سندربن کی آخری سیر
صوفیہ ناز
لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ
پجاما ڈھیلا ٹوپی ٹائٹ
آگے شوہر پیچھے وائف …
اس بےتکی سی نظم کا آخری مصرع کہتے ہی دونوں بہن بھائی ہنسی کے مارے گھاس پر لوٹنے لگتے ہیں۔ ڈھاکہ کنٹونمنٹ کے بیچ نوبیہ اورانمول آیا کی نگرانی کے تلے اپنے باغ میں کھیل رہے ہیں۔ باغ کیلے کے پودوں سے بھرا ہوا ہے۔ کیلے کے پتے ہاتھوں کے کانوں جیسے چوڑے اورصبح کی بارش سے ابھی تک گیلے اور چمکیلے ہیں۔ آیا کیلوں میں نمک مرچ اورچینی ملا کر بہت ہی مزیدارچاٹ بناتی ہیں۔ لیکن آیا کے چمتکار دودھ کو نوبیہ کی چھ سالہ زبان کے لیے مزیدار یا محض قابل برداشت بنانے میں ناکام ہی رہ جاتے ہیں۔ ہر صبح وہی قصہ دہرایا جاتا ہے۔ آیا اپنے مخصوص دکنی لہجے میں گرجتی ہیں، ’’ایّو ماں! نوبیہ نے پھر سے سلبچی میں ڈال دیا! ماں، میں نے دودھ کو دو دفعہ ململ سے چھانا ماں، اور بےبی نے پھر بھی نہیں پیا۔ میں توعاجز آ گئی ہوں ماں۔ ذرا انمول بابا کو دیکھو، ہرروز دو گلاس دودھ گٹ گٹ پی جاتا ہے، میرا بچہ! دیکھو کتنا گورا ہے۔ تم دودھ نہیں پیو گی تو کالی کلوٹی رہ جاؤ گی اورکوئی شادی نکّو کرے گا۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ نوبت دودھ کو زبردستی پلانے پر آتی، باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آنے لگی۔ نوبیہ نے اسکول کا بستہ پکڑا اورفوکسی میں فاروق حمید عرف مینڈک کے بغل میں بیٹھ گئی۔ نوبیہ کو اسکول سے بڑا لگاؤ تھا۔ ہرکسی سننے والے سے بڑے فخر سے کہتی تھی: یہ کوئی ایسا ویسا نہیں ہے، یہ فارم ویو انٹرنیشنل اسکول ہے! جیسے انٹرنیشنل لفظ ہی نے اس کے اسکول کو ہر دوسرے مکتب سےاعلیٰ بنا دیا ہو۔
میڈم شوما چودھری کا فارم ویو انٹرنیشنل اسکول وہ نایاب ادارہ تھا جس نے اپنے نام کے معنوں کو پوری طرح نبھا رکھا تھا۔ ڈھاکہ کی چہل پہل سے صرف بیس منٹ کے رستے پر،اس کے اردگرد ہریالی ہی ہریالی تھی۔ جہاں دیکھو دھان کی ملائم کھیتی بوئی ہوئی تھی، جیسے کسی نے ململ کی ہری اوڑھنی زمین پہ بچھا کر اسے پانی کے آئینے سے سجا دیا ہو۔ فارم ویو سے واقعی میں حدنظر تک کھیتوں کا ہی نظارہ ملتا تھا۔ رہی انٹرنیشنل کی بات تو یہ بھی غلط نہیں تھی، کیونکہ وہاں تیئس ملکوں سے لگ بھگ 305 لڑکیاں اور لڑکے ساتھ مل کر پڑھتے تھے۔ صبح سب سے پہلے دوڑ لگتی تھی کہ کون کلاس کو جلدی سے جلدی پہنچتا ہے۔ پڑھائی کا یہ انوکھا طریقہ میڈم چودھری کی ایجاد تھا جنھیں بچپن میں اسکول سے شدید نفرت تھی۔ خودمختاری پانے پر انھوں نے یہ ارادہ کیا کہ ایک دن وہ ایک ایسا اسکول کھولیں گی جو بند کمروں کی گھٹن میں سبق کو رٹنے سے بالکل متضاد ہو۔ لہٰذا موسم برسات کے علاوہ اسکول کے تمام اسباق کھلی ہوا میں آم اور برگد کے پیڑوں تلے کھیل کود کر سکھائے جاتے تھے۔ نوبیہ کو یہ پڑھائی کااندازاتنا پسند تھا کہ اس کا بس چلے تو ہفتے کے ساتوں دن وہ اسکول ہی میں گزار دے۔ بس یہ سمجھو کہ اس کی دنیا جنت ہوتی اگر اس میں مینڈک کا وجود نہ ہوتا۔
فاروق حمید کا نام مینڈک ایسے پڑا کہ اس کی آنکھیں بڑی بڑی مگر بہت کمزور تھیں۔ لڑکپن میں ہی موٹا چشمہ لگ گیا جس کے پہنتے ہی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی ابھی کنویں سے کود کرنکلا ہے۔ مینڈک نوبیہ کی زندگی کا اکلوتاعذاب تھا۔ سب سے پہلے تو یہ اذیت کہ وہ مسلسل نوبیہ کو ہرا کرکلاس میں اول درجہ لیتا تھا۔ دوسری کوفت کی بات یہ تھی کہ مینڈک کے پاس ولایتی ٹافیوں اور چاکلیٹوں کا ان گنت خزانہ تھا، جو وہ نوبیہ کے سامنے مزے لے لے کر کھاتا تھا۔ کلاس کی ٹیچر مس علوی نے مینڈک کو اس کی بدتمیزی پر کئی بار ٹوکا تھا لیکن اس ڈانٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ نوبیہ رو رو کر التجا کرتی رہی، لیکن چاکلیٹ کا ایک بھی ٹکڑا اس کے نصیب میں نہیں تھا۔ اس ذلت کے باوجود نوبیہ اس مینڈک کی کھائی ہوئی ٹافیوں کے رنگین کاغذوں کوجمع کر کے اپنی کتاب میں سنبھال کر رکھتی تھی — کاغذ ہی سہی لیکن تھا تو ولایتی!
نوبیہ کو تڑپانے والا مینڈک آج کھڑکی کی طرف منھ پھیرے اپنے آپ میں سمٹا ہوا چپ چاپ بیٹھا تھا۔ گاڑی شہر سے نکل چکی تھی اور دھان کے ہرے سنہری کھیت سڑک کے دونوں طرف لہلہا رہے تھے۔ فوکسی میں خاموشی صرف ڈرائیور کے گیئربدلنے پر ٹوٹتی تھی جب ایسا معلوم پڑتا تھا کہ کوئی بزرگ اپنا بلغم بھرا گلا صاف کر رہے ہیں۔ نوبیہ کو بڑی حیرانگی ہوئی کہ آخر بات کیا ہے۔ اس نے مینڈک کو ذرا چھیڑا۔
’’کیا ہوا مینڈک، تمھاری ٹافی ختم ہو گئی؟‘‘
’’نہ!‘‘ مینڈک نے کھڑکی سے منھ ہٹائے بنا روکھی آواز میں جواب دیا۔
’’پھر کیا؟‘‘ نوبیہ نے بےصبر ہو کر پھر سے مینڈک کو ٹٹولا۔
’’ہم لوگ ڈھاکہ چھوڑ رہے ہیں۔ ‘‘
نوبیہ دنگ رہ گئی۔ ’’کیا مطلب؟ ڈھاکہ چھوڑ رہے ہو، کب؟‘‘
’’اس جمعے کو۔ ‘‘
’’اِس جمعے کو؟ لیکن وہ تو تین دن میں ہے!‘‘ نوبیہ کو اپنے کانوں پریقین نہیں آ رہا تھا۔ ابھی تو اسکول کا امتحان بھی نہیں ہوا ہے۔
’’پتا ہے!‘‘ مینڈک کا گلا گھٹ رہا تھا لیکن وہ ایک لڑکی کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنا منھ پھر سے کھڑکی کی طرف پھیرا اورخاموشی کے تالاب میں ایک اور ڈبکی لگائی۔
راستے بھر نوبیہ کا دماغ گاڑی سے تیز دوڑ رہا تھا۔ مینڈک کے جانے سے وہ روزمرہ کے تشدد سے نجات پانے والی تھی۔ لیکن وہ چمکدار ولایتی کاغذ جو بیرون ملک کی جادوئی دنیا سے اس کا واحد رابطہ تھے، ان سے محرومی کا اسے بڑا افسوس ہونے لگا۔ نوبیہ کا دل رونے اور ہنسنے کے بیچ ڈول رہا تھا۔ آخرکار وہ بولی، ’’تم کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’ ممی کے گھر،کوپن ہاگن…‘‘ مینڈک کے آنسو نکل ہی گئے۔
نوبیہ ’کوپن ہاگن ‘کے جغرافیے سے انجان تھی۔ عام طورپر مینڈ ک اس کی نادانی کا مذاق اڑاتا لیکن آج وہ شکستہ لہجے میں بولا، ’’کوپن ہاگن ڈنمارک کا کیپٹل ہے۔‘‘
ڈنمارک! ہائے، کچھ لوگ کتنے خوش نصیب تھے۔ نوبیہ نے اپنے دل میں ڈنمارک کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی۔ اسے امی کی دراز میں رکھاہوا ویانا کے ایک اوپرا ہاؤس کا پوسٹ کارڈ یاد آیا۔ یہ دھندلی سی یاد جلد ہی مٹ گئی کیونکہ وہ اسکول پہنچ گئے تھے اورکلاس تک دوڑنے کا وقت آ گیا تھا۔
دن کا آخری سبق ختم ہونے پر مس علوی نے کلاس کے سب بچوں کو بند لفافے اس تاکید کے ساتھ بانٹے کہ وہ فوراً ہی انھیں اپنے والدین تک پہنچا دیں۔ نوبیہ نے اپنا لفافہ بنا سوچے لے لیا۔ تقریباً روز ہی اسکول کی طرف سے کچھ نہ کچھ خط و کتابت ہوتی رہتی تھی؛ کبھی امتحان کے نتیجے تو کبھی والدین اوراساتذہ کی میٹنگ کا نوٹس۔ گھر واپسی پر نوبیہ سیدھی امی کے پاس گئی اور بےچینی سے بند لفافہ انھیں پکڑایا۔ نوبیہ کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال تھا: کیا وہ ماہانہ امتحان میں فاروق حمید کو مات دے کے کلاس میں اول آنے میں کامیاب ہوئی کہ نہیں؟ البتہ دل ہی دل میں جانتی تھی کہ ایسی جیت کے امکانات کم ہی تھے۔
