لاہور کا جو ذکر کیا – گوپال متل – اقتباسات
گوپال متل
|
اقتباسبلانوشی اور لاابالی پن کی روایت کے نئے وارث عبدالحمید عدم تھے۔ اختر شیرانی کی طرح وہ بھی چلتی پھرتی بوتل تھے۔ طبیعت ان کی انتہائی موزوں تھی۔ بلا کے زودگو تھے اور بہت عمدہ شعر بے تکلفی سے کہہ جاتے تھے۔ شراب سے انہیں بہت تعلق تھا ۔ ہر وقت پیتے تھے، بے تحاشا پیتے تھے لیکن مے ان پر بالعموم کوئی ناگوار اثر نہیں ڈالتی تھی۔ ان کے بہترین اشعار بھی شراب ہی کے موضوع پر ہیں ؎ چل اے غمِ دوراں درِ میخانہ ہے نزدیک آرام سے بیٹھیں گے ذرا بات کریں گے …………… ظلمتوں سے نہ ڈر کہ رستے میں روشنی ہے شراب خانے کی …………… میں میکدے کی راہ سے ہوکر نکل گیا ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا میں شاعروں کے ساتھ بالعموم مے نوشی نہیں کرتا تھا۔ اختر شیرانی کے ساتھ تو ایک دو بار شریکِ جام ہوا بھی لیکن قریبی دوستی اور انتہائی موانست کے باوجود عدمؔ کے ساتھ مے نوشی میں شرکت میں نے کبھی نہیں کی۔ شراب دیکھتے ہی ان پر ایک ایسی وارفتگی طاری ہوجاتی تھی کہ وہ حزم و احتیاط کو بالائے طاق رکھ دیتے تھے۔ میری اپنی زندگی جس نہج پر بسر ہورہی تھی‘ اس میں تھورا بہت رکھ رکھائو ضروری تھا اور کھُل کھیلنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ چناں چہ اپنے اور ان کے درمیان ایک محدود سا فاصلہ میں نے ہمیشہ باقی رکھا۔ انہوں نے بھی اس علم کے باوجود کہ میں زاہدِ خشک نہیں ہوں‘ مجھے اپنے ساتھ پینے کے لیے کبھی مجبور نہیں کیا۔ ایک مرتبہ شراب کے لیے مضطرب تھے اور حصول کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے لیکن گھر پر شراب کی نصف بوتل موجود تھی۔ میں انہیں یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گیا کہ میرے وعدے کو نصف سمجھنا۔ گھر پر مہمان آئے ہوئے ہیں‘ اس لیے شراب لے کر دروازے سے میں باہر نہیں نکل سکتا۔ کھڑکی سے نیچے گرا دوں گا‘ اگر تم اچک لینے میں کامیاب ہوگئے تو تمہاری ورنہ دھرتی کی۔ یہ حادثہ پیش آئے تو شور نہ مچانا اور چپ چاپ چلے آنا۔ عدمؔ خلوص سے وعدہ کرکے میرے ساتھ ہولیے لیکن جیسے ہی میرا ہاتھ باہر نکلا ‘ وہ بے قابو ہوگئے اور زور سے چلائے: ’’متل صاحب ذرا احتیاط سے۔ بوتل ٹوٹ گئی تو میرا دل ٹوٹ جائے گا۔‘‘ ان کی پکار گھر والوں نے بھی سن لی۔ پردہ فاش ہوچکا تھا، اب احتیاط غیر ضروری تھی۔ میں نے کہا:’’ عدمؔ صاحب اب وعدہ نصف نہیں رہا، میں آپ کے لیے بوتل لے کر نیچے آرہا ہوں۔‘‘ شراب وہ ہر ماحول میں پی لیتے تھے اور صحبتِ ناجنس بھی ان پر گراں نہیں گزرتی تھی۔ غالباً اپنی داخلی کیفیات میں وہ اتنے مگن رہتے تھے کہ بیرونی دنیا ان کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی تھی۔ ایک مرتبہ مجھے ایک جگہ لے گئے ۔ منزل ایک حجرۂ تاریک تھا۔ اختر شیرانی وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ان کے علاوہ وہاں کچھ عجیب الخلقت لوگ جمع تھے اور ایک لنگڑا ہارمونیم پر کچھ گا رہا تھا۔ آواز اس کی اتنی بھیانک تھی کہ غالبؔ کا مصرعہ: جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے‘ ایک نئے مفہوم کے ساتھ میرے ذہن میں گونجنے لگا۔ میں دو تین منٹ کے بعد وہاں سے کھسک آیا لیکن بعد میں ان کے ایک دوست نے جس کا نام غالباً قمر تسکین تھا‘ مجھے بتایا کہ عدمؔ اور اخترؔ شیرانی اس حجرۂ تاریک میں اکثر جاتے تھے اور اس عزرائیل صفت مغنی کی موسیقی پر عالمِ سرور میں سر دھنتے تھے۔ ان دونوں کے مزاج میں کوئی ایسی سرشارانہ کیفیت تھی جو زہر کو تریاق بنا دیتی تھی۔ شراب کا گھونٹ اترتے ہی وہ حجرۂ تاریک ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا تھا اور اس کی جگہ چشمِ تصور میں وہ میکدۂ ازل ناچنے لگتا تھا جس میں حافظؔ و خیامؔرقصاں اور غزل خواں ان کے منتظر تھے۔ اخترؔ شیرانی کے لیے تو بعد میں باہر کی دنیا بالکل ہی بے حقیقت ہوگئی تھی اور ان کے ذہنی ہیولوں نے ان کے لیے ٹھوس شکلیں اختیار کرلی تھیں جس سے وہ خواب ہی میں نہیں بلکہ عالمِ بیداری میں بھی ہمکلام رہتے تھے۔ ان دنوں ان کی رہائش ایک گندی بستی کے شکستہ سے کمرے میں تھی۔ میں کبھی کبھی ملنے چلے جاتا تو مجھ سے پوچھتے کیا تمہیں کوئی آواز نہیں آرہی۔ پھر کہتے رات اس نے مجھے پوری غزل لکھوا دی۔ وہ بولتی جارہی تھی اور میں لکھتا جاتا تھا۔ اسے خللِ حو اس کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن یہ خارجی ماحول پر داخلیت کی فتح بھی تو ہے۔
*** فسادات نے انتہائی زور پکڑا تو بھی انکارکلی کا علاقہ محفوظ رہا۔ اس لیے نگینہ بیکری کی محفل برہم نہیں ہوئی۔ انارکلی میں فساد نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے ہندو اور مسلمان دوکانداروں میں سمجھوتہ ہوگیا تھا کہ بازار کو تباہ نہیں ہونے دیا جائے گا چناں چہ جب باقی شہر جل رہا تھا تب بھی انارکلی پر آنچ نہیں آئی۔ کاروبار البتہ یہاں بھی معطل تھا ور کھانے پینے کی اِکا دُکا دکانوں کو چھوڑ کر کوئی دکان کھلی نظر نہ آتی تھی۔ایک دن دوپہر کو میں گھر پر بیٹھا تاش کھیل رہا تھا کہ کسی نے اطلاع دی کہ آتش زنی اور لوٹ مار کا سلسلہ انارکلی میں بھی شروع ہوگیا ہے۔ کچھ غنڈے راجہ برادرز کی دکان کا، جو میرے گھر کے قریب ہی تھی‘ تالا توڑ رہے تھے اور آگ لگانے کی کوشش بھی کی جارہی تھی۔ ان دنوں فائر بریگیڈ اور پولیس کی مدد حاصل کرنا ناممکن نہیں تھا، اس لیے یہ یقینی نظر آتا تھا کہ اگر آگ لگ گئی تو سارا بازار جل کر رہ جائے گا لیکن کراکری کی مشہور دکان بیجابل اینڈ سنزکے مالک کے حکام کی رسی آڑے آگئی۔ اس نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو جو ایک انگریز تھا، براہِ راست ٹیلی فون کر دیا۔ وہ کچھ سپاہیوں کو لے کر جائے واردات پر پہنچا اور اپنے ہاتھ سے مشین گن چلا کر تین فسادیوں کو ہلاک کردیا‘ باقی بھاگ گئے۔ آگ البتہ لگ چکی تھی لیکن یہ بھی پھیلی نہیں اور جو واحد دکان جلی وہ کسی ہندو کی نہیں بلکہ مسلمان کی تھی۔ فسادیوں کی لاشیں اگلے دن بھی بازارہی میں پڑی رہیں‘ شاید لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے۔ تینوں لاشیں نچلے طبقے کے مسلمانوں کی تھیں جو لباس اور وضع قطع سے پیشہ ور غنڈے معلوم ہوتے تھے۔انارکلی کو بچانے میں ایک انگریزی افسر کی تنہا بہادری کو دخل تھا لیکن یہ بات بدستور سنی جاتی رہی کہ فسادات انگریزکرا رہے ہیں۔انارکلی کے دکانداروں کا سمجھوتہ اس واقعے کے بعد بھی برقرار رہا اور خنجر زنی کے اِکا دُکا واقعات کو چھوڑ کر یہاں فساد نہیں ہوا۔ ہندو بہرحال سہمے ہوئے تھے اور اس سکون کو آنے والے طوفان کاپیش خیمہ سمجھ رہے تھے۔ فسادات کی درپردہ تیاریوں کا شبہ ایک مسلمان رئیس کے بیٹوں پر تھا جس کی انارکلی میں کافی جائداد تھی۔ ان میں سے ایک کبھی کبھی نگینہ بیکری میں بھی آیا کرتا تھا۔ اس واقعے کے دو تین بعد ملا تو کہنے لگا: متل صاحب کیوں نہ آج چائے گھر چل کر ہی پئیں۔ میں ساتھ ہولیا۔ ان لوگوں کی کوٹھی بہت بڑی تھی اور خود کا کمرہ اوپر کی منزل پر تھا جہاں پہنچنے کے لیے کئی زینوں کو پار کرنا پڑتا تھا۔کمرے میں پہنچتے ہی کہنے لگا: تم جانتے ہو کہ میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟ میں نے کہا: قتل کرنے کے لیے۔ میرے جواب پر ہنس پڑا اور یہ ہنسی اس کی دلی مسرت کی آئینہ دار تھی۔ کہنے لگا کہ میں خوش ہوں کہ کم از کم ایک ہندو مجھے قاتل نہیں سمجھتا۔ میں تمہیں یہاں آج اس لیے لایا تھا کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کروں۔ یہ بتائوں کہ مجھ پر فساد کی درپردہ تیاریوں کا جو الزام ہے وہ غلط ہے۔انارکلی پرسکون سہی لیکن اندرونِ فصیل قیامت کا عالم تھا اور ہندوئوں کے بازار یکے بعد دیگر جلائے جارہے تھے جب تک ہندوئوں کو یہ خیال رہا کہ لاہور ہندوستان ہی میں رہے گا، وہ وہاں ڈتے رہے لیکن جب لاہور کے بارے میں فیصلہ ہوگیا کہ وہ پاکستان میں جائے گا تو ان کے قدم اکھڑ گئے۔ پھر اونچی سطح پر خواہ مضمر طور پر ہی سہی تبادلۂ آبادی کا فیصلہ بھی ہوگیا اور جانے والوں کے لیے سرکاری ٹرک مہیا کر دیے گئے۔ اب ہندوئوں کے وہاں رہنے کا سوال ہی نہیںتھا۔ میرا اٹھنا بیٹھنا چوں کہ زیادہ تر مسلمانوں میں تھا‘ اس لیے وہ مسلمان جو میرے ذاتی دوست نہیں تھے، مجھے مسلمان ہی سمجھتے تھے جس کے باعث ایک دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ پانچ اگست کو میں نگینہ بیکری میں صبح کا ناشتہ کررہا تھا اور محفل جمی ہوئی تھی کہ یکایک دو تین غنڈہ صورت مسلمان داخل ہوئے اور ہماری میز کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ پھر ہماری گفتگو میں بھی شریک ہوگئے اور اپنے قتل و غارت گری کے کارنامے فاتحانہ انداز میں سنانے لگے ۔ ان میں سے ایک خصوصیت سے میری طرف مخاطب تھا اور ایک گردوارے پر حملے کی روداد سُنا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ گردوارے والوں کے پاس اسلحہ کافی تھی اور وہ اپنے بچائو کے لیے متواتر گولیاں چلاتے رہے لیکن گولیاں آخر ختم ہوگئیں جس کے بعد وہ اور اس کے ساتھی دیوار پھاند کر گردوارے کے اندر گئے اور سکھوں کو ایک ایک کرکے ذبح کر ڈلا۔خدا جانے اس کا باعث میرا اپنے مسلمان دوستوں پر کامل اعتماد تھا یا دیوانگی کی کوئی ترنگ کہ میں نے بتادیا کہ جس شخص کو وہ اپنی روداد سُنا رہا ہے ‘ وہ ایک ہندو ہے۔ اس کا لہجہ فوراً ہی بدل گیا‘ کہنے لگا کہ اگر پرسوں تم سے ملاقات ہوتی تو تمہیں ضرور قتل کردیتا لیکن کل پاکستان قائم ہوگیا ہے۔ اب تم میرے مہمان ہو۔ میرے گھر چلو‘ میں تمہاری تواضع کروں گا اور اگر کوئی تم پر انگلی اٹھائے گا تو اس کا سر کاٹ دوں گا۔ اپنی انٹی سے نکال کر اس نے مجھے کچھ گولیاں بھی دکھائیں‘ کہنے لگا یہ ان میں سے چند گولیاں ہیں جو تمہارے بھائی بند ہم پر چلاتے رہے ہیں
**** Gopal Mittal
|