آخری ای میل ۔۔۔۔۔۔۔۔ نجیبہ عارف کے قلم سے عمر میمن مرحوم کا تذکرہ
پچھلے کئی گھنٹے سے اپنا ای میل اکاؤنٹ کھول کر بیٹھی ہوں اور آپ کی پرانی ای میلز پڑھ رہی ہوں۔ بار بار جی چاہتا ہے کہ اس آخری ای میل کا جواب لکھ دوں جس کی صرف رسید ہی دے پائی تھی، جواب نہیں لکھ سکی تھی۔ وجہ کچھ خاص نہیں تھی، بس یوں ہی بے دلی سی تھی۔ خود سے، اردگرد سے، دنیا بھر سے، آپ سمیت سب سے۔حالانکہ آپ نے اس آخری ای میل میں روح کو اجال دینے والی، لطیف تر کر دینے والی، ترفع پر مامور بلکہ مجبور کر دینے والی موسیقی کے کلپ کا لنک بھیجا تھا اور مجھے ہدایت کی تھی کہ پانچ منٹ کے اس کلپ سے اپنی روح کو، اپنی زندگی کو، اپنے وجود کو غسل نور دے ڈالوں۔ لیکن میں یہ بھی نہ کر پائی۔ وہ کلپ میں نے سنا تو ضرور اور اس سے حسب توفیق مرعوب بھی ہوئی مگر میرے وجود میں ایسی کثافت، ایسا بھار، ایسا بوجھل پن تھا کہ نور میں نہانا بھی مجھے لت پت ہونے کے مترادف لگ رہا تھا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
آپ ناراض تو ہوئے ہوں گے۔ مجھے پوری طرح علم ہے، کن لفظوں میں میرے بارے میں خود کو بتایا ہوگا ۔ مجھے یہ سوچ کر ہی ہنسی آ گئی ہے کہ آپ کیسے جزبز ہوتے ہوں گے۔ یوں بھی پچھلے دو تین سال سے آپ مجھ سے کچھ مایوس سے ہو گئے تھے، ایک دو بار میری کسی بات پر غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے اور مجھے حسب عادت خوب کھری کھری سنائی تھیں۔ مجھے بھی آپ پرکئی طرح کا غصہ تھا۔ شاید میں لوگوں کے بارے میں آپ کی شکایتیں سن سن کر تنگ آنے لگی تھی اور مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ آپ کچھ زیادہ ہی حساس ہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ زندگی مجھے بھی وہی سبق سکھانے پر تلی ہوئی تھی جو اس نے پہلے آپ کو ازبر کروائے تھے۔
آپ کی باتوں سے مجھے لگتا تھا آپ کسی شے سے خوش نہیں ہوتے۔ کسی بھلے آدمی سے بھی نہیں۔ اس کی نیت کے اندر غوطہ لگا کر کوئی نہ کوئی کمینگی، کوئی نہ کوئی گھٹیا پن ڈھونڈ ہی لاتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ میں سمجھتی تھی دنیا بھلے آدمیوں سے خالی نہیں۔ کبھی نہیں ہوتی۔ لیکن کوئی بھی آدمی، کتنا ہی بھلا کیوں نہ ہو، اس کے اندر چھوٹی موٹی کمیاں، کجیاں، خامیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ انھیں نظر انداز کر کے، اس کے روشن اور جمیل پہلوؤں کو کیوں نہ دیکھا جائے۔ کیوں انسان کی عفونتوں پر پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ کیوں نہ اس کی عطر بیزیوں کا لطف اٹھا یا جائے۔
ادھر آپ کے تجربوں نے آپ کو کچھ اور سکھایا تھا۔ ایک خوف —کہ کہیں کوئی آپ کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا لے، کہیں کوئی جذباتی استحصال نہ کر دے، کہیں کوئی فریب نہ دے جائے— شکست انا کا خوف— نہ سمجھے جانے کا خوف— تحسین ناشناس کا خوف — اس خوف نے آپ کو حد سے زیادہ محتاط اور چوکنا کر دیا تھا اور آپ ہر لمحہ ایک ایسی دفاعی پوزیشن پر ایستادہ رہتے تھے جہاں سے بآسانی کراس فائر ہو سکے۔
مگر میں جانتی ہوں کہ آپ کے سینے میں کیسا مخلص، کیسا محبتی اور گرمجوش دل تھا۔ آپ اپنی وابستگی اور لگاؤ کے اظہار سے ہر ممکن گریز کرتے تھے مگر کبھی کبھی بے احتیاطی ہو ہی جاتی تھی۔ یہ تب ہوتا تھا جب آپ کا کوئی عزیز کسی مشکل میں گرفتار ہوتا تھا۔ تب آپ کس قدر بے چین ہوجاتے تھے۔ اگر عملی طور پر کچھ نہ کر سکتے تو کڑھ کر رہ جاتے۔ بار بار پوچھتے۔ اس کا دکھ خود بھی جھیلتے اور ساتھ ساتھ بڑبڑ اتے بھی جاتے۔ اندر کی کڑواہٹ کچھ اور بھی کڑوی ہو جاتی۔ تلخابۂ حیات اور صبر آزما ہو جاتا۔
میمن صاحب
میں نے آپ کو کبھی نہیں بتایا تھا کہ میں آپ سے کیسے متعارف ہوئی تھی۔ اس عمل میں میری خواہش تو کیا مرضی بھی شامل نہیں تھی۔ آپ سے رابطہ کرنا میرے لیے کڑوا گھونٹ بھرنے کے مترادف تھا۔ یہ ۲۰۰۸ یا اوائل ۲۰۰۹ کی بات ہے۔ یونی ورسٹی میں ہمارے شعبے نے ایک نیا تحقیقی جرنل نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ہمارے صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل اور اس وقت کے ڈین فتح محمد ملک صاحب نے، جو بعد میں ریکٹر بننے والے تھے، میرے ذمے آپ سے مقالہ حاصل کرنے کا کام لگا دیا تھا۔
مجھے یاد ہے، میں ان کے دفتر میں بیٹھی تھی، جب عقیل صاحب نے مجھے کاموں کی فہرست سونپتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے آپ محمد عمر میمن کو ای میل کیجیے اور ان سے مقالہ حاصل کیجیے۔ یونی ورسٹی آئے مجھے ایک دو سال ہی ہوئے تھے اور میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ محمد عمر میمن صاحب کون ہیں۔ انھوں نے میرے بشرے سے قیاس کر لیا کہ ’’ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں‘‘۔ چنانچہ مشکوک انداز سے مجھے گھورتے ہوئےپوچھا،
آپ جانتی ہیں نا، میمن صاحب کو؟
میں نے معصومیت سے افقاً سر ہلایا۔
اس پر عقیل صاحب نے ملامت اور مذمت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور مایوس مگر سرزنش بھرے لہجے میں کہا:
’’کیا۔۔۔؟ نہیں نہیں بھئی۔ ایسا نہ کہیے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ آپ محمد عمر میمن کو نہیں جانتیں؟‘‘