خط پڑھتے ہی شہربانو کے ماتھے پہ جھریاں آ گئیں۔ نوبیہ پریشان ہو گئی کہ شاید اس مہینے اس کے مارکس کم آئے ہوں؛ وہ گنتی میں ذرا کمزورتھی لیکن باقی مضامین میں وہ اپنی عمر سے زیادہ ہوشیار تھی۔ اس وجہ سے وہ چھ مہینے میں کے جی سے کلاس ون تک ترقی کر چکی تھی۔ شہربانو نے خط واپس لفافے میں ڈالا اور میز پہ رکھ کر نوبیہ کو گودی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سنگھارمیز کے دائیں بائیں اور بیچ کے آئینے میں نوبیہ کو اپنی ماں کا چہرہ ہر زاویے سے خوبصورت لگا۔ گہری آنکھوں کے پیالے، گھنی بھنووں کی خطاطی اورگلاب کی پنکھڑیوں جیسے ملائم ہونٹ جن کی سرخی کسی لپ اسٹک کی محتاج نہیں تھی۔ میز کے دونوں طرف لکڑی کی سلاخوں میں کانچ کی چوڑیاں رنگ کے حساب سے ترتیب میں رکھی تھیں: پیلی، زعفرانی، نارنجی، گلابی، کاسنی بائیں ہاتھ پہ او ر دھانی، ہری، فیروزی، آسمانی، نیلی، سرمئی اور کالی دوسری طرف۔ شہربانو کانچ کی چوڑیاں اس وقت پہنتی تھیں جب انھیں بن ٹھن کے کسی دعوت میں جانا ہو۔ ورنہ ہر صبح موتیا کی تازی کلیاں ہی ان کی اکلوتی سجاوٹ تھی جو سوتے وقت پانی کی کٹوری میں بستر کے پاس رکھی جاتی تھیں تاکہ موتیا کی بھینی بھینی خوشبو کمرے میں بسی رہے۔
شہربانو نے اپنی بیٹی کو گودی میں سنبھالا اور اس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگیں۔ ’’نوبی، اس سال تمھارے اسکول کی چھٹی ذرا جلدی ہو گی۔‘‘ نوبیہ کی مختصر سی زندگی کے ایک ہی دن میں یہ دوسرا جھٹکا تھا۔ اس نے خط اٹھایا اور ماں کو پکڑایا کہ آپ اپنے منھ سے سنایئے۔ شہربانو نے خط کھولا۔ ’’عزیز میجر اور بیگم انصاری، بہت افسوس کے ساتھ مجھے آپ کو یہ اطلاع دینی پڑ رہی ہےکہ اس سال فارم ویو سردیوں کی چھٹیوں کے لیے ایک مہینے پہلے بند ہو گا۔ اسکول کا آخری دن نومبر کی دوسری تاریخ ہے۔ میں نے یہ فیصلہ بگڑتے حالات میں بچوں اور اساتذہ کے تحفظ کو مدنظر رکھ کر کیا ہے۔ حالات سدھرنے پر میں فارم ویو کو جلدازجلد کھولنے کی امید رکھتی ہوں۔ شکریہ۔ میڈم شوما چودھری، پرنسپل فارم ویوانٹرنیشنل اسکول، ڈھاکہ۔‘‘
نوبیہ کے دل و دماغ میں ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ اس نے اپنی ماں کو ھنجھوڑا۔ ’’حالات؟ کیسے حالات؟‘‘ شہربانو نے اسے ٹالنے کی کوشش کی لیکن نوبیہ بہت ضدی لڑکی تھی، اپنی من مانی پہ تلی توزمین اورآسمان کی کوئی طاقت اسے ہلا نہیں سکتی تھی۔ آخرکار شکست کھا کے شہربانو نےاسے ادھوراسا سچ بتایا کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو ’مکتی باہنی‘ یعنی آزادی کے لیے لڑنے والے کہتے ہیں۔ وہ مشرقی پاکستان کو ایک الگ ملک بنانا چاہتے ہیں۔
’’لیکن کیوں؟یہاں تو سب اتنے خوش ہیں۔‘‘ نوبیہ نے اپنے اردگرد کبھی کوئی اختلاف نہیں دیکھا تھا، اور اسے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کوئی اس ہری بھری جنت میں اداس کیسے ہو سکتا ہے۔
’’تم ابھی چھوٹی ہو، نہیں سمجھو گی۔ یہ اتنی آسان بات نہیں ہے بیٹی۔‘‘
’’لیکن ہمارا کیا ہو گا؟ میں نہیں جاؤں گی! ہم اس نئے ملک میں کیوں نہیں رہ سکتے؟‘‘
’’نہیں میری جان، اگر نیا ملک بنا تو وہ صرف بنگالیوں کے لیے ہو گا اور ہم بنگالی تو نہیں ہیں۔‘‘
نوبیہ نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ بنگالی نہیں ہے۔ پانچ سال کی عمر سے بنگلہ کے کومل شبد اس کے کانوں میں پڑے اور اس کے من کو بھائے۔ وہ اکثر دروازے میں چپ چاپ کھڑی ہو کے اپنی ماں کے ریکارڈ سنتی تھی اور ان کی نقل کرتی تھی۔ نوبیہ کا ذہن ابھی ذات پات کے زہر سے ناواقف تھا۔ وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف ایک عقلمند لڑکی سمجھتی تھی جس کے خواب ولایت کی سیر اور رنگ برنگی ٹافیوں سے بھرے ہوے تھے۔ شہربانو نے اپنی اداس بیٹی کو پھر سے بہلانے کی کوشش کی۔
