محبت کی کتاب
ایوب خاور
Paperback: 192 pagesPublisher: Ilqa PublicationsPublishing date: 2012Language: UrduUS: AmazonPK: ReadingsIN:UK: |
مغرب کی کلاسیکی روایت میں ڈرامے کو شاعری سے الگ کرنا ممکن نہیں اور مشرقی روایت میں شکنتلا سے لےکر پارسی تھیٹر تک اور بعد میں آغا حشر کے دور تک موسیقی اور شاعری کا ڈرامے کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ چلتے مکالمات کے دوران اچانک کردار اشعار پڑھنے لگتے ہیں یا گیت گانے لگتے ہیں۔۔۔ اور اس مترنم وقفے کے بعد پھر سے کرداروں کی گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ یہی روایت آگے چل کر فلمی گیتوں کا روپ دھار گئی۔ یہ تمام پس منظر اپنی جگہ، لیکن’منظوم ڈرامہ‘ بہر حال ایک الگ صنفِ ادب ہے اور اسے بیسویں صدی میں رواج مِلا جب ریڈیو کے ذریعے ڈرامے کی تفریح گھر گھر پہنچنے لگی۔ مکمل طور پر منظوم ڈرامہ ہماری سٹیج پر رواج نہ پا سکا اور نہ ہی فِلم میں اسکی گنجائش پیدا ہوئی۔ کیفی اعظمی کا لکھا ہوا ہیر رانجھا کا مکمل منظوم سکرپٹ اس سلسلے میں غالباً واحد اِستثناء ہے۔ اردو کے معروف شاعر اور تمثیل کار ایوب خاور نے اب ایک انوکھا تجربہ کیا ہے یعنی شاعری، ڈرامہ نگاری اور ہدایت کاری کے فنون کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے ’محبت کی کتاب‘ تخلیق کی۔ یہ ایک منظوم ڈرامہ تو ہے ہی لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اس میں سٹیج کی ہدایت بھی منظوم کر دی گئی ہیں، گویا کھیل کے تمام تر عمل کو سرتا پا نظم کے رنگ میں ڈبو دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ ایک سیدھی سادی پریم کہانی ہے، لیکن مصنف نے اسے آج کے دہشت بھرے پس منظر میں تحریر کیا ہے، جب ہر طرف بے یقینی کے بادل چھا رہے ہیں اور بم دھماکوں کے جلو میں انسانی زندگی کی قیمت پرِکاہ سے بھی کم ہو چکی ہے۔ یہ سنبل اور ظفر کی کہانی ہے۔ دو معصوم روحیں جو اپنی محبت کو بچاتے ہوئے دہشت گردی کا شکار ہو گئیں۔ کہانی کار نے خود کو آج کے نوجوانوں کی زندگی میں ضم کر کے ایک نئے تجربے اور تازہ احساس سے سناشائی حاصل کی ہے اور یوں لڑکے اور لڑکی کے ساتھ ساتھ ایک تیسرے کردار کے خدوخال بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ تراشے ہیں۔ یہ تیسرا کردار آج کے ہر نوجوان کا ساتھی ہے۔ اُسکی زندگی کا جزوِلاینفک اور اس کے رہن سہن کا اٹوٹ انگ ہے۔ جی ہاں، یہ تیسرا کردار ہے موبائیل فون۔ بظاہر پلاسٹک کی ایک بے جان سی ڈبیا۔ لیکن باطن میں ہر طرح کے جذبات و خیالات کے انبار لیے۔ یہ فون کبھی گہری نیند سوتا ہے اور کبھی ہڑ بڑا کر جاگ اُٹھتا ہے۔ یہ تڑپتا ہے، تلملاتا ہے، سر پٹختا ہے اور پھر بے حس بھی ہو جاتا ہے، لیکن جب مستی میں آتا ہے تو پھر جھومتا ہے، ناچتا ہے، مسکراتا ہے۔ ٰ’سنبل افراز بہت غصے میں اپنا سیل فون کہیں پھینکتی ہے فون ڈریسنگ کے آئینے سے ٹکراتا ہے آنکھ کھُل جاتی ہے آئینے کی اور حیرت سے وہ سنبل کی طرف دیکھتا ہے ۔۔۔ ڈر سا جاتا ہے کہ اب جیسے وہ توڑ ہی دے گی اس کو۔۔۔ مگر ایسا نہ ہوا۔۔۔ اپنے ہی خول میں دُبکا ہوا، سہما ہوا سیل فون اٹھا لیتی ہےٰ‘ کھیل جوں جوں آگے بڑھتا ہے آپکو احساس ہوتا ہے کہ غیر انسانی کرداروں میں صرف فون ہی نہیں بلکہ آئینہ بھی پیش پیش ہے، اور مزید آگے چلیئے تو آپ کو دھوپ، ہوا، شام، چاند اور سمندر بھی انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ سانس لیتے نظر آئیں گے۔ محبت کی اس کتاب میں ظفر اور سُنبل کی کہانی ایک ویلنٹائن ڈے پہ شروع ہوتی ہے اور سال بھر تک دہشت بھری فضا میں منڈلانے کے بعد اگلے ویلنٹائن ڈے پر دم توڑ دیتی ہے۔ دو محبت بھرے معصوم دلوں پر اس ایک برس میں جو جو بیت گیا، وہ صرف اُنھی کی نہیں بلکہ ہزاروں دیگر نوجوانوں کی داستان بھی ہے۔ بھارت کے معروف فلم ساز، کہانی کار اور شاعر گلزار نے کتاب کے پیش لفظ میں اسے تین تہوں والی تخلیق قرار دیا ہے یعنی ایک ایسی تخلیق جس میں شاعری، موسیقی اور ڈرامہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ کتاب کا سرِ ورق ویلنٹائن کی مناسبت سے تیار کیا گیا ہے اور عرصہ دراز کے بعد ایک خوبصورت ٹائیٹل والی کتاب منظرِ عام پر آئی ہے جسے پڑھنے سے پہلے قاری دیر تک اس کے سرِورق کی نقش کاری سے محظوظ ہوتا رہتا ہے جس میں سرخ چھتری تلے مقدر کی سیاہی میں رنگے دو نوجوان سائے قدم بہ قدم اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عارف وقار بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور |