25 اپریل 2015 کو ‘کوئل شہر کی کتھا’ کی تقریبِ رونمائی کراچی کے ایک سماجی کیفے دی سیکنڈ فلور (ٹی ٹو ایف) میں منعقد ہونی تھی کہ ایک دِن پہلے سبین کو ہم سے چھین لیا گیا۔ اس بات کو کئی ماہ بیت چکے لیکن اب بھی سبین کے بنائے ہوئے گھر، ٹی ٹو ایف جانے والوں کو یہی محسوس ہوتا ہے کہ “وہ یہیں کہیں ہوگی”۔ سبین کے لیے کوئل شہر کی کتھا میں سے ایک نظم: –
نیا سال 2012
کِسی کے بچھڑنے کا دکھ تو بہت ہے
مگر اے نئے سال تجھ کو گلے تو لگانا پڑے گا
ختم دوست ہو گئے ختم دوستی کی کہانی نہ ہوگی
مگر آنسوؤں اور زخموں کی مالا پرانی لیے
نئی بس تیری تال پر
اسی سال پر
رقص کرنا پڑے گا
ملنا پڑے گا
بچھڑنا پڑے گا
اجڑنا پڑے گا
مگر پھر سے جڑنا پڑے گا
اسی ٹوٹے دل کو
نئے لوگ آئے جائیں گے
بھرے شہر کی رونقوں میں
اکیلی پھرے گی تیرے بن مگر زندگی
مگر پھر سے جڑنا پڑے گا
اسی روٹھے دل کو
ہنسنا پڑے گا
یوں رونا پڑے گا
آنسوؤں کی جھڑیوں کو
لڑیوں کو موتی سمجھ کر پرونا پڑے گا
تیری یاد میں پھر
سر شام ہوتے
اداسی کی اس اوڑھنی کو
یوں اوڑھے
یوں پھرنا پڑے گا
جدائی کے اس روڈ پر
جہاں تم ملے تھے
جہاں چاند سے لوگ تھے اس نگر میں
آباد کرنا پڑے گا اسی پھر ڈگر کو
ہاں اسی موڑ پہ پھر
نئے سال تجھ کو۔۔۔
گلے تو لگانا پڑے گا مگر۔۔۔
اس نظم کا عنوان تو ہے ’’نیا‘‘ سال 2012 لیکن اس کو 2013، 2014، یا 2015 بھی کر دیں تو شاید کوئی فرق نہ پڑے۔ پتہ نہیں کیوں یہ شہر ہر سال ہمارے کسی نہ کسی دوست کو نِگلنے پر تلا ہوا ہے۔
“کوئل شہر کی کتھا” ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو ہماری آس اور امیدوں کا شہر ہے۔ کیا ایسا شہر واقعی کبھی بستا تھا؟ یا یہ صرف حسن کے خوابوں میں بستا ہے؟ حسن کی شاعری میں اس شہر کا پتہ مِلتا ہے اور تاریخ بھی۔ یہ تاریخ ایک ایسے بچے کی لِکھی ہوئی ہے جو اپنے جانے پہچانے شہر میں کھو چکا ہے:
ایونیو ففتھ پر
ایونیو ففتھ پر
راما کرشنا کے جلوسوں میں
وہ ایلن گنسبرگ کا ہمشکل بوڑھا
وہ گیروی رنگوں، جلترنگ اور دھمالوں
گوروں کالوں اور کئی سات رنگوں میں
روپہلی جون میں
چپ چاپ تنہا اور یگانہ اس طرح
جیسے وہ اس سارے فلسفے کا ہو بس اک آخری نقطہ
ایونیو ففتھ پر چلتے ہجوم میں
میں اک کھویا ہوا بچہ
وہ ایلن گنسبرگ کا ہمشکل بوڑھا
میں اس کے خیال کی انگلی پکڑ کر
دور جا نکلا
کہیں سیہون کی گلیوں میں
سرِ بازار می رقصم
کوئل شہر کراچی بھی ہے، نیویارک بھی اور سہون بھی۔ اس شہر کے کردار، چور، یار، عاشق، موالی، بھنگی، چرسی، پکھی واس اور وہ تمام گناہ گار ہیں جن کا شمار زندگی کے حاشیوں میں، محبت کے متلاشیوں میں کیا جاتا ہے:
وہ شہر بلاتا ہے مجھ کو
جس شہر کے باغوں میں کوئل
جو میرے یاروں جیسی تھی
یا تیرے پیاروں جیسی تھی
کبھی گاتی تھی
چھپ جاتی تھی
وہ شہر بلاتا ہے مجھ کو
جس شہر میں بھنگی رہتے تھے
جس شہر میں چرسی رہتے تھے
جس شہر میں مدھرا بکتی تھی
اور چوری چوری بکتی تھی
پھر شہر میں ایسی آگ لگی
پھرگھر گھر ایسی آگ لگی
اور مندر مسجد آگ لگی
دل دل ایسی آگ لگی
اور جل تھل ایسی آگ لگی
وہ شہر رلاتا ہے مجھ کو
وہ شہر بلاتا ہے مجھ کو
وہ شہر بلاتا ہے مجھ کو
