گمشده امیر خسرو- انتظار حسین
امیر خسرو اپنے زمانے میں ایک امیر خسرو تھے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے ایک سے کئی بن گئے۔ جامع اور سالم شخصیتوں کے ساتھ مشکل یہی تو ہوتی ہے کہ تصور میں ان کا اکٹھا سمانا مشکل ہوتا ہے۔ اُدھر آدمی بہت پھیلا ہوا تھا۔ ادھر روز بروز نظر کمزور اور تصور محدود ہوتا جا رہا تھا تو مختلف گروہوں نے بڑے امیر خسرو میں سے اپنے اپنے تصور کے حساب سے اپنی اپنی پسند کے امیر خسرو تراش لیے۔ صوفی امیر خسرو، موسیقار امیر خسرو، فارسی شاعر امیر خسرو مگر ایسے کئی خسرو تراشے جانے کے بعد بھی بہت سا خسرو بچ رہا۔
طہارت پسند مسلمانوں نے اس بچے ہوئے کو شخصیت کا فالتو حصہ جانا اور گم کر دیا۔ مگر خلقت کے حافظہ نے طہارت پسندوں کے ساتھ دشمنی کی۔ اس کے بیچ سے گم ہو جانے والا خسرو خلقت کے درمیان موجود پایا گیا۔ بہت سا کلام غتر بود ہو چکا تھا۔ مگر خلقت نے تھوڑے ہی کو بہت سمجھا اور حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ محققوں نے گمشدہ کلام کو ڈھونڈنے کی بجائے یہ سوال کھڑا کر دیا کہ یہ کلام امیر خسرو کا ہے بھی یا نہیں۔ جواب بالعموم یہ تھا کہ نہیں ہے۔ مگر میری دِقّت یہ ہے کہ میں خلقت کے حافظہ کو محققوں کی تحقیق سے بڑی سچائی جانتا ہوں۔ خلقت کا حافظہ جھوٹ نہیں بولتا، اضافہ اور رنگ آمیزی البتہ کر دیتا ہے۔ اسے اجتماعی حافظہ کا تخلیقی عمل کہہ لیجیے۔ اس عمل میں شکلیں مسخ نہیں ہوتیں، نکھر آتی ہیں۔
اور جاننا چاہیے کہ شاعر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شاعر وہ ہوتا ہے جو تخلیقی جوہر پرتن تنہا شاعری کرتا ہے۔ دوسرا شاعر وہ ہوتا ہے جو اجتماعی حافظہ کو شریک بناکر تخلیق کرتا ہے۔ امیر خسرو کی ذات میں یہ دو شاعر اکٹھے ہو گئے تھے۔ عجمی امیر خسرو اپنے تخلیقی جوہر کے زورپر تن تنہا شاعری کر رہا تھا اور دلّی کے دربار سے شیراز تک مار کر رہا تھا۔ دیسی امیر خسرو خلقت کے حافظہ کو شریک بناکر تخلیق کر رہا تھا اور برصغیر کی وسعتوں اور پہنائیوں میں سرایت کر رہا تھا۔ مگر میں نے غلط کہا۔ امیر خسرو دو نہیں تھے، ایک تھا، جو دو سطحوں پر کارفرما تھا۔
’غرۃ الکمال‘ کے دیباچہ کے ایک بیان کا سہارا لے کر یہ کہا گیا کہ امیر خسرو نے تو خود ہی اپنے دوہوں، گیتوں کو غیراہم گردانا اور اپنے کلام میں شامل نہیں کیا۔ بس بانگی کے طور پر جہاں تہاں نقل کر دیا۔ یوں ہی سہی پھر کیا ہوا۔ غالب نے بھی تو کہہ دیا تھا کہ میرے اردو کلام کو دفع کرو اور میری فارسی کو دیکھو۔ دوستوں، مداحوں اور ادب کے قاریوں نے کیا ان کا کہا مان لیا۔
