کچھ تقسیم کے زمانے کے ادب کے بارے میں – انتظار حسین
14 اگست 47ء صبح آزادی۔ آزادی کی سواری باد بہاری تو آئی۔ مگر طوفاں بداماں آئی۔ ہندو مسلم مناقشت نے فسادات کا رنگ تو بہت پہلے ہی پکڑ لیا تھا۔ مگر اب اس میں ایک رنگ اور شامل ہو گیا تھا۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی۔ بستیاں خالی ہو رہی تھیں۔ قافلے اپنے اپنے قریوں سے اجڑ کر ہندوستان سے پاکستان کی طرف آ رہے تھے اور پاکستان سے ہندوستان کی طرف جا رہے تھے۔
ان دنوں اس صورت حال کے خلاف کیا ردعمل تھا۔ فوری ردعمل تو اخباروں میں آ رہا تھا۔ کیا ریڈیو نے سنایا۔ کیا اخباروں میں لکھا گیا۔ وہ کچھ تو کچھ ہوا میں اڑ گیا۔ کچھ اخباروں کے فائلوں میں دفن ہو گیا یا ضایع ہو گیا۔
اس عہد کی کہانی ادب کے واسطے سے زیادہ محفوظ ہوئی۔ ان قافلوں پر کیا گزری۔ اسپیشل ٹرینوں پر کیا افتاد پڑی۔ جنہوں نے دیکھا اور سہا اور مَر گِر کر پاکستان آن پہنچے یا پاکستان سے نکل کر ہندوستان میں جا کر اطمینان کا سانس لیا انھوں نے جن کے ہاتھ میں قلم تھا رپورتاژ لکھے‘ ڈائریاں لکھیں۔ ڈائریوں کے کتنے اوراق رسالوں کی زینت بنے۔ ان تحریروں کی ترقی یافتہ شکل مختصر افسانے تھے‘ ناول تھے‘ ڈرامے تھے‘ نظمیں غزلیں تھیں۔ شہر آشوب تھے۔
صبح آزادی کے طلوع کے فوراً بعد ایک نظم طلوع ہوئی ؎
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ فیضؔ صاحب کی نظم تھی۔ چھپتے ہی اسے پر لگ گئے۔ مگر پھر فوراً ہی اعتراضات کی زد میں آ گئی۔ اور اعتراضات اس رنگ سے کہ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش وہ لوگ تو ناخوش تھے ہی جنہوں نے اسے پاکستان کے خلاف ایک آواز جانا۔ مگر ہندوستان میں بیٹھے ترقی پسند ادیب بھی اسے پڑھ کر خوش نہیں ہوئے۔ سب سے بڑھ کر علی سردار جعفری نے اس پر برہمی کا اظہار کیا کہ ارے یہاں شاعر نے واضح طور پر کومٹ کرنے سے دامن چھڑایا ہے۔
اسی ہنگام جو افسانہ لکھا گیا سعادت حسن منٹو کا مختصر افسانہ کھول دو‘ اس پر فوراً ہی سرکاری حلقوں سے لے دے شروع ہو گئی۔ نقوش میں یہ افسانہ شایع ہوا تھا۔ فوراً ہی وہ رسالہ ضبط ہو گیا۔
ادھر ہندوستان میں جو ایسا افسانہ لکھا گیا تھا کہ فوراً ہی اسے مقبولیت کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔ مگر پاکستان پہنچ کر وہ بھی متنازع فیہ بن گیا۔ یہ تھا کرشن چندر کا افسانہ پشاور ایکسپریس‘ سب سے بڑھ کر ممتاز شیریں نے اس افسانے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لکھا کہ عجب افسانہ ہے۔ کرشن چندر ترازو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ پشاور ایکسپریس کے ایک اسٹیشن پر جتنے مسلمانوں کو قتل ہوتے دکھاتے ہیں‘ اگلے اسٹیشن پر اتنی ہی تعداد میں ہندوؤں کو قتل کرا دیتے ہیں۔
ادھر پاکستان میں منٹو صاحب کا جب دوسرا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ شایع ہوا تو وہ بھی سرکاری عتاب میں آ گیا۔ مگر جب ان کے افسانچوں کا مجموعہ سیاہ حاشئے‘ شایع ہوا تو عجب ہوا کہ سرکاری عتاب سے تو وہ بچ گیا مگر ترقی پسند تحریک کے عتاب کی زد میں آ گیا۔ پاکستان میں ترقی پسند کے سیکریٹری جنرل احمد ندیم قاسمی تھے۔ اس کتاب پر سب سے درشت تنقید انھیں نے کی۔ پھر ان کا نزلہ کتاب کے دیباچہ نگار محمد حسن عسکری پر گرا۔ اس حساب سے انھیں منٹو پر دہرا غصہ آیا۔ ایسی تحریریں کیوں لکھیں جو ترقی پسند تحریک کی لائن سے سراسر انحراف ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ رجعت پسند عسکری کے دیباچے کے ساتھ کتاب کو شایع کیا۔ منٹو صاحب کا موقف یہ تھا کہ میں سعادت حسن منٹو صیغہ واحد متکلم یہ کہتا ہے کہ میں نے جس طرح دیکھا اور محسوس کیا اسی طرح لکھوں گا۔ وہ ترقی پسند ہوں یا سرکاری حکام ہوں۔ میں ان میں سے کسی کی فکر یا کسی کے احکامات کی پابند نہیں ہوں۔
