چراغوں کا دھواں
انتظار حسین
|
انتظار حسین کے بقول ان کے پاس دوسروں کی طرح ہجرت کی مظلومیت کی کوئی ذاتی کہانی نہیں تھی جسے بیان کر کر کے وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ سکتے۔ لہٰذا انہوں نےتقسیم اور ہجرت کے بعد جو کچھ لاہور میں دیکھا، اسے بطور اپنی سوا نح کے بیان کردیا۔ اس طرح یہ ان کی سوانح سے زیادہ دوسروں کی سوانح ہائے حیات ہے۔ ادب کی، ادیبوں کی، ادبی پرچو ں کی اور ادبی تنظیموں کی۔
یہ کتاب تقسیم و ہجرت کے بعد سے لاہور کے ادبی منظر نامے کی تاریخ ہے، کون سا شاعر یا ادیب کہاں سے آیا، کہاں ٹھہرا، کہاں آسرا کیا، کس نے کیا کیا، کون کس کو پیارا تھا، کس کی کس سے ادبی چشمک چل رہی تھی، کس نے کون سا ادبی رسالہ نکالا اور کیسے نکالا۔ اور کس بڑے آدمی کی کیا “چھیڑ “تھی، کیا تکیہ کلام تھا؟ حسن عسکری، منٹو، ناصر کاظمی، مولانا صلاح الدین، شاکر علی، حیات احمد خان، مولانا چراغ حسن حسرت، جو ادیبوں اور کالم نگاروں کی قابلیت کا فیصلہ “طلسم ہوش ربا” پڑھنے یا نا پڑھنے پر کرتے تھے۔ کسی سے اس لیے خوش ہوجاتے تھے کہ اس نے طلسم ہوش ربا پڑھی ہے اور کسی سے اس لیے ناراض کہ اس نے بھی یہ کتاب پڑھی ہے، یعنی ہر ایرا غیرا طلسم ہوش ربا پڑھے ہوئے ہے یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ اس وقت کے معروف اخبار مشرق اور امروز کی داستانیں۔ جن میں چھپنے والے کالموں کی کامیابی کا معیار یہ تھا کہ کیا وہ کالم بھاٹی گیٹ پر پڑھا جاتا ہے، خواہ اشرافیہ اسے پڑھے نہ پڑھے۔ ادبی رسائل و جرائدجیسے ادب لطیف، سویرا، لیل و نہار، خیال، ساقی، آفاق کی ابتداء، عروج اور پھر زوال کی کہانیاں۔ یہ کتاب لاہور میں جنم لینے والی ادبی تنظیموں انجمن ترقی پسند مصنفین، حلقہ ارباب ذوق، تھنکرز فورم اور رائٹرز گلڈ جیسے اداروں اور تنظیموں کی سوانح بھی ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقہ ارباب ذوق کے زوال کے بعد خواتین ادیبوں نے ادب کا پرچم بلند کیا اور خواتین کی ادبی محفلوں یا شب افسانہ کا آغاز ہوا جن میں مرد شاعر و ادیب بھی شریک ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ لاہور میں حجاب امتیاز علی کے “من و سلویٰ” سے شروع ہوا، اسلام آباد میں “سلسلہ” بنا اور کراچی تک جا پہنچا۔ ان محفلوں میں ادب کے ساتھ ساتھ ون ڈش پارٹی اور غیبت میٹنگ بھی برابر کی مقدار میں ہوا کرتی تھی۔ ساتھ ساتھ یہ شاعر و ادیبوں کے نکتہ نظر سے پاکستان کی بھی کہانی ہے۔ ادب پر سیاسی و سماجی واقعات کے کیا اثرات پڑے اور ادیبوں نے کس طرح ان پر رد عمل کیا؟ تقسیم، ہجرت، سیاست پر شب خون، پریس کی پابند آزادیاں، رائٹرز کا راگ درباری، رائٹرز گلڈ کا دورہ مشرقی پاکستان جس کا اے حمید بھی بہت محبت سے ذکر کرتے ہیں۔ کیسے ادیبوں نے ایوب خان کا استقبال کیا اوربشمول قراۃ العین حیدر “تبدیلی” کے حق میں مضامین لکھے۔ 65ء کی جنگ، معاہدہ تاشقند، ادبی کانفرنسیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی۔ لاہور کے چائے خانوں، ریسٹورنٹس اور کلبوں کی تاریخ بھی اس میں آپ کو ملے گی۔ انڈیا کافی ہاؤس، پاک ٹی ہاؤس، میٹرو، لارڈز، اورینٹ، بلو ریسٹورنٹ، اسٹنڈرڈ، شیراز، جہاں ادیبوں اور شاعروں کے اکٹھ ہوا کرتے تھے۔ جہاں شامیں جوان ہوتی تھیں، راتیں جاگتی تھیں اور صبحیں ویران ہوا کرتی تھیں۔ دوسری طرف مال روڈ کی تباہی کا نوحہ بھی آپ کو پڑھنے کو ملےگا۔ کیسے یہ شاندار سڑک برباد ہوئی۔ اردو کے کچھ مخصوص الفاظ بھی پڑھنے کو ملیں گے جو ہم نے اپنی نانی دادی سے سنے تھے لیکن آج کل کہیں سننے میں نہیں آتے، یہ الفاظ یا تو جمیل الدین عالی اور یوسفی صاحب کے ہاں پڑھنے کو ملتے ہیں یا پھر اب انتظار حسین کے ہاں پڑھے ہیں۔ جیسے سنگوانا [سمیٹنا اور ترتیب دینا]، سیل[سیر] سپاٹے، براجے [براجمان کا عامی مترادف]، تتو تھمو، للو چپو [بمعنی خوشامد]، نخالص [خالص سے بھی زیادہ خالص]، لپاڈگی، اوبڑ کھابڑ۔ مجموعی طور پر اک خوبصورت کتاب!
Intizar Hussain(1923-2016) – انتظار حسین
|