عقیل صاحب آسانی سے کسی کی تعریف نہیں کرتے۔ ان الفاظ میں وہ محمد عمر میمن کا ذکر کر رہے تھے تو ضرور وہ کوئی قابل ذکر شخصیت ہوں گے۔ مگر میری یادداشت میں ایسا کوئی نام محفوظ نہیں تھا۔ میں سخت شرمندہ ہوئی۔
ملک صاحب نے مجھے یوں پٹتے دیکھا تو مسکراتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھے اور بائیں ہاتھ کی الماری کھول کر اس میں سے اینوئل اوف اردو سٹڈیز کا ایک ضخیم شمارہ نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’اردو زبان و ادب کے سب سے معتبر جرنل کے مدیر ہیں میمن صاحب!‘‘ میں نے دیکھا جرنل تو سارے کا سارا انگریزی میں تھا۔ میں اور بھی مرعوب ہو گئی۔
اس کے ساتھ ہی ملک صاحب نے مجھے خبردار کرنے کے انداز میں ’’میمن صاحب‘‘ کی شخصیت اور ان سے ملاقات کے ایک دو حوصلہ شکن تجربے بیان کر ڈالے۔ مقصد مجھے ڈرانا نہیں، خبردار کرنا تھا۔
نتیجتاً میں خبردار ہی نہیں ہوئی ڈر بھی گئی تھی اور میں نے گھگھیا کر عقیل صاحب کی طرف دیکھا:
’’سر! آپ خود ہی میل کر دیں نا میمن صاحب کو، میں باقی لوگوں سے رابطہ کر لیتی ہوں۔ میری ان سے کوئی شناسائی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے بھئی؟ آپ اس مجلے کی شریک مدیر ہیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ شناسائی نہیں ،تو ہو جائے گی۔ ہونی ہی چاہیے۔ آپ اب یونی ورسٹی کی استاد ہیں۔‘‘
عقیل صاحب ’’نہ‘‘ سننے کے بالکل عادی نہ تھے۔
میں نے اسی روز شام کو گھر آ کر ڈرتے ڈرتے، مگر نہایت احتیاط سے ایک ای میل ڈرافٹ کی۔ اسے بھیجنے سے پہلے تیس پینتیس مرتبہ پڑھا۔ ہر بار کسی نہ کسی فل سٹاپ، کومے یا کولن کو ادھر سے ادھر کیا۔ کہیں کہیں however اور nevertheless جیسے الفاظ کا اضافہ کیا اور ہاتھوں پر پھونک مار کر سینڈ کا بٹن دبا دیا۔
آپ کا جواب اگلے روز صبح صبح ہی مل گیا۔ آپ نے پاکستانی یونی ورسٹیوں کی بے توفیقی، یہاں کے استادوں کی نالائقی، تدریسی نظام کی خرابی، کمپیوٹر سسٹم کی فرسودگی اور کاپی رائٹ کے قوانین سے دیدہ و دانستہ غفلت برتنے کے رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور مجھے سمجھایا تھا کہ نیا تحقیقی جرنل نکال کر ہم کوئی تیر مارنے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو آنکھیں کھول لیں اور حقیقت کی دنیا میں آ جائیں۔ اس کے بعد آپ نے کہا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر میں مقالہ بھیج دوں تو تم ناکارہ لوگوں کے ناکارہ کمپیوٹر جو تیس روپے کی سی ڈی خرید کر ان پیج کا نقل مار کہ سوفٹ وئیر استعمال کرنے پر سدھائے گئے ہیں، اس مقالے کو، جو میں نے کئی ہزار روپے خرچ کر کے خریدے ہوئے اصلی ان پیج پروگرام میں لکھا ہے، کھول بھی سکیں گے۔ اور اگر میں پی ڈی ایف فائل بھیجوں تو تمھارے نکمے کمپوزر زندگی بھر اس مقالے کی درست کمپوزنگ نہ کر سکیں گے۔ وہ تو میرے رموزِ اوقاف ہی کو نہیں سمجھ سکتے تو ان سے اور کیا توقع ہو سکتی ہے۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں اپنے انتہائی احتیاط سے لکھے اور کئی بار کی پروف خوانی کےبعد تصحیح کیے ہوئے مقالے کے نئے سرے سے پروف پڑھنے میں مصروف ہو جاؤں۔ بی بی! میں سخت مصروف آدمی ہوں اور میرے سامنے کاموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ میں تمھارے اس نئے جرنل کے لیے مقالہ بھیجنے کی کھکھیڑ کیوں اٹھاؤں۔
آپ نے یہ سب کچھ انھی الفاظ میں براہ راست تو نہیں لکھا تھا مگر بین السطور عین میں یہی مدعا بیان کیا تھا۔ مجھے سمجھنے میں ذرا دقت نہ ہوئی اور میرے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔
آپ کی ای میل لے کر میں سیدھی عقیل صاحب کے پاس پہنچی۔
’’سر! اب آپ خود اس کا جواب دیجیے گا!‘‘
’’جی نہیں! یہ کام آپ خود ہی کریں گی۔ لکھ دیجیے کہ آپ مقالہ بھیجیں، اسے کھولنا ہمارا کام ہے۔‘‘ انھوں نے ٹکا سا جواب دے دیا۔
اب میں پھر کمپیوٹر کے سامنے، دل ہی دل میں دو زانو ، بیٹھی۔ سب سے پہلے ہر بات میں آپ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اپنی کم نظری، کم فہمی اور کم کوشی کا اعتراف کیا، اس کی معذرت طلب کی اور اس کا مداوا کرنے کے لیے ایک بار پھر آپ کا مقالہ طلب کیا۔
بس پھر اس برقی خط کتابت کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا۔ میری ہر ای میل کا آغاز ایک معذرت سے ہوتا اور انجام ایک اور معذرت سے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی دو چار عذر خواہیوں کی نوبت آ جاتی۔ مشکل یہ تھی کہ آپ نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، وہ سب کے سب سچ ثابت ہوئے تھے۔ ہمارا تیس روپے والانقلی ان پیج، آپ کی فائل کھولنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔ آپ کو کئی بار اپنے مقالے کے پروف پڑھنے پڑے۔ آپ ہر بار جھنجھلاتے، میں ہر بار ہاتھ جوڑ دیتی۔ اول اول تو مصلحتاً، لیکن آہستہ آہستہ مجھے اس تنک مزاجی کے پس پشت چھپے اخلاص کی خوشبو آنے لگی تھی۔ مجھے اس سچ کا مزا آنے لگا تھا جسے ہم منہ در منہ سننے کے عادی نہیں رہے تھے۔ شدید منافقت اور جھوٹ سے لتھڑی ہوئی دنیا میں رہتے ہوئےسچائی اور بے غرضی کی پاکیزگی ہمیں اجنبی محسوس ہوتی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ کی یہ سچائی کبھی کبھی بے مروتی کی حد تک پہنچ جاتی تھی مگر دنیا میں آپ کے سوا ایسا کون تھا جو سچ کہنےکے لیے اس حد تک جا سکتا ہو۔ آپ نے کبھی کسی مصلحت، کسی ضرورت، کسی توقع کو اپنی صاف گوئی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا تھا۔ میں دل سے آپ کی قائل ہو گئی تھی اور شاید آپ کے دل میں بھی میرے لیے ایک نرم گوشہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس کا احساس مجھے پہلی بار تب ہوا جب ہماری یونی ورسٹی میں خودکش دھماکا ہوا۔ میں اس وقت کیمپس ہی میں تھی۔ جب بچ بچا کے گھر لوٹی تو سب سے پہلی ای میل آپ کی ملی۔ آپ میرے بارے میں سخت متفکر تھے۔ اس فکرمندی میں ایک گہرا اخلاص شامل تھا۔
