ڈاکٹر حسن منظر سے خصوصی مکالمہ
یہ قریہ قریہ گھوم کر کہانیاں اکٹھی کرنے والے ایک جید تخلیق کار کے افسانے کا ابتدائیہ ہے۔ ’’رہائی‘‘ کا ابتدائیہ، جو ایسے ادیب کے قلم سے نکلا ہے، جس کے جملوں کی بُنت میں نیا پن ہے۔ جو رموزواوقاف کے برتاؤ کو کلا کا درجہ دے چکا ہے۔ جدید معاشرت کو گرویدہ بنالینے والی تفصیلات کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ معاشرتی تنوع کا بھرپور اظہار دیکھنا ہے، تو اُن کی کہانیاں پڑھیے۔
یہ حسن منظر کا تذکرہ ہے، جن کے ہاں ابن انشا کو بے تکلفانہ فکشن لکھنے کی مہارت نظر آئی۔ انور سدید نے اردو افسانے کو نئی جہت عطا کرنے پر مبارک باد دی۔ نیا ورق، ممبئی کے مدیر، ساجد رشید نے اُن کا ناول ’’وبا‘‘ پڑھا، تو کہا:’’اِس نے تو مجھے پاگل کردیا!‘‘ افتخارعارف صاحبِ منزلت افسانہ نگاروں میں ان کا شمار کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے افسانے ’’پتے کا پانی‘‘ کے مطالعے کے بعد لکھا: ’’لطف آگیا!‘‘ فیض صاحب نے اُن کا دوسرا مجموعہ ’’ندیدی‘‘ پڑھ کر تاسف کیا کہ حسن منظر کا پہلا مجموعہ ان تک کیوں نہیں پہنچا۔
گنتی ان کی عصر حاضر کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتی ہے۔ ان کی پختگی اور گرفت کے ناقدین معترف۔ ہاں، عوام ذرا کم جانتے ہیں کہ تھوڑے گوشہ نشیں واقع ہوئے ہیں۔ تعلقات عامہ کے فن سے نابلد ہیں۔ کچھ کچھ پریم چند کے مانند۔ اِسی وجہ سے ادبی سیمینارز میں منصب صدارت سے کتراتے ہیں۔ البتہ معترفین کی کمی نہیں۔ ایک واقعہ سنیے:
منتخب افسانوں کا انگریزی روپ A Requiem For The Earth آکسفورڈ نے شایع کیا۔ کچھ عرصے بعد امریکا کے پیسفک کاؤنٹی کمیونٹی کالج کا خط ملا۔ مبارک باد دی گئی کہ سال 99ء کے Paterson Fiction Prize کے لیے اُن کی کتاب شارٹ لسٹ کی گئی ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ نہ تو یہ کتاب پبلشر نے ادھر بھیجی تھی، نہ ہی اُسے مرتب کرنے والے ڈاکٹر عمر میمن نے۔یہ فقط ان کے فن کی قوت تھی۔ اس کے علاوہ اُن کا ایک مجموعہ ’’خاک کا رتبہ‘‘ مولوی عبدالحق ایوارڈ اپنے نام کر چکا ہے۔ ناول ’’انسان اے انسان‘‘ ایک مقابلے میں 2014 کی بہتری نثری کتاب کا حق دار ٹھہرا۔
زندگی کا بڑا حصہ طبی نفسیات کے شعبے کو دینے والے حسن منظر کچھ عرصے سے بیمار تھے۔ طبیعت سنبھلی، تو ہم سوالات کی ٹوکری اٹھائے پہنچ گئے۔ کچھ برس قبل جس اُجلی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں رخصت کیا تھا، وہ ہنوز تازہ تھی۔ مقصدی ادب کو دیگر نظریات پر فوقیت دینے والے حسن منظر کے ہاں مقبول ادیبوں والا تام جھام نہیں۔ گفت گو میں بڑی سہولت رہی۔ اس سے قبل کہ سوال و جواب کا سلسلہ شروع کریں، ذرا اُن کی زندگی پر نظر ڈال لی جائے:
جیون کہانی
نام: سید منظر حسن۔ سن پیدایش: 4 مارچ 1934۔ جائے پیدایش: ہاپڑ، اتر پردیش۔ والد، سید مظہر حسن ریلوے میں ملازم۔ گھر کا ماحول ادبی۔ دو بھائی، تین بہنوں میں اُن کا نمبر دوسرا۔ چھوٹے بھائی کا انتقال 62ء میں ہوا۔ پہلے مجموعے کا انتساب انہی کے نام کیا۔ بچپن میں خاموش طبع۔ شمالی اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں بچپن گزرا۔ مرادآباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
گھرانا مسلم لیگ کا حامی۔ مرادآباد فسادات کی لپیٹ میں تو نہیں آیا، پر خوف نے بٹوارے کے بعد ہجرت کی تحریک دی۔ پھر حکومت بھی ملازمین سے پوچھ رہی تھی کہ کدھر رہو گے۔ دکھ اور امید کے ملے جُلے جذبات لیے دسمبر 47ء میں لاہور پہنچے۔ ریلوے کیمپ میں ڈیڑھ برس گزرے۔ 48ء میں میٹرک کیا۔ فورمین کرسچین کالج اور اسلامیہ کالج سے ہوتے ہوئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور تک رسائی حاصل ہوئی۔ زمانۂ طالب علمی میں نظریاتی جھکاؤ ترقی پسند تحریک کی جانب رہا۔
