روشنائی -(3) تحریک کا فکری و تہذیبی پس منظر – سجاد ظہیر
ترقی پسند مصنّفین کی تنظیمی شکل و صورت اور کام کرنے کے طریقوں کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں پہلے سے کوئی بنا بنایا خاکہ نہیں تھا۔ اس کے متعلق مختلف لوگ مختلف طریقوں سے سوچتے تھے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جگہ جگہ پر انجمن کی شاخیں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انجمن کا ایک کل ہند مرکز ہو، یا زیادہ سے زیادہ صوبائی مرکز ہوں، اور اَدیب اور مصنف اس کے براہ راست ممبر بنیں۔ ان لوگوں کے خیال میں انجمن کی طرف سے ہر جگہ پر جلسے کرنا یا کانفرنسیں منعقد کرنا غیر ضروری تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کام سنجیدہ ادیبوں کے شایان شان نہیں۔ جلسوں اور کانفرنسوں میں انھیں سیاسی ہیجان اور پروپیگنڈہ بازی کی بو آتی تھی اور وہ انجمن کو اس سے بچانا چاہتے تھے۔ پیشہ ور ریاکار لیڈروں اور نعرہ باز سیاسی کارکنوں سے لوگ اس وقت بھی تنگ آچکے تھے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد (1919) سے لے کر اس وقت تک (1935) ہمارے ملک میں بڑی بڑی سیاسی آندھیاں آئی تھیں۔ نان کو آپریشن اور خلافت کی تحریک، کانگریس کی دو سول نافرمانی کی تحریکیں، دہشت پسند نوجوانوں کی انقلابی تحریکیں، فرقہ پرست ہندوئوں اور مسلمانوں کی رجعتی زہرافشانیاں… اور ان سب کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ عام لوگوں کی نظروں میں یہ سب ناکامیاں تھیں۔ اس لیے کہ انگریزی سامراج پہلے کی طرح پوری فرعونیت کے ساتھ ہمارے سروں پر مسلط تھا۔ ظلم، بھوک، اور جہالت کے سائے اب بھی ملک پر چھائے ہوئے تھے۔ تقریر بازی کے لیے ایک اور نیا پلیٹ فارم بنانا، کہیں ٹھوس کام سے بچنے کا ایک بہانا، اور ترقی پسند ادب کے نئے نام پر خود کو سستی جذباتی تسکین دینے کا ایک اچھوتا طریقہ تو نہیں تھا؟ اگر ادیبوں کا خاص کام ادب کی تخلیق، پڑھنا اور لکھنا ہے تو پھر انھیں جلسوں اور کانفرنسوں پر اپنا وقت ضائع نہ کرنا چاہیے۔ شروع شروع میں منشی پریم چند کا یہی خیال تھا اور غالباً مولوی عبدالحق صاحب بھی یوں ہی سوچتے تھے۔ لیکن حالات و واقعات نے ہمیں ان خیالات میں ترمیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ 1935-36 کے قریب کا زمانہ ہمارے ملک کے نوجوانوں، دانشوروں کے لیے بہت بڑی ذہنی چھان بین، کھوج، تبدیلیوں اور زندگی کی نئی راہیں دریافت کرنے کا زمانہ تھا۔ اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ہمارے ملک میں دانشوروں میں دو قسم کے نظریے پھیلے ہوئے تھے۔ ایک مذہبی اور تہذیبی احیائیت کے تصورات اور دوسرے مغربی، خاص طور پر انگریزی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خیالات۔ مدارج اور لہجے کے فرق کے باوجود ہمارے ملک کے اکثر مصلحین اس خیال کی ترویج کرتے تھے کہ اگر ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو اس میں ہمیں ایسی اقدار ملیں گی جنھیں صحیح طریقے سے سمجھ کر قبول کرکے اور ان کے مطابق عمل کرکے ہم اپنی موجودہ قومی، سماجی اور انفرادی گراوٹ کو ختم کر سکتے ہیں اور دنیا میں دوبارہ سر بلند ہو سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہمارے زوال اور مغربی سامراج کی کامیابی کا سبب یہ تھا کہ ہم نے، خاص طور پر ہمارے آخری دور کے حکمران بادشاہوں اور اُمرا نے، قدیم اقدار کو بالکل بھلا دیا تھا۔ وہ عیش پرستی، آرام طلبی، اور خود غرضی کا شکار ہو گئے تھے، اور یہ وبائیں عام ہو گئیں تھیں۔ خداترسی، سادگی، انصاف، سچائی، اخوت اور مساوات کی اقدار کو… جو ہمارے بزرگوں کی عظمت کا بنیادی سبب تھیں، دوبارہ زندہ کرنے اور پھیلانے کا طریقہ کیا تھا؟ اس سوال کا جواب دو طریقوں سے دیا جاتا تھا… اصلاح اور تعلیم۔ یعنی اول تو ہم اپنے مذہبی عقائد اور سماجی رسوم میں ایسی اصلاح کریں جو مغرب کے جدید خیالات کی روشنی میں دقیانوسی اور بعید از عقل معلوم نہ ہوں۔ ہمارے مصلحین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’’اصل‘‘ اور ’’حقیقی‘‘ مذہب وہ نہیں ہے، جو عام لوگوں میں رائج ہے بلکہ کچھ اور ہے۔ جاگیری عہد کی زیادہ پیچیدہ اور مادی اعتبار سے زیادہ بھری زندگی کے مقابلے میں انھوں نے قبائلی یا ان چھوٹے چھوٹے شہروں کی زندگی کا نقشہ پیش کیا جن میں تجارت، گلہ بانی، دستکاری اور چھوٹی زمینداریوں کی مادی اعتبار سے قلانچ، لیکن زیادہ مساوی زندگی کا رواج تھا۔ مسلمانوں میں اسلامی تاریخ کے پہلے تیس چالیس سال کا زمانہ اور ہندوئوں میں آریہ قبائل کے ویدوں کا دَور عہدِ زریں کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ اگر ایک طرف اپنے عقائد اور اپنے ماضی کی تاریخ کو اس نئے طریقے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی تو دوسری طرف اس بات پر بھی زور دیا جاتا تھا کہ ہم انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں جدید تعلیم حاصل کریں۔ مذہبی احیا پر زور دینے والے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ گزرتے تھے کہ مغربی قوموں کی ترقی کا سبب یہ ہے کہ ’’ان میں وہ تمام خصوصیات ہیں جو مسلمانوں میں ہونی چاہئیں۔ اسی لیے وہ سربلند ہیں اور مسلمانوں میں وہ خصلتیں آگئی ہیں جو دراصل کافروں کی ہیں۔‘‘ (جمال الدین افغانی)۔ سر سید احمد خاں نے اگرچہ یہ الفاظ استعمال نہیں کیے، لیکن ان کی ساری تحریک کا منشا بالکل یہی ہے۔ ہندستان کے ہر ایک حصے میں اُنیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کا شروع کم و بیش اسی نوع کی اصلاحی، احیائی اور تعلیمی تحریکوں کا زمانہ تھا۔ شمالی ہندستان میں ہندوئوں میں آریہ سماج اور برہمو سماج کی تحریکیں، مسلمانوں میں علی گڑھ کی تحریک، مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، انجمن حمایت اسلام (پنجاب)، اور ان سے منسلک اُردو اور ہندی کی تحریکیں۔ (انجمن ترقی اُردو، ناگری پرچارنی سبھا) ان ہی رجحانات کی ترجمانی کرتی تھیں۔ جدید اُردو اور ہندی نثر اور نظم ان ہی اصلاحی، احیائی اور تعلیمی تحریکوں سے متاثر تھی اور ان ہی کی پیداوار تھی۔ حالی کا مسدّس، سر سید احمد خاں اور ان کے ساتھیوں کے تہذیب الاخلاق کے مضامین، نذیر احمد کے اور رتن ناتھ سرشار کے ناول، آزاد کی ’’نیچرل شاعری‘‘ اُردو میں، اور میتھلی شرن گپت کی ’’بھارت بھارتی‘‘ اور ہریش چندر بھارتیندو کے ڈرامے اور مضامین ہندی میں ایک ہی قسم کی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔ ان میں اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ قدیم اور گمشدہ عہد زریں کو کسی نہ کسی طرح دوبارہ زندہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن جب عملی طور سے اس پُرانی دنیا کو موجودہ زمانے میں دوبارہ تعمیر کرنے کا سوال پیدا ہوتا تھا تو اس کے لیے جدید انگریزی وضع کے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم اور انگریز حکمرانوں کی ’’خوبیوں‘‘ کو حاصل کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے مصلحین کو ان باتوں میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا تھا۔ اکبر الہ آبادی انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کی سطحیت، چھچھورے پن اور ان کے جدید خیالات کا مذاق اُڑاتے تھے۔ وہ اس بات کا رونا روتے تھے کہ نوجوان مذہبی عقائد اور رسوم کو چھوڑتے جاتے ہیں اور انگریزوں کی احمقانہ نقالی کرتے ہیں۔ وہ سرسید احمد خاں کی تعلیمی تحریک کو نقصان دہ سمجھتے تھے۔ لیکن انھوں نے خود اپنے اکلوتے بیٹے عشرت حسین کو تعلیم کے لیے انگلستان بھیجنے سے درگزر نہیں کیا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ قصر دریا میں تختہ بند ہونے سے ’’تردامنی‘‘ لازمی ہے۔ ہوتی ہے تاکید لندن جائو انگریزی پڑھو قومِ انگلش سے ملو، سیکھو وہی وضع و تراش اس نظم کو اس شعر پر ختم کیا ہے اُدھر مسلمانوں میں شبلی، مولانا ابوالکلام آزاد، ظفر علی خاں وغیرہ اسلامی تخیلات کی بنا پر مسلمانوں کو محض تعلیمی اور سماجی اصلاح کی منزل سے آگے بڑھا کر وطنی آزادی کی سامراج دشمن جدوجہد کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن آزادی کے نصب العین کو متعین کرنے کا جب سوال آتا تھا تو اصلاح پسند اور انتہا پسند گروہوں کے ذہنوں میں برطانوی پارلیمنٹری طرزِ حکومت اور مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کا خاکہ سامنے آجاتا تھا۔ یہ تہذیبی اور سیاسی نظریے دنیا، اور خاص طور پر ایشیا کے ملکوں میں مغربی سامراجی ملکوں کے سیاسی غلبے اور معاشی استحصال اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ تھے۔ ان نظریوں اور خیالات کی مختلف شکل و صورت کا تعین ہر ملک یا گروہ کی تاریخی روایات نے کیا۔ جب تک ہمارے یہاں جاگیری نظام، بادشاہتیں، نوابیاں بلا شرکتِ غیر قائم تھیں، اور مغربی تاجروں نے ہماری سیاست اور معیشت کو اندر سے کھوکھلا کرنا شروع نہیں کیا تھا، جب تک انگریزی سامراج کے غلبے سے ملک کی معیشت اور معاشرت میں بنیادی تبدیلیاں نہیں ہوئی تھیں، جب تک ملک میں نئے انگریزی تعلیم یافتہ گروہ، روشن خیال زمیندار، مغربی ملکوں کے ساتھ تجارت کرنے والے دیسی تاجر اور دیسی سرمایہ دار طبقوں کا وجود نہیں ہوا تھا اور نوابوں، راجائوں وغیرہ کے جاگیری طبقے کو فرنگی سامراجیوں کے ہاتھوں شکست نہیں ہوئی تھی، اس وقت تک کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی اور کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ مطلق العنانی یابادشاہت کوئی بُری چیز ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی سیاسی یا معاشی نظام ممکن ہے۔ ان مادی تبدیلیوں کے بعد ہی درمیانہ طبقہ کے دانشوروں کو خلافتِ راشدہ یا ویدوں کے عہد میں جمہوریت کا جوہر دکھائی دینے لگا تھا۔ یکایک ان پر یہ انکشاف ہوا کہ مطلق العنانی بُری چیز ہے اور ہماری صدیوں سال کی بادشاہتوں کی تاریخ دین اور دھرم کے سچے راستے سے ایک افسوسناک کجروی کی داستان ہے۔ خیالات، نظریے اور عقیدے انسانوں کے دماغ میں نہ خود رو ہوتے ہیں اور نہ آسمانوں سے نازل ہوتے ہیں۔مادی حالات زندگی یعنی وہ وسیلے اور طریقے، وہ آلات اور ذرائع پیداوار اور رسل و رسائل، جنھیں استعمال کرکے انسانوں کے گروہ اپنے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے وسائل حاصل کرتے ہیں، انسانی معاشرے کی شکل و صورت متعین کرتے ہیں۔ انسانی معاشرہ یا سماج کیا ہے؟ مختلف طبقے اور ان کے باہمی رشتے۔ لیکن یہ طبقے اور رشتے خود مادی حالات زندگی سے پیدا ہوتے اور مٹتے، بنتے، بگڑتے اور بدلتے رہتے ہیں۔ خیالات، نظریے، فلسفیانہ تصورات و عقائد، انسان کے ذہن میں اس کے مادی حالات زندگی اور اس کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اجتماعی رشتوں اور مختلف قسم کے (سیاسی، مذہبی، تہذیبی وغیرہ) اجتماعی سماجی عمل اور ان سے پیدا ہونے والی زندگی کے عکس ہیں۔ ان خیالات اور نظریوں سے مدد لے کر انسان پھر اپنی معاشرت کو سمجھتے ہیں، اس کا علم حاصل کرتے ہیں، اسے استوار کرتے ہیں، اسے حسین یا قابل برداشت بناتے ہیں، یا اس کا جواز پیش کرتے ہیں۔ جیسی کسی معاشرے یا سماج کی شکل ہوگی ویسے ہی اس کے خیالات، نظریے اور عقائد ہوںگے۔ جیسا رہن سہن ہوگا،ویسی ہی سوچ ہوگی۔ قدیم قبائلی گروہوں کے عقائد اور غلامی کے دور کے نظریے جاگیری دور کے نظریے، جدید سرمایہ دارانہ تصورات اور اشتراکی نظام کے تصورات، مختلف مادی حالاتِ زندگی، مختلف معاشروں کے تصورات ہونے کی وجہ سے مختلف ہیں۔ لیکن جب سماج میں تبدیلی آتی ہے یعنی نئے وسائل اور آلات پیداوار اور ذرائع رسل و رسائل کی دریافت اور استعمال کی وجہ سے پیداواری طریقے بدلتے ہیں تو پھر نئے آلات، ذرائع و رسائل کے ساتھ ساتھ نئے طبقے وجود میں آتے ہیں۔ نئے آلات و وسائلِ پیداوار اور انھیں استعمال کرنے والے انسانوں کا تخلیقی ہنر دونوں مل کر سماج کی پیداواری قوتیں ہوتے ہیں۔ ان نئی پیداواری قوتوں کی مطابقت سے سماجی رشتوں یا سماج کی شکل میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ لیکن پیداواری قوتوں کے مطابق سماجی رشتوں کے قائم ہونے کا عمل یعنی نئے معاشرے یا سماج کی تشکیل نہیں ہوتی۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سماج میں نئے پیداواری ذرائع اور طریقے رائج ہو جانے کے بعد بھی پُرانے سماجی رشتے (جو پُرانے پیداواری طریقوں کے مطابق تھے) اور ان کے تصورات کافی دیر تک برقرار رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں سماج میں بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نئی پیداواری قوتیں متقاضی ہوتی ہیں کہ ان کی پوری ترقی اور نشونما کے لیے ایسے نئے سماجی رشتے قائم ہوں، جو اُن کے مطابق ہوں جن رشتوں کی مدد سے ان نئی قوتوں کو بڑھنے کا پورا موقع ملے۔ ایسی صورت میں پُرانے سماج کے رشتوں سے، جو دراصل اپنی طبیعی یا مفید زندگی کے دن پورے کر چکے ہیں، ان قوتوں کا تصادم ہوتا ہے، جن کو پُرانے سماج کے اندر ہی اندر نئے پیداواری ذرائع اور وسائل کے استعمال نے جنم دیا ہے۔ یہ تصادم صرف معاشی اور سیاسی میدان میں ہی نہیں ہوتا بلکہ خیالات، فلسفوں اور عقائد کی دنیا میں بھی ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ مختلف خیالات اور نظریے انسان کے شعور میں اسی اختلاف اور تصادم کا اظہار کرتے ہیں۔ پُرانے سماج کے تصورات اور عقائد ان طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو ان پُرانے سماجی رشتوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جن کے قائم رہنے سے نئی مادی قوتوں کی ترقی رکتی ہے۔ اس لیے ایسے خیالات وہ ہیں جو سماج کی اس نئی تشکیل کا اظہار کرتے ہیں جن کی نئی پیداواری قوتیں متقاضی ہیں یعنی جو معاشرتی تشکیل انسانوں کو زیادہ سے زیادہ ممکن ترقی کا موقع دے۔ تاریخی عمل کو اس طرح دیکھنے اور سمجھنے سے بعض نہایت اہم نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ انسانی معاشرہ کی شکل و صورت اور ہیئت میں تبدیلی کا بنیادی سبب آلات اور اوزارِ پیداوار (جن میں ذرائع رسل و رسائل و آمد و رفت بھی شامل ہیں) میں تبدیلی ہے اور انسانوں نے قدیم اشتراکی، غلامی، جاگیرداری، سرمایہ داری، اور جدید اشتراکی سماج، ان تبدیلیوں کی وجہ سے اور ان کے مطابق قائم کیا ہے، تو پھر یہ صاف ظاہر ہے کہ سماج میں تبدیلی کی اہم ترین قوت، وہ محنت کش انسان ہیں جن کے پیداواری تجربے اور ہنر اور نئے اور تبدیل شدہ آلات کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے یہ تبدیلیاں عمل میں آئیں اور انسانوں کا بتدریج پستی سے بلندی کی طرف ارتقا ہوا۔ اس لیے تاریخی ارتقا فی الحقیقت، فوجی پیشوائوں، سرداروں، بادشاہوں، بڑے آدمیوں، مافوق الفطرت رہبروں کے کارناموں کی سرگزشت نہیں بلکہ محنت کش انسانوں کے اس اجتماعی عمل کی سرگزشت ہے جو وہ سماج کے لیے مادی اقدار پیدا کرنے کے سلسلہ میں کرتے ہیں۔ انسانوں کا یہی اجتماعی عمل، ہنر، فن اور تجربہ، انسانی دماغ اور ذہن میں سماج کی مادی زندگی اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی رشتوں کے تجربوں اور عمل کا عکس اور نتیجہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مادی پیداواری عمل اور اس کا تجربہ انسان کے علم کی بنیاد ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ صرف پیداواری عمل کے ذریعے سے ہی انسانوں کو ہر قسم کا علم ہوتا ہے، ان کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پیداواری اجتماعی عمل کی بنیاد پر جو معاشرہ قائم ہوتا ہے اور اس طرح انسانوں کے جو مختلف طبقے وجود میں آتے ہیں اور ان میں جو باہمی رشتے اور تعلقات ہوتے ہیں (یعنی جو مختلف اقسام کے اجتماعی عمل اور تعلقات اس مادی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں) ان تمام سے اجتماعی طور پر پھر انسان کے شعور اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی اور سماجی عمل انسانوں کی سیاست، ان کی طبقاتی جدوجہد، ان کے فنون لطیفہ اور سائنس یعنی کلچر کے مختلف مظاہر کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس قسم کے سماجی عمل اور تعلقات کی بنیاد گو مادی ہے، لیکن خود مادی نہیں کہے جاسکتے۔ اس طرح انسانی علم اور شعور اس تمام مادی اور غیرمادی اجتماعی عمل اور تجربے سے پیدا ہوتا ہے۔ نئے خیالات اور تصورات کے وجود میں آنے کا سبب یہ ہے کہ سماج کے مادی حالات اور ان سے پیدا ہونے والے رشتوں، تقاضوں اور تصادموں یعنی ارتقا کے تقاضوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ان مادی خیالات سے پیدا ہونے کے بعد خیال، تصور، نظریہ، خود ایک بڑی قوت بن جاتا ہے۔ ترقی پسند نظریے انسانوں کے دماغوں میں جاگزیں ہو کر انھیں متحرک کرتے ہیں، منظم کرتے ہیں، آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ نظریہ جو کہ ایک خاص زمانے اور جگہ میں انسانی سماج کے ممکن ارتقا کا قریب قریب پوری طرح اظہار کرے۔ یعنی جس کی بنیاد زندگی کے نئے مادی حالات سے پیدا ہونے والے ارتقائی تقاضوں کے شعور پر ہو، زیادہ سے زیادہ ترقی پسندی یا انقلابی کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ انسان کے شعور اور علم میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوا ہے۔ فطرت یا سماج کا علم ابتدائی، نامکمل، یک طرفہ اور بہت سطحوں سے گزر کر زیادہ اونچی اور زیادہ مکمل سطح پر پہنچا ہے۔ معاملوں کو مختلف سمت سے دیکھ کر زیادہ اچھی طرح سمجھنے کی صلاحیت ہم میں رفتہ رفتہ پیدا ہوئی ہے۔ جب پیداواری طریقے اور وسائل محدود اور چھوٹے پیمانے پر تھے، تب انسانوں کی سماجی زندگی اور ان کا علم بھی محدود تھا۔ مزید برآں استحصال کرنے والے برسر اقتدار طبقے اور ان کے خوشہ چیں ہمیشہ اپنے طبقاتی مقاصد کی خاطر فطرت اور سماج دونوں کے علم کو (جس قدر کہ وہ حاصل ہوا تھا یا ہو سکتا تھا) توڑتے مروڑتے اور مسخ کرتے رہتے تھے۔ طبقاتی سماج میں خیالات اور نظریوں کو ان کی طبقاتی نوعیت سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کی زندگی اس کے طبقاتی مقام سے متعین ہوتی ہے اور اس کے خیالات پر عام طور سے اپنے طبقے کی چھاپ ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک ہندستان میں بھی نئے خیالات، نئے تہذیبی اور ادبی رجحانات کے مآخذ ان تاریخی تبدیلیوں میں ڈھونڈنے چاہئیں، جو اُنیسویں صدی میں ہماری معاشرت میں ہوئے۔ انگریزوں کے معاشی اور سیاسی غلبے کی وجہ سے ہندستانی سماج کی اس معیشت کا تار و پود بکھر گیا جس پر ہماری تہذیب کی بنیاد تھی۔ جاگیرداری، خود کفیل دیہاتوں اور دستکاری کی صنعتوں کی ساکن معیشت کی جگہ نوآبادیاتی یا سامراجی محکومیت کی معیشت نے لے لی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اوّل تو ہمارا ملک برطانیہ کی جدید بڑی مشینوں کے بنے ہوئے صنعتی مال کی منڈی بن گیا۔ دوسرے، ہماری دستکاری کی صنعت انگریزی مشینی صنعت کے بنے ہوئے سستے مال کے مقابلے کی تاب نہ لاکر بالکل تباہ ہو گئی یا زوال پذیر ہو گئی۔ تیسرے، ہماری زرعی پیداوار کی قیمت گر گئی اور ہم برطانیہ کے کارخانوں کے لیے سستے داموں اپنی خام پیداوار بیچنے کے لیے مجبور ہو گئے۔ جدید عالمی سرمایہ داری کی منڈی بن جانے کی وجہ سے ہماری خام پیداوار (روئی، پٹسن، چائے، کھال وغیرہ) کے دام بھی عالمی سرمایہ داری منڈی میں مقرر ہونے لگے۔ چوتھے، ہمارے ملک کی مالیات (فائنانس، بینکی سرمایہ وغیرہ) پر برطانوی فائنانس (مالیاتی) سرمایہ پوری طرح سے حاوی ہو گیا۔ پانچویں، ہمارے ملک میں برطانوی سرمایہ داروں نے جدید مشینی صنعتوں کا آغاز کیا۔ لیکن یہ جدید صنعتیں اس طرح اور اس پیمانے پر قائم نہیں ہوئیں جیسا کہ آزاد سرمایہ دار ملکوں میں (مثلاً برطانیہ، فرانس، جرمنی یا امریکہ) میں ہوا بلکہ مخصوص محکومانہ (نوآبادیاتی) معیشت کے طریقے پر ہوئیں۔ مثلاً سب سے پہلے ہمارے ملک میں انگریزی سرمایہ دار کمپنیوں نے ریلیں بنائیں، جن سے بے حساب، غیرمعمولی نفع اندوزی کے علاوہ بیرونی مال کو دُور دُور کی منڈیوں تک پہنچانا اور بیچنا، اور ہمارا کچا مال اُٹھانا اور ملک کو محکوم رکھنے کے لیے تیز فوجی نقل و حرکت مقصود تھا۔ اس طرح انگریزی سرمایہ داروں نے جو پٹسن اور روئی کی ملیں قائم کیں، ان کا مقصد ہمارے مزدوروں کو کم از کم اجرت دے کر غیرمعمولی نفع کمانا تھا جو خود ان کے ملک میں ممکن نہ تھا۔ بنیادی بڑی صنعتیں (مشین سازی، کیمیائی، لوہے، فولاد اور انجینئرنگ کی صنعتیں) قائم نہیں کی گئیں یا بہت کم اور زیادہ تر سامراج کی جنگی ضرورتوں کے ماتحت قائم کی گئیں۔ فی الجملہ صنعتی ترقی روکی گئی اور ملک کو صنعتی اعتبار سے برطانیہ کا دست نگر رکھا گیا۔ دستکاری کی صنعت کی تباہی (جس میں کپڑے کی صنعت سب سے بڑی تھی)، زراعت کی عام تباہی، جدید مشینی صنعت کی کمی اور اس کے علاوہ ملک کی عام مالی لوٹ کی وجہ سے (ٹیکسوں کی زیادتی، بیرونی سرمایہ دار کمپنیوں اور تجارتی اداروں کی غیرمعمولی نفع اندوزی) سامراج کے بین الاقوامی فوجی اخراجات کے بار وغیرہ سے ہمارے ملک میں عام مفلوک الحالی اور مفلسی پھیلی۔ جس کا اثر دیہات کے کسانوں، دستکاروں، شہر کے محنت کشوں، درمیانہ اور نچلے درمیانہ طبقوں، پڑھے لکھے ملازم پیشہ لوگوں، چھوٹے اور درمیانہ زمینداروں، تاجروں، سب کے اوپر بُرا پڑا۔ صرف دو طبقے تھے جن کی حالت سامراجی عہد میں نسبتاً اچھی رہی۔ ایک تو وہ نواب، جاگیردار اور راجہ تھے جن کو یا تو انگریزوں نے خود دیہات کی آبادی پر مسلط کیا تھا، یا وہ شکست خوردہ مہاراجے، نواب اور ریاستی فرماں روا جن کے ہاتھ سے سیاسی اور انتظامی طاقت تو چھین لی گئی تھی، لیکن جو انگریزی سرکار کے وفادار ہونے کی بنا پر سرکاری پشت پناہی کے لیے باقی رکھے گئے تھے اور جن کا کام اب محض دیہات کی محنت کش آبادی کو لوٹ کر مفت خوری کی زندگی بسر کرنا تھا۔ دوسرے نئے تاجروں کا وہ طبقہ تھا جو ایک طرح سے برطانوی سرمایہ داروں کے کمیشن ایجنٹ تھے۔ یعنی جو انگریز سرمایہ داری کی درآمد اور برآمد کی تجارت میں ان کے چھوٹے حصے دار تھے، جس کے وجود کا انحصار بیرونی سامراج کے استحصال پر تھا اور جو اس کے لیے آلہ کار بن کر خود بھی سرمایہ دار بن رہے تھے۔ اسی گروہ میں رفتہ رفتہ ہندستانی صنعتی سرمایہ داروں کا طبقہ بھی پیدا ہوا، جنھوں نے سوت اور جوٹ ملیں وغیرہ قائم کیں اور اس طرح ایک حد تک برطانوی سرمایہ داروں کے مدمقابل بننے لگے۔ ان طبقوں کے علاوہ ایک بالکل نیا طبقہ ہمارے ملک میں پیدا ہوا۔ یہ صنعتی مزدوروں کا طبقہ تھا جو کہ ان جدید مشینی صنعتوں میں کام کرتے تھے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ریلوے اور ان کی ورکشاپوں کے مزدور، سوت اور جوٹ ملوں کے مزدور، ان کے علاوہ لوہے، فولاد کے کارخانوں، کوئلے کی کانوں، چائے کے باغات، اور دوسرے مختلف کارخانوں کے مزدور۔ ریلوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے یہ محنت کش بربادشدہ، دستکاروں، دیہاتی مزدوروں، بے زمین کسانوں اور شہر کے ان غریب گروہوں سے تعلق رکھتے تھے جو سامراجی عہد میں بیکار اور پہلے سے بھی زیادہ مفلوک الحال ہو گئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس اب اپنی محنت کی طاقت کے علاوہ اور کوئی دوسری مِلک نہیں تھی اور جسے سرمایہ داروں کے ہاتھ بیچ کر ہی وہ اور ان کے بال بچے زندہ رہ سکتے تھے۔ اسی طبقے کو جدید اصطلاح میں پرولتاری کہتے ہیں۔ اُنیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں جب کہ ہمارے ملک کا معاشی نقشہ کچھ اسی طرح کا تھا، اگر ہم اپنے یہاں کے مختلف تہذیبی رجحانات پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو وہ نظریے تھے جنھیں انگریزی سامراج براہ راست یہاں پر پھیلا رہا تھا یا جن کی وہ سرپرستی کرتا تھا۔ دوسری طرف وہ نظریے تھے جو یا تو واضح طور پر سامراج دشمن تھے یا ایسے نظریے تھے جو سامراج کے واضح طور پر مخالف نہ ہونے کے باوجود اور سماجی نظام کی حدوں کے اندر رہتے ہوئے ہندستانی سماج کو اس کی پستی سے نکالنے کے دعوے دار تھے۔ ان کو ہم اصلاحی (ریفارمسٹ) نظریے کہہ سکتے ہیں۔ برطانوی سامراجی نظریوں کی خصوصیت کیا تھی؟ اوّل تو تمام ہندستانیوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیوست کرنا کہ انگریزی قوم ان سے ہر لحاظ سے بہتر ہے اور ہندستان پر اس کی حکومت جائز اور مناسب ہے، بلکہ خدا کی طرف سے نازل کی ہوئی ایک نعمت ہے۔ انگریزوں اور ان کی حکومت کا وفادار رہنا ہر ہندستانی کا سیاسی اور مذہبی فریضہ قرار دیا گیا۔ یہ نظریہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں اور کالجوں، درسی کتابوں، نیم سرکاری اخباروں، عیسائی مشنریوں، زرخرید ملائوں اور پنڈتوں، سرکاری عہدے داروں، راجائوں، نوابوں، بڑے زمینداروں اور دیگر تمام ایسے لوگوں کے ذریعہ پھیلایا جاتا تھا جن کی روزی روٹی انگریزی سرمایہ داروں یا ان کے حکومتی اداروں سے وابستہ تھی۔ اپنے وطن کی عظیم تہذیب و تمدن کو گھٹیا خیال کرنا اور اس کی طرف بے توجہی برتنا، مغرب کی ہر ایک چیز کو اس سے بہتر سمجھنا اور انگریزی فیشن اور آداب کی احمقانہ نقالی کرنا اس نظریے سے پیدا ہونے والی ’’تہذیب‘‘ کا ایک لازمی جزو تھا۔ اس نظریے کی ترویج کا مقصد ظاہر ہے، ہم میں احساس پستی پیدا کرکے ہم کو ذہنی طور پر انگریزی استعمار کا آلہ کار اور مطیع بنانا، انگریز مورخین نے انیسویں یا بیسویں صدی میں ہمارے ملک کی جو تاریخیں لکھیں ان میں یہی نظریہ پیش کیا گیا تھا۔ انگریزوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ جس طرح انگریز سامراجیوں نے ہمارے ملک میں نوجوانوں، ریاستوں، جاگیرداروں کو ان کی سیاسی قوت سلب کرکے اپنے مقاصد کے لیے برقرار رکھا اور بڑے پیمانے پر ان جگہوں پر بھی زمینداریاں قائم کیں جہاں پہلے سے وہ موجود نہ تھیں۔ اسی طرح اور اس کے ساتھ ساتھ سامراجیوں نے تمام ان اداروں، روایات اور تصورات کو بھی اُبھارنے اور برقرار رکھنے کی کوشش کی اور ان کی سرپرستی کی، جن سے ملک کے مختلف مذہبی یا قومی گروہوں، ذاتوں اور فرقوں میں نااِتفاقی اور دوری بڑھتی تھی یا جن کی مدد سے توہم پرستی، تقدیر پرستی، یاس اور لاچاری کے جذبات ابھرتے تھے، جو عقل اور نئی روشنی کے خلاف تھے اور جو جاگیری دور کے زوال کی خصوصیت تھے۔ جس طرح سامراجی معاشی نظام کی ایک نمایاں خصوصیت جاگیرداری اور بڑی زمینداریاں برقرار رکھنا تھا، اسی طرح جاگیری عہد کے زوال پذیر تصورات کو بھی سہارا دینا اس کی خصوصیت تھی۔ انگریزی اقتدار سے قبل صدیوں سے ہمارا ملک فی الجملہ ایک خوشحال، ترقی یافتہ، زراعتی ملک تھا۔ اس میں راجائوں اور فوجی اُمرا کی مطلق العنانی اور جاگیرداری درجہ بدرجہ قائم تھی۔ محنت کش طبقے، کسان، مزدور اور دستکار تمام سیاسی طاقت سے محروم تھے اور حکمراں گروہ ان کا شدید استحصال کرتے تھے۔ ہندو سماج میں ذات پات کے نظام نے محنت کشوں کو سماجی اور مذہبی اعتبار سے مستقل طور سے ایک پست درجہ دے دیا تھا۔ اسی معاشی بنیاد پر جو مذہبی عقائد پیدا ہوئے تھے اور جو کہ اس مادی زندگی کا عکس تھے، ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ایک بڑے خدا یا پرم آتما کے نیچے اور ماتحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اور دیوتا تھے۔ بڑا خدا مطلق العنان تھا (شہنشاہ یا مہاراج ادھیراج کا عکس) اور اس کے نیچے دوسرے خدا تھے۔ ان اُمرا یا راجائوں کا عکس جو مغلوب کیے جاچکے تھے اور شہنشاہ کے باج گذار تھے، یہ خدا جن میں فطرت کی تمام قوتیں اور مظاہرے مدغم تھے، انسانوں کی زندگی کے مالک تھے۔ ان کو خوش رکھنے کے معنی نجات یا ثواب اور ان کو ناراض کرنے کے معنی گناہ اور دائمی عذاب کے تھے۔ قسمت یا کرم کے چکرسے نکلنا معمولی آدمی کے لیے ناممکن تھا۔ معمولی آدمیوں کے لیے نجا ت صرف اپنی ذات اور اس کی خواہشات کو فنا کرکے ہی حاصل ہو سکتی تھی۔ افغان، مغل اور ترک مسلمانوں نے جب اس ملک پر حملے کرکے اسے مغلوب کیا تو یہاں کی معیشت میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اوپر کے استحصال کرنے والے باج خور طبقوں میں ایک اور نئے گروہ کا اضافہ ہو گیا۔ اسلام کا وحدانی اور انسانی مساوات کا نظریہ جو ایران اور وسطی ایشیا میں پہنچ کر اس وقت تک کافی بدل چکا تھا اور جس میں اگر ایک طرف بادشاہت اور امارت تو دوسری طرف تصوف نے جگہ لے لی تھی، ہندستان پہنچنے پر یہاں کے حالات سے متاثر ہوا اور اس میں اور ہندی عقائد میں بہت گہری مشابہت پیدا ہو گئی۔ پیروں اور مشائخ نے اللہ کے دربار میں وہی درجہ اختیار کر لیا جو سلطنت کے اُمرا کا سلطان کے دربار میں تھا۔ اللہ اور سلطان کی مطلق العنانی کو تسلیم کرنا سب کے لیے ضروری تھا۔ لیکن بادشاہ تک رسائی اگر وزیروں اور اُمرا کے توسل سے ہی ممکن تھی تو اللہ تک رسائی پیروں اور مشائخ کے توسل سے۔ معمولی انسانوں کا فرض بندگی اور اپنی جان و مال ان کے حضور میں پیش کر دینا تھا۔ ہندستان آنے والے مسلمانوں کے یہ عقائد ایک زراعتی اور کافی پیچیدہ معاشرت کا عکس تھے جس میں طبقہ واری تفریق زیادہ بڑھ چکی تھی۔ وہ اس قدیم عربی قبائلی تصور سے کافی مختلف تھے جس میں اللہ کی مطلق العنانی تو تھی لیکن اس تک پہنچنے کے لیے جاگیری سماج کے اُمرا کی طرح درجہ بدرجہ قطب، ولی، اوتار، شیخ اور پیر کے وسیلے کی ضرورت نہ تھی اور جہاں اگر بندے کو اللہ کی عبدیت لازمی تھی تو اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کے مابین مساوات کا تصور بھی تھا۔ مسلمان حملہ آوروں اور حکمرانوں کو یہاں کے لوگوں کو اپنا ہم مذہب بنانے کا کوئی خاص جوش نہیں تھا۔ اگر کبھی انھوں نے ہندوئوں کے معبدوں کو منہدم بھی کیا تو اس کا مقصد مذہبی کم اور مالی یا سیاسی زیادہ تھا۔البتہ ہندو محنت کشوں کے بعض طبقوں میں غالباً ان مقامات پر، جہاں حکمراں اونچی ذاتوں کا ظلم ان پر زیادہ تھا (مثلاً مشرقی بنگال)، بڑے پیمانے پر تبدیلیٔ مذہب ہوا۔ اسلام کا وحدت اور مساوات کا نظریہ جو کہ صوفی، مشائخ اور واعظین کے توسل سے ان تک پہنچا، ان کے لیے غالباً زیادہ مساوی اور منصفانہ زندگی کا پیامبر تھا اور مسلمان امیروں کی سیاسی حکمرانی غالباً ان کے لیے سماج میں کسی قدر بہتر حالت کی ترغیب کرتی تھی۔ لیکن ظاہر ہے اس تبدیلیٔ مذہب نے ان کے معاشی استحصال کو ختم نہیں کیا۔ اس لیے دوسرے غیرمسلم، مظلوم محنت کش عوام کی طرح تقدیر کے آگے سر جھکانا، اس زندگی کے مصائب کی کلفت کو کم کرنے کے لیے ایک اگلی خوش آئند زندگی کے خواب دیکھنا اور سماجی نظام کی اونچ نیچ کو الو ہی درجہ دے کر اس کا مطیع رہنا ان کے عقائد میں داخل رہا۔ قسمت اور کرم ایک معنی میں استعمال ہونے لگے۔ یہ مذہبی عقائد اور توہمات ہمارے زراعتی مطلق العنان ایشیائی نظام معیشت کے لوازمات تھے۔ ان عقائد سے استحصال کرنے والے اُمرا کو یہ فائدہ پہنچا کہ ان کی سماجی پوزیشن کو مذہبی اور الوہی جواز حاصل ہو جاتا تھا۔ ان سے بغاوت کے معنی خدا سے، دین سے اور دھرم سے بغاوت کے تھے۔ ان عقائد کے ذریعہ اُمرا خود اپنے استحصال پر اخلاق کا پردہ ڈال کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے تھے اور لوٹے جانے والے محنت کش طبقوں کے زخموں پر قسمت اور الوہی رحمت کا مرہم رکھ کر انھیں ذہنی اور روحانی طور پر اپنے مصائب کو ناگزیر سمجھ کر برداشت کر لینے کے قابل بنا دیتے تھے۔ (۱) (۱)- اس موقع پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس سماج میں طبقاتی نزاع ختم نہیں ہو گیا تھا۔ چنانچہ کسانوں اور دستکاروں کی بغاوتیں ایشیائی تاریخ کا ایک اہم جزو ہیں۔ لیکن حکمران طبقوں کی لکھی ہوئی تاریخوں میں ان کو یاتو اہمیت نہیں دی گئی ہے یا بہت برے الفاظ میں ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ مظلوموں کی ان تحریکوں سے مطابقت رکھنے والے باغیانہ مذہبی اور سماجی نظریے بھی تھے۔ ایران میں مزدک کی تحریک ان میں سب سے زیادہ مشہور ہے جسے وحشیانہ سفاکی کے ساتھ کچلنے پر نوشیرواں کو حکمراں طبقوں نے ’’عدل‘‘ کا لقب دیا۔ تصوف اور بھگتی کی تحریکوں کے بعض پہلوئوں میں بھی ہمیں یہ عوامی عناصر ملتے ہیں۔ برطانوی سماج نے جاگیری اور نیم جاگیری زمینی تعلقات کو ہمارے ملک میں اپنا ماتحت بناکر اور اپنے مقاصد کے لیے برقرار رکھا۔ نیز انھوں نے اس نظام کے ثقافتی اور ذہنی آثار کو بھی زندہ رکھا جو لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے یہاں وہ عقائد و تصورات اور ادارے، جن کے ذریعہ سے عوام میں توہم پرستی، بت پرستی، تقدیر پرستی، پیر پرستی، قبر پرستی، ایک خاص قسم کی دقیانوسی مذہبی عصبیت، جو عقل اور سائنس کی قدم قدم پر مخالفت کے لیے کھڑی ہو جاتی تھی، ہمارے ملک میں برقرار رکھی گئی۔ انگریزی حاکم، نواب، راجا، بڑے اُمرا، زرخرید دانشور، مولوی، پنڈت وغیرہ اس تمام دقیانوسیت کے سرپرست تھے۔ ان فرسودہ تصورات اور اداروں کی مدد سے حکمران انگریز اور ان کے حمایتی اُمرا ہر قسم کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی آزادی، جمہوریت اور روشن خیالی کی مخالفت کرتے تھے، ملک کے مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھاتے اور پھیلاتے تھے، عوام کو متحد ہونے اور اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنے سے روکتے تھے۔ انگریز حکمرانوں کو اس بات سے کوئی عار نہیں تھا۔ اگر ہندو توہم پرست گائے کو مقدس تصور کرتے اور گائے کو ذبح کرنے والے انسان کو واجب القتل سمجھتے۔ وہ اطمینان سے اس خیال کے سرپرست مہاراجائوں، مہنتوں اور پنڈتوں کو اسے پھیلانے دیتے، اور اگر مسلمان اُمرا اور جاہل ملّا اور واعظ تمام غیرمسلم ہندستانیوں کو کافر اور اپنے سے پست درجے کا انسان سمجھ کر ان کے خلاف نفرت پھیلاتے تھے تو انھیں بھی اس کی آزادی تھی۔ ایک طرف تو اس قسم کے عقائد کی سرپرستی کی گئی اور انھیں پھیلایا گیا۔ دوسری طرف عوام کو تعلیم اور نئی روشنی سے تقریباً پوری طرح محروم رکھ کر انھیں اس دقیانوسی رجعت پرستی کا شکار بنایا گیا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سماجی اور تہذیبی رجعت پرستی کے سوتے دراصل سامراجی محکومی کے معاشرتی نظام میں پیوست تھے۔ اپنے سیاسی غلبے اور معاشی لوٹ کو برقرار رکھنے کے لیے برطانوی سامراجیوں کو فوج، پولیس، نوکر شاہی، عدالتوں اور قیدخانوں کی ضرورت تھی۔ سامراج کے لیے ضروری تھا کہ وہ نوابوں، رجواڑوں اور جاگیرداروں کو باقی رکھے۔ بالکل اسی طرح اس کے لیے ضروری تھا کہ ہماری قوم کو ذہنی اور روحانی طور پر مفلوج، غیر متحد اور غلام رکھنے کے لیے وہ سامراجی اور زوال پذیر جاگیری نظریوں اور عقائد کی سرپرستی اور ترویج کرے۔ ظاہر ہے کہ اُنیسویں صدی کے اخیر اور بیسویں صدی کے شروع میں صرف وہی طبقے اور گروہ ان نظریوں اور خیالات کی مخالفت کر سکتے تھے جن کو سامراجی نظام سے چوٹ لگتی تھی، جو اس میں بالکل مدغم نہیں ہو گئے تھے (رجواڑوں اور بڑے زمینداروں کی طرح)، اور جو ذہنی اور دماغی تربیت کے اعتبار سے اپنی روحانی بے اطمینانی یا مخالفت کا اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اٹھارھویں صدی کے اخیر اور انیسویں صدی کے پہلے نصف میں (1857-58 تک) جب تک انگریزی غلبہ مکمل نہیں ہوا تھا، ہمارے ملک کے نوابوں اور راجائوں کا ایک گروہ انگریزوں کے خلاف مسلسل جنگ کرتا رہا۔ اسی زمانے میں انگریزی نظام کے خلاف زبردست عوامی بغاوتیں بھی ہوئیں۔ جن میں ان کسانوں، دستکاروں اور دانشوروں اور فوجی سپاہیوں نے بھی حصہ لیا جن کو سامراجی لوٹ نے بالکل برباد کر دیا تھا۔ بنگال میں مولوی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک، بہار میں وہابی علما کی راہ نمائی میں فوجی بغاوت، سیاسی تحریک، پنڈاری تحریک وغیرہ ان کی مثالیں ہیں۔ لیکن انگریزی سامراج انھیں کچل دینے میں کامیاب ہوا۔ 1857 کی انقلابی تحریک ایک طرح سے ان تمام تحریکوں کے اتحاد کا مظاہرہ تھی۔ اس میں وہ اُمرا اور جاگیر دار بھی شامل تھے جن کو انگریزوں نے بے دخل کیا تھا۔ اس میں فوجی سپاہیوں اور دانشوروں کا وہ گروہ بھی تھا جس کو پرانی نوابیوں اور ریاستوں کے نظام کے ٹوٹنے نے بالکل بیکار کر دیا تھا۔ اس میں وہ دستکار بھی شامل تھے جن کی صنعتیں برباد ہو گئی تھیں اور وہ کسان بھی تھے جن کی زمینیں چھینی گئی تھیں۔ مگر اس تحریک کی ناکامیابی نے ثابت کر دیا تھا کہ جاگیردار امرا کا طبقہ قومی انتشار کو دور کرکے بیرونی سامراج کے خلاف مضبوط قومی محاذ بنانے اور اس کی راہ نمائی کرنے کی صلاحیت کھو چکا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسان، دستکار، دانشور اور فوجی سپاہی نہ تو جاگیرداروں کو اپنا راہنما بناکر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ خود ان میں نظریاتی اعتبار سے اپنی انتشار پسندی پر قابو پانے اور ساری قوم کو سامراج کے خلاف متحد کرکے لڑنے کی صلاحیت ہے۔ ان مسلسل ناکامیوں کے بعد سب سے پہلے جن لوگوں نے سامراجی اور جاگیری نظریوں اور عقائد کے خلاف تقریباً غیر شعوری، دبے لفظوں اور نامکمل طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، وہ دانشور تھے۔ ان کا تعلق ان نوکری پیشہ گروہوں سے تھا جو خود مختار ریاستوں اور مغلیہ سلطنت کی شکست اور زوال کے بعد اب بیکار ہو گئے تھے اور جن کے کچھ افراد انگریزی نظام حکومت کے نیچے عہدوں پر فائز ہو گئے تھے۔ یہ لوگ طبقے کے اعتبار سے اکثر زمینداروں کے خاندانوں کے تھے یا پھر وہ نئے تجارتی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو نئے انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں انگریزی پڑھ کر یورپ کے جمہوری خیالات اور ادب سے متاثر ہو رہے تھے، جن کو بڑی نوکریاں تو نہیں ملتی تھیں لیکن جو معمولی سرکاری عہدے دار ٹیچر، پروفیسر، وکیل، بیرسٹر وغیرہ بن رہے تھے۔ چنانچہ مذہبی اصلاح اور جدید تعلیم کی تحریک (مثلاً برہم سماج، آریہ سماج، سر سید کی تحریک وغیرہ)، جس کا ہم نے اس باب کے شروع میں ذکر کیا، انھیں گروہوں میں پیدا ہو رہی تھی۔ شعوری طور پر یہ لوگ انگریزی سرکار سے وفاداری کا پیہم دم بھرتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی کاوشیں ترقی پسندی کا پہلو لیے ہوئے تھیں۔ ان کی احیا پرستی اور مذہب کو نئے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش، دراصل جمہوری تصورات اور عقل پسندی کو فروغ دینے کے لیے تھی۔ اگر انگریز حکمراں اور ان کے مبلغ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ ہم میں احساس پستی پیدا کریں، نسلی اور قومی اعتبار سے ہم کو سفید فام حکمرانوں سے کمتر اور گھٹیا ثابت کریں تو ہمارے اس دور کے احیا پرست اس کوشش میں تھے کہ ہماری تاریخ اور تہذیبی کارناموں کو ہمارے سامنے اس طریقے سے پیش کریں کہ اس سے ہمارا قومی وقار قائم رہے۔ اگر انگریز حکمراں براہ راست اور بالواسطہ ملک میں جہالت، دقیانوسیت اور قدامت پرستی پھیلانے میں مدد دیتے تھے تو ہمارے یہ اصلاح پسند راہنما انگریزی پڑھنے پر زور دے کر اور خود ہماری پرانی تاریخ سے مساوات اور عقل پسندی کی روایات کو اجاگر کرکے اس کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ اگر وہ انگریز حکمرانوں کی تقلید پر بھی زور دیتے تھے تو اس کا مقصد یہی تھا کہ ہم گزشتہ عہد کی مذموم توہم پرستیوں، تقدیر کا رونا رونے کی عادت، سستی اور انتشار پسندی کو ترک کرکے، جدید طریقے سے سوچنا اور کام کرنا سیکھیں اور جدید زمانے میں جدید انسان بنیں۔ تاہم ہمارے یہ اصلاح پسند، مذہبی احیا اور جدید انگریزی تعلیم کی تبلیغ کرنے والے ترقی پسند دانشور، اپنے طبقاتی حصار کو عبور کرنے سے قاصر تھے۔ مذہبی احیا کی تحریک تاریخی حقیقت کا سچا اور مکمل اظہار نہیں کرتی۔ احیا کے پرستار تاریخ کی حرکت اور ارتقا کے صحیح اسباب بتانے سے قاصر ہیں۔ مثلاً اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سچا اسلام وہی ہے جو عرب میں عہد نبوی اور اس کے بعد کے تیس سال تک رہا، تو پھر ہم جس چیز کو اسلامی کلچر کہہ کر فخر کرتے ہیں، وہ کن حالات کی پیداوار ہے؟ اگر قرون اولیٰ میں مدینے کی چھونپڑیاں اور مٹی کی مسجدیں ہی ہمارے لیے قابل فخر اور قابل تقلید ہیں تو پھر ہم الحمرا اور تاج محل اور موتی مسجد کو مسلمانوں کے زوال کی نشانیاں سمجھ کر ان سے نفرت کیوں نہیں کرتے؟ اگر ہم خلافت راشدہ کو اپنا نصب العین بنانا چاہتے ہیں تو پھر کیا موجودہ زمانے میں ہم غلامی کو جائز سمجھنے، چوروں کے ہاتھ کاٹنے، اور زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کے قانون نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ایسے تضادات ہیں جن سے احیا پرست مفر حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کی پوزیشن کی یہی کمزوری ہے جو ان میں سے بعض کی نیک نیتی کے باوجود ان کی تحریک کے سروں کو رجعت پرستی سے ملا دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی احیا کی تمام تحریکوں اور اصلاح شدہ نئے مذہبی فرقوں کے عقائد پر اس طبقے یا گروہ کی چھاپ ہوتی ہے جو اُن کے محرک اور مبلغ ہوتے ہیں، اور اگر مذہبی تقدس کے ان کہروں کے پیچھے دیکھا جائے جن سے کہ یہ تحریکیں ڈھکی ہوتی ہیں، تو ہمیں طبقہ واری مفاد کے نقوش صاف طور سے نظر آجاتے ہیں۔ سید احمد خاں، نذیر احمد وغیرہ کی تہذیبی تحریک شمالی ہند کے مسلم زمینداروں، تاجروں،نوکری پیشہ دانشوروں کی اُس ذہنیت کا اظہار کرتی ہے جو انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں برطانوی سامراج کے مکمل غلبے کے بعد ان میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ جاگیردار طبقے کی شکست کا اعتراف اور اظہار کرتی ہے (انگریز حکمرانوں کا قرآن کی رو سے ’’اُولی الامر‘‘ ثابت کرنا اور ان کے خلاف جہاد کو ناجائز قرار دینا) اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے اسلاف کے شاندار کارنامے کی یاد دلاکر اور جدید انگریزی تعلیم حاصل کرکے، توہم پرستی کی جگہ سائنس اور عقلیت کی تبلیغ کرکے، تقدیر کو کوسنے کے بجائے عمل، جہد اور اصلاح کا پیغام دے کر ان میں خود اعتمادی اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی تلقین کرتی ہے۔ یہ ترقی تو ضرور تھی لیکن ایک مخصوص طبقے اور گروہ کے لیے اور نئے سامراجی نوآبادیاتی نظام کے حلقے کے اندر رہ کر، اور اس کے وجود کو لازمی اور برحق تسلیم کرکے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ملک کے عام غیرمسلم باشندوں کی اکثریت کو چھوڑ بھی دیا جائے اور صرف مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو ہی لیا جائے، جو دستکاروں اور کسانوں پر مشتمل تھی، تب بھی اس تحریک کی عوام سے بے تعلقی ظاہر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے یہ مصلحین رسول اُمّی کے نام لیوا ہونے کے باوجود… جس نے کہا تھا… ’’الہم احینی مسکیناً وا میتنی مسکیناً وا حشرنی فی زمرۃ المساکین¡ ٭ (اے خدا! تو مجھے مسکینی کی حالت میں رکھ، مسکینی کی حالت میں میری موت لا، اور میرا حشر مسکینوں کے زمرے میں کر۔) اپنی قوم کی عظیم محنت کش اکثریت کے لیے ہمدردی اور بہشت کی بشارت کے علاوہ اور کوئی دوسری پیشکش نہیں رکھتے تھے۔ ہمارے یہاں احیائیت اور اصلاح کا دوسرا دور بیسویں صدی کے تقریباً ساتھ ساتھ شروع ہوا۔ شمالی ہند کے مسلمانوں کے راہنما ابو الکلام آزاد، شبلی، ظفر علی خاں وغیرہ تھے۔ ادبی اور نظریاتی اعتبار سے اس گروہ میں سب سے عظیم ہستی اقبال کی ہے۔ اُس زمانے میں ایشیائی اقوام میں سامراج دشمنی اور جمہوریت کی تحریکیں اُٹھیں۔ روسی سامراجیوں کی جاپان کے ہاتھوں شکست، پہلا انقلابِ روس (1905)، ایران میں سامراجیوں اور مطلق العنان بادشاہت کے خلاف آزادی اور مشروط (کانسٹی ٹیوشن) کی تحریک، مصر اور سوڈان میں انگریزوں کے خلاف بغاوتیں، ترکی کی سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے لیے انگریز، فرانسیسی اور روسی سامراجیوں کی چھیڑی ہوئی جنگیں، ایشیائی عوام کے دلوں میں زبردست سامراج دشمن ہیجان پیدا کر رہی تھیں۔ ہندستان میں بھی قومی تحریک اعتدال پسندی کے دائرے سے نکل رہی تھی۔ سامراجیوں کے خلاف بم اور پستول استعمال ہونے لگے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے نئے مسلم راہنمائوں نے سید احمد خاں اور ان کے پیروئوں کے انگریزی سرکار سے وفاداری کے نظریہ پر حملہ کرنا شروع کیا اور مسلمانوں کے سامنے مذہبی احیا کے ساتھ ساتھ قومی آزادی، قومی اتحاد، اور ٭ ایک اور دوسری حدیث میں کہا ہے…’’او تومنی اَحَیَاّئی فیقول الملائکہ من احبائک؟ فیقول اللّٰہ فقراء و المساکین۔ (روز قیامت خدا کہے گا مجھ سے میرے دوستوں کو قریب کرو۔ ملائکہ پوچھیںگے ’’ترے دوست کون ہیں۔‘‘ اللہ کہے گا ’’فقرا اور مساکین۔‘‘) اس کے لیے جدوجہد کرنے کا تصور پیش کیا۔ اس دور کی احیائیت میں سامراج دشمنی کی جانب آگے بڑھنے کی تلقین تو تھی لیکن اس کے تضاد اور ذہنی دشواریاں پہلے کے مقابلہ میں کچھ کم نہ تھیں۔ مثلاً اگر اسلامی احیا کا مقصد تمام دنیا کے مسلمانوں کو آزاد کرکے متحد کرنا تھا اور تاشقند سے لے کر مراکش تک ایک اسلامی خلافت قائم کرنا تھا (جیسا کہ جمال الدین افغانی، تحریک خلافت کے مبلغ اور اقبال کبھی کبھی کہتے تھے) تو ہندستان کے مسلمانوں کو، جو دنیا کی چالیس کروڑ مسلم آبادی کا سب سے بڑا واحد گروہ تھے، آزادی کی کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے؟ ہندستان میں مسلمان ساری آبادی کا ایک چوتھا ئی حصہ تھے۔ اس لیے اس سارے ملک پر مسلم حکمرانی کے معنی ہندو اکثریت پر حکومت قائم کرنے کے ہوتے تھے۔ یعنی انگریز کی سلطنت ختم کرنے کے بعد ہندو اکثریت پر اقلیت کی حکومت قائم کرنا۔ ظاہر ہے کہ یہ تصور وطن کی آزادی اور جمہوریت کے تصور کے متضاد تھا۔ وطن کی آزادی کی جدوجہد غیر مسلموں کے ساتھ مل کر انگریز سامراجیوں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی متقاضی تھی۔بین الاقوامی اسلامی اتحاد (پان اسلامزم) کا تصور اگر اسے منطقی حد تک لے جایا جائے تو قومی اتحاد کے تصور سے ٹکراتا تھا۔ بالکل یہی حال ہندو احیائیت کا بھی تھا۔ آزادی کے معنی ملک کے تمام غیرہندو ملِکشوں کو اس دیش میں کالی دیوی ، گئو ماتا اور ہنومان جی کی پرستش اور قدیم ویدک دھرم کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنا تھا (جیساکہ بنگال اور مہاراشٹر کے ہندو قوم پرست کہتے ہیں)، تو ظاہر ہے کہ اس بنیاد پر ہمارے وطن میں جہاں غیرہندو کروڑوں کی تعداد میں اور کل آبادی کا کافی بڑا حصہ تھے، قومی اتحاد نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن ہندو محبان وطن کی ایک بہت بڑی تعداد احیائیت کو اس کی منطقی حد تک لے جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس وجہ سے ان کے ساتھ غیرہندو مل کر مشترکہ آزادی حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے تھے۔ ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ مذہبی عقائد میں اختلاف فی نفسہ نزاع کا باعث ہوتا ہے یا کہ جب تک مختلف گروہوں کے لوگ جدید علوم کی روشنی حاصل کرکے اپنے عقائد کو بدلتے یا ترک نہیں کرتے، اس وقت تک اتحاد اور ترقی ممکن نہیں ہے۔ مشترکہ زندگی اور مشترکہ سماجی مقاصد، بعض عقائد کے اختلاف کے باوجود لوگوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مغل سلطنت کی بنیاد ترک، افغانی، ایرانی اور راجپوت امرا کے اتحاد پر تھی۔ تصوف کا وحدت الوجود اور ویدانت کا بھگتی کا عقیدہ اس اتحاد کو ایک حد تک استوار کرتا تھا۔ عوام الناس میں ان عقیدوں نے عام انسانی اخوت اور رواداری کی شکل اختیار کی، جس کے نتیجے کے طور پر ہند کی جدید زبانوں کا اور ہمارے از منہ وسطیٰ کے عظیم الشان ادب، موسیقی، مصوری، فن تعمیر وغیرہ کا ارتقا ہوا۔ ہمارا منشا یہ ہے کہ احیا پرستی اپنے موجودہ دور میں رجعت پرست طاقتوں اور طبقوں کو اس کا موقع دیتی ہے کہ وہ اس ملک میں بسنے والی اقوام اور فرقوں کے عوام کو آزادی، جمہوریت کے لیے متحد ہوکر جدوجہد کرنے اور نئے حالات کے مطابق نئی تہذیب و تمدن کی تعمیر کرنے سے روکیں۔ ایسا کرنے کے لیے احیا پرستوں کو خود ہماری تاریخ اور روایات کو مسخ کرنا پڑتا ہے۔ رجعت پرست خود جب اسلامی طرز معاشرت یا ہندو سبھتا کی تجدید کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کے یہ دعوے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ وہ زبان سے اپنے قدیم مذاہب اور طرز معاشرت کا دم بھرتے ہیں اور عملی طور پر مغرب کی سب سے بڑی سرمایہ دار طاقت کی فرماں برداری اور اس کے جنگ پرست جارحانہ نظریوں کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ وہ قدیم اسلامی یا ہندو جمہوریت کے نام سے وحشیانہ جاگیری استحصال کو برقرار رکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں احیا پرستی نظریاتی ریاکاری اور فریب، اور عملی طور پر اپنے وطن سے غداری اور استحصال کے ظالمانہ نظام کو برقرار رکھنے کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ اس طرح ہمارے ملک میں ہندو اور مسلم احیا پرستی اپنے بعض ترقی پسند اور اصلاحی پہلوئوں کے باوجود، اپنے اندر خرابیاں رکھتی تھی جو بالآخر اسے فرقہ پرستی کی دلدل میں پھنسا دیتی تھیں، اور فرقہ پرستی ہی انگریز سامراجیوں اور ان کے حلیف ہندستانی رجواڑوں اور بڑے سرمایہ داروں کا سب سے موثر اور خطرناک ہتھیار تھا، جس کے ذریعہ سے وہ قومی اتحاد کو روکتے تھے۔ لیکن جس اتحاد کے بغیر قومی آزادی ناممکن تھی۔- اعتدال پسند انگریزوں کے وفادار گروہ کی نمائندگی اس وقت مسلم لیگ کرتی تھی۔ جس کی تشکیل سرسید احمد خاں کے جانشینوں محسن الملک و وقار الملک وغیرہ اور سر آغا خاں، نواب ڈھاکہ وغیرہ نے انگریزی حکمرانوں کے اشارے پر 1906 میں کی۔ مولانا آزاد کا الہلال (کلکتہ)، مولانا شبلیؔ کا مسلم گزٹ، ظفر علی خاں کا زمیندار اور مولانا محمد علی کے کامریڈ سب مسلم لیگ کی انگریز پرستی کے مخالف تھے۔ اقبال نے جوابِ شکوہ میں لیگ پر حملہ کیا… لیگ والوں نے تراشا ہے ترے نام کا بُت۔ مولانا شبلیؔ نے بھی لیگ کی مذمت میں کئی نظمیں لکھیں۔ ایک نظم کا شعر ہے … مختصر اس کے فضائل کوئی پوچھے تو یہ ہیں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اقبال کے کلام کے موجودہ ایڈیشنوں میں سے متذکرہ بالا مصرعہ حذف کر دیا گیا ہے۔ لیکن پہلی اشاعتوں میں موجود ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہمارے ملک میں زبردست سیاسی ہلچل ہوئی۔ جنگ کے زمانے میں انگریز سامراجیوں نے ہمارے ملک کا شدید استحصال کیا تھا۔ جنگ کے بعد اقتصادی حالات اور بھی خراب ہوئے۔ انگریز سامراجیوں نے لڑائی میں جو چوٹ کھائی تھی، اسے وہ ہندستان کی دولت کو لوٹ کر اچھا کرنا چاہتے تھے۔ زرعی اور خام پیداوار کے دام یک بارگی گھٹ گئے ، جس سے خام مال اور زرعی پیداوار کرنے والوں کی مالی حالت یک بارگی خراب ہو گئی۔ اِدھر شہروں میں فیکٹریوں اور کارخانوں کے بند ہونے، فوجی دفتروں میں چھٹنی اور سپاہیوں کے ڈسچارج ہونے سے بے روزگاروں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ ہوا۔ اکثر تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی افراط زر (انفلیشن) کی وجہ سے بحرانی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ دوسری طرف انقلابِ روس نے زار شاہی کا تختہ اُلٹ کر سارے ایشیا کی محکوم قوموں میں آزادی کی ایک نئی لہر دوڑادی تھی۔ وسطی ایشیا کی قوموں نے روسی سامراجیوں کا جوا اُتار کر پھینک دیا تھا۔ ایران اور ترکی روس کی انقلابی مزدور اور کسان حکومت کی مدد اور حمایت حاصل کرکے انگریز سامراجیوں کو اپنے اپنے ملکوں سے نکال رہے تھے۔ چین میں سامراجیوں کے اقتدار کے خلاف مسلح قومی جدوجہد جاری ہو گئی تھی۔ اس زمانے میں ہمارے یہاں قومی آزادی کی جو تحریک جاری ہوئی، اس کی راہ نمائی ان ہی اونچے طبقے اور گروہوں نے کی جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ نان کو آپریشن (ترک موالات) اور خلافت کی تحریکیں نظریاتی اعتبار سے ہندو اور مسلم احیا پرستی کا سنگم تھیں، اور مہاتما گاندھی اور علی برادران کا اتحاد قومی اتحاد کی نشانی بن گیا ہے۔ لیکن جیسا بعد کے واقعات نے ثابت کیا یہ اتحاد دیرپا نہیں تھا۔ ہندو، مسلم اور سکھ عوام سارے ملک میں متحد ہوکر انگریز حکمرانوں کے خلاف غصے اور نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کا خون ایک ساتھ مل کر جلیاں والا باغ میں ہی نہیں، بلکہ بنگال، یو۔پی، مالابار، بمبئی وغیرہ میں ہماری زمین کو لالہ گوں کر رہا تھا۔ مالابار میں موپلا کسانوں نے انگریز حکمرانوں، ساہوکاروں اور زمینداروں کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر دی تھی۔ یو۔ پی میں کسان بڑے زمینداروں اور تعلقہ داروں کو دیہات سے بھگاکر زمین پر قبضہ کر رہے تھے۔ پولس کے تھانوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ بمبئی میں مزدور دوسرے طبقوں کے ساتھ مل کر سیاسی ہڑتالیں کر رہے تھے۔ تاہم صرف انگریز سامراجی ہی نہیں، کانگریس اور خلافت کمیٹی کے اکثر داہنے بازو کے لیڈر اس عوامی اتحاد اور عوامی جدوجہد کو، جو انقلاب کا رخ اختیار کر رہی تھی، خشمگیں اور خوف کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ وہ قوم کو آزادی یا سوراج کے لیے لڑنے کو کہتے تھے، لیکن سوراج کے معنی بتانے سے انکار کرتے تھے۔ عوامی جدوجہد کی آگ جیسے جیسے بھڑکتی تھی، بورژوا لیڈروں کا انقلابی جوش ویسے ویسے ٹھنڈا ہوتا تھا۔ محنت کش عوام اور نچلے درمیانے طبقے کے لوگ سامراجی نظام پر براہ راست حملہ کرکے اسے ختم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ لیڈر جو درمیانہ طبقوں سے تعلق رکھتے تھے اور جن کے پیچھے ہندستانی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے مفاد تھے، عوام کے جوش و خروش کو احتجاج، جلسے اور جلوس، انگریزی مال کے بائیکاٹ وغیرہ کے اصلاحی راستوں پر لگاکر سامراج پر صرف اتنا دبائو ڈالنا چاہتے تھے، جس سے وہ مجبور ہو کر ان کے ساتھ سمجھوتہ کرے۔ ان کو معاشی اور سیاسی رعایتیں دے۔ وہ انقلاب اور آزادی کا نام لیتے تھے تاکہ عوام ان کی راہ نمائی کو آئیں۔ لیکن چونکہ عوامی انقلاب کے معنی جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے خاتمے کے تھے، چونکہ اس کے معنی سامراج کے معاشی نظام کے بالکل خاتمے کے تھے، اس لیے وہ ہر ایسا قدم اٹھانے سے گھبراتے تھے، جو جاگیری اور بیرونی سامراجی سرمایہ داری کا مکمل طور سے خاتمہ کر دے۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ہمارے درمیانہ طبقے اور سرمایہ دار اور زمیندار ایک طرف جاگیرداری اور دوسری طرف بیرونی سرمایہ داری، دونوں سے بندھے ہوئے تھے۔ الغرض تہذیب اور سیاست دونوں میدانوں میں اصلاحی تحریکیں 1930 کے قریب ایسے مقام پر پہنچ گئی تھیں جہاں سے ان کی کمی اور ناکامی واضح ہونے لگی تھی۔ قومی آزادی کا نصب العین حاصل نہیں ہوا تھا۔ احیائیت اور اصلاح پسندی، کھلی رجعت پسندی میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ مخلص اصلاح پسند دانشور، وہ سچے لوگ جو دراصل مذہبی یا اخلاقی احیا یا تعلیمی اور سوشل اصلاح کے ذریعے قوم کو اوپر اُٹھانا چاہتے تھے، بیشتر بددل اور مایوس ہو گئے تھے، اور میدان اُن لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا جو اب فرقہ پرستی کو ہوا دے کر، مذہب کے نام پر عوام میں پھوٹ ڈال کر، سامراج کی پشت پناہی کرتے تھے۔ زبان اور کلچر کی ترقی کے مقدس نام پر، اُردو اور ہندی کا نام لے کر امیر جاہلوں اور ان کے زرخرید دانشوروں کا گروہ تعصب اور علم دشمنی پھیلاتا تھا۔ سیاست کے میدان میں فرقہ پرست ہندو اور مسلمان جماعتیں سامنے آنے لگی تھیں۔ یہ تصویر کا ایک رُخ تھا۔ قومی حیات کے دوسرے سرے پر ایک دوسرا طبقہ اور ایک دوسرا نظریہ بھی ابھر رہا تھا۔ یہ طبقہ شہر کے صنعتی مزدوروں کا طبقہ تھا اور یہ نظریہ سوشلزم یا مارکسزم کا نظریہ تھا۔ بمبئی، کلکتہ، احمدآباد، کانپور کے جوٹ اور سوتی ملوں کے مزدور، ریلوے ورکشاپوں کے مزدور، کوئلے کی کانوں اور لوہے اور فولاد کے کارخانوں کے مزدور متحد ہوکر اپنی یونین بنا رہے تھے۔ ہڑتالیں کرکے اپنے حقوق کے لیے اجتماعی جدوجہد کررہے تھے، اور ان کی تاریک بستیوں میں جگہ جگہ پر نچلے درمیانے طبقے کے نوجوان دانشور، مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو قدرِ زائد، طبقاتی کشمکش، تاریخی مادیت، پرولتاری تنظیم، جدوجہد اور انقلاب کے مسائل سمجھانے لگے تھے۔ مزدوروں میں طبقاتی شعور بیدار ہونے لگا تھا۔ انھیں یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ دنیا کے چھٹے حصے میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہو گیا ہے اور وہاں پر مزدوروں اور کسانوں کی حکمرانی ہے۔ ہندستانی مزدوروں کی اپنی مستقل اور آزاد سیاست کا اظہار ہونے لگا تھا۔ ان کی اپنی طبقاتی پارٹی، کمیونسٹ پارٹی غیرقانونی حالات میں بننے لگی تھی۔ 1930 کے بعد کے چند سال میں سوشلزم کا نظریہ درمیانہ طبقے کے دانشوروں میں عام طور سے پھیل گیا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس میں بائیں بازو کی سیاست واضح طور سے نمایاں ہونے لگی تھی۔ نہرو نے اپنی سوانح حیات اور اپنے مضامین میں سوشلزم کی کھلے لفظوں میں تائید کرنی شروع کی۔ کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ کانگریس سوشلسٹ پارٹی بھی قائم ہوئی۔ نوجوان بھارت سبھا، یوتھ لیگوں نے بھی سوشلزم کو اپنایا۔ طلبا کی جو تنظیم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے نام سے بنی، زیادہ تر بائیں بازو کے اثر میں تھی۔ اسی زمانے میں کسانوں کی بھی علاحدہ تنظیم کسان کمیٹیوں اور کسان سبھائوں میں شروع ہوئی۔ یہ بھی سوشلسٹ اور کمیونسٹ کارکنوں نے قائم کی تھی۔ سوشلزم کے نظریہ کی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس نے بنیادی، سیاسی، تہذیبی اور سماجی تبدیلیوں کا محرک اور معمار محنت کش عوام کو قرار دیا۔ اس نظریہ کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ میں آنے لگی کہ سماجی اور سیاسی نظام اور اس پر قائم ہونے والی کلچر، خیالات اور عقائد کی عمارت انسانوں کے ان آلات اور ہنر پر قائم ہوتی ہے جنھیں بروئے کار لاکر وہ اپنی زندگی کو برقرار اور جاری رکھتے ہیں اور مادی اقدار پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے سماج میں بنیادی تبدیلی لانے کے لیے اس کی اقتصادی بنیادوں کو بدلنا ضروری ہے۔ صرف وہی طبقے اور گروہ اس بنیادی تبدیلی کے پیدا کرنے میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے مفاد اس تبدیلی سے وابستہ ہیں۔ اصلاح پسندی کا راستہ، احیائیت کا راستہ غلط ہے۔ اس لیے کہ وہ پرانے نظام کو بنیادی طور سے نہیں بدلتا۔ اصلاح صرف اس حالت میں پسندیدہ ہے اگر وہ ہمیں بنیادی انقلاب کی جانب بڑھنے میں مدد دے۔ گزشتہ تاریخ اور اسلاف کے کارناموں اور اپنے تہذیبی ورثے سے ہمیں ضرور سبق لینا چاہیے، اور ان کا پہلا سبق یہ ہے کہ قدیم اور گزرے ہوئے معاشی، سیاسی، اور تہذیبی دور کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ، علم، فن، ہنر، آرٹ، ادب اور اخلاق کے وہ خزانے جو گزشتہ دوروں میں ہمارے اسلاف نے اپنی جسمانی، ذہنی اور روحانی کاوش سے جمع کیے ہیں، اور ہمارا موجودہ تمدن جن کا نتیجہ ہے، وہ ہمارا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اس سرمایہ کی حفاظت اور اس کا دانشمندانہ استعمال ترقی پسندی کا لازمی عنصر ہے۔ تہذیب کی یہ اقدار ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سمجھنے اور اسے خوشگوار اور بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ ان کے ہی وسیلے سے ہم اپنی موجودہ حیات اور عہد حاضر کے تقاضوں کو پورا کرکے نئی تہذیب کی تخلیق کر سکتے ہیں۔ یہ تھے وہ خیالات جو بیشتر نوجوان ترقی پسندوں کے ذہنوں میں ادب کی اس تحریک کے ابتدائی دور میں گردش کر رہے تھے۔ اس لیے جب ہم نے ترقی پسند ادبی تحریک کی تنظیم کی جانب قدم اُٹھایا تو چند باتیں خصوصیت کے ساتھ ہمارے سامنے تھیں۔ پہلے تو یہ کہ ترقی پسند ادبی تحریک کا رخ ملک کے عوام کی جانب، مزدوروں، کسانوں اور درمیانہ طبقے کی جانب ہونا چاہیے۔ ان کو لوٹنے والوں اور ان پر ظلم کرنے والوں کی مخالفت کرنا، اپنی ادبی کاوش سے عوام میں شعور، حس و حرکت، جوش عمل اور اتحاد پیدا کرنا اور تمام ان آثار اور رجحانات کی مخالفت کرنا جو جمود، رجعت، پست ہمتی پیدا کرتے ہیں، ہمارا اوّلین فرض ٹھہرا۔ اسی سے پھر دوسری بات نکلتی تھی، اور وہ یہ تھی کہ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن تھا جب ہم شعوری طور پر اپنے وطن کی آزادی کی جدوجہد اور وطن کے عوام کی اپنی حالت سدھارنے کی تحریکوں میں حصہ لیں۔ صرف دُور کے تماشائی نہ ہوں، بلکہ حتی المقدور اپنی صلاحیتوں کے مطابق آزادی کی فوج کے سپاہی بنیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ادیب لازمی طور پر سیاسی کارکن بھی بنیں۔ لیکن اس کے یہ معنی ضرور ہیں کہ وہ سیاست سے کنارہ کش بھی نہیں ہو سکتے۔ ترقی پسند ادیب کے دل میں نوع انسان سے انس اور گہری ہمدردی ضروری ہے۔ بغیر انسان دوستی، آزادی خواہی، اور جمہوریت پسندی کے ترقی پسند ادیب ہونا ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے ہم علانیہ اور دانستہ طور پر ترقی پسند ادبی تحریک کا رشتہ ملک کی آزادی اور جمہوریت کی تحریکوں کے ساتھ جوڑنا چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ ترقی پسند دانشور مزدوروں اور کسانوں، غریب اور مظلوم عوام سے ملیں۔ ان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا حصہ بنیں۔ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں جائیں اور انھیں اپنے جلسوں اور کانفرنسوں میں بلائیں۔ اسی لیے ہم اپنی تنظیم میں اس پر زور دینا چاہتے تھے کہ دانشوروں کے لیے ادبی تخلیق کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی سے زیادہ سے زیادہ قرب ضروری ہے۔ بلکہ نیا ادب بغیر اس کے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے ہم چاہتے تھے کہ ہماری انجمن کی شاخیں گوشہ نشین علما کی ٹولیاں نہ ہوں بلکہ ان میں حرکت بھی ہو۔ ادیبوں کے جلسوں میں دوسرے لوگ بھی آئیں۔ ادیبوں کی نگارشات پر کھلی بحثیں بھی ہوں۔ ادیب اور شاعر عام لوگوں سے ملتے جلتے رہیں، ان میں پیوست رہیں، ان سے سیکھیں اور انھیں سکھائیں۔ ہماری انجمن ادیبوں کی انجمن ہوتے ہوئے اور ادبی تخلیق پر زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول کرتے ہوئے بھی انجمن ترقی اُردو یا ہندی سیاہتیہ سمیلن نہ بن جائے بلکہ ایک ایسا متحرک اور جاندار ادبی ادارہ ہو جس کا علوم سے براہ راست اور مستقل تعلق رہے۔ ہم نے انجمن کو اسی طرح منظم کرنے کی کوشش کی۔ |
|