فیض اور کلاسیکی غزل از شمس الرحمٰن فاروقی
فیض کی غزل کا تذکرہ کرتے وقت عام طور پر جوبات سب سے پہلے کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فیض نے کلاسیکی علامات کو نئے معنی اور نئی معنویت عطا کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیض کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کے طریق کار میں ہے، جس کے باعث ان کے پائوں کلاسیکی زمین میں مضبوط جمے رہے، لیکن انھوںنے اس بنیاد پر جو عمارت قائم کی اس کی دیواریں نئے ذہن کے نئے مسائل سے مستفیض تھیں۔
میں فی الحال اس بات سے بحث نہ کروں گا کہ دار، رسن،قاتل،واعظ،کوے یار، وغیرہ قسم کے الفاظ علامت ہیں بھی کہ نہیں؟ ہماری کلاسیکی غزل علامت کے تصور سے نا آشنا تھی۔ اس لیے یہ بات قرین قیاس نہیں کہ جس چیز کا تصور بھی ہماری شعریات میں نہ رہا ہو، اس کا نہ صرف وجود ہو، بلکہ ہمارے شعرا اس سے واقف بھی ہوں۔ مغربی اصطلاحات و تصورات پر مبنی کچی پکی معلومات کی روشنی میں اردو اسلوب کی تفہیم و تحسین کی جو کوششیں ہمارے یہاں ہوئیں، وہ اکثر نامشکور ہی رہی ہیں۔ اردو غزل میں علامات کا وجود ثابت کرنے کی سعی انھیں ناکام کوششوں کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ خیر، اس مسئلے پر مزید گفتگو نہ کرکے میں صرف یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ فیض کی غزل بے شک ان رسومیاتی الفاظ اور تلازمات سے مزین ہے جو ہماری کلاسیکی شاعری کا نمایاں وصف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فیض کی کلاسیکیت اور ان کا اجتہاد صرف اسی بات میں ہے کہ انھوںنے کوے یار میں رقیب اور شیخ شہر سے نبردآزمائی کو عارنہ جانا؟ اس سوال کی چھان بین صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ فیض کی شاعری یوں بھی خاصے محدود دائرے اور مقصود کی شاعری ہے اور ان کے مداحوں کا ارشاد کہ فیض کی کلاسیکیت محض ان چند الفاظ و تلازمات کو نئے معنی دینے تک محدود ہے، تعریف کے پردے میں ان کی مذمت ہی ہے۔
اس سوال کی چھان بین اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ذریعہ کلاسیکی غزل کے بعض بنیادی پہلوؤں پر بھی روشنی پڑسکتی ہے۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ فیض کی موت کے بعد پاکستان میں بعض لوگوں نے فیض کو سچا مسلمان، عاشق رسولؐ اور اہل دل صوفی بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لہٰذا عجب نہیں کہ کچھ دنوں میں فیض کو کلاسیکی صوفی شاعر بھی تسلیم کرلیا جائے اور اس طرح ان کا اصلی ادبی کارنامہ صرف دارو رسن اور قیس و فرہاد کی صوفیانہ یاد تازہ رکھنے تک محدود قراردیا جائے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی شاعر قدیم الایام سے چلے آنے والے رسومیاتی الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن وہ خود جدید زمانے کا شاعر ہے، تو ہم کس بنا پر یہ فیصلہ کریں گے کہ اس نے ان الفاظ کو نئے معنی دیے ہیں؟ مثال کے طور پر یہ دو شعر ہیں ؎
نہ سوال وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
********
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