ملازمت کراچی لے آئی۔ 425 روپے ماہ وار پر ماڑی پور کے سینٹرل ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹم اسپتال سے منسلک ہوگئے۔ رائل ڈچ مرچنٹ نیوی میں وقت بیتا۔ لالوکھیت میں پریکٹس کی۔ پھر سعودی عرب کا رخ کیا۔ وہاں سے شمالی نائیجیریا کے شہر ’’کدونا‘‘ پہنچے گئے۔ گھنے جنگلات میں رہنے کا موقع ملا۔ وہاں، شہر ایڈہ میں بڑی بیٹی کی پیدایش ہوئی۔ نائیجیریا کے صدر مقام، لیگوسس میں اپنی بیگم ڈاکٹر طاہرہ کے ساتھ پبلک ہیلتھ کے شعبے میں کام کیا۔ طبی نفسیات میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش یونیورسٹی آف ایڈنبرا، اسکاٹ لینڈ لے گئی۔ وہاں دیہی ماحول کو قریب سے دیکھا۔ کچھ عرصہ رائل ایڈنبرا اسپتال میں کام کیا۔ یونیورسٹی آف ملایا، کوالالمپور میں تدریسی ذمے داریاں نبھائیں۔ 73ء میں پاکستان لوٹ کر حیدرآباد میں ’’سندھ سائیکاٹرک کلینک‘‘ شروع کیا۔ 2012 میں خاندان کراچی منتقل ہوگیا۔ دو برس بعد انھوں نے پریکٹس کو خیرباد کہہ دیا۔
مطالعاتی سفر کا آغاز گھر ہی سے ہوا تھا۔ ’’دہقان‘‘ پہلا افسانہ، جو استقلال، لاہور میں شایع ہوا۔ اگلا افسانہ ’’دو سڑکیں، دو کنارے‘‘ تھا، جو 57ء انجمن ترقی پسند مصنفین کی نشست میں پڑھا گیا۔ یہ ہمارا وطن، لاہور میں شایع ہوا۔
میڈیکل کی تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے لکھنے کے عمل میں وقفے آتے رہے۔ البتہ جو لکھتے، وہ سویرا، ادب لطیف، افکار اور دیگر جراید میں چھپ جاتا۔ احمد راہی، صفدر میر اور صہبا لکھنوی سے خاصی ملاقات رہی۔ حیدرآباد میں الیاس عشقی سے ملنے کے بعد ’’مجلس مصنفین‘‘ سے تعلق قائم ہوا۔ ’’جمہور لائبریری‘‘ میں ہفتہ وار نشستیں ہوتی تھیں۔ ’’دیال داس کلب‘‘ بھی جانا رہتا تھا۔ بعد میں ’’ادراک‘‘ نامی ادبی تنظیم قائم ہوئی، جس کی نشستیں الیاس عشقی اور حسن منظر کے گھر ہوا کرتیں۔
کلاسیکی موسیقی کے دل دادہ حسن منظر کو ستیہ جیت رے کی فلمیں پسند ہیں۔ روسی ادب مطالعے کا محور۔ ٹالسٹائی کے مداح۔ پشکن کو بابائے افسانہ قرار دیتے ہیں۔ John Steinbeck، ہیمنگ وے، تھیکرے اور تھامس من کو بھی سراہتے ہیں۔ اردو افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، بیدی، منٹو اور عصمت کا نام لیتے ہیں۔ شاعری میں غالب، خسرو اور فیض کو سراہتے ہیں۔ 62ء میں شادی ہوئی۔ بیگم، ڈاکٹر طاہرہ منظر حسن چائلڈ اسپیشلسٹ۔ ایک بیٹا، دو بیٹیاں ہیں۔ تینوں کی شادی ہوچکی ہے۔ بیٹا، سید نوفل حسن اُن کے ساتھ پریکٹس کرتا رہا۔ بڑی بیٹی دودابہ نیویارک میں میڈیسن کے ایک شعبے سے منسلک۔ چھوٹی بیٹی، ناجیہ لندن میں ہیں۔
چلیے، گفت گو کا آغاز کرتے ہیں
س: درس گاہیں تباہ کی جا رہی ہیں، نظام تعلیم زوال پذیر۔ ایسے میں کیا ادب ثانوی ترجیح بن جاتا، یا یہ تقاضا شدت اختیار کرجاتا ہے؟
ج: بامقصد ادب کا تقاضا یہی ہے کہ وہ حالات کے ساتھ چلے۔
منفی قوتوں کی نشان دہی کرے۔ مثبت اقدار کے بارے میں لکھے۔ اُنھیں ابھارنے کی کوشش کرے۔ آپ بھی اِس رائے سے متفق ہوں گے کہ دنیا کا بہترین ادب، یا آرٹ انتشار کے دور میں سامنے آیا۔ 1947 سے پہلے ادیبوں کے پاس ایک واضح مقصد تھا، چاہے وہ اس کا ادراک نہ رکھتے ہوں، مگر اس مقصد نے اُن کی تخلیقات کو متاثر کیا۔ اِسی طرح دوسری عالمی جنگ کے موقع پر سامنے آنے والے ادب کی مثال دی جاسکتی ہے۔
س: کیا گرتی شرح خواندگی اِس عمل پر اثر انداز نہیں ہوتی؟
ج: اگر شرح خواندگی بہت زیادہ گر جائے، تو پڑھنے والے بھی کم ہوجائیں گے، تب ادیب کی ذمے داری ہوگی کہ وہ ایسی چیز لکھے، جس کا ابلاغ ہو۔ آسانی سے عوام میں پھیل سکے۔ اُنھیں تعلیم پر ابھارے، جو ایک زندہ معاشرے کی بنیاد ہے۔
س: کیا ادیب پر مہلک رویوں کے خلاف لکھنے کی ذمے داری عاید ہوتی ہے؟ ایک طبقے کا موقف ہے کہ مقصد سامنے رکھ کر نہیں لکھنا چاہیے!
