محمد حسن عسکری :ادب و فن میں فحش کا مسئلہ
پچھلے مہینے اپنی باتوں کے سلسلے میں فراق صاحب نے چند اشعار لیے تھے جنھیں عام طور پر فحش سمجھا جاتا ہے اور بتایا تھا کہ وہ کیوں فحش نہیں ہیں۔ ہر بحث میں اور خصوصاً اس فحش نگاری کی بحث میں کلیے قائم کرنے اور مطلق اصولوں پر جھگڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ٹھوس مثالیں لے کر ان کے حسن و قبح پر غور کیا جائے۔ اور سطح کے نیچے جا کر محض لغوی مطلب کے علاوہ انھیں معنی کی دوسری قسموں (ارادہ، مزاج، لہجہ وغیرہ) کی روشنی میں بھی دیکھا جائے۔ بحث کو صاف اور واضح کرنے کے علاوہ اس میں ایک عام تعلیمی اور تہذیبی فائدہ بھی ہے۔
لیکن میں اتنا خوش یقین نہیں کہ نئے ادب پر عریانی کا الزام لگانے والوں کو بھی اس مقصد سے متاثر ہوتا ہوا سمجھوں۔ جے۔ کے۔ دی ماں، فرانسیسی فطرت نگاروں میں سے ایک تھا اور بعضوں کے نزدیک ان میں سب سے ممتاز۔ اس کے ادبی اصولوں میں سے سماجی مقصد نہیں تھا بلکہ بدی کی رزمیہ لکھنا۔ اس کتاب “Against The Grant” کو، جو آ سکر وائلڈ (Oscar Wilde) کے حلقہ میں پوجی جاتی تھی، شاید جنسی تخریبات کی انسائیکلوپیڈیا کہنا بجا ہو گا۔ لیکن آخر میں اس نے توبہ کر لی تھی اور اکثر بدی کی پرستش کرنے والے مصنفوں کی طرح رومن کیتھولک ہو گیا تھا۔ اسی زمانے میں اناتول فرانس (Anatole France)کے پاس پیغام بھیجا کہ بس اب بہت گندگی سے کھیل چکے، توبہ کرو اور سچے عیسائی بن جاؤ۔ اناتول فرانس نے بصد ادب جواب دیا، “مسیودی ماں کو میرا سلام پہنچانا اور کہنا میسو فرانس انھیں صلاح دیتے ہیں کہ وہ اپنے قارورے کا امتحان کرائیں۔ “
فراق صاحب کی طرح میں نے بھی بحث کے لیے چند مثالیں چنی ہیں۔ ان میں سے کچھ مصوری اور مجسمہ سازی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان پر لکیر، سطح، تناسب اور حجم کے نقطۂ نظر سے غور کیا جاتا، لیکن میں ان فنون میں کورا ہوں۔ میں نے تو صرف ورق گردانی کرتے ہوئے دو چار مثالیں ایسی چھانٹ لی ہیں، جنھیں فحش سمجھا گیا ہے یا بعض پاک بیں حضرات سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے خاص طور پر مذہبی آرٹ کی مثالیں چھانٹی ہیں۔
لیکن مذہبی آرٹ پر ہم اس وقت تک انصاف کے ساتھ غور نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم دوسروں کے احساسات کو بھی اتنا ہی قابل وقعت نہ سمجھیں جتنا کہ اپنے معتقدات کو۔ غالباً احساسات کا درجہ معتقدات سے بلند تر ہے ؛ کم سے کم آرٹ کی دنیا میں۔ اور مذہب ہے کیا سوائے زندگی اور کائنات کے بارے میں ایک خاص نقطۂ نظر قائم کرنے کے ؟ ممکن ہے کہ میرے مذہبی اعتقاد کی رو سے سانپوں کو پوجنے والے حبشی کا اعتقاد غلط ہو لیکن اگر میں ایمان دار ہوں تو اس جذبے کی گہرائی، خلوص اور بنیادی حیثیت سے انکار نہیں کر سکتا جس نے اسے سانپ پوجنے پر مجبور کیا۔ بلکہ ممکن ہے، اس کا جذبہ میری توحید پرستی سے زیادہ پر زور، زیادہ سچا ہو اور روح کائنات سے رشتہ قائم کرنے میں اس کی زیادہ مدد کرتا ہو۔ شاید میری باتیں اسلام کے خلاف ہوں لیکن میرا یقین ہے کہ میں “قرآں در زبان پہلوی” کے الفاظ دہرا رہا ہوں : “موسیا، آداب داناں دیگر اند۔ “
تو غرضیکہ ہم کسی زمانے، کسی قوم کے مذہبی آرٹ کو اس وجہ سے رد نہیں کر سکتے کہ اس میں ہمارے مذہبی معتقدات نہیں پائے جاتے۔ اس بنیادی اصول کو ماننے کے بعد زمانہ قبل از تاریخ اور افریقی قوموں کی نقاشی اور مصوری (جو سو فی صدی مذہبی ہے ) سے لے کر مصری، ہندو اور عیسائی مذہبی آرٹ تک دیکھ جائیے۔ پاکیزہ ترین تصویروں اور مجسموں میں بھی جنسی اعضا کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی، حالاں کہ ان موقعوں پر کسی غیر اور نامناسب جذبے کی مداخلت گوارا نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے سنجیدہ موقع پر جہاں کائنات کے متعلق صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری جماعت کا رد عمل دکھانا منظور ہو، وہاں کوئی ایسے عنا صر داخل کیے گئے ہوں گے جن کا مقصد جنسی ترغیب و تحریک یا جنسی تجسس ہو۔ جہاں فن کار کی ساری روح ستائش و نیائش یا خوف و ہیبت کے جذبوں میں سمٹ آئی ہو، وہاں اسے جنسی لذت کا خیال کیسے آ سکتا ہے ؟ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کوئی فن کار اپنے فن پارے کی وحدت تاثر اتنی آسانی سے کیسے برباد کر سکتا ہے ؟ اور خصوصاً جب کہ وہ محض اپنے جذبوں کا اظہار نہ کر رہا ہو بلکہ پوری قوم نے ایک اہم فرض اس کے سپرد کیا ہو…جہاں ذرا سی لغزش میں اسے ابدی لعنت مول لینے کا خدشہ ہو۔ ایسے مقام پر صرف ایسے لوگوں کا ذہن جنس کی طرف جا سکتا ہے جن میں جمالیاتی احساس غائب ہو، یا جن کے دل سے چھچھورے اور سستے مزے کا خیال کبھی نہ جاتا ہو۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مجسموں اور تصویروں میں جنسی اعضا اس وقت چھپائے جانے شروع ہوتے ہیں، جب زمانہ انحطاط پذیر اور انحطاط پسند ہوتا ہے، جب روحانی جذبے کی شدت باقی نہیں رہتی اور خیالات بھٹکنے لگتے ہیں۔ جب فن کار ڈرتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین کی توجہ اصلی چیز پر مرکوز نہیں رکھ سکے گا۔ پتے اس وقت ڈھکے جانے شروع ہوتے ہیں جب فن پارے کی وحدت قوم کی نظر میں باقی نہیں رہتی اور وہ اسے مختلف ٹکڑوں کا مجموعہ سمجھنے لگتی ہے۔ ان چیزوں سے قطع نظر، بعض دفعہ تھوڑا سا پردہ تصویر کو کہیں زیادہ فحش بنا دیتا ہے اور ذہن کو لامحالہ برے پہلوؤں کی طرف لے جاتا ہے، کیوں کہ اس میں وہی sneaking کی صفت پیدا ہو جاتی ہے جس کا ذکر فراق صاحب کیا ہے۔ اس کی درخشاں مثالیں رائل اکیڈمی کی تصویریں اور مجسمے ہیں، جسے انجیر کا پتہ استعمال کرنا پڑے وہ صرف اخلاقی حیثیت سے ہی کمزور نہیں بلکہ شاید اچھا فن کار بھی نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ بعض اعضا کو اپنے نقش میں کس طرح بٹھائے۔ انجیر کے پتے کے پیچھے وہ عریانی نہیں چھپاتا بلکہ اپنی فنی کمزوری۔ برہنہ جسم دیکھنے اور دکھانے کے لیے بھی بڑی قوت مردمی، بڑی سنجیدگی اور بڑے گہرے اخلاقی اور روحانی احساس کی ضرورت ہے۔ جسم اور جنسی اعضا کو پاک سمجھنا غالباً سب سے مشکل مسئلہ ہے جو انسانی روح کے سامنے آ سکتا ہے۔ جسم کو روح کے برابر پاکیزہ اور لطیف محسوس کرنا ایک ایسا مقام ہے جو فرد اور قوم دونوں کو تہذیب کی انتہائی بلندی پر ہی پہنچ کر حاصل ہوتا ہے اور یہ دنیا کے دو بڑے تمدنوں، ہندو اور یونانی کا ما بہ الامتیاز ہے۔ اور یہ دونوں آرٹ جسمانی حقیقتوں سے آنکھیں نہیں چراتے۔ یہاں میں یونانی آرٹ کی ایک خصوصیت کا ذکر کروں گا۔ یونانی آرٹ کا اصول آدرش اور مکمل ترین نمونے کی تلاش ہے۔ وہ حقیقت کو بگاڑتا ہے، اسے حسین تر ین شکل میں پیش کرنے کے لیے۔ اس نے اپنی ساری توجہ عورت کے جسم پر ہی صرف نہیں کی بلکہ ایک زمانے میں مرد کا جسم ہی حسن کا آدرش تھا۔ یونانی آرٹ نے دکھایا ہے کہ مرد کے اعضائے تناسل میں بھی اتنا ہی حسن، صداقت اور نیکی ہوتی ہے جتنی وینس (Venus) کے سینے میں۔ اگر حسن نام ہے توازن، تناسب اور آہنگ کا، اور حسن صداقت ہے تو ان مظاہر میں بھی اتنا ہی حسن، صداقت اور نیکی ہے جتنا اپولو (Apollo) کے چہرے میں۔ یہاں پھر یہ یاد رکھیے کہ یونانی آرٹ بھی بہت حد تک مذہبی ہے، خواہ اس کی پرستش کا مرکز کوئی موہوم ہستی نہیں بلکہ انسان ہیں۔ وہ الگ الگ چیزوں کے بارے میں نہیں بلکہ پوری کائنات کے متعلق ایک نقطۂ نظر کا اظہار ہے۔ یونان کے آخر ی دور میں لذت پرستی آ گئی ہو لیکن شروع کا زمانہ قطعاً معصوم ہے۔
یہ نہ سمجھیے کہ تصویر میں جنسی اعضا کی شمولیت کی وجہ جواز محض حقیقت نمائی کا اصول…چونکہ وہ جسم کا حصہ ہیں، اس لیے دکھانا پڑتا ہے۔ نہیں، بلکہ اگر فن کار میں صلاحیت ہے تو یہ حصے اظہار میں اس کی اتنی ہی مدد کر سکتے ہیں جتنی کوئی اور۔ گہری سے گہری روحانی کیفیتیں ان کے صحیح استعمال سے زیادہ واضح کی جا سکتی ہیں۔ فن پارہ ایک وحدت ہوتا ہے۔ اس کے ہر جز کو مرکزی جذبہ کا صرف تابع ہی نہیں ہونا پڑتا بلکہ اسے اظہار اور وضاحت میں بھی معاونت کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر بڑا فن کار تو ذرا سے نقطے کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ میرے سامنے افریقہ کے ایک چوبی مجسمے کی تصویر ہے جس میں روح کائنات سے خوف زدہ ہونے اور ہیبت سے جم کر رہ جانے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ صرف دیکھنے ہی سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ مڑی ہوئی متشنج رانوں کے درمیان اور باقی جسم کے تناسب سے ایک چھوٹے سے لکڑی کے ٹکڑے نے اثر میں کیا اضافہ کر دیا ہے …اگو ستینودی دو چیو کی سنگ مرمرپر ابھری ہوئی تصویر ہے ؛ “میڈونا اور بچہ” …عیسیٰ کے بچپن کی جتنی تصویریں میں نے دیکھی ہیں، ان میں یہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ کیوں کہ عام طور پر مصور سارا زور تقدس پیدا کرنے میں صرف کر دیتے ہیں لیکن یہاں ایک ایسی چیز پیش کی گئی ہے جو تقدس اور طہارت سے کہیں بلند ہے۔ یعنی بچے میں زندگی کا ابھار، زندگی کا مچلنا، یہ معصوم شوخی اور تبسم کی لہریں جیسی چہرے پر نمایاں ہیں، بالکل ویسی ہی رانوں کی سلوٹوں میں بھی۔ اور جس کیفیت سے جنسی اعضا دکھائے گئے ہیں، وہ چہرے کی معصومیت کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
