Intizar Hussain, A Detailed Interview with BBC – انتظار حسین، بی بی سی کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو
انتظار حسین: نہیں یہ مسئلہ تو میرے سامنے کبھی آیا ہی نہیں اور میں نے اس طرح سے کبھی سوچا ہی نہیں۔ بس کوئی تکلیف ہے یا اندر سے کوئی کیفیت ہے جو مجھ سے لکھواتی ہے اور میں لکھ رہا ہوں۔ کبھی میں نے یہ سوچا نہیں کہ اس لکھنے کا مقصد کیا ہے یا میں کسی بڑے مقصد کو پورا کر رہا ہوں جیسے کہ بعض لکھنے والے کہتے ہیں کہ اس نظریے کی خاطر یا انسانی فلاح کی خاطر یا ملک و قوم کی خدمت کی خاطر تو میرے ذہن میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔ میں تو بس لکھتا ہوں۔
سوال: لیکن لکھنے والے کے اندر ایک نقاد بھی ہوتا ہے اور اگر اس نقاد کی نظر سے آپ خود اپنے کام کو دیکھیں تو کیا لگتا ہے کہ ایک آدمی جو اتنے عرصے سے لکھ رہا ہے، بات کر رہا ہے، تو وہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ کس طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے یا نہیں کرنا چاہتا، تو کیا محسوس ہوتا ہے آپ کو؟
انتظار حسین: نہیں اس طریقے سے یعنی یہ جو تصور ہے کہ کہانی میں سے کوئی نقط? نظر بھی برآمد ہونا چاہیے، کوئی مقصد برآمد ہونا چاہیے، اس کے میں ہمیشہ سے خلاف رہا ہوں۔ یہ لکھنے والے کا اپنا کوئی تجربہ ہوتا ہے۔ جس طریقے سے اس نے زندگی کو جیا ہے، برتا ہے اور جو اس کے ری ایکشن ہیں اور جو اس کا تجربہ ہے تو جب وہ افسانہ لکھتا ہے تو خود بخود اس کا اظہار ہوتاہے۔ شعوری طور پر یہ طے کر کے کہ مجھے اس مسئلے کے بارے میں لکھنا ہے مجھے یہ بات اپیل نہیں کرتی۔
سوال: شاید میں اپنی بات ٹھیک سے نہیں کہہ سکا، میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ انتظار حسین، جسے آپ سب سے زیادہ جانتے ہیں جو اتنے عرصے سے لکھ رہا ہے، وہ انتظار حسین ایک تخلیق کار کے طور پر، کہانی کار کے طور پر یا ناول نگار کے طور پر کیا کرنا اور کہنا چاہتا ہے؟
انتظار حسین: یہی تو آج تک میں سمجھ نہیں سکا اور اسی لیے آج تک لکھ رہا ہوں یعنی میں خود یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں؟
سوال: زیادہ تر آپ کے اظہار کی فارم کہانی رہی ہے اور ناول شاید آپ نے بعد میں شروع کیے ہیں؟
انتظار حسین: نہیں، ناول بھی، پہلا ناول میں نے اسی زمانے میں، یہ ففٹیز (پچاس کی دہائی) کا زمانہ ہے، جب میں کہانیاں لکھ رہا تو ایک ناول ’چاند گہن‘ لکھا تھا۔ چاند گہن غالباً اکیاون باون کے لگ بھگ میں نے لکھا تھا۔ بلکہ شاید پچاس اکیاون میں۔
سوال: اور پہلی کہانی آپ کی کب شائع ہوئی تھی؟
انتظار حسین: وہ اڑتالیس میں شائع ہوئی تھی لیکن اس ناول کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرا اصل مزاج مختصر افسانہ ہے۔ تو میں ایک ناول لکھ کر بھول گیا اور اس کے کوئی دس بارہ برس کے بعد دوبارہ۔ انہتر ستر کہ لگ بھگ پھر مجھے خیال آیا اور میں نے لکھنا شروع کیا اور مجھے احساس ہوا کہ یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ ناول کی طرف جا رہا ہے اور اس طریقے سے دوسرا ناول ’بستی‘ لکھا گیا۔
سوال: پہلی کہانی اور پھر ناول اور پھر ناول کے بعد یہ احساس کہ آپ کا اصل مزاج کہانی ہے تو کس طرح سے آپ کے اندر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ جو کچھ آپ لکھنے والے ہیں اس کی فارم کیا ہونی چاہیے؟
