العاصفہ
حسن منظر
|
’ ہم زمین پر ننگے پاؤں اس طرح چلتے ہیں جیسے زمین ننگے پاؤں چلنے والوں کے لیے بنی ہو۔‘ پچھلے دنوں اردو میں اسی قسم کا ایک ناول شائع ہوا ہے، حسن منظر کا ’العاصفہ‘۔انیس سو چونتیس میں جنم لینے والے حسن منظر کی ابتدائی دور کی ایک معروف کہانی ’چھوٹی سی مرے دل کی تلیّا‘ لاہور سے ’سویرا‘ کے اسی شمارے میں شائع ہوئی تھی جس میں سعادت حسن منٹو کا ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ چھپا تھا۔ اس کے بعد سے نفسیاتی معالج کے طور پر مصروف پیشہ ورانہ زندگی گزارنے کے باوجود وہ کہانیاں متواتر لکھتے آ رہے ہیں۔ یہ ان کا پہلا ناول ہے۔ العاصفہ عربی میں طوفانی ہوا کو کہتے ہیں، اور ناول کے تہذیبی پس منظر اور نفس مضمون کو دیکھتے ہوئے یہ نام بہت موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ناول میں پیش آنے والے واقعات ایک بے نام عرب ملک میں پیش آتے ہیں اور اس ملک کے شہروں کو بھی محض ان کے ناموں کے ابتدائی حروف ’ ک‘ یا ’ن‘ سے شناخت کیا گیا ہے۔ اگرچہ ناول میں بہت سے اشارے موجود ہیں جن کی مدد سے اس ملک کو پہچانا جا سکتا ہے، لیکن اسے نام نہ دے کر حسن منظر نے اپنے ناول کو ایسے متعدد مسلمان ملکوں کا استعارہ بنا دیا ہے جہاں سیاسی جبر اور منافقانہ مذہبیت کا تسلط ہے۔ اس جبر اور منافقت کے ہاتھوں ان معاشروں میں رہنے والوں کی روحیں کس طرح مسخ ہوتی چلی جاتی ہےں اور زندگی کی امنگ ان کے وجود سے کیونکر نچوڑ لی جاتی ہے، اس کا گہرا احساس العاصفہ کے مرکزی کرداروں، نوجوان زید اور اس کی بہن کی زندگیوں کے نشیب و فراز میں سمو دیا گیا ہے۔ العاصفہ کو لکھنے میں معالج کے طور پر حسن منظر کا مختلف معاشروں کا گہرا مشاہدہ تو یقینا نہایت کارآمد ثابت ہوا ہے، لیکن اس ناول کی رمزیت ان رجحانات کو سمجھنے میں بھی بہت مددگار ثابت ہوتی ہے جو پاکستانی معاشرے میں روز بروز زیادہ واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
Hassan Manzar – حسن منظر
|