’’بیٹے، کبھی کبھی لوگوں میں جھگڑا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر کی کٹّی رہتی ہے اور بعد میں پھر سے دوستی ہو جاتی ہے۔ جیسے تم اور مینڈک…‘‘
’’مینڈک میرا دوست نہیں ہے!‘‘ نوبیہ نے غصے سے جواب دیا۔ ’’آپ ہی نے زبردستی مجھے اس کی گاڑی میں بٹھا کر اسکول بھیجا۔ ویسے بھی وہ ڈنمارک جا رہا ہے۔‘‘
’’ہم بھی ایک دن یہاں سے جائیں گے۔ تمھارے ابا کے دو سال پورے ہونے میں تھوڑا ہی وقت ہے۔ اور کچھ ہو نہ ہو، ہماری یہاں سے پوسٹنگ تو ہو ہی جائے گی۔‘‘
شہربانو کی تسلیاں نوبیہ کو بہلا نہ سکیں۔ آنسوؤں کا دبا ہوا سمندرایک سیلاب بن کر اس کی آنکھوں سے بہنے لگا۔ جب تک میجرانصاری گھرلوٹےتو شام کا سورج افق پہ نوبیہ کی روئی ہوئی آنکھوں جیسی لال لکیرکھینچ کے کنٹونمنٹ کے بنگلوں کو الوداع کہہ رہا تھا۔ نوبیہ اپنے باپ کا کب سے انتظار کر رہی تھی۔ باغ میں پھولوں کی کیاریوں کے کنارے تکونی اینٹوں سے بنے ہوے تھے جن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلسل چہل قدمی سے اس کے پیروں کے تلوے ایک جڑواں دل کی طرح دکھ رہے تھے۔
اس کے باپ نے نوبیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ ’’چلو بیٹے، ذرا ٹہلتے ہیں۔‘‘ نوبیہ کوبڑافخر تھا کہ اس کے باپ اسے بیٹی نہیں بیٹے کہہ کے پکارتے تھے۔ وہ اپنی ماں سے پیار کرتی تو تھی لیکن اپنے باپ سے خاص قربت کا رشتہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے ابا اس پر اعتبار کرتے تھے اور اس کی کمسنی کے باوجود اسے اپنا رازداں بنا چکے تھے۔ بنا کچھ کہے نوبیہ کو معلوم تھا کہ ان کی آپس کی باتیں کسی کو بتانا منع تھا۔ خاص طورپہ یہ کہ شام کو نوبیہ کے ساتھ ٹہلتے وقت وہ سگریٹ کی دھونکنی لگاتے تھے جبکہ امی سے جھوٹ بولاتھاکہ انھوں نے سگریٹ پینا چھوڑ دیا ہے۔ شام کے پلیٹ فارم پر اندھیری رات آہستہ آہستہ اپنا بوریابسترکھول رہی تھی۔ مچھروں کے منڈلاتے بادلوں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش میں باپ بیٹی تیز تیز چلنے لگے۔ نوبیہ کے ابا نے اسے منانے کے لیے کوئی الفاظ نہیں استعمال کیے، لیکن انھیں کچھ کہنے کی بھی ضرورت نہیں تھی، بس ہاتھ میں ہاتھ کافی تھا۔ سڑک کی ٹمٹماتی بتیاں ایک ایک کر کے جل اٹھیں اور ہر ایک روشنی پر کیڑے مکوڑوں اور پروانوں نے اپنا طواف شروع کر دیا۔ اس کے باپ نے طنزآمیز آواز میں بتی کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’’دیکھو بیٹے، یہ سائنس کا کمال ہے۔ پرانے زمانے میں پروانے جلتی ہوئی شمع میں دم توڑ دیتے تھے۔ ایسی موت مقدس تھی۔ اسے جنون کی انتہا مانا جاتا تھا۔‘‘
’’جنون کیا ہے؟‘‘ نوبیہ نے پوچھا۔
’’جنون ایک خاص عشق ہے، ایسا عشق جو بغیر سوچے سمجھے ہر چیز کو اپنی آگ میں لپیٹ لیتا ہے۔‘‘
نوبیہ نے آہ بھری۔ اس کے دل میں اچانک ایسے ہی عشق کی تمنا سلگنے لگی۔
’’جب سے بجلی کا بلب ایجاد ہوا ہے، کمبخت سبھی کیڑے جی رہے ہیں!‘‘ نوبیہ کے باپ نے اپنی سگریٹ بجلی کے کھمبے پر بجھائی اور سگریٹ کی بو بجھانے کے لیے پان کی گلوری منھ میں بھر لی۔
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد نوبیہ بولی، ’’کاش کہ بجلی کے بلب ایجاد ہی نہ ہوتے، یہ مچھر تو ہمیں نہیں کاٹتے۔‘‘
