مزدوری از سعادت حسن منٹو
لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا، اس گرمی میں اضافہ ہو گیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔
ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اٹھائے خوش خوش گاتا جا رہا تھا۔ “جب تم ہی گئے پردیس لگا کر ٹھیس او پیتم پیارا، دنیا میں کون ہمارا۔”
ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جا رہا تھا، ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی سے گر پڑی۔ لڑکا اسے اٹھانے کیلئے جھکا تو ایک آدمی نے، جس نے سر پر سلائی مشین اٹھائی ہوئی تھی، اس سے کہا۔ “رہنے دے بیٹا رہنے دے۔ اپنے آپ بھن جائیں گے۔”
بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھرے سے اسکا پیٹ چاک کیا ۔۔۔۔ آنتوں کی بجائے شکر، سفید سفید دانوں والی شکر ابل کر باہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہو گئے اور اپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا اس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا اور مٹھیاں بھر بھر اس میں ڈالنے لگا۔
“ہٹ جاؤ ۔۔۔۔۔۔ ہٹ جاؤ” ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔
اونچے مکان کی کھڑکی میں سے ململ کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا۔ شعلے کی زبان نے ہولے سے اسے چاٹا ۔۔۔۔۔۔۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔
“پوں پوں ۔۔۔۔۔ پوں پوں۔” ۔۔۔۔۔۔ موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔
لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدد سے اس کو کھولنا شروع کیا۔
“گو اینڈ گیٹ۔” دودھ کے کئی ٹین دونوں ہاتھوں پر اٹھائے اپنی ٹھوڑی سے ان کو سہارا دیئے ایک آدمی دکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔
بلند آواز آئی۔ “آؤ آؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو ۔۔۔۔۔۔۔ گرمی کا موسم ہے۔” گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ ادا کئے بغیر چل دیا۔
ایک آواز آئی۔ “کوئی آگ بجھانے والوں کو اطلاع دے دے ۔۔۔۔ سارا مال جل جائے گا۔” کسی نے اس مفید مشورے کی طرف توجہ نہ دی۔
لوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا، اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑ تڑ کی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔
پولیس کو بازار خالی نظر آیا۔ لیکن دور دھوئیں میں ملفوف موڑ کے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے ۔۔۔۔۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندر گھس گیا۔ پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔
دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھا کہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری اٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے۔ سیٹیوں کے گلے خشک ہو گئے مگر وہ کشمیری مزدور نہ رکا۔ اس کی پیٹھ پر وزن تھا، معمولی وزن نہیں، ایک بھرئی ہوئی بوری تھی، لیکن وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کچھ ہے ہی نہیں۔
سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آ کر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اسکی پیٹھ پر سے گر پڑی۔ گھبرا کر اس نے اپنے پیچھے آہستہ آہستہ بھاگتے ہوئے سپاہیوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا۔ لیکن ایک ہی جھٹکے سے بوری اٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔
سپاہیوں نے سوجا۔ “جانے دو، جہنم میں جائے۔”
ایک دم لنگڑاتا کشمیری مزدور لڑکھڑایا اور گر پڑا۔ بوری اس کے اوپر آ رہی۔
سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور بوری سمیت لے گئے۔
راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا۔ “حضرت آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے ۔۔۔۔ میں تو غریب آدمی ہوتی ۔۔۔۔۔ چاول کی ایک بوری لیتی ۔۔۔۔۔ گھر میں کھاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔” لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔
تھانے میں بھی کشمیری مزدور نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا۔
“حضرت، دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اٹھاتی ۔۔۔۔۔۔ میں تو فقط ایک چاول کی بوری لیتی ۔۔۔۔۔۔ حضرت، میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔”
جب وہ تھک ہار گیا تو اس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانیدار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ “اچھا حضرت، تم بوری اپنے پاس رکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنی مزدوری مانگتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چار آنے۔”