پہلا شعر ظاہر ہے کہ فیض کا ہے اور دوسرا درد کا۔ آپ کس بنا پر فیصلہ کریں گے کہ پہلے شعر میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے شعر میں معشوق کے جور کی طرف؟ اگر آپ یہ کہیں کہ دونوں اشعار میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ ہے تو فیض کی انفرادیت پر ضرب پڑتی ہے، کیونکہ اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ غزل کے رسومیاتی مضامین و الفاظ کو سیاسی معنی میں برتنا فیض کا کوئی اختصاص نہیں۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ فیض کے شعر میں سیاسی جبر کی طرف اشارہ اس لیے ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ترقی پسند تھے، انقلابی تھے، وغیرہ ۔ تو پھراس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ان رسومیاتی الفاظ کی اپنی کوئی حیثیت نہیں، ان کے معنی شاعر کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ اگر شاعر شیعہ ہے تو ان کے معنی شیعی ہیں۔ اگر شاعر سنی ہے لیکن اہل حدیث ہے تو ان کے معنی سنی اہل حدیثی ہیں، وغیرہ۔ ظاہر ہے اس طرح فیض کی انفرادیت پھر خطرے میں پڑجاتی ہے ۔
ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ فیض چونکہ ترقی پسند تھے اس لیے جب وہ کسی کے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیارات کے چلے جانے کی بات کرتے ہیں تو اس میں وزن ہی اور ہوتا ہے، اس میں حسن ہی اور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے معنی تو ہیں کہ ہر شعر کی خوبی خرابی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے پہلے ہم شاعر کے سیاسی عقائد معلوم کریں۔ ظاہر ہے کہ شعر کے وہ معنی جو شاعر کے عقائد کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیربر آمد ہی نہ ہوسکیں، بالآخر باطل ہی ٹھہریں گے۔ کیونکہ اول تو تمام شاعروں کے سیاسی عقائد کے بارے میں معلومات نہیں، بلکہ بعض اوقات تو شاعر کا نام بھی معلوم نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر شعر کا حسن یا معنی ان اطلاعات پر منحصر و مبنی ٹھہرائے جائیں جو شعر کے باہر ہیں ،تو پھر ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ خود شعر میں کوئی معنی نہیں ہوتے۔ ایسی صورت کو تسلیم کرنے کے بعد تنقید و تفہیم کے سب دروازے بند ہوجائیں گے اور خود فیض کی تمام شاعری معرض خطر میں آجائے گی۔ کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ فیض کے کلام میں فی نفسہٖ کوئی خوبی نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ چونکہ وہ انقلابی اور ترقی پسند وغیرہ تھے، اس لیے ان کے کلام کو سیاسی معنی پہنانے میں ایک طرح کا لطف ہے۔ ورنہ یہی شعر انھوںنے اگر درد کے زمانے میں، یا غالب کے زمانے میں کہے ہوتے تو انھیں کوئی گھاس نہ ڈالتا۔
لیکن یہاں ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ فیض کو انقلابی اور ترقی پسند کہا بھی جائے کہ نہیں؟ یقین ہے، یا اگر یقین نہیں تو مضبوط امکان اس بات کا ہے کہ مارکسی فکر کے کچھ پیرو، یا مائو سی تنگ کے مقلد، فیض کو انقلابی اور ترقی پسند ماننے سے ہی انکار کردیں۔
ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ فیض کا بڑا کارنامہ دراصل یہ ہے کہ انھوںنے کلاسیکی اصطلاحاتی الفاظ کو دوبارہ زندہ کیا اور انھیں غزل میں مقبول کیا۔ ورنہ فیض کے زمانے میں یہ سب خوبصورت الفاظ یا تو ترک ہوچکے تھے، یا اپنے معنی کھوچکے تھے۔ اس جواب میں دو مشکلیں ہیں۔ یہ بیان مخدوش ہے کہ دارورسن، قفس و نشیمن وغیرہ الفاظ کسی بھی وقت اپنے معنی کھوسکتے ہیں۔ یہ الفاظ دراصل ایک پورے رسومیاتی نظام کا حصہ ہیں اور ان پر غزل کی دنیا کے تمام مفروضوں کا دارومدار ہے۔ جب تک وہ رسومیاتی نظام اور وہ مفروضات باقی ہیں، یہ الفاظ اپنے معنی نہیں کھوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسومیاتی لفظ مثلاً ’’جوروستم‘‘ میر کے شعر میں بامعنی ہو اورآج کے زمانے کے شعر میں بے معنی ہو۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’جوروستم‘‘ قسم کے رسومیاتی الفاظ اپنی دل کشی اور تازگی کھوسکتے ہیں۔ لیکن ہمارا دعویٰ دراصل یہ ہے کہ دراصل یہ الفاظ اپنی دلکشی اور تازگی کھو ہی چکے تھے۔ فیض نے انھیں دوبارہ دلکشی اور تازگی عطا کی۔ پھر سوال اٹھے گا کہ فیض نے یہ کارنامہ کیونکر انجام دیا؟ آپ جواب دیں گے کہ فیض نے انھیں سیاسی معنی عطا کیے۔ لیکن وہی مشکل پھر آن کھڑی ہوگی کہ فیض کے شعر میں سیاسی معنی کی دریافت اس معلومات پر مبنی ہے کہ فیض سیاسی اور انقلابی شخص تھے۔ یعنی اگر ہم ع
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
والا شعر فیض کے کلیات میں پڑھتے تو اس میں سیاسی اور انقلابی معنی دریافت کرتے اور اگر اسے درد کے دیوان میں پڑھتے تو اسے محض عشقیہ شعر سمجھتے۔ لہٰذا کلاسیکی رنگ و آہنگ والے الفاظ میں جو دلکشی اور تازگی ہم فیض کے شعر میں دیکھتے ہیں وہ اس وجہ سے کہ ہم جانتے ہیں کہ فیض کے کچھ سیاسی عقائد تھے۔ یعنی فیض نے ان میں کوئی شاعرانہ خوبی نہیں پیدا کی، یہ تو محض ان کی سیاست کا کرشمہ تھا۔
ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ مجھے قبول نہیں۔ اس وجہ سے قبول نہیں کہ میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ کلاسیکی رنگ و آہنگ والے الفاظ ہمارے زمانے میں فیض کے علاوہ دوسرے بہت سے شاعروں نے استعمال کیے ہیں اور وہ فیض کے ہم خیال و ہم عقیدہ بھی تھے۔ لیکن ان کے یہاں ان الفاظ میں وہ حسن نظر نہیں آتا جو فیض کے یہاں ہے۔ لہٰذا فیض کی عظمت اس بنیاد پر نہیں قائم ہوسکتی کہ انھوںنے غزل کے کلاسیکی عشقیہ رسومیاتی الفاظ کو سیاسی معنی دیے۔ یہ صفت تو مخدوم، مجروح، ساحر، غلام ربانی تاباں، بہتوں کے یہاں ہے۔ لیکن شاعرانہ مرتبے کے اعتبار سے ان میں سے کوئی بھی فیض کا مدمقابل نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ نئے معنی کی دریابی کے اس عمل میں فیض کو اولیت حاصل ہے، تو یہ بھی درست نہیں۔ ترقی پسندوں میں سب سے پہلے مخدوم نے غزل کو باقاعدہ طور پر اختیار کیا اور سیاسی موضوعات کو غزل میں برتنے کی رسم حسرت موہانی، محمد علی جوہر اور اقبال نے قائم کی۔ ’’دست تہ سنگ‘‘ کے دیباچے میں خود فیض نے حسرت موہانی کا ذکر کیا ہے۔ اس دیباچے میں انھوںنے لکھا ہے کہ میری شاعری کا آغاز ۸۲۹۱ کے آس پاس ہوا۔اس وقت محمد علی جوہر زندہ تھے اور ان کی سیاسی غزل ایوان ادب میں گونج رہی تھی۔ حسرت کا دبدبہ بطور غزل گو پوری طرح قائم ہوچکا تھا اور اقبال، نئے شعرا (بشمول جوش) کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے ۔خود فیض نے اقبال کا جومرثیہ لکھا ہے وہ ترقی پسند شعرا کی ممتاز نظموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا فیض کے سامنے غزل کی ایسی مثالیں وافر تھیں جن میں سیاسی موضوعات کو برتا گیا تھا۔