انتظار حسین: نہیں، افسانہ و ناول، ان کی سرحدیں آپس میں اتنی ملتی ہیں، یعنی دونوں یہ اصناف جو ہیں دراصل ایک ہی عنوان کی طرف آتی ہیں جسے ہم فکشن کہتے ہیں، تھوڑا سا ٹیکنیک اور فارم کا فرق ہوتا ہے لیکن ان میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہوتا۔
انتظار حسین: تعریف جو ہے یہ تو پروفیسر مقرر کرتے ہیں یا نقاد کرتے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے کہیں گے کہ مختصر افسانے کی تعریف کریں تو میرے لیے مشکل ہے۔
انتظار حسین: یہ ہمارا وجدان بتاتا ہے کہ یہ جو آپ لکھ رہے ہیں یہ مختصر افسانہ نہیں ہے ناول ہے۔ ہم اپنے وجدان کے سہارے چلتے ہیں، منطقی استدلال سے یا منطقی انداز میں سوچ کر ہم اس کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتے۔
انتظار حسین: بس یہ کہ کوئی صورتِ حال، ایک تصویر سی ذہن میں آ جاتی ہے اور وہ پکتی رہتی ہے، جیسے دھیمی آنچ پر آپ ایک ہنڈیا رکھ دیں تو وہ پکتی ہے رفتہ رفتہ، اب تو وہ سسٹم نہیں رہا۔ میں تو پرانے زمانے کا آدمی ہوں تو میرے ذہن میں تو یہی مثال آتی ہے کہ چولہے پر ایک ہنڈیا رکھی ہے او دھیمی آنچ پر پک رہی ہے۔ تو بس ایسے ہی ہوتا کہ کوئی خیال آ گیا یا ایک کیفیت ہے یا ایک صورتِ حال ہے جس نے آپ کو متاثر کیا اور آپ کے دل و دماغ میں آ کر اٹک گئی ہے یا بس گئی ہے اور ایک چرخی ہے جو گھومتی رہتی ہے۔ ہم دوسرے کام بھی کرتے رہتے ہیں لیکن وہ اپنا کام کرتی رہتی ہے اور اس کی ایک شکل دل و دماغ میں بنتی رہتی ہے، جب وہ شکل پوری طرح سے بن جاتی ہے تو میں لکھنا شروع کرتا ہوں۔ تو یہ ایک الگ بات ہے کہ لکھتے ہوئے بھی بعض تبدیلیاں ہو جاتی ہیں لیکن ایسے نہیں ہوتا کہ خیال آیا ذہن میں اور میں لکھنے بیٹھ گیا۔
انتظار حسین: نہیں، شاید ہی ایک دو کہانیاں ایسی ہوں جو ایک نششت میں لکھی گئی ہوں۔ اکثر اوقات کئی نششتوں میں اور ہفتوں گزر جاتے ہیں جب ایک کہانی ہوتی ہے۔
انتظار حسین: نہیں وہ چلتی رہتی ہے۔ وہ کیفیت تو اندر دل و دماغ میں چلتی رہتی ہے۔ مجھے یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ وہ ایکسپریشن کا ایک لمحہ تھا اور وہ میرے دل و دماغ سے نکل گیا۔ وہ ایکسپریشن جب آ جاتا ہے نا تو وہ اندر ہی اندر چلتا رہتا ہے۔
انتظار حسین: ہاں۔ بالکل۔ یعنی مجھے پتہ ہوتا ہے کہ اس کہانی کو کہاں جا کر ختم ہونا ہے۔ یہ الگ بات ہے ختم ہوتے ہوتے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس کہانی کو اس طرح سے نہیں اس طرح سے ختم ہونا چاہیے لیکن پہلے سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کہانی کس طرح چلے گی اور کس طرح سے اسے ختم ہونا ہے۔
انتظار حسین: نہیں، ہیں ایسی کہانیاں بھی جو دماغ میں آئیں لیکن ان کی پوری شکل و صورت بنی نہیں۔ ان کا وہ جو خیال تھا، جو کیفیت تھی اسے ان کا گوشت پوست ملا نہیں کہ وہ پوری کہانی بن سکتیں۔
انتظار حسین: ’قیوما کی دکان‘ یہ میرے کہانیوں کے پہلے مجموعے ’گلی کوچے‘ میں شامل ہے۔ یہ میں نے میرٹھ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ میں سنہ سینتالیس کے آخر میں پاکستان آ گیا تھا لیکن یہ کہانی چھپی سنہ اڑتالیس کے آخر میں لیکن اس کے شائع ہونے تک میں کئی اور کہانیاں لکھ چکا تھا۔ لیکن پہلی کہانی یہی تھی۔
انتظار حسین: یہ یاد ہے کہ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ تاریخ یاد نہیں ہے۔