مائیکل اینجلو(Michael Angelo) کی مشہور تصویر ہے ؛ “تدفین”۔ عیسیٰ کو بالکل برہنہ دکھایا گیا ہے، کیوں کہ موت کے اثر کو جسم کے ہر حصے سے ظاہر کرنا مقصود تھا اور خصوصاً ٹانگوں سے چہرے پر انتہائی سکون اور روحانیت طاری ہے۔ مصور کو یقین تھا کہ جنسی حصے عریاں کر دینے سے اس روحانی جمال پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔ اگر اس کا ذرا سا بھی شائبہ ہوتا تو مائیکل اینجلو جیسا مصور کبھی بھی عریانی کی خاطر عریانی پسند نہ کرتا۔ چنانچہ روبنز نے اپنی تصویر “مردہ مسیح ” میں تھوڑا سا حصہ ڈھک دیا ہے، حالاں کہ یہاں چہرہ پر جمال نہیں بلکہ کسی عام مصلوب لاش کا سا ہے۔ یہ پردہ اس وجہ سے کہ سر پیچھے کی طرف ڈھلکا ہوا ہے۔ اگر جنسی حصے جن کی جگہ تصویر میں آگے ہے، کھلے ہوتے تو وہ نظروں کو وہیں روک لیتے اور بازوؤں کی قوت اظہار میں بھی حارج ہوتے۔ یہ فیصلہ تو فن کارانہ احساس ہی کرتا ہے کہ کسی جگہ عریانی موزوں ہے کہاں نا موزوں۔
بلیک (Blake) کی تصویر “شیطان باغی فرشتوں کو ابھار رہا ہے۔ ” جنسی حصہ پیٹ کے عضلات سے مل کر ایک مثلث بناتا ہے جس کی لکیریں ٹانگوں کو اوپر کے جسم سے الگ کرتی معلوم ہوتی ہیں۔ اس فرق سے ٹانگیں ستون بن جاتی ہیں اور مضبوطی سے اپنی جگہ گڑی ہوئی معلوم ہونے لگتی ہیں اور شیطان کو تو غالباً انجیر کا پتہ سجتا بھی نہیں۔
رودیں (Rodin) کے مجسمے (Bronze Age) پر غور کیجیے۔ یہاں انسان کے اندر فطرت کا احساس بیدار ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ احساس پیروں سے سر تک چڑھتا چلا گیا ہے اور جذبہ کی شدت سے آدمی کے ہاتھ اوپر اٹھ گئے ہیں۔ کپڑے پہنا کر تو خیر یہ خیال ظاہر ہو ہی نہیں سکتا تھا اور اگر ہوتا بھی تو اتنا قوی اور صحت ور نہ ہوتا۔ لیکن اگر بیچ میں ذرا سی دھجی ہوتی تو یہ فائدہ ضرور تھا کہ نیک لوگوں کو اسے دیکھ کر آنکھیں نیچی نہ کرنی پڑتیں، مگر لائنوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا۔ نظر بیچ میں اٹک جاتی اور ساتھ ہی اس احساس کی روانی بھی وہیں ٹوٹ جاتی اور مجسمے میں وہ بے اختیاری اور از خود رفتگی نہ رہتی جو اب ہے۔ اب تو شدت تاثر اور ہم آہنگی کا یہ عالم ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ سارا جسم سن ہو گیا ہے اور سارا احساس کھنچ کر سر اور بندھی ہوئی مٹھی میں آ گیا ہے …گویا روح ایک نقطے پر یکایک جل اٹھی ہے۔ یہاں جنسی اعضا کی سکون پذیری کیا اثر پیدا کرتی ہے ؟ شاید جسم اور روح کا فرق مٹ جاتا ہے۔
عریانی کی وجہ سے ایسٹپائن جیسا مطعون و مردود رہا ہے، وہ تو بجائے خود ایک داستان ہے۔ اس نے اسٹرینڈ کی ایک عمارت کے لیے عورت اور مرد کی زندگیوں کے مختلف مدارج کے مجسمے بنائے تھے اور اپنی ساری معصومیت اور طہارت قلب صرف کر دی تھی۔ وہ دراصل مرد اور عورت کے تعلقات کے مثالی نمونے تھے اور نیا ئشانہ جذبے سے پر۔ مگر شریف عورتوں نے یہاں صرف عیاشانہ جذبہ دیکھا اور پھر اپنی شکایتوں کے باوجود انھیں دیکھنے بھی جوق در جوق آئیں۔ اسی طرح اس کے مجسمے “پیدائش” کو بھی فحش اور گندا کہا گیا۔ لیکن پھر وینس دی میدیچی (Venus de’ Medici) کو فحش کیوں نہیں کہا جاتا؟ غالباً اس وجہ سے کہ اس کے پستان بہت شہوت انگیز ہوتے ہیں اور ایسٹپائن کا مجسمہ لوگوں کے لیے محض وحشت انگیز تھا۔ رائل اکیڈمی تو چونکہ نارنگیوں اور سنگتروں کی روایت تازہ کرتی رہتی ہے، اس لیے اس کے کارناموں سے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن محض ایک پھولا ہوا پیٹ اور بدنما پستان دکھا کر ایسٹپائن اخلاق کا دشمن بن گیا تھا۔ حالاں کہ یہاں وہ جنسیت کی بنیادوں تک پہنچ گیا ہے۔ بعضوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ حاملہ نہیں بلکہ دھرتی ماتا ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ جنس کی اہمیت اور عظمت کیا ہے۔
ایسٹپائن ہی کا مجسمہ ہے “آدم”، جسے دیکھ کر خاتونوں کے ہاتھوں سے عینکیں گر گر پڑی ہیں اور جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مجسمہ ایک آدمی نے نہیں بنایا بلکہ پوری نسل انسانی نے۔ لیکن نسل انسانی نے بھی حیا سوزی کی انتہا کر دی ہے کہ آدمی کو ابو الابا کے جسم میں خیزش دکھائی ہے۔ اول تو آدم کے بارے میں یہ بدگمانی اور پھر اس کیفیت میں۔ چھی چھی!!
