اردو ادب , کتابیں , اشاعت – ایک بیرونِ ملک پاکستانی کے تاثرات
امان اللہ
نہیں اس کا جواب عالم میں
نہیں ایسی کتاب عالم میں
غالب کے ذہن میں تو شاید بادشاہی یا آسمانی کتاب رہی ہو گی، لیکن منٹو یا شہاب نامہ پڑھنے والوں کے لیے اردو ادب کی ہر کتاب کا جواب نہیں۔
شوقیہ کتابیں پڑھنے کے لت 11-12 سال میں لگی۔ کسی دوست نے ایک بوسیدہ کتاب موٹے خاکی کاغذ کی جلد میں ملبوس دی۔ جس پوشیدہ انداز میں یہ دی گئی اس سے اتنا تو اندازہ ہو گیا کہ اس کو پردہ میں رکھنا اور پردہ ہی میں پڑھنا ہو گا۔ اس غیر نصابی اور خفیہ محرک نے کتاب کو پڑھنے میں مدد کی۔ جاسوسی کتاب تھی، شاید عمران سیریز تھی ابن صفی کی۔ بچپن میں جو سند باد جہازی کی کہانیاں سن رکھی تھیں اس جیسا ڈرامای اور گھنٹوں نہ ختم ہونے والا قصہ تھا اپنے اسرار اور ناٹک سمیت۔ اس کے بعد کئی سال شہر میں اس محلہ سے اُس محلہ اور اس آنہ لائبریری سے اُس آنہ لائبریری کے چکر میں لگے۔ وہی لو والی گرم دوپہریں ان خفیہ ممنوع حرکتوں میں کام آیں۔ کرنل آفریدی، کیپٹن حمید، بلیک زیرو، جولیا یہ سب ایسے کردار تھے کہ جو اپنی دنیا میں کھینچ لے جاتے ۔ شاید ایک دو سال میں کبھی کبھی بور ہو کر اردو ڈایجسٹ اور اخبار خواتین کو سرسری طور پر دیکھنے کی ہمت آئی ۔ آدھی سمجھ آتی آدھی نہ۔ جب کچھ سمجھ آنے لگی تو سال دو سال میں یہ دنیا بھی ضرورت سے زیادہ رومان زدہ اور بے تکے معجزوں اور کارناموں سے بھری محسوس ہونے لگی۔ ایسی کیفیت میں منٹو کی حقیقت پسندی بالکل فطری لگی ۔ اس میں بھی آدھا سمجھ نہ آنے والا مسئلہ تو تھا لیکن پڑھنے کا شوق پڑ چکا تھا۔ بور ہونے والے مسئلہ کو موضوعات کے تنوع اور رنگا رنگی ادیبوں نے پوری کر دیا۔
ملک سے ماہر آکر دنیا بھر کے ادب پڑھنے کے مواقع تو ملے لیکن اردو کی کتابوں کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہی ۔
ہماری پیڑھی کے تارک وطن خاصی دنیا میں معاشی، خاندانی اور تعلیمی مقاصد کے لیے پھیلے ہوے ہیں. پھر آے دن کے سیاسی بحرانوں کے نتیجہ میں ہمارے ملک کے سیاسی اور ادبی دانشور بھی حجرت کر اس جلا وطنی سے پاکستان اس پڑھے لکھے روشن خیال طبقہ سے محروم ہوا۔
آہستہ آہستہ ان تاریک وطنوں کا قرینہ سا بن گیا۔ تعلیم، ملازمت , پڑھائی اس کے بعد شادی اوربچے .. وقت کے ساتھ یہ بے وطن ملک سے باہر ایک چھوٹی سی نیئ دنیا بناتے ہیں اور وہیں کے ہو کے جاتے ہیں. اور ان کا پیدایشی وطن سے تعلق صرف چھٹیوں منانے اور خاندان کو ملنے کی روایت بن جاتی ہے۔.
لیکن اپنے پرانے وطن کی ثقافت اور زبان کو زنده رکھنے کے لیے وه ثقافتی تنظیمیں بناتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کو ذہنی آسودگی اور شادابی فراہم کرتے رہتے ہیں. ان کی کاوشوں سے نہ صرف زبان کی لغت میں نیے الفاظ کا اضافی ہوتا رہتا ہے بلکہ پرانے الفاظ کثیرالمعنٰی بھی ہوتے رہتے ہیں۔
انگریزی زبان میں تو برصغیر کے لوگ ادبی تخلیق میں اپنا نام پیدہ کر چکے ہیں. سلمان رُشدی، وکرم سیٹھ اور محسن حمید کی نئی کتابیں برطانوی ادبی دنیا اور بُکرز پرایز کی دنیا میں ادبی بحث اور قیاس آرائی کا موضوع رہتی ہیں.
