غلام عباس کے افسانے: حاصل ہے پشیمانی از محمد سلیم الرحمان
غلام عباس ان با کمال فکشن نگاروں میں شامل ہیں جن کے افسانے ہر نئے افسانہ نگار کو ایک مرتبہ غور سے پڑھنے چاہئیں۔ چاہے وہ ان کی طرح حقیقت پسندانہ روش اختیار کرنا چاہتا ہو، چاہے کسی نئے رنگ کو اپنانے کے لیے کوشاں ہو، غلام عباس سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے۔
غلام عباس کی زبان اور بیانیہ قابلِ توجہ ہیں۔ یہاں صفائی اور سادگی سے واسطہ رکھا گیا ہے۔ ان کے ہاں کوئی عبارت آرائی نہیں، کوئی لفظ فالتو معلوم نہیں ہوتا، کوئی واقعہ، چھوٹا یا بڑا، بے قرینہ نہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ساری کہانی کا اوّل، درمیان اور آخر احتیاط سے سوچ کر اور اتنی ہی احتیاط سے قلم بند کر لیا گیا ہے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ افسانہ لکھتے وقت وہ اسے ادلتے بدلتے رہتے ہوں۔ لیکن افسانے جس شکل میں ہم تک پہنچے ہیں، اس سے بے ساختگی کا تاثر ہی اُبھرتا ہے۔
”گوندنی والا تکیہ“ جسے مصنف نے ناولٹ قرار دیا ہے، گو اسے آسانی سے ناول کا درجہ بھی دیا جا سکتا تھا، 1953ء میں قسط وار ”ماہِ نو “ میں شائع ہوتا رہا تھا۔ کتابی صورت میں اس کی عدم دستیابی کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے قارئین کو نیا معلوم ہوگا۔ ” عرض حال “ میں غلام عباس لکھتے ہیں: ”گوندنی والے تکیے کا خیال مدت ہوئی مجھے لاہور میں سوجھا تھا جہاں ایسے تکیے بہ کثرت ہیں یا ہوا کرتے تھے…. انھی دنوں میں نے دو تین بڑے روسی ناول پڑھے تھے۔ خیال ہوا کہ ان کی پیروی میں میں بھی اس موضوع پر کوئی طویل ناول لکھوں۔ مگر افسوس میری ملازمت نے مجھے کبھی اس کا موقع ہی نہ دیا۔“ یہ عذر دل کو نہیں لگتا۔ طویل ناول لکھنے کے لیے فرصت کی نہیں جنون کی ضرورت ہوتی ہے اور غالباً اس طرح کا دیوانہ وار جوش و خروش غلام عباس پر کبھی طاری نہیں ہوا۔
قصے کے راوی نے ملک سے بیس سال باہر رہنے کے بعد اپنے پُرانے قصبے کا رُخ کیا ہے۔ اسے پُرانی یادیں قصبے تک کھینچ کر نہیں لائی ہیں۔ وہاں اس کی کچھ آبائی جائیداد تھی جس میں چند حصے دار اور بھی تھے۔ جائیداد کی فروخت کے سلسلے میں اس کی قصبے میں موجودگی ضروری تھی۔
قصبے کے ہوٹل میں مقیم ہونے کے فوراً بعد وہ اس تکیے کی تلاش میں نکلا جہاں گوندنی کے آٹھ دس درخت تھے اور جس سے اس کی بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کی بہت سی دل آویز یادیں وابستہ تھیں۔ کوشش کے باوجود اسے گوندنی والا تکیہ کہیں نظر نہ آیا اور استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ تکیے کے پُرانے متولی، نگینہ سائیں، کے انتقال کے بعد وہ جگہ اوباشوں کا اڈا بن گئی تھی، بازاری عورتیں وہاں آنے جانے لگی تھیں۔ چنانچہ قصبے کے شرفا نے درخت کٹوا کر وہاں مدرسہ تعمیر کرا دیا تھا۔
مایوس اور اداس ہو کر راوی ہوٹل لوٹ آیا اور جو اچھے دن اس نے پہلے کبھی گزارے تھے انہیں یاد کرنے لگا۔ بیشتر بیانیہ فلیش بیک کی صورت میں ہے۔ تکیہ قصبے میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ وہاں کے چھوٹوں بڑوں کے لیے کلب، سیرگاہ، اکھاڑا، سٹیج، سبھی کچھ تھا۔ وہاں ایک کنواں بھی تھا جہاں لڑکیاں اور عورتیں پانی بھرنے آتی تھیں اور نوجوان عشاق کو دل بہلانے اور آنکھ لڑانے کے مواقع بھی مل جاتے تھے۔
تکیے کو مرکز قرار دے کر غلام عباس نے بیانیے کا جال بُنا ہے۔ کینوس اگرچہ چھوٹا ہے مگر اس کی دل فریبی میں کلام نہیں۔ کردار جان دار اور واقعات پُر اثر ہیں۔ صرف آخر میں، شاید کہانی کو ٹھکانے لگانے کی جلدی میں، قدرے میلو ڈرامائی کیفیت در آئی ہے۔
راوی کی یادوں کا سلسلہ منقطع ہوتے ہی اسے ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے جو بالکل غیر متوقع تھی۔ وہ جب قصبہ چھوڑ کر گیا تھا تو اس سیاحت یا جلاوطنی کے پردے میں دنیا دیکھنے اور آوارہ گردی کا شوق کارفرما تھا۔ اس کے علاوہ جانے سے پہلے وہ ایک ایسا کام سر انجام دے چکا تھا جو اس کے خیال میں انتہائی موزوں تھا۔ لیکن قصہ نتیجہ، ضروی نہیں، منشا کے عین مطابق ہو۔ ولیم بلیک کا قول درست ہے کہ ”دوزخ کو جانے والا راستہ نیک ارادوں سے پٹا ہوا ہے۔“
قصے کو آخر میں جو طرفہ پیچ دیا گیا ہے اس سے موپساں اور اوہنری کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ فلیش بیک میں تکیے کی جو عکاسی ہے اس سے کہیں کہیں چیخوف کی ہنر مندی جھلکتی ہے۔ ان تینوں لکھنے والوں کے مرتبے یکساں نہ سہی، انہیں پڑھ کر بہت سوں نے افسانہ لکھنا سیکھا ہے۔
ناولٹ ختم ہونے پر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ راوی کے اچانک قصبے سے فراز اور بدیس جابسنے کے پیچھے کوئی اور جذبہ چھپا ہوا نہ ہو۔ شاید محبت کرنے اور محبت کو سنبھالنے سے کسی سطح پر خوف زرگی نے اسے اپنا بوجھ کسی اور کے کندھوں پر منتقل کرنے پر اکسایا ہو۔ ذمے داری ہر فرد خوشی سے قبول نہیں کرتا۔ اس طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مصنف کا درپردہ منشا یہی ہو گا۔
گوندنی والا تکیہ از غلام عباس
ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی