ہاجرہ مسرور … ہنگامہ آرائی سے خاموشی تک
انتظار حسین
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم۔ لیجیے وہ آخری بادل بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہاجرہ مسرور کب سے خاموش چلی آ رہی تھیں۔اردو کہانی کی دنیا میں کتنا طوفان برپا کیا۔ اور پھر جی میں کیا آئی کہ چپ کا روزہ رکھ لیا۔ اور اب ہمیشہ کے لیے چپ ہو گئیں۔ یہ جو پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائیوں میں اردو ادب نے ایک نئی کروٹ لی تھی، اس کا ایک امتیازی پہلو یہ تھا کہ اردو ادب میں عورت نے پہلی مرتبہ جرأت اظہار کا مظاہرہ کیا۔
مگر وہ جو افسانوں کا ایک انگاروں بھرا مجموعہ ’انگارے‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اس میں تو ایک عورت نے ابھی زبان کھولی ہی تھی کہ چاروں طرف ہاہا کار مچ گئی۔ ڈاکٹر رشید جہاں کی کہانی میں کوئی ایسی چونکا دینے والی بات بھی نہیں تھی۔ مگر انگاروں کے ساتھ مل کر وہ کہانی بھی انگارہ بن گئی۔ خاص طور پر علی گڑھ میں شیخ عبداللہ کے مخالفین کو ہنگامہ کرنے کا ایک بہانہ مل گیا۔
خیر رشید جہاں کے نام تو بس کہانی کی دنیا میں ایک بجلی سی چمکی اور پھر غائب۔ مگر اس کے بعد جب عصمت چغتائی نے اس دنیا میں نمود کی تو وہاں جرأت اظہار نے وہ رنگ دکھایا کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
عصمت چغتائی کی ایک کہانی نے، صرف ایک کہانی نے، نسوانی جرأت اظہار کے لیے راہ ہموار کر دی۔ کتنی کہانی لکھنے والیاں ایک دم سے امنڈ پڑیں۔ ان میں سب سے بڑھ کر بہنوں کی ایک جوڑی تھی۔ خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور۔ خاص طور پر ہاجرہ مسرور کے سارے تیور عصمت چغتائی والے تھے۔
اصل میں اس زمانے میں ہمارے ادب میں جنس بھی تو مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ مارکسی خیالات اپنی جگہ مگر فرائڈ کو پڑھ پڑھ کر ہمارے کہانی لکھنے والوں کے بھی تو چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔ ؎
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے
مگر نیا افسانہ نگار کہہ رہا تھا کہ درون خانہ ہنگاموں سے بالکل بے خبر رہنے میں بھی تو خرابی ہے اور عصمت چغتائی نے لکھنے والیوں میں بھی جرأت اظہار پیدا کر دی اور ہاجرہ مسرور کی تو کہانیوں کے عنوان ہی ایسے ہوتے تھے کہ پڑھنے والا خواہ مخواہ چونک پڑتا تھا کہ کہانی میں آخر کونسا بھید بھائو ہے کہ ایسا عنوان دیا گیا ہے۔ چوری چھپے، اندھیرے اجالے، ہائے اللہ، سرگوشیاں۔
ہاجرہ مسرور کی بڑی جیت یہ تھی کہ انھیں بات کہنے کا ہنر آتا تھا اور بول چال کی زبان پر پوری قدرت رکھتی تھیں۔ زبان و بیان کا جادو عصمت چغتائی کے بعد اگر کسی کہانی لکھنے والی نے جگا کر دکھایا ہے تو وہ ہاجرہ مسرور ہیں۔ ایک تو وہاں اظہار بہت بیساختہ تھا اور پھر اشاروں کنایوں میں بات کرنے کا ہنر۔ اس پر جرأت اظہار مستزاد۔ یہ صفات ان کی کہانی کو لے اڑیں۔ پھر اغیار کی آنکھوں دانتوں پر تو انھیں چڑھنا ہی تھا۔
جب انھوں نے تقسیم کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان میں قدم رکھا اور لاہور میں ڈیرا کیا تو سمجھ لو کہ ہنگامے اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ یہاں ایک نیا ادبی رسالہ نقوش، کے نام سے نمودار ہوا تھا۔ وہ احمد ندیم قاسمی کے ساتھ اس کی ادارت میں شامل تھیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ہنگامہ سا ہنگامہ۔
