوں کے خیال میں شاید فرشتے اتر کر ان کو لوریاں دینے والے تھے،دولہا اور دلہن ہم بستر ہو گئے ۔ دونوں لیٹے تھے اور بس۔ دلہن نے شامت اعمال سے اتنا کہہ دیا “بس۔ کیا یہی ہماری پہلی رات تھی، جس کے ہم دونوں اتنے شیریں خواب دیکھا کرتے تھے ؟” دولہا کو یہ بات کھا گئی، آخر مرد ہی تو تھا۔ اس نے سوچا یہ میری مردانگی پر حملہ ہے ۔ چنانچہ اس کی مردانگی بالکل ہی ختم ہو گئی۔ عرق ندامت میں غرق وہ حجرۂ عروسی سے باہر نکل گیا، اس غرض سے کہ اپنی زندگی کسی دریا کے سپرد کر دے ۔ عین اس وقت جب یہ نیا نویلا دولہا اس خطرناک فیصلے پر پہنچا، فرانس کی ایک کسبی، ویشیا پاس سے گذری جو غالباً گاہک تلاش کر رہی تھی۔ اس عصمت باختہ عورت نے اس کو اشارہ کیا۔ دولہا نے محض انتقام لینے کے لیے ساری عورت ذات سے بدلہ لینے کے لیے اس کو اشارے کا جواب دیا، کہ ہاں میں تیار ہوں ۔ وہ ٹکھیائی اسے اپنے گھر میں لے گئی۔ اس کے غلیظ گھر میں دولہا وہ کام کرنے میں کامیاب ہو گیا جو وہ اپنے نفیس ہوٹل کے حجرۂ عروسی میں نہ کر سکا تھا۔ اب وہ ویشیا کو بھول گیا۔ دوڑا دوڑا اپنی نئی بیاہتا بیوی کے پاس پہنچا، جیسے اسے اپنی کھوئی ہوئی دولت مل گئی ہو۔ دونوں پاس لیٹے تھے مگر اب اس کی بیوی کو وہ شیریں خواب دیکھنے کی خواہش باقی نہیں تھی جس کا اس نے پہلے گلہ کیا تھا۔
یہ افسانہ پڑھ کر اگر کوئی شخص جو پہلی رات کو ناکام رہا ہو، سیدھا ویشیا کے کوٹھے کا رخ کرے تو میں سمجھتا ہوں اس جیسا چغد اور کوئی نہیں ہو گا۔ میرے ایک دوست نے یہی بے وقوفی کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے اپنا کھویا ہوا وقار تو مل گیا پر اس کے ساتھ ہی ایک مکروہ مرض چمٹ گیا جس کے علاج کے لیے اسے کافی سے زیادہ زحمت اٹھانا پڑی۔
پچھلے دنوں میں نے آل انڈیا ریڈیو بمبئی سے ایک تقریر نشر کی تھی۔ جس میں ، میں نے کہا تھا، ادب ایک فرد کی اپنی زندگی کی تصویر نہیں ۔ جب کوئی ادیب قلم اٹھاتا ہے تو وہ اپنے گھریلو معاملات کا روزنامچہ پیش نہیں کرتا۔ اپنی ذاتی خواہشوں، خوشیوں، رنجشوں ، بیماریوں اور تندرستیوں کا ذکر نہیں کرتا۔ اس کی قلمی تصویروں میں بہت ممکن ہے،آنسو اس کی دکھی بہن کے ہوں، مسکراہٹیں آپ کی ہوں، قہقہے ایک خستہ حال مزدور کے ۔ اس لیے اپنی مسکراہٹوں ، اپنے آنسوؤں اور اپنے قہقہوں کی ترازو میں ان تصویروں کو تولنا بہت بڑی غلطی ہے ۔ ہر ادب پارہ ایک خاص فضا، ایک خاص اثر، ایک خاص مقصد کے لیے پیدا ہوتا ہے ۔ اگر اس میں یہ خاص فضا، یہ خاص اثر اور یہ خاص مقصد محسوس نہ کیا جائے تو یہ ایک بے جان لاش رہ جائے گی۔
میں ایک زمانے سے لکھ رہا ہوں ۔ گیارہ کتابوں کا مصنف و مؤلف ہوں ۔ آل انڈیا ریڈیو کے تقریباً ہر اسٹیشن سے میرے ڈرامے اور فیچر براڈ کاسٹ ہوتے رہتے ہیں ۔ ان کی تعداد سو سے اوپر ہے ۔ میں تحریر و تصنیف کے جملہ آداب سے واقف ہوں ۔ میرے قلم سے بے ادبی شاذ و نادر ہو سکتی ہے ۔ میں فحش نگار نہیں ہوں ۔ افسانہ نگا رہوں ۔
دوسرے افسانے “کالی شلوار” کے متعلق میں نے اس لیے کچھ نہیں کہا کہ وہ لا ہور کی سیشن کورٹ میں فحاشی سے بری قرار دیا جا چکا ہے ۔
[“لذت سنگ”، نیا ادارہ، لا ہور 1950]