محمد عمر میمن …. اور ادیبوں کا شیش محل از محمد سلیم الرحمان
محمد عمر میمن مدت سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ شاید ایک صدی ہونے کو آئی۔ لیکن ٹھیریے۔ بہت سنجیدہ آدمی ہیں۔ بگڑ نہ جائیں۔ کم از کم پچاس برس سے امریکہ میں ٹکے ہوے ہیں۔ اب تو پروفیسر امیریطس بھی ہو گئے۔ اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو میں بہت تراجم کیے۔ اس لحاظ سے اس وقت اردو دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ انتظار حسین، عبداللہ حسین اور نیر مسعود، پر خاص طور پر مہربان رہے۔ پہلے دونوں سے شاکی بھی ہیں۔ سنا ہے کہتے ہیں: ”میں نے ان تینوں کو انگریزی خواں دنیا میں متعارف کرایا لیکن انھوں نے کبھی میرے حق میں کلمہ خیر نہیں کہا۔“ نیر مسعود اب کچھ کہنے سننے کے قابل نہیں رہے۔ گوشہ نشین بلکہ بستر نشین ہو چکے۔ باقی دو حضرات اللہ کو پیارے ہوے۔ میرا خیال نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی نے کبھی، مصر ہو کر، محمد عمر میمن سے کہا ہو کہ ”للّٰہ ہمارے افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ کر دیجیے تاکہ ہمیں زیادہ شہرت حاصل ہو۔“ میمن نے ان کے تراجم کیے تو اپنے شوق سے۔ پھر شکوہ کیسا؟ اردو میں جب افسانہ نگاروں کا ذکر آتا ہے تو عمر میمن کا نام کوئی نہیں لیتا۔ وجہ یہ کہ ان کے افسانوں کا واحد مجموعہ، مدتوں پہلے، چھپا تھا۔ افسانہ نگاری سے وہ تقریباً تائب ہو چکے ہیں۔ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے اکثر حضرات زود فراموش واقع ہوے ہیں۔ کسی کو میمن کا خیال کیوں آئے گا۔
ہاں، ایک کارنامہ ان کا ایسا ہے جس پر واقعی داد ملنی چاہیے اور نہیں ملی۔ انھوں نے جس تواتر سے اینوَل آف اردو سٹڈیز کو شائع کیا اور اس کے معیار کو برقرار رکھا وہ کمال ہے۔ ان لوگوں کے درمیان، جو صرف انگریزی سے شناسا ہیں، اردو ادب کو پیش کرنے کا جو اہتمام عمر میمن نے کیا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان کے سال نامے کو پاکستان اور بھارت میں بالعموم نظر انداز کیا گیا۔ وجہ معلوم نہیں۔ انگریزی سے کم واقفیت، حسد، اپنی اپنی کھال میں مست رہنے کی عادت، شاید بے اعتنائی کے پیچھے یہی عناصر کار فرما ہوں۔
میمن نے انگریزی سے اردو میں ترجمے بھی خاصے کیے ہیں۔ شاید دس پندرہ ناول ترجمہ شدہ ان کے پاس موجود ہیں۔ انھیں شائع کرنے پر بھی کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ بھی معلوم نہیں۔ اب اتفاق سے، جسے اردو قارئین کی خوش قسمتی ہی سمجھنی چاہیے، ان کے تراجم کا سلسلہ، تین جلدوں میں سامنے آیا ہے۔اس میں بین الاقوامی سطح پر مشہور ادیبوں سے کیے گئے انٹرویوز کے تراجم شامل ہیں۔ آخری جلد میں انتظار حسین کا انٹرویو بھی ٹانک دیا ہے۔ انگریزی میں لکھنے والوں سے میمن کو غالباً لگاﺅ نہیں۔ اس لیے صرف ولیم فاکنر، ڈورس لیسنگ، ندین گورڈیمر اور سوزن سونٹاگ کو ان جلدوں میں جگہ مل سکی۔ میلان کنڈیرا کے انٹرویو ہر جلد میں موجود ہیں۔ ارادت مندی ہو تو ایسی۔
یہ تراجم اس اعتبار سے قابل قدر ہیں کہ ان کے ذریعے اردو قارئین کو متعدد سر برآوردہ ادیبوں کے خیالات سے آگاہی کا موقع مل جائے گا۔ میمن انگریزی خوب سمجھتے ہیں۔ اردو بھی اچھی بھلی آتی ہے۔ نثر میں کہیں کہیں غرابت پائی جاتی ہے۔ جو بھی سہی، یہ تین جلدیں نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