اردو ادب میں بھی ملک سے باہر پاکستانی اور ہندوستانی اہل زباں نثری اور نظمی تخلیق کا کام کسی نا کسی طرح جاری رکھتے ہیں . مکاں اور زبان کی اس دُوری میں فیض اور منٹو تو شاید پیدا نہیں ہو تے لیکن ادبی شاعری محفلیں بھی ہو تی ہیں – شکاگو اور وسکونسن کی یونیورسٹیوں میں ادبی تخلیق ترجمہ اور تحقیق کا کام بھی ہوتا ہے۔اسی طرح ٹورنٹو کی یارک یونورسٹی میں اردو پڑھای جاتی ہے۔ باہر کی ان تعلیم گاہوں میں بہت اہم کام ہوتے ہیں۔ ایک تو ترجمہ کا کام۔دوسرا یہ کہ وہاں اردو کو وسیع تر عالمی ادب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ .
جب بھی ہم وطن واپس گھر جاتے ہیں تو دوستوں رشتہ داروں کے چاو کے بعد بازاروں کا رخ کرتے ہیں. کپڑے لتے کے ساتھ ہمارے جیسے شوقین ایک آنکھ موسیقی اور کتابوں کی دوکانوں پر بھی رکھتے ہیں۔.
کُتب خانوں کی دنیا میں جا کر ملک کی بے بہا تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔.
تیس چالیس سال پہلے نصابی کتب خانوں کو چھوڑ کر لاہور جو پاکستان کا ثقاتی مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں چار نہیں تو دس کتب خانے ہوں گے (ایک ٹانگے کی سواریاں). اور فیروز سنز کے سوا سب حجم میں ایک کمره سے زیاده نہ ہوں گے. اسلام آباد تو کتاب خانے تو خاصے مفقود ہوا کرتے تھے. لیکن اب تو وہاں ایک سعید بُک ڈپو ہی کئی منزلہ دنیا ہے اور سارے جہاں کی کتابیں موجود ہیں. اگر آپ کو ڈھونڈنے کی دشواری ہو تو دکان کے گسی سٹاف سے درخواست کر کے دیکھیے. آپ کی خواہش کو وہ اس زور و شور سے پورا کرنے کی کوشش کریں گے جیسے ان کا کڑوڑوں کا کام آپ کی ایک کتاب پر منحصر ہے. آپ تیسری منزل پر بوجوہ نہیں جا سکتے جہاں شاید آپ کے پسندیدہ ادیب کی کتابیں ہیں. کوی بات نہیں. یہ جو اسٹاف کا نو عمر لڑکا ہے اسے کہیں۔ ذرا اخلاق سے پوچھیں . دس منٹ میں وه آپ کے سامنے دس کتابوں کا ڈهیر لگا دے گا. نا صرف آپ کے پسندیدہ مصنف کی کتابیں بلکہ اگر کسی نے اگر اس مصنف پر کوی تنقیدی کتاب یا سوانح عمری بھی لکھی ہے تو وه بھی حاظر ہے۔
کتاب خانوں میں جا کر جو چیز سب سے زیاده متاثر کرتی ہے بلکہ ایک حد کے بعد پریشان بھی کرتی ہے وہ وه کتابوں کا ایک انبوہ ہے نئے مصنفوں کی کثرت ہے۔ لسانی لحاض سے اردو اور انگریزی لکھنے والوں کی اِجارہ داری ہے۔
انگریزی ادب میں Thomas Hardy یا Bronte بہنیں مقبول تھیں۔ . چلیے بہت ہوا تو Guy de Maupassant. یہ سب تعلیم گاہوں میں پڑھاے جاتے تھے۔ اس زمانے میں ادبی کتابوں انقلاب لاہور کے فٹ ہاتھوں پر آیا۔ یہ انقلاب روس کے کلاسیک ادب کی کتابوں کا تھا۔ بہت شاندار طباعت اور جلدوں والی سستی کتابیں۔ Dostoevsky کیا اور Turgenev کیا۔
. مگر اب Paulo Coelho کیا اور Amin Maalouf کیا. Noam Chomsky اور گبریل گارسیامارک۔ ان سب کی نئی پرانی کتابیں دکان میں داخل ہوتے ہوے سامنے سجی نظر آے گیں.
