M.D. Taseer Ghazals and Poems – ایم ڈی تاثیر – کچھ غزلیں اور نظمیں
غزل
وہ مِلے تو بے تکلُّف، نہ مِلے تو بےاِرادہ
نہ طریقِ آشنائی ، نہ رُسوم ِجام و بادہتِری نِیم کش نِگاہیں ، تِرا زیر ِلب تبسّم
یُونہی اِک ادائےمستی، یُونہی اِک فریبِ سادہوہ کُچھ اِسطرح سےآئے،مُجھےاِسطرح سےدیکھا
مِری آرزو سے کم تر ، مِری تاب سے زیادہیہ دلِیل ِخوش دِلی ہے، مِرے واسطے نہیں ہے!
وہ دَہَن کہ ہےشگفتہ، وہ جَبِیں کہ ہے کُشادہ
وہ قدم قدم پہ لغزِش، وہ نگاہ ِمستِ ساقی
یہ تراشِ زُلفِ سرکش ، یہ کُلاہِ کج نہادہ
سرمایہ داری
ہندو کیا ہیں ؟ مسلم کیا ہیں ؟ جھوٹی ذاتیں پاتیں ہیں
سب دولت کے الجھاؤ ہیں سب دولت کی باتیں ہیں
مندر گرجے اونچے اونچے جگمگ جگمگ کرتے ہیں
اور عبارت کرنے والے بُھوکے ننگے مرتے ہیں
تعمیریں ہیں خیراتیں ہیں حج اور تیرتھ ہوتے ہیں
یوں دامن سے خون کے دھبے دولت والے دھوتے ہیں
مذہب کیا ہیں راہگزار ہیں اک منزل کو جاتے ہیں
پنڈت مُلا آپ بہک کر اوروں کا بہکاتے ہیں
روسی ہیں یا افریقی ہیں ، ہندو یا عیسائی ہیں
دولت کے برچھوں کے زخمی سارے بھائی بھائی ہیں
یہ تعریفیں یہ تقسیمیں سرمائے کی گھاتیں ہیں
گورے کالے سب اس کے ہیں جس کے دن اور راتیں ہیں
مزدُور کا گیت
چکی پیسو ، روٹی کھاؤ
اپنی محنت کا پھل پاؤ
ہندو مسلم سب چھوٹے ہیں
لانیحل ہیں یہ الجھاؤ
ان جھگڑوں میں تم مت آؤ
چکی پیسو ، روٹی کھاؤ !!
حسن کی دنیا حسن کی دولت
عیش و عشرت ناز و نعمت
خسرو اور فرہاد کو دیکھو
لاحاصل ہے عیش میں محنت
خون پسینے پر نہ بہاؤ
چکی پیسو ، روٹی کھاؤ !!
ہندی کا ہو، ہندی آقا
اچھا صاحب ! پھر کیا ہو گا
وہ کیا ہم سے کام نہ لے گا
کام کی جب اجرت ہے پھر کیا ؟
کام کرو اور خوب کماؤ
چکی پیسو ، روٹی کھاؤ !!
نہ ایسے نہ ویسے ہیں
یہ لیڈر بھی ہم ایسے ہیں
ان کو بھی ہے پیٹ کا دھندا
ان کا مقصد بھی پیسے ہیں
ان کی باتوں میں مت آؤ
چکی پیسو ، روٹی کھاؤ !!
کارزار
لمبی لمبی پلکوں کے
گہرے گہرے سائے میں
سنسان فضائیں بستی ہیں
ویران نگاہیں بستی ہیں
لمبی لمبی پلکوں کی
تیکھی تیکھی نوکوں سے
شبنم ہار پروتی ہے
کیا جگمگ جگمگ ہوتی ہے !
گہری گہری پلکوں کی
اونچی اونچی دیواریں
ترچھی ترچھی نظروں کی
اوچھی اوچھی تلواریں
دیواریں گر گر پڑتی ہیں
تلواریں ٹوٹی جاتی ہیں
غزل
تیرے اندازِ تغافل کو حیا سمجھا تھا میں
جورِ پہیم کو بھی اک طرزِ وفا سمجھا تھا میں
تجھ کو اپنی زندگی کا آسرا سمجھا تھا میں
اے فریبِ آرزو تم کیا تھے کیا سمجھا تھا میں
شیوۂ تسلیم تھا مجھ کو مآلِ زندگی
تیری ہر خواہش کو اپنا مدعا سمجھا تھا میں
تشنہ کامانِ محبت کی امنگیں کچھ نہ پوچھ
انتہائے آرزو کو ابتدا سمجھا تھا میں
زلف آوارہ گریباں چاک اے مستِ شباب
تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں
غریبوں کی صدا
غریبوں کی فاقہ کشوں کی صدا ہے
مرے جا رہے ہیں
امیروں کے عیشوں کا انبار سر پر
لدے ہیں زمانے کے افکار سر پر
زمیندار کاندھے پہ سرکار سر پر
مرے جا رہے ہیں
شرابوں کے رسیا امیروں کا کیا ہے
ہنسے جا رہے ہیں
غریبوں کی محنت کی دولت چرا کر
غریبوں کی راحت کی دنیا مٹا کر
محل اپنے غارت گری سے سجا کر
ہنسے جا رہے ہیں
غریبوں نے سمبندھ مل کر کیا ہے
خوشی بڑھ گئی ہے کہ غم بڑھ رہے ہیں
نگاہوں سے آگے قدم بڑھ رہے ہیں
سنبھلنا امیرو کہ ہم بڑھ رہے ہیں
بڑھے جا رہے ہیں
غزل
وہ مِلے تو بے تکلُّف، نہ مِلے تو بےاِرادہ
نہ طریقِ آشنائی ، نہ رُسوم ِجام و بادہ
تِری نِیم کش نِگاہیں ، تِرا زیر ِلب تبسّم
یُونہی اِک ادائےمستی، یُونہی اِک فریبِ سادہ
وہ کُچھ اِسطرح سےآئے،مُجھےاِسطرح سےدیکھا
مِری آرزو سے کم تر ، مِری تاب سے زیادہ
یہ دلِیل ِخوش دِلی ہے، مِرے واسطے نہیں ہے!
وہ دَہَن کہ ہےشگفتہ، وہ جَبِیں کہ ہے کُشادہ
وہ قدم قدم پہ لغزِش، وہ نگاہ ِمستِ ساقی
یہ تراشِ زُلفِ سرکش ، یہ کُلاہِ کج نہادہ
حضورِ یار بھی آنسو نکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کے پہلو نکل ہی آتے ہیں
مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
معاملاتِ من و تُو نکل ہی آتے ہیں
ہزار ہم سخنی ہو ہزار ہم نظری
مقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں
حنائے ناخنِ پا ہو کہ حلقۂ سرِ زلف
چھپاؤ بھی تو یہ جادو نکل ہی آتے ہیں
جنابِ شیخ وضو کے لیے سہی لیکن
کسی بہانے لبِ جوُ نکل ہی آتے ہیں
متاعِ عشق وہ آنسو جو دل میں ڈوب گئے
زمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیں