ن م راشد – اے حمید کی یادیں
راشد صاحب ہر ایک سے اپنی مخصوص دلکش اور شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ بات کرتے۔ ہنستے تو اُن کے چھوٹے چھوٹے دانتوں کی قطاریں دکھائی دیتیں۔ کسی لطیفے پر قہقہہ لگاتے، تو سر پیچھے کو کر لیتے۔ فارسی کے شعر بہت سناتے تھے۔ انہیں سینکڑوں فارسی کے شعر یاد تھے۔ میں ریڈیو سٹیشن کے لان اور سٹوڈیوزمیں گھومتا پھرتا رہتا تھا،ایک دن میں نے ایک کمرے میں میرا جی کو دیکھا۔ عجیب قسم کے رومال کو گلے میں با ندھے کرسی پرپائوں رکھے، ایک خالی کمر ے کی میز پر بیٹھے تھے اور خلا میں گھور رہے تھے۔ کینٹین میں ہری چند چڈا، ایس ایس ٹھاکر، چندر کانٹ اور شیام کی ہونے والی بیوی ممتاز کوبھی دیکھا۔ زیب قریشی اور پنڈت اور اونکار ناتھ ٹھاکر اور گوالیار والے پنڈت کرشنا رائو کو بھی دیکھا۔
ریڈیو کی کینٹین کے باہر نیم کا ایک گھنا درخت تھا۔ اس درخت کی چھائوں میں ایک لمبا میز بچھا رہتا، جس کے دونوں جانب بنچ لگے تھے۔ دلی ریڈیو کے آرٹسٹ اسی میز پر بیٹھ کر چائے پیا کرتے اور اپنے سازوں کو سر میں کیا کرتے تھے۔ کینٹین کا ایک کشادہ کمرہ بھی تھا، جس کی فضا شامی کبابوں، آملیٹ اور دال کے تڑکے کی خوشبو سے بوجھل رہتی۔ راشد صاحب کو میں نے اس کینٹین میں کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ اپنے کمرے میں ہی چائے پیتے اور دوست احباب وہیں ان کے پاس آکر مجلس جماتے تھے۔ صرف اس وقت وہ سر سے پائوں تک شاعر لگتے جب اپنی کوئی نظم سناتے، اس وقت راشد صاحب کے چہرے پر ایک چمک سی آ جاتی۔ کبھی وہ آنکھیں بند کر لیتے اورسر کو آہستہ سے پیچھے کو لے جاتے۔ نظم کے الفاظ ان کے ہونٹوں سے ایک ایک کر کے بڑی شائستگی کے ساتھ باہر آتے۔ لفظ کا وہ پورا حق ادا کرتے۔ وہ اسے پوری طرح آراستہ کر کے آواز کے حوالے کرتے۔ مجھے ان کی نظم سنانے کا انداز بڑا پسند تھا۔
تیس ہزاری کے علاقے میں اپنے قیام کے دوران ن م راشد صاحب چونکہ تین چار کوارٹر چھوڑ کر رہتے تھے،اس لئے شام کو اکثر ہمارے ہاں آ جاتے۔ بھائی جان اور وہ برآمدے میں یا کبھی دیوان خانے میں بیٹھ کر چائے پیتے اور اپنے خاص انداز میں دھیمے دھیمے بڑی مزیدار باتیں کرتے۔ بات کر کے کبھی ذرا سا مسکراتے، کبھی بغیر آواز کے ہنستے اور کبھی قہقہہ لگا کر سر پیچھے کو لے جاتے۔ فارسی اور انگریزی ادب پر راشد صاحب بے تکان گفتگو کرتے۔ مجھے اُن کی باتیں بھی بہت پسند تھیں اور گفتگو کرنے کا انداز بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ میں اُن کے قریب آکر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ کسی وقت وہ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے: ’’سنائو پھر پہلوان ! ایکٹر بننے بمبئی کب جا رہے ہو؟‘‘ ان دنوں مجھ پر بمبئی جا کر ایکٹر بننے کا بھوت سوار تھا۔ میں ہنس کر خاموش ہو جاتا۔