بہر حال ہم نے اپنے پرچہ ’معیار‘ کے چار شمارے نکالے اور ہر شمارے میں آپ کا ترجمہ شدہ کوئی نہ کوئی مضمون چھاپا۔ ہر مضمون کے لیے یوں ہی کئی کئی ای میلز کا تبادلہ ہوتا رہا۔ اس کے بعد عقیل صاحب یونیورسٹی سے رخصت کر دیے گئے اور مجھے بھی معیار سے علیحدہ کر دیا گیا۔ یہ میری پیشہ ورانہ زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ یونی ورسٹی کی سیاست میرے لیے بالکل نئی چیز تھی اور میں اندر سے ٹوٹ کر رہ گئی تھی۔ میں نے یونیورسٹی کے شوق میں اپنی گزشتہ سرکاری ملازمت کے انیس سال قربان کر دیے تھے مگر یہاں کی فضا نے تین چار سال ہی میں میرے اندر مایوسی اور اذیت کے ڈھیر لگا دیے۔
اس انتہائی کڑے وقت اور شکست خوردگی کی کیفیت میں آپ کس طرح میرے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے۔ مجھے ایک ایک بات یاد ہے۔ مجھے حوصلہ دینے کے لیے آپ نے مجھے اپنی نوکری کے کتنے ہی قصے سنائے۔ آپ کو زندگی بھر یونی ورسٹی میں مخالفانہ سیاست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ کی کسی کولیگ نے آپ کو سب کے سامنے تھپڑ دے مارا تھا۔ اینوئل اوف اردو سٹدیز کو جاری رکھنے کے لیے آپ کو وسکانسن یونی ورسٹی میں کتنی سخت جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ حسد اور ٹانگ کھینچنے کے کیسے کیسے مظاہرے ہوئے تھے۔ میں یہ سب سن کے شل ہو گئی تھی لیکن ساتھ ساتھ یک گونہ تسلی سی بھی ہو گئی تھی کہ اگر امریکہ کی یونی ورسٹیوں میں، محمد عمر میمن جیسے سینئر پروفیسروں کے ساتھ ایسا سلوک ہو سکتا ہے تو پھر میرا معاملہ تو خاصا ہلکا ہے۔ آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ مجھے کچھ تسلی ہو جائے۔
لیکن سچ پوچھیں تو مجھے آپ سے ذاتی وابستگی تب محسوس ہوئی جب میں نے آپ کی فرمائش پر پاکستانیات میں شائع ہونے والا آپ کا انٹرویو، انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ آپ نے ہر سوال کا نہایت مفصل جواب دیا تھا اور پورے خلوص اور سچائی سے۔ اپنی زندگی کا احوال، تجربات، نظریات سبھی کچھ کہہ ڈالا تھا۔ میری مصیبت یہ ہے کہ ترجمہ کرتے ہوئے متن کو اپنے اندر اتار لیتی ہوں؛ جیسے شہد کی مکھی پھولوں کا رس چوس لیتی ہے۔ آپ کے تجربات، آپ کے محسوسات، آپ کے جذبات، جب میرے لفظوں میں ڈھلے تو میری اپنی کیفیت بن گئے۔ مجھے لگا کہ آپ کی زندگی میں نے بھی جی لی ہے۔ آپ نے مختلف سوالوں کے جواب میں لکھا تھا:
میں علی گڑھ میں پیدا ہوا تھا۔ اپنے والدین کا چھے میں سے آخری بچّہ۔ ہمارا گھرانہ قصبے کا واحد میمن گھرانہ تھا۔ کوئی صرف ’’میمن، علی گڑھ‘‘ لکھ کر خط بھیجتا تو ہمیں مل جاتا۔ آٹھ سال بڑی ایک بہن کے سوا، میرے سب بہن بھائی، میری پیدائش کے بعد جلد ہی گھر چھوڑ چکے تھے۔ عمر میں اکیاون سال بڑے اور ہر وقت کسی نہ کسی کتاب میں گم رہنے والے والد کے ساتھ پروان چڑھتے ہوئے میں نے بہت تنہا اور بے رنگ سا بچپن بتایا ہے اور ایک مبہم سی اداسی زندگی بھر میرے تعاقب میں رہی ہے۔ اگرچہ میرے کچھ دوست بھی تھے اور ہم اس دور کے ہندوستانی لڑکوں کے عام کھیل بھی کھیلتے تھے۔ زندگی کے مختلف ادوار میں، میں متعدد مشغلوں سے اناڑی پن سے الجھتا رہا ہوں، جیسے مصوری، چوب کاری، مکرامے بنانا، منقش موم بتیاں بنانا اور باغ بانی (ایک زمانے میں میرے پاس افریقی بنفشے کی ۱۵۰ اقسام تھیں جن میں سے ایک بھی خریدی ہوئی نہیں تھی، میں نرسریوں سے گرے ہوئے پتّے چنتا یا پھر دوستوں سے قلمیں لیتا اور سنگ دو دی اور مروارید کا آمیزہ استعمال کر کے انھیں خود بوتا)۔ بہر کیف، گزشتہ بیس برس کے دوران لکھنا، پڑھنا اور باغبانی ہی میری اہم مصروفیات رہی ہیں۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد تو میں خاص عزلت گزیں ہو گیا ہوں۔ جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے اس ٹمٹماتی ہوئی سرخ روشنی کے ڈر سے ٹیلی فون کی طرف دیکھنا بھی برا لگتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھے کسی کو جوابی ٹیلی فون کرنا پڑے گا۔
میں نے حال ہی میں ایک اور انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ میری زندگی عام سی تھی۔ دوسرے لڑکوں کی طرح میں بھی لڑکپن اور نوجوانی کے کئی تجربات سے گزرا۔ اب ان سب کو دہرانا بے معنی ہے، حالاں کہ کچھ دہائیاں پہلے تک، جب مجھے زیادہ شعور نہیں تھا، میں بڑے شوق سے ایسا کرتا۔ اب ایسی باتیں صرف غیر اہم ہی نہیں، بالکل مضحکہ خیز بھی لگتی ہیں۔ کائنات کی اس بے کرانی میں ایک زندگی کی وقعت ہی کیا ہے؟