چلیے مان لیا کہ امیر خسرو اپنی فارسی شاعری ہی کو وقیع سمجھتے تھے اور اردو کلام کا معاملہ لے دے کے یہ تھا کہ بی جموں نے فرمائش کی تو ہنسی ونسی میں ان کے لیے کچھ کہہ دیا، جھولنے والیاں پیچھے پڑیں توان کے لیے لکھ دیا، کسی بھٹیاری نے باتیں ملائیں تو چلتے چلتے اسے کچھ لکھ کر دے دیا، مگر اس رویے کے ساتھ کتنا کہا جا سکتا تھا۔ سود وسو نہ سہی، ہزار دو ہزار شعر سہی۔ مگر یہی محقق حضرات یہ کہتے ہیں، یہ کلام چار پانچ لاکھ اشعار میں پھیلا ہوا تھا اور اس کے فارسی کلام سے زیادہ تھا۔ وہ کیا شاعر تھا جس نے غیرسنجیدہ اور غیروقیع شاعری اس فراوانی سے کی کہ وہ اس کی سنجیدہ اور وقیع شاعری سے بڑھ گئی۔ مگر یہ دوہا کیا کہتا ہے،
گوری سووے سیج پہ اور مکھ پہ ڈارو کیس
چل خسرو گھر اپنے سانجھ بھئی چوندیس
کیا اس دوہے کو غیر سنجیدہ شاعری کے ذیل میں ڈالیں گے۔ کیا حضرت نظام الدینؒ اولیا کا وصال امیر خسرو کے لیے کوئی سرسری تجربہ تھا۔ حضرت نظام الدینؒ اولیا کی موت امیر خسرو کے لیے ایک جان لیوا واردات بنی جس نے انہیں دنیا ومافیہا سے بےخبر کر دیا اور چھ ماہ کے اندر اندر انہیں خالق حقیقی سے جا ملایا۔ اس واردات کا بےساختہ اور بھرپور اظہار متذکرہ بالا دوہے کی صورت میں ہوا۔ یہ دوہا یہ ثابت کرنے کے لیے بہت کافی ہے کہ امیر خسرو کے لیے یہ زبان اور یہ اسلوب اتنا ہی سنجیدہ ذریعہ اظہار ہے جتنا فارسی غزل یا مثنوی تھی۔ ہاں یہ ممکن ہے جیسا کہ غرّۃ الکمال کے دیباچہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر خسرو کو اپنی اس صورت حال کا پوری طرح احساس نہ ہوا ور یہ ایسی کوئی عجب بات بھی نہیں ہے۔
شاعری، کم از کم بڑی شاعری محض شعور کا معاملہ نہیں ہوتی۔ وہ چھوٹے شاعر ہوتے ہیں جنھیں پوری خبر ہوتی ہے کہ وہ شعر میں کیا کر رہے ہیں۔ بڑا شاعر خبر اور بےخبری کے دوراہے پر ہوتا ہے۔ اسے چھوٹے شاعروں اور عام لوگوں سے زیادہ خبر ہوتی ہے۔ اپنے پورے عہد سے زیادہ اسے خبر ہوتی ہے۔ بس اسے ایک خبر نہیں ہوتی۔ یہ کہ اسے کتنی خبر ہے۔ یہی معاملہ تاریخی عمل کا ہے۔ تاریخی عمل بھی محض شعور کی سطح پر جاری نہیں رہتا۔ وہ اپنے لیے بہت سے پیچیدہ، پراسرار اور ڈھکے چھپے راستے بناتا ہے۔ وہ اپنا کام نکالنے کے لیے جن شخصیتوں کو چنتا ہے، لازم نہیں ہے کہ وہ شخصیتیں اپنے فعل وعمل کے مضمرات سے پوری طرح واقف ہوں۔
امیر خسرو نے فارسی شاعری میں جو کچھ کہا اس کی اہمیت اور معنویت سے وہ اپنے زمانے کے مسلمان اشراف کے ادبی معیارات اور مذاق سخن کے واسطے سے باخبر تھے۔ مگر نئی زبان میں وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اور کر رہے تھے اس کے معنی تو مستقبل میں پوشیدہ تھے۔ امیر خسرو کے صرف باطن کو اس کی خبر تھی۔