لیکن اس مجسمے کے لیے مبالغہ آمیز اسم صفت گنوانے کی بجائے میں اس جسارت کی فنی اہمیت دریافت کرنے کی کوشش کروں گا۔ یونانی اور دوسرے قدیم مجسمہ ساز حرکت دکھاتے ہوں یا نہ دکھاتے ہوں مگر جس دن سے لیسنگ نے فتویٰ دیا ہے کہ مجسمہ حرکت کا اظہار نہیں کر سکتا، صرف سکون کو یا حرکت کو ایک جگہ ٹھہرا کر مجسمہ بنایا جا سکتا ہے ؛ اس دن سے مجسمہ ساز اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اس روایت کو توڑنے کے لیے رودیں نے چلتے پھرتے آدمیوں کے مجسمے بنائے ہیں لیکن نئے مجسمہ ساز مثلاً ایسٹپائن یا ہنری مور (Henry Moore) اس مادے کا بہت احترام کرتے ہیں جس سے وہ مجسمہ بنا رہے ہوں۔ چنانچہ یہ لوگ پتھر کو وہ شکلیں اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتے جو گوشت و پوست سے مخصوص ہیں۔ حرکت کے اظہار کے لیے وہ پتھر کے اندر سے حرکت پیدا کرتے ہیں۔ اسے اوپر سے توڑتے مروڑتے نہیں۔ اس مجسمہ میں ایسٹپائن کو انسان کی ہمیشہ ترقی کرتے رہنے کی لگن اور مشکلوں سے مقابلہ کی جرأت دکھانی تھی۔ لیکن اس نے آدم کو بھاگتا ہوا نہیں دکھایا بلکہ ہاتھ تک بدن سے جڑے ہوئے ہیں۔ مجسمے کے اندر ایک ایسی اینٹھن، ایک ایسا ابھار اور قوت پیدا کی گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے، آدم زمین سے اٹھ کر اوپر کھنچا چلا جا رہا ہے اور اس میں اپنی انتہائی طاقت صرف کر رہا ہے۔ خود سوچ لیجیے کہ وہ تھوری سی بدتمیزی کیا نشو د نما پاتی ہے۔ یہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جنس انسان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بلکہ مددگار ہے اور اس کی پرورش بھی اتنی ہی ضروری جتنی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کی ہے۔
ہاں، ایک سب سے زیادہ مذہبی زمانہ کو تو میں بھولا ہی جا رہا تھا یعنی یورپ کا عہد وسطیٰ۔ اس زمانہ کی جنسی حقیقت پسندی اور ظرافت کی عریانی تو مشہور ہی ہے لیکن یہ چیزیں مذہبی ڈراموں تک میں داخل ہو گئی تھیں۔ یہ ڈرامے محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں تھے بلکہ ایک قسم کی عبادت۔ لیکن ان میں بھی کھلے کھلے جنسی اشارے معیوب نہیں سمجھے جاتے تھے۔ نوح اور ان کی بیوی اسی ٹھاٹھ سے لڑتے تھے جیسے کوئی اور میاں بیوی۔ اور نوح کی بیوی کی زبان کسی عام عورت سے پاک تر نہیں خیال کی جاتی تھی۔
عریانی سے کیا کام لیے جا سکتے ہیں، دیکھنا ہو تو زولا کے یہاں چلیے۔ کسی عورت کا ذکر آ جائے تو اس کے پستانوں کا حال بیان کیے بغیر وہ مشکل ہی سے بڑھتا ہے۔ شاید کسی سائنس داں نے بھی اتنی قسمیں نہ بیان کی ہوں گی جتنی زولا نے ایک کتاب میں۔ لیکن یہ لذت پرستی نہیں ہے بلکہ نفسیات اور کردار نگاری۔ عورت کے سلسلے میں تیس فی صدی کردار تو وہ پستانوں کے ساتھ ہی بیان کر دیتا ہے اور اس کی داستان حیات بھی۔ زولا کا شاہ کار “جرمینل” ہے۔ یہ سرمایہ اور محنت کی جنگ کی رزمیہ ہے اور اس کا درجہ اتنا بلند ہے کہ آندرے ژید کے خیال میں اسے فرانسیسی میں نہیں بلکہ کسی بین الاقوامی زبان میں لکھا جانا چاہیے تھا۔ مزدوروں نے بغاوت کی ہے اور وہ ہر چیز برباد کرتے پھر رہے ہیں۔ اسی جوش میں وہ ایک سوداگر کو، جو ان کی لڑکیوں کو خراب کیا کرتا تھا، مار ڈالتے ہیں اور اس کے عضو مخصوص کو کاٹ کر ایک سلاخ میں پرو لیتے ہیں۔ زولا کی ذہنی گندگی…لیکن یہ موقع نہایت سنجیدہ ہے اور یہاں اس کی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی، اور خصوصاً اس کتاب میں جہاں زولا کھلم کھلا پرولتاری انقلاب کی حمایت کر رہا ہے۔ زولا گروہوں اور ہجوموں کی نفسیات کا ماہر ہے۔ اس میں ٹالسٹائے کے علاوہ مشکل ہی سے کوئی اس کی برابری کر سکتا ہے۔ مزدوروں کی یہ حرکت ایک مشتعل گروہ کے جنون کا آخری درجہ ہے اور نفسیات کے مالک کی طرح زولا اسے دکھانے میں نہیں جھجکا ہے اور اسی سلسلے میں وہ متوسط درجے کے اخلاق پر اور نئی اقدار کے بڑھتے ہوئے حملے کے سامنے بیچارگی اور ریاکاری پر ایک بڑی سخت چوٹ بھی کر گیا ہے۔ جب مزدور اس حالت میں کارخانہ کے منیجر کے مکان کے سامنے سے گذرتے ہیں تو اس کی بیٹی اپنے باپ (یا ماں ) سے پوچھتی ہے کہ یہ کیا ہے ؟ اسے کوئی جواب نہیں ملتا اور آخر دونوں جھینپ کر کھڑکی سے ہٹ آتے ہیں۔ نفسیات کے سلسلے میں شیکسپیئر کی مثال لیجیے۔ اس کے مزاحیہ کرداروں اور بہت سے مردوں کی زبانوں سے تو خیر بڑے تر و تازہ پھول جھڑتے ہیں لیکن یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی کسی ہیروئن کو مبتذل بنا سکتا ہے اور پھر المیہ کی ہیروئن کلو پیٹر ا کو اس نے محض شہوت پرست نہیں دکھایا بلکہ بلند نظر اور پر جلال بھی۔ بری سے بری چیزیں بھی اس کے اندر بھلی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ لیکن اس کی گفتگو جنسی علامتوں سے بھری پڑی ہے اور اینٹینی کے روم چلے جانے کے بعد تو یہ عنصر اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ہر ہر بات میں اس کی جنسی بے قراری مچلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
