نثرِ رشید جہاں
رشید جہاں
Publisher: Sang-e-Meel Publications, PakistanPublishing date: 2012Language: UrduUS:PK: Sang-e-Meel, Al-Abbas InternationalIN:UK: Amazozon.uk |
حمیرا اشفاق کی ترتیب و تدوین شدہ کتاب ’’نثر رشید جہاں‘‘ شائع ہو گئی ہے جو کہ افسانوں ، ڈراموں اور مضامین کا بہترین انتخاب ہے اور حمیرا اشفاق کی تخلیقی ، فکری و اختراعی صلاحیتوں اور ذوق مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔بلا شبہ حمیرا اشفاق خود بھی ترقی پسند مصنفین کی صف میں شامل ہے ۔ ان کا انداز بیان اور سادہ ہے ۔ اُن کی نگاہیں جس طرح اور جس زاویے سے دیکھتی ہے اُسی انداز سے الفاظ کے زینے طے کرتی جاتی ہیں ۔ عام موضوع ، سادگی ، برجستگی ان کی پہچان ہے ۔ حمیرا ایک بہترین نقاد ، افسانہ نگار ، اور فو کلورسٹ ، صنفی تجزیہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی سکالر اور استاد بھی ہیں ۔ اتنی بہت ساری حیثیتوں میں بیک وقت کام کرتے ہوئے ادبی تحقیق و تنقید کے مختلف موضوعات پر مکمل عبور اور پختہ گرفت رکھنا، عام موضوعات میں ہی سے اچھوتے عنوانات اور زندگی کے مخفی گوشوں کو تلاش کرنا جن پر عام نگاہ نہیں ٹھہرتی ہے قاری کو تحیر کے عالم میں گم کر دیتا ہے۔ زیر نظر کتاب’’ نثررشید جہاں‘‘ کے مقدمہ میں انھوں نے ڈاکٹر رشید جہاں کی اردو ادب میں انسان دوستی ، حالات زندگی ، تعلیمی و ادبی سفر ، ترقی پسند تحریک کا ابتدائی زمانہ اور رشید جہاں، رشید جہاں بطور افسانہ نگار اور ان کی بہترین تصنیف’’ انگارے ‘‘ کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعے رشید جہاں نے اُس دور کے مروجہ نظام کے خلاف بغاوت کی ۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پریم چند کی افسانہ نگاری کا طوطی بول رہا تھا کہ اردو ادب میں ’’ترقی پسند ‘‘ کا رحجان نمایاں ہوا ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین ۱۹۳۲ ء کے اعلانیہ سے قبل ہی اردو افسانوں کے مجموعے ’’انگارے ‘‘ نے ہندوستان کی ادبی فضا میں تہلکہ مچا دیا ’’انگارے کے مصنفین میں رشید جہاں کے ساتھ ساتھ محمود الظفر، سجاد ظہیر ، احمد علی کے نام قدیم و جدید رحجانات کا سنگم تھے ۔ پریم چند نے دیہاتی معاشرت کی ترجمانی کی تھی۔ اس کے بر عکس رشید جہاں نے افسانوں میں شہری و دیہاتی زندگی اور اُن کے مسائل کو ترقی پسند رحجانات کے تناظر میں پرکھا ۔اُن کا فن ان کی گہری فکر کا غماز ہے ۔ ان کے افسانوں اور ڈراموں کے موضوعات اپنے عہد کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں ۔ تاریخ و تہذیب کا سنگم ان کی تخلیقات کا خاصہ ہیں ۔ ان کی تحریریں ہند اسلامی کلچر کی بھر پور تصویر کشی کرتی ہیں ۔ رشید جہاں نے قہر و جبر کے خلاف اردو افسانہ نگاری میں علامت نگاری کا سہارا لیا اور بڑے خوبصورت انداز سے افسانے تخلیق کئے جن میں صحت لفظی ، محاورات کی بر جستگی اور صرف روز مرہ کا استعمال ہی نہیں بلکہ اپنے عہد کی بے چینی ، کرب اور اضطراب کی ترجمانی بھی کی ہے ۔ رشید جہاں محض’’انگارے ‘‘ کا حصہ ہی نہیں تھی بلکہ ان کے افسانے میکسم گورکی ، ایلیا اہرن برگ، میخائل شولوخوف کے ہم پلہ قرار دی جا سکتی ہیں ۔رشید جہاں نے اپنے افسانوں میں جا بجا عورت کے مسائل کو صنفی نظر سے ہی نہیں بلکہ بطور انسان، ان کی شخصیت کا ادراک اور اظہار بھی کیا ہے ۔ رشید جہاں اپنے افسانوں میں دھرتی اور صحراؤں کی بو باس سمو لیتی ہیں۔ان کے افسانے استحصالی نظام اور جبر کے خلاف صدائے ا حتجاج ہیں خواہ اس کی صورت جاگیر داری و سرمایہ داری نظام ہو یا پھر مرد و عورت کے سماجی بندھنوں کی صورت …… اس کتاب میں شائع شدہ اُن کے افسانوں میں نسوانی کردارصرف اپنے ذاتی مسائل کے دکھ کا بوجھ نہیں اٹھاتے بلکہ اجتماعی معاشرتی شعور کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ اُن کے افسانہ ’’افطاری‘‘ میں بے حس افراد کے اقوال اور افعال میں تضاد اور ’’بھوک ہی سب سے بڑا دوزخ ہے‘‘ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ یہ افسانہ اُن کی فنی گرفت کے اعتبار سے ایک بہترین افسانہ ہے ۔ ’’نئی مصیبتیں ‘‘ میں رشید جہاں کا قلم دوسری جنگ عظیم سے پیدا ہونے والے مسائل ، امرأ کو جارحیت کے مہنگے ہونے کا قلق اور غربأ کو آٹے کے بحران کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے چوتھا افسانہ ’’سودا ‘‘ سماجی حقیقت نگاری کی انتہا ہے جہاں محض پیشہ کی بنیاد پر جسم خریدا جاتا ہے ۔ اس میں انسانوں کو انسانیت سے گرنے کی حد تک دکھایا گیا ہے کہ قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔ رشید جہاں کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیں تو اُن کے افسانوں میں پریم چند کی افسانہ نگاری کارنگ چھلکتا ہوا نظر آتا ہے ۔جس کی ایک بڑی مثال اُن کا افسانہ’’غریبوں کا بھگوان ‘‘ ہے ، جس میں مذہب کے پیشوا ؤں کے ہاتھوں غریب عورت کے استحصال کی داستان بیان کی گئی ہے ۔رشید جہاں نے اپنے افسانوں میں جا بجا عورتوں کے مسائل، عورتوں کی جہالت اور رسوم و رواج کا شکار پسماندہ خواتین کو موضوع بنایا ہے اور اُن کے بارے میں کھل کر لکھا ہے ۔ساس اور بہو ،چھدے کی ماں،میرا ایک سفر،آصف جہاں کی بہو اور بے زبان میں عورت کا عورت کے ہاتھوں استحصال کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ رشید جہاں کی تخلیقی دنیا حقیقی کرداروں کے گرد ہی گھومتی ہے جو کبھی افسانے کے کرداروں میں ڈھل جاتے ہیں اور کبھی ڈرامے کے۔اُن کے ڈراموں کی تعداد اگرچہ صرف نو ہے مگر یہ تمام سماجی حقیقت نگاری کی انتہائی خوبصورت تصویر کشی اور معاشرتی رویوں کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ۔اُن کے ڈراموں میں بھی خواتین کے حقوق اور اُن کی تعلیم ، ملازمت ، ازدواجی رشتوں اور مذہبی تعصبات کو موضوع بنایا گیا ہے جسے رشید جہاں نے ہلکے پھلکے روز مرہ پیش آنے واقعات کو ڈرامائی رنگ میں پیش کیا ہے ۔ترقی پسند رحجانات اورسیاسی اُتار چڑھاؤ کا گہرااثر اُن کے ڈراموں میں جھلکتا ہے ۔اُن کے ڈرامے عورت ، کانٹے والا اور گوشۂ عافیت، انتہائی سنجیدہ موضوع ہوتے ہوئے مگر بھرپور مزاح کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں ۔ رشید جہاں نے نہ صرف افسانہ نگاری ، ڈرامہ نگاری جیسی اصناف پر کام کیا ہے بلکہ اپنی مضمون نگاری کے ذریعے بھی انھوں نے اُردو ادب کی بہت خدمت کی ہے ۔ اُن کے مضامین ’’پریم چند اور ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کانفرنس ‘‘ ، ’’ہماری آزادی ‘‘ ، ’’ ادب اور عوام ‘‘، ’’اُردو ادب میں انقلاب کی ضرورت ‘‘ ، ’’عورت گھر سے باہر ‘‘ ان مضامین میں رشید جہاں نے اپنے نقطہ نظر کو بڑی وضاخت سے پیش کیا ہے۔ اُن کا مضمون ’’اُردو ادب میں انقلاب کی ضرورت ‘‘حقیقت میں جوش ملیح آبادی کے ایک مضمون کے جواب میں لکھا گیا ہے ۔اس مضمون میں وہ ایک طرف تو جوش سے اتفاق کرتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف بعض نکات پر اُن سے اختلاف کرتی ہیں ۔ رشید جہاں کی تخلیقات میں تنوع ہے اُن کی کہانی ہو یا ڈرامہ یا کوئی مضمون معاشرے کی نبض تھامے ہوئے اس کے امراض کی تشخیص کرتی نظر آتیں ہیں ۔ اُن کے افسانوں ، ڈراموں اور مضامین کا انتخاب حمیرا اشفاق کے علمی ذوق اور فن شناسی کامنہ بولتا ثبوت ہیں ۔ پاکستان میں رشید جہاں کے کسی ایسے ہی انتخاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو ادب کے قارئین کو ’’انگارے ‘‘ کے علاوہ بھی اُن کی تخلیقات سے روشناس کروا سکے۔ ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ حمیرا اشفاق کی اس کاوش کو اُردو ادب میں ایک اچھا اضافہ پائیں گے۔ مبصر:شگفتہ طاہر
عورت … رشید جہاں… ایک ایکٹ ڈرامہ |