اس تجزیے کی روشنی میں کہنا پڑتا ہے کہ فیض کی غزل میں کلاسیکی رنگ کے حسن وخوبی کا سراغ اس بات سے نہیں لگ سکتا کہ انھوںنے بعض رسومیاتی الفاظ کو بڑی کثرت سے برتا اور ان میں سیاسی معنی داخل کیے۔ تنقید کی دنیا میں یہ مشکل اکثر پیش آتی ہے کہ ہم کسی متن کی خوبی کا پتہ تو لگالیتے ہیں، لیکن اس کی وجہ دریافت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مرے کریگر Murray Krieger نے اپنی کتاب Theory of Criticismمیں اس نکتے کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
اگر ہمیں کوئی ایسا تجربہ حاصل ہو جسے ہم ’’جمالیاتی‘‘ کے لفظ کے ذریعہ بیان کریں ،تو یہ قرین قیاس ہے کہ ہم اس تجربے کی علت اس شے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جس سے ہمیں یہ تجربہ حاصل ہوا ہے، اور پھراس طرح ہم اس شے کوجمالیاتی قدر کا حامل بتائیں گے۔ لیکن بطور نقاد کے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جمالیاتی علت ہم میں ہے یا واقعی اس شے میں ہے؟ قطعی لغوی طور پر تو یقینا یہی کہا جائے گا کہ اس جمالیاتی تاثر کا سرچشمہ ہمارے ہی اندر ہوگا کیونکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس شے کا سامنا کرنے پر وہ تاثر حاصل نہیں کرتے۔۔۔ کیا کسی شے میں کوئی ایسی جمالیاتی خاصیت ہوتی ہے ، جسے ہم محسوس کرتے ہیں (یا ہم کو جسے محسوس کرنا چاہیے؟) اگر ہم نے وہ جمالیاتی خاصیت دریافت کرلی ہے اس طرح کہ ہمارا تجربہ (جس حد تک وہ جمالیاتی ہے)اس خاصیت کے تعلق سے مناسب اور صحیح تاثرہے، تو پھر ہمیں اس خاصیت کی وضاحت کرنے اور اس کو بیان کرنے پر اپنے جمالیاتی تجربے سے مشابہ تجربے کو دوسرے قارئین تک پہنچانے پر قادر ہونا چاہئے۔
ہمارے یہاں سنسکرت شعریات میں بھی یہ سوال بہت شروع میں اٹھایا گیا کہ کسی ڈرامے ، یا کسی شعری متن کے ذریعہ ہمیں جس ’’رس‘‘ کا احساس ہوتا ہے، اس کی اصل (جسے اصطلاح میں ’’استھائی‘‘کہتے ہیں)کس میں ہے؟ ڈرامے کے تماشائی میں یا اس اداکار میں، جو ڈرامے کو ادا کر رہا ہے؟بہر حال،آگے چل کر کریگر کہتا ہے کہ نقاد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تجربے کے اندر شے Object in experienceاور شے کا تجربہ Experience of objectمیں فرق کرسکے۔ یعنی وہ یہ بتاسکے کہ شعر میں جو خوبی وہ دیکھ رہا ہے، وہ اس کے دماغ کی اختراع نہیں ہے اور اس خوبی کے بیان کے ذریعہ یہ حکم لگایا جاسکے کہ جن شعروں میں یہ خوبی ہوگی ان سے فلاں قسم کا تجربہ حاصل ہوسکے گا۔ اگر کسی نظم کے تجربے کو اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کے مختلف اجزا اپنی شخصیت کو برقرار رکھیں تو پھر ان اجزا کی یہ خصوصیت مشکوک ہوجاتی ہے کہ ان کے ذریعہ ایک متحد اور خود مکتفی Unified اور Self -enclosingتجربہ حاصل ہوسکتا ہے۔ فیض کی کلاسیکیت کی تحسین کرنے والوں کی یہی مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فیض کی غزل میں الفاظ الگ ہیں اور ان کے سیاسی معنی جو فیض کے عقائد نے ان میں داخل کئے ہیں ، وہ الگ ہیں۔ کیونکہ انھیں الفاظ میں اور وہی سیاسی معنی تو غلام ربانی تاباں اور دوسروں کے یہاں بھی ہیں۔ لیکن فیض کے علاوہ کسی میں وہ بات نہیں۔ لہٰذا وہ اس بات کو واضح کرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ وہی نسخہ جو فیض کے یہاں کارگر ہے، دوسروں کے یہاں بے فیض کیوں رہ جاتا ہے؟