جس غرابت کا ذکر آیا وہ کہیں تو جملوں کی ساخت میں نظر آتی ہے اور کہیں لفظوں کے چناﺅ میں۔ تھوڑا بہت ہاتھ غیر محتاط پروف خوانی کا بھی ہوگا۔ مثلاً لائبریری کے بجائے بعض جگہ لاکمنٹریری چھپا ہوا ہے۔ چند لفظ بالکل سمجھ میں نہ آ سکے۔ یہ بھی شاید بے پروائی سے پروف پڑھنے کا نتیجہ ہوگا۔ اس کے لیے ناشر جواب دہ ہے۔ میمن بعض لفظ ایسے برتتے ہیں جو عام طور پر رائج نہیں، مثلاً”فاکر“ یا ”تمایل“۔ ”مجموعہ افسانہ ہا“ بھی عجیب معلوم ہوتا ہے۔ پوائنٹ آف ویو کا ترجمہ ”دید گاہ“ کیا ہے۔ نقطہ نظر کو قبول عام حاصل ہے۔ اس کی جگہ نیا اور غیر مناسب لفظ لانے کی ضرورت نہ تھی۔ گروپ سیکس کا ترجمہ ”جماعِ جمع“ کیا ہے جو مضحک معلوم ہوتا ہے۔
یہ بدیہی امر ہے کہ انٹرویوز یکساں معیار کے نہیں۔ بعض دفعہ سوال کرنے والے نے اچھے سوال نہیں کیے۔ بعض دفعہ جواب دینے والا معقولیت اور حاضر جوابی کا ثبوت دینے میں ناکام رہا۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس سے ہرانٹرویو میں سابقہ پڑ سکتا ہے۔
ان انٹرویوز کا فرداً فرداً جائزہ لینا مشکل ہے۔ جہاں کہیں ایسی باتیں کہی گئی ہیں جو تبصرہ نگار کو دلچسپ معلوم ہوئیں اور شاید قارئین کے تخیل کو بھی اکسائیں گی انھیں ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
ندین گوردیمر: ضرورت سے زیادہ لکھنے کے خلاف مختصر کہانی کی ہئیت ایک حیرت انگیز نظم و ضبط ہے۔ آپ بیگانہ عناصر کو حذف کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں (اس قول سے اتفاق کیا جائے تو ان حضرات کا گلہ بے محل معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں بڑے ناول نہیں ہیں، اچھے افسانے ضرور ہیں۔ اچھا افسانہ لکھنا ناول لکھنے سے زیادہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ البتہ گوردیمر نے نظم و ضبط اور بیگانہ عناصر کو حذف کرنے کی جو بات کی ہے اس پر آج کے دور کے بیشتر اردو افسانہ نگار عمل کرنے سے قاصر ہیں۔)
مارکیز: مجھے خوابوں اور ان کی تعبیروں کے مختلف تصورات سے کافی دلچسپی ہے۔ میں خواب کو زندگی کا حصہ گردانتا ہوں لیکن حقیقت زیادہ پُرمایہ ہے (یہ بہ انداز دگر اس انگریزی قول کی تکرار ہے کہ ”حقیقت فکشن سے عجیب تر ہے۔“ اس پر صرف یہ اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ حقیقت بسا اوقات فکشن سے زیادہ ہول ناک ہوتی ہے۔)
سرماگو: جمہوری ڈسکورس ہمارے عہد کی بڑے سے بڑی خام خیالی رہا ہے۔ اس دنیا میں جمہوریت کام نہیں کر رہی۔ جو چیز کام کر رہی ہے وہ بین الاقوامی مالیے کی طاقت ہے۔ ان کارروائیوں میں لگے ہوے لوگ ہی واقعتا دنیا پر حکم رانی کر رہے ہیں۔ سیاست داں محض نیابت کار (Proxies) ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ نام نہاد سیاسی طاقت اور مالیے کی طاقت کے درمیان داشتہ گیری/آشنائی چل رہی ہے جو واقعی جمہوریت کی سو فی صد نفی ہے (سرماگو نے تو بے لحاظ ہو کر صاف اور سچی بات کہہ دی ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ جعلی جمہوریت کے ذریعے سے بے وقوف بنتے رہیں یا دوسروں کو بے وقوف بناتے رہیں۔)
سیمون دبوار: جہاں تک الجزائر کی جنگ کا تعلق ہے، سارے فرانسیسی یقین رکھتے ہیں کہ یہ سرے سے کبھی ہوئی ہی نہیں تھی، کہ کسی کو ایذانہیں پہنچائی گئی تھی اور اگر ایذا دہی رہی بھی ہو تو وہ ہمیشہ اس کے خلاف تھے (کم از کم اس حد تک فرانسیسی اور پاکستانی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، الجزائر ہو یا بنگلہ دیش۔)