انتظار حسین: ہاں میں نے قلم بند بھی کیا ہے۔ اس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ جو میں لاہور جا رہا ہوں، یہ میری زندگی میں ایک ایسا موڑ آ گیا ہے جس کے بعد ایک بالکل دوسری زندگی ہو گی یہ بات بالکل دل و دماغ میں نہیں تھی۔ اور پھر وہ تجربہ کہ ہم سپیشل میں بیٹھ کر آئے تھے۔ اور جو خوف کی فضا تھی جس وقت سپیشل ہماری چلی اور پھر لاہور میں آ کر، جب اس شہر میں قدم رکھا تو لگا کے ایک بالکل نئی دنیا میں ہم داخل ہو گئے۔
انتظار حسین: بالکل یہ سمجھ لیں کہ مختلف کردار ہیں جن میں بٹا ہوا ہوں۔ کوئی ایک کردار ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ کہہ سکوں کہ اس میں میری شخصیت آ گئی ہے۔
انتظار حسین: تو لکھنے والے کا یہ ہوتا ہے کہ ہر کردار میں اس کی ذات بھی کہیں نہ کہیں شامل ہو جاتی ہے لیکن وہ اس طرح نہیں آ تی کے پوری ذات اس میں شامل ہو جائے۔ بس کوئی کہیں بیان ہو گیا کوئی چھوٹا سا واقع کہیں آ گیا۔ تو وہ خود بخود بیان ہو جاتا ہے۔ اگر میں یہ تصور کروں، میں اپنی کہانیوں اور ناولوں کو ذہن میں لاتا ہوں تو مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں بکھرا پڑا ہوں ان کہانیوں اور ناولوں میں اور کسی ایک کردار کے بارے میں میں یہ طے نہیں کر سکتا کہ یہ میں ہوں۔
سوال: ہم ذرا آگے آ گئے۔ کچھ گھر کے ماحول کے بارے میں بتائیں۔ ہوتا ہے نا کہ ماحول سے تحریک ملتی ہے اردگرد آس پاس لوگ ہوتے ہیں متحرک کرتے ہیں ورنہ ارد گرد جو ہوتا ہے وہ تو سب کے ساتھ ہی ہوتا رہتا ہے؟
انتظار حسین: نہیں گھر کا ماحول تو ایسا نہیں تھا۔ گھر کا ماحول مذہبی زیادہ تھا۔ کوئی ادب کا چرچا نہیں تھا لیکن جو دوست ملے، میں نے میرٹھ کالج میں تعلیم پائی۔ تو جو دوست تھے ان کی وجہ سے ادب میں دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ پھر جب میں ایم اے کر رہا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ اس شہر میں کچھ ایسے گروپ ہیں اور کئی ایسی انجمنیں ہیں جہاں ادیب اکٹھے ہوتے ہیں، تو ہمارے دوست ہمیں وہاں لے گئے تو وہاں ہماری ملاقات سلیم احمد سے اور دوسروں سے ہوئی اور اس طرح ہمیں ایک ایسی منڈلی مل گئی جس کے درمیان ادب وغیرہ کی گفتگو ہوتی تھی یا ادب سے انہیں شغف تھا تو ان میں شامل ہو کر ادب سے زیادہ دلچسپی ہوئی۔
سوال: ابھی آپ نے سلیم احمد کا نام لیا۔ اس طرح کے اور لوگ بھی ہونگے جو اس وقت آپ کے ساتھ ہوں گے تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ ان سب کے بارے میں اس وقت آپ نے جو رائے قائم کی تھی کہ یہ ہے جس میں آگے چل کر کچھ بننے کا بڑا دم خم ہے، تو اس طرح کی توقعات کس حد تک پوری ہوئیں؟
انتظار حسین: نہیں، سلیم احمد کے تیور تو ہمیں شروع ہی میں نظر آ گئے تھے۔ جو اس نے آگے چل کر کیا وہ اس کے طالب علمی کے زمانے کے عین مطابق تھا۔ لیکن جس شخص پر تعجب ہوا اور جس پر گمان بھی نہیں تھا کہ یہ اس قسم کی شخصیت بنے گا وہ جمیل جالبی ہیں۔ اس وقت جمیل جالبی ایک بڑے محقق اور دانشور ہیں اور اس وقت جمیل جالبی مجھ سے جونئر تھا۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو میں ایم اے کر چکا تھا اور یہ ابھی کالج کے شروع میں تھے تو اس وقت گمان نہیں ہوتا تھا کہ اس کی شخصیت اس نہج پر جائے گی اور یہ شخص اس طرح کا محقق بنے گا۔
سوال: تھوڑا اور پیچھے چلتے ہیں۔ جہاں آپ پیدا ہوئے جہاں آپ نے بچپن گزارا۔ کب، کیسی تھی وہ جگہ اور وہ حالات؟
