روشنائی – (1) سمت کا تعین – سجاد ظہیر
ترقی پسند مصنّفین کا پہلا حلقہ 1935 میں چند ہندستانی طلبا نے لندن میں قائم کیا تھا۔ انجمن کے مینی فیسٹو (منشور) کا مسودہ وہیں تیار ہوا تھا۔ اس ایک صفحے کی دستاویز لکھنے اور اسے آخری شکل دینے میں ڈاکٹر جیوتی گھوش، ڈاکٹر ملک راج آنند، پرومود سین گپتا، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور سجاد ظہیر شریک تھے۔ ہم نے لندن ہی میں اس مسودے کو سائکلو اسٹائل کرکے ہندستان اپنے دوستوں کے نام بھیج دیا تھا تاکہ وہ اسے یہاں کے ادیبوں کو دکھائیں اور اس پر ان کی رائے لیں۔ اِن دوستوں میں اکثر وہ نوجوان تھے جو ہم سے پہلے ہندستان واپس آچکے تھے اور جنھیں ہم ادیب نہیں تو ترقی پسند کی حیثیت سے اپنا ہم خیال یا ہمدرد سمجھتے تھے۔
علی گڑھ میں ڈاکٹر محمد اشرف تھے، جو اُن دنوں مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے لیکچرار تھے۔ امرتسر میں محمود الظفر تھے، جو وہاں ایم۔ اے۔ او۔ کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ وہاں پر اُن کے ساتھ ان کی دلنواز بیوی ڈاکٹر رشیدجہاں تھیں، جن کے ادیب کی حیثیت سے پہلے ہی چند قدموں نے رجعت پرستی کی کابکوں میں کافی خلفشار مچا دیا تھا۔کلکتہ میں ہیرن مکھرجی تھے، جنھوں نے آکسفورڈ سے واپس آکر بیرسٹری، پروفیسری اور ادبی و سماجی تنقید بیک وقت شرع کر دی تھیں۔ حیدرآباد (دکن) میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں تھے جنھیں دو سال پہلے پیرس میں ہم ایک روشن خیال محب وطن مورخ کی حیثیت سے جانتے تھے۔ انھوں نے بھگتی اور تصوف کی تحریکوں کے متعلق ایک وقیع مقالہ لکھ کر پیرس یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی تھی۔ بمبئی میں ہتھی سنگھ تھے، جو آکسفورڈ میں ہمارے ہم جماعت تھے۔ وہ آرٹ، ادب اور سیاست ہر چیز میں ایک فنی قسم کی تفریحی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ ان کا لباس، ان کے سر کے لہراتے ہوئے پٹّے، ان کے کھانے پینے ، چلنے اور بات کرنے کا انداز ہمیشہ اور ہر روز اچھوتا اور حیران کن ہوتا تھا۔ آکسفورڈ کے انگریز طلبا ان کی صورت اور قطع دیکھ کر ہی دنگ رہ جاتے تھے۔ اور لوگ بھی تھے جن کو ہم نے مینی فیسٹو بھیجا تھا۔ لیکن اب ان کے نام یاد نہیں۔ لندن کے حلقے سے وطن واپس آنے والوں میں مَیں سب سے پہلا تھا۔ جہاز بہت سویرے ہی بمبئی کے قریب پہنچ گیا۔ کیا دلکش منظر تھا وہ! پُرسکون سمندر ہلکے سبز رنگ کا تھا۔ چاروں طرف سفید کہرے کا دھواں چھایا ہوا تھا۔ کنارے پر مالابار ہل اور مغربی گھاٹ کے پہاڑوں کے نیلگوں دھندلے خاکے نظر آرہے تھے۔ اس رات مشکل سے نیند آئی تھی۔ بہت سے مسافر صبح ہی سے تیار ہوکر جہاز کے عرشے پر کنارے کے کٹہرے سے لگے کھڑے ٹکٹکی لگائے اپنے وطن کی سرزمین کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جہاز کبھی بالکل رُک جاتا اور کبھی بہت آہستہ آہستہ کنارے کی طرف رینگنے لگتا۔ اتنے میں سورج کی پہلی کرنوں نے پہاڑوں کی نیلی چوٹیوں کو چپکے سے چھو لیا۔ اب ہمیں اور بہت سے جہاز اور چھوٹی بڑی کشتیاں اور ان کے مستول زیادہ صاف دکھائی دینے لگے۔ روشنی کے ساتھ آفتاب کی تمازت بڑھنے لگی۔ ساحل پر کئی منزلوں والی اونچی اونچی ماڈرن عمارتیں کابکوں کی طرح دکھائی دینے لگیں۔ یہاں تک کہ تاج محل ہوٹل کی بدشکل عمارت اور اس کے پاس ’’گیٹ وے آف انڈیا‘‘ کی محراب پہچانی جاسکتی تھی۔ برطانوی استعمار کے فن تعمیر کا وہ نمونہ ایک بے روح اجنبی بوجھ جو بمبئی کے حسین ساحل پر ایک بھاری سِل کی طرح رکھا ہوا ہے۔ جہاز ڈاک کے کنارے سے آکر لگ گیا۔ چاروں طرف شور اور ہنگامہ تھا۔ ڈاک کے چبوترے پر مسافروں کے دوست اور رشتے دار مرد اور عورتیں ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے اپنے عزیزوں کو پہچان کر دُور سے اُنھیں سلام کر رہے تھے۔ ڈاکر اور قلی اِدھر اُدھر دوڑ بھاگ رہے تھے، اور ان سب کے درمیان سفید وردیاں پہنے اور سفید ہیٹ لگائے بمبئی پولیس اور کسٹم کے انگریز اور اینگلو انڈین افسر، نیلی وردی اور زرد پگڑی والی مرہٹہ پولیس کے سپاہیوں کے حلقے میں سیدھے اور ساکت کھڑے جہاز کی طرف خاموش اور بے حس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ جب جہاز سے لکڑی کی سیڑھی اُتارکر چبوترے تک لگا دی گئی تو انھوں نے اس کے اِرد گرد پوزیشن لے لی اور ان میں چند سب سے پہلے اوپر چڑھ کر جہاز میں آگئے۔ میں اپنا اسباب جمع کرکے تیسرے درجے سے جہاز کے فرسٹ کلاس کے ہال میں آگیا، جہاں پولیس کا انگریز افسر تمام مسافروں کے پاسپورٹ دیکھتا اور انھیں جہاز سے نیچے اُترنے کی اجازت دے رہا تھا۔ اتنے میں میرے دوست ہتھی سنگھ آگئے۔ ہم گلے ملے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ ذرا دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ کچھ لوگ ہمارے بہت قریب کھڑے گفتگو سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے ان پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور ان کی شکل سے پہچان گیا کہ یہ حضرات سی۔ آئی۔ ڈی۔ کے ہیں۔ جب میرے پاسپورٹ دکھانے کی باری آئی تو وہ حضرات میرے پیچھے لگے لگے اس میز تک آئے جہاں پاسپورٹ افسر بیٹھا تھا۔ میرے پاسپورٹ کوکافی دیر تک بڑے غور سے دیکھنے کے بعد اور اس کے اندراجات سے بہت سی باتیں نوٹ کر لینے کے بعد مجھے نیچے جانے کی اجازت تو مل گئی، لیکن سی۔ آئی۔ ڈی۔ والے باڈی گارڈ کی طرح میرے ساتھ چپکے رہے۔ اس وقت صبح کے کوئی ساڑھے آٹھ یا نو بج رہے ہوں گے۔ میں سمجھتا تھا کہ گھنٹے آدھ گھنٹے میں کسٹم والوں کو اسباب دکھاکر فراغت ہو جائے گی اور پھر ہم اپنے دوست ہتھی سنگھ کے وارڈن روڈ کے پُرفضا فلیٹ میں جاکر آرام کریں گے۔ بمبئی کی سیر بھی کریںگے، باتیں ہوںگی، منصوبے بنائیں گے، آگے سفر کی سوچیں گے۔ لیکن ابھی اس میں کافی دیر تھی۔ کپڑوں وغیرہ کا تو میرے پاس ایک ہی سوٹ کیس تھا۔ لیکن دو بڑے بڑے ٹرنک اور بھی تھے جن میں دو ڈھائی سو کتابیں، رسالے، کاپیاں، کاغذات وغیرہ بھرے تھے۔ اس ’’خطرناک‘‘ مال کی تلاشی کسٹم والوں کو لینی تھی۔ میں نے حسرت بھری نظروں سے دیکھا کہ جہاز کے تمام مسافر ایک ایک کرکے کسٹم سے گزر گئے، یہاں تک کہ میں اکیلا رہ گیا۔ میری ایک ایک کتاب، ایک ایک کاغذ کو انگریز کسٹم اور پولیس کے افسروں نے باہر نکال کر ڈال دیا اور ان کی جانچ شروع ہوئی۔ اس حرکت پر میرے کسی قدر استعجاب پر پولیس انسپکٹر نے شرمندہ ہوکر معذرت کی اور کہا کہ… ’’میں یہ سب کچھ اوپر کے احکام کے مطابق کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے اَز راہِ مہربانی میرے لیے ایک کرسی منگوا دی اور کہا کہ آپ آرام سے بیٹھ جائیں۔ یہ تکلیف دہ سلسلہ کوئی تین گھنٹے جاری رہا۔ ان دنوں ہندستان کی آزادی کے متعلق یورپ میں چھپی ہوئی اکثر کتابوں، سوشلزم، کمیونزم، سوویت روس وغیرہ کے متعلق تمام لٹریچر پر سخت پابندی تھی اور اس قسم کی مطبوعات یہاں نہیں لائی جا سکتی تھیں۔ چونکہ مجھے علم تھا، چنانچہ اس طوفانی تلاشی سے پولیس والوں کو کافی مایوسی ہوئی اور شاید اپنا کھسیاناپن چھپانے کے لیے جب انھیں اور کچھ نہیں ملا تو برنارڈ شا کی ’’ان ٹیلی جینٹ ویمنز گائڈ ٹو سوشلزم‘‘، ریمزے میکڈانلڈ کی ’’انڈیا‘‘، فیبین سوسائٹی کے چند پمفلٹ اور ایک دو فرانسیسی کتابیں جن کے نام انھیں ’’مشتبہ‘‘ معلوم ہوئے، اپنے پاس رکھ کر مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ وطن کی سر زمین پر پائوں رکھتے ہی اپنی آزادی اور ایک انسانی حق پر اس ناشائستہ اور جاہلانہ حملے نے بڑی صفائی سے یہاں کی سماجی اور سیاسی حقیقت کے ایک پہلو کو روشن کر دیا جس کا علم تو مجھے تھا لیکن ابھی تک اتنا واضح اور ذاتی تجربہ نہیں تھا۔ بین الاقوامی رجعت پرستی کے جال ملکوں ملکوں میں بچھے ہیں۔ میرے ہندستان آنے کی اطلاع میرے عزیزوں اور دوستوں سے پہلے ہی سامراج کے شکاری کتوں کو پہنچ گئی تھی، اور ان کی نظروں میں، میں اسی لیے نگرانی کا سزاوار تھا۔ چونکہ میں انگلستان اور فرانس میں ترقی پسند اور سامراج دشمن حلقوں میں وقتاً فوقتاً دیکھا جاتا تھا، چونکہ ہندستانی طلبا کے درمیان بیٹھ کر سامراج دشمنی کا کبھی کبھی اظہار کر دیتا تھا۔ ایسے خیالات اور جذبات کا رکھنا اور ان کا اظہار بھلا کیا اہمیت رکھتا ہے؟ بہت کم… اصل چیز تو عمل ہے، تحریک ہے، لوگوں کو متحرک کرنا اور خود متحرک ہونا ہے۔ اس سے ہم ابھی کافی دُور تھے لیکن سامراجیوں اور ان کے اہل کاروں کے نزدیک خیال، تصور اور جذبہ بھی خطرے سے خالی نہیں۔ وہ اس حقیقت کو بھی سمجھتے ہیں کہ خیال اور جذبہ عمل کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور ان کا یہ گمان آخر ٹھیک ہی ہے۔ میں بمبئی میں ایک یا دو دن سے زیادہ ٹھہرنا نہیں چاہتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ اس دوران میں اگر ممکن ہوا تو گجراتی اورمرہٹی زبان کے ایک دو ادیبوں سے مل کر ان سے ترقی پسند ادب کی مجوزہ تحریک کے بارے میں تبادلۂ خیال کر لوں۔ ہتھی سنگھ خود گجراتی ہیں۔ ان سے میں نے کہا کہ تم اگر مجھے گجراتی ادیبوں سے ملادو تو میں تمھارا شکر گزار ہوںگا۔ لیکن چونکہ وہ حضرت ’’صاحب‘‘ قسم کے آدمی ہیں، انھوں نے اوّل تو یہ کہا کہ گجراتی ادب ناقابل اعتنا ہے اور بہرحال انھیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ آخر میرے بہت اصرار پر انھوں نے طے کیا کہ مسٹر کنھیا لال منشی اور ان کی بیوی شریمتی لیلاوتی، ادیب اور ناول نگار کی حیثیت سے گجراتی ادب میں کافی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ اس لیے وہ مجھے ان سے ملا دیں گے۔ خیر، ہم منشی صاحب اور ان کی بیوی سے ملے۔ منشی صاحب بڑے آدمی تھے اور میں ایک طالب علم۔ میں نے جب ترقی پسند مصنّفین کا مجوزہ مینی فیسٹو انھیں دیا تو اس پر اچٹتی سی نظر ڈال کر انھوں نے اسے الگ رکھا، اور جیسا کہ ہمارے لیڈروں کا عام دستور ہے، انھوں نے اپنی ادبی و لسانی اسکیموں پر مجھے لیکچر دینا شروع کیا۔ میرے لیے ضروری تھا کہ میں ان کی باتیں غور سے سنوں جو میری اپنی مسلمہ ادبی بے بضاعتی کے سبب یقینا قابل توجہ تھیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ میں خود ایک ایسا ادارہ بنانے کی کوشش کر رہا ہوں جو ہندستان کی مختلف زبانوں کے ادب کو ایک جگہ جمع کرکے ایک واحد قومی زبان (ہندی) کے ذریعہ سارے ملک میں پھیلائے۔ انھوں نے مجھے متنبہ کیا کہ ہمارے ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب بہت ہے۔ چنانچہ لوگ، خاص طور پر اُردو والے، ہندی کی ترویج کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر ایسے پلان کی مخالفت کرتے ہیں جس میں قومی اتحاد کی کوشش کی گئی ہو۔ انھوں نے کہا کہ چند دنوں کے بعد مجھے خود ہی اس کا علم ہوجائے گا۔ آخر میں انھوں نے مجھے صلاح دی کہ میں اُردو دانوں میں ہندی کے خلاف جو جذبہ ہے، اسے دُور کرنے کی کوشش کروں۔ منشی صاحب کے ان پند و نصائح سے بھلا مجھے کیا اختلاف ہو سکتا تھا؟ اُردو والوں میں ہندی کے خلاف تعصب نہ ہونا چاہیے۔ ہندستان کی مختلف زبانوں کے ادب کا ایک دوسرے میں ترجمہ کرکے قومی ثقافت میں یکجہتی کی کوشش کرنا چاہیے۔ لیکن میرے دل میں بار بار یہ سوال اٹھتا تھا کہ کیا بغیر ترقی پسند نظریہ کے یہ ممکن ہے؟ مختلف تہذیبوں میں اتفاق اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر قوم اور تہذیبی گروہ کے اس حق کو تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنی زبان اور ادب کو آزادی سے اور اپنے طریقے سے ترقی دے سکتا ہے۔ اس ہمہ گیر تہذیبی آزادی کی بنیاد رجعت پرست اور لوٹنے والے طبقوں کے اقتدار کے خاتمے اور عوام کی حاکمیت پر ہی رکھی جا سکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سامراجی اور ان سے منسلک گروہ اپنے استحصال کو برقرار رکھنے کے لیے قوموں اور فرقوں کے مابین منافرت پھیلاتے ہیں۔ ان کا مقصد نفاق اور جھگڑا پیدا کرکے عوام کو منتشر اور کمزور کرنا ہے۔ لیکن محنت کش عوام کے مفادات دوسری قوم یا فرقہ کے محنت کشوں سے متضاد نہیں ہوتے۔ وہ قومی اور بین الاقوامی اشتراک عمل، امن اور عام خوشحالی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ عوام کا اقتدار ہی قومی آزادی کے قیام اور استحکام اور قومی تہذیب کے فروغ کا ضامن ہو سکتا ہے، اور اس کی بنیاد پر بین الاقوامی تہذیبی اشتراک اور اتفاق کی عمارت بنائی جا سکتی ہے۔ کسی بھی زبان یا تہذیب کو دباکر نہیں بلکہ ہر قوم یا تہذیبی اقلیتی گروہ کی زبان اور ثقافت کو پھلنے پھولنے کا پورا موقع دے کر۔ لیکن میں جب بھی گفتگو کو ترقی پسندی کی سطح پر لانے کی کوشش کرتا تو منشی صاحب بات کو بڑی خوش اسلوبی سے ٹال دیتے تھے۔ آخر میں جب ہم رُخصت ہوئے تو انھوں نے وعدہ کیا کہ میں آپ کے اعلان کو غور سے پڑھ کر اپنی رائے دوںگا، اور مجھ سے انھوں نے یہ وعدہ لیا کہ میں بھی ان کی ثقافتی اسکیموں پر ٹھنڈے دل سے اور اطمینان سے غور کرکے رائے قائم کروںگا۔ تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد یہ ظاہر ہو گیا کہ کنھیا لال منشی کا اور ہمارا نقطۂ نظر بنیادی طور پر مختلف تھا۔ ہم اپنے وطن میں ایسی تہذیب اور ایسے ادب کے نمو اور فروغ کے خواہاں تھے جو ہمارے وسیع ملک میں رہنے والی مختلف اقوام اور تہذیبی گروہوں کے آزادی خواہ، روشن، سائنسی اور عقلی رجحانات کو نمایاں کرے، جو بیرونی اقتدار کے پیدا کیے ہوئے غلامانہ اور روح فرسا انتشار کی بیخ کنی کرے۔ ہم قدیم جاگیری دور کی تو ہم پرستی اور مذہبی منافرت کے زہریلے اثرات کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ یہ سامراجی اور جاگیرداری اقتدار کی نظریاتی بنیادیں ہیں۔ ہم اپنے ماضی کی عظیم تہذیب سے اس کی انسان دوستی، حق پرستی، صلح جوئی، اس کا حسن اور سوبھاؤ اخذ کر لینے کے حامی تھے۔ لیکن ہم ان کے جمود، فراریت، عقل دشمنی، اور افیون صفت جھوٹی ’’رُوحانیت‘‘ کو سختی سے مسترد کرتے تھے۔ کنھیا لال منشی سومناتھ کے کھنڈروں کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہماری نظریں موجودہ انسانی جدوجہد کی فیصلہ کن عظمت پر گڑی تھیں اور ہم مستقبل کی ان حسین تعمیروں کا خواب دیکھتے تھے جو ماضی کے تمام مقبروں اور معبدوں سے زیادہ شاندار ہوںگی۔ اس لیے کہ آزاد عوام کی آزاد محنت، ان کے روشن دماغ اور ان کی پاکیزہ روح ان کی تخلیق کریںگے۔ اب ہم نے تین فوری مقاصد کو سامنے رکھ کر کام کرنا شروع کیا۔ پہلا… الہ آباد میں اُردو اور ہندی کے ادیبوں کو ملاکر ترقی پسند مصنّفین کا ایک حلقہ قائم کرنا۔ دوسرے، ترقی پسند مصنّفین کے اعلان نامہ کے مسودہ پر ادیبوں، شاعروں اور عام دانشوروں کے دستخط حاصل کرکے اسے شائع کرنا۔ تیسرے، ہندستان کے مختلف شہروں میں اپنے ہم خیال ادیبوں سے ربط قائم کرکے انھیں آمادہ کرنا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ خوش قسمتی سے چند ہی ہفتے بعد الہ آباد میں (غالباً 1935 کے آخری دنوں میں) اردو اور ہندی کے ادیبوں کا ایک اجتماع ہوا، جس نے ہماری بہت سی ابتدائی مشکلیں آسان کردیں۔ اس زمانہ میں اُترپردیش میں ہندستانی اکاڈمی قائم تھی۔ یہ ایک نیم سرکاری ادارہ تھا جسے مانٹیگو چیمس فورڈ اصلاحات کے ماتحت قائم ہونے والی لیجسلیٹو کونسل کے پہلے وزیروں نے قائم کیا تھا۔ ان وزیروں میں ایک صاحب اودھ کے ایک روشن خیال تعلقہ دار رائے راجیشر بلی تھے جو کلچر سے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے پہلی بار لکھنؤ میں ہندستانی موسیقی کی ایک بڑی کانفرنس منعقد کروائی۔ ہندستانی مصوری کی نمائش کی اور میوزک کالج اور ہندستانی اکاڈمی قائم کی۔ ہندستانی اکاڈمی کے مقاصد بڑے نیک تھے۔ یعنی اردو اور ہندی کو ایک دوسرے سے قریب لانا، ان زبانوں میں دوسری زبانوں کی اہم کتابوں کے ترجمے شائع کرنا، علمی اور ادبی ریسرچ کرنا، بلند پایہ ادب کی تصنیف اور اشاعت کی غرض سے اُردو اور ہندی ادیبوں کی مدد کرنا۔ ڈاکٹر تاراچند جو اُردو اور ہندی کے اتحاد اور ہندستانی کے بہت بڑے مبلغ اور طرف دار تھے، اس اکاڈمی کے سکریٹری تھے۔ لیکن تمام ان تعلیمی اور کلچرل اداروں کی طرح جن کا دُور سے بھی سامراجی حکومت کی مشینری سے تعلق تھا، کلچر کے غیر واضح بلکہ غلط نصب العین، قومی زندگی بے تعلقی، سرمایہ کی کمی، اکاڈمی کے اراکین میں سے بیشتر کی غیرعلمی روش، تساہلی اور باہمی جھگڑوں کی وجہ سے ہندستانی اکاڈمی ایک مستقل جاں کنی کی حالت میں رہتی تھی۔ ڈاکٹر تارا چند نے ہندستانی اکاڈمی کی طرف سے اُردو اور ہندی کے ادیبوں کی یہ کانفرنس، اس غرض سے منعقد کی تھی کہ اکاڈمی میں نئی جان ڈالی جائے۔ خیر اس میں جان تو کیا پڑتی، لیکن ادیبوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا ایک اچھی بات تھی۔ بہرحال یہ کانفرنس ہمارے لیے ان سے ملنے اور تبادلۂ خیال کا بڑا اچھا موقع تھا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے منجملہ اور لوگوں کے منشی پریم چند، مولوی عبدالحق اور جوش ملیح آبادی بھی آیے تھے۔ میں ان میں سے کسی سے بھی اس سے پہلے نہیں ملا تھا۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالسلام ندوی (دارالمصنّفین، اعظم گڑھ)، منشی دیا نرائن نگم (ایڈیٹر ’زمانہ‘، کانپور)، ڈاکٹر محی الدین زور (پروفیسر اُردو، حیدرآباد، دکن)، بھی کانفرنس میں شریک تھے۔ رشید جہاں امرتسر سے آئی تھیں۔ ہم ان سے پہلے ہی سے ترقی پسند تحریک کے متعلق خط و کتابت کر چکے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ اس اجتماع کے موقع پر ادیبوں سے ہماری جو گفتگو اور بحثیں ہوں، ان میں وہ بھی شریک ہوں تاکہ پھر پنجاب جاکر وہاں کے ادیبوں سے ہمارا ربط قایم کرا سکیں۔ اب مجھے وہ تفصیلیں یاد نہیں کہ ہم یعنی رشید جہاں، احمد علی، فراق اور میں اس کانفرنس میں آنے والے ادیبوں میں سے کن کن سے ملے، کیسے ملے اور ان سے کیا باتیں ہوئیں۔ لیکن منشی پریم چند سے پہلی ملاقات میرے دل پر نقش ہے۔ کانفرنس کے دوران ایک دن گارڈن پارٹی ہوئی۔ الہ آباد یونیورسٹی کے وِزیا نگرم ہال سے متصل جو خوبصورت لان ہے، وہاں کانفرنس کے اوقات میں تو کسی سے ملنے اور بات کرنے کا مشکل سے موقع ملتا تھا، اس لیے ہم نے سوچا کہ گارڈن پارٹی میں کوشش کرکے ہم ان لوگوں سے کم از کم متعارف ہو جائیں، جن سے ملنا ہمارے لیے ضروری تھا۔ اس کے ایک دو دن بعد ہم نے طے کیا کہ مولوی عبدالحق، منشی پریم چند اور جوش صاحب کو اکٹھا کرکے ان سے مشورہ کریں اور ہدایات حاصل کریں۔ اپنے ادبی وقار اور بزرگی کے لحاظ سے اُردو زبان میں اس وقت ان سے بڑھ کر اور کون ترقی پسند تھا؟ یہ ملاقات میرے گھر پر (بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ میرے والد کے گھر پر جہاں میں رہتا تھا) علی الصبح ہونا قرار پائی۔ صبح کا وقت شاید ہم نے اس لیے چنا تھا کہ دن کو کانفرنس کی مشغولیت تھی۔ شام کو جوش صاحب شغل کرتے ہیں، اور کام کرنا اصولاً غلط سمجھتے ہیں۔ مولوی صاحب صبح کو سیر کرنے ضرور نکلتے ہیں۔ رشید جہاں، علی گڑھ کی ہونے کی وجہ سے مولوی صاحب سے اچھی طرح واقف تھیں۔ انھوں نے ہی ان سے طے کیا کہ وہ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی (پروفیسر عربی، الہ آباد یونیورسٹی) کے گھر سے جہاں وہ ٹھہرے تھے، ہمارے گھر کی طرف سیر کرتے ہوئے آجائیں اور ناشتہ یہیں کریں۔ رشیدہ نے مولوی صاحب کو میرے گھر پر صبح کے ناشتے کے لیے مدعو تو کر لیا، لیکن اس کی اطلاع نہ مجھے کی اور نہ خود باورچی ہی سے کہا۔ جب مولوی صاحب آگئے تب انھیں یکبارگی اس کا خیال آیا اور گھبرائی ہوئی اِدھر اُدھر گھومنے لگیں۔ مولوی صاحب اپنے کھانے پینے اور دیگر کاموں میں بھی اصول اور اوقات کے بڑے پابند ہیں۔ اب وہ بھوکے بیٹھے ہیں اور اس کے منتظر ہیں کہ ان کے سامنے ناشتہ پیش کیا جائے، اور وہاں کہیں اس کا ذکر ہی نہیں! میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر وہ اتنے چپ کیوں ہیں اور ناراض کیوں لگ رہے ہیں۔ ترقی پسندی کوئی ایسی بُری چیز تو نہ تھی۔ آخر رشیدہ نے مجھ سے کہا کہ… ’’مولوی صاحب کے لیے ناشتے کا انتظام فوراً کرو۔ میں نے انھیں مدعو کیا تھا اور وہ یوں ہی بھوکے بیٹھے ہیں۔‘‘ خیر اس وقت جلدی میں جو کچھ تھوڑا بہت ممکن ہوا، ہم نے مولوی صاحب کے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے بہتر یہ سمجھا کہ مولوی صاحب سے سارا واقعہ بیان کر دوں، اس لیے کہ دعوت میری نہ سہی میزبان میں ہی تھا۔ مولوی صاحب نے اصلی بات جب سنی تو ہنس پڑے۔ پھر ہم دونوں نے مل کر رشیدہ کو بُرا بھلا کہا۔ بہرحال مولوی صاحب ایک خوش جمال خاتون کا قصور معاف کرنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ خاص طور پر اگر انھیں یہ بھی معلوم ہو کہ اسے اُردو کا شوق ہے۔ جوش صاحب بڑی آن بان سے آئے۔ ہاتھ میں چھڑی (جسے ڈنڈا کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا)، جامہ وار کی چست شیروانی، جس پر رنگین پھول تھے، ننگے سر، بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بارات میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے تن و توش اور چوڑے چکلے سینے سے خوشحالی ٹپک رہی تھی۔ لیکن چہرے سے معلوم ہوتا تھا جیسے کہہ رہے ہیں کہ… ’’ہمیں زندگی اور حسن سے بڑا پیار ہے۔ ہمیں زندگی سے پیار کرنے دو۔ اس کے گانے گانے دو۔ البتہ انسانیت اور شرافت کے نام پر ہم سے جو چاہے مانگ لو۔ ہم سب کچھ لٹا دیںگے۔‘‘ پریم چند جی چپکے سے مسکراتے ہوئے آگئے۔ ان کے ساتھ منشی دیا نرائن نگم بھی تھے۔ ہم نے کافی ڈر، انکسار اور جھجک کے ساتھ گفتگو شروع کر دی۔ کچھ چھوٹا منہ اور بڑی بات معلوم ہوتی تھی کہ ہم ان بزرگوں سے ترقی پسند ادب کی تحریک کے مجوزہ مقاصد اور تنظیم کی گفتگو کریں۔ ایسی صورت میں مینی فیسٹو کا مسودہ ہمارے بڑے کام آیا۔ ہم نے اس کی ایک ایک کاپی سب کو پڑھنے کے لیے دے دی۔ مولوی صاحب اپنی صاف گوئی کے لیے مشہور ہیں۔ انھوں نے اسے پڑھ کر فوراً کہا… ’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘ میں نے کہا… ’’ہم چاہتے ہیں کہ اگر آپ سب اس سے متفق ہیں تو اس پر دستخط کردیں۔ ہم ہندستان کی مختلف زبانوں کے ادیبوں سے اس پر دستخط کراکے شائع کردیں گے۔‘‘ مولوی صاحب نے فوراً قلم اُٹھاکر اپنے دستخط کر دیے۔ اس کے بعد اور صاحبوں نے بھی دستخط کر دیے۔ مولوی صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ جب کوئی نوجوان کسی بڑی اور اچھی ادبی اسکیم کو لے کر ان کے پاس جاتا ہے تو ہمیشہ اس سے کہتے ہیں کہ بڑا اچھا خیال ہے۔ اس پر ضرور عمل کرو۔ لیکن تجربے نے انھیں بتایا ہے کہ زیادہ تر ایسے لوگ ٹھوس کام سے گھبراتے ہیں۔ علم و ادب بڑے جان لیوا آقا ہیں۔ ان کی سچی خدمت کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ چنانچہ انھوں نے ہمیں یہ نصیحت کی کہ اعلان شائع کرنے، انجمن بنانے اور جلسے کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اس ادب کی تخلیق کے لیے محنت کریں جو ہمارے نزدیک صحیح اور ضروری ہے۔ منشی پریم چند اور جوش صاحب نے ہمیں کوئی نصیحت نہیں کی۔ وہ خوش معلوم ہوتے تھے۔ شاید وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی برسوں کی ادبی کاوش اب بارآور ہو رہی ہے۔ کم از کم چند نوجوان، زبان سے سہی لیکن واضح طور پر یہ کہنے کے لیے کھڑے تو ہوگئے تھے کہ ادب کا سب سے بڑا مقصد قوم میں انسانیت اور آزادی کا جذبہ اور اتحاد پیدا کرنا ہے، ظلم کی مخالفت کرنا ہے، محنت کش عوام کی طرفداری کرنا ہے، جمہوریت کے قیام کی کوشش کرنا ہے… اور جہالت، توہم پرستی اور بے عقلی کی بیخ کنی کرنا ہے۔ ان کے دل میں ضرور شک آیا ہوگا کہ ہم ان مقاصد کے لیے دل لگاکر کام کریں گے یا نہیں۔ اور ہماری کوششیں کامیاب ہوںگی یا نہیں۔ لیکن وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں آگے لے چلنے اور ہماری مدد کرنے کو پوری طرح تیار معلوم ہوتے تھے۔ منشی دیا نرائن نگم بالکل دوسرے قسم کے آدمی تھے۔ دراز قد، دبلے، سیاہ فام، سر پر فلٹ کی نیچی سی گول ٹوپی اور سیاہ شیروانی پہنے ہوئے، سونے کی کمانی کی عینک لگائے اور پان کھائے، وہ ہمارے صوبہ یو۔ پی۔ کے ان باذوق کائستھوں میں سے تھے جو اُردو ادب اور شعر و شاعری سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اُن کا رسالہ ’’زمانہ‘‘ (کانپور) اُن وقتوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے بڑا معیاری رسالہ تھا جو ہمیشہ وقت سے نکلتا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اچھے کاروباری بھی تھے۔ انگریزی سرکار سے ہمیشہ بنائے رکھتے تھے۔ سیاست میں وہ کانگریس کے مخالف اور لبرل جماعت کے طرف دار تھے۔ انھوں نے ہمارے مینی فیسٹو پر دستخط کر دیے۔ لیکن وہ تاڑ گئے کہ یہ معاملہ یہیں پر ختم ہونے والا نظر نہیں آتا اور ممکن ہے کہ اس تحریک سے وابستگی ان کی سرکار پرستی میں مخل ہو۔ منشی صاحب کم گوئی کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ اس روز زیادہ وقت انھوں نے ہی بآواز بلند باتیں کیں، اور لوگ ان کی باتوں اور لطیفوں پر ہنستے رہے۔ چلتے وقت ان سے رہا نہیں گیا۔ وہ ہمارے ڈرائنگ روم کے قالین کی تعریف کرتے ہوئے میری طرف آنکھ مارکر بولے کہ ’’بھئی اگر ہمارے پاس بھی ایسے بڑھیا اور لاجواب قالین ہوتے تو ہم بھی مزدوروں اور کسانوں کے راگ الاپتے۔‘‘ ان کے اس برجستہ فقرے پر سب ہنس پڑے اور میں کافی شرمندہ ہوا۔ اب ہمارے پاس ہندستان کے مختلف حصوں سے خطوط آنے لگے۔ حیدرآباد (دکن) سے سبطِ حسن نے مجھے لکھا کہ وہ وہاں پر مینی فیسٹو پر دستخط حاصل کرنے اور انجمن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت تک سبط حسن سے میں خود ملا نہیں تھا۔ وہ اس زمانے میں روزنامہ ’’پیام‘‘ (حیدرآباد، دکن) کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے جو قاضی عبدالغفار صاحب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ سبطِ حسن علی گڑھ میں ڈاکٹر اشرف کے شاگرد رہ چکے تھے۔ شاید ان کو اشرف نے علی گڑھ سے ترقی پسند تحریک کے بارے میں لکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سبطِ نے اپنے خط میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ میں نے ڈاکٹر یوسف حسین خاں کو ترقی پسند تحریک کے بارے میں خط بھیجا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ پیرس میں اپنے طالب علمی کے دَور میں ڈاکٹر صاحب موصوف شاید ترقی پسند رہے ہوں۔ لیکن حیدرآباد میں آنے کے بعد وہ آصف جاہی حکمرانوں کی ثناخوانیوں میں مشغول ہیں۔ البتہ قاضی عبدالغفار صاحب ترقی پسند تحریک میں دلچسپی لے رہے ہیں، اور ہر طرح سے اس کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ بنگال میں ہیرن مکرجی نے کئی ممتاز ادیبوں کے دستخط حاصل کر لیے تھے اور کلکتہ میں انجمن کی تشکیل کی کوشش کر رہے تھے۔ بمبئی سے بھی ہمارے پاس کچھ لوگوں کے خط آئے۔ لیکن ہم ابھی تک پنجاب کے ادیبوں میں سے کسی سے باقاعدہ ربط قائم نہیں کرسکے تھے۔ اس لیے رشیدجہاں جب الہ آباد سے امرتسر واپس جانے لگیں تو انھوں نے یہ تجویز کی کہ میں بھی ان کے ساتھ پنجاب چلوں، تاکہ پھر ہم وہاں کے ادیبوں سے مل کر براہ راست گفتگو اور تبادلۂ خیال کر سکیں۔ چنانچہ جنوری 1936 میں، میں پنجاب کے لیے روانہ ہو گیا۔ |
|