ج: اگر ادب سے آپ کی مراد جاسوسی، رومانوی یا تاریخی کہانیاں ہیں، تو وہ بغیر مقصد کے بھی لکھی جاسکتی ہیں، یعنی لطف کے لیے۔ لیکن سنجیدہ ادب ہمیشہ بامقصد رہا ہے، اور بامقصد رہے گا۔ روس کا ادب دیکھ لیجیے۔ پھر اس خطے میں بھی۔ ہندی، اردو اور بنگالی ادب میں واضح مقصدیت نظر آتی ہے۔
س: ’’رہائی‘‘ کو لکھے کتنے ہی برس گزرے گئے۔ آپ نے نفرت اور صنفی تفریق کو موضوع بنایا، کیا ہم مذکورہ مسائل سے نکل سکے؟
ج: قطعی نہیں نکل سکے، بلکہ پستی کی طرف گئے ہیں۔ صنفی، مذہبی اور لسانی تفریق بڑھی ہے۔ دراصل ہر شعبے میں بتدریج زوال آیا ہے۔ ہر شے تباہی کی طرف جارہی ہے۔ یہ فقط ادیب یا دانش وَر کی ذمے داری نہیں۔ سیاست داں اور معاشرے کے دیگر طبقات اس کام میں ساتھ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا، بلکہ جن کے پاس اختیار تھا، وہ خود تباہی کا سبب بنے۔
س: ’’العاصفہ‘‘ لکھنا 63ء میں شروع کیا، چھپا 2006 میں۔ وقفے کا سبب؟
ج: سعودی عرب کے زمانے میں تین چار باب لکھے تھے۔ پھر وقت نہیں مل سکا۔ نفسیات کی تعلیم حاصل کی۔ ملکوں ملکوں پھرا۔ ملازمتیں کیں۔ پریکٹس کرتا رہا۔ حیدرآباد آکر وقت ملا، تب مکمل کیا۔ گو خاصا وقت گزر گیا تھا، مگر میں اِس عرصے میں عربوں سے ملتا رہا۔ مجھے احساس ہوا کہ اُن کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہاں، وہاں کا ذہین طبقہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ جب تیل ختم ہوجائے گا، تب کیا ہوگا۔ ’’العاصفہ‘‘ میں بھی یہ موضوع آتا ہے۔
س: آپ کے ادبی سفر کے پہلے نصف پر افسانہ نگاری، دوسرے پر ناول غالب رہا۔ یہ فیصلہ قلم نے کیا یا مصروفیات نے؟
ج: یہ فیصلہ فرصت نے کیا۔ لکھنا تو بہت پہلے شروع کردیا تھا۔ پہلے کہانیاں لکھیں۔ پھر افسانے۔ 1950 میں ایک ناول شروع کیا تھا۔ وہ انڈیا میں زمیں داری کے خاتمے سے متعلق تھا۔ اب لگتا ہے کہ وہ غلط فیصلہ تھا، کیوں کہ میں وہاں نہیں تھا۔ جو مواد درکار تھا، وہ فقط خطوط کے ذریعے مجھے نہیں مل سکتا تھا۔ پھر میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا۔ میں نے ناول اٹھا کر رکھ دیا۔ کبھی مکمل نہیں کرسکا۔ میڈیکل کالج میں جانے کے بعد افسانے بھی بہت کم لکھے۔ زیادہ گزارہ نوٹس لینے پر رہا۔ حیدرآباد آنے کے بعد لکھنے میں باقاعدگی آئی۔
س: آپ کے فکشن کی اساس بین الاقوامیت ہے۔ یہ آپ کی انفرادیت بھی ہے۔ کیا اس کے پیچھے نگری نگری کا تجربہ ہے؟
ج: شاید ایک سبب سفر بھی رہا ہو، مگر اصل وجہ یہ ہے کہ مجھے بچپن سے ہر شے میں دل چسپی رہی۔ لوگوں سے ملنا، اُن کا رہن سہن دیکھنا۔ دیہی علاقے مجھے متوجہ کرتے ہیں۔ اگر آدمی کسی ایک ملک میں جم کر رہ رہا ہو، تو وہ اُسی کے بارے میں لکھے گا۔ میں اسکول میں تھا، جب اترپردیش چھوڑنا پڑا۔ لاہور میں رہا۔ پھر کراچی آگیا۔ پھر بیرون ملک چلا گا۔ یعنی میں حرکت میں رہا۔ کسی ایک شہر میں میری جڑیں نہیں رہیں۔ اور ایسا اَن گنت ادیبوں کے ساتھ ہوا ہے۔ میں خود کو کُل عالم کا شہری سمجھتا ہوں۔ رنگ اور ناک نقشہ سے کیا ہوتا ہے۔ انسان ساری دنیا میں ایک ہی ہے۔
س: جڑیں ایک جگہ نہیں، مگر پھر بھی کون سا خطہ ہے، جس سے خود کو قریب پاتے ہیں؟
ج: اِس کا جواب میرا ناول ’’دھنی بخش کے بیٹے‘‘ ہے۔ وہ خالصتاً سندھ کے بارے میں ہے۔ یہاں کے رہن سہن، بول چال میں مجھے بڑی دل چسپی ہے۔ میں نے یہاں کے بارے میں کھل کر لکھا۔ ’’دھنی بخش کے بیٹے‘‘ پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس ملک میں مَیں پیدا ہوا، یا جہاں پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سلسلے میں رہا، اُن کے بارے میں لکھنا چاہوں، تو شاید اس طرح نہیں لکھ پاتا۔ سندھ کے دیہی باسیوں کے لیے میں اُن ہی میں سے ایک فرد تھا۔
س: برسوں قبل لکھے اپنے افسانے ’’سفید آدمی کی دنیا‘‘ میں آپ نے سفید فام قوموں کے استحصالی مزاج کو موضوع بنایا۔ لگتا ہے؛ سفید فام اپنی خو بدلنے کو تیار نہیں!
ج: جی ہاں، رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ برطانیہ ابھی تک فاک لینڈ میں ہے۔ امریکا گوانتاناموبے میں ہے۔ اس کا تعلق ان کی جنگی ضرورت سے ہے۔ انھیں دل چسپی نہیں کہ مقامی کیا چاہتے ہیں، ان کے جذبات کیا ہیں۔ جب تک ضرورت ہے، وہاں رہیں گے۔ جب تک عرب یہ نہیں سمجھ لیں گے کہ اسرائیل اُن کا نہیں، امریکا کا اٹوٹ انگ ہے، اس وقت یہ دہائی دینا بند نہیں کریں گے کہ امریکا جانب داری برت رہا ہے۔
س: مغرب میں نسلی تعصب کے خلاف قوانین موجود، مگر آپ کا مشاہدہ کیا رہا، کیا تقسیم اب بھی ہے؟
ج: تقسیم تو ہے، مگر اب یہ اتنی واضح نہیں۔ انٹر میرجز بہت ہوئی ہیں۔ شدت میں کمی آئی ہے۔ لیکن یہ ختم نہیں ہوئی ہے۔ اب بھی نعرے بلند ہوجاتے ہیں۔ ابھی فرانس میں مشل ہولے بیک کا ناول ’’سبمشن‘‘ آیا ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ 2022 میں فرانس اسلامی مملکت بن جائے گا۔ یہ سوچ اِسی نسلی تقسیم کی پیداوار ہے، لیکن باشعور لوگ وہاں بھی نسلی منافرت سے دوری برتے ہیں۔
س: ناقدین آپ کو عصر حاضر کا اہم افسانہ نگار قرار دیتے ہیں، پر یہ بھی کہتے ہیں؛ آپ کو وہ مقام نہیں ملا، جس کے آپ حق دار ہیں!
