روحی طاہر کے افسانوی مجموعہ’’ چور لمحہ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے سیدھے سادے بیانیہ انداز میںکہانیاں لکھی ہیں۔ایسی کہانیاں جن میں علامت نہیں،تجرید نہیں،کوئی بل چھل نہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے کسی نفسیاتی تنقید کی بھی ضرورت نہیں،اپنی سادہ کاری کے باوصف یہ کہانیاں دلکش ہیں،افسانوں کی یہ دلکشی ان کے موضوعات کی اہمیت اور توانائی کی وجہ سے ہے۔ ان کہانیوں کے موضوعات معاشرے کے مختلف طبقوں خصوصاََ خواتین اور بالخصوص ورکنگ وومین کی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔موضوعات کی اسی رنگا رنگی اور دل آویزی نے روحی طاہر کے افسانوں میں اثرانگیزی پیدا کی ہے اور ان کے قلم کو اعتبار بخشا ہے۔
’’چور لمحہ‘‘ روحی طاہر کی تیئس(23) کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ربط سے نا آشنا ایک ہی کہانی ہے،یہ عورت کہانی ہے جو دائرے میں گھومتی ہے۔روحی طاہر نے چور لمحہ لکھ کر افسانے کی دنیا میں ایسا اضافہ کیا ہے جس میں نرم و نازک احساس کم اور کانٹوں کی چبھن زیادہ ہے، خوشبو کم اور کڑواہٹ زیادہ ہے۔ ان افسانوں میں چبھتے کانٹے عورت کو حقیقت برداشت کرنے اور مقابلے کی طاقت عطا کرتے ہیں۔
پیشے کے اعتبار سے روحی طاہر ایک وکیل ہیں اس لئے عورت کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے انہوں نے عورت کو ان کے حقوق تک رسائی کی امید دلائی ہے جو وومین ایکٹ2011 میں دئیے گئے ہیں۔دفعات کی زبان میں بات کرنے والی روحی طاہر جب کہانی لکھتے ہوئے کردار تراشی کرتی ہیں تو کردار کے مطابق ماحول بھی تخلیق کرتی ہیں، دفتری ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے وہ مردانہ فرسٹریشن کو بھرپور انداز میں نمایاں کرتی نظر آتی ہیں۔
چور لمحہ، وہ افسانہ ہے جو اس مجموعے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور یہی افسانوی مجموعے کا عنوان بھی ہے۔یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو زنانہ ڈائجسٹ پڑھتی ہے اور ہر خواہش پوری ہونے کے باوجود محبت کی لذت سے نا آشنا رہتی ہے۔شادی کے بندھن میں بندھنے کے باوجود سال ہا سال گزر جاتے ہیں پھر ایک لمحہ اس کی زندگی میں بھی آتا ہے۔ افسانے کی مرکزی کردار پونم کے لئے جو ایک مشرقی عورت ہے وہ لمحہ ایک چور لمحہ بن جاتا ہے۔
روحی طاہر عورت ہے اور چور لمحہ ایک آئینہ ہے جس میں ہر طرف عورت کا عکس نظر آتا ہے مگر یہ عکس دھندلایا ہوا ہے مرد کی خودپرستی اور بدطینتی کی دھند سے۔
’’شہر کا رستہ ‘‘کی کہانی بھی مرد کی بدطینتی سے دھندلائی ہوئی ہے جس کے آئینے میں ہوس ناچتی نظر آتی ہے۔افسانے کا ایک پیرا دیکھیئے؛
’’بابو جی کئی بار اسے سلمیٰ کی مثال دے چکے تھے کہ سلمیٰ کے بڑے افسران سے اچھے تعلقات ہیں اور صائمہ تو سلمیٰ کے مقابلے میں خوبصورت بھی ہے وہ چاہے تو اس کا تبادلہ گھر کے قریب بھی ہو سکتا ہے،اور اس بل پاس کروانے والے کلرک کو مٹھائی بھی نہیں دینی پڑے گی۔ بس بڑے افسر کی نگاہِ کرم چاہیئے پھراس کے کام جادو کی چھڑی سے ہوں گے
اس نے سلمیٰ سے اس کا ریشمی برقعہ مستعار لیا اور بابو کے ساتھ جا کر بس کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔بابونے سلمیٰ کی تنخواہ لانے کی حامی بھرتے ہوئے سلمیٰ کو آنکھ ماری اور بس فراٹے بھرتی شہر روانہ ہو گئی‘‘
’’وش کنیا ‘‘ کردار سازی کے حوالے سے ایک اہم افسانہ ہے۔ ہم جنس پرستی کے حوالے سے سجاول کا کردار تحریر کرتے ہوئے عورت کے قلم سے جس مشاہدے کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ حیران کن ہے۔
افسانوں میں روحی طاہر نے اکثر سوالیہ انداز کا استعمال کیا ہے اس طرح ایک طرف کہانی کا تاثر اور جاذبیت میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب روحی طاہر نے قاری کو افسانے کوسمجھنے میں مدد دی ہے۔
افسانہ، ہمزاد، میں بھی ان کا سوالیہ انداز قاری کو چونکا رہا ہے۔ ’’ کمینی ہنسی‘‘ایک اچھی کہانی ہے ۔ روحی طاہر نے اس کہانی میں درخت کو وقت کے طور پر استعمال کیا ہے، وقت جو ناصح ہے،وقت کے بدلنے سے انسان کے موڈ بھی بدلتے ہیں۔ ’’ہراس منٹ ایکٹ‘‘بیوہ کے حقوق،انسان کے قول و فعل کے تضاد کو اجاگر کرتے افسانے ہیں۔’’گملہ اور گلدان‘‘ کالا کالی کی لعنت کے پس منظرمیں لکھا ہوا افسانہ ہے۔
’’سیڑھیاں ‘‘ غربت سے امارت کی سیڑھیاں چڑھنے والی ماہ جبیں کی داستان ہے جو نجانے کب ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ساتھ ساتھ ایڈز جیسی بیماری کی منزلیں بھی طے کر رہی تھی۔
روحی طاہر نے حقیقی زندگی کی خوشیوں ، حادثوں ،خواہشوں اور پریشانیوں کی سچی تصویریں پینٹ کی ہیں۔ جن کا تعلق ہماری زمین سے ہے، ہمارے اپنے سماج سے ہے،ہمارے اپنے دور سے ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں،سادہ زبان، بے تکلف اظہار اور بے ساختہ اسلوب افسانہ نگار کی پہچان ہے۔ اور میرے خیال میں روحی طاہر کو ایک اچھا کہانی کار ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