کلودسیمون: میں سارتر اور کامیو کی نگارشات کو بالکل بے قدر و قیمت سمجھتا ہوں۔ سارتر کا کام، اور چیزوں سے قطع نظر، غیر دیانت دارانہ اور بد خواہ ہے (ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیے! کلودسیمون کو ادب کا نوبیل انعام مل چکا ہے لیکن انٹرویو سے موصوف کے چڑچڑے پن کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔)
میکس فرِش: مجھے عام طور پر نقادوں کے مقابلے میں لکھنے والوں سے زیادہ مدد ملی ہے۔ لکھنے والا بھی کچھ کم نقاد نہیں ہوتا…. آپ کے کام میں جو مواقع ہوتے ہیں نقاد کی نظر ان تک نہیں جاتی (نقادو اور تبصرہ نگارو، ہور چُوپو۔)
طاہر بن جلّون: فاسد حکم رانوں اور ملاﺅں کے ہاتھوں اسلام، اپنے بنیاد گزار کی نیت کے تعلق سے، کسی قدر اپنی خاصیت کھو بیٹھا ہے…. میرے خیال میں سیاست اور مذہب کو جدا رکھنا بنیادی چیز ہے۔ مذہب ذاتی چیز ہے جس کا تعلق فرد اور خدا کی باہمی وابستگی سے ہے۔ اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا خالص جذباتی خطابت ہے، لوگوں پر ظلم کرنے کا ایک ذریعہ۔ مذہب کا سروکار ابدی چیزوں سے ہے اور سیاست اپنی سرشت میں زمانی ہے۔ چناں چہ ہمیں لازم آتا ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے جدا کریں ورنہ مسلمان ملک کبھی پس ماندگی اور ظلم و تعدّی سے خلاصی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
یورسینار: میں نہیں جانتی کہ ”توقیر کیا جانا“ کیا ہے اور مجھے تمام ادبی دنیائیں ناپسند ہیں کیوں کہ یہ باطل اقدار کی نمائندگی کرتی ہیں۔ چند عظیم کارناموں اور چند عظیم کتابوں ہی کی اہمیت ہے۔ اور یہ ”دنیا“ یا ”تنظیم“ سے بے نیاز ہوتی ہیں۔
گنٹر گراس: پریوں کی کہانیاں عام طور پر سچ بولتی ہیں اور ہمارے تجربات، خوابوں، امیدوں اور دنیا میں گم کردہ راہ ہونے کے احساس کا نچوڑ پیش کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بہت سے حقائق سے زیادہ حقیقی ہوتی ہیں (اور ہمارے ہاں بہت سے لوگ یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ اب پری کہانیوں جیسی دقیانوسی چیزوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔)
چنیوا اچے بے: جب تک شیروں کے اپنے تاریخ داں نہ ہوں، شکار کی تاریخ ہمیشہ شکاری کی ستائش گری ہی کرے گی (دوسرے الفاظ میں، تاریخ فاتحین ہی لکھتے ہیں اور وہ بھی اکثر غلط سلط۔)
سوزن سونٹاگ: میں نے اپنی نسل کے بہترین ادیبوں کو دانش گاہی زندگی کے ہاتھوں تباہ ہوتے ہوے دیکھا ہے…. میں اس لیے نہیں لکھتی کہ میرے قاری ہیں۔ میں اس لیے لکھتی ہوں کہ ادب ہے۔
نجیب محفوظ: ناصر کے دور میں تو آدمی کو دیواروں سے بھی خوف آتا تھا۔ ہر شخص متخیّف رہتا تھا۔ ہم لوگ کیفے میں بیٹھتے لیکن ڈر کے مارے گفتگو کرنے سے احتراز کرتے۔ گھر میں ہوتے تو وہاں بھی زباں گنگ بیٹھے رہتے۔ میں اپنے بچوں تک سے کسی ایسی چیز کے بارے میں کچھ کہنے سے احتراز کرتا جو انقلاب سے پہلے رونما ہوئی ہو، اس اندیشے کے مارے کہ اگر وہ سکول میں کہیں اس کا ذکر کریں تو اس کا غلط مطلب نہ نکالا جائے (صدر ناصر کے مداحوں سے معذرت۔ وہ یہ کہہ کر جی خوش کر سکتے ہیں کہ نجیب محفوظ کو نوبیل انعام نہیں ملنا چاہیے تھا۔)
