Muhammad Asim Butt – محمد عاصم بٹ
Birth—
|
لاہور میں پیدا ہونے والے محمد عاصم بٹ اردو کے ناول نگار، افسانہ نگار، مدیر، نقاد اور مترجم ہیں۔ نئے لکھنے والوں میں آپ کا اختصاص جدید انسان کے مسائل اور رویوں کی عکاسی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور پاکستان سے فلسفہ کے مضمون میں ایم اے کرنے کے بعد انگریزی صحافت میں کیریئر کا آغاز کیا۔ مختلف انگریزی اور اردو اخباروں کے ساتھ وابستہ رہی۔ تاہم چند سال اس شعبے میں گزارنے کے بعد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں سے وابستگی اختیار کی۔ 1996ء سے آپ سرکاری ملازم ہیں اور اکادمی ادبیات پاکستان کے ساتھ بطور مدیر “سہ ماہی ادبیات” کام کر رہے ہیں۔ محمد عاصم بٹ نے ادبی زندگی کی شروعات شاعری سے کی۔ تاہم جلد ہی میلان طبع کی وجہ سے کہانی کاری کی طرف متوجہ ہوئی۔ پہلی کہانی 1989ء میں ماہنامہ “ماہ نو” میں شائع ہوئی۔ 1998ء میں کہانیوں کا پہلا مجموعہ “اشتہار آدمی” کے نام سے اور 2009ءمیں دوسرا مجموعہ “دستک” کے نام سے چھپا۔ 2001ء میں ناول “دائرہ” شائع ہوا۔ عاصم بٹ کا دوسرا ناول ”ناتمام‘‘ ۲۰۱۴ میں شایع ہوا۔ یہ پاکستانی مڈل کلاس عورت کی کہانی ہے اور اس کے کرداروں میں وہی پراگندگی ہے جس میں پاکستان میں ہزاروں خاندان مبتلا ہیں۔ محمد سلیم الرحمن اسے قنوطی ناول قرار دیتے ہیں – تاہم ۲۰۱۶ میں اِس ناول کو یو بی ایل کا ادبی ایوارڈ ملا آپ عالمی ادب پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ سیموئل بیکٹ کے شہرہ آفاق ڈرامے “گوڈو کے انتظار میں” (ّWaiting for Godot) کے علاوہ کافکا اور بورخیس کی کہانیوں کو بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ محمد عاصم بٹ کی اب تک درجن بھر سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی لکھتے ہیں۔ عاصم بٹ اردو ادب کی نئی نسل کے نماینده ہیں – اِس نئے دور کے لکھنے والے نا صرف کافکا اور بورخیس سے متاثر ہیں بلکے اِن مغربی ادیبوں کا اردو میں ترجمہ بھی کرتے ہیں – ان کی تحریروں میں اردو کے قدرے نامانوس لفظ نظر آتے ہیں – یہ دونوں چیزیں ، یعنی نئی زبان اور اردو میں مغربی اور لاطینی امریکی ملکوں کے ادب کی روشناسی اردو ادب میں نئے رجان پیدا کر سکتی ہے ناتمام |