انتظار حسین: دیکھیں، بچپن کہیں گزرا، لڑکپن کہیں گزرا اور بوڑھا کہیں آ کر ہوا۔ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا بلند شہر کے ضلع میں۔ ڈوبائی، وہاں میری پیدائش ہوئی اور دس گیارہ سال تک کی زندگی میں نے وہیں گزاری لیکن اس کے اتنے گہرے نقوش ہیں، اس کی یادیں اتنی میرے اندر بسی ہوئی ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ میری اصل زندگی وہی تھی۔ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے گھر تھے ہندوؤں کے زیادہ اور پھر یہ جو صنعتی عہد کی کرشمہ کاریاں آپ دیکھ رہے ہیں، اس کو اِن کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ اُس زمانے میں وہاں اکّے چلتے تھے، لاری یا بس بھی بہت عرصے میں آئی اور ریل گاڑی چلتی تھی لیکن ہمارے قصبے سے اتنی دور کہ میں نے بچپن میں ریل کی سیٹی کی آواز نہیں سنی۔ جو آوازیں سنیں وہ پرندوں کی تھیں، کوئل کی آواز تھی، مور کی آواز تھی۔ میرے سامعہ نے ان آوازوں میں نشو و نما کی۔ لیکن کسی موٹر کا ہارن، کسی ریل کی سیٹی یا رکشہ کا شور اس قسم کے شور سے میں بالکل نا آشنا تھا۔ پرندے اور بندر ہماری بستی میں بہت ہوتے تھے۔ ان کا اپنا شور تھا۔ یا درخت، آندھیاں چل رہی ہیں، بارش ہو رہی ہے اور جب ہم بستی سے نکلتے تھے تو کوئی درختوں کا جھنڈ آ جاتا تھا یا کھیت آ جاتے تھے تو اسے ہی ہم جنگل کہتے تھے۔
سوال: تاریخِ پیدائش رہ گئی؟
انتظار حسین: تاریخِ پیدائش، اکیس دسمبر انیس سو پچیس۔
سوال: ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی یا مدرسے میں؟
انتظار حسین: نہیں میری ابتدائی تعلیم گھر ہی میں ہوئی۔ بلکہ سکول میں بھی میں بہت دیر میں داخل ہوا۔ میرے والد کا خیال تھا کہ سکول میں تعلیم ٹھیک نہیں ہوتی میں اسے عربی پڑھاؤں گا اور کچھ فقہ و حدیث اس سے متعارف کراؤں گا، اس کی تعلیم ایسے ہونی چاہیے کہ پوری مذہبی ہو۔ تو انہوں نے انگریزی بھی ہمیں گھر پر پڑھائی عربی کے ساتھ ساتھ، اور حساب، اور یہ کہ میٹرک پاس کرے گا تو اس کے بعد دیکھیں گے کہ یہ کیا کرے گا۔ تو ہوا یہ کہ ہمارے خاندان کو ڈوبائی سے منتقل ہونا پڑا ہاپُڑ، جہاں ہمارا پورا خاندان آباد تھا۔ میری بڑی بہن بھی وہیں تھیں تو انہوں نے کہا کہ یہ کیا چکر ہے جو ہمارے والد صاحب کر رہے ہیں، یہ تو مولوی بنائیں گے اسے۔ تو اسے سکول میں جلدی داخل کرانا چاہیے تو ان کا اتنا دباؤ تھا کہ میرے والد ایک طرح سے لاتعلق ہو گئے کہ اچھا جو کرنا ہے سو کرو۔ تو میں آٹھویں میں داخل ہوا اور تین سال میں نے سکول میں گزارے۔ اتفاق یہ ہوا کہ میٹرک میں فرسٹ ڈویژن میری آ گئی۔ تو انہوں نے کہا کہ اس کی تو تعلیم ہونی چاہیے، یہ تو آئی سی ایس میں بیٹھے گا، کمپیٹیشن میں بیٹھے گا۔ یہ میری ہمشیرہ کے خواب تھے۔ اس چکر میں ہم کالج میں چلے گئے لیکن وہ کچھ اور سوچ رہی تھیں اور میں کچھ اور سوچ رہا تھا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ اس قسم کی ملازتیں جو ہوتی ہیں وہ مجھے نہیں کرنی ہیں۔ کوئی تعلیم کا محکمہ ہو گا یا کوئی اس قسم کا کہ میں ادیب کی زندگی گزار سکوں۔ تو اس طریقے سے میں نے بی اے کیا اور پھر ایم اے کیا۔
انتظار حسین: نہیں، یہ سب چیزیں ملی جُلی ہوتی ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک خیال تھا کہ اصل چیز خیال ہوتی ہے اور یہ زبان جو ہے وہ ذیلی اور ضمنی چیز ہے۔ ترقی پسند تحریک نے کچھ اسی قسم کا تصور دیا تھا شاعری کے سلسلے میں بھی اور افسانے کے سلسلے میں بھی۔ کہ آپ کیا کر رہے ہیں یہ زیادہ اہم ہے اور زبان و بیان کے سلسلے میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیے۔ لیکن میرا شروع ہی سے یہ تصور رہا ہے کہ لکھنے والے کا اصل ہتھیار اور اوزار تو یہی ہیں الفاظ اور بیان بھی بہت منجھا ہوا اور بہت ششتہ ہونا چاہیے۔ تو ایسے لکھنے والوں کو بھی میں نے پڑھا جو اپنے زبان و بیان میں بہت ماہر تھے مثلاً شروع کی عمر میں ہی سرشار کا ’فسانۂ آزاد‘ پڑھ لیا۔ اس کی زبان و بیان کا مجھ پر بہت اثر رہا، تو میرے لیے زبان و بیان شروع ہی سے بہت اہم رہے ہیں۔
