شمس الرحمن فاروقی – ہمارے لیے منٹو صاحب
عزیزم و برادرم اشعر نجمی، سلام علیکم۔
یہ تم نے اچھا کیا کہ منٹو پر گفتگو کے آغاز کی غرض سے کچھ سوالات مرتب کیے اور ان سوالات کو منٹو کی کچھ تحریروں پر مبنی کیا۔ امید ہے کہ مستجیب حضرات ان سوالوں ہی کو مد نظر رکھ کر اپنی بات کہیں گے ۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ میرا جی اور منٹو دونوں کو ان کی سویں سالگرہ کے موقعے پر یاد کیا گیا۔ لیکن رنج اس بات پر پھر بھی رہے گا کہ میرا جی کو کم یاد کیا گیا اور منٹو کو زیادہ، در حالے کہ یہ دونوں ہی ہمارے جدید ادب کے سب سے بڑے نام ہیں۔ میرا جی کے کام کی ضخامت اگرچہ منٹو کے مقابلے میں کم ہے،لیکن تنوع دونوں کے یہاں یکساں ہے اوردونوں ہی اس بات کا ا ستحقاق رکھتے ہیں،بلکہ اس کا تقاضا کرتے ہیں،کہ انھیں گفتگو میں بیش از بیش قائم رکھا جائے ۔ ہر چند کہ منٹو کے مقابلے میں میرا جی کے یہاں گہرائی زیادہ ہے، لیکن منٹو کی خوش نصیبی کہیے کہ ان کے یہاں “سماجی معنویت”؛ ” معاصر دنیا کے مسائل کی عکاسی”؛ “سماج کے ‘گھناؤنے ‘ پہلوؤں کا شعور” وغیرہ دریافت کرنا آسان ہے اور یہ چیزیں ہماری تنقید، خاص کر فکشن کی تنقید کا من بھاتا کھاجا ہیں ۔ افسانے کے پلاٹ کا خلاصہ افسانے کے کرداروں کا سر سری بیان، اورافسانے میں مندرج ‘سماجی ‘مسائل پر بحث، یہ باتیں بند کر دی جائیں تو فکشن کے ہمارے نقادوں کا دم بند ہو جائے ۔
تم نے جو سوال قائم کیے ہیں وہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم فکشن، اور منٹو کے فکشن کے بارے میں ذرا مختلف انداز میں سوچنے کی کوشش کریں ۔
تمھارے سوالوں پر اظہار خیال کرنے سے پہلے ایک بہت ضروری بات کہنا چاہتا ہوں :منٹو کو محض جنسی مضامین اور فحاشی پر مبنی تحریروں تک محدود سمجھنا منٹو کے ساتھ بد دیانتی اور بے انصافی ہے ۔ بد دیانتی اس لیے کہ انھیں جنس اور فحش تک محدود سمجھ کرہم منٹو کے ان ہزاروں صفحات کے وجود سے انکار کرتے ہیں جن میں جنس وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور بے انصافی اس لیے کہ کسی بھی تخلیق فنکار پر کوئی لیبل لگا کر (خواہ وہ کتنا ہی جچتا ہوا اورچبھتا ہوا کیوں نہ ہو)ہم اس کی وقعت کو ماچس کے لیبل، یا حد سے حد تک وہسکی یا برانڈی کی بوتل کے لیبل کی سطح پر لے آتے ہیں ۔ یہ بات عرب فلاسفہ کے وقت سے سب پر روشن ہے (یا اگر روشن نہیں ہے تو اس کی وجہ ہماری ہی کم بینی ہے ) کہ کوئی ایسا بیان، یا کوئی ایسا قضیہ غیر ممکن ہے جس میں سب باتوں کی علت بیان ہو سکے ۔ لہٰذاکسی بھی مظہرہ،یعنی Phenomenonکو ہم چند لفظوں میں نہیں بیان کر سکتے ۔ پھر تخلیقی فنکار کو چند لفظوں میں بیان کر دینے کی کوشش ناکام ہی نہیں ،مذموم بھی کہی جانے کی مستحق ہو گی۔
یہ منٹو کی بد قسمتی اور ہماری تنقید کا شرمناک عجز ہے کہ ہم منٹو کو صرف جنس نگار سمجھیں ۔ یہ ہماری تنقید کی بد نصیبی اور ہمارے پڑھنے والوں کے ساتھ ظلم عظیم ہے کہ منٹو کو “رنڈیوں کا افسانہ نگار”، اور “فحشیات کا ماہر”، یا بہت سے بہت “فسادات کے موضوع پر چند شاق انگیز افسانوں کا مصنف” کہہ کر ٹال دیا جائے ۔ اسی طرح ہم لوگوں نے داغ کو یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ وہ کوئی شاعر تھوڑی ہیں، صرف رنڈیاں ان کا کلام گاتی تھیں ۔ اس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ داغ کا تو کچھ نہیں بگڑا، لیکن ہمارے یہاں ایسے شعرا کا بھی فقدان ہونے لگا جو صاف اور رواں زبان میں دو مربوط مصرعے موزوں کر سکیں ۔
اسی طرح منٹو کا تو کچھ نہیں بگڑا (بلکہ اگر بازار بھاؤ کے تناظر میں بات کی جائے تو “رنڈیوں کے افسانہ نگار” اور “فحش نگار” کی کتابیں بے شمار تعدا دمیں اردو کے علاوہ ہندی اور بر صغیر کی دوسری زبانوں میں چھپ رہی ہیں ۔ انگریزی میں بھی منٹو بکثرت دستیاب ہیں ۔ پتہ نہیں ان کا فائدہ منٹو کے اعقاب تک پہنچتا ہے کہ نہیں،لیکن ناشرین اور مترجمین کے تو پو بارہ ہیں ۔ )تو نقصان تو منٹو کے بعد کی نسلوں کا ہوا کہ انھوں نے منٹو کو صرف ایک آنکھ سے، اور وہ بھی کانی آنکھ کے کونے سے دیکھا اور وارث علوی جیسے بڑے نقاد کو”بو” جیسے معمولی افسانے کی تعریف میں منھ سے (اور کیا معلوم کہیں اور سے بھی)رال ٹپکاتے ہوئے رطب اللسان ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ بگڑا تو ہمارے نوجوان قاری کا، کہ وہ منٹو کی حقیقی بصیرتوں، ان کے فن کی حقیقی گہرائیوں، افسانہ نگاری کے فن پر ان کی وسیع الذیل دسترس سے ناواقف رہ گئے ۔ یہی وجہ ہے آج تمھیں “اثبات” کے لیے اچھے افسانوں کی خاطر دور دور تک نظر دوڑانی پڑتی ہے کہ آج کا افسانہ نگار کہاں ہے جسے ہم منٹو کے مقابل نہ سہی، منٹو کے سائے میں قائم کر سکیں ۔
اور اس پر طرہ یہ کہ ابھی یہی متعین نہیں ہوا کہ جنس نگاری یا فحاشی ہوتی کیا ہے ؟تمھارے گذشتہ شمارے کے سینکڑوں صفحات یوں تو بہت کام کے ہیں، لیکن ان سے یہ ایک کام نہ ہو سکا کہ جنس نگاری کی تعریف متعین ہو جائے ۔ کانٹ صاحب (Emmanuel Kant)فرماتے تھے کہ حسن د ر اصل قد ر مطلق ہے ۔ انسان میں یہ صلاحیت از خود ہے اور یہ ودیعۂ ازل ہے کہ وہ حسن کو پہچان لیتا ہے ۔ لہٰذا، اگر ایک شخص کسی شے کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ اس شے میں حسن ہے، تو گویا وہ پورے عالم انسانی کی طرف سے فیصلہ کرتا ہے ۔ چنانچہ گلاب کا پھول حسین ہے ۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی اکیلا شخص ہو، یا انسانوں کا ایک گروہ ہو، سب ہی یہ فیصلہ کریں گے کہ گلاب کا پھول خوبصورت ہے ع
برایں عقل و دانش ببایدگریست
ایسا نہیں کہ کانٹ جانتا نہیں تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ دنیا کی آبادی کابہت بڑا حصہ، یعنی کانٹ کے وقت کی یورپی آبادی سے بہت زیادہ لوگ، کچھ نہیں تو دس گنا زیاد ہ لوگ ایسے ہیں جن کی نظر میں سفید چمڑی، بھورے یا ہلکے زرد رنگ کے بال، یا سرخ بال، نیلی یا بھوری آنکھیں، پتلے پتلے ہونٹ، زردی مائل دانت، یہ سب باتیں حسن نہیں بلکہ بد صورتی اور بد قوارگی کی دلیل ہیں ۔ لیکن کانٹ صاحب اور ان کے زمانے کے مغربی لوگوں کی نظر میں خود ان کے اپنے سوا دنیا کے سارے انسان یا تورتبۂ انسانیت سے خارج تھے، یا عام انسانی معیار سے اس قدر فروتر تھے کہ انھیں انسان شمار کرنا غلط تھا۔ انسانوں کی برابری کا تصور، جس کی تصدیق اور توثیق اسلام نے نہایت قوت کے ساتھ کی، وہ تو الگ رہا، اس زمانے کے مغربیوں کے حسابوں تواحساس تشخص سے لے کراظہار عشق کا بھی بس ایک ہی مطلق معیار تھا۔ ان کے یہاں کثرت اظہار کی گنجائش نہ تھی۔ مولانا ے روم کے قول سے وہ واقف نہ تھے، اور اگر ہوتے بھی تو اسے مسترد کر دیتے
ہندیاں را اصطلاح سند مدح
سندیاں را اصطلاح سند مدح
ایسی صورت میں برٹرنڈ رسل (Bertrand Russell)نے کہا تو کیا غلط کہا کہ ہٹلری جرمنی کے نظام حکومت کی بنیاد کانٹ کے افکار پر ہے ۔ اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ سیاہ فام لوگوں کے بارے میں مغربی اقوام کے بلند ترین مفکروں کا خیال کیا تھا توکارلائل صاحب (Thomas Carlyle)سے پوچھ آؤ ۔ ان کا خیال تھا کہ نیگرو لوگوں کا ایک حق، جو دائمی ہے اور جسے بے چون و چرا قبول کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انھیں اپنی معاش حاصل کرنے کے لیے جبریہ کسی مناسب کا م پر لگا یا جائے (to be compelled to do competent work)،اور غرب الہند کے باسیوں کو تو صرف ” منفعت بخش اور کرم گستر چابک ہی وہ شے ہے جو انھیں کام کی طرف راغب کر سکتی ہے ۔ ” یہ وہی کارلائل ہیں جن کا یہ قول ہم نے حرز جاں بنا رکھا تھا کہ انگریز اپنی مقبوضہ نو آبادیات چھوڑسکتا ہے لیکن شیکسپیئر کو نہیں چھوڑسکتا۔ (ہم لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ واہ، دیکھو اپنے علم و ادب کی قدر یوں کرتے ہیں !)لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ کارلائل اور اس کے ہم قوموں کی نظر میں سفیدفام لوگوں کے سوا دنیا میں کوئی انسان نہیں بستے ۔
تمھیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آیا فحاشی، عریاں نگاری، جنس زدہ تحریر، وغیرہ کی تعریف ہمارے قدیم عرب یا سنسکرت ادبی معاشرے کے یہاں بھی کچھ ہے ،کہ نہیں ہے ؟ تمھیں سن کرحیرت ہو گی کہ ہماری کلاسیکی روایات میں فحاشی وغیرہ کوئی مسئلہ تھی ہی نہیں ۔ ہمارے قدیم ادب میں نظریہ ساز نقاد، خواہ وہ عرب ہوں یاہندو، انھوں نے فحش اورغیر فحش کی تفریق نہیں کی ہے ۔ (اور یہی بات چین کی ادبی تہذیب پر بھی منطبق ہو سکتی ہے ۔ )
تو یہ باتیں ہماری قدیم ادبی روایت میں نہیں ہیں (یہ مغربیوں کی دین ہیں )، اس پر طرہ یہ کہ یہ باتیں کبھی متعین نہیں ہو سکتیں، اور خصوصاً اس طرح متعین نہیں ہو سکتیں کہ ان پر کثیر تعداد میں لوگوں کا اتفاق ہو جائے ۔ پھر ان کی بنیادپرکسی ادبی بحث کو قائم کرنا لاحاصل ہے ۔ حقیقت نگاری، فحاشی، سماجی شعور،اصلاح معاشرہ میں ادب کاتعاون،قومی مسائل کو سلجھانے میں ادب کا کردار، یہ سب اسی قبیل کی اصطلاحیں ہیں ۔ کسی تخلیقی فنکار، اور خاص کر منٹو جیسے فکشن کے فن کار پر، ان اصطلاحوں کی بنیادپر کوئی محاکمہ قائم کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ان چیزوں سے دامن کشاں رہ کر تم نے اچھا کیا ۔
لیکن مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ تم نے ہمیں منٹو پر کسی نئے مسئلے کی طرف متوجہ کرنے ، یا منٹو کو سمجھنے کے لیے کسی نئے طرز فکریا تنقیدی طریق کار کی طرف اشارہ کرنے کے بجاے منٹو میں کچھ نئی طرح کی “خرابیاں ” ڈھونڈ کر ہمیں دعوت دی ہے کہ ہم منٹو کا دفاع کریں (یا اپنا دفاع کریں،کیونکہ ہم منٹو کے حلقہ بگوش نہیں تو معتقد ضرور ہیں ، کیونکہ منٹو صاحبع
معتقد کون نہیں آپ کی استادی کا)
نئی طرح کی “خرابیوں “سے میری مراد یہ ہے کہ اگر عام طور کہا گیا ہے کہ منٹو فحش نگار ہیں، ان کو “پست زندگی کے کرداروں “(Low life characters)سے بہت دلچسپی ہے، وغیرہ، تو تم نے اپنی بات یہاں سے شروع کی ہے کہ منٹو میں خود پسندی بہت تھی، وہ خود اپنے بارے میں افواہیں پھیلا کر توجہ کا مرکز بنے رہنا چاہتے تھے، وہ خود مصلح قوم اور لیڈر کی طرح پیش کرنے کی “اوچھی حرکتوں “کے مرتکب ہوتے رہتے تھے ۔ ان کی باتوں میں خیال اور فکر کی گہرائی نہیں ہے، وغیرہ۔ یہ باتیں تم نے بقول خود منٹو کی تحریروں کو پڑھ کر حاصل کی ہیں ۔ تم یہ بھی کہتے ہوکہ اسی جذبۂ خود پسندی کے تحت وہ “آخری دم تک “سیاسی مضامین اور خاکے لکھتے رہے ۔