اس بات پہ اس کے ابا کے پان بھرے منھ سے ہنسی غرارے کی طرح نکلی۔ رات پھیل چکی تھی اور باپ بیٹی نے لوٹتے پنچھیوں کی طرح اپنے گھونسلے کی سمت رخ کیا۔ گھر میں شہربانو ان کا انتظار کر رہی تھیں۔ جیسے ہی وہ داخل ہوے، اس نے خانسامے کو پکارا: ’’میرحسن، کھانا لگا دو، اورجلدی پھلکے بناؤ۔‘‘ نوبیہ اپنی ماں کو بہلاپھسلا کے باورچی خانے میں گھس گئی۔ میرحسن دنیا کے سب سے تیز پھلکے بناتا تھا جو نوبیہ کے لیے کسی جادو سے کم نہیں تھے۔ اس کے دائیں ہاتھ پر لٹّیوں کا ڈھیر تھا جسے وہ چٹکی بھر میں بیل کرغبارے کی طرح پھلا دیتا تھا۔ جیسے ہی چارپانچ پھلکے تیار ہوے، نوبیہ واپس کھانے کی میز پر آئی۔ ابھی پھلکا اتنا تازہ تھا کہ اس کے توڑنے پر گرم بھاپ نوبیہ کی انگلیوں کو جلا رہی تھی، لیکن وہ بےپروا تھی کیونکہ آج اس کی پسندیدہ ہلسا مچھلی پکی تھی جو صبح ہی کنچن بازار سے لایا تھا۔ کھانے کے دوران میرحسن باورچی سے لگاتار تازے پھلکے لاتا رہا۔ جب بھی باورچی خانے کا دروازہ کھلتا تو نوبیہ کو زمین پربیٹھا ہوا کنچن ایک تھالی میں چاول اور مچھلی کے نوالے بنا بنا کر منھ میں ڈالتا نظر آتا تھا۔ اس نے کنچن کو کبھی ہلسا یا کسی اور مچھلی کو روٹی کے ساتھ کھاتے نہیں دیکھا تھا۔ اس کے بارے میں وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک اس فرق کی وجہ اس پر واضح ہو گئی۔
’’تو ہم کیا ہیں؟‘‘ نوبیہ کا سوال میز پر ایسے گونجا جیسے کسی نے کوئی برتن پھوڑ دیا ہو۔ شہربانو اور اکبر انصاری مایوس نگاہوں سے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر اپنی بیٹی کو دیکھنے لگے۔
’’ظاہر ہے ہم پاکستانی ہیں،‘‘ اس کے باپ نے فرضی جوش وخروش سے جواب دیا۔
’’نہیں، میرا مطلب ہے اگر ہم بنگالی نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟‘‘
ایک بہت لمبی خاموشی کے بعد شہربانو بولی، ’’ہم مہاجر ہیں۔‘‘
مہاجر… یہ نوبیہ کے لیےایک نیا لفظ تھا۔ ’’مہاجر، کیامطلب؟‘‘
’’مہاجریعنی وہ لوگ جو بٹوارے کے بعد ہندوستان سے پاکستان آئے۔‘‘
’’1947،مجھے اتنا تو پتا ہے!‘‘
’’بالکل صحیح! تمھارے ابا کا خاندان 1947 میں کراچی آیا اورمیں 1960 میں آئی۔‘‘
ایک دم اتنی ساری نئی معلومات کا ہضم کرنا نوبیہ کو تکلیف دینے لگا۔ وہ اپنے ذہن میں 1947 کو1960سے گھٹانے کی ناکام کوشش کے بعد بولی، ’’1960میں تو بہت بعد میں تھا نا؟ لیکن کیوں؟‘‘
’’اُف! میں تمھارے اس کیوں سےعاجز آ گئی ہوں۔ میں تمھاری خالہ کی شادی میں کراچی آئی تھی اور ولیمے میں تمھارے ابا نے مجھےدیکھا اور فوراً پیغام بھیج دیا۔ بس پھر کیا تھا، میں دلہن بن کے پاکستان آ گئی۔‘‘
’’تو کیا وہ جنون تھا جس عشق نے آپ اورابا کو آگ میں لپیٹ لیا؟‘‘
’’کیا کہا؟ بےشرم کہیں کی۔ عشق، چھی چھی چھی چھی! یہ تمھارے دماغ میں عشق کی بکواس کس نے بھری؟‘‘
نوبیہ نے اپنے باپ کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کی۔ کچھ دیر بعد اس کے ابا بولے:
’’تھوڑے دنوں کے لیے چھٹی پر چلتے ہیں۔‘‘
شہربانو حیران رہ گئیں۔ ’’ان حالات میں اور چھٹی! جانم، کیا یہ عقلمندی ہے؟‘‘
’’کنٹونمنٹ میں بیٹھنے سے تو بہت بہتر ہے۔ سردیوں کا موسم بھی اچھا ہے۔ تھوڑے دنوں میں بقرعید ہونے والی ہے۔ سندربن کی سیرصحت کے لیے بہت اچھی ہو گی۔ ‘‘
’’سندربن! ہم جنگل میں جائیں گے!‘‘ ابا کے اس ایک جملے نے پل ہی بھر میں نوبیہ کے سارے رنج وغم مٹا دیے۔