اس سوال کو حل کرنے کے لیے مزید دو شعروں کی روشنی میں بعض نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرتا ہوں۔ پہلا شعر حافظ کا ہے اور دوسرا، ظاہر ہے فیض کا ہے ؎
عقاب جو رکشا داست بال برہمہ شہر
کمان گوشہ نشینے و تیر آہے نیست
******
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
اس بات سے قطع نظر کہ حافظ کا شعر بہت اعلیٰ درجے کا ہے، اور فیض کا شعر ان کے اچھے اشعار میں نہیں، پوچھنے کا سوال یہ ہے کہ ہم یہ فیصلہ کس طرح کرسکتے ہیں کہ حافظ کا سیاسی نہیں ہے اور فیض کا شعر سیاسی ہے؟ پھر کیا ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ فیض کا شعر اگرچہ حافظ کے شعر سے بہت پست ہے، لیکن اس لیے قابل تعریف ہے کہ اس میں سیاسی پہلو ہے یا سیاسی پہلو بھی ہے (یعنی اور کسی پہلو کے علاوہ سیاسی پہلو بھی ہے؟) کیا سیاسی شاعری کے لیے ایسے اصول مقرر ہوسکتے ہیں جن کی روشنی میں ہم سیاسی کو غیر سیاسی شاعری سے الگ کرسکیں؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دکھاسکیں کہ غیر سیاسی شاعری پر مبنی رسومیات کی پابندی کرتے ہوئے بھی سیاسی شاعری ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ رسومیات اپنے سیاق و سباق سے منفک Context Neutralہے، یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کسی رسومیاتی نظام کو ہم پوری طرح برتیں،لیکن اس کے جو معنی نکلیں وہ غیر رسومیاتی ہوں؟
ان تمام سوالوں کے جواب مہیا کرنے کے لیے ایک دفتر چاہئے۔ میں اس وقت صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حافظ کا شعر سیاسی معنی کا متحمل ہوسکتا ہے، لیکن ہم اس کو سیاسی نہیںکہہ سکتے، کیونکہ اس میں سے سیاسی معنی جو ہم برآمد کریں گے ان کا تعلق شعر کی معنویت سے ہوگا، اس کے اصل معنی سے نہیں ۔اور یہ استعارے کی خوبی ہے کہ وہ معنویت کے لیے دروازے کھول دیتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ بھی نہیں جس کے اعتبار سے ہم اس شعر کو غیر سیاسی قراردیں ۔لیکن کیا ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ بھی ہے جس کے اعتبار سے ہم اس کو محض سیاسی قراردیں؟ شعر کی معنویت اس کے معنی کا حصہ ہوتی ہے۔ لیکن اس کے معنی کا دائرہ اس کی معنویت سے چھوٹا بھی ہوسکتا ہے۔ فیض کا شعر حافظ کے شعر کے مقابلے میں کم کارگر ہے، اگرچہ اس میں بھی سیاسی معنویت ہے۔ کم کارگر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی معنویت جس معنی پر قائم ہے وہ حافظ کے شعر کے معنی سے کم ہے۔ معنی کے کم ہونے سے میری مراد یہ ہے کہ حافظ کے شعر میں چار استعارے اور چار پیکر ہیں۔ یعنی جو استعارے ہیں ،وہی پیکر بھی ہیں۔ عقاب، جور، بال کشا دست برہمہ شہر، کمان گوشہ نشینے، تیرآہے۔ پھر دو چیزوں کا ہونا (جو پہلے مصرعے میں بیان ہوئی ہیں) دو چیزوں کے نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ فیض کا شعر ان نزاکتوں سے خالی ہے۔ فیض نے جہاں کلاسیکی اسلوب کوکامیابی سے برتا ہے وہاں کیفیت یا مضمون آفرینی کی کارفرمائی ہے۔ ورنہ سیاسی پہلو یا فلسفیانہ پہلو یا عشقیہ پہلو کسی میں کوئی ایسی خوبی فی نفسہٖ نہیں جو شاعرانہ خوبی سے ضامن ہوسکے۔