کسی شہر کا بلانا، دوستوں کی یاد آنا، سرحدوں میں قید ہو کر رہ جانا، یہ چند سزائیں ہیں جو جلا وطنوں کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ حسن بھی یہ سزا کاٹ رہا ہے لیکن پھر بھی اس کی شاعری میں روایتی ناسٹیلجیا کی بو محسوس نہیں ہوتی۔ حسن کے لیے نہ تو یادِ ماضی عذاب ہے اور نہ ہی وہ اپنے حافظے سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔ وہ سِندھو ندی کی طرح جہاں سے بھی گزرتا ہے ادھر کی مٹی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اسی لیے وہ نیویارک میں بھی اتنا ہی زندہ ہے جتنا کہ کہیں اور۔
شاعر اگر ایک زبان کا شاعر بن کر رہ جائے تو پھر اہل زبان اس کو چھت پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچ لیتے ہیں۔ اب وہ یا تو ستارے گِن سکتا ہے یا ہمسایوں کے گھروں میں جھانک سکتا ہے۔ جو شاعر حضرات اس اعلیٰ رتبے پر فائز نہیں رہنا چاہتے وہ کسی ایک زبان پر بھی فائز نہیں رہتے۔ حسن بھی ان میں سے ایک ہے۔ حسن کی شاعری اس دیس کی لوک بولیوں سے جوڑی گئی ایک رِلی ہے۔ امرتا پریتم پر ایک طویل پنجابی نظم اس کتاب میں شامل ہے، ایک نظم جو شامل نہیں ہے وہ حسن کی پنجابی شاعری کی ایک اچھوتی مثال فلم زندہ بھاگ کے لیے لکھی گئی قوالی “پتہ یار دا” ہے جو راحت فتح علی خاں کی آواز میں محفوظ ہوئی۔
فلم کی بات ہو رہی ہے تو حسن کی بہت سی نظمیں فلم ہی کی مانند ہیں۔ اس کا قلم کسی کیمرے سے کم نہیں جیسا کہ اس نظم میں واضح ہے:
وہ یوسف نام کا لڑکا
وہ یوسف نام کا لڑکا جو اکثر یاد آتا ہے
وہ ناگن کی طرح لہراتا بل کھاتا
کہیں اقبال جوگی کی مدھر مرلی کی لہروں میں
صوفیوں کے رقص میں سلفی کے شعلے میں
شرابوں کے نشے میں نیلگوں جھیلوں کے پانی میں
محبت کے قصے کہانی میں
میں اس کو بھول بھی جاؤں
وہ اکثر یاد آتا ہے
***
میرا معشوق من یوسف
ابھی چاند سا
میرا حافظ میرا سچل میرا سرمد
وہ مادھو لال اور بلھا
وہ میری قرۃ العین طاہرہ
وہ یک جان بھی جدا ہو کر
عدم موجود ہے لیکن
خدا اور لاخدا ہو کر
وہ یوسف نام کا لڑکا
مادھو لال حسین کا نام ہم نے سن رکھا ہے، یہ اکبر کے زمانے کے صوفی شاعر ہیں۔ یہ لقب تو ان کو بعد میں مِلا لیکن سنتے ہیں کہ اکبر کو ان سے خطرہ تھا اور ان کی موت پراسرار حالات (آج کے نامعلوم افراد) میں ہوئی۔ مادھو لال حسین دراصل عشق کرنے والے دو لوگوں کا ایک نام ہے، شاہ حسین اور مادھو لال۔ کسی بھی دور میں جو تاریخ رقم نہیں کی جا سکتی، اس تاریخ کو لکھنے کی اور اس پر بات کرنے کی بہت سی سزائیں ہیں۔
مادھو لال کی شاعری میں ایسا کیا تھا کہ وہ اکبرِ اعظم کے لیے خطرہ بن گئے؟ جو شاعر اپنے ماحول اور معاشرے کی دی ہوئی ہستی گنوا کر شاعری کرتا ہے وہ خطرناک ہی ہوتا ہے۔ حسن نے بھی مادھو لال کی طرح ایلن گنسبرگ کی طرح ورثے میں مِلی ہوئی ہستی کا انکار کیا ہے۔
سچل کا سرائیکی کلام ہے “آہیاں وچوں ناہیاں تھیندیاں، ناہیاں وچوں آہیاں” (ہماری ہاں میں سے نہ نکلتا ہے اور نہ میں سے ہاں)۔ حسن مجتبیٰ نے بھی ایک انکار کیا ہے، “منکر ہوں میں اورنگ زیب کی ساری خدائی کا”، اور اقرار کیا ہے کوئل شہر کے وجود کا جہاں تمام محبتیں بِلا تفریق ممکن ہو سکتی ہیں۔
حسن اس خواب کو دیکھنے والا اکیلا نہیں۔ بلھے شاہ بھی ایسا ہی ایک شہر بسانا چاہتے تھے۔ ان کا کلام ہے، “اب ہم گم ہوئے پریم نگر کے شہر، بلھا شوہ ہے دوہیں جہانیں کوئی نہ دسدا غیر”۔
بھگت روی داس کی بھی یہی آس تھی، “بے گم پورہ شہر کو ناؤں، دکھ اندیہہ نہیں تہ تھاؤں”، اور سبین کا بھی یہی خواب تھا، اور سبین کا ٹی ٹو ایف اس پریم نگر، بے گم (بے غم) پورہ، اسی کوئل شہر کی ہی ایک جھلک ہے، وہ شہر جو دکھائی تو نہیں دیتا پر سنائی دیتا ہے، جیسے کوئل۔