انتظار حسین: نہیں، ایک تو آپ کا اظہار تخلیقی ہونا چاہیے۔ منطقی انداز میں تو افسانہ نگار نہیں سوچتا ہے۔ تجربہ تو تخلیقی ہے آپ کا۔ لیکن آپ کے پاس ایسی زبان بھی ہونی چاہتے جس کے ذریعے آپ اپنے تجربے کو کامیابی سے منتقل کر سکیں۔ یعنی یہ کہ خیال تو میرے پاس آ گیا اب مجھےا س کے لیے اظہار نہیں مل رہا ہے۔ لفظ مجھے ناکافی نظر آ رہے ہیں۔ تو لکھنے والے کے پاس ایسے زبان و بیان ہونے چاہیں کہ جب تجربہ اس پر اترے تو وہ اسے سنبھال سکے۔
انتظار حسین: نہیں، دیکھیے میں نے اخبار نویسی بھی کی ہے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں اور کچھ ایسی کتابیں بھی لکھی ہیں جن کا افسانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو ایک وقت میں، میں افسانہ لکھ رہا ہوں اور جب دفتر میں جاؤں گا تو کالم لکھوں گا۔ لیکن میرے اندر ایک لکیر کھنچی ہوئی ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ کالم کی زبان یہ ہوتی ہے اور جب میں افسانہ لکھتا ہوں تو اس اندازِ بیان کو بھول جاتا ہوں جو کالم والا ہے، وہ ایک اور قسم کا زبان و بیان ہوگا۔ تنقیدی مضمون لکھوں گا تو یہ ایک اور طرح کا زبان و بیان ہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ میں ایک افسانہ نگار ہوں تو جب میں تنقیدی مضمون لکھتا ہوں تو اس طرح کا عالمانہ مضمون نہیں ہو گا جیسے کہ ایک نقاد لکھتا ہے تو میرا تنقیدی مضمون بھی ایسا ہوتا کہ جیسے ایک افسانہ نگار اپنے تاثرات بیان کر رہا ہے اپنے ردِ عمل پیش کر رہا ہے۔ عالمانہ زبان تو میں لکھ ہی نہیں سکتا ہوں لیکن پھر بھی وہ زبان افسانے کی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔
انتظار حسین: نہیں، یہ سب چیزیں ملی جُلی ہوتی ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک خیال تھا کہ اصل چیز خیال ہوتی ہے اور یہ زبان جو ہے وہ ذیلی اور ضمنی چیز ہے۔ ترقی پسند تحریک نے کچھ اسی قسم کا تصور دیا تھا شاعری کے سلسلے میں بھی اور افسانے کے سلسلے میں بھی۔ کہ آپ کیا کر رہے ہیں یہ زیادہ اہم ہے اور زبان و بیان کے سلسلے میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیے۔ لیکن میرا شروع ہی سے یہ تصور رہا ہے کہ لکھنے والے کا اصل ہتھیار اور اوزار تو یہی ہیں الفاظ اور بیان بھی بہت منجھا ہوا اور بہت ششتہ ہونا چاہیے۔ تو ایسے لکھنے والوں کو بھی میں نے پڑھا جو اپنے زبان و بیان میں بہت ماہر تھے مثلاً شروع کی عمر میں ہی سرشار کا ’فسانۂ آزاد‘ پڑھ لیا۔ اس کی زبان و بیان کا مجھ پر بہت اثر رہا، تو میرے لیے زبان و بیان شروع ہی سے بہت اہم رہے ہیں۔
انتظار حسین: نہیں، ایک تو آپ کا اظہار تخلیقی ہونا چاہیے۔ منطقی انداز میں تو افسانہ نگار نہیں سوچتا ہے۔ تجربہ تو تخلیقی ہے آپ کا۔ لیکن آپ کے پاس ایسی زبان بھی ہونی چاہتے جس کے ذریعے آپ اپنے تجربے کو کامیابی سے منتقل کر سکیں۔ یعنی یہ کہ خیال تو میرے پاس آ گیا اب مجھےا س کے لیے اظہار نہیں مل رہا ہے۔ لفظ مجھے ناکافی نظر آ رہے ہیں۔ تو لکھنے والے کے پاس ایسے زبان و بیان ہونے چاہیں کہ جب تجربہ اس پر اترے تو وہ اسے سنبھال سکے۔