چلیے یہ بھی دیکھ لیں کہ وہ کیا تاریخی عمل تھا، جس نے امیر خسرو کو جنم دیا تھا اور اپنا کام نکالنے کے لیے امیر خسرو کو چنا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان اپنے تازہ تازہ تخلیقی جذبے کے ساتھ اس برصغیر میں اپنا اعلان کر رہے تھے۔ ابھی ان کے یہاں کسی خوف نے راہ نہیں پائی تھی۔ اپنے تخلیقی جوہر پر اعتبار تھا۔ اس اعتبار کے ساتھ وہ حکمت ودانائی کی تلاش میں چین تک کا بھی سفر کر سکتے تھے اور اردگرد بکھری ہوئی حکمت کو بھی سمیٹنے اور ہضم کرنے میں دلیر تھے۔ اس دلیرانہ رویے نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو جذب کرنے، پھیلنے اور چھا جانے کی توانائی سے مالا مال تھی۔ امیر خسرو اسی توانائی کا کرشمہ تھے۔
ابھی یہ تہذیب مغلوب ہو جانے کے اندیشہ سے کوسوں دور تھی، ابھی تو وہ سمیٹنے اور سرایت کرنے کے عمل میں مصروف تھی، ابھی مسلمانوں کا طرز احساس کسی ثنویت کا شکار نہیں ہوا تھا اور طہارت پسند مسلمان اور کافر ادا مسلمان دو متحارب طاقتیں بن کر نہیں ابھرے تھے۔ امیر خسرو کو اپنے سارے زہد و اتقا کے باوصف اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی تھی کہ سرسوں کی شاخ پگڑی میں اڑس کر بسنت کا گیت گاتے ہوئے حضرت نظام الدین ؒ اولیا کے حضور حاضر ہوں اور حضرت نظام الدین اولیا کو عقیدت مندوں سے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں تھا کہ بسنت مناؤ اور میلا کرو۔ یہ ہند اسلامی تہذیب کے ظہور کا وقت تھا۔ صوفیۂ چشت اس کی روحانی طاقت تھے۔ امیر خسرو اس کا تخلیقی ثمر تھے۔
امیر خسرو نے فارسی شاعری خوب کی۔ مگر اس پر قانعن نہیں ہوئے۔ انہوں نے گیت کہے، دوہے، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں، دوسخنے، انمل۔ یہ ان کی نئی شاعری تھی، کوئی نمود کرتی ہوئی تہذیب اور کوئی اُبھرتا ہوا تخلیقی جوہر روایت میں مقید ہوکر نہیں رہ سکتا۔ ایک نئے گردوپیش میں نمو کرتی ہوئی یہ تہذیب ورثے میں ملی ہوئی شعری روایت پر قانع نہیں رہ سکتی تھی۔ اس کے تجربے اہلِ عجم کے تجربوں سے مختلف تھے۔ یہ تجربے نیا اظہار مانگتے تھے۔ صحیح ہے کہ امیر خسرو نے اپنی فارسی شاعری میں ان تجربوں کو سمنے کی بہت کوشش کی۔ صحیح ہے کہ انہوں نے اپنی غزل اور مثنوی کو عجمیت کی ڈبیا میں بند کرکے نہیں رکھا۔ یہاں کے رنگوں اور خوشبوؤں کے لیے یہاں کے لفظوں اور لہجوں کے لیے انہوں نے اپنی فارسی غزل اور مثنوی کے سارے دریچے کھول رکھے تھے۔ مگر اصناف کو بہرحال اپنی عجمی روایت کی بھی اطاعت کرنی تھی۔
بس یہیں سے امیر خسرو کو اپنی فارسی شاعری کے ناکافی ہونے کا احساس ہوا اور یہاں سے انہیں بیان میں وسعت کی تلاش ہوئی کہ جو تجربے اس مٹی کی دین ہیں، ان کے اظہار کی گنجائش نکل سکے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے امیر خسرو ایک باغی شاعر کا روپ دھار تے نظر آتے ہیں۔ خالص فارسی سے گزر کر دورنگی زبان میں غزل کہنے کی کوشش اور غزل، مثنوی اور قصیدہ جیسی اصناف سے گزر کر ان گری پڑی اصناف میں اظہار کی کوشش جنہیں فارسی کی ادبی روایت سنجیدہ شعری اصناف ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہ کم وبیش اسی نوع کی بغاوت تھی جو بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہمارے شاعروں نے نظم آزاد اور نظم معرّیٰ کو اپنا کر کی تھی۔ مگر یہ کہ امیر خسرو کی بغاوت زیادہ بڑی اور زیادہ بامعنی بغاوت تھی۔