کلوپیٹرا سے یہ باتیں کہلوا کر شیکسپیئر اسے شور ڈچ کی رنڈی نہیں بنا رہا تھا بلکہ اس کی نفسیاتی بصیرت وہ چیز پیش کر رہی تھی جس کا تجزیہ اب آ کر فرائد نے کیا ہے۔ اور نہ اس سے کردار کی بلندی میں کوئی فرق پڑتا ہے بلکہ کلوپیٹرا کی انسانیت اور بڑھ جاتی ہے۔ جنسی جذبے کی شدت اس کی قربانی کو اور بھی پر وقعت بنا دیتی ہے۔ شیکسپیئر مقابلے سے بڑے کام لیتا ہے۔ “اوتھیلو” میں ایک طرف تو ڈیسڈی مونا کی انتہائی معصومیت اور بھولپن ہے، اس کی زبان سے لفظ رنڈی بھی نہیں نکلتا۔ دوسری ایاگو کی دریدہ دہنی ہے جو کسی وقت فحاشی سے باز نہیں آتا اور آخر اس کا اثر اوتھیلو پر بھی پڑتا ہے اور اس کے دماغ پر جنسی ہولناکیاں مسلط ہو جاتی ہیں۔ یقیناً یہ فحش برائے فحش نہیں، نہ چونی والوں کی تسکین کا سامان۔ یہ شدید اور بعض وقت اعصاب زدہ فحش گوئی کی فضا جو اس ڈرامے پر چھائی ہوئی ہے، ڈیسڈی مونا کی شرافت نفس اور سادگی میں چار چاند لگا دیتی ہے اور وہ شیطانوں کے درمیان گھری ہوئی فرشتہ نظر آنے لگتی ہے۔
اس قسم کے مقابلے کو اگر پرکاری سے استعمال کیا جائے تو وہ کیا اثر پیدا کرتا ہے، اس کی مثال میں، میں ڈے لوئیس کی ایک نظم پیش کروں گا جو انھوں نے موجودہ جنگ کے متعلق لکھی ہے۔ یہ ایک بہت چھوٹی نظم ہے، جس میں توپوں کو عضو تناسل سے تشبیہ دی ہے، وہ دنیا کے رحم میں بربادی کا بیج بونے کے لیے تنی کھڑی ہیں۔ غالباً شاعر کی ذہنی گندگی، مگر کیا دنیا میں کوئی دوسری تشبیہ رہ ہی نہیں گئی تھی؟ لیکن غور کیجیے کہ جو زور اس تشبیہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور سے ممکن نہیں تھا۔ محض تناؤ کا زور نہیں بلکہ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جو چیزیں انسان کے لیے رحمت ہو سکتی تھیں، وہ آج لعنت بنی ہوئی ہیں۔ عضو تناسل افزائش اور برکت کا نشان ہے لیکن یہاں اسے بربادی کی علامت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ توپ سائنس اور علمی ترقیوں کی نمائندگی بھی کرتی ہے، ان چیزوں کا مقصد تھا کہ فطرت سے انسان کی لڑائی میں اس کی مدد کریں لیکن آج وہ خود انسان کی ہلاکت کے درپے ہیں۔ اس خیال کو کسی اور علامت کی مدد سے اتنی ہی چھوٹی نظم میں ادا کرنے کی کوشش کیجیے، لیکن یہ خیال رہے کہ وعظ کا عنصر نہ آنے پائے جس طرح یہ نظم اس سے پاک ہے۔ تو یہ قطعاً انفرادی طور سے فن کار پر منحصر ہے کہ وہ عریانی سے کیا کام لیتا ہے۔ اور اسے پاکیزہ ترین جذبات کے اظہار کی خدمت لی جا سکتی ہے اور لی گئی ہے۔ رلکے نے کہہ رکھا تھا کہ آرٹ کا مقصد تعریف کرنا ہے لیکن ہمارے زمانے میں تعریف کرنا کوئی ایسا آسان کام نہیں ہے۔
اگر رلکے خود تعریف کر سکا ہے تو زندگی سے بھاگ کر، اپنے آپ کو مداخلت سے محفوظ کرنے کے بعد، خاص قسم کے عارفانہ اور مابعد الطبیعاتی جذبے کو اپنے اوپر طاری کرے۔ لارنس نے تعریف کی ہے مگر زندگی کے ایک خاص مظہر کی، ایک مخصوص شعلے کی جو آدمی کو ایسے لپیٹ لیتا ہے کہ بے اختیار منھ سے تعریف نکل ہی آتی ہے لیکن عامیہ زندگی کی سطح پر اتر کر، اس کی ظاہری کیفیت کو قبول کر کے۔ ناک بھوں چڑھائے بغیر اس میں رہبانیت یا خدا کے جلوے یا کسی آفاقی اصول کو تلاش کیے بغیر، تعریف کرنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے۔ اور پھر ہمارے زمانے میں کہ جب فرد اور سماج میں اتنی مغائرت اور مخالفت ہو لیکن جوئس نے اسی طرح تعریف کی ہے اور “یولیسس” کے اس حصے میں جس کی وجہ سے کتاب کو ضبط کر لیا گیا تھا۔ میرین بلوم ایک معمولی عورت ہے اور ایسی ہی شہوت پرست۔ اس میں کوئی بات بھی بلند یا پاک نہیں اور ایسی ہی ایمان داری اس کی خود کلامی میں برتی گئی ہے لیکن اس کی عریاں خیالی اسے ٹھوس بنا دیتی ہے۔ اس کا رشتہ ہماری دنیا، ہماری زمین سے مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر میں اس کی جنسیت زمین اور زندگی کی حمد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور یہ جذبہ اتنا ہی اعلیٰ و ارفع ہے جتنا کوئی اور۔ بالکل ایسا ہی ٹھوس کردار چوسر نے اپنے “باتھ کی خاتون” کی شکل میں پیش کیا ہے۔ دونوں عورتیں زندگی سے بے اندازہ لطف لیتی ہیں، دونوں زندہ رہنے کی بے پایاں خواہش رکھتی ہیں مگر “باتھ کی خاتون” میں ایک بات زیادہ ہے، وہ مرنے سے بھی نہیں ڈرتی۔ زندگی نے اسے جو کچھ دیا ہے وہ اس سے پوری طرح مطمئن ہے۔ حالاں کہ ہمارے زمانے کے کردار زندگی سے بیزار ہوتے ہوئے بھی موت اور وقت سے لرزتے ہیں۔ اپنی جوانی کے گذر جانے کے خیال سے وہ افسردہ تو ضرور ہوتی ہے مگر باقی عمر سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی جنسیت کی مدد سے وقت پر فتح حاصل کرتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ خدا نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نسل کو بڑھاتا رہے۔ اسی وجہ سے وہ خدا کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسے پانچ شوہر ملے ہیں اور وہ چھٹے کا استقبال کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ وہ اپنے کو عفیفہ بنا کر نہیں رکھنا چاہتی بلکہ شادی کے کاروبار میں اپنی ساری زندگی کے پھول کو پیش کرے گی، وہ اصلاح ادب کانفرنس سے پوچھتی ہے :
“مجھے یہ بھی تو بتائیے کہ اعضائے تناسل بنا نے کا مقصد کیا تھا؟ یہ لوگوں نے اپنی کتابوں میں کیوں لکھ رکھا ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کا قرض ادا کرنا چاہیے۔ اب وہ اپنی ادائیگی کیسے کرے گا، اگر اپنا نفیس آلہ استعمال نہ کرے ؟ بیوی کی حیثیت سے میں تو اپنے آلے کو ایسی ہی آزادی سے استعمال کروں گی جیسے میرے خالق نے مجھے عنایت کیا ہے۔ اگر میں روک ٹوک کروں تو مجھ پر خدا کی مار ہو۔ میرا شوہر اسے صبح و شام دونوں وقت لے سکتا ہے۔ جب اس کا دل چاہے آئے اور اپنا قرض چکائے لیکن افسوس! عمر نے جو سب چیزوں میں زہر ملا دے گی، میری خوب صورتی اور میرا زور چھین لیا ہے۔ خیر، جانے دو، چلو رخصت۔ شیطان بھی اسی کے ساتھ جائے۔ آٹا تو ہو ہی چکا، اس کا کیا ذکر، اب تو جیسے بھی ممکن ہو گا مجھے بھوسی ہی بیچنی پڑے گی لیکن اب میں بھی پوری زندہ دلی سے رہوں گی۔ ” ورجینیا و ولف بڑی حسرت اور رنج کے ساتھ کہتی ہیں، “اب یہ قہقہہ کرۂ زمین پر دوبارہ نہیں سنا جائے گا، جو پیٹ کی تہوں سے اٹھتا ہے۔ “
چوسر کے ایک عالم نے ان تمام حصوں کو اپنی کتاب سے نکال دیا ہے۔ اسی طرح مڈلٹن مرے (جن کی رائے کا میں ہر جگہ بہت احترام کرتا ہوں ) فرماتے ہیں کہ “لارنس نے ‘لیڈی چیٹرلی کا عاشق’ میں جو ناقابل تحریر الفاظ استعمال کیے ہیں وہ نفس مضمون کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، صرف گالی برائے گالی ہیں۔ ” شاید۔ لیکن میرا ذاتی رد عمل تو یہ ہے کہ ان گالیوں اور بعض عامیانہ حرکتوں کی وجہ سے میلر ز اور لیڈی چیٹرلی عام انسانوں سے بہت قریب آ گئے ہیں اور یہ بات لارنس کی کتاب میں ذرا کم ہی ہوتی ہے۔ اس سے صرف کتاب کے ٹھوس پن اور انسانیت ہی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لارنس کے پیغام کی اشاعت میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس کی حقیقت ہم سے قریب ہو جاتی ہے اور وہ ایسی چیز نہیں رہتی جس تک پہنچنے کی ہم خواہش بھی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح بکرے اور بکری پر لارنس کی نظموں کی حقیقت نگاری، جنسی جذبے کی تندی، وحشت اور ایک حد تک مضحکہ خیزی کا اظہار ہے بلکہ اس حقیقت نگاری میں “جنس کے پیغمبر” کی، جنس سے جھجک، ڈر اور نفرت جھلکتی ہے۔
لارنس کے ذکر سے مجھے ایک اور سوال یاد آتا ہے۔ عریانی کے معذرت خوا ہوں کی طرف سے بعض دفعہ فحش اور غیر فحش کا فرق بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سفید رومال سے چہر ہ صاف کر کے کہا جاتا ہے کہ جنس کے ذکر میں لذت کا اظہار نہ ہونا چاہیے اور نہ ترغیب کا عنصر۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہے، کیوں کہ حقائق کو بھی اس سے اختلاف ہے، آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں ؟ جب ہم کسی پیڑکو، کسی کردار کے چہرے کو، اس کے کپڑے کو، کسی سیاسی جلسے کو مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں اور تنقید اسے ایک اچھی صفت سمجھ سکتی ہے تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے ؟ دراصل اس اعتراض کی بنیاد وہ روایتی احساس ہے جو جسم کے بعض حصوں اور بعض جسمانی افعال سے جھجکتا ہے اور انھیں بنفسہ گندہ اور پلید سمجھتا ہے اور ان کے وجود کو ابدی لعنت کا داغ۔ یہی ذہنیت جو ایک طرف تو ادب اور آرٹ پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے لیکن دوسری طرف لاتعداد فحش کتابوں کو جنم دیتی ہے۔ لذت بجائے خود کسی فن پارے کو مردود نہیں بنا سکتی بلکہ اس کے مقبول یا مردود ہونے کا دارومدار ہے لذت کی قسم، اس کی سطح پر، فن کار کے مزاج اور نقطۂ نظر پر۔ کیا شیکسپیئر کی وینس اور ایڈونس، ٹیشئین کی برہنہ عورتیں، دودین کے دو مجسمے، “دائمی بہار” “بوسہ” اور “ہم آغوشی” لذت اور ترغیب سے بالکل خالی ہیں ؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے، کیا ہم انھیں فحش کہہ کر چھوڑسکتے ہیں ؟