ایزاک بشیوز سنگر: میرے خیال میں سائنس کا تصور…. یہی کہ کیا سائنسی ہے اور کیا سائنسی نہیں…. وقت کے ساتھ بدل جائے گا۔ بہت سے فیکٹس ہیں جن کی سائنسی تجربہ گاہ میں وضاحت نہیں ہوسکی ہے، اس کے باوجود ان کے فیکٹس ہونے میں کلام نہیں۔ آپ کسی تجربہ گاہ میں یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ نپولین نام کا کوئی آدمی کبھی رہا ہے۔ آپ اسے اتنے باہر اور ظاہر طریقے پر ثابت نہیں کر سکتے جس طرح بجلی کی لہر کو، لیکن ہم جانتے ہیں کہ نپولین کا وجود رہا ہے۔ جن چیزوں کو آج بھوت پریت اور روحیں کہا جاتا ہے اور غیب بینی بھی، تویہ اس قسم کا فیکٹ ہے جسے آپ تیار نہیں کر سکتے اور نہ تجربہ گاہ میں اس پر کوئی عمل کر سکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فیکٹ سچ نہیں ہے…. میں سمجھتا ہوں کہ ادیب کے لیے صحافت پڑھانے کے مقابلے میں زیادہ صحت مند مشغلہ ہے، خاص طور پر اگر وہ ادب پڑھاتا ہو۔ ادب پڑھنے سے ادیب ادب کا ہمہ وقت تجزیہ کرنے کا عادی ہو جاتا ہے…. ادیب کا بیک وقت ادیب اور نقاد ہونا اچھا نہیں۔ کبھی کبھار ایک آدھ تبصرہ یا حتیٰ کہ تنقید کے بارے میں مضمون لکھ دینے سے کوئی لمبا چوڑا فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر اس قسم کی تجزیہ بازی ہر وقت جاری رہے اور اس کی روزی کا آسرا بن جائے تو ہو سکتا ہے کہ کسی دن یہ اس کی نگارش کا حصہ بن جائے۔ یہ بڑی خراب بات ہے کہ وہ آدھا ادیب اور آدھا نقاد ہو…. ہم بہت ترقی کریں گے لیکن دکھ اٹھائے جائیں گے اور کبھی اس کا انت نہیں ہوگا۔ ہم ہمیشہ دکھ کی نت نئی شکلیں ایجاد کرتے رہیں گے۔ آدمی کی نجات کا تصور قطعاً ایک مذہبی تصور ہے، اور مذہبی پیشوا کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہماری نجات اسی دنیا میں ہوگی۔ انھیں اس پر یقین ہے کہ روح کسی اور دنیا میں بخشی جائے گی،کہ اگر ہمارا طرزِ عمل یہاں اچھا رہے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ہماری روح کو جنت نصیب ہوگی…. جب کبھی لوگ بہتر زندگی کا تصور کا ذکر کرتے ہیں تو میں، اس اقرار کے باوجود کہ حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ہم جنگ و جدل کا خاتمہ کرنے میں کام یاب ہو سکیں گے، یہی سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجود کافی بیماریاں اور المیے باقی رہیں گے جن کے باعث انسان کم و بیش ہمیشہ کی طرح دکھ جھیلتا رہے گا۔ میرے نزدیک یاس پرست ہونے کا مطلب حقیقت پسند ہونا ہے…. میں محسوس کرتا ہوں کہ سارے مصائب اور دکھوں کے باوجود، اس امرِ واقعہ کے باوجود، کہ زندگی ہمیں وہ فردوس کبھی نہیں لا دے گی جس کی ہم اس سے لادینے کی تمنا کرتے ہیں، زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ انسان کو جو بڑے سے بڑا تحفہ ملا ہے وہ آزادانہ انتخاب کا اختیار ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس آزادانہ اختیار کے استعمال کی حدود ہیں۔ لیکن یہ جو تھوڑا سا آزادانہ اختیار ہمیں حاصل ہے وہ اتنا بیش بہا تحفہ ہے اور بالقوہ اتنی قدر و قیمت کا حامل ہے کہ صرف اسی کی خاطر زندگی جینے کے قابل ہے۔
ان تین جلدوں میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ان انٹرویوز کو پڑھ کر آپ محظوظ بھی ہوں گے اور ادب اور زندگی اور ان دونوں کے ربط و ضبط پر غور کرنے کی طرف مائل بھی۔
ہم سب |