مادھو لال حسین، لاہور دی ویل
نین سکھ
Paperback: 462
|
تاریخی ناول نگار کا کام کسی تنے ہوے رسے پر چلنے سے کم دشوار نہیں ہوتا۔ اسے تاریخی واقعات کی لڑی میں اپنے کرداروں کو اس طرح سمونا ہوتا ہے کہ قاری اس کے سحر سے نہ نکل سکے۔ اردو کے ممتاز نقاد اور فکشن نگار شمس الرحمن فاروقی نے اپنے طویل افسانوں اور ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ میں یہ کام بڑی مہارت سے سر انجام دیا ہے۔ نین سکھ کا نیا پنجابی ناول ’’مادُھو لال حسین، لاہور دی ویل‘‘ بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے۔ نین سکھ نے تاریخ کے ان واقعات کو چنا ہے جن کی جانب ہماری نظر اب کم ہی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے کی بناوٹ میں ان کا کردار کلیدی ہے۔ اس اعتبار سے نین سکھ کا ناول ایک کامیاب کوشش کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے تاریخی واقعات کی کھوج کے لیے بڑی محنت سے کام کیا ہے۔ ان کی یہ محنت ناول کے صفحات میں جا بجا نظر بھی آتی ہے۔ لاہوری سماج کا کون سا پہلو ہے جو اس ناول میں نظر نہیں آتا۔ رسم و رواج، لین دین، برتن، کھانے، لباس، اٹھنا بیٹھنا، شاعری، آمد و رفت کے ذرائع، پرانے محلوں کی آبادی، تھیٹر، فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کا عروج و زوال غرض ہر شے کے بارے میں معلومات کا ایک ڈھیر ہے جو ناول کے صفحوں پر جا بجا نظر آتا ہے۔ دنیابھر میں لاہور کی جو مشہوری ہے اس کی وجہ جاننے کے لیے یہ ناول پڑھنا کافی ہے۔ لالہ جی لہوری، شجرہ منشی، دادا جی کی ڈائری ، یہ وہ نشتر ہیں جن کی مدد سے ناول نگار نے سماج میں اونچے استھان پر بیٹھے خانوادوں کی اصلیت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ لاہور کی یہ سماجی تاریخ بڑی ہی تلخ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس شہر کے باسیوں نے کبھی گہری ’’گویڑ‘‘ کا تردد نہیں کیا، انہیں تو سطح پر موجود رنگوں سے ہی غرض ہے۔ یوں بھی ہر بڑا شہر اپنے باسیوں سے ان کے شجرے طلب نہیں کرتا اور لاہور تو اسی لیے عالم میں مشہور ہے کہ اس کی مہربان چھاؤں تلے ہر کسی نے کڑی دھوپ میں پناہ لی ہے۔ یہ ناول صرف تاریخ نہیں بلکہ ماضی قریب میں ہونے والے واقعات اور معاصر صورت حال کا بیان اور ہمارے معاشرے میں پیدا ہوجانے والی فکری و سماجی پستی کی دلچسپ رپورتاژ بھی ہے۔ وہ شہر جس کی آغوش میں مادھواور لال حسین پروان چڑھے وہاں اب مذہبی شدت پسندی کا راج ہے۔ وہ لوگ جو پر امن بقائے باہمی کے اصول پر کاربند رہ کر دوسروں سے بزدلی کا طعنہ سنتے رہے انہیں اب اسی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مذہب کا استعمال، اور گھٹیا کاموں کے لیے اس کی آڑ اور اس کی وجوہات کی کھوج بھی اس ناول کا ایک خاص رُخ ہے۔ یہ نہیں کہ ہم ہمیشہ سے ایسے تھے لیکن یہ بات مان لینے میں بھی کوئی خرج نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے بیج بڑے طویل عرصے سے موجود تھے۔ آج اگر مذہبی تنگ نظری فرینکنسٹائن بن کے ہماری درپے ہے تو اس میں ہمارا قصور دوسروں سے کم نہیں۔ معاشرتی اقدار کیسے بنتی اور بگڑتی ہیں، سیاست، مذہب اور سماج کے رَد کیے جا چکے طبقے اس میں کیسے اپنا حصہ بصورت خرابی ڈالتے ہیں، یہ سب کچھ اتنا سادہ نہیں کہ آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ ریاست کی مقتدر قوتیں جب فیصلہ کر لیں کہ انہیں اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے کوئی بھی قدم اٹھائیں گی تو نتیجہ وہی نکلے گا جس کا سامنا ہم آج کل کر رہے ہیں۔ اس ناول میں ہمیں جہاں اپنی سماجی تاریخ نظر آتی ہے وہیں سیاسی تاریخ کے بارے میں مصنف کے خیالات سے آگاہی بھی ملتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم واقعات اور ان پر کرداروں کی زبانی تبصروں سے مصنف کے سیاسی شعور اور سیاسی سمت کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ناول میں سماجی و سیاسی تاریخ کے اس ڈھیر میں فکشن کہیں پیچھے چلا گیا ہے لیکن مصنف کے فکروں کی کاٹ بہت ہی شان دار ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی جابر قسم کا طبیب ہے جو ہاتھ میں پکڑے نشتر کی کاٹ سے واقف نہیں۔ وہ چیر پھاڑ کیے جاتا ہے اسے اس بات کی پروا نہیں کہ مریض پر کیا گزر رہی ہے۔ یہ چیر پھاڑ اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ معالج کو اندازہ ہے کہ اس کے بغیر مریض شفا یاب نہیں ہو سکتا۔ نین سکھ بھی ہمارے سماج کے ایسے ہی معالج ہیں جنہیں اندازہ ہے کہ ہماری خرابیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ تیز دھار نشتر استعمال کیے بغیر علاج ممکن نہیں۔ پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں، ان کے کام کرنے کے انداز، ان کے لیے قربانیاں دینے والوں کے خواب اور ان خوابوں کی سوداگری سے ذاتی امارت قائم کرنے والے خواب فروشوں کے بارے بیان بھی عمدہ ہے۔ غریبوں کے نام پر کام کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کر لینے والوں میں صرف بڑے بڑے نام ہی شامل نہیں ہیں بلکہ کچی آبادیوں کے ’’بھٹی‘‘ بھی حصہ بقد جُثہ کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کی زبوں حالی کی جھلکیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان بننے سے قبل کی یونینسٹ، مسلم لیگ، کانگریس اور سکھ سیاست بھی اس ناول کا حصہ ہے۔ نین سکھ کا یہ پہلا ناول ہے۔ اس سے پہلے ان کے افسانوں کے دو اور شاعری کا ایک مجموعہ سامنے آ چکا ہے۔ ان کی اس پہلی کاوش کو شاہ کار نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ ایک نہایت عمدہ کوشش ضرور کہلا سکتی ہے۔ ناول میں استعمال کی جانے والی زبان کے بارے میں شاید ’’پنجابی کے بڑوں‘‘کو اعتراض ہو کہ ناول کی زبان نہایت سادہ اور آسان فہم ہونے کے ساتھ ساتھ زندہ زبانوں کی مانند دوسری زبانوں سے استفادہ کرتی نظر آتی ہے۔ اگر یہ شعوری کوشش ہے تو مصنف داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے زبان کو جامد زبانوں کی مانند مشکل بنانے کی کوشش نہیں کی۔ مروجہ لہجے اور الفاظ کی بدولت ناول کی تفہیم نہایت آسان ہے۔ پنجابی سے معمولی شد بد رکھنے والوں کے لیے بھی اس ناول کا پڑھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مجموعی طور پر ناول کے مصنف اور عمدہ طباعت پر اس کے پبلشر دونوں ہی اپنی اس کاوش پر داد کے مستحق ہیں۔ |