فحش کی یہ ترغیب والی تعریف غالباً ترقی پسند وں کی طرف سے ہوئی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بہت پھیل جاتا ہے۔ فحش کے سوال سے کہیں آگے یہ فیصلہ ہو جائے کہ جنس قطعاً گندی اور غیر شریفانہ چیز ہے۔ اس لیے اس سے لذت کا اظہار اور اس کی ترغیب بھی نا مناسب ہے۔ میں ماننے کو تیار ہوں لیکن اگر تاکید جنس پر نہیں بلکہ ترغیب پر ہے تو ادب کے ذریعے سے انقلاب یا سماجی تبدیلی کو ترغیب دلانا بھی اتنی ہی نامناسب چیز ہے۔ ترغیب کا مسئلہ چھیڑ کر ترقی پسند ایک پڑوس میں جا پہنچتے ہیں جس کے سائے سے بھی وہ بھاگتے ہیں یعنی جیمز جوئس۔ جوئس کا نظریہ ہے کہ جمالیاتی جذبے میں “حرکت” نہیں ہوتی بلکہ فرار، آرٹ نہ تو کسی چیز کی خواہش ہمارے دل میں پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز سے نفرت، جو آرٹ اس اصول کا پابند ہے وہ مناسب آرٹ ہے اور جو خواہش یا نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، غیر مناسب آرٹ ہے، خواہ وہ فحش ہو یا اخلاقیات۔ اس سلسلے میں جوئس نے وینس کے مجسمے کی مثال دی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وینس کی رانیں اس وجہ سے پسند آتی ہیں کہ وہ بڑا تندرست بچہ پیدا کر سکتی ہیں اور پستان اس لیے کہ ان میں بچے کو دودھ پلا کر توانا رکھنے کی بڑی صلاحیت دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح وینس عورت اور ماں کے فرائض کا مثالی نمونہ بن جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک بڑا فن پارہ ہے لیکن جوئس کے نزدیک یہ احساسات جمالیات کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ علم اصلاح نسل کی طرف۔ وینس ہمیں صرف اس وجہ سے پسند آتی ہے کہ اس میں حسن اور آہنگ ہے۔
جوئس کا یہ بیان بنیادی طور پر بہت صحیح اور کم سے کم مفید ضرور ہے مگر اس نے انتہا پسندی کی بھی حد کر دی ہے۔ شاید کوئی فوق الانسان ہوا ہو جس نے ایسا فن پارہ پیش کیا ہو یا جس کا رد عمل اتنا جچا تلا ہو۔ کم سے کم میرے اندر تو فن پارہ ضرور حرکت پیدا کرتا ہے۔ حالاں کہ یہ حرکت وہ نہیں ہوتی جو فحش یا اخلاقیات سے پیدا ہوتی۔ خود جوئس کے یہاں کافی نفرت اور بیزاری پائی جاتی ہے اور میرین بلوم کا کردار کسی طرح ترغیب سے خالی نہیں اور لارنس کے یہاں ترغیب کے کیا معنی، وہ تو جنسی تعلقات کے ایک عنصر کا پرچار کرتا ہی ہے،اگر کسی جگہ صحت مند مباشرت کی ترغیب پائی جائے تو میں اسے فحاشی کہنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آپ فوراً اعتراض کریں گے کہ پھر تو شاید کوک شاستر بھی ادب بن گیا۔ لیکن یہاں میں فحش کو آرٹ ثابت کرنے پر اپنا زور قلم صرف نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف آرٹ کو فحش سمجھے جانے سے بچانا چاہتا ہوں۔
سوال دراصل ترغیب کا نہیں بلکہ آرٹ اور غیر آرٹ کا۔ غیر آرٹ کے لیے ایک نام تجویز کرتا ہوں، جذباتیت۔ یہ جذباتیت کسی طرح کی بھی ہو سکتی ہے۔ نفس پرستی، انقلاب پرستی، اخلاق پرستی، ساری گڑبڑ یہاں سے چلتی ہے کہ عموماً فن پارے کو بڑی سادہ چیز سمجھا جاتا ہے اور اس کی پیچیدگی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم اس کے صرف ایک رخ، ایک احساس کو لے لیتے ہیں اور اسی کو سارا فن پارہ سمجھتے ہیں اور اسی غلط فہمی پر اپنے فیصلے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہیں سے جذباتیت شروع ہوتی ہے۔ اگر یہ جذباتیت فن کار میں ہو تو وہ سرے سے فن پارہ پیدا کر ہی نہیں سکے گا، اسے اخلاقی وعظ بنا دے گا یا فحش۔ اور جب یہ جذباتیت پڑھنے والے یا دیکھنے والے میں ہو تو وہ اچھے خاصے فن پارے کو توڑ مروڑ کر غیر آرٹ بنا دیتی ہے مثال کے طور پر اصلاح ادب کانفرنس۔
اس الجھن کا ایک مخرج اور بھی ہے۔ ہماری تنقید کے نزدیک آرٹ نام ہے اپنے جذبات کے اظہار اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا۔ یہ سن کر ہربرٹ ریڈ سے تو اپنا قہقہہ نہیں رک سکا لیکن مجھ میں ابھی اس سے انکار کی جرأت نہیں پیدا ہوئی۔ بہرحال آرٹ کوئی انجکشن کی پچکاری نہیں ہے جس کے ذریعے سے نئے نئے جذبے ہمارے اندر داخل کیے جاتے ہوں۔ زیادہ بک بک کیوں کروں، آپ ارسطو کا “کیتھا رسز” والا نظریہ جانتے ہیں۔ آرٹ میں ایک جلابی کیفیت ہوتی ہے جو ہمارے جذبات سے زوائد کو خارج کر کے ہمارے اندر توازن اور سکون قائم کرتی ہے۔ جذباتیت اور آرٹ میں یہی فرق ہے۔ دونوں ہمارے گھٹے ہوئے جذبات کو راستہ دیتے ہیں لیکن جذباتیت میں روک نہیں ہوتی۔ وہ جذبات پر کوئی حد نہیں قائم کر سکتی۔ آرٹ جذبات کی حد بندی کرتا ہے، ان کی تنظیم کرتا ہے اور انھیں ایک خاص نقش کی شکل میں ترتیب دیتا ہے۔ ٹیشین کی برہنہ تصویر دیکھنے کے بعد ہم بازار میں کود کر راستہ چلتی عورتوں کے کپڑے پھاڑنا نہیں شروع کر دیتے بلکہ اپنے جنسی جذبات میں ایک بہتر توازن اور ارتقا پاتے ہیں۔ شاید فحش سے پہلا والا اثر پیدا ہوتا ہے۔ اگر آرٹ ہمارے اندر کوئی جذبہ پیدا کرتا ہے تو وہ بقول ہربرٹ ریڈ، تحیر کا جذبہ ہے۔ اگر آرٹ صحیح قسم کا ہے اور پڑھنے والا اس سے کوئی غلط نتیجہ مرتب کرتا ہے یا اس کے اندر فاسد مادہ بھڑک اٹھتا ہے تو اس کے لیے اس فن پارے کو ملزم نہیں گردانا جا سکتا۔ آرٹ شہوت پرستی یا دنیا کے گنا ہوں پر زار و قطار رونا یا لال جھنڈا لے کر دو دو گز اونچے اچھلنے لگنا نہیں سکھاتا بلکہ حسن، ترتیب اور آہنگ کو تحیر کی نظروں سے دیکھنا۔