اردو کتابوں کا تو لغوی معنوں میں ایک انبوہ ہے جو الماریوں سے کمروں اور کمروں سے منزلوں تک انڈلتا پھرتا ہے. مَوضَوعات اور لکھنے والوں کی ایک انجمن ہے . مصنف یا تو ہم نے کبھی سنے نہیں اور پڑھے نہیں یا کسی اور حوالے سے پہچانے جانے جاتے ہییں. یہ سیاستدان کی کتاب ہے ، وه کسی صحافی کی. ریٹارڈ شده سرکاری افسروں، جنرلوں اور ججوں کوتو ایک نیا پییشہ مل گیا ہے. اور وه بھی ایماندار.
اس ساری انوکھیت اور ہجوم سے جب فرصت ملتی ہے تو انفرادی کتابوں کو کھول کر دیکھنے کا موقع ملتا ہے.
پاکستان میں کتابوں کی دکان میں جا کر جو تاثرات ہوتے ہیں ان میں اوّل تو کتابوں کا بے تحاشہ انبار ہے۔موضوعات کا تنوع، مضامین کی کثرت، جلدوں کے رنگینی کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ‘رنگ پیراہن کا’ ہی نہیں کتابوں کی جلدوں کا بھی نام ہو سکتا ہے۔
لیکن پھر کتابوں کی قیمتیں دیکھ کر تعجب ہوتا ہے، کہ بھائی ڈالروں کو روپے میں تبدیل کر کے تو کتابوں کی قیمت کچھ ایسی بری نہیں لگتی لیکن ایک اچھی کتاب کے لیے ڈیڈھ دو ہزار روپیہ ایک تنخواہ دار کیسے خرچ کر سکتا ہو گا۔ اور پاکستان کی مہنگائی پر ایک تبصرہ یا مشاہدہ سمجھ لے جیے کہ اب وہاں جا کر دوستوں بھائیوں سے جب ملک کے حالات کی بات ہو تو اکثر ذکر سیاست یا دھماکوں کا نہیں لیکن ٹماٹر اور پیاز کی مہنگائی کا ہوتا ہے۔
کاغذ کا معیار، جلد ، کتابت وغیرہ پہلے سے بہتر ہیں۔ لیکن ایڈیٹنگ، املا کی تصحیح وغیرہ جو کہ مشینی نہیں انسانی کام ہیں وہ عالمی میعار سے خاصے نیچے ہیں۔
ادبی کتابوں کی ضخامت خاصی زیادہ ہو چکی ہے۔ ساٹھ ستر کی دہایوں تک پانچ سو صفحات سے زیادہ ‘آگ کا دریا’اور ‘اداس نسلیں’ جیسی گنی چنی چند کتابیں تھیں۔ اب تو سات سو صفوں کی نثار عزیز بٹ کی آپ بیتی بھی میسّر ہے ۔ جو کہ سنجیدہ پڑھنے والوں کے لئے بہت خوش آیند ہے۔ ایسے ادیبوں کے پاس لکھنے کے لیے بہت ہے اور ہم جیسے پڑھنے والوں کے پاس وقت اور تشنگی۔
موضوعات میں سب سے زیادہ شاید اسلامی کتابیں ہیں ۔ ایک لحاظ سے یہ ہمارے موجودہ سیاسی اور مذہبی رجحانات کی صحیح علامت ہے۔
دوسرے یا تیسرے نمبر پر آپ بیتی، جگ بیتی، اور سفر ناموں کی دنیا ہے۔ یہ رجان نسبتاً نیا ہے خوش آیند ہے اور متبادل تاریخ کے فروغ میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارے ملک میں شخصی تحریری آزادی ، کتابوں کی دنیا میں عام آدمی کی دسترس کا میلان ہے۔ اور سفر کے فوائد تو ہماری حدیث کا حصہ ہیں۔ اب ہر آدمی تو ہر جگہ سفر نہیں کر سکتا ، یہ رجان جمہوری بھی ہے کم خرچ بالاں نشین بھی۔ جو باتیں صرف خاص بیٹھکوں میں اور وہ بھی ذبانی، وہ اب تحریری تاریخ کا حصہ اور مشترکہ قومی بحث کا حصہ بن سکتی ہیں۔
