حسن منظر کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ ’’انسان، اے انسان‘‘ ان کا تازہ ترین ناول ہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے فن کی بہترین نمائندگی افسانوں میں ہوتی ہی۔ بطور افسانہ نگار ان کا مرتبہ کسی لحاظ سے انتظار حسین اور اسد محمد خاں سے کم نہیں۔ ناولوں میں وہ اپنے دل پسند موضوعات کا زیادہ دل جمعی سے اور زیادہ پھیلا کر جائزہ لیتے ہیں۔ جہاں دیدہ آدمی ہیں۔ ناول ہوں یا افسانے تکرار کا احساس کم ہوتا ہی۔
حسن منظر ذہنی امراض کے معالج کے طور پر بہت مشہور ہیں۔ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے بیمار ضمیر اور شعور کو ضرور کسی نہ کسی حد تک اجتماعی طور پر بیمار ضمیر اور شعور کا عکاس ہونا چاہیی۔ خدا جانے کتنے حیرت افزا یا پریشان کن ماجری، معاملی، الجھنیں اور بکھیڑے ان کے سننے میں آئے ہوں گی۔ کتنے وہ ہمیں سنا چکے ہوں گی۔ کتنے ایسے ہوں گے جنھیں بیان نہ کرنا انہیں بہتر معلوم ہوا ہوگا۔
’’انسان، اے انسان‘‘ ایسے آدمی کی کہانی ہے جو کہیں ٹک کر، سکونِ قلب کے ساتھ، نہیں رہ سکتا۔ اسے تعلقات قائم کرنے تو آتے ہیں، نباہنے نہیں آتی۔ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو ہر تعلق میں اجنبیت کا کوئی نہ کوئی پہلو برقرار رکھتے ہیں۔ اگر کوئی زیادہ قریب آ جائے تو وہ اپنے کسی برتائو یا بے رخی سے اسے پرے دھکیلنے کے لیے کوشاں رہتا ہی۔ جو افراد اس کے ساتھ فریب کرتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ جعل سازی کے مقدمے میں ماخوذ ہو کر جیل کی ہوا کھاتا ہی، بری ہو جاتا ہے اور پھر انہی لوگوں سے میل ملاپ بڑھا کر قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنس کر اور پھانسی کی سزا پا کر دوبارہ جیل جا پہنچتا ہی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے یہ نام نہاد دوست یا ساتھی خیر خواہ بالکل نہیں ان سے ملتا رہتا ہی۔ ایک عجیب طرح کی بے تعلقی ہے جیسے اسے سرے سے پروا ہی نہ ہو کہ دوسرے اسے کتنا نقصان یا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
تلمیذالرحمن (مرکزی کردار کا یہی نام ہے اور ایک سطح پر طنزیہ معلوم ہوتا ہے جیسے بالواسطہ طور پر یہ کہنا مقصود ہو کہ خالقِ حقیقی نے اسے صرف بے تعلقی ہی کی تعلیم دی) کی جلاوطنی یا مصائب کی داستان ختم ہونے میں نہیں آتی۔ سب سے اچھے دن لڑکپن میں ایک چھوٹی جگہ میں گزری۔ اس جگہ میں جنت کی سی معصومیت اور کھُلا پن تھا۔ مشکل یہ ہے کہ انسان کے مقدر میں جنت سے نکلنا لکھا جا چکا ہی۔ وہ ایک جنسی تجربے سے دوچار ہوا جس میں بد نیتی کا کوئی دخل نہ تھا۔ اس بات کا پتا والدین کو چل گیا۔ والد نے فرض کیا کہ وہ بگڑنے لگا ہے اور اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اسے تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر بڑی بہن کے پاس بھیج دیا جائی۔ یہ سادہ لوحی کی انتہا ہے کیوں کہ شہر میں بگڑنے کے زیادہ اسباب موجود ہوتے ہیں۔ باپ کو اس سے محبت نہیں، بہنوئی، جو خود کو دین دار سمجھتا ہی، اسے پسند نہیں کرتا، بہن کو اتنی مقدرت نہیں کہ اپنے شوہر کے خلاف کچھ کر سکی۔ باپ کے انتقال کے بعد تایا اس کی کفالت کی ذمہ اٹھاتے ہیںلیکن ان کے رویے میں بھی بیزار کن روکھا پن ہی۔ نوجوانی میں جن لڑکیوں کو وہ پسند کرتا ہے وہ اسے نہیں مل سکتیں اور جب بہنوئی اسے گھر سے نکال دیتا ہے تو اس کی تمام عمر بھٹکتے ہی گزرتی ہی۔ ایک لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیل ہی اس کے لیے ایسا گھر ہے جہاں سے اسی، موت کے سوا، کوئی نکال باہر نہیں کر سکے گا۔
تلمیذ کی آخر تک سمجھ میں نہیں آتا کہ بگاڑ خود اس کے اندر ہے یا باہر۔ جو شے باہر ہو اس کو سمجھا بھی جا سکتا ہے اور اس سے نمٹنا بھی ممکن ہی۔ اندر کے بگاڑ کو سمجھنا بہت مشکل ہی۔ یہ بگاڑ اپنی ماہیت میں سیمابی ہے اور گرفت میں نہیں آتا۔ اس دبدھے کی وجہ سے تعلقات یا غلط ہوتے ہیں یا وقتی۔ وہ شادی کرتا ہے جو ناکامی پر منتج ہوتی ہی۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے مزاج کو سمجھ نہیں سکتا جو نوجوانی میں گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہی، جرائم پیشہ لوگوں میں زندگی گزارتا ہے اور آخر اس کی لاش ہی گھر آتی ہی۔ اسے دوستوں کی پہچان نہیں۔ یہ نقص زندگی کو مشکل بنا دیتا ہی۔ زیادہ بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے دشمنوں کی بھی کوئی خاص پہچان نہیں۔ ایک دوسرے زاویے سے نظر ڈال کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے دوستوں یا دشمنوں کے ہونے یا نہ ہونے کی پروا بھی نہیں۔ جس کی زندگی یا تھوڑی بہت آزادی چودہ پندرہ سال کی عمر میں ختم ہو گئی ہو ؔ(خواہ اسے اس بات کا پورا شعور ہو نہ ہو) اس کے لیے دوستوں، رشتوں یا سزائوں کے کیا معنی رہ جاتے ہیں! آخری دفعہ جیل پہنچ کر وہ مذہب کی طرف مائل ہو جاتا ہی۔ اس میں بھی اضطراری کیفیت کوئی نہیں۔ محض اُدھر دیکھنے کی خواہش ہے جدھر اس سے پہلے دیکھا نہ تھا۔ نجات، سزا اور جزا کے بارے میں سوچنا خود کو مصروف رکھنے کا بہانہ ہی۔ ناول کے آخر میں ہے کہ ’’تلمیذ کو احساس ہوا، آج میں نے دیکھ لیاسچ کیا ہی۔ کسی پر بدی کی راہ دکھانے کا الزام نہیں رکھتا۔ جیسا ہوں خود کو میں نے ویسا بنایا ہی۔‘‘ یہ اعتراف بھی ادھورا ہی۔پرانا قول کہ ’’آدمی کا شیطان آدمی ہی۔‘‘
زیادہ صحیح ہی۔ ناول کا اختتام سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ کون لوگ ہیں جو جیل توڑ کر تلمیذ کو فرار ہونے کا موقع دے رہے ہیں؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اسے یہ موقع کیوں فراہم کر نا چاہتے ہیں؟ ناول کے بے ربط خاتمے سے خیال آتا ہے کہ شاید تلمیذ کا قصہ کسی اور ناول میں آگے چلے گا۔ کیا یہ فرار نئی زندگی کی علامت ہے یا کسی نئے فریب کی ابتدا؟
’’انسان، اے انسان‘‘ کو ملاوٹ سے پاک واقعیت پسندی کا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہی۔ نثر سادہ ہے لیکن سپاٹ نہیں۔ مجموعی تاثر یہی ہے کہ تمام معاشرے اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کہیں براہ راست، کہیں بالواسطہ، استحصال کی نیم منضبط شکلیں ہیں۔ افراد صرف استحصال کرنے والے ہو سکتے ہیں یا استحصال زدہ۔ –
|