اگر موجودہ ادب میں فحش موجود ہے تو اسے ہوّا بنانے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اگر آپ لوگوں کو فحش کی مضرتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں یہ سمجھنے کا موقع دیجیے کہ کیا چیز آرٹ ہے اور کیا نہیں ہے اور آرٹ کیوں فحش، اخلاقیات، سیاست اور اقتصادیات سے بہتر اور بلند تر ہے۔ جو شخص آرٹ کے مزے سے واقف ہو جائے گا، اس کے لیے فحش اپنے آپ پھسپھسا ہو کر رہ جائے گا۔ کم سے کم اپنی ذہنی تندرستی کے دوران میں تو وہ فحش کو چھونا بھی نہیں چاہے گا۔ سب سے نفیس پہچان فحش اور آرٹ کی یہی ہے کہ فحش سے دو بارہ وہی لطف نہیں لے سکتے جو پہلی مرتبہ حاصل کیا تھا۔ آرٹ ہر مرتبہ نیا لطف دیتا ہے۔ اس توازن اور ارتفاع کی مثال کے طور پر مجھے فراق صاحب کا شعر یاد آتا ہے
ملے دیر تک ساتھ سو بھی چکے
بہت وقت ہے آؤ باتیں کریں
اردو کی جنسی شاعری میں بہت کم ایسے شعر ہوں گے جن میں یہ معصومیت، یہ ذہنی لطافت، آرٹ کا یہ تحیر پایا جاتا ہو۔ میں اس شعر کو دہرانے سے کبھی نہیں تھک سکتا۔
فن کا تناسب بذات خود ایسی چیز ہے جو گندی سے گندی بات کو بے ضرر بنا دیتا ہے اور فنون میں یہ تناسب لکیروں، رنگوں وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ادب میں بیانیہ انداز کے لوازمات بھی اس کی ایک قسم ہیں، مثلاً شیخ سعدی کا مشہور مصرعہ، “ہمیں بہ جملۂ اول عصائے شیخ بخفت” اور پھر قہقہہ تو بڑی سے بڑی غلاظت کو دھو دیتا ہے اور عقل؟ ایسے لوگوں کے نام یاد کیجیے جن کی عقل واقعی خوف ناک قسم کی تھی اور پھر یہ غور کیجیے کہ انھوں نے کتنی عریانی برتی ہے۔ دو چار نام تو مجھ سے سنیے۔ رابیلے، چوسر، شیکسپیئر، سوئفٹ، والٹیر، جوئس۔
Urdu Literary Culture: Vernacular Modernity in the Writing of Muhammad Hasan Askari
Mehr Farooqi
Mehr Farooqi has written one of the most interesting, provocative and engaging books on modern Urdu literature and literary criticism in recent years. Called Urdu Literary Culture: Vernacular Modernity in the Writing of Muhammad Hasan Askari….
Sample Chapter
Urdu Literary Culture: Vernacular Modernity in the Writing of Muhammad Hasan Askari
Mehr Afshan Farooqi
Muhammad Hasan Askari was Urdu’s first literary critic in the Western, practical sense of the term: that is, he chose to set up as a critic, an interpreter, and a judge of literature.
Hasan Askari: Bringing Urdu Criticism to the Metropolitan Readers
Ambrina Qayyum
Unlike most scholarly works about the so-called global periphery that take up, as an object of study, works of poetry, drama or prose, Farooqi’s Urdu Literary Culture is focused primarily on the miscellaneous prose works of Mohammad Hassan Askari, one the of the greatest Urdu critics.
Review
Syed Mafiz Kamal
Mehr Farooqi has written one of the most interesting, provocative and engaging books on modern Urdu literature and literary criticism in recent years.
Askari and Firaq: Personal Relations in Life and Letters
Mehr Afshan Farooqi
There is a unique place for the poet Firaq Gorakhpuri (1895– 1982) in Askari’s writing. His unbounded, almost-ardent admiration for this poet-professor of the English Department, who played an important mentoring role in his life, has been dubbed “too difficult to swallow,” by Urdu literary critics, but never scrutinized or studied with a view to determine why Askari was so strongly biased in his assessment of Firaq.
حسن عسکری :ادب و فن میں فحش کا مسئلہ
پچھلے مہینے اپنی باتوں کے سلسلے میں فراق صاحب نے چند اشعار لیے تھے جنھیں عام طور پر فحش سمجھا جاتا ہے اور بتایا تھا کہ وہ کیوں فحش نہیں ہیں۔ ہر بحث میں اور خصوصاً اس فحش نگاری کی بحث میں کلیے قائم کرنے اور مطلق اصولوں پر جھگڑنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ٹھوس مثالیں لے کر ان کے حسن و قبح پر غور کیا جائے۔ اور سطح کے نیچے جا کر محض لغوی مطلب کے علاوہ انھیں معنی کی دوسری قسموں (ارادہ، مزاج، لہجہ وغیرہ) کی روشنی میں بھی دیکھا جائے۔ بحث کو صاف اور واضح کرنے کے علاوہ اس میں ایک عام تعلیمی اور تہذیبی فائدہ بھی ہے۔
حرام جادی – محمد حسن عسکری
دروازہ کی دھڑ دھڑ اور ’کواڑکھولو‘ کی مسلسل اور ضدی چیخیں اس کے دماغ میں اس طرح گونجیں جیسے گہرے تاریک کنوئیں میں ڈول کے گرنے کی طویل، گرجتی ہوئی آواز۔ اس کی پرخواب او نیم رضا مند آنکھیں آہستہ آہستہ کھلیں لیکن دوسرے لمحہ ہی منہ اندھیرے کے ہلکے ہلکے اجالے میں ملی ہوئی سرمہ جیسی سیاہی اس کے پپوٹوں میں بھرنے لگی اور وہ پھر بند ہوگئیں۔ آنکھوں کے پردے بوجھل کمبلوں کی طرح نیچے لٹک گۓ اور ڈلوں کو دبا دبا کر سلانے لگے لیکن کان آنکھوں کی ہم آہنگی چھوڑ کر بھنبھنا رہے تھے۔ وہ اس سحر خیز حملہ آور کی تازہ یورش کے خلاف اپنے روزن بند کرلینا چاہتے تھے …….. اور پھر بھی بھنبھنا رہے تھے۔