پھر ڈایجسٹوں کی اک دنیا ہے . ایک لحاظ سے یہ ہماری ادبی دنیا کی تجربہ گاہ ۔ نو ُعمر اور نیے ادیبوں ان ڈایجسٹوں میں مختصر کہانیاں افسانے لکھ کر ادبی دنیا میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ رومانوی اور جاسوسی ادب کی دنیا ہے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہانیاں اردو ادب کا سنہرا دور رہا ہے۔ بعد کے زمانے کی ادبی کمی ڈایجسٹوں کی دنیا نے کسی طرح پوری کرنے کی سعی سے کی ہے ۔ نہ لکھنے والے نہ پڑھنے والے ہمیشہ کے لئے جمود کا شکار رہتے ہیں اور اپنے تئیں ترقی تو کرتے ہی رہتے ہیں۔ لکھنے اور پڑھنے والوں کے لیے ڈایجسٹوں کی یہ بہت بڑی دنیا ہے جہاں موضوعات اور سلوب دونوں کے تجربوں کی گنجائش موجود ہے۔ اسے آپ ادب کی جمہوری کائنات سمجھ لیں ۔ ایک لحاض سے اردو ادب کی دنیا پر اس اسلوب کا ایک طرح احسان ہے۔ منٹو اور فیض تو جب آئیں گے سو آئیں گے، اس دوران دنیا اور ادب تو جاری رہیں گے قیاس ہے کہ اس کے اثرات دور رساں ہوں گے۔ لکھنے اور پڑھنے والے بلوغت اور بلاغت تک پہنچیں گے۔ ڈایجسٹوں کہانیوں کے موضوعات عشقیہ ہیں یا جاسوسی۔ تاریخی فکشن بے حد مقبول ہے –
ایک ادبی صنف جو کہ بے تہاشہ مقبول ہوی ہے وہ تاریخی رومان یا رومانوی تاریخ کی صنف ہے۔ یہ ہماری بڑھتی ہوی مڈل کلاس کی دنیا ہے۔ یہ کلاس اردو بخوبی پڑھنا جانتی ہے۔ رومانوی ادب سے آگے بڑھ کر، ان میں تاریخ کو پڑھنے اور جاننے کی کی قدرتی خواہش ہے، خاص طور پر اسلامی تاریخ۔ پچھلے کئی سو سالوں میں مغربی اِستعمار کے اسلامی دنیا پر غلبہ نے اس مڈل کلاس میں اسلامی دنیا کے سنہرے ادوار کو جاننے اور پڑھنے کی جِلا ملی ہے۔ اردو میں تاریخ جیسےخشک مضمون کو رومان زدہ کر کے عوام کے لیے قابلِ قبول بنانے کا سہرا شریف حسین عرف نسیم حجازی کے سر جاتا ہے. لیکن تاریخی عمل صرف سسفید و سیاہ، بد وخیر کی سیدھی لائن تو ہے نہیں ۔ نہ تو صرف ایک قوم کے سارے رکن مکمل طور بد ہوتے ہیں نہ سب نیک ۔ نہ تو ہمیں ابد تک ہمیشہ ہر حالات میں فتح ہوتی ہے نہ ہمیشہ شکست۔ یہ تو ہمارے ایک شکست خوردہ نوجوان طبقہ کی کی نفسیاتی خواہش ہے جسے پوری کرنے کے لیے نسیم حجازی جیسے بد دینانت مگر رومانوی ادب کے ماہر موجود ہیں جو ان خواہشات کو بہت احسن سے پورا کرتے ہیں۔ صنف کے طور پر یہ بذات خود یہ اچھی یا بری نہیں ہے۔ لیکن اس میں تاریخ کا ایماندار مطالعہ اور غیرجانبدار اورمفصل تحقیق کی ضرورت ہے۔ آپ پڑھنے والے کی دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے کوی خیالی اور افسانوی کردار تو تخلیق کر سکتے ہیں لیکن تاریخ کو مسخ نہیں کر سکتے۔ اچھے تاریخی ناول میں ہمارے برصغیر میں مجھے طارق علی اور امیتاو گھوش انگریزی میں سر فہرست لگتے ہیں۔ اردو میں قرة العین حیدر کا شاہکار ‘آگ کیا دریا’ تو ہے ہی. پھر شمس الرحمان فاروقی ہیں . یہ شاید مبالغہ لگے لیکن انھوں نے ہماری داستان گوی کو جدید ناول نگاری میں ڈھالا ہے.