تمھارے بعض بیانات پر بعض نظری یعنی Theoretical اعتراض وارد ہوتے ہیں، اور بعض ادبی تنقیدی بھی۔ مثلاً یہ خیال، کہ کسی کی تحریریں پڑھ کر ہم اس کی شخصیت کو جان سکتے ہیں، قطعاًغیرمنطقی ہے ۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت نہیں اور نفسیاتی طو رپرکوئی مسلمہ بات نہیں۔ اور یہ بات تو محض سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں کہ “شخصیت” کچھ اتنی سادہ اور اکہرے ابعاد کی حامل ہوتی ہے کہ کسی شخص کی چند تحریریں ہی پڑھ کر ہم اس کی شخصیت کو سمجھ سکتے ہیں ۔ عموماً تو یہی کہا جاتا ہے کہ کسی تخلیق کاراوی (Narrator)کوئی اور ہوتا ہے اور مصنف کوئی اور۔ یہ بات مارسل پروست (Marcel Proust)جیسے درون بیں اور گنجان ناول نگار کے لیے کہی گئی ہے کہ جس شخص (یعنی پروست) نے ناول لکھا وہ کوئی اور ہے اوروہ گوشت پوست کا شخص جسے ہم مارسل پروست کہتے ہیں وہ کوئی اور ہے ۔ یہ تو ہماری اردو کے ننھے منے بے ضر ر فکشن نگا رہیں کہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں، اسے فوراً کا غذ پر انڈیل آتے ہیں ۔ حقیقی ادب کی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ ادبی تنقید میں ایسا کوئی اصول نہیں جس کی رو سے ہم کہہ سکیں کہ اگر کسی فنکار کی شخصیت میں سقم ہیں، یا خرابیاں ہیں، یا وہ مثلااًخلاقی طورپر نہایت کمینہ تھا، تو وہ بہت خراب فن کار بھی ہے ۔ تم نے خاص طورپر مضامین کے حوالے سے کہا ہے کہ ان میں “جذبا تیت تو ہے لیکن خیال و فکر کی گہرائی نہیں ہے ۔ ” یقینا ایسا ہو گا، لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ناکام افسانہ نگار بھی تھا۔ یہاں تم نے ایک زبردست زقند لگائی ہے کہ اگر منٹو کے مضامین میں خیال و فکر کی گہرائی نہیں ہے تو “یہی جذبہ [کون سا جذبہ؟]منٹو کے تخلیقی عمل پر بھی اثر انداز ہوا۔ ” ایمان کی کہو، یہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کی مثال نہیں تو اور کیا ہے ؟بہت سے لوگوں کے مضامین (تنقیدی، سیاسی، یا سماجی)پھسپھسے اور بے جا ن ہیں لیکن ان کے تخلیقی کارنامے بے انتہا قوت مند اور درخشاں ہیں ۔ کیا تمھارے خیال میں اقبال کا “علم الاقتصاد” اسی رتبے ،یا اسی رتبے کے آس پاس کا کارنامہ ہے جو مثلاً”بانگ درا” کا ہے ؟کیا مولانا ظفر علی خاں کی نظم، ان کی نثر سے بدرجہا زیادہ پر زور اور موثر نہیں ؟کیا پریم چند کی تنقیدی کاوشیں ان کے فکشن کے مقابلے میں کہیں بھی رکھی جاسکتی ہیں ؟ایسی مثالیں اور بھی ہیں، بہت نہ سہی۔ لیکن یہ ساری بحث ہی بے معنی ہے ۔
ایک بات اور سن لو،پھرآگے چلیں گے ۔ انسان کی شخصیت چاولوں کی دیگ نہیں کہ ایک کو پکڑنا سب کی خبر لانا کے مصداق ہو، یعنی بس اس کی دو چار کتابیں پڑھ لینا، یا اس سے دو چار برس کی ملاقاتیں، اسے سمجھنے کے لیے کافی ہوں ۔ یہ ہم جیسے معمولی انسانوں کا حال ہے ۔ ہم اپنے تخلیقی فن کاروں سے تقاضا کرتے نہیں تھکتے کہ تمھیں انتہائی مثالی کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ بقول رشید احمد صدیقی مرحوم، خراب انسان اور اچھا شاعر یکجا نہیں ہو سکتے ۔ لیکن ہم جب دنیا کے ادب (صرف اردو ادب نہیں )کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ہمیں کوئی ایساشخص نہیں نظر آتا، مولاناے روم بھی نہیں، جسے ہم صحیح معنی میں فرشتہ کہہ سکیں ۔ منٹو شرابی کبابی تھے، جھوٹ بھی بولتے تھے، اپنے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ گھر والوں کی دیکھ بھال سے زیادہ ان کے لیے شراب ضروری تھی۔ یہ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں، مجھے نہیں معلوم۔ لیکن اگر معلوم بھی ہوں کہ یہ صحیح ہیں تو مجھے ان کے فن کے بارے میں کوئی تشویش نہیں ہوتی۔ ماریو بارگاس لیوسا(جسے بعض لوگ قابلیت کے ہیضے میں مبتلا ہو کر “یو سا” کہتے ہیں اور جنھوں نے اس کا ایک ناول بھی نہیں پڑھا ہے اور جگہ جگہ اس کے اقوال نقل کرتے پھرتے ہیں جو ہمارے دوست محمد عمر میمن نے عام کیے ہیں )،اس نے اپنے ایک کردار کی زبان سے کیا عمدہ بات کہلائی ہے :
Artists are complicated people۔ ۔۔They don’t have to be saints۔ You shouldn’t idealize them or demonize them۔ Their work is what matters, not their lives۔
The Note Books of Don Rigoberto, p۔ 123۔
(فنکار بڑے پیچیدہ لوگ ہوتے ہیں ۔۔۔ان پر فرض نہیں کہ وہ صوفی سنت ہوں ۔ آپ انھیں آدرش بنا کر نہ رکھیں، نہ انھیں شیطان قرار دیں ۔ ان کا تخلیقی کام ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے، ان کی زندگیاں نہیں ۔ )
گفتار دوم
ایک بات یہ بھی ہے کہ تم نے منٹو کے بعض مضامین کو غیر ضروری طور پر(یا شاید جان بوجھ کر) غلط سمجھا ہے ۔ مثلاً”تحدید اسلحہ” تو بظاہرسراسرہلکا پھلکا طنزیہ مزاحیہ مضمون لگتا ہے ۔ اگر میں منٹو سے بر سر کینہ ہوں تو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ منٹو صاحب، آپ زیادہ پڑھے لکھے آدمی نہیں ہیں، Strategic Arms Limitation Treatyجیسے معاملات پر مزاحیہ مضمون بھی لکھنے کے لیے کچھ پڑھنا پڑتا ہے ۔ یہ پڑھنا وڑھنا آپ کے بس کا روگ نہیں ۔ لیکن اگر ہم “تحدید اسلحہ” کو ایک نہایت سنجیدہ موضوع پر طنزیہ اور تھوڑا سا مزاحیہ مضمون سمجھ کر پڑھیں تو ہم کوئی ادبی گناہ نہ کریں گے، حالاں کہ اس میں عقل مندی کی باتیں بھی ہیں، اور بہت سی ہیں ۔ یعنی یہ مضمون در اصل جنگ کے خلاف ہے اور ان حکومتو ں کا مذاق اڑاتا ہے جو اپنے لیے تو اسلحہ کے انبار ضروری سمجھتے تھے لیکن دوسروں کو نہتا چھوڑنا چاہتے تھے۔