رپورتاژوں کی بھی سن لیجیے۔ فکر تونسوی لاہور سے بچ بچا کر دلی پہنچے اور ’چھٹا دریا‘ کے عنوان سے رپور تاژ لکھا‘ دلی سے لٹ پٹ کر جو مسلمان آئے ان میں شاہد احمد دہلوی بھی تھے جنہوں نے دلی کی بپتا کے عنوان سے ان پر اور دلی والوں جو بیتی تھی اسے بیان کیا۔ اور ہاں رپورتاژوں کا وہ مجموعہ ’کشمیر اداس ہے‘ کے نام سے شایع ہوا۔ محمود ہاشمی نے مقبوضہ کشمیر میں جو شب و روز گزارے تھے اسے کس جذبے کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ مجموعہ ممتاز شیریں کے دیباچہ کے ساتھ شایع ہوا۔ بس اسی ہنگامہ میں قدرت اللہ شہاب کا طویل مختصر افسانہ ’یا خدا‘ شایع ہوا اور ممتاز شیریں اور محمد حسن عسکری کی داد کا مستحق ٹھہرا۔
شاعروں کے جذبات کی نکاسی مشاعروں میں ہو رہی تھی۔ اور مشاعرے ان دنوں لاہور میں بہت ہو رہے تھے۔ مشاعروں سے ہٹ کر ایک شاعر کو عسکری صاحب نے سنا اور جب اس نے یہ شعر پڑھے؎
دیتے ہیں سراغ فصل گل کا
شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے
منزل نہ ملی تو قافلوں نے
رستے میں جما لیے ہیں ڈیرے
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
تو عسکری صاحب نے اعلان کیا کہ ایسی شاعری جس میں سے اس آشوب کا تجربہ بیان ہوا ہے ناصرؔ کاظمی نے لکھی ہے ابتدائی برسوں میں جو لکھا گیا اور جن ادب پاروں کو زیادہ شہرت ملی یہ ان کا رواں بیان ہے۔ ورنہ افسانوں‘ رپورتاژوں‘ غزلوں‘ نظموں‘ ناولوں کا سلسلہ آگے بھی چلتا رہا۔ ایک سیلاب تھا جس میں اچھا برا بہت کچھ لکھا گیا۔
جب تھما تو اس ساری نگارشات کو جو اردو ہندی پنجابی بنگلہ اور دوسری زبانوں میں لکھی گئیں انھیں سب سے بڑھ کر ہندوستان کے علمی اداروں نے‘ ادبی نقادوں نے مورخوں نے تقسیمی ادب کے ذیل میں یکجا کیا اور ان پر تحقیقی کام کیا۔ مگر پاکستان کے کسی ادبی‘ علمی‘ یا تعلیمی ادارے نے اس ادب کو جس میں ایک پورے عہد کی داستان قلمبند ہوئی ہے اس قابل نہیں جانا کہ اس پر کچھ تحقیق کی جائے۔
سو آج کا طالب علم یا ادب کا قاری جب اس عہد کو جاننا چاہتا ہے تو ہندوستان میں اس ادب پر جو تحقیقی کام ہوا ہے اور جو اس کی تعبیرات ہوئی ہیں انھیں سے استفادہ کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک کام ہمارے پیش نظر ہے۔ پروفیسر الوک بھلہ نے تقسیم سے متعلق مختصر افسانوں کو جس زبان میں بھی وہ لکھے گئے ہوں تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ انھیں چھان پھٹک کر منتخب افسانوں کو انگریزی میں منتقل کیا ہے اور تین جلدوں میں انھیں پیش کیا ہے۔ جس جس زاویہ نظر سے لکھے گئے ہیں اس حساب سے ان کی قسم بندی کی گئی ہے۔ منٹو تو اپنے تقسیمی افسانوں کے حساب سے سب سے نمایاں ہے ہی۔ مگر پاکستان کے اور افسانے بھی ہیں جنھیں امتیازی حیثیت دی گئی ہے۔ جیسے اشفاق احمد کا گڈریا‘ جمیلہ ہاشمی کا جلاوطن‘ آصف فرخی کی یادوں کی کہانی۔
مگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ پاکستان کے علما و محققین نے تقسیمی ادب کو کس طرح جانچا پرکھا ہے۔ ان کی مدد سے تقسیم کے معاملہ کو کتنا سمجھا ہے اور کس طرح تعبیر کی ہے تو اسے سخت مایوسی ہو گی۔ پاکستان کے علمی تحقیقی اداروں نے اسے قابل اعتنا ہی نہیں جانا۔ افسوس صد ہزار افسوس۔……………