انتظار حسین: نہیں، دیکھیے میں نے اخبار نویسی بھی کی ہے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں اور کچھ ایسی کتابیں بھی لکھی ہیں جن کا افسانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو ایک وقت میں، میں افسانہ لکھ رہا ہوں اور جب دفتر میں جاؤں گا تو کالم لکھوں گا۔ لیکن میرے اندر ایک لکیر کھنچی ہوئی ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ کالم کی زبان یہ ہوتی ہے اور جب میں افسانہ لکھتا ہوں تو اس اندازِ بیان کو بھول جاتا ہوں جو کالم والا ہے، وہ ایک اور قسم کا زبان و بیان ہوگا۔ تنقیدی مضمون لکھوں گا تو یہ ایک اور طرح کا زبان و بیان ہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ میں ایک افسانہ نگار ہوں تو جب میں تنقیدی مضمون لکھتا ہوں تو اس طرح کا عالمانہ مضمون نہیں ہو گا جیسے کہ ایک نقاد لکھتا ہے تو میرا تنقیدی مضمون بھی ایسا ہوتا کہ جیسے ایک افسانہ نگار اپنے تاثرات بیان کر رہا ہے اپنے ردِ عمل پیش کر رہا ہے۔ عالمانہ زبان تو میں لکھ ہی نہیں سکتا ہوں لیکن پھر بھی وہ زبان افسانے کی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔
انتظار حسین: ان میں تو فرق نمایاں ہے۔ لیکن یہ ان کے کہانی لکھنے کا انداز ہی مختلف ہے۔ منٹو کے ہاں تو بہت تیز رفتاری سے کہانی چلتی ہے اور بڑے دھماکے سے ختم ہوتی ہے۔ اور راجندر سنگھ بیدی کے ہاں آہستہ آہستہ ایک خاص انداز سے کہانی چلے گی بلکہ اس ٹیکنیک میں مجھے غلام عباس زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کے افسانے کو میں بہت اہمیت دیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ چیخوف کے افسانے کا رنگ اگر کہیں آیا ہے اور ان سے کسی افسانے نگار نے اگر کچھ سیکھا ہے تو وہ غلام عباس ہیں، جن کی کہانی بہت آہستہ روی سے چلتی ہے اور بڑی آہستہ روی سے ختم بھی ہو جاتی ہے۔ بیدی کے ہاں مجھے ہمیشہ یہ کمزوری نظر آ تی ہے کہ ان کا زبان و بیان اتنا منجھا ہوا نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میں منٹو کا جو زبان و بیان ہے وہ اپنے جگہ بہت منجھا ہوا اور اس طرح کا نہیں ہے، محاورہ روز مرہ والا۔ لیکن ایک اپنی زبان انہوں نے بنائی۔ بمبئی کے انداز میں لیکن ایک پختگی ان میں نظر آئے گی۔ اس طرح عصمت چغتائی کے ہاں بھی۔ ان کا ایک اپنا انداز ہے، وہ جو ہمارا اردو کا ایک انداز چلا آ رہا تھا اسے انہوں نے مانجھا اور نکھارا اور ایک نئے طریقے سے اسے استعمال کیا۔ یا کرشن چندر کے ہاں۔ اگرچہ زبان کا اسلوب شاعرانہ ہے لیکن زبان کے معاملے میں کرشن چندر بہت پکے ہیں۔ مجھے ان کے اسلوب میں کبھی زبان کے اعتبار سے کوئی خامی نظر نہیں آئی لیکن بیدی کے ہاں مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا کہ ان کی بیان کمزور ہے۔
انتظار حسین: نہیں، بیدی صاحب کے ہاں جو بعد کی کہانیاں ہیں ان میں زبان و بیان جو ہے وہ نکھرا اور بہتر ہوا ہے۔ یہ میں ان کے ابتدائی زمانے کو پیش نظر رکھ کر کہہ رہا ہوں۔ یہ آخری دور جو ہے، لیکن اس میں بھی جتنا منجھا ہوا انداز ہونا چاہیے تھا نہیں تھا، وہ ایک بڑے افسانہ نگار تھے ہمارے، اس اعتبار سے مجھے ان کا بیان کچھ کمزور نظر آیا۔
انتظار حسین: نہیں، ان کا زبان و بیان بدلا ہے، زبان و بیان میں بہتری آئی ہے اور ان کی جو لمبی کہانی ہے: ’اک چادر میلی سی‘ اس میں زبان و بیان بہتر ہے۔ لیکن ان کا جو دور ہے سینتالیں تک کا تو ان کی دھوم تو اسی زمانے میں ہو چکی تھی۔