ہمایوں اشرف نے بتا یا ہے (“کلیات منٹو۔ منٹو کے مضامین”، ص494) کہ منٹو نے یہ مضمون 1942 میں لکھا تھا ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ اس وقت توتحدید اسلحہ کی کوئی بات تھی ہی نہیں ۔ دوسری جنگ عظیم اپنے شباب پر تھی اور پورا یورپ،اور ایشیا اور افریقہ کا بڑا حصہ اسی ایک آگ میں جل رہے تھے ۔ میں نے احتیاطاً شمس الحق عثمانی سے پوچھا تو انھوں نے بھی تصدیق کی کہ یہ مضمون1942 میں شائع ہوا تھا۔ لہٰذا اب ایک ہی بات ممکن ہے : منٹو نے یہ مضمون1937 یا1938 میں لکھا ہو گا۔ یہ وہ وقت ہے جب ہٹلر نے جرمنی میں اسلحہ سازی کی بہت بڑی مہم شروع کر رکھی تھی۔ جرمنی کے جنگی کارخانوں میں بڑے اسلحہ، سمندری جنگی جہاز، بمبارجہاز، آبدوز کشتیاں، دھڑادھڑادھر بن رہی تھیں ۔ ادھر انگلستان اور فرانس کے دلوں میں خوف اور خلفشار تھا، کیوں کہ ان کے یہاں جنگ کی تیاری بالکل نہ تھی۔ لہٰذا وہ بار بار ہٹلر پر زور دے رہے تھے کہ اس قدر وسیع پیمانے پر اسلحہ سازی کیوں ہو رہی ہے ؟یہ امن عالم کے خلاف ہے !
میں نے شمس الحق عثمانی سے دوبارہ مشورہ کیا تو انھوں نے سوچ کر جواب دیا کہ ہاں ایسا بالکل ممکن ہے کہ “تحدید اسلحہ ” کی تاریخ تحریر سنہ1942کے پہلے کی ہو۔ یعنی منٹو نے یہ مضمون اس وقت لکھا تھا جب مغر بی اقوام میں جرمنی کی کثرت اسلحہ پر کھلبلی تھی اور اسلحہ کی کثرت پر پابندی کا شور اس خوف سے تھا کہ کہیں جرمنی ہم سے پہلے جنگ کے لیے تیار نہ ہو جائے ۔ اگر میرا خیال صحیح ہے تو منٹو کے اس مضمون کوبر صغیر میں بیسویں صدی کے ادب کا لا زوال اور انتہائی بلند مرتبہ کارنامہ کہا جانا چاہیے ۔ منٹو نے جنگ عظیم، پھر سرد جنگ کے زمانے میں تکثیر اسلحہ کی دوڑ، اور روس میں جوہری ہتھیاروں کی کثرت پر روس کی مخالف قوموں کے دل و دماغ میں اس خوف اور فریقین کی بیک وقت مکمل تباہی(Mutual Assured Destruction) کی جھلک دیکھ لی تھی جس کے خوف کے باعث امریکہ اور روس دونوں لرزہ بر اندام رہتے تھے ۔ اس صورت حال کو سرد جنگ Cold warکے نام سے جانا تھا، اور کسی دل جلے نے Mutual Assured Destruction کا مخفف MAD بنایا تھا۔ اس بصیرت اورذہن کی اس دراکی، اور سیاسی فلسفیانہ سوجھ بوجھ،اور طنزیہ اسلوب کی غیر معمولی شگفتگی کی دادبھلا کون دے سکتا ہے ؟سنو منٹو کیا کہتے ہیں :
سمجھ لیجیے اب امن و مان قائم ہونے میں کوئی دیر نہیں ۔ آپ دوڑکر بہترین اسلحہ ساز کے یہاں سے ایک عمدہ قسم کا تباہ کن ٹینک لے آتے ہیں اور لگے ہاتھوں ایک بڑا سا بم بھی خرید لیتے ہیں ۔۔۔خاکسار بھی آپ کی دیکھا دیکھی دو ایک گولے گھر میں ڈال لیتا ہے ۔ اور بطور حفظ ما تقدم،گیس بنانے والوں کو چند سلنڈر زہریلی گیس تیار کرنے کی فرمائش کر ڈالتا ہے ۔۔۔پھر آپ احتیاطااًیک بمبار طیارہ بھی اپنے گھر میں لے آتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کچھ دیر بعد اس طرح مسلح ہو جاتے ہیں کہ ہمارے درمیان جنگ کا خیال ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تھوڑے دنوں کے بعد ہم ایک دوسرے کو بالکل فنا کر دیتے ہیں ۔ مگر یہ تباہی اتفاقی ہو گی۔ اس کا کچھ خیال نہیں کرنا چاہیے ۔
یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ منٹو نے یہ مضمون سنہ1942کے پہلے نہیں، بلکہ سنہ1945کے بعد کبھی لکھا ہو گا اور یہ در اصل ان کی کتاب “منٹو کے مضامین” کے دوسرے ایڈیشن (1972)میں پہلی بارشامل ہوا ہو گا،لیکن غلطی سے اسے سنہ1942والے مجموعے کا حصہ سمجھ لیا گیا۔ لیکن یہ خیال بوجوہ غلط ہے ۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ کہ اس میں ایٹم بم کا ذکر نہیں ۔ اسلحہ کے موضوع پر کوئی مضمون ایٹم بم کے ذکر کے بغیر کم و بیش ناممکن ہے، اگر وہ مضمون سنہ1945کے بعد لکھا گیا ہو۔ دوسری وجہ یہ کہ “تحدید اسلحہ”میں انھیں ہتھیاروں کا ذکر ہے جو اس زمانے میں رائج تھے :بمبار جہاز، ٹینک،اور سب سے بڑھ کر زہریلی گیس، یعنیChemical Weapons جن کا اس زمانے میں بڑا چرچا تھا۔
“گناہ کی بیٹیاں، گناہ کے باپ” تو مجھے کئی طرح کی ادبی اور لسانی پھلجھڑیوں اور کئی سماجی بصیرتوں سے منور معلوم ہوتا ہے ۔ میری رائے ہے کہ تم یہ مضمون (یا انشائیہ؟یا فکاہیہ؟) پھر سے پڑھو تو تمھیں حسب ذیل،اور ان کی طرح کے کئی اور طنزیہ اور مزاحیہ شاہکار نظر آئیں گے، اور آج کی تانیثیت (Feminism)بھی تمھیں دکھائی دے گی:
گزدر صاحب نے ۔۔۔ قحبہ کی تعریف ان لفظوں میں کی تھی:’وہ عورت جو روپئے کے عوض بازار میں اپنی عصمت فروخت کرے۔ ‘۔۔۔یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ عصمت بار بار کیسے فروخت کی جاسکتی ہے ۔
٭
ہم اگر گزدر صاحب کی تعریف کو پیش نظر رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت امتناعی قانون کی زد میں نہ آئے گی جواپنا جسم نہ بیچتی ہو۔ وہ اپنی ادائیں بیچ سکتی ہے ۔۔۔مگر اس کو اپنے جسم کا خاص حصہ بیچنے کی ممانعت ہے ۔
٭
ایک بڑا گستاخ سا سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ امتناعی قانون صرف عورتوں ہی کے لیے کیوں مخصوص ہے، مرد اس سے کیوں مستثنیٰ ہیں ؟
٭
مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑتھی۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے تھے جو نرم نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑوں کی ضربوں کی بات کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ چاندی کی لٹیا سے دودھ پینے والاکامریڈ سجاد ظہیر میری نظروں میں ہمیشہ ایک مسخرا رہا۔
سوچو، یہ تحریر1954 کی ہے ۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ آج کا کوئی افسانہ نگار اتنی شگفتگی سے اور اتنی عقل مندی سے بھر پور باتیں کر سکتا ہے ؟
تم “چچا سام کے نام” خطوط کو “لچر” کہتے ہواور ان تحریروں کو منٹو کے جذبۂ خود نمائی کا اظہار سمجھتے ہو کہ اسی باعث وہ خود”مصلح قوم اور لیڈر”کے رنگ میں پیش کرنے کی “اوچھی حرکتوں “کا مرتکب ہوتا رہا تھا۔ در حقیقت یہاں بھی وہی بات ہے جس کاذ کر میں نے ابھی کیا۔ وہ امریکی سیاست کے مذموم سامراجی ہتھ کنڈوں (سیاسی سامراج بھی اور اقتصادی سامراج بھی اور ذہنی سامراج بھی) اور اسلام کے نام پر طالبانی ذہنیت کو فروغ دینے والوں اور پاکستانی قوم کے ذہنی اور روحانی دیوالیہ پن کا احساس بہت پہلے کر چکے تھے ۔ وہ روسیوں کی بھی” امن دوستی”اور “جمہوریت پسندی” اور دنیا کے پسماندگان کی بہتری کے لیے “انقلاب” لانے ، یا “انقلابی قوتوں “کی پشت پناہی کرنے کے دعوؤں کو بھی جعلی اور ریاکاری پر مبنی سمجھتے تھے ۔ انھیں سو ویٹ روس میں وہی “دیو استبداد” دانت نکالے ہوئے اقوام و ملل کو ہڑپ کر لینے کا منتظر دکھائی دیتا تھا جس کی ریاکاریوں اور غارت گریوں کا تجربہ دنیا کو مغربی اقوام کے ہاتھوں مسلسل ہوتا رہا تھا۔ دیکھو “چچا سام ” سے منٹو کیا کہتے ہیں :
چچا جان، یہ بات تو آپ جیسے ہمہ داں عالم سے چھپی نہیں ہونی چاہیے کہ جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیا جائے گا، اس کی آزادی کیسی ہو گی۔ خیر اس قصے کو چھوڑیے ۔۔۔میں تین ماہ قید با مشقت کاٹنے کے لیے تیا رہوں،لیکن یہ تین سو روپے کا جرمانہ مجھ سے ادا نہیں ہو گا۔ چچا جان،آپ نہیں جانتے، میں بہت غریب ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ مشقت کا تو میں عاد ی ہوں لیکن روپیوں کا عادی نہیں ۔
(پہلا خط، مورخہ16دسمبر1951)
کیا تمھیں پہلے اورآخری جملوں میں بر صغیر میں انگریزوں کے استحصال (قبل ازسنہ1947) اور اس کے بعد حکومت پاکستان اور مغربی اقوام کے ہاتھوں ملک کے استحصال کی مختصرفرد جرم نہیں سنائی دیتی؟ ایٹم بم کا ذکر کر کے منٹو کہتے ہیں :
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔ ۔ ۔ میں ایک ڈرائی کلین کرنے والے کو مارنا چاہتا ہوں ۔ ہمارے یہاں بعض مولوی قسم کے حضرات پیشاب کرتے ہیں تو ڈھیلا لگاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر آپ کیا سمجھیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہر حال، معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد وہ صفائی کرنے کی خاطرکوئی ڈھیلا اٹھاتے ہیں اور شلوار کے اندر ہاتھ ڈال کر سر بازار ڈرائی کلین کرتے پھرتے ہیں ۔۔۔
ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے ۔۔۔ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجیے ۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجئے گا۔ کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کیے تھے ۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکا ر نہیں رہیں گے ۔
(تیسرا خط، مورخہ16 مارچ1954)
ذرا ہند وپاک میں اسلحہ کی کھپت کے بارے میں غور کرو۔ کیا مغرب اور روس دونوں ہی نے اپنے پرانے قیمتی ہتھیار اور جنگی جہاز وغیرہ ہند و پاک کی حکومتوں کو نہیں دیے، اور وہ بھی بھاری قیمت پر؟ کیا منٹو کے علاوہ اس وقت کسی شخص کے خیال میں بھی تھا کہ امریکہ کی اقتصادی قوت کا بڑا حصہ اسلحہ ساز کمپنیوں اور کارخانوں پر مبنی ہے ؟ کیا اس وقت کسی کو معلوم تھا کہ غیر ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی خاطر سو ویٹ روس اپنی فوج اور ٹکنالوجی پر بے اندازہ سرمایہ خرچ کر رہا تھا اور اسی زمانے میں ہم لوگوں کو اپنے پرانے ہتھیار بھی بیچ رہا تھا تا کہ اس کے “کارخانے بیکار” نہ رہیں ۔
اور رہے وہ ملا جی،جو سر عام شلوار میں ہاتھ ڈال کر ‘طہارت’ انجام دیتے ہیں، کیا وہ آج کے طالبان کے جد امجد نہیں ؟طالبان کے جد امجد پر ایک اور فقرہ سنو، پھر آگے بڑھیں گے :
چچا جان! غور کرنے والی بات ہے، شاہ سعود کے ساتھ ما شا اللہ ان کے پچیس لڑکے تھے ۔ لڑکیاں خدا معلوم کتنی ہوں گی۔ خدا ان کی عمر دراز کرے ۔ مجھے بتائیے کہ آپ کی سات آزادیوں والی مملکت میں کوئی ایسا مرد مجاہد یا مردم خیز موجود ہے جس کی اتنی اولاد ہو؟ چچا جان، یہ سب ہمارے مذہب اسلام کی دین ہے ع
یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ناچیز کی رائے ہے کہ آپ فوراً اپنی سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام قرار دے دیں ۔۔۔قریب قریب ہر شادہ شدہ مرد کو چار شادیاں رچنے کی اجازت ہو گی۔ اگر ایک عورت چار بچے بھی بڑے بخل کام لے کر پیدا کرے تو اس حساب سے سولہ لڑکے لڑکیاں ایک مرد کی مردانگی اور اس کی بیوی کی زر خیز ی کا ثبوت ہونے چاہئیں ۔ لڑکے اور لڑکیاں جنگ میں کتنی کام آ سکتی ہیں ۔ آپ جہاندیدہ ہیں ۔ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