نوبیہ نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا ہجوم کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا کہ صدر گھاٹ پہ تھا، جہاں انھیں اپنا ’گول پِٹوا‘یعنی بھاپ سے چلنے والا پانی کاجہاز پکڑنا تھا۔ یہ جہاز ’راکٹ اسٹیم شپ‘ کہلائے جاتے تھے اور انگریزوں کے زمانے سےاب تک چل رہے تھے۔ امی ابا، انمول اور نوبیہ کے علاوہ ابا کا بیٹ مین باغل، نوبیہ کی آیا، میرحسن، کنچن اور حفاظت کے لیے چند سپاہی ان کے گروہ میں تھے۔ کل ملا کے تیرہ لوگ تھے، لیکن گول پٹوا کی اوپروالی منزل نسبتاً خالی اور کھلی تھی۔ یہاں سے نوبیہ کو دریا اورگھاٹ دونوں کا بڑاعمدہ نظارہ میسرتھا۔ یہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمدورفت بھی ایک دریا کی مانند تھی جس کی آنے اورجانے والی لہروں میں مسلسل تناؤ اور تصادم جاری تھا۔ آنے والی لہروں پر قلی اوررکشہ والے حملہ آور تھےاور جانے والی لہروں پر ناریل، کیلے، سموسے، چائے اوراخبار بیچنے والے مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے تھے۔
ڈھاکہ سے کھلنا کا سفر بوڑھی گنگا پر شروع ہوتا تھا جس کے پانی پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پتلی کمر والی ناؤ سے لے کر، دنگی، سامپان، بالم، تیڑھی بالم، جالی، گھاسی، جونگ، گچھری… بوڑھی گنگا کی ابرآلود لہروں پرہرقسم کے جہازتیر رہے تھے، لیکن سب سے زیادہ تعداد تین منزلہ راکٹ جہازوں کی تھی۔ جب ڈھلتا سورج روشنی کو سفید سے آیا کی میلی گلابی ساڑھی جیسا رنگ رہا تھا تبھی گول پٹوا لمبی بھونپ دے کر چلنے لگا۔ بہت دیر تک نوبیہ اوپروالی منزل سے دریا اور ساحل کے نظارے پیتی گئی۔ وہ صرف اس وقت نیچے آئی جب بوڑھی گنگا رات کا کالا آنچل اپنی لہروں پر ڈال کر سونے لگی۔
اگلے دن بوڑھی گنگا اپنےشوروغل سمیت غائب ہو چکی تھی۔ اس کی جگہ میگھنا کے شانت اور چکنے پانی کا پلّو پھیلا ہوا تھا جس کا عرض اتنا وسیع تھا کہ دوسرا کنارہ دیکھنا مشکل تھا۔ اگر دکھا بھی تو صبح کے کہرے اور جل کنڈی کے ہزاروں پھولوں کی کامدانی کے پیچھے چھپا ہوا۔ گول پٹوا نےکھلنا کے گھاٹ پہ لنگر ڈالا تاکہ وہ یہاں سے چھوٹی کشتیاں لے کر سندربن کی سیرکو نکلیں۔ کنچن کو کشتیوں کا بندوبست کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ دو پتلی ناؤوں کے ساتھ واپس آیا جن کے آگے اور پیچھے دونوں سروں پر مانجھی تھے۔ جب وہ چلنے کی تیاری کرنے لگے تونوبیہ نے دیکھا کہ دال بھات، ترکاری اور کیلے کی چاٹ سمیت جوٹ کی خالی ٹوکریاں بھی لد رہی ہیں۔ اس نے آیا سے پوچھا کہ خالی ٹوکریاں کیوں لے رہے ہیں؟ تو آیا نے بتایا کہ باغل نے اسے بولا تھا کہ صاحب نے سندربن سے کچھ پودوں کے نمونے اکٹھا کرنے تھے۔ اب نوبیہ کی سمجھ میں آیا کہ ان بگڑتے حالات میں سندربن جانا اتنا ضروری کیوں تھا۔ اس کے باپ کو باغبانی کا بےحد شوق تھا اور سندربن کے جنگلوں سے پودں کے نایاب نمونے حاصل کرنے کا یہ آخری موقع تھا۔ اور یہ بھی واضح ہوا کہ کنچن کو کیوں لایا گیا تھا؛ کیونکہ اس کا گاؤں اسی علاقے میں تھا اور اس کا روایتی پیشہ قیمتی جنگلی شہد کھوجنا اور بیچنا تھا۔ یہ کام نہایت ہی خطرناک تھا کیونکہ سندربن کے سدابہار جنگلوں میں خونخوار شیر بستے تھے جو آدمی کو چٹکی میں نوالہ بنا سکتے تھے۔ کشتی میں میجر انصاری کے بغل میں بیٹھا کنچن سندری، کیوڑے اور گورن کے پیڑوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا، جو منگروز کی جھاڑیوں کے بیچ بیچ میں اگ رہے تھے۔ خزاں کا موسم شیولی کے پھولوں کا تھا جن کی مہک بہت مشہور تھی۔