کیا مجھے اندازہ تھا کہ میں مستقبل میں کیا کروں گا؟ ہاں، کچھ لڑکوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں اور ہم ان کی زندگی کی ترجیحات اور کارکردگی کی ایک جھلک پیچھے ان کے ماضی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ میرے لیے تو زندگی محض لمحۂ موجود تھی۔ میرا بچپن متشددانہ حد تک تحفظ زدہ تھا۔ مجھے تو اپنے دوستوں کے ساتھ گلّی ڈنڈا اور کرکٹ کھیلنا، اسکول سے واپسی پر یونی ورسٹی کے باغوں سے آم اور دوسرے پھل چرانا اور تیراکی کرنا پسند تھا۔ مجھے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ شاید کوئی ’’مستقبل‘‘ ہو گا مگر اتناہی دور افتادہ اور بعید از دست رس، جتنی پریوں کی کہانی کی شہزادی۔ در حقیقت میں نے کبھی مستقبل پر غور نہیں کیا۔
پیشہ؟ بہت بڑا لفظ ہے۔ مجھے نہیں معلوم! یادش بخیر، میرا خیال ہے میں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلنا چاہا ہو گا۔ یہ نہیں کہ میری کوئی مرضی تھی اور ایسا بھی نہیں کہ کوئی مرضی نہیں تھی۔ بس ایک بے پایاں بے دھیانی تھی ۔۔۔ مکمل، حقیقی اور معیار بند۔ اس سے آگے کچھ نہیں تھا۔ ایک بار اس میں داخل ہو گئے، پھر یہ خود بخود، اپنی ہی کسی منطق کے تحت، کسی سمت یا مقصد کا تعین کیے بغیر، لیے پھری۔
ترجمہ کرتے کرتے میں بھی اسی بے دھیانی کا حصہ بن گئی تھی۔ مجھے تنہا رہنے اور بےدھیان پھرنے والے لوگوں سے مطابقت پیدا کرنا آسان لگتا ہے۔ میں ان کے ساتھ زیادہ بہتر طور پر افہام و تفہیم کا رشتہ پیدا کر سکتی ہوں۔ اپنے آپ سے مطمئن، خود پر ناز کرنے والے، خود اعتماد لوگوں سے مجھے اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔
اس انٹرویو کے دو نتائج سامنے آئے تھے۔ ایک تو یہ کہ آپ نے پہلی بار کھل کر مجھے داد دی تھی اور دوسرا یہ کہ اس دوران مجھے آپ کی شخصیت کی ہمہ جہتی کا ٹھیک طرح سے اندازہ ہوا تھا۔ اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو میں آپ یکساں اور سطح کمال کو چھوتی ہوئی مہارت سے ترجمہ کیا کرتےتھے۔ آپ کے تراجم کے موضوعات میں کس قدر تنوع تھا۔ فکشن، تنقید، تصوف۔ ہر موضوع پر آپ کا کام آپ کے حیرت انگیز تبحر علمی کا مظہر ہوتا تھا۔ انگریزی، اردو، عربی اور فارسی پر تو آپ کو مکمل عبور تھا۔ فرانسیسی، جرمن اور سپینی زبان سے بھی شاید تھوڑی بہت شناسائی تھی۔ کم از کم اتنی ضرور کہ تلفظ سمجھ لیتے تھے۔ پھر جتنا کچھ آپ نے ترجمہ کر ڈالا تھا، اتنا کچھ تو لوگ زندگی بھر میں پڑھ نہیں پاتے۔ ایک زمانے میں خود بھی کہانیاں لکھتے تھے۔ آپ کی نو کہانیوں کا مجموعہ ’’تاریک گلی‘‘ کے عنوان سے ۱۹۸۹ میں سنگ میل لاہور سے شائع ہوا تھا جس کا انتساب تھا:
’’خود اپنی ریا (ح) کاری کے نام۔‘‘
لیکن بعد میں آپ افسانہ نویسی سے منحرف ہو گئے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے، میں نے اتنا عمدہ فکشن پڑھ لیا ہے کہ اب اس سے بڑھ کر کیا لکھوں گا۔ اینوئل اوف اردو سٹڈیز کی ادارت کے لیے آپ جتنی محنت کرتے تھے، اتنی محنت تو کوئی اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بھی نہیں کرتا ہو گا۔ مجھے خوب معلوم ہو گیا تھا کہ میں جس شخصیت سے متعارف ہو رہی ہوں وہ کوئی عام انسان نہیں، ایک نابغہ ہے۔
آپ سے پہلی ملاقات ۲۰۱۰ میں میڈیسن ایئر پورٹ پر ہوئی تھی۔ آپ کی تجویز پر مجھے وسکانسن یونی ورسٹی میں ہونے والی اس ایک روزہ کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا جو آپ کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر آپ کے اعزاز میں منعقد ہو رہی تھی۔ ہوائی اڈے کے طویل زینے سے نیچے اترتے ہوئے میں نے آپ کو نیچے بڑے ہال میں کھڑا دیکھا۔ گورارنگ، تیکھے نقش، دبلے پتلے، طویل القامت، سر پرسولا ہیٹ، آنکھوں پر چشمہ، ہونٹوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ۔ عمر ستر برس کے لگ بھگ تھی لیکن دبلی پتلی جسامت کے باوجود بالکل تندرست لگ رہے تھے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بغیر کسی دقت کے پہچان لیا۔ آپ نے آگے بڑھ کے میرا سامان میرے ہاتھ سے لے لیا اور مجھے ہوٹل تک چھوڑنے گئے۔ اگلے روز آپ نے چند مندوبین کو گھر پر کھانے کے لیے مدعو کیا اور اس روز میں نے آپ کی سٹڈی دیکھی، آپ کے اٹھنے بیٹھنے اور لکھنے پڑھنے کی جگہیں دیکھیں، ہر چیز میں ایک پختہ اور اعلیٰ ذوق کی جھلک تھی۔ آپ کی خوب صورت، کم گو اور باوقار جاپانی بیگم ناکاکو صاحبہ سے ملی اور آپ کے گلابوں کے پودے دیکھے جن کی آپ خود دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔
آپ کی زندگی کو قریب سے دیکھا تو دو تین باتیں بڑی شدت اور وضاحت سے مجھ پر منکشف ہو گئیں۔ ایک تو یہ کہ آپ بہت تنہا تھے۔ میرے اندازے سے بھی زیادہ۔ پہلے کی زندگی کا حال تو مجھے معلوم نہیں، مگر اس عمر میں تو یہی لگ رہا تھا۔ اگرچہ آپ ناکاکو صاحبہ کی بہت تعریف کیا کرتے، ہمیشہ بہت پیار اور احترام سے ان کا ذکر کرتے اور آپ سے تعلق کے تمام برسوں میں کبھی میں نے آپ کے منہ سے ان کے بارے میں کوئی منفی یا شکایتی کلمہ نہیں سنا تھا، لیکن اس کے باوجود کلچر اور زبان کے اختلاف سے وہ جو ایک فاصلہ سا انسانوں میں خود بخود پیدا ہوجاتا ہے، جسے فکری اور شعوری سطح پر کتنا ہی جھٹلایا جائے، اپنا اثر ضرور چھوڑ جاتا ہے، آپ کے مزاج پر بھی اثر انداز ہورہا تھا۔ گھر کے افراد میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس سے آپ اردو میں بات چیت کر سکتے۔ بیگم اور دونوں بیٹے اردو نہیں بولتے تھے۔ نہ کوئی پڑوسی، نہ کوئی ہم کار، نہ دوست قریب تھا جس سے دن میں ایک آدھ بار اپنی زبان میں دو چار لفظ بولے جا سکتے۔ نتیجہ یہ کہ آپ کسی ہم ذوق سے اپنی زبان میں بات کرنے کو ترس گئے تھے۔ اسی لیے آپ ہر اردو بولنے والےدوست یا شناسا سے بہت لمبی اور بے تکان گفتگو کیا کرتے تھے۔ امریکہ سے لانگ ڈسٹنس کال بھی کرتے تو ایک ڈیڑھ گھنٹے سے کم کی نہ ہوتی اور اس دوران میں تو صرف ہوں ہاں، یا جی جی ہی کر پاتی، وہ بھی اگر موقع ملتا تو۔ آپ ہی بولتے رہتے۔ خود ہی سوال کرتے، خود ہی اس کے ممکنہ جواب دیتے اور پھر کہتے، بھئی آپ تو کچھ بول ہی نہیں رہیں، میں ہی بولے جا رہا ہوں۔ مگر اس بات کے جواب میں بھی مجھے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہ دیتے۔ یہی تجربہ آپ کے دیگر احباب کا بھی تھا۔جاری ہے۔
میڈیسن میں میرے قیام کے انھی دنوں ایک روز آپ نے خدا جانے کس خیال کے تحت کہا تھا۔
’’اگر آپ ذرا پہلےملی ہوتیں تو میں آپ کو اپنی بیٹی بنا لیتا۔ کم از کم یہ اطمینان تو ہوتا کہ میرے بعد میری کتابیں اور مسودے ضائع نہیں جائیں گے‘‘۔
میں نے دل میں سوچا تھا، اب کیا ہے؟ لیکن کچھ کہا نہیں۔ میرے لیے ہر انسانی تعلق کو کوئی واضح سماجی عنوان دینا ضروری نہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ مجھے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ کو قریبی رشتوں سے محرومی کا شدید احساس ہے۔ اس خیال کو بعد میں اور بھی تقویت ملی، جب آپ نے یہ بتایا کہ ہندوستان اور پاکستان گئے آپ کو کتنے برس بیت چکے ہیں اور آپ کا کتنا جی چاہتا ہے کہ وہاں جا کر پرانے دوستوں سے ملیں لیکن ہندوستان کا ویزا نہیں ملتا اور پاکستان میں کوئی ایسا قریبی عزیز باقی نہیں، جس کے پاس قیام کیا جا سکے۔ تب میں نے بہ اصرار آپ کو اپنے ہاں قیام کرنے کی دعوت دی تھی۔ آپ نے دعوت قبول کرنے سے پہلے مجھ سے ہمارے گھر کی تفصیل، کمروں اور مکینوں کی تعداد کے بارے میں پوری پوچھ گچھ کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات اور عادات کا نقشہ کھینچ کر مجھے خبردار کیا تھا کہ آپ کی میزبانی میں مجھے کیا کیا خدشات و خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جب میں نے آپ کو اطمینان دلا دیا تو پھر آپ نے پاکستان آنے میں دو ماہ بھی نہیں لگائے تھے۔ اکتوبر ۲۰۱۰ میں میں میڈیسن گئی تھی اور دسمبر ۲۰۱۰ میں آپ اسلام آباد آ گئے۔
اسلام آباد میں آپ کا قیام کتنا خوشگوار رہا تھا۔ یہاں کے سبھی اہم ادیبوں اور شاعروں سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ کچھ ہمارے ہاں تشریف لائے، کچھ نے آپ کو اپنے ہاں دعوت دی۔ منشا یاد، افتخار عارف، مسعود مفتی، حمید شاہد، محمد علی فرشی، جلیل عالی، عالمگیر ہاشمی، حارث خلیق، قاسم یعقوب، صفدر رشید، صلاح الدین درویش، نیلوفر اقبال، سبھی سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ ہماری یونی ورسٹی سے ظفر اسحاق انصاری صاحب، فتح محمد ملک صاحب اور ڈاکٹر انوار صدیقی صاحب بطور خاص آپ سے ملنے آئے۔ اوپن یونی ورسٹی سے ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نہ صرف ملنے آئے بلکہ اپنی یونی ورسٹی کے سٹوڈیو میں آپ کا انٹرویو بھی ریکارڈ کیا۔ حلقۂ ارباب ذوق میں ایک شام آپ کے ساتھ منائی گئی۔ منصور عاقل صاحب نے آپ کو اپنے ہاں بلایا اور اپنے حلقے کے لوگوں سے ملاقات کروائی۔ آپ اپنے زمانۂ طالب علمی کے دوست ایس۔ ایم۔ زمان صاحب سے ملے اور دیر تک نوجوانی کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ پھر ہم لاہور گئے۔ آپ کے ایک پرانے ہم جماعت سے، جو صاحب فراش تھے، ملنے پہنچے۔ آپ سلیم الرحمان صاحب کے بہت معتقد تھے۔ ان سے ریڈنگز میں ملے۔ ان کے ساتھ شاہد حمید، ذوالفقارت ابش اور محمود الحسن بھی تھے۔ انتظار حسین صاحب کے گھر گئے اور پھر ان کے ہمراہ اکرام اللہ، مسعود اشعر، صدیقہ بیگم ،زاہد ڈار اور ڈاکٹر ضیا الحسن سے نیرنگ گیلری میں ملے۔ محمود الحسن نے اپنے اخبار کے لیے آپ کا انٹرویو لیا۔ اورئینٹل کالج میں آپ کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ تحسین فراقی صاحب اور دیگر اساتذہ نے بہت گرمجوشی سے استقبال کیا۔ فراقی صاحب سے تو آپ کی دوستی اور تعلق خاطر آخر تک قائم رہا تھا۔
یہ سب باتیں اور ملاقاتیں آپ کی روح کو شاداب کر رہی تھیں۔ آپ کس قدر خوش اور پر جوش تھے۔ فکشن پر، ترجمے پر، ادب کی ادبیت پر، اس کی سماجی جہت پر، پھر تصوف پر، اردو زبان کی اہمیت اور اس کے بدلتے ہوئےتقاضوں پر، رسم الخط پر، قواعد کی باریکیوں پر کتنی لمبی لمبی بحثیں ہوتی رہی تھیں۔ آپ ہر ایک سے خوب خوب اختلاف کرتے اور دوسروں کو لاجواب کر کے مزا لیتے۔ بعض اوقات دوسرے آپ کے مہمان ہونے کا لحاظ بھی رکھ لیتے تھے۔ مگر مجال ہے جو کبھی آپ نے اپنے مہمان یا کسی اور کے میزبان ہونے کا لحاظ رکھا ہو۔ اپنی رائے کا بلا کم و کاست اظہار کرتے اور اکثر و بیشتر نہایت طنزیہ اور دل شکن لہجہ اختیار کر لیتے۔ بعض اوقات تو نوبت بدمزگی تک جا پہنچتی مگر آپ اس سے بھی لطف اٹھاتے۔ آپ کو اسی بات کی خوشی تھی کہ آپ کے ارددگرد اتنے لوگ ہیں جن سے آپ بات کر سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور اختلاف رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔
یہاں سے آپ کچھ دن کے لیے کراچی چلے گئے تھے۔ وہاں عالمی اردو کانفرنس ہو رہی تھی، اس میں شریک ہو گئے۔ آصف فرخی، اجمل کمال، زینت حسام، کشور آپا، انور سین رائے اور عذرا عباس سے ملاقاتیں ہوئیں جن کا احوال اپنے مخصوص شگفتہ مگر قدرے طنزیہ اسلوب میں آپ نے ای میل میں لکھا تھا۔
پاکستان کا یہ دورہ آپ کے لیے اتنا خوش گوار رہا تھا کہ ایک سال بعد جنوری ۲۰۱۲ میں آپ نے دوبارہ پاکستان آنے کا پروگرام بنا لیا۔ اس سفر کے دوران ہمیں آپ سے بات چیت کا زیادہ موقع ملا تھا؛ کیوں کہ ہماری شناسائی کی مدت بڑھ چکی تھی اور اب ہم آپ سے زیادہ بے تکلفی سے بات چیت کر سکتے تھے اس لیے ہمیں زیادہ لطف آیا اور آپ بھی خوش رہے۔ اس دوران پھر ہم لاہور گئے اور آپ کے احباب سے ملے۔ پھرآپ کراچی سے ہوتے ہوئے واپس چلے گئے۔ ۲۰۱۴ میں لاہور یونی ورسٹی اوف مینجمنٹ سائنسز نے آپ کو دو تین ہفتے کے لیے لاہور بلا بھیجا۔ اس بار بھی آپ سیدھے اسلام آباد آئے۔ آتے ہی سامان سے اپنی اور اپنی بیگم کی فریم شدہ تصویر نکالی اور اپنے کمرے میں سجا دی۔ پھر امی سے رات کو پہننے کے لیے فلالین کی ٹوپی سینے کی فرمائش کی جو امی نے ایک دن میں پوری کر دی۔ عارف کو دال کے سوپ اور تلے ہوئے جھینگوں کی ڈش یاد دلائی اور مجھے منع کیا کہ اس بار کوئی دعوت رکھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس دورے میں کم از کم اسلام آباد میں آپ اتنے خوش نہیں ہوئے تھے۔ منشا یاد صاحب رخصت ہو چکے تھے، ان کی کمی محسوس کرتے رہے۔ کچھ لوگوں سے ملے لیکن سوائے ایس ایم زمان صاحب کے، کسی اور سے پہلے جیسی گرمجوشی نہ دکھائی۔ دوسری طرف بھی شاید وہ بات نہ تھی۔ حلقے میں گئے تو سہی لیکن سلمان رشدی کے ذکر پر کچھ لوگ بھڑک گئے اور محفل کا رنگ نہ جم سکا۔ پچھلی بار کے تجربوں کی وجہ سے زیادہ لوگ ملنے بھی نہ آئے۔ عام طور پر لوگ اس شخص سے ملنے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، جس سے ملنے میں کوئی فوری فائدہ یا کم از کم تسکین میسر آ سکے۔ مثلاً شاید کچھ لوگوں کو امید رہی ہو کہ آپ ان کی تحریر کا ترجمہ کریں گے، یا اس کا ذکر ہی اپنی کسی تحریر میں کریں گے یا کم از کم چند تعریفی کلمات ہی عنایت کریں گے۔ آپ ان میں سے کسی توقع پر پورا اترنے والے نہ تھے اس لیے آپ سے ملنے کا اشتیاق رکھنے والوں میں بھی خاطر خواہ کمی آ گئی تھی۔ لیکن سارا قصور دوسروں ہی کا نہیں۔ خود آپ کے مزاج کا رنگ بھی ایسا تھا کہ اس سے گہری آشنائی کے بغیر آپ کی رفاقت کا لطف نہیں اٹھایا جا سکتا۔ بعض اوقات آپ کی گفتگو دوسروں کواپنی توہین اور عزت نفس کے مجروح ہونے کا تاثر دیتی تھی یا پھر یوں کہہ لیں کہ آپ کے سامنے دوسروں کے علمی پول اور فکری جھول کھل کھل جاتے تھے اور ان کی خود اعتمادی لڑکھڑانے لگتی تھی۔ پھر کون خوشی خوشی یہ خطرہ مول لیتا۔ میں بھی ان دنوں یونی ورسٹی کی مصروفیات کے باعث آپ کے حسب منشا زیادہ وقت آپ کے ساتھ نہ گزار پائی، سو مجھ سے بھی آپ کو گلے رہے۔ اکثر مجھے چڑانے کے انداز میں کہتے تھے، ’’بھئی، آپ کے تو خوب مزے ہیں، میری وجہ سے آپ کی کتنی دعوتیں ہو رہی ہیں!‘‘ اور میں سچ مچ چڑ جاتی تھی اس لیے کہ میں ہی تو آپ کی ڈرائیور تھی؛ میں نہ ہوتی تو کون آپ کو یوں لے لے کے گھومتا۔ بس ایک عارف تھے، جن سے آپ بہت خوش تھے اور طرح طرح کی فرمائشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ہفتے، دس دن بعد ہی میں اور عارف آپ کے پروگرام کے مطابق آپ کو لاہور چھوڑ آئے اور وہاں لمز میں کچھ دن گزارنے کے بعد آپ وہیں سے کراچی چلے گئے تھے۔
یہ آپ سے آخری ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے دوران میں نے کئی بار، خاص طور پر لاہور جاتے ہوئے سفر کے دوران، آپ سے ہونے والی گفتگو ریکارڈ کرنے کی کوشش کی تھی۔ کبھی یہ کوشش کامیاب ہوئی، کبھی ناکام رہی؛ کیوں کہ آپ کی آواز بیچ بیچ میں بہت آہستہ ہو جاتی تھی۔ پھر میں گاڑی کی اگلی نشست پر تھی اور آپ پچھلی نشست پر۔ ریکارڈنگ کا اہتمام دیکھ کر آپ چڑ جاتے تھے اس لیے فون آپ کے سامنے بھی نہیں رکھ سکتی تھی۔ میرے سوالوں سے بھی آپ زچ ہوتے تھے اور بار بار مجھے ڈانٹتے تھے۔ لیکن آپ کی زندگی کے بہت سے واقعات، بالخصوص آپ کے والد، نامور اور بے بدل عالم عبد العزیز میمن کی ابتدائی زندگی کی جدوجہد کا احوال کسی حد تک محفوظ ہو گیا ہے۔ شاید یہ باتیں اور کہیں محفوظ نہیں ہیں۔