(آٹھواں خط، مورخہ2 اپریل1954)
میر اخیال ہے منٹو کی اکثر تحریروں کی طرح ان خطوط کو بھی توجہ سے پڑھا نہیں گیا۔ ورنہ یہ ہمارے زمانے کے سیاسی اور سماجی موضوعات پر انتہائی بیدار مغز اور زندہ تحریریں ہیں ۔
گفتار سوم
تمھیں منٹو کے یہاں “تحسین و ستائش ” کی تمنا، “خود پسندی کا جذبہ”، خود نمائی کا افسوس ناک رجحان، اور “فکر کی گہرائی” کا فقدان نظر آیا۔ کوئی بات نہیں،ہر قاری کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق ہے ۔ لیکن اپنے قاری سے منٹو بھی یہ حق تو رکھتے ہی ہوں گے کہ وہ جو بھی رائے قائم کرے، مجھے پڑھ کر (غور سے نہ سہی، سرسری پڑھ کر)قائم کرے ۔ (خیر، آج کل کے زیادہ تر افسانے تو سر سری بھی پڑھے جانے کے مستحق نہیں ہیں ۔ اصل منٹو، سچے منٹو، حقیقی منٹو کو نظر انداز کرنے والوں کایہی انجام ہونا تھا۔ ) اول تو مجھے “خیال وفکرکی گہرائی” جیسے فقرے نہایت مشکوک معلوم ہوتے ہیں (منٹو کو بھی مشکوک ہی لگتے تھے )،لیکن اگر اس فقرے کو اس کی سطحی قدر پر بھی قبول کیا جائے تو اوپر دو تحریروں سے میں نے اقتباسات دیے ہیں، ان کو دوبارہ پڑھو۔ اگر ان میں “خیال و فکر” کی گہرائی نہیں ہے تو میں شاید اس فقرے کے معنی نہیں جانتا۔ جو شخص اپنے زمانے کے بہت بعد آنے والے مسائل منٹو کی طرح روشن آنکھوں سے دیکھ سکے، اسے “خیا ل و فکر”کی “گہرائی” سے کیا لینا دینا ہو سکتا ہے ؟ معاملات کو اتنی گہرائی اور اس قدر سلجھے ہوئے ذہن کے ساتھ دیکھنا اور سمجھنا کہ آج ہی کے مسائل نہیں، ان کے آئندہ مضمرات بھی نظر میں آ جائیں، یہ اگر فکر کی گہرائی اور خیال کی باریکی کا کرشمہ نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟
تمھیں منٹو کی خود پسندی اور تحسین و ستائش کی تمنا میں خدا جانے کیوں عیب نظر آتا ہے ؟ اگر غالب نے کہا کہ
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
تو کیا تم دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہو کہ غالب کو ستائش کی تمنا یا صلے کی پروا نہیں تھی؟(ہاں، کہہ سکتے ہو، اگر تم نے غالب کا کلام یا ان کی سوانح حیات نہ پڑھی ہو۔ )خود پسندی، انانیت، تحسین کی تمنا، خود نمائی،اپنی بات کو لوگوں تک پہنچانے کا شوق، کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ ہم بھی کچھ سوچتے اور کہتے ہیں، اس میں برائی کیا ہے ؟ اگر یہ سب نہ ہو تو فن کار پیدا کہاں سے ہو؟منٹو کی انانیت اور خود پسندی کی بات اوپندر ناتھ اشک نے بھی لکھی ہے (جنھیں منٹو کا حمایتی نہیں کہہ سکتے )اور کرشن چندر نے بھی (جنھیں منٹو کا عاشق کہا جاسکتا ہے )۔ بلقیس عابد علی لکھتی ہیں کہ انھوں نے جب منٹو کو پہلی بار دیکھا تو انھیں محسوس ہوا کہ اس شخص کے چہرے پر بادشا ہوں والی رعونت (یا ایسا ہی کوئی لفظ تھا) نظرآئی۔ حنیف رامے نے کیا عمدہ بات کہی ہے (یہ نہ بھولنا کہ حنیف رامے بہت بڑے مصور تھے تو وہ عمدہ فسانہ نگار بھی تھے )۔ تو حنیف رامے نے لکھا ہے :
اگر عصر حاضر ایک دیو ہے تو سعادت حسن منٹو وہ پرندہ ہیں جس میں اس دیو کی جان ہے۔ سعادت حسن منٹو کی وفات کے ساتھ ہمارے یہاں انا کی بادشاہت کا خاتمہ شروع ہوتا ہے۔ سعادت حسن منٹو اس لٹی ہوئی فوج، اس رزمیہ، اس داستان ارادہ و انا کے ہیرو ہیں ۔
اب اس سے زیادہ میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟ لیکن تصوف کے عالم سے ایک بات سن لو۔ صوفیوں کے یہاں قول مشہور ہے کہ جو شخص نامرد ہے وہ صوفی نہیں ہو سکتا۔ اس معاملے میں عورت مرد کی قید نہیں،اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروے کار لانے،خود سے آگے جا کر کسی ماورا حقیقت کو دریافت کرنے، اور ممکن ہو تو بیان کرنے کی امنگ، یہی تو صوفی اور تخلیقی فن کار دونوں کے مراتب ہیں ۔ بی بی رابعہ بصری ایک بار دن دہاڑے جلتی ہوئی لکڑی لے کر بازا ر میں نکل پڑیں ۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ بی بی صاحب،کہاں جا رہی ہیں ! توانھوں نے کہا کہ جنت اورجہنم کو آگ لگانے جا رہی ہوں کہ لوگ ایک کے شوق اور ایک سے خوف سے محفوظ رہ کر سچی عبادت کر سکیں ۔ کیا تم سمجھتے ہو یہ کسی کونے کھدرے میں چھپے رہنے والے کے بس کی بات ہو سکتی ہے ؟
حضرت قطب الدین بختیارکاکی صاحب کی ایک مرید بی بی فاطمہ سام بڑی بلند مرتبہ صوفی تھیں ۔ حضرت بابا فرید صاحب ان کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ جب وہ تشریف لاتیں توسروقد ہو کر تعظیم کرتے ۔ ایک صاحب نے کسی وقت پوچھ دیا کہ حضرت، آپ بی بی صاحب کا اس قدر احترام کرتے ہیں مگر وہ تو عورت ہیں ؟ با با فرید صاحب نے ارشاد فرمایا کہ جنگل میں شیر نکلتا ہے تو کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ نر ہے یا مادہ۔
صوفیوں کے یہاں ایک اور اصطلاح ہے : “مردوں کا حیض”۔ اس سے مراد ہے ، صوفی کی وہ صورت حال جب وہ ناقص ہو، درجۂ کمال سے دور ہو۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے ایک قول منسوب ہے کہ، “مرد تا ظہور کمال و تحقیق برہان حکم زناں دارد و دعواے مردانگی از وے درست نمی آید۔ “اور درجۂ کمال سے دوری کے اسباب ہیں، دنیاوی حرص و ہوا، لہو و لغو میں مبتلا رہنا، دل کو ما سوا سے محفوظ نہ رکھنا۔ مولاناے روم کہتے ہیں
اے حریفاں زیں مقیل و زاں مقال
اتقوا انالہوا حیض الرجال