کنچن نےنوبیہ کو دکھایا کہ کچھ جنگلی جانور اپنا شکار اکثر آنکھ کے فریب سے کرتے ہیں۔ مثلاً مگرمچھ پانی میں پڑا ہوا درخت کا تنا بن کے اپنے بےخبر شکار کو جھپٹ لیتا ہے۔اس کے بعکس کچھ ایسے شکاری ہیں، جیسے بگلا، جو چھپنے کی کوشش نہیں کرتے البتہ اپنے شکار کو دھیان کی مہارت سے پکڑتے ہیں۔ جنگل میں نوبیہ کا پسندیدہ پنچھی نارنجی اور نیلے رنگ کی رام چڑیا تھی جس کی جھلک کسی رنگین بجلی کی طرح چمکتی تھی۔ کبھی کبھار دریا کے کنارے پر وہ کسی چھوٹی سی درگاہ سے گزرتے تھے۔ کنچن نے انھیں سمجھایا کہ بون بی بی اور اس کے جنگل شاہ یعنی شیر کی درگاہیں ہیں، جن پر ہندواور مسلمان دونوں ہی پھول چڑھاتے ہیں۔ وہ چاہے کسی بھی مذہب سے ہوں، سندربن میں بسنے والوں کے لیے شیر ایک قدیم اور طاقتور خدا کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کی ناؤ کے علاوہ ان تنگ آبی گزرگاہوں میں صرف کھورو کشتیاں ہی چلتی تھیں جو سندربن سے شہد، لکڑی، بھوسہ اور دیگر مال ڈھاکہ لے جاتی تھیں۔ ان کشتیوں کے مانجھی کبھی پال اور کبھی چاپ سنبھالے سریلی بھٹیالی دھن گاتے ہوے نوبیا کی نظروں سے ایسے گزرے جیسے کوئی انمول سپنا۔ بھٹیالی بھویوں کے گانے ابھی نوبیہ کے کانوں میں گونج ہی رہے تھے کہ ان کی ناؤ واپس گول پٹوا کی طرف جانے لگی۔ نوبیا کے ابا گینوا کے دلکش پھول پانے کے لیے بیتاب تھے جن کی کھوج میں وہ ابھی تک ناکام رہے تھے۔ لیکن کنچن اورناؤ کے دونوں مانجھیوں نے لوٹنے پر اصرار کیا کہ شام کو سندربن کے شیر شکار کی تلاش میں نکلتے ہیں۔
اگلے دن بقرعید تھی اور جوان قربانی کی التجا کر رہے تھے۔ میجر انصاری اس علاقے کے مشہور چیتل ہرن کو مارنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے جوانوں کو سمجھانے کی کوشش کی، ’’یہ جنگلی جانور ہے، کوئی بکرا نہیں جو ایسے ذبح ہو جائے گا۔‘‘
’’نہیں سر جی… سر جی…‘‘ سارے سپاہی ایک ساتھ منتیں کرنے لگے۔ ’’بقرعید ہے، قربانی تو فرض ہے، آپ کیسے انکار کر سکتے ہیں!‘‘
آخرکار میجر انصاری مان گئے اور وہ دونوں کشتیاں لے کر ہرن کی تلاش کو نکل گئے۔ گھنٹے گزرتے گئے، وہ گھنے گہرے جنگل کی تنگ آب راہوں میں گھستے گئے۔ جب دوپہر کے سائے لمبے ہونے لگے تو کنچن گھبرانے لگا۔ ’’صاحب، امی لوٹنا چائی، امی ڈر لگے، شام کو شیرآئے…‘‘ لیکن دوسری طرف سے سپاہی قربانی پہ تلے ہوے تھے اور بیچارے کنچن کی کسی نے نہیں سنی۔ اتفاق سے ایک ہرنی اپنے بچھڑے کے ساتھ کنارے پہ پانی پینے آئی۔ میجر انصاری نے ہرنی کا نشانہ لیا لیکن گولی بچھڑے کو لگی، جس کی مظلوم پکار نے نوبیہ کا دل چھلنی کر دیا۔ ننھے ہرن کے خون سے دریا کے کنارے پر لالی پھیلنے لگی۔
نوبیہ کی نگاہیں اس دردناک نظارے کو دیکھنا نہیں چاہتی تھیں لیکن پھر بھی وہ خون سے لت پت ہرن پر منجمد رہیں۔ سپاہی ’’اللہ اکبر!‘‘کے نعرے لگانے لگے۔ آگے والی ناؤ دوجوانوں سمیت مرے ہوے ہرن کی طرف دوڑنے لگی۔ ابھی وہ کنارے پہنچ کر کشتی سے اتر کے ہرن کو ناؤ میں ڈالنے ہی والے تھےکہ جنگل کی گہرائیوں سے خوفناک شیر نکل کے ان کی طرف گرجنے لگا۔ سپاہیوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ وہ چیختے چلاتے واپس ناؤ میں کودے اور مانجھیوں نے اسے تیزی سے نکالا۔ شیر ہرن کے بچے کو اپنے منھ میں دبوچ کر واپس جنگل کے گھونگھٹ کی اوٹ میں لے گیا۔