ج: (وقفہ لیتے ہوئے) بات شاید صحیح ہے، مگر ہمارے ہاں پزیرائی کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں اتنی ہی اہمیت اختیار کر گئی ہیں، جتنا کہ لکھنا۔ اور میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ گوشہ نشیں قسم کا ہوں۔ عام لوگوں سے کھل کر مل لیتا ہوں، مگر ادبی تقریبات میں جا کر لوگوں سے ملنا، فوٹو بنوانا گڑبڑا دیتا ہے۔ اگر کوشش بھی کروں، تو یہ کام بڑے بھونڈے طریقے سے کروں گا۔ امریکی ادیب میکس ویل انڈریسن کے ایک پلے میں ایک کردار کہتا ہے؛ انڈا مرغی بھی دیتی ہے، اور بطخ بھی۔ مگر بطخ کا انڈا کم کھایا جاتا ہے۔ کیوں؟ اصل میں جب مرغی انڈا دینے والی ہوتی ہے، تو شور مچا کر سب کو خبر کر دیتی ہے۔ بطخ چپ چاپ انڈا دے کر چلی جاتی ہے۔ تو میرا بھی یہی معاملہ ہے۔ اب کون ایک انڈا دینے کے لیے سارے جہان میں کڑک کڑک کرتا پھرے۔
س: مگر اِس گوشہ نشینی کی وجہ سے ادبی تقریبات میں شرکت کرنے والے آپ کو سننے سے محروم رہے!
ج: ہاں تھوڑے بہت۔ مگر اور تخلیقات تو چھپتی رہیں۔ ابھی ایک پِلے آنے والا ہے۔ یہ ایک چینی ریسٹورنٹ کی کہانی ہے، جس میں آپ کو پورا پاکستان ملے گا۔ اسی طرح افسانوی مجموعہ ’’جھجک‘‘ جلد شایع ہوگا۔ اِس میں ایک افسانے کا موضوع وہی ہے، جس سے متعلق آپ کا ابتدائی سوال تھا: ’کیا ہم خود کو معاشرے سے الگ کر کے لکھ سکتے ہیں؟‘ میں کہتا ہوں؛ اگر ہماری آنکھیں کھلی ہیں، تب تو نہیں لکھ سکتے ہیں۔ ہاں، آنکھیں بند کرکے گھر میں بیٹھ کر لکھ رہے ہیں، تو الگ بات ہے۔
س: چلیں موضوع بدلتے ہیں۔ آپ کی تخلیقات جنم کیسے لیتی ہیں؟
ج: کبھی یوں ہوتا ہے کہ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے، مگر میں ٹال رہا ہوں۔ کبھی فوری لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ اب انقلاب ایران سے متعلق ایک افسانہ ہے: بپتا کی رات۔ وہ افسانہ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد مکمل ہوگیا تھا، جس کا اس میں ذکر ہے۔ البتہ کئی چیزیں برسوں ذہن میں رہیں۔ افسانہ ’’زمین کا نوحہ‘‘ کالج کے زمانے میں ذہن میں آیا تھا، اُسے کئی عشروں بعد مکمل کیا۔ عجیب بات ہے۔ دن بھر مختلف کام کرتا رہتا ہوں۔ جب سونے کو ہوتا ہوں، تو قلم چلنے لگتا ہے۔ صبح اٹھ کر دیکھتا ہوں، تو بہت کچھ رد کرنا پڑتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ افسانہ فلاں جگہ سے شروع کرنا چاہیے تھا۔ اِس معاملے میں مجھے ٹالسٹائی سے راہ نمائی ملتی ہے۔ ’’وار اینڈ پیس‘‘ لکھتے ہوئے وہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ کہاں سے شروع کرے۔ اس نے پشکن کی کچھ چیزیں دیکھ کر فیصلہ کیا، جہاں سے ایکشن ہے، واقعات رونما ہورہے ہیں، وہاں سے شروع کیا جائے۔ غیرضروری تمہید مت باندھیں۔ وہ راہ نمائی میں نے اپنالی۔ احمد ندیم قاسمی نے ’’انجمن ترقی پسند مصنفیں‘‘ کی ایک نشست میں کہا تھا؛ عبدالحلیم شرر کے ناول میں کوئل ایک بار بولنا شروع کرتی ہے، تو کئی صفحات تک بولتی چلی جاتی ہے۔ (قہقہہ) تو ٹالسٹائی کی بات ذہن میں رہی۔ دنیا کے بہترین ادب میں بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ میں میز پر بیٹھ کر لکھتا ہوں۔ ضروری ہو تو حوالے کی کتابیں اور لغت سامنے ہوتی ہے۔
س: اساس کے علاوہ آپ کے ہاں جملوں میں بھی نیاپن ہے، رموز و اوقاف کا خاص برتاؤ، جسے بیش تر فکشن نگاروں نے نظرانداز کیا!
ج: جی ہاں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں احتیاط برتنی چاہیے تھی، خاص کر فکشن میں۔ قاری کو پڑھنے میں آسانی ہوتی۔ میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
س: آپ کہتے ہیں؛ ترقی پسند تحریک سے بہترین ادب نے جنم لیا، اگر تحریک تعمیری تھی، تو دم کیوں توڑ گئی؟
ج: ترقی پسند فکر کبھی انحطاط کا شکار نہیں ہوئی۔ یہ 1936 سے پہلے بھی موجود تھی۔ پریم چند نے اسے متعارف نہیں کروایا، بلکہ خود کو ان نظریات میں شناخت کیا۔ ٹیگور نے بالکل آخر میں خود کو ان کے ساتھ شناخت کیا۔ زندگی بھر بہت اچھا لکھا، مگر آخر میں وہ لکھا، زمانہ جس کا تقاضا کر رہا تھا۔ 1925 میں اُنھوں نے Red Oleanders لکھا تھا، جس کے کھیلے جانے پر ایک عرصے تک پابندی رہی۔ تو مجھ سمیت بہت سوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہم ترقی پسند ادب لکھیں گے۔ جب لکھا، تو خود کو اس فکر سے جڑا ہوا پایا۔ جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا، تب میں ترقی پسند ادب کے نام تک سے واقف نہیں تھا۔ کئی ممالک اس نعرے کے ساتھ پیدا ہوئے، پھر ختم ہوگئے، مگر فکر اب بھی موجود ہے۔ اِسے زوال نہیں ہوا۔
س: ابتدا میں تو نہیں جانتے تھے، اب کیا معاملہ ہے، کیا خود کو ترقی پسند کہیں گے؟
ج: اس لحاظ سے کہ میں معاشرے میں ترقی چاہتا ہوں۔ جس طرف معاشرہ جا رہا ہے، اسے ناپسند کرتا ہوں۔ البتہ وہ فکری تحریک، جس کی بنیاد 1936میں پڑی تھی، کبھی اس میں خود کو فٹ محسوس نہیں کیا۔ کبھی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر نہیں گیا۔ اور اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی آپ کو حکم دے کہ آپ یہ لکھیں، اور یہ نہیں۔ بعض کمیونسٹ خیالات سے متفق ہوں، مگر کلیتاً کمیونسٹ نہیں ہوں۔ کچھ کچھ مولانا حسرت موہانی والا معاملہ ہے۔
س: آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آپ خیال کو دہرانا پسند نہیں کرتے۔ کچھ ناقدین ترقی پسند ادیبوں پر خیال دہرانے کا الزام دھرتے ہیں!
ج: خیال کو دہرانے سے ادب روایتی ہوجاتا ہے۔ جنھوں نے خود کو اِس سے بالا رکھا، وہ نہیں ڈوبے۔ جنھوں نے نعرہ بنایا، وہ ختم ہوگئے۔ زندگی اتنی محدود نہیں کہ ایک نعرے پر ختم ہوجائے۔ ہندوستانی فلم ’’گرم ہوا‘‘ کی بہت تعریف ہوتی ہے۔ وہ عصمت نے لکھی۔ اس کا اختتام بے ربط ہے، مسلمان گھرانا پاکستان ہجرت کر رہا ہے، اُن کا بیٹا سرخ جھنڈا اٹھائے لوگوں کو دیکھتا ہے، اور اُن کے ساتھ چل دیتا ہے۔ اختتام کے علاوہ باقی کہانی بہت اچھی تھی۔ میرے خیال میں وہ حصہ عصمت کا لکھا ہوا نہیں۔ وہ اس قسم کی نعرے بازی نہیں کرتی تھیں۔ مگر ہدایت کار کو کہیں نہ کہیں تو کہانی ختم کرنی تھی۔ انھوں نے نعرے کا سہارا لیا۔
س: علامت اور استعارے تو آپ کے ہاں بھی ہیں، مگر تجریدیت سے اجتناب برتا!
ج: میرے لیے اِس میں کوئی اپیل نہیں تھی۔ وہ مجھے بیمار سا نظریہ لگا۔ میں کسی کا دل نہیں توڑنا چاہتا، مگر میری یہی رائے ہے۔
س: ہمیں آپ کی نثری نظمیں کب کتابی صورت میں ملیں گی؟
ج: وہ ابھی اتنی نہیں ہیں۔ ویسے میں نے بحر میں بھی نظمیں کہیں۔ یہ شوق افسانہ نگاری کے بہت عرصے بعد پیدا ہوا۔ اسکول میں انشائیہ وغیرہ لکھا کرتا تھا۔ بعد میں عالمی ادب پڑھا۔ اندازہ ہوا؛ کچھ چیزیں مروجہ انداز میں نہیں کہی جاسکتیں، اس کے لیے مغرب ایک طرز استعمال کرتا رہا ہے، جسے Prose communication کہتے ہیں۔ اس ضمن میں مَیں نے پہلے ’’گیتا نجلی‘‘ پڑھی تھی۔ بائبل بھی اسی طرز پر ہے۔
س: تجریدیت والے بھی تو یہی کہتے ہیں کہ اگر مروجہ ہیئت کارآمد نہیں، تو نیا طرز اختیار کیا جائے؟
ج: صحیح ہے۔ ضروری نہیں کہ ترقی پسند اور تجریدیت پسند ہر معاملے پر اختلاف کریں۔ اگر کوئی صحیح بات کرے، تو ٹھیک ہے۔ بے شک کبھی کبھار ہیئت کارآمد نہیں ہوتی۔ اصل اختلاف نثری نظم کے نام پر ہے۔ آپ اسے Prose communication کہہ لیں۔ میری زیادہ نظمیں فلسطین کے بارے میں ہیں۔
س: ہمارے ہاں دو انتہائیں ہیں، ایک گروہ کہتا ہے؛ آج بین الاقوامی معیار کا ادب تخلیق ہورہا ہے، دوسرا کہتا ہے؛ ہم بے نشاں ہیں۔ آپ کی رائے کیا ہے؟