بات کو سمجھنے کے لیے یوں کہہ لیجیے کہ ہماری شعری روایت میں امیر خسرو، راشد اور میراجی سے بڑے باغی ہوئے ہیں۔ راشد اور میراجی کی نظم آزاد کو اس تہذیب کی سند حاصل تھی جس کا اس وقت کے محکوم ہندوستان پر بہت رعب تھا۔ امیر خسرو نے ہیئت کے جو تجربے کیے اس کا اشارہ انہو ں نے کسی ایذراپاؤنڈ اور کسی ٹی۔ ایس۔ اہلیٹ سے نہیں لیاتھا۔ امیر خسرو اپنے وقت کے خود ہی ایذراپاؤنڈ تھے اور خود ہی ٹی ایس ایلیٹ تھے۔ پھر جن دیسی اصناف پروہ مائل ہوئے، وہ اس عوامی ادبی روایت سے لی گئی تھیں جنہیں ثقہ ادبی مذاق رکھنے والے مسلمان اشراف کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے۔ اس اعتبار سے امیر خسرو کی یہ شاعری ہماری شعری روایت میں پہلی نئی شاعری ہے۔
امیر خسرو کی یہ شاعری دو اعتبارات سے نئی شاعری ہے۔ ایک تو اپنے عہد کے حوالے سے کہ امیر خسرو نے اپنے عہدمیں زندگی کی نئی حقیقتوں اور نئی واردات کے اظہار کے لیے ان اصناف کے حلقہ سے نکل کر، جو مسلمان اشراف میں مروج ومقبول تھیں، دوسری اور بظاہر غیر مستند اور غیرثقہ اصناف کو برتا اور ہیئت کے نت نئے تجربے کیے۔ دوسرے وہ آج کے حوالے سے بھی نئی شاعری ہے۔ وہ اس طرح کہ اس شاعری میں جو طرز احساس ملتا ہے وہ آج کے بیسویں صدی کے طرز احساس سے ہم رشتہ ہے۔ مثلاً انمل کو لے لیجیے۔
خسرو کی انمل اپنے طرز ِ احساس کے اعتبار سے آج کے ABSURD DRAMA کی رشہ دار نظر آتی ہے۔ مغرب کے ادبی ذہن نے بہت منطق اور عقل بگھار نے کے بعد اور حیات وکائنات میں بہت مقصد اور معنی نکالنے کے بعد اس بیسویں صدی میں کہیں جاکر یہ آگاہی حاصل کی کہ انسانی زندگی کا عمل اور کائناتی عمل اتنے بامعنی نہیں ہیں جتنا ہم نے انہیں سمجھا تھا۔ یہاں تو قدم قدم پر لایعنی صورت حال سے پالا پڑتا ہے۔ امیر خسرو ABSURD ڈرامے کی پیدائش سے سات سو برس پہلے یہ آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ اس آگاہی نے ان سے انملیں اور ڈھکوسلے کہلوائے جو انسانی زندگی کی لایعنیت کو گرفت میں لانے کی ایک کوشش ہیں۔
بھادوں پکی پیلی جھڑ جھڑ پڑے کپاس
بی مہترانی دال پکاؤگی یا ننگا سورہوں
مختلف ڈھکوسلوں اور انملوں میں لایعنیت کی مختلف صورتیں اظہار پاتی نظر آتی ہیں، مگر امیر خسرو لایعنی کو بیان کرنے پر قناعت نہیں کرتے۔ وہ لایعنیت کو چھان پھٹک کر معنی تک پہنچتے ہیں،
کھیر پکاتی جتن سے چرخا دیا چلائے