تو بھلا اپنے فن کے بارے میں اعتماد، اپنی فکر و تخیل کی صداقت اور بلندی پر پورا یقین، مردانگی نہیں تو اور کیا ہے ؟یہ ایسی مردانگی ہے جس میں عورت مرد کا امتیاز مٹ جاتا ہے ؟یہ مردانگی نہ ہو تو تخلیقی فن کاری کا بازار بند ہو جائے ۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ منٹو اگر خود بیں اور خودنما تھے تو کیا ان کے تخلیقی کارنامے بھی اتنے بلند درجہ ہیں کہ وہ اس بلندی کے سبب وہ خود بین اور خود نما ہونے کاحق رکھتے تھے ؟یعنی،کیا ان کی خود بینی اور خودنمائی بر جا سے تھی، بے جا نہیں تھی؟ میرا جواب ہے کہ ہاں، بالکل بر جا سے تھی۔ انھیں اردو افسانے کی دنیا میں گرد ن اٹھا کر چلنے کا پورا استحقاق تھا۔ اردو ادب میں میر کے سوا اگر کوئی شخص اور ہے جس کے یہاں زندگی کی رنگا رنگیاں، دکھ درد، وجد و شوق، غم اور مسرت، انسانی وجود کا احترام اور اس کی کمزوریوں کا احسا س، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعادت حسن منٹو ہے ۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میرکا یہ قول منٹو پر بھی صادق آتا ہے
اشعار میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
عربی میں کہاوت ہے، استر ذہبک و ذہابک و مذہب(اپنا مال پو شیدہ رکھو، اپنی راہ پوشیدہ رکھو اور اپنا مذہب پو شیدہ رکھو۔ )یہ وہ زمانہ تھے جب راہیں محفوظ نہ تھیں، اور مذہبی تعصب کی بنا پر بھی مسافروں کا قتل ہو جانا غیر ممکن نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کہاوت پر عمل کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جوگمنامی کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہوں گے ۔ لیکن متنبی نے جب اپنا اسباب سفر باندھا جس میں زندگی بھر کی جمع شدہ دولت تھی تو اس وقت کے ایک مشہور بٹ مارنے آ کر کہا کہ آپ کے پاس مال بہت ہے،اور راہ پر خطر۔ آپ اپنے مال کا کچھ حصہ مجھے دیں تو میں ساری راہ آپ کی حفاظت کرتا رہوں گا۔ متنبی جتنا بڑا شاعر تھا، اتنا ہی وہ کنجوس بھی تھا۔ اس نے اس راہزن کو ٹکا سا جواب دے دیا کہ میں اپنے مال کی حفاظت کے لیے کافی ہوں ۔ سنسان راہ میں ر اہزن اور اس کے گروہ نے متنبی کو آگھیرا تو متنبی اور اس کے غلام نے حتیٰ المقدور مقابلہ کیا اور جب شکست یابی کا خطرہ ہوا تو متنبی نے میدان چھوڑکر بھاگنا چاہا۔ اس وقت اس کے غلام نے کہا کہ آپ اوردم دبا کر بھاگنے والوں میں ؟ آپ وہی تو ہیں جس کا شعر زباں زد عالم ہے
اللیل و الخیل والبیداء تعرفنی
والحرب والضرب والقرطاس و القلم
(میں وہ ہوں جسے راتیں، اور گھوڑوں کے جھنڈ، اوردشت و صحرا خوب پہچانتے ہیں،اور حرب و ضرب بھی، اور کاغذ اور قلم۔ )
متنبی نے کہا، ہاں،خوب یا ددلایا۔ یہ کہہ کر لوٹا اور ڈاکوؤں سے لڑتا ہوا قتل ہو گیا۔ یہ واقعہ علامہ شبلی نے لکھا ہے، اور تاریخ کی کئی دیگر کتابوں میں مذکور ہے ۔ تو کہو، متنبی کی خود نمائی اچھی تھی کہ اس کی کنجوسی؟
تم کہہ سکتے ہو کہ آپ تنقیدچھوڑکر شاعری کی طرف جا رہے ہیں ۔ لیکن کیا کروں،مجھ میں بھی تو تھوڑی سی خود نمائی ہے ۔ لیکن ٹھٹھول بر طرف، تم لوگ صرف ادیبوں ہی سے کیوں جھگڑتے ہو کہ ان میں خود نگری اور خود نمائی ہے ۔ میر
مستوری خوبروئی ہر گز نہ جمع ہو ویں
خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا
لفظ “اظہار” پر غور کرو، کیونکہ میر کے زمانے میں بھی یہ تخلیقی اظہار کے لیے بولا جاتا تھا۔
تم ہی نہیں،کئی لوگوں نے منٹو پر انانیت کے علاوہ “نرگسیت” کا الزام لگایا ہے ۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس لفظ “نرگسیت” سے بہت چڑھ ہے،لیکن خیر، افسانہ نگار اور وہ بھی اردو افسانہ نگار، لوگ اس کے بارے میں جو کہہ دیں، وہ تھوڑا ہے ۔ پنجابی اور اردو کے مشہور شاعر احمد راہی اورمنٹو میں قرابت تھی اور دونوں ایک دوسرے کو خوب جانتے بھی تھے ۔ انیس ناگی اور اصغر ندیم سید سے گفتگو کے دوراں انھوں نے منٹو صاحب کی “نرگسیت ” کے بارے میں کہا:
میں نے ایک بار ان سے کہا تھا کہ منٹو صاحب،ایک آدمی اچھا کام کرتا ہے،مگر لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے،تو اس کا تو کوئی کامپلیکس ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں بات کرے ۔ آپ کی [تو]لوگ بھی تعریف کرتے ہیں،تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ اپنی تعریف کرتے رہتے ہیں ؟اس کا انھوں نے جواب دیا۔ میں ذرا پیچھے جاتا ہوں ۔۔۔ انھوں نے امرتسر سے جانے کے بعد زیادہ تر دفتری زندگی گذاری۔ مثلاً وہ “مصور” کے ایڈیٹر رہے،صبح گئے، شام تک وہاں کام کیا۔ اس کے بعد رات تک مقدور [بھر]شراب خریدی اور پی لی۔ صبح پھر دفتر گئے ۔ یہی روش ان کی دہلی ریڈیو کی ملازمت رہی۔ فلمستان میں بھی ایسا ہی ہوا،یعنی صبح سے شام تک کام،اس کے بعد وہسکی پی، کھا نا کھایا، سو گئے ۔ پاکستان آنے کے بعد انھیں دفتر کبھی نہیں ملا۔ کئی بار انھوں نے مجھ سے کہا،مجھے کوئی دفتر دو۔ ریڈیو پر ملازمت نہیں ملی،کسی اخبار میں جگہ نہیں ملی۔۔۔ان کی یہاں جو قدر ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔
لہٰذامنٹو کی “نر گسیت” در اصل ان کی تنہائی کا تفاعل تھی۔ ان کی انانیت کی طرح میں ان کی “نرگسیت” کو بھی سراسر حق بجانب سمجھتا ہوں ۔
گفتار چہارم