اس گفتگو میں ایک تنک مزاج ادیب اور مترجم ہی نہیں، ایک عظیم دانش ور اور فلسفی بھی نظر آتا ہے۔ یہ آپ کی شخصیت کی وہ جہت ہے جسے آپ نے اپنے ترجموں کی آڑ میں چھپا رکھا تھا۔ میں نے کئی بار آپ سے کہا تھا کہ آپ ترجمے کے بجائے خود اپنے مضامین کیوں نہیں لکھتے؟ ۲۰۱۳ میں جب لمز کے اردو جرنل بنیاد کی ادارت کے فرائض میرے سپرد ہوئے تو میں ہر شمارے کے لیے آپ سے مضمون کا تقاضا کرتی تھی۔ آپ ہمیشہ تراجم بھیج دیا کرتے۔ صرف ایک مرتبہ آپ نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا تھا اور اپنا ایک مضمون ’’مصری کی ڈلی یا سفید چینی: ترجمہ نگاری اور اس کے آزار‘‘ کے عنوان سے عنایت کیا تھا۔ عنوان کی طرح مضمون کا اسلوب بھی تیکھا اور تند تھا۔ آپ نے نہ صرف ترجمے کے کئی دہائیوں پر محیط تجربے کے حاصلات کے طور پر اس فن کی باریکیوں اور اس کے تقاضوں کو نہایت گہرائی اور گیرائی سے بیان کیا تھا بلکہ فکشن کے فن، اس کی ضروریات اور نزاکتوں کا بھی کما حقہ احاطہ کر لیا تھا۔ بین السطور کہیں کہیں اس الزام کا جواب دینے کی بھی کوشش کی تھی جو آپ کے تراجم پر کئی حلقوں کی طرف سے لگایا جاتا ہے کہ آپ ترجمہ کرتے ہوئے literal یا accurate ہونے کے چکر میں نامانوس اور مشکل الفاظ و اصطلاحات استعمال کر تے ہیں۔ آپ نے الفاظ کے معانی اور ان کے مترادفات، ان کےثقافتی سیاق و سباق اور ان کے اشتقاقات و مصادر، طویل جملوں کے ترجمے کی تکنیک اور زبان کی صرفی و نحوی ساخت کے مسائل پر سیر حاصل بحث کی تھی اور ترجمے کے بارے میں اپنے نظریات وضاحت اور تفصیل سے بیان کیے تھے۔ اردو مترجمین کے لیے اس مضمون میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے کیوں کہ یہ کسی نصابی کتاب کا حصہ نہیں، ایک ایسے مترجم کے زندگی بھر کے تجربے کا حاصل ہے جس نے ترجمے کی لذت پر افسانہ نگاری، تحقیق و تنقید اور دیگر تمام ادبی مشاغل قربان کر دیے تھے۔
دوسری بات جو آپ کی شخصیت کے بارے میں میں نے شدت سے محسوس کی تھی، وہ زمانے کی ناقدری کا احساس تھا۔ اگرچہ آپ نے کبھی اس بات کا اعتراف یا اظہار نہیں کیا تھا۔ شعوری طور پر آپ ہمیشہ یہی کہا اور سمجھا کرتے تھے کہ اس سیال اور ناپائدار زندگی میں زمانے کی قدر شناسی کی اہمیت ہی کیا ہے۔ جب کوئی آپ سے اس بارے میں کچھ کہتا تو آپ باقاعدہ ناراض ہو جاتے تھے اور غصے سے کہتے کہ میں جو کچھ کرتا ہوں، اپنی ذات کی تسکین، تکمیل اور توسیع کے لیے کرتا ہوں۔ مجھے کسی زید بکر عمر کی تعریف و ستائش کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ نہ ایسی کسی تعریف سے میری اہمیت و وقعت میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ بالکل سچ تھا۔ آپ مجھے بھی ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ نتائج اور اثرات کی پروا کیے بغیر وہ کام کرتی رہوں جو میرے بطون ذات کا اصل تقاضا ہے اور کسی فیشن یا بھیڑ چال سے ہرگز مرعوب نہ ہوں۔ لیکن اس کے باوجود آپ کو کہیں دل کی گہرائی میں اس بات کا شدید احساس تھا کہ کسی قابلِ ذکر ادیب یا نقاد نے آپ کے غیر معمولی کام کی ویسی پذیرائی نہ کی تھی جیسی عموماً بہت کمتر درجے کے کاموں کو بھی عام حاصل ہوجایا کرتی ہے۔ ایک مرتبہ حکومت پاکستان نے غالباً افتخار عارف صاحب کی تجویز پر آپ کو قومی اعزاز دینے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ میں آپ کو حکومت کی طرف سے ایک فون بھی موصول ہوا لیکن آپ کو اپنے خرچ پر ایوارڈ لینے کے لیے چند ہفتوں کے اندر اندر پاکستان حاضر ہونے کا حکم بالکل پسند نہیں آیا اور آپ نے اس سفر سے معذرت کر لی۔ نتیجہ یہ کہ حکومت نے بھی آپ کو ایوارڈ دینے کا ارادہ واپس لے لیا۔ انھوں نے سوچا ہو گا کہ لوگ یہاں ایوارڈ لینے کے لیے دیوانے ہو رہےہیں، یہ کیسے دیوانے ہیں کہ نخرے دکھا رہے ہیں۔ یہ بات تو ان کے خیال میں بھی نہیں آئی ہوگی کہ کچھ ایوارڈ شخصیتوں کی عزت بڑھاتے ہیں اور کچھ شخصیتیں ان ایوارڈز کو معتبر بناتی ہیں۔
حکومت ہی کیا، علمی و ادبی حلقوں کی بے نیازی کا بھی یہی عالم رہا۔ کسی یونی ورسٹی میں آج تک آپ کی کسی ایک جہت پر کسی بھی سطح کا مقالہ تک نہیں لکھا گیا۔ خود میں نے اپنی یونی ورسٹی میں ہر سال پی ایچ ڈی اور ایم فل کےطالب علموں کے سامنے یہ تجویز رکھی لیکن کسی نے یہ بھاری پتھر اٹھانے کی ہامی نہ بھری۔ اردو والوں کو تو چلو یہ کہہ کر معاف کیا جاسکتا ہے کہ تراجم کا تجزیہ کرنے کےلیے انگریزی زبان کی مطلوبہ قابلیت سے محروم ہوتے ہیں لیکن اور کسی نے بھی اس طرف توجہ نہ دی۔ اینوئل اوف اردو سٹڈیز میں شائع ہونا کسی کے لیے بھی معیار کی ضمانت اور اعزاز کی بات تھی ۔ آپ اکثر بتایا کرتے تھے کہ اس مجلے میں شائع ہونے والے بیشتر مقالات کی زبان و بیان اور حوالہ جات کی تصدیق و تصحیح پر آپ کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے لیکن جب مقالہ شائع ہوجاتا تھا تو کوئی بھی آپ کی اس محنت کا اعتراف و اظہار نہیں کرتا تھا۔ تحقیقی مجلے کی ادارت کیا ہوتی ہے اور اس کے لیے کیسے خونِ جگر صرف کرنا پڑتا ہے، اس کی روشن ترین مثال مجھے آپ کی ذات میں نظر آئی تھی۔ آپ بیسیوں بار مقالہ تصحیح و ترمیم کے لیے مقالہ نگار کو واپس بھیجا کرتے تھے۔ لہٰذا جن کا مقالہ نہیں چھپتا تھا وہ تو شاکی ہوتے ہی تھے،جن کے مقالے چھپ جاتے تھےوہ بھی اس پر خفا رہتے تھے کہ انھیں بہت ستایا گیا ہے۔ مگر آپ نے کبھی معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔
یہی بات آپ کو اپنے پبلشرز سے شاکی رکھتی تھی۔ مجھے اس بات پر بہت دکھ ہوتا تھا کہ آپ نے کئی ناولوں کے تراجم کر رکھے تھے، کئی مضامین، انٹرویو اردو میں ترجمہ کیے رکھے تھے مگر انھیں چھاپنے کے لیے کوئی پبلشر نہیں ملتا تھا اور اگر کوئی چھاپنے پر راضی ہو جاتا تھا تو آپ کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتا تھا اور ایک آدھ کتاب کے بعد ہی توبہ کر لیتا تھا۔ پاکستان میں ہم آپ کے ساتھ کئی پبلشرز سے ملے اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے پبلشرز کا رویہ آپ کے دل و دماغ کو کچو کے لگاتا تھا۔ مجھے یاد ہے ۲۰۱۴ میں جب ہم سنگ میل گئے تو افضال احمد نے آپ سے ایک ترجمہ شدہ ناول چھاپنے کا وعدہ کیا۔ آپ نے اسی وقت پروف خوانی کے بعد تصحیح شدہ مسودہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ افضال صاحب نے دراز کی میز سے پچیس ہزار روپے نکالے اور آپ کے حوالے کیے۔ اس کے بعد اس ناول کا پتا چلا نہ مسودے کا۔ آپ کی جھلاہٹ بالکل قابل فہم تھی۔ آپ کو یہ سوچ سوچ کر غصہ آتا رہتا کہ کیا میں اپنا مسودہ فروخت کرنے گیا تھا؟
جب کوئی مسودہ اشاعت کا ہفت خواں طے کر لیتا تھا تو آپ کو اس کی ترسیل کی فکر ہوتی تھی۔ یہ بالکل فطری بات ہے کہ آپ چاہتے تھے کہ کتاب چھپ کر کسی گودام میں نہ پڑی رہے، عام لوگوں تک پہنچے اور آپ کو اس کے بارے میں لوگوں کی رائے معلوم ہو۔ یہ خواہش کوئی نئی یا انوکھی نہ تھی۔ ہر لکھنے والا اسی مقصد سے لکھتا ہے کہ اس کا لکھا ہوا لفظ کوئی پڑھے۔ لکھنا دراصل کلام کرنے کے مترادف ہے اور کلام جب تک مکالمے میں نہ بدلے، اپنا مقصد پورا نہیں کرتا۔ مگر آپ کی یہ خواہش شاذ ہی پوری ہوتی تھی۔ اپنی کئی کتابوں کے مسودے آپ نے مجھے چھپنے سے پہلے پڑھنے کو بھیج دیے تھے۔ جب میں پڑھ کر اپنی رائے دیتی تھی تو آپ کتنے خوش ہوتے تھے۔ بیپسی سدھوا کے ناول کا ترجمہ ’’جنگل والا صاحب‘‘ جب میں نے پڑھا تو آپ کو لکھا تھا کہ ترجمہ اصل سے زیادہ دلچسپ اور جاندار ہے۔ آپ نے یہ جملہ بیپسی سدھوا کو بھی لکھ بھیجا۔ بیپسی بھی بہت خوش ہوئیں۔ لیکن پھر جب اس کتاب کی اشاعت کی خوشی منانے کا وقت آیا تو آپ کو محسوس ہوا کہ آپ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ آپ کو بہت رنج ہوا۔
میں بھی مان لوں تو ہرج ہی کیا ہے کہ دوسروں کی طرح کبھی کبھی میں بھی اپنی رائے کے اظہار میں ڈنڈی مار جاتی تھی۔ نظر انداز کر دیتی تھی یا اپنی روزمرہ کی معمولی مصروفیات میں کھو جاتی تھی اور آپ کے حسب توقع کوئی ٹھوس رائے نہ دے سکتی تھی۔ تب آپ کی مایوسی دیدنی ہوتی تھی۔ ادھر ادھر کے بہانے ڈھونڈ کر آپ اپنی مجھ سے اپنی ناخوشی کا اظہار کیا کرتے تھے۔
ہائے وہ آپ کا رنج تنہائی، وہ آپ کی مردم گزیدگی، وہ زبان کا زنگ اتارنے کے بہانے تلاش کرنا۔ فون کرنے کے لیے آپ بڑے اہتمام سے وقت طے کر تے مگر یہ وقت صرف کال شروع ہونے کا ہوتا۔ ختم ہونے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ یہ مخاطب کے صبر حوصلے اورحالات پر منحصر تھا۔ اس دوران آپ دنیا بھر کے موضوعات پر بات کرتے تھے۔ گوسپ اور سکینڈل سے لے کر مابعد الطبیعیات تک، ہر موضوع پر آپ بےتکان بولتے چلے جاتے۔ زیادہ تر یہ گفتگو یک طرفہ ہوتی تھی۔ آپ دوسرے کوبولنے کا موقع ہی کب دیتے تھے۔ میں بھی سمجھ گئی تھی کہ اکثر آپ مجھ سے نہیں، خود سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔ اس اطمینان کے ساتھ کہ کوئی دوسرا آپ کو سن اور سمجھ رہا ہے۔ مجھے بھی اس یک طرفہ کلام کا لطف آتا تھا کیوں کہ آپ کی ایک نشست کی بات چیت سیکڑوں کتابوں کے عطر سے مہکتی تھی۔
کیا کیا یاد کروں اور کیا کیا دہراؤں۔
ابھی میں آپ کی ویب سائٹ دیکھ رہی تھی کہ آپ کی کچھ تصانیف کا تذکرہ کر دوں مگر اتنی لمبی فہرست نظر آئی کہ ارادہ بدل دیا۔ یہ تو ایک خط ہے۔ کوئی مضمون نہیں کہ اس میں آپ کے سبھی کارناموں کا ذکر ضروری ہو۔ سبھی کارنامے ایک مضمون میں سما بھی نہیں سکتے اس لیے ان کا ذکر چھوڑ رہی ہوں۔ بس آپ کو یاد کرنا چاہتی ہوں تو آپ کا ذکر کیے جاتی ہوں۔
آپ نے میرے نام اپنے آخری برقی خط میں ایک افغان گلوکارہ سیما خانم کے ایک نغمے کا ویڈیو لنک بھیجا تھا۔ میں اس خط کا تفصیلی جواب نہ دے پائی تھی۔ پھر آپ نے عارف کو ای میل بھیجنی شروع کر دی تھی۔ رخصت ہونے سے ایک ہفتہ قبل آپ نے عارف کے نام آخری ای میل لکھی تھی جس میں ان سے فرمائش کی تھی کہ وہ مکالمہ میں چھپنے والے اپنے پہلے سفرنامے کی پی ڈی ایف فائل بنا کر آپ کو بھیجیں۔ ان ساری ای میلز میں آپ نے پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا، حالانکہ آپ اکثر اپنی بیماری اور تکلیف کا حال لکھا کرتے تھے۔ میں اس سارے معاملے کو دور سے دیکھتی رہی تھی۔ وجہ کچھ خاص نہیں تھی، بس یوں ہی بے دلی سی تھی۔ خود سے، اردگرد سے، دنیا بھر سے، آپ سمیت سب سے۔ آپ تو اس کیفیت کو خوب سمجھتے تھے۔ تو بس اب جانے دیں۔ اب جب کہ طے ہے کہ آپ کی کوئی ای میل کبھی نہیں آئے گی، نہ فون یا سکائپ پر آپ کی کال موصول ہو گی تو ہمارا آخری سلام قبول کیجیے اور دیکھیے کہ آپ کے جاتے ہی آپ کے بارے میں کس قدر کالم لکھے جا رہے ہیں۔ آپ کے احباب ایک دوسرے کو فون کر کر کے تعزیت کر رہے ہیں اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے بہت جلد آپ پر کئی مقالات لکھے جائیں گے، کتابیں چھپیں گی اور لوگ آپ کو بھلا نہ سکنے پر مجبور رہیں گے۔
آپ یہ دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہیے اوراپنی نئی زندگی کا لطف اٹھائیے۔ امید ہے خدا آپ پر مہربان ہو گا۔