نوبیہ کے دل میں ہلچل مچی تھی۔ شیر کا جلال اورہرن کے بچے کا ہلاک ہونا، اوریہ کھرا سچ کہ ہرن کے بچے کو مارنے والی گولی اس کے ابا نے ہی چلائی۔ یہ آنکھوں دیکھی بات نوبیہ کے ذہن میں سنیما کی ریل کی طرح باربار دہرائی جا رہی تھی۔ اس کے ابا جلاد نہیں تھے لیکن انھوں نے جلادوں جیسا کام کیا تھا، اور وہ بھی محض کسی رسم و رواج کو نبھانے کے لیے۔ انھوں نے انکار کیوں نہیں کیا؟ نوبیہ اپنے باپ سے زندگی بھر پیار کرتی رہی، لیکن اُس دن کے بعد اس نے ان کی اندھی پرستش کرنی چھوڑ دی۔
ان کی سندربن سے واپسی پر تین ہفتےگزر چکے تھے۔ نوبیہ کا اسکول بند تھا۔ آئے دن کنچن، میرحسن اورآیا کے ہونٹو ں پرلوٹ مار، جھگڑوں اوردیگر گھٹناؤں کی خبریں سنائی دیتی تھیں۔ لیکن نوبیہ کے اندرکچھ سن ہو گیا تھا، جیسے کوئی بھی حادثہ اُس دن کی آنکھوں دیکھی واردات سے زیادہ خوفناک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ حالات بہت بگڑ چکے تھے اور میجر انصاری کی پوسٹنگ کی کوئی خبرنہیں تھی۔
ایک صبح ناشتے پہ نوبیہ سہمی ہوئی بنا کسی نخرے چپ چاپ دودھ پی رہی تھی۔ شہربانو نے پریشان لہجے میں اپنے میاں سے پوچھا، ’’جانم، ہم یہاں سے کب نکلیں گے؟‘‘
’’میں تمھیں اور بچوں کو اگلے ہوائی جہاز سے کراچی بھیج رہا ہوں۔ وہ پرسوں روانہ ہو گا۔‘‘
شہربانو کے چہرے سے سارا رنگ اتر گیا۔ ’’لیکن تمھاری پوسٹنگ؟‘‘
اس کے ابا کی آواز پتھر کی طرح ٹھنڈی تھی۔’’میری پوسٹنگ کینسل ہو گئی ہے، کیونکہ میری جگہ لینے والے افسر نے ڈھاکہ آنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘
نوبیہ کی ماں نے بہت منت کی لیکن میجرانصاری مجبور تھے۔ چنانچہ اگلے اڑتالیس گھنٹے گھر کا سامان سمیٹنے میں گزرے۔ گھبرائی ہوئی شہربانو کبھی کسی چیز کو لے جانے کے لیے بولتی تھی تو دومنٹ بعد اسے چھوڑنے کے لیے کہتی تھی۔ اسی افراتفری کی حالت میں آدھی رات کو وہ، نوبیہ اورانمول C130 کے ملٹری جہاز پر کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔
16 دسمبر 1971 کو پاکستانی فوج نے مکتی باہنی اور ہندوستانی آرمی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ مشرقی پاکستان کی موت کے ساتھ نوبیہ کے سر سے اس کی ہری ہری جنت کا سایہ ہٹ گیا۔ سلہٹ کی چودھویں ڈویژن اپنے کمانڈر میجر اکبر انصاری کے سمیت گرفتار ہو کے جنگی قیدی بن گئی۔ افسروں اور جوانوں کے قیدخانے الگ تھے۔ جوانوں کو کانپور بھیج دیا گیا اور افسروں کو بریلی۔ سب سے افسوسناک بات تو یہ تھی کہ ان کی قید کے دوران میجرانصاری اپنے پیدائشی شہر یعنی لکھنؤ سے صرف سومیل کے فاصلے پر رہے۔ نوبیہ اپنے باپ سے تین لمبے سالوں بعد ملی، لیکن سندربن کے سدابہار جنگل اوران کے خونخوارشیروں کا نظارہ اسے زندگی میں پھر کبھی نہیں ملا۔
Sundarban ki akhri s’er: Unsettling journey, uncertain destination
Ajmal Kamal does it again, by introducing a mature new voice to the readers of Urdu literature in a recent issue of Aaj. The short story ‘Sundarban ki akhri s’er’ by Sofia Naz is a poignant effort at recasting the tragedy and horror inflicted on the Bengalis by the army rulers of West Pakistan, with the connivance of other state institutions.