ج: غالب کے مغرب میں اَن گنت پرستار ہیں۔ یہی معاملہ اقبال کا ہے۔ دراصل ہمارے ہاں کتابیں بہت کم تعداد میں شایع ہوتی ہیں۔ باہر بھی نہیں پہنچ پاتیں، جس کی وجہ تراجم کا نہ ہونا ہے۔ ہندوستان چھوڑنے کے بعد انگریزوں کو اردو کی ضرورت نہیں رہی۔ اس وقت ضرورت یہ تھی کہ اِسے رابطے کا ذریعہ بنا کر ہندوستان پر حکومت کریں۔ اِس لیے اُنھوں نے اردو کو اہمیت دی۔ اب وہاں کچھ ادیب ہیں، جو اپنے طور پر ترجمہ کرتے ہیں۔ مگر یہ تعداد قلیل ہے۔ یہ بیداری کا معاملہ ہے۔ سماج بیدار ہوگا، تو تراجم ہوں گے۔ ہمارے ہاں لوگوں نے کیے ہیں۔ عمر میمن کا بہت کام ہے۔
س: آپ کی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ کیا کسی خیال کا کاملیت کے ساتھ دوسری زبان میں ترجمہ ہوسکتا ہے؟
ج: یہ معاملہ ہر زبان میں ہے۔ ’’وار اینڈ پیس‘‘ کو لیجیے۔ اُس کے انگریزی میں آٹھ تراجم ہوچکے ہیں۔ میں نے پہلا ترجمہ پڑھا تھا۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ خیال تھا، اب مزید کی ضرورت نہیں، مگر اُنھیں کوئی کمی محسوس ہوئی ہوگی۔ میرے نزدیک ترجمہ تخلیق سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اگر قلم کار پیسوں کے لیے ترجمہ کر رہا ہے، تب تو ٹھیک ہے۔ ہاں، اگر اپنی تشفی کے لیے، ادب کی خدمت کے لیے کر رہا ہے، تو بلاشبہہ بہت مشکل ہے۔ مگر یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، تاکہ لوگ قریب آئیں۔ نفرت ختم ہو۔ ہمارے ہاں جو لسانی تفریق ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے بارے میں نہیں جانتے۔
س: انتظار صاحب کے انٹرنیشنل مین بکر پرائز کے لیے نام زد ہونے کے بعد بین الاقوامی سطح پر اردو ادب کی قبولیت کے امکانات بڑھے ہیں؟
ج: ہاں۔ میرے خیال میں یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی، جب مجھے امریکا سے ایک خط ملا کہ میری کتاب کو Paterson Fiction Prize کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا ہے۔ ان افسانوں کا ترجمہ فاروق حسن، محمد سلیم الرحمان، عمر میمن اور دیگر احباب نے کیا تھا۔ کتاب عمر میمن نے ایڈٹ کی۔ نہ تو عمر میمن نے مقابلے کے لیے بھیجا، نہ ہی پبلشر نے۔ یعنی Paterson Fiction Prize والوں نے خود اسے دیکھا، اور پرکھا۔ یعنی اُن کے ہاں دل چسپی تو موجود ہے۔
س: دنیا بھر میں ادب یافت کا ذریعہ، مگر اردو میں یہ معاملہ نہیں۔۔۔
ج: آپ بہت اہم بات کی طرف آئے ہیں۔ کبھی ادب یافت کا ذریعہ تھا، مگر وہ کلچر ختم ہوگیا۔ جب میں نے ناول پر کام شروع کیا تھا، قمر اجنالوی مرحوم (شاعر، افسانہ نگار) ادبی پرچا نکالا کرتے تھے۔ انھوں نے ناول کے عوض بارہ سو روپے دلوانے کی پیش کش کی تھی۔ یہ 50 کی دہائی کی بات ہے۔ یہ تب اچھی رقم ہوتی تھی۔ اب تو پبلشر پوچھتا ہے؛ آپ کتنا سرمایہ لگائیں گے؟ اگر ہم چھاپیں گے، تو آپ کتنی خریدیں گے؟ وہ آپ سے پیسے لے لیتے ہیں، مگر وعدے کے مطابق نہیں چھاپتے۔ ادیبوں کا سب سے زیادہ استحصال ناشروں نے کیا۔ اِس معاملے میں حکومت کردار ادا کرسکتی تھی، مگر کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر کیا بھی، تو محدود پیمانے پر۔ کئی ادبی جریدا ادیبوں کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ یعنی ادب سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ ہندوستان کے پرچے ’’سب رس‘‘ کو آخر دنوں میں اسی تعاون کی ضرورت پڑ گئی تھی۔
س: کیا ہمارے ہاں ادب کی کوئی صنف بین الاقوامی معیار تک پہنچ سکی؟
ج: افسانے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار تک پہنچا۔ ناول کا شاید یہ معاملہ نہیں۔ میرے زمانے میں دو ہی ناولوں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ ایک ’’امراؤ جان ادا‘‘ دوسرا ’’گؤدان‘‘۔ باقی یا تو رومانوی ناول تھے یا اصلاحی ناول۔
س: بعد میں ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’اداس نسلیں‘‘ آئے، جن کے مصنفین کو طویل انتظار کے بعد خود انگریزی میں ترجمہ کرنا پڑا۔۔۔
ج: ہاں، قرۃ العین نے اس کا ترجمہ کیاتھا۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اسے کتنا کھپا سکیں۔ وہ ترجمہ تو میری نظر سے نہیں گزرا۔ البتہ بنگالی ادب کے جو انگریزی تراجم پڑھے، وہ بین الاقوامی معیار کے نظر آئے۔
س: یہ جو ایک کے بعد ایک اِس خطے کے انگریزی فکشن نگاروں کو بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جارہا ہے، اِس کا سبب کیا ہے؟
ج: اردو تخلیق کار کی نظر کسی اور چیز پر ہوتی ہے۔ اُن کی (انگریزی لکھاریوں کی) نظر ایسی چیزوں پر مرکوز ہوتی ہے، جنھیں مغرب پسند کرتا ہے۔ کسی نے کہا تھا؛ اگر کوئی انگریز بھی ہندوستان سے متعلق فلم بنائے گا، تو اس میں دو تین چیزیں ضرور ہوں گی۔ مور ناچ رہا ہوگا، سپیرا سانپ کا تماشا سر عام دکھا رہا ہوگا۔ ہاتھی بازاروں میں چلا جارہا ہوگا۔ تو انگریزی میں لکھنے والے وہ مناظر پیش کرتے ہیں، جن کے صارف موجود ہیں۔