بات فیض کی غزل کی ہورہی تھی، لیکن انھوںنے اکثر نظموں میں بھی غزل کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس لیے میں ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ کے پہلے دو مصرعے پیش کرتا ہوں ۔ پھر فارسی کا ایک شعر جو مخلص کاشی کا ہے؎
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
مخلص کاشی کہتا ہے؎
در روزگار عشق تو ماہم فدا شدیم
افسوس کز قبیلۂ مجنوں کسے نہ ماند
مضمون آفرینی اور کنایاتی انداز بیان کی تمکنت نے فارسی کے شعر کو یادگار بنادیا ہے۔ فیض کے یہاں رعایت تضاد موجود ہے، لیکن مضمون کی پیش پا افتادگی نے فیض کے یہاں تمکنت کے بجاے خود ترحمیپیدا کردی ہے۔ جہاں مضمون آفرینی ہوتی ہے وہاںخود ترحمی نہیں ہوتی۔ جہاں کیفیت ہوتی ہے وہاں خود ترحمی کا خطرہ ہوتا ہے ۔ فیض ہمارے ان جدید شعرا میں ہیں جنھیں کلاسیکی اصطلاحوں اور تصورات کی اہمیت کا احساس تھا۔ ان میں سے بعض پر انھوںنے ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ ہم لوگوں نے مغربی تعلیم کے زیراثر ان اصطلاحوں سے بیگانگی اختیار کرلی تھی۔ جب ہمارے ذوق سلیم نے فیض کی غزل میں کلاسیکی رنگ محسوس کیا تو اس کی وجہ دریافت کرنے کی مہم میں ہم ان اصطلاحوں اور تصورات سے مدد نہ لے سکے۔ لہٰذا ہم صرف یہ کہہ کر رہ گئے کہ فیض نے شیخ،برہمن ، واعظ ، کوے یار، رقیب، منزل، دار، رسن وغیرہ کلاسیکی رسومیاتی الفاظ کو نئے معنی میں استعمال کیا ہے۔ فیض کے بہت سے عمدہ اشعار میں رسومیاتی الفاظ نہیں ہیں، پھر ان کی کامیابی کا راز کیا ہوسکتا ہے؟ اس فہرست میں فیض کے بعض مشہور ترین اشعار بھی ہیں ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
جدا تھے ہم تومیسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کتنی
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
وہی چشمہ ٔ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے
ہر سمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دیئے کیا کیا ہمیں باد سحری نے
ان اشعار میں کیفیت اس قدر اور معنی اس قدر کم ہیں کہ اگر تجزیہ کرنے بیٹھیں تو معنی کی تنگی کا احساس ہمیں حیرت میں ڈال دے۔
فیض نے غزل میں کلاسیکی رنگ کو جس طرح زندہ کیا وہ ہماری شاعری کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی غزل میں اردو غزل کی وہ تہذیب بول رہی ہے جس میں مضمون آفرینی اور کیفیت کا عمل دخل تھا۔ فیض کے یہاں کیفیت کا جادو نظموں میں بھی بڑھ چڑھ کر بولتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ غزل کی تہذیب کے پس منظر میں فیض کا مطالعہ ازسرنو کیا جائے۔
Shamsur Rahman Faruqi
Shamsur Rahman Faruqi (born 1935) is an eminent Urdu critic, poet and theorist, who has nurtured a whole generation of Urdu writers since the 1960s. He is regarded as the founder of the new movement in Urdu literature and has formulated fresh models of literary appreciation.