غلام باغ
مرزا اطہر بیگ
Publisher: Sanjh PublicationsPublishing date: 2007Language: UrduPK: Sange-e-Meel,
|
سب سے پہلے تو 878 صفحات کا ایک ناول لکھ ڈالنا ہی آج کے دور میں کسی کرشمے سے کم نہیں، پھر کسی ناشر کا اسکی طباعت پر راضی ہو جانا بھی ایک معجزہ ہی قرار دیا جائے گا لیکن اس سلسلے کی آخری کڑی سب سے زیادہ محّیر العقول ثابت ہوئی یعنی سال بھر کے اندر اس ناول کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کی نوبت آگئی۔
جی ہاں ذکر ہے مرزا اطہر بیگ کے ضخیم ناول غلام باغ کاجس کی طبعِ ثانی کا دیباچہ پاکستان میں اردو ناول کے مردِ اوّل عبداللہ حسین نے تحریر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’غلام باغ اپنے مقام میں اُردو ناول کی روایت سے قطعی ہٹ کے واقع ہے، بلکہ انگریزی ناول میں بھی یہ تکنیک ناپید ہے۔ اِس کے ڈانڈے یورپی ناول، خاص طور پر فرانسیسی پوسٹ ماڈرن ناول سے ملتے ہیں۔‘ مرزا اطہر بیگ کی اس کتاب نے حیرت کےجس سلسلے کو جنم دیا اس کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ اس سال بھر کے عرصے میں سوائے عبداللہ حسین کے، اردو کے کسی نقاد، ناول نگار یا بڑے ادیب نے اس ناول کے بارے میں بات نہیں کی۔ نوجوانوں میں ۔ خاص طور پر ادب، لسانیات اور عمرانیات کے طالب علموں میں یہ کتاب پاپولر فکشن کی طرح مقبول ہوئی۔ یہ معمّہ اپنی جگہ ہے کہ فلسفے کے ایک استاد کی لکھی ہوئی کتاب جوکہ خود بھی ایک فلسفیانہ دستاویز سے کم نہیں، نوجوانووں میں اتنی مقبول کیسے ہوگئی؟ یہ سوال میں نے جب غلام باغ کے مصنف اطہر بیگ کے سامنے رکھا تو اُن کا جواب۔۔۔ لیکن ٹھہرئیے، ان کا جواب سننے سے پہلے اُن کا تعارف سن لیجئے۔ مرزا اطہر بیگ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں شعبہء فلسفہ کے صدر ہیں۔ لاہور کے نواحی قصبے شرق پور کے رہنے والے ہیں۔ بنیادی ڈگری اگرچہ سائنس میں حاصل کی لیکن رجحان شروع ہی سے فلسفے اور ادب کی جانب تھا۔ چنانچہ سن ستر کی دہائی میں فلسفے کی تدریس کو روزگار کا ذریعہ بنایا اور تفریحِ طبع کےلیے افسانے اور ڈرامے لکھنے شروع کئے۔ ٹیلی ویژن پر اُن کے لکھے ہوئے کئی سیریل دکھائے گئے مثلاً حصار، دلدل، دوسرا آسمان، نشیب، یہ آزاد لوگ، پاتال اور خواب تماشہ وغیرہ۔ ان کے افسانے اوراق، ماہِ نو اور سویرا جیسے معیاری ادبی پرچوں میں چھپتے رہے ہیں اور حلقہ اربابِ ذوق کی محفلوں میں سامعین سے بھی داد وصول کرتے رہے ہیں۔ اطہر بیگ مرزا صاحب سے میرا پہلا سوال اسی بارے میں تھا کہ فلسفیانہ مباحث میں الجھی ہوئی نوجوانوں میں اتنی مقبول کس طرح ہوگئی۔ ’اگر میری تحریر واقعی فلسفے کے بکھیڑوں میں الجھی ہوئی ہوتی اور اس میں قاری کو گرفت میں لیے رکھنے کی طاقت نہ ہوتی تو اسکا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نہ بِک جاتا اور نہ ہی دوسرا ایڈیشن آدھے سے زیادہ بِک چکا ہوتا۔۔۔ دراصل لوگ سمجھتے ہیں کہ فلسفے کا ایک استاد ناول بھی لکھے گا تو اس میں فلسفہ ہی جھاڑے گا چنانچہ وہ بغیر پڑھے ہی فیصلہ صادر کر دیتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ میرے نزدیک قاری کو گرفت میں رکھنا کہانی کار کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ خاص طور پر آج کے تیز رفتار زمانےمیں جب نوجوانوں کے ہاتھ میں ٹی وی کاریموٹ کنٹرول ہوتا ہے اور ذرا سی اُکتاہٹ بھی محسوس کریں تو چینل بدل کر من مرضی کا کوئی پروگرام ڈھونڈ لیتے ہیں۔‘ گویا آپ کے نزدیک قاری کی دلچسپی کو قائم رکھنا ہی چیلنج ہے، توچلیئے پھِر ہمیں بتائیے کہ آپ قاری کی دلچسپی کو کسطرح قائم رکھتے ہیں؟ ’دیکھیئے! دلچسپی قائم رکھنے کے لیے عبارت کا آسان یا عام فہم ہونا ضروری نہیں۔ جیمز جوائس کے کچھ ناولوں کی تحریر انتہائی ادق اور پیچیدہ ہے جبکہ گیبریل گارسیا مارکیز کی عبارت عام فہم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں مصنفین کی کتابیں لوگوں میں مقبول ہیں۔ اگر آپ کتاب بینی کے عمل سے محظوظ ہونے کے عمل کا تجزیہ کریں تو آپکو پتہ چلے گا کہ مصنف محض اطلاعات فراہم نہیں کرتا بلکہ قاری کے ذہن میں قرات کے ایک تجربے کو جنم دیتا ہے اور قاری سطحی معلومات کی منزل سے نکل کر اس تجربے سے محظوظ ہونے کے مرحلے تک جا پہنچتا ہے جہاں چیزیں اپنے بدیہی معانی سے ماوراء ایک نئی تخیلاتی دنیا کی تشکیل میں مصروف نظر آتی ہیں۔ یہ نئی دنیا اپنی کاملیت کے لیے دونوں کی محتاج ہے۔ مصنف کی بھی اور قاری کی بھی۔۔۔‘ اطہر کا فلسفہ مرزا اطہر بیگ ’اعلیٰ ادب کا متن دو جمع دو برابر چار کی طرح سمجھ میں آنا ضروری نہیں ہے۔ اس طرح کی تفہیم ایک عارضی قسم کی مسرت فراہم کر کے بھک سے اُڑ جاتی ہے۔ لیکن جب قاری مفہوم کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے تو اسے امکانات کے ایک بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سمندر کی تہہ میں اسے گوہرِ مقصود مِل جائے لیکن سعی پیہم کایہ عمل ادبی متن کے ساتھ اسکا ایک زندہ اور حرکی رشتہ پیدا کر دیتا ہے اور میں اسی کو قاری کی دلچسپی قرار دیتا ہوں۔‘ ۔۔۔ لیکن اسکے باوجود آپ کہتے ہیں کہ آپ کے ناول میں فلسفہ نہیں ہے۔ ’فلسفہ تو ہر ناول میں ہوتا ہے۔ رضیہ بٹ اور ابنِ صفی کے ناولوں کا بھی اپنا ایک فلسفہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا وہ فلسفہ متن سے اُکھڑ کر ناول کی سطح پر الگ ہی تیرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے یا متن میں جذب ہو کر کہانی کی بہتی دھارا کا اٹوٹ حصّہ بن چُکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلام باغ میں جو بھی فلسفہ موجود ہے وہ بیانئے کا ایک نامیاتی جزو بن چُکا ہے۔‘ عبداللہ حسین نے آپ کے ناول کو پوسٹ ۔ ماڈرن اور سہیل احمد نے پوسٹ ۔ کولونیل روایت سے منسلک کیا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ’جہاں تک ہیرو کے کرب کا تعلق ہے یہ تبصرہ درست معلوم ہوتا ہے۔ میرا مرکزی کردار کبیر مہدی اپنے ذہنی خلفشار سے نجات حاصل کرنے کے لیے ڈائری لکھنے کے دوران بار بار بطونِ ذات سے یہ صدا سنتا کہ ’دوبارہ لکھو‘۔ اسکی ذات کا یہ اصرار محض ڈائری نویسی تک محدود نہیں، بلکہ ایک علامتی سطح پر افتادگانِ خاک کی تمام ارذل نسلوں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنی تاریخ کو دوبارہ رقم کرو۔۔۔ مغرب کے نقطہ نگاہ سے نہیں بلکہ اپنے نقطِہ نگاہ سے۔‘ جدید فلسفیانہ مباحث کو اتنی کامیابی سے اپنے ناول میں سمو لینے کے بعد کیا آپ مستقبل میں بھی اپنی فکشن کے لیے یہی تکنیک استعمال کریں گے یا اپنے ٹیلی ویژن ڈراموں کی طرح پاپولر موضوعات پر ناول لکھیں گے۔ ’دیکھئے ہر کہانی اپنی تکنیک ساتھ لیکر آتی ہے۔ میں پہلے سے یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اگلا ناول کس تکنیک پر ہوگا۔ قصّہ خود اپنی تکنیک کی طرف راہ نمائی کرتا ہے، مثلاً میری مختصر کہانیوں کا جو مجموعہ زیرِاشاعت ہے اس میں آپکو مختلف طرز کی کہانیاں نظر آئیں گی اور ہر کہانی کی تکنیک مختلف محسوس ہوگی۔‘ اس مجموعے کا نام طے ہو چُکا ہے؟ ’جی ہاں ۔ بے افسانہ۔ یہ کم و بیش وہی تصوّر ہے جو غلام باغ میں لا لکھائی کے طور پر متعارف ہوا مگر اب ایک قدم آگے بڑھ کر میں نے جملوں کی روائتی ساخت اور لفظوں کے طے شدہ معانی کا ڈھانچہ بھی توڑ ڈالا ہے اور لفظ و معانی کی ایک نئی اور غیر روائتی دنیا تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تجرباتی کام کے علاوہ کیا لکھ رہے ہیں؟ ’ایک ناولٹ ہے سائبر سپیس کے منشی کی سرگزشت جس میں ایک سوفٹ وئر انجنئر کے نقطہ نگاہ سے نئی صدی اور نئی ہزاری کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ایک اور ناول کا تانا بانا بھی تیار ہے جس میں پاکستان ٹیلی ویژن کی نرالی دنیا کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور – عارف وقار
تبصرہ کتب |