روشنائی -(16) تلخیص – سجاد ظہیر
پچھلے صفحوں میں 1936 سے 1947 کے وسط تک ترقی پسند ادبی تحریک کی ایک تاثراتی اور چلتی پھرتی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گو راقم الحروف اپریل 1948 تک انجمن کا جنرل سکریٹری رہا، لیکن ملک کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کے آزاد مملکتوں کی حیثیت سے قیام کے بعد دراصل اس تحریک کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ 1948 میں پاکستان میں انجمن ترقی پسند مصنّفین علاحدہ قائم ہوئی۔ کل ہند انجمن کے جنرل سکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد چند در چند مجبوریوں اور قباحتوں کے سبب سے میرے لیے اس تحریک میں عملی حصہ لینا ناممکن ہو گیا۔ اس لیے اس نئے دور کے حالات کی کماحقہ، نقاشی کا میں اہل نہیں ہوں۔ انجمن کے دوسرے اراکین اس کام کو مجھ سے بہتر کرسکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ اسے انجام دیںگے۔ بھارت اور پاکستان، دونوں میں 1947 کے بعد ترقی پسند مصنّفین کی تنظیم کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جدید اُردو ادب کے ارتقا پر نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ ترقی پسند ادب کی تحریک آج پہلے سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر پھیل گئی ہے اور بہت سے نئے لکھنے والے اس سے متاثر ہیں۔ قومی تہذیب و تمدن کو اس کی بہترین صورت میں برقرار رکھنے اور اسے عروج وترقی کی نئی درخشاں منزلوں کی طرف بڑھانے کی کاوش اور جدوجہد میں رجعتی طاقتیں رُکاوٹ تو ڈال سکتی ہیں، اندرونی آویزش یا کم نظری سے پیدا ہونے والی خامیاں ترقی کی رفتار کو دھیمی کر سکتی ہیں، لیکن ایسی تحریک جسے اس آگ سے حرارت ملتی ہے، جو جمہورت کے سینے میں دہک رہی ہے، نہ دبائی نہ ختم کی جا سکتی ہے، اس کا مستقبل اس کے ماضی اور حال سے زیادہ روشن ہوگا۔
کلیدِ گنج سعادت قبول اہلِ دل است مباد کس کہ دریں نکتہ شک و ریب کُند ــــ حافظؔ ـــسجّاد ظہیر سنٹرل جیل، مچھ، بلوچستان 17جنوری 1954 |
|