شاعری ہماری ادبی دنیا کی چٹان کی طرح پائیدار صنف ہے- رومان پسند، ترقی پسند، آزاد نظم، مزاحیہ ہر قسم کے شاعر ہر قسم کے چھوٹے بڑے شاعر ہر شہر میں مل جایں گے۔ خواتین مرد اردو سندھی پنجابی۔ اس رنگارنگ انجمن کی کتابیں نسبتاً کم دستیاب ہیں ۔ یہ لوگ مشاعروں، اخباروں، رسالوں میں اپنا کلام پیش کر کے خوش ہیں۔ یا رسالوں ڈایجسٹوں میں چھاپ کر اہل دل کی شبوں کی گریانی کم کرتے رہتے ہیں ۔بیرون ملک ادبی ثقافتی انجمنیں ان کی شاعری اور مخلصی سے قائم ہیں۔ ان کے شعری مجموعے لکھنے والے کے لیے فخر کا باعث تو ہو سکتے ہیں آمدنی کا ذریعہ نہیں۔
خالص ادب میں ناول پہلے ہی کم تھے اب اور مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔17-2016 میں ‘اداس نسلیں’ والے عبداللہ حسین ، ‘بستی’ کے خالق انتظار حسین اور ‘راجہ گدھ’ کی مصنفہ بانو قدسیہ دنیا سے رخصت ہوے۔ شمس الرحمان فاروقی کا ‘کئی چاند تھے سر آسمان’ ، علی اکبر ناطق کی ‘نو لکھی کوٹھی’ نمایاں اضافے ہیں۔
باہر آکر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے کتاب خانے، پاکستان ہندوستان کے پڑھنے والے، ان سب نے ہندو پاک کی تقسیم کے ساتھ اردو زبان اور ادب کی برسر خود خویش ایک تقسیم کر رکھی ہے۔ جیسے کہ ہندوستان میں ۲۲ کڑوڑ مسلمان ہندوستان میں رہ جانے کہ باعث اردو سے رابطہ توڑ کر ہندی اختیار کر گئے ہیں ۔ بھئی کبیر بھی وہاں اردو میں نظمیں کہتے تھے۔ گولی چند نارنگ اردو تنقید کا زندہ سرمایہ ہیں۔ سنجیو صراف صاحب نا صرف ہندوستان کے صنعت کار ہیں بلکہ اردو زبان اور ادب کے بہت بڑے عاشق بھی ہیں۔ اب تو وہ شاید کاروبار میں کم اور اردو زبان کے فروغ کے لیے اپنا زیادہ وقت اور اپنے لاکھوں شاید کڑوڑوں روپے لگا کر اردو ادب کی بلا مبالغہ سب سے بڑی ویب سائٹ (rekhka.org) مصرف کرتے ہیں۔ جشن ریکھتہ جو ہر سال جنوری کا ماہ دہلی میں، یہاں ہندوستان ، پاکستان ، انگلینڈ، اور امریکہ کے اردو دان آتے ہیں اور اپنی بحثوں اور ادبی کاروائیوں سے اردو زبان کو رخشاں رکھتے ہیں ۔
غرض یہ کہ اردو ادب پاکستانی سرحد کے اس پار نہ صرف زندہ ہے، بلکہ اپنی چمک دمک آب و تاب سے قائم ہے۔
جہاں تک موجودہ اردو ادب میں لکھنے والوں کا تعلق ہے، امریکہ کی یونورسٹی کے اردو کے پروفیسر محمد عمر میمن کا بانگِ دُہل کہنا ہے کہ “ دنیا کے جو دو بڑے لکھنے والے ہیں اردو کے وه ہندوستان میں ہیں … شمس الرحمان فاروقی اور نیر مسعود …. یہ باقی سب بونے ہیں جو آپ کو پاکستان اور ہندوستان میں نظر آتے ہیں” ۔ چلئے صاحب ایک طفلانہ مقابلہ ختم ہوا، اب کتابوں کی فراہمی کی بات ہو۔ کسی بڑے کتاب خانے میں شمس الرحمٰن فاروقی کی “کئی چاند تھے سرِ آسماں” تلاش کر کے دیکھیے۔ ناول کی دنیا میں یہ کتاب “آگ کا دریا” اور “اداس نسلیں” کے میعار کی ہے۔ ۲۰۰۶ کا لکھا ہوا یہ ناول ابھی بھی آسانی سے دستیاب نہیں پاکستان میں۔ یہی حال پیغام آفاقی کے ”پلیتا”،مشرف عالم ذوقی کے “آتش رفتہ کا سراغ”، یا سید محمد اشرف کے “آخری سواریاں” کا ہے۔ پھر اردو ادبی رسالوں کے ایک دنیا ہے وہاں بھی سیاسی اور قومی سرحد بندی ہے۔