آیا کتّا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجائے
لا پانی پلا
زندگی کے سارے بے معنی پن اور انسانی جدوجہد کی ساری لاحاصلی کو دیکھنے کے بعد کم از کم ایک سچائی نظر آئی اور ایک فعل بامعنی دکھائی دیا۔ لاپانی پلا۔
کہہ مکرنیوں میں امیر خسرو نے ایک کلید دریافت کر لی ہے جس کی مدد سے حیات وکائنات میں ایک معنی دیکھے اور پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں محبت کے واسطے سے چیزیں شناخت ہوتی ہیں اور معنی پاتی ہیں۔ کیا فطرت کے مظاہر اور کیا آدمی کی بنائی ہوئی چیزیں، ابتدا میں ہر چیز کا بیان ساجن کا بیان نظر آتا ہے، پھر وہاں سے پہچان کا راستہ نکلتا ہے اور ہر چیز اپنے اصلی نام کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ اس صوفی شاعر کے لیے معنی کی کلید محبت میں ہے کہ اس واسطے سے یہ بکھری ہوئی اشیا ایک وحدت میں سمٹی ہوئی بھی نظر آتی ہیں اور اپنی ایک الگ پہچان بھی رکھتی ہیں۔
یہ نئی شاعری آج کی نئی شاعری سے ایک معنوں میں مختلف ہے۔ ان معنوں میں کہ امیر خسرو نے روایت کو رد نہیں کیا تھا۔ ان کی بغاوت یہ نہیں تھی کہ انہوں نے غزل، مثنوی اور قصیدے کو رد کرکے ہیئت کے نئے تجربے کرنے کی ٹھانی ہو، ان کی بغاوت یہ تھی کہ وہ روایت میں مقید نہیں رہے۔ انہوں نے فارسی شاعری کی پوری روایت کو قبول کیا، ہضم کیا اور پھر اس سے آگے نکلنے کی اور بیان میں وسعت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ فارسی کا خسرو اور اردو کا خسرو دو خسرو نہیں تھے، وہ ایک خسرو تھا۔ دو خسرو روایت پسندوں کے رد سے وجود میں آئے، جنہوں نے خسرو کی فارسی شاعری کو قبول کیا اور نئی شاعری کو رد کر دیا کہ غائب ہی کر دیا۔
امیر خسرو کے بہت بعد میں ایک شاعر پیدا ہوا تھا غالب، جو رات کو شبِ تار کہتا تھا۔ خسرو وہ شاعر تھا جو رات کو ایک ہی وقت میں شبِ تار بھی کہتا تھا اور رین اندھیری بھی کہتا تھا۔ ایک معنوں میں یہ بھی انمل ہے۔ امیر خسرو اپنے تخلیقی زور سے انمل کو ملا رہے تھے۔ خسرو کے واسطے سے لسانی تضادات ایک نئی ترکیب میں حل ہو رہے تھے۔ ایک نئی زبان بن رہی تھی اور ایک نئی ادبی روایت کا ڈول پڑ رہا تھا۔ آخر جب ایک تہذیب اپنے امتیازی خدوخال کے ساتھ وجود میں آئی تھی تو اسے اہل عجم سے اور اہل ہند سے ہٹ کر اپنی زبان بھی پیدا کرنی تھی اور اپنی ایک ادبی روایت کی بھی تشکیل کرنی تھی۔