س: روسی ادب کے بعد لاطینی امریکی ادب کا عہد آیا۔ اِس نے اردو پر اثرات مرتب کیے؟
ج: اردو میں میری نظر سے اِس تاثر کی کوئی چیز گزری نہیں۔ مستقبل کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ ویسے کوئی ذہن بنا کر نہیں لکھ سکتا کہ بالزاک جیسا یا مارکیز جیسا لکھے۔ مطالعے سے یہ چیزیں لاشعوری طور پر ذہن کا حصہ بن جاتی ہیں، ازخود اظہار کرتی ہے۔
س: لکھنے والا جنھیں پڑھتا ہے، ان کے اثرات بھی قبول کرتا ہے؟
ج: شعوری طور پر نہیں۔ اپنے معاملے میں مَیں اس عمل کو شناخت کرسکتا ہوں۔ میرے ناول ’’انسان اے انسان‘‘ سے متعلق لاہور کے ایک نقاد کا سوال آیا تھا۔ انھوں نے انجام سے متعلق پوچھا۔ میں نے کہا؛ اگر آپ کا سوچا ہوا انجام ہوتا، تو یہ ٹالسٹائی کا افسانہ God Sees a Truth, But Waits بن جاتا۔ تو جہاں ایک ادیب دوسرے سے متاثر ہوتا ہے، وہیں وہ اپنی تخلیق کو اس سے الگ رکھنے کا ہنر بھی سیکھ لیتا ہے۔
س: اردو میں آپ کی توجہ کلاسیکی ادب پر مرکوز رہی۔۔۔
ج: ہاں، میں نے اردو کا جدید ادب کم پڑھا۔ گذشتہ بیس تیس برس میں قرآن کے تراجم اور تفاسیر بہت پڑھیں۔ اس میں میرا خاصا وقت صرف ہوتا ہے۔ دورانِ سفر میں محمد مارمودک پکتھال کا ترجمہ قرآن اور دیوان غالب ساتھ رکھتا ہوں۔ اب بھی اگر کوئی لمبا سفر پڑ جائے، تو دونوں ساتھ ہوں گے۔ آخر ی سفر کے اوائل الذکر کافی ہوگا۔
س: دیگر مذاہب کی کتب بھی مطالعے میں رہتی ہیں؟
ج: کچھ چیزیں مجھے بہت لطف دیتی ہیں۔ بعض کتابیں بار بار پڑھتا ہوں۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ میں نے کئی بار پڑھی۔ رامائن کے چھے سات ورژن پڑھ چکا ہوں۔ والمیکی کی رامائن علیحدہ، تلسی داس کی علیحدہ۔ راج گوپال اچاریہ اور آر کے نارائن کی رامائن اور مہابھارت بھی پڑھیں۔ آج کل جرمن اسکالر، محمد اسد کی صحیح بخاری کی تفسیر کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں۔ یوں لگتا ہے، جیسے آپ کسی بڑے عالم کے روبرو بیٹھے ہوں۔
س: لاہور اور یہاں کے فکشن نگاروں میں رابطے کا واضح فقدان نظر آتا ہے۔ کچھ چپقلش بھی ہے!
ج: فاصلہ تو خیر ہے۔ یہاں کے ادیب پنجاب میں کم چھپتے ہیں۔ وہاں والے یہاں کم چھپتے ہیں۔ البتہ پنجاب نشر و اشاعت کا بڑا مرکز ہے۔ وہاں والوں کو یہ فائدہ حاصل ہے۔
س: زبان یہ فاصلہ نہیں پاٹ سکی، تو کون پاٹے گا؟
ج: اسے ایک چیز پاٹ سکتی ہے، تعلیم کا بڑھنا۔ کتابوں کی اشاعت اور سرکولیشن۔ یہاں سرکولیشن ہے ہی نہیں۔ صہبا لکھنوی ’’افکار‘‘ کی دس کاپیاں کہیں بھیجتے، تو بعد میں خط لکھا کرتے کہ جناب ان کے پیسے بھجوائیں۔ اِس مسئلے کو ادیب یا پبلشر دُرست نہیں کرسکتے۔ یہ کام حکومت کو کرنا چاہیے۔ مگر اس طرح نہیں، جیسے جنرل ضیاالحق نے کیا تھا کہ اسلامی تاریخی ناول خریدنا ہر کالج لائبریری کے لیے لازم قرار دے دیا۔
س: دوبارہ زندگی ملی، تو یہی کردار پسند کریں گے؟
جواب: ہاں، مگر ایسے ملک کے ادیب کے طور پر خود کو نہیں دیکھنا چاہوں گا، جہاں کتابیں چھپتی ہی نہیں۔ پڑھی نہیں جاتیں۔ میں نوجوان ادیبوں کو یہی کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے کہ آپ لکھ رہے ہیں، مگر یہ گھاٹے کا سودا ہے۔
اگر ادب سے آپ کی مراد جاسوسی، رومانوی یا تاریخی کہانیاں ہیں، تو وہ بغیر مقصد کے بھی لکھی جاسکتی ہیں، یعنی لطف کے لیے۔ لیکن سنجیدہ ادب ہمیشہ بامقصد رہا ہے، اور بامقصد رہے گا۔ روس کا ادب دیکھ لیجیے۔ پھر اس خطے میں بھی۔ ہندی، اردو اور بنگالی ادب میں واضح مقصدیت نظر آتی ہے۔
میں اسکول میں تھا، جب اترپردیش چھوڑنا پڑا۔ لاہور میں رہا۔ پھر کراچی آگیا۔ پھر بیرون ملک چلا گا۔ یعنی میں حرکت میں رہا۔ کسی ایک شہر میں میری جڑیں نہیں رہیں۔ اور ایسا اَن گنت ادیبوں کے ساتھ ہوا ہے۔ میں خود کو کُل عالم کا شہری سمجھتا ہوں۔
پریم چند کی سادگی شاید آج ’’اپیل‘‘ نہ کرے