انتظار حسین: نہیں کر سکتی تھیں۔ دیکھیں مثلا وہاں بھی یہی تھا جوائیس اور ان کے وہ ہمعصر جو نئی ٹیکنیک لے کر آئے، تو ان کے زمانے میں بھی وہاں مقبول لوگ اور تھے۔ خاص طور پر ’یولیسس‘ کے بارے میں تو مسئلہ پیدا ہو گیا کہ یہ کس طرح کا ناول ہے۔ نقادوں نے اس کی اتنی تشریحات کیں اور انہوں نے (عسکری و ممتاز شیریں) نے ان سے ہی سارا فیض حاصل کیا تھا، جوائیس سے اور پروست سے اور اس طرح کے لکھنے والوں سے۔ تو اس نئی ٹیکنیک سے ہمارا زمانہ زیادہ مانوس نہیں ہو سکا اور عسکری صاحب اور ممتاز شیریں کی زیادہ تر کہانیاں اسی ٹیکنیک میں لکھی گئی ہیں۔ وہ ایک نئے سنگِ میل کے اعتبار سے تو اہم ہیں اور ایک نیا سکول نظر آتا ہے اور اگر ہم کہیں کہ نیا فکشن کہاں ہے تو ہم عسکری کی کہانیوں کا حوالہ دیں گے، ممتاز شیریں کی کہانیوں کا حوالہ دیں گے اور قراۃ العین کی کہانیوں کا حوالہ دیں گے۔ باقی جنہیں مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی اور جو ہمارے نمائندہ افسانہ نگار ہیں، وہ تو حقیقت نگاری کے اس اسلوب میں چل رہے تھے جس سے ہماری شناسائی پریم چند کے دور سے چل رہی تھی۔ تو اسی میں انہوں نے زبان و بیان کو بنایا سنوارا ٹیکنیک کو بہتر کیا تو کوئی ان میں منٹو بن گیا اور کوئی عصمت بن گیا۔
انتظار حسین: نہیں، اس طرح اگر ہم ان کی الگ امتیازی حیثیت قائم کریں کہ محمد حسن عسکری کا افسانہ کرشن چندر کے افسانے سے مختلف ہے یا منٹو کے افسانے سے تو جس طرح ہم یہ خط کھنچتے ہیں، یعنی خدیجہ مستور کا ناول تو اسی اسلوب میں چل رہا تھا جس کی توثیق ترقی پسند تحریک نے کی تھی یعنی سوشل ریلزم۔ اسی میں تھوڑی سی تبدیلیاں ہیں جسے استعمال کیا عبداللہ حسین اور دوسرے لوگوں نے۔ ان کی اپنی خوبیاں ہیں اظہار کی الگ۔ لیکن وہ کوئی نئی ٹیکنیک لائے ہوں اپنے ساتھ اظہار کی یہ ہم ان کے بارے میں نہیں کہہ سکتے۔
سوال: ’طلسمِ ہوشربا‘ جس طرح کی کہانی ہے اور جو اس کا انداز ہے اسے آپ جدید سُریلسٹ انداز کے تناظر میں کس طرح دیکھتے ہیں؟
انتظار حسین: نہیں میں اسے ایک تجرباتی کہانی کہوں گا۔ اس قسم کا تجربہ ہونا چاہیے تھا۔ اب اس ٹیکنیک میں کوئی کہانی لکھی گئی ہو اور اس میں بڑے معنی بھی پیدا ہو گئے ہوں ایسی کوئی کہانی مجھے اردو میں نظر نہیں آتی۔ میرے ذہن میں نہیں ہے اس وقت۔ منٹو صاحب نے بھی آخر میں ایک دو کہانیاں اس انداز کی لکھی ہیں لیکن وہ منٹو صاحب کی نمائندہ کہانیاں نہیں ہیں۔ اگرچہ بعد کے تجریدی افسانہ نگار اپنا رشتہ انہی کہانیوں سے جوڑتے ہیں لیکن یہ تجربہ مجھے جائز نظر آتا ہے اور اس کے پیچھے بھی ایک فلسفہ اور ایک نقطۂ نظر ہے۔ ہم نے مغرب سے اتنا فیض اٹھایا ہے تو ایک یہ ٹیکنیک بھی برتی گئی۔
سوال:اردو میں جو فکشن کی تنقید ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
انتظار حسین: اردو کی تنقید کو میں لنگڑی تنقید کہتا ہوں اس کا سارا زور شاعری پر رہا ہے۔ مولانا حالی سے چلیں اور پچاس کی دہائی تک آ جائیں تو نقاد شاعری کی تنقید لکھ رہے ہیں۔ فکشن جیسے ان کے دائرۂ ادراک ہی میں نہ ہو۔ صرف عسکری صاحب تھے یا ممتاز شیریں جنہوں نے اسے موضوع بنایا۔ یہ ابتدائی کتابیں کہ فکشن کیا ہوتا ہے، افسانہ کیا ہوتا ہے، ناول کیا ہوتا ہے اس پر وقار عظیم صاحب نے لکھا۔ باقی تنقید شاعری کی تنقید ہے۔ اب جو فکشن جو تنقید لکھی جا رہی وہ زیادہ تر ہندوستان میں لکھی جا رہی ہے۔ وہ تنقید ایسی ہے جسے ہم باقاعدہ فکشن کی تنقید کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب وہ دور آیا تو نقاد غائب ہو گیا۔