حقیقت یہ ہے کے اردو افسانہ اور اردو ناول ہمارے ادب میں شاعری کے برعکس نسبتاً نئی اصناف ہیں۔ داستان گوی اور طلسم ہوش ربا تو تھے فارسی طرز کے۔ لیکن جدید افسانہ یا ناول سے مختلف۔مرزا رسوا اردو ناول اور منشی پریم چند اردو افسانہ کے بانیوں میں سے تھے- یہ تبدیلی اور ارتقا انگریزی ادب اور دوسری مغربی زبانوں کے ادب سے ہمارے ہاں آئی ۔ اور ان کے موضوعات اور اسلوب بہت عرصہ تک صرف اپنی اَندرونی دنیا ہندوستان پاکستان تک ہی محدود رہی کم و بیش۔ نئے تجربے کم ہوے۔ خاص طور پر فرد کے اندر کی دنیا میں نفسیاتی پہلووں پر غور کم ہوا۔ دوسرے یہ کہ یورپ سے شمالی امریکہ اور وہاں سے لاطینی امریکہ ادب کی دنیا بہت بڑی بھی اور متنوع بھی ہے۔ اور یہ تنوع وہاں کی فلاسفی اور فن کی دیگر اصناف یعنی مصروّری، مجسمہ سازی سے منسلک ہے۔ تیسرے یہ کہ جب اتنے آفاق سے اتنی تخلیقات ہوں تو دوسروں کے تجربات سے متاثر ہونا اور اپنے فن کا اوروں کے ساتھ مثبت موازنہ اور مقابلہ فن اور فنکاروں کے تخلیقی اظہار کو نیی اشکال سے آشکار کرتا ہوگا۔
انیس سو اسی کی دہای کے ساتھ ضیا کے اسلامی تجربات کا اثر ادب سمیت پاکستان ہر شعبہ پر پڑا۔ پھر افغانستان، جہاد، 9/11 نے ساری دنیا میں ہیجان پھلایا۔ ان سب کے نتائج ہمارے ادب میں جابجا ملتے ہیں۔ ۔ 1947 کی تقسیم پر جو مہاجرین پر گزری اس کے نتیجے میں اردو ادیبوں کا ردِ عمل بے یقینی، افسوس، اور غم و غصہ کا تھا۔ ضیا، جہاد، 9/11 کے واقعات کی نظریاتی اہمیت بیت گہری ہے۔اس مار ڈھار اور توڑ پھوڑ کے نتیجہ میں ادب اور ادیبوں کے اندر بھی کچھ توڑ پھوڑ تونا گزیر تھی-
انگریزی میں ان کی ‘A Case of Exploding Mangoes’ اور محمد حنیف کا ‘ A Reluctant Fundamentalist’ محسن حمید کا ناول
کا ناول ہمارے ادب میں کی نئی صنف ہے جس میں تشدد اور ہولناک واقعات کو ظریفانہ تمثیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک اور صنف جو آجکل بہت مقبول ہو رہی ہے وہ ہے عالمی ادب کا اردو ميں ترجمہ.دنیا بھر کی زبانوں کے ادب کا اردو میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ اور اردو ادب کا دھڑا دھڑ انگریزی میں ترجمہ ہو رہا
منٹو کرشن چندر اور غلام عباس نے فرانسیسی کہانیوں کے ترجمہ کا آغاز کیا تھا. لیکن شاید یہ سنجیدہ ادبی کاوش نا تھی یا پڑھنے والوں نے دلچسپی نا لی، ہو صنف اس س وقت آگے نا بڑھی.