مگر یہ تہذیب بہت جلد ایک عجب سانحہ سے دوچار ہو گئی۔ مغلیہ عہد کے عین بیچ طہارت پسند مسلمان اور کافر ادا مسلمان دو متحارب طاقتیں بن کر ابھر آئے اور مسلمانوں کا طرز احساس ایک ثنویت کا شکار ہو گیا۔ ترکیبی عمل تھم گیا۔ تفریق کا عمل شروع ہو گیا۔ امیر خسرو بھی تفریق کی زدمیں آ گئے۔ ان کی فارسی شاعری ان کی نمائندہ شاعری ٹھہری۔ ان کی اردو شاعری کو ہندی کہا اور گم کر دیا۔ گم کرنے والے واقعی بہت کمال کے لوگ نکلے۔ چار پانچ لاکھ اشعار کو گم کر دینا ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے۔ اتنی صفائی تو سفید فام امریکی بھی ریڈ انڈینوں کو صاف کرنے میں نہیں دکھا سکے، وہ کام کیا ہم نے کہ رستم سے نہ ہوگا۔ بقیۃ السیف کلام پر محقق تعینات ہوئے جنہوں نے خسرو کی زبان کو ہندی کہنے پر اصرار کیا اور ہم اس کا امیر خسرو کا کلام ہونے سے انکار کرتے چلے گئے۔ حافظ محمود شیرانی صاحب کی تحقیق کا ایک نمونہ ملا حظہ فرمائیے۔ انہوں نے ایک بیاض سے خسرو کی یہ غزل نقل کی ہے،
جب یار دیکھا نین بھر دل کی گئی چنتا اُتر
ایسا نہیں کوئی عجب راکھے اسے سمجھائے کر
اس پر ٹکڑا لگاتے ہیں، ’’میں نے اس غزل کو یہاں لکھ تو دیا ہے لیکن یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ امیر خسرو اس کے مالک ہیں۔‘‘ یہ وہ مقام ہے جہاں آکر محمود شیرانی صاحب کی تحقیق فیل ہو جاتی ہے۔ خالق باری پر اتنی تحقیق اور بحث اور یہاں بغیر تحقیق وتدقیق کے سیدھا اعلان کہ ہم اسے خسرو کا کلام نہیں مانتے۔ صاحب کیوں نہیں مانتے۔ بس جی ہم نے کہہ دیا کہ ہم نہیں مانتے۔ کوئی دلیل؟ بس ہماراکہا ہماری دلیل ہے۔ اصل بات اب زبان پر آئی۔ تحقیق وحقیق فالتو باتیں تھیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگ یہ ماننا نہیں چاہتے تھے کہ حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ فارسی معلیٰ میں مثنوی شریف اور غزل لطیف لکھنے والے ایسی زبان میں بھی شعر کہہ سکتے تھے جس میں چشم کو نین اور محبوب کو ساجن کہا جاتا تھا۔
امیر خسرو کی زبان کو ہندی کہنے پر اصرار کا ایک جواز یقیناً موجود تھا۔ آخر خسرو کے زمانے میں تو اس زبان کا نام اردو نہیں تھا مگر زبان تو وہی تھی جسے کئی نام دینے کے بعد بالآخر اردو کہا گیا۔ مگر ایسا کیوں ہے کہ اسی مغلیہ عہد میں جس میں مسلمانوں کا طرز احساس ثنویت کا شکار ہوا، اس زبان کی ایک پوری تاریخ کو گم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جلد ہی یہ پروپیگنڈا شروع ہو گیا کہ یہ زبان اصل میں شاہ جہاں کے عہد میں پیدا ہوئی تھی اور پھر اس کے بعد زبان کی تطہیر شروع ہو گئی۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کہا گیا کہ زبان کو صاف کیا جا رہا ہے۔ جس زبان کو صاف کیا جا رہا تھا، وہ امیر خسرو کا محاورہ تھا۔ جس تیز اب سے صاف کیا جا رہا تھا وہ فارسی محاورہ تھا۔ یہ زبان کی صفائی تھی یا صفایا تھا۔
زبانوں کے نام بھی بدل جایا کرتے ہیں اور محاورہ بھی بدلتا رہتاہے اسے ایک تاریخی عمل بھی کہنا چاہیے جس کے تحت یہ تبدیلی ظہور میں آئی۔ لیکن اگر زبان کا نام اردو ہو گیا ہے۔ تو پھر پوری زبان کو اردو کہیے۔ آدھار تیتر آدھار بٹیر کیوں۔ خسرو نے کیا خطا کی ہے کہ زبان کے نئے نام کے ساتھ اسے اس زبان ہی کے حلقہ سے نکال دیا جائے۔ بہرحال اگر امیر خسرو کی اُردو ہندی ہے تو پھر غالب کی اردو فارسی ہے۔