پریم چند کے عقیدت مند۔ تعلق کئی عشروں پر محیط۔ چوتھی جماعت میں تھے، جب ’’غنچہ‘‘ میں ان کی کہانی ’’ہم دردی‘‘ پڑھی، جس نے ایک نئے احساس سے دو چار کیا۔ پریم چند کے ادھورے ناول ’’منگل سوتر‘‘ اور اُن کی بیوی کی کتاب ’’پریم چند گھر میں‘‘ کو اردو روپ دے چکے ہیں۔ کہتے ہیں،’’دو آدمی مجھے اپنی سادگی کی وجہ سے بہت پسند ہیں۔ ایک پریم چند، دوسرے حسرت موہانی۔ پریم چند پہلے بہ طور انسان، اور پھر بہ طور ادیب پسند ہیں۔ اُنھیں ایک مہاراجا نے ملازمت پیش کش کی تھی، مگر انھوں نے غلامی قبول نہیں کی۔‘‘’’منگل سوتر‘‘ سے متعلق کہنا ہے،’’گؤدان کے بعد پریم چند نے اس پر کام شروع کیا تھا۔ کچھ حصے اپنی بیگم کو سنائے بھی۔ کچھ نوٹس لیے۔ یہ مجھ تک قمر رئیس کے توسط سے پہنچا۔ تیس چالیس صفحات پر مشتمل تھا۔ ان صفحات میں منگل سوتر کا کہیں تذکرہ نہیں آیا۔ ممکن ہے، آگے چل کر ذکر آتا۔‘‘ شورانی دیوی کی کتاب کو اہم خیال کرتے ہیں کہ منکسرالمزاج پریم چند نے کبھی اپنے بارے میں بات نہیں کی، اور اُن کی بیگم کی تحریر اُن کی شخصیت کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ جب پوچھا: نوگیارہ کے بعد کی دنیا میں آپ پریم چند کو کہاں دیکھتے ہیں؟ تو کہنے لگے،’’اب اس کردار کو پسند کرنے والے لوگ کم ہیں۔ ان کی سادگی اور اخلاقیات لوگوں کو شاید اپیل نہ کرے۔ ہاں، ان کی تخلیقات کا اگر اچھا انتخاب ہو، تو مجھے یقین ہے کہ وہ لوگوں کو پسند آئیں گی۔‘‘
بااثر طبقے کی نفسیات
شمار چوٹی کے ماہرین نفسیات میں ہوتا ہے۔ اپنے مریض کی کیس ہسٹری شیئر نہیں کرتے۔ اصرار ہے، اگر مریض قتل کرکے بھی سائیکاٹرسٹ کے پاس آیا ہو، تو حکومت کو سائیکاٹرسٹ سے اُس کے متعلق پوچھنے کا کوئی حق نہیں۔ہم نے کسی کی کیس ہسٹری تو نہیں پوچھی، پر یہ ضرور دریافت کیا کہ جو بااثر افراد اُن کے زیرعلاج رہے، اُن میں کون سی جبلت غالب پائی؟ کہا،’’ان افراد کی مخصوص شخصیت ہوتی ہے۔ انھیں گوارا نہیں ہوتا کہ کوئی اُن کے فیصلے پر سوال اٹھائے۔ جو اردگرد ہوتے ہیں، وہ ان کے ہر فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ دھیرے دھیرے حمایت کرنے والوں میں بھی یہی سوچ آجاتی ہے۔ جاگیردار کا چوکی دار بھی جاگیردار ہوگا۔ سندھ کے ایک بڑے مذہبی لیڈر اور سیاست داں گزرے ہیں۔ وہ ایک روز میرے کلینک آئے۔ اُن کے ساتھ جو شخص تھا، مجھے خاصا معقول لگا۔ میں نے اسے بیٹھنے کی پیش کش کی، تو ان صاحب نے کہا: ڈاکٹر صاحب اسے کھڑا ہی رہنے دیں۔‘‘ادیب اور ماہر نفسیات کا تعلق بھی زیر بحث آیا۔ بہ قول اُن کے،’’ادیب حسن منظر، ماہر نفسیات حسن منظر سے عمر میں خاصا بڑا ہے۔ تو آخر الذکر کے غالب ہونے کی کبھی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ پھر نفسیاتی علاج کے لیے آنے والے شخص کے پاس کوئی کہانی نہیں ہوتی، صرف شکایات ہوتی ہیں۔‘‘
حیدرآباد کے سندھی اور اردو ادیب
حیدرآباد کی یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہا،’’اس زمانے میں اتنا نہیں لکھا، جتنا اب لکھ رہا ہوں۔ شام کو تھکا ہارا گھر لوٹتا تھا۔ اتوار کے روز لکھنے بیٹھتا۔ ’سفید آدمی کی دنیا‘ برسوں ذہن میں رہا۔ یہ 64ء میں میرے ذہن میں جاگا تھا۔ 81-82 میں کہیں جا کر لکھا، وہ بھی ایک ہی اتوار میں۔ اس زمانے میں کراچی کی نشستوں میں تو زیادہ شرکت نہیں کی، مگر لاہور میں جو تنقیدی معیار تھا، وہ حیدرآباد میں نظر نہیں آیا۔ وہاں غزل اور افسانے پر زور تھا۔ تنقیدی مضامین بہت کم لکھے جاتے۔ نظم ان نشستوں میں کبھی سنی ہی نہیں، ماسوائے اپنی نظم کے۔‘‘ حیدرآباد میں سندھی ادیبوں کا بھی ایک حلقہ تھا، اس سے صحت مند مسابقت پیدا ہوئی، یا تصادم؟ فرماتے ہیں،’’نہ تو تصادم تھا، نہ ہی مسابقت۔ دونوں ایک دوسرے کو نظرانداز کرتے تھے۔ سندھی ادیب اردو نشستوں میں کم ہی آتے تھے۔ اردو والے تو بالکل نہیں بلائے جاتے تھے۔ یہ شکایت مجھ سے سبط حسن نے بھی کی تھی۔ ویسے سندھی ادیبوں کو اردو آتی ہے، البتہ اردو والوں کو سندھی؟ بس زبان نہ کھلوائیں!‘‘
ترقی پسند فکر کبھی انحطاط کا شکار نہیں ہوئی۔ یہ 1936 سے پہلے بھی موجود تھی۔ پریم چند نے اسے متعارف نہیں کروایا، بلکہ خود کو ان نظریات میں شناخت کیا۔ ٹیگور نے بالکل آخر میں خود کو ان کے ساتھ شناخت کیا۔
میں معاشرے میں ترقی چاہتا ہوں۔ جس طرف معاشرہ جا رہا ہے، اسے ناپسند کرتا ہوں۔ البتہ وہ فکری تحریک، جس کی بنیاد 1936میں پڑی تھی، کبھی اس میں خود کو فٹ محسوس نہیں کیا۔ کبھی کمیونسٹ پارٹی کے دفتر نہیں گیا۔ اور اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی آپ کو حکم دے کہ آپ یہ لکھیں، اور یہ نہیں۔ بعض کمیونسٹ خیالات سے متفق ہوں، مگر کلیتاً کمیونسٹ نہیں ہوں۔ کچھ کچھ مولانا حسرت موہانی والا معاملہ ہے۔