داستان گوی کے علاوہ اردو نثر میں کہانی اور ناول کی بنیاد قدرے نئی ہے. اور ہہ مغربی دنیا سے اردو میں آی. مغربی دنیا میں دونوں ناول اور کہانیاں موضوع اور تکنیک کے لحاظ سے متنوع بھی ہے اور فائق بھی. پڑھنے اور لکھنے والوں دونوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. خواندگی کے اور آبادی کے زیادہ ہونے کے علاوہ بڑی زبانوں .. یعنی انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، روسی اور روسی…کے ایک دوسرے میں ترجمہ کا فن اور روایت بہت پرانے ہیں. خواندگی کے اور آبادی کے علاوہ عالمی ادب کا مقامی زبان میں ترجمہ اس زبان کے ادب کی ترقی کا پیش خیمہ دستہ ہے. مثلاً “جادوئی حقیقت پسندی” ادب کی صنف جنوبی امریکہ میں گیبریل گارسیا مارکیز جیسے لکھنے والوں کے ترجموں سے مغربی ادب میں بہت پھیلی. اسی طرح دوسری زبانوں کی فکری اختراع دوسری زبانوں میں پھیلی.
“جادوئی حقیقت پسندی” کو اردو میں لاننے کے لیے انتظار حسین اور ہندوستان کے مسعود نًیر کا بہت بڑا کردار ہے.
نًیر مسعود کی کہانیاں تو علامت نگاری اور استعاروں سے بھر پڑی ہیں.
انتظار حسین نے اپنی جوانی میں ہندی ویدک اور بدھ مت کے نروان اور اَبدیت کے قصے جاتک کتھاؤں کی مالا پڑھ رکھے تھے. لیکن کوی بیس سال تک وہ روایتی حقیقت پسند افسانہ نگاری ہی کرتے رہے. لیکن جب انھوں جدید لاطینی ادب کا مطالعہ کیا تو انھیں احساس ہوا کہ اوہو بھئی ہی تو ایک ہماری قدیم دنیا کے ہندی اور بدھ حکایتوں کی طرح ہی ہیں. انھوں نے اپنے مشہور ناول “بستی” میں ایک طرح سے اردو ادب میں “جادوئی حقیقت پسندی” کو لاے .
مثبت بات یہ ہے کہ اردو زبان میں یہ ترجمے بے حد مقبول ہو رہے ہیں .
اختمامی موضوع کتابوں کی رسای اور کتاب خانوں کا ذکر ضروری ہے. اگر آپ کے پاس دس بیس کتابوں کی لسٹ ہے تو آپ کو پاکسان میں amazon نہیں ملے گا. یا تو لسٹ آپ کسی بڑے کتاب خانے کو دے دیں. دس پندرہ روز تک وہ دس میں سے نو کتابیں منگوا دیں گے. ہماری ہمشیرہ اسلام آباد میں ہیں اور ان کے ذریع میرا یہ کام خاصی تسلی سے ہو جاتا ہے. کتابوں کی تلاش کا کام تو مواد تفصیلی فہرست یا کیٹالاگ سے ہی ممکن ہے. ہماری کتابوں کی دکانوں میں یہ کام لوگوں کے ذریع ہوتا ہے. یعنی دکان کا ملازم آپ کو فوری طور پر بتا دے گا کے فلانی کتاب موجود ہے یا نہیں. یا وہ آپ کو اس شیلف میں لے جاے گا جہاں مصنف کی یا اس مضمون کی دیگر کتابیں دستیاب ہیں. اب کتابوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک پہنخ چکی ہے. آن لاین تلاش سے یہ مسائل آسانی سے حل و جاتے ہیں. لیکن اردو کتابوں کی تلاش ابھی تک مسئلہ ہے. ایک اور مسئلہ سنگ میل جیسے پبلشرز نے بنایا ہوا ہے. وہ پبلشر بھی ہیں اور کتاب خانوں کے مالک بھی. اپنے کتاب خانوں میں وہ اپنی کتابیں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں. اور ان کی چھپی ہوی کتابیں دوسری دکانوں میں مشکل سے دستیاب ہوتی ہیں. بیرون ملک اردو پڑھنے والے منتظر ہیں کے ایک دن اردو کتابوں کا amazonبھی شاید آ ہی جاے.
(املا کی غلطیوں پر معزرت. جہلات کے علاوہ ملک بدیسی کا بہانہ سمجھیں)