ایک بات امیر خسرو کے الحاقی کلام کے بارے میں۔ اگر چند شعر امیر خسرو کے نہیں ہیں اور وہ ان سے منسوب ہو گئے ہیں تو اس کے معنی کیا ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خلقت کے تصور میں خسرو ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک طرزِ احساس کا نام ہے اور جب ایک دریا زیادہ پھیل جاتا ہے تو چھوٹی موٹی ندیاں اس میں ویسے ہی ضم ہو جاتی ہیں۔ اب محقق لہریں گنتے رہیں اور کہتے رہیں کہ فلاں لہر اس دریا کی نہیں بلکہ فلاں ندی کی ہے۔
خیر گم کرنے والوں نے امیر خسرو کے کلام کو گم کیا، امیر خسرو کے محاورے کو گم کیا، مگر زبان کو گم نہ کر سکے۔ تہذیبیں اور زبانیں اس طرح ختم نہیں ہوا کرتیں۔ تاریخی طاقتوں کا بھی تو اپنا ایک عمل ہوتا ہے۔ افراد اور گروہ اپنے طرز عمل سے اس عمل میں صرف کھنڈت ڈال سکتے ہیں۔ اس کا اتنا نقصان ہوتا ہے کہ ایک تہذیب اور ایک زبان کے تخلیقی امکانات کسی قدر محدود ہو جاتے ہیں، تو بہرحال ایک تاریخی عمل جاری تھا اور اس پر بند نہیں باندھا جا سکتا تھا۔
مغلیہ عہد ہی میں جب امیر خسرو گم ہوئے ہیں تو اردو زبان زور پکڑ گئی۔ امیر خسرو نے ڈور کا سرا جہاں چھوڑا تھا، وہاں سے اس فعال طاقت نے سرا پکڑا اور وہی عمل شروع کر دیا۔ مگر ثنویت زدہ طرز احساس چپکے چپکے اپنا کام کرہا تھا۔ اردو غزل میں رند اور شیخ کے کردار ایک نئی معنویت کے ساتھ ابھرے اور ثنویت زدہ طرز احساس کے ترجمان بن گئے۔ پھر نظیر اکبرآبادی نے زبان کو ایک طرف کھینچا اور ناسخ اور غالب نے دوسری طرف کھینچا، مگر نظیر اکبرآبادی کی تقدیر میں ہار لکھی تھی۔ اردو شاعری میں رات بالآخر شب تار کہلائی اور رین اندھیری متروک ہو گئی۔
ویسے تو غالبؔ نے یہ کہا تھا، لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی، مگر اس صفا پسند شاعر نے اپنی عجمی لطافت کو دیسی کثافت میں ملوث نہیں ہونے دیا۔ آم کو انبہ کہا اور مقطر شاعری کی۔ پھر اردو شاعری کے وہ تذکرہ نگار اور محقق پیدا ہوئے جنہوں نے امیر خسرو کے اردو کلام کو اردو شاعری سے خارج جانا اور گول کر دیا۔ بعد میں آنے والے کبیر جیسے شاعروں کو بھی اردو شاعری سے خارج کرتے چلے گئے۔ نظیر اکبرآبادی کے کلام کو مبتذل اور عامیانہ کہہ کر رد کیا اور اپنے ثقہ تذکروں میں اسے جگہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس سب کچھ کے بعد ۱۸۵۷ء کی قیامت تو گزرنی ہی تھی جو ہنوز برپا ہے۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ میرے لیے امیر خسرو کی فارسی اجنبی ہے اور پروفیسر وزیرالحسن عابدی کو امیر خسرو کی اردو نہیں پچتی۔