راشد صاحب پنجابی میں بھی اس انداز سے بات کرتے کہ معلوم ہوتا اُردو بول رہے ہیں اور اُردو اس طرح بولتے کہ لگتا فارسی بول رہے ہیں۔ اُن کی زبان سے جو لفظ بھی ادا ہوتا بڑا دلکش لگتا۔ کوئی بھی بازاری لفظ کبھی اُن کی زبان پر نہیں آتا تھا۔ بات اگر گنڈیریوں کی بھی ہوتی، وہ ہمیشہ کلاسیکی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔
راجہ مہدی علی خاں سائیکل پر دفتر جاتے تھے۔ راشد صاحب کو ریڈیو کی گاڑی لینے آتی، کبھی وہ تانگے میں سوار ہو کر ریڈیو سٹیشن جاتے۔ لباس کے معاملے میں بڑے وضع دار تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے۔کوٹ پتلون سے زیادہ رغبت تھی۔ گھر میں ململ کا کرتہ اور چوڑی مہری کا لٹھے کا پاجامہ پہنتے۔ گرمیوں میں اکثر بش شرٹ اور پتلون میں ملبوس رہتے۔ دلی میں تیس ہزاری کے زمانے میں اُن کے سر پر کافی بال تھے، بعد میں تو کافی جھڑ گئے اور سر ننگا ہو گیا، لیکن ان کا بالوں کے بغیر سر بھی بڑا خوبصورت لگتا تھا۔ جیسے کسی رومن مجسمے کا سر ہو!۔
ایک روز تیسرے پہر کالی گھٹا چھا گئی۔ نیم کے درخت ساون کی ٹھنڈی ہوا میں جھولنے لگے۔ ہمارے کوارٹر کے سامنے بھیروں جی کا مندر تھا۔ اس کے برابر میں نیم کے درختوں کے جھنڈ تھے اور دھوبیوں کے کوارٹر بنے ہوئے تھے۔ ساون کی ہلکی ہلکی پھوار میں دھوبیوں کی بچیوں نے درختوں میں جھولے ڈال رکھے تھے اور انہیں جھلاتے ہوئے گا رہی تھیں: ؎آئی ساون کی بہار رے راشد صاحب برابر میں کرشن چندر کے کوارٹر سے نکل کر ہمارے کوارٹر کی طرف آئے۔ میں برآمدے میں بیٹھا لڑکیوں کو ساون کے گیت گاتے اور جھولے جھلاتے دیکھ رہا تھا۔ راشد صاحب نے مسکرا تے ہوئے کہا: ’’پہلوان موسم انجوائے کر رہے ہو، ممتاز صاحب کہاں ہیں؟‘‘ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور بتایا کہ بھائی جان شہر کسی کام سے گئے ہیں۔ پھوار بارش میں تبدیل ہو گئی تھی۔ میں بھاگ کر اندر سے راشد صاحب کیلئے کرسی لے آیا۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ موسم بڑا خوشگوار تھا۔ ساون کی جھڑی لگی تھی۔ سامنے لڑکیاں جھولے جھلاتی گیت گا رہی تھی۔ راشد صاحب کہنے لگے: ’’پہلوان لاہور کی لڑکیاں ساون کے گیت گاتی ہیں کیا ؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ میں نے لڑکیاں جھولے جھلاتی ضرور دیکھی ہیں، مگر ان کے گیت کبھی نہیں سنے۔ تھوڑا سا مسکرائے اور بولے: ’’یار ہمارے لٹریچر نے بہت جھوٹ بولا ہے۔ بس اب ختم کر دینا چاہیے یہ کاروبار۔‘‘ اتنے میں تانگہ آ کر رکا اور بھائی جان اس میں سے اترے، پھر ان کی راشد صاحب کے ساتھ مجلس جم گئی۔ ایک کوارٹر چھوڑ کر اوپندر ناتھ اشک بھی آ گئے۔ کچھ دیر بعد راجہ مہدی علی خاں بھی سائیکل پر بھیگتے تشریف لے آئے اور مجلس کی رونق دوبالا ہو گئی۔ (کتاب : گلستان ادب کی سنہری یادیں) ٭…٭…٭