اس زمانے میں ایک تو نظریاتی بحث چل رہی تھی جس میں ترقی پسندوں کے خلاف منٹو، محمد حسن عسکری، ممتاز شیریں پیش پیش تھے۔ مگر صحافیوں کی ایک ٹولی ذاتیات پر اتر آئی۔ جب بحث نظریاتی سے ہٹ کر ذاتی رنگ پکڑتی ہے تو پھرجا و بے جا ہر قسم کی بات ہوتی ہے۔ اور اگر درمیان میں خواتین بھی ہوں تو اغیار کو جا و بے بگھارنے میں بہت سہولت رہتی ہے۔ مگر اس معرکہ میں ہاجرہ، خدیجہ نے بڑے وقار سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا۔
یہ دور جب اپنی ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ گزر گیا تو ہاجرہ کی کہانیاں بھی ہنگامہ خیزی سے گزر کر ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو گئیں۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تحریک پنڈی سازش کیس کے حادثے کی زد میں آ کر منتشر ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ ترقی پسند فکر بھی رفتہ رفتہ انتہا پسندی سے درگزری۔ فکر میں اب ٹھہرائو آ گیا تھا۔ خیر ہاجرہ کی کہانیوں کا تفصیلی جائزہ تو اس وقت اس محدود تحریر میں ممکن نہیں۔
لیکن یہ افسانہ نگار یقینا اس اعتبار سے ایک تفصیلی تجزیئے کی مستحق ہے کہ اس کی کہانیوں کے ساتھ اس کی فکر میں بھی کئی موڑ دکھائی پڑتے ہیں۔ اور پھر اتنی ہنگامہ خیز ادبی زندگی کے ساتھ اردگرد سے یکسر بے تعلقی اور ایک لمبی خاموشی۔ ویسے ایسی مثالیں ادب میں اور بھی موجود ہیں کہ ادب کی دنیا میں آندھی دھاندی آئے، تیزی سے لکھا۔ پھر اپنے لکھے سے بھی اور ادب سے بھی بے تعلق ہو کر چپ سادھ لی۔ مگر جتنا لکھا وہی ادب کا قیمتی سرمایہ بن گیا بلکہ رجحان ساز ثابت ہوا۔
ہاں زاہدہ حنا کو جو ایک غلط فہمی ہوئی ہے اس کی تصحیح ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ انھوں نے ان دو بہنوں کے ساتھ ایک تیسری بہن عائشہ جمال کا بھی ذکر کیا ہے مگر انھیں غلط فہمی کیسے ہوئی کہ ان کی شادی حسن عابدی سے ہوئی تھی اور یہ کہ ان کی کتاب ’’گردسفر‘‘ افسانوں کا مجموعہ تھی۔ حسن عابدی کی جس بہن سے شادی ہوئی تھی وہ ہاجرہ، خدیجہ کی چھوٹی بہن تھیں۔ عائشہ جمال ان میں سب سے بڑی بہن تھیں۔
ان کی شادی ہوئی، اولاد پیدا کی، پھر علیحدگی ہو گئی۔ انھوں نے اور تحریریں بھی بمبئی میں رہتے ہوئے لکھی ہوں گی۔ مگر لاہور میں رہتے ہوئے انھوں نے ایک ناول لکھا جو ’’گردسفر‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اچھا ناول تھا۔ ارے اس کا تو ہم نے دیباچہ بھی لکھا تھا۔ مگر کتابوں کے ڈھیر میں یہ ناول دبا پڑا ہو گا۔ نظر نہیں آ رہا۔
’’گرد سفر‘‘ کو ہماری ادبی دنیا میں زیادہ پذیرائی میسر نہیں آئی تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ عائشہ جمال تو کہیں چھپی بیٹھی تھیں اور خاموشی سے لکھ رہی تھیں۔ کسی تحریک سے، کسی ادبی گروپ سے ان کا ربط و ضبط نہیں تھا۔ ہاجرہ، خدیجہ تو ایک تحریک کے جلو میں نمودار ہوئی تھیں۔ اور پھر ان کے افسانوں کا موضوع بھی ایسا تھا جو اس زمانے کا گرم موضوع تھا۔
ان کے افسانوں کو تو شائع ہوتے ہی پر لگ گئے۔ اور ہاں پاکستان میں عصمت چغتائی تو نہیں تھیں۔ قدامت پسند قارئین کے لیے پھر ہاجرہ مسرور ہی پاکستان کی عصمت چغتائی بن گئیں۔ ایک شریف زادی کہانیوں میں ایسی جرأت اظہار کا مظاہرہ کرے اس کا سارا عتاب اب ہاجرہ مسرور ہی پر پڑا۔
ہمارے نئے ادب میں شریف زادیوں کے جو نئے تیور تھے اور جو قدامت پسندوں پر بہت بھاری پڑ رہے تھے اس کی سزا کسی نہ کسی کو تو بھگتنی
تھی اور ہاں عائشہ جمال کا ناول۔ وہ کسی حساب سے متنازع نہیں بن سکتا تھا۔ ایک اچھا معیاری ناول ضرور تھا۔