سوال: اب کیا دکھائی دیتا ہے کہ آپ کے بعد جو لکھنے والے ہیں ان میں کسی میں قد آوری کا امکان دکھائی دیتا ہے؟
انتظار حسین: ایسا تو کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ۔ آصف فرخی نے کہانی لکھنی شروع کی اور اس میں امکان دکھائی دیا تو اس کی توجہ پھر کہانی کی طرف ہٹ گئی تو اب وہ نقاد زیادہ ہے اور افسانہ نگار کم ہے اور تنقید اس نے بہت اچھی لکھی ہے۔
سوال: اب آپ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا آ رہا ہے؟
انتظار حسین: نہیں، ابھی میرا مجموعہ آیا ہے ’نئی پرانی کہانیاں‘ کے نام سے اس میں، میں نے یہ سوچا کہ پرانے فکشن میں نے جو سفر کیا ہے اسے سمیٹوں۔ میں مغرب کی روایت پر ہی انحصار کیوں کروں۔ میرے مقدر میں یہ کیوں لکھا گیا کہ میں مغرب کے افسانے سے ہی استفادہ کروں۔ وہ جو میری اپنی روایت ہے فکشن کی وہ کہاں ہے۔ تو اس میں جو میں نے چھوٹا موٹا سفر کیا، ایک عربی و عجمی روایت ہے افسانوں کی اور کہانیوں کی اور حکایتوں کی۔ اور ایک پھر قدیم ہندوستان ہے۔ ’کتھا سرت ساگر‘ ہے ’مہا بھارت‘ ہے۔ تو ان دو بڑی روایتوں سے میں نے تھوڑا سا استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تو میں نے یہ سوچا کہ میں جو اتنی کہانیاں لکھ چکا ہوں اور میں نے ان سے فائدہ بھی اٹھایا ہے بساط بھر، تو اسے دیکھوں ذرا دوبارہ۔ تو وہ کہانیاں جو میرے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھیں انہیں میں نے اپنے زبان و بیان میں قلم بند کرنے کی کوشش کی۔ تو اس سے یہ انتخاب بنا ہے نئی پرانی کہانیاں۔
سوال: ذرا اس سفر کے بارے میں تو بتائیں کہ پہلے پاکستانی ادب کے ساتھ تھے اور پھر اسلامی رنگ غالب آیا اور اب ہندو مائتھالوجی کی جانب زیادہ رغبت دکھائی دیتی ہے، تو کیسے ہے یہ؟
انتظار حسین: دیکھیں پاکستانی ادب کا نعرہ عسکری صاحب نے دیا تھا اور مجھے بھی اس میں ایک معنی نظر آتے تھے۔ دو تین سال تک عسکری صاحب یہ باتیں کرتے رہے لیکن یہ کہ میں کوئی پاکستانی ادب کا نظریہ پیش نہیں کیا، کوئی ایسی وکالت نہیں کی زیادہ۔ میں بھی لکھنے والا تھا لیکن یہ ہے کہ مجھے ان کی باتیں اچھی لگ رہی تھیں۔ اس کے بعد میرا موقف یہ تھا کہ ہماری جو تہذیبی روایت ہے اس سے میرا رشتہ ہونا چاہیے۔ نئے افسانے اور نئی شاعری والے سارا زور حاضر پر دیتے تھے یعنی لمحۂ موجود پر اور میں کہتا تھا کہ ہمارے پیچھے جو ایک ماضی ہے جو ایک تاریخ ہے تو میرا انسپریشن (تحرک) وہاں سے آرہا ہے۔ کیونکہ اسلام جو ہمارا مذہب ہے، ہماری مذہبی روایت جو ہے۔ تو اس حوالے سے کہانیاں لکھی گئیں۔ تو پھر مجھے خیال آیا کہ ہندوستان میں جو ہم پلے بڑھے ہیں تو اس کے اثرات کچھ تو ہماری تہذیب کے بھی ہیں۔ تو وہ روایت کون سی ہے۔ تو کچھ میں نے اس تہذیب کے دائرے سے نکل کر اسے سمجھنے کی کوشش کی، کہ یہ جو سارا چشمہ کہاں سے آ رہا ہے بہتا ہوا؟ تو میں اس طرف نکلا تو مہا بھارت تک پہنچ گیا۔ کتھا سرت ساگر تک پہنچ گیا۔ تو ہندو دیو مالا میں مجھے بہت جادو نظر آیا۔ تو وہ طرزِ احساس تو میرے ہاں پہلے سے موجود تھا کہ ماضی، تہذیب، پرانی کہانیاں۔ لیکن اب جو ہندو دیو مالا کی طرف دیکھا تو مجھے ایک نئی اقلیم نظر آئی۔ تو اس کا ایک اپنا جادو تھا تو اس سے میں نے فیض حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بس اتنا ہے۔