“دھواں “کے بارے میں تمھارا خیال صحیح ہے کہ یہ ناکام افسانہ ہے ۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ “افسانہ نگار نے اپنی تمام توجہ مسعود”پر صرف کر دی ہے اور اس کی بہن کلثوم کے یہاں جنس (یعنی ہم جنس پرستی میں لذت)کے تازہ ابھرتے ہوئے احساس پر توجہ نہیں دی۔ مسعود میں جنس کی جبلت بیدار ہورہی ہے اور اس کی بہن میں تھوڑی بہت بیداری آ چکی ہے ۔ مسعود کے ذہن میں خیالات وہی ہیں جن کی توقع ہم اس کی عمر کے کسی بھی اسکولی بچے سے کرتے ہیں ۔ منٹو نے حسب معمول جلدی سے کام لیتے ہوئے افسانے کے آخر میں بلا کسی تیاری کے کلثوم کی سہیلی کو داخل کر دیا ہے ۔ انھوں نے دونوں سہیلیوں سے ایک دو جملے بھی آپس میں نہیں کہلائے کہ ان کا کردار قائم ہو سکے ۔ اچانک وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ مسعود اچانک کلثوم کو اپنی سہیلی کے ساتھ “اختلاط ظاہری” میں مصروف دیکھتا ہے ۔ اب فطری بات ہے کہ ہمیں مایوسی یا نا تکمیل کا احساس ہو۔ جو افسانہ ایک بالکل تازہ، حواس خمسہ کی قوت سے بھرے مشاہدے سے شروع ہوا تھا،سیلی ہوئی آتش بازی کے طور پر ختم ہوتا ہے ۔
منٹو نے “دھواں ” کے بارے میں خود جو لکھا، تھا اس کو بھی یاد کر لینا غیر مناسب نہ ہو گا۔ اپنے مضمون “لذت سنگ” میں وہ لکھتے ہیں :
مسعود ایک کم سن لڑکا ہے، غالباً دس بارہ برس کا۔ ۔ ۔ ۔ اس کے جسم میں جنسی بیداری کی پہلی لہر کس طرح پیدا ہوتی،یہ اس افسانے کا موضوع ہے ۔ ایک خاص فضا اور چند خاص چیزوں کا اثربیان کیا گیا ہے، جو مسعود کے جسم میں دھندلے دھندلے خیالات پیدا کرتا ہے ۔ ایسے خیالات،جن کا رجحان جنسی بیداری کی طرف ہے ۔ یہ بیداری وہ سمجھ نہیں سکتا،لیکن نیم شعوری طور پر محسوس ضرور کرتا ہے ۔ بے کھال کا بکرا جس میں سے دھواں اٹھتا ہے ۔ سردیوں کا ایک دن جب کہ بادل گھرے ہوتے ہیں اور آدمی سردی کے باوجود ایک میٹھی حرارت محسوس کرتا ہے ۔ ہانڈی جس میں سے بھاپ اٹھ رہی ہے ۔ بہن، جس کی ٹانگیں وہ دباتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب عناصرمل کر مسعود کے بدن میں جنسی بیداری پیدا کرتے ہیں ۔ جوانی کی اس پہلی انگڑائی کو و ہ غریب سمجھ نہیں سکتا اور انجام کار اپنی ہاکی اسٹک توڑنے کی ناکام سعی کرتا کرتا تھک جاتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ تھکاوٹ اس بے نام سی چنگاری کو،”اس ” کچھ کرنے کی تحریک کو دبا دیتی ہے ۔
اپنے افسانے کی اتنی عمدہ تعبیر لکھنے والا سعادت حسن منٹو ہی ہو سکتا تھا۔ ابھی انھوں نے آگے بھی لکھا ہے اور کلثوم کا ذکر کیا ہے ۔ لیکن وہ اس بات سے صاف کنی کاٹ گئے کہ کلثوم کے ہم جنسی کے رجحان کو افسانے میں داخل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آغاز عمر میں اکثر لوگ ہم جنسی کی طرف ایک کشش محسوس کرتے ہیں، تو انھوں نے اس بات کو قائم کرنے کے لیے ایک دو صفحے کیوں نہ خرچ کیے ۔ اس وقت تو افسانے کا انجام ہمیں مایوس کن لگتا ہے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ کہیں کچھ کم رہ گیا ہے،یا ہمارے ساتھ کچھ دھوکا ہوا ہے ۔
منٹو کے کامیاب افسانوں میں تمھیں یہ عیب نظر نہ آئے گا کہ دو ہی کردار ہوں اور زیادہ تر توجہ ایک ہی کردار پر منعطف کی گئی ہو۔ “بارش” کے دونوں کرداروں (ایک نوجوان لڑکا ا اور نوجوان لڑکی) پر پوری توجہ صرف کی گئی ہے اور افسانے کا انجام تھوڑا سا حیرت انگیز بھی ہے ۔ لڑکا جس لڑکی پر عاشق ہوا ہے ، آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو طوائف ہے ۔ افسانے کے اختتام میں تھوڑی سی جذباتیت اور شوں شاں ہے (ممکن ہے وہ شعوری ہو اور طنزیہ معنی رکھتی ہو) ۔ لیکن افسانہ مجھے اس لیے نا پسند ہے کہ یہاں منٹوصاحب میں کچھ موپاساں کا سا فلسفہ جھلک آیا ہے (موپاساں کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ عورت ذات سے نفور (Misogynist) تھا، حالاں کہ ہر عام خیال کی طرح یہ بھی پوری طرح درست نہیں ہے، لیکن اس کا ا فسانہ The Necklace،جس کا ذکر ابھی آئے گا، زن نفوری یا زن نفور ذہنیت کا شاہکار کہا جا تا ہے ۔ )
گفتار پنجم
تمھاری یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ منٹو کا “تخلیقی تجربہ بڑی حد تک شعوری ہونے کے باوجود اکثر اوقات غیر حقیقی کیوں معلوم ہوتا ہے “؟ اول تو یہ عبارت ہی مہمل ہونے کی حد تک غیر قطعی ہے، اور دوسری بات یہ کہ یہ سب “غیر حقیقی” وغیرہ تمھیں معلوم ہوتا ہے، تو اس کا جواب مجھ سے یا منٹو کی روح سے کیوں طلب کرتے ہو؟تم اس بات پر بھی زور دیتے ہو کہ منٹو کے افسانوں میں میلوڈرامابہت ہے اور اسی وجہ سے ان کے اکثر افسانے، یا کم از کم ان کا انجام، “تاثر کے لحاظ سے ناکام ” رہ جاتا ہے ۔
پہلے تو میلو ڈراما (Melodrama)کے بارے میں ایک دو باتیں سن لو۔ میلو ڈراما کی پہلی شرط یہ ہے کہ صورت حال کو بیان کرنے کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں، خود وہ صورت حال ان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یعنی سو من کے گرز سے مچھر مارنے کی کیفیت پیدا ہو جائے ۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ یہی بات جذباتیت (Sentimentality)کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ جذباتیت وہ کیفیت ہے جب کوئی عشقیہ، یا درد بھری، یا کسی مشہور جذبے (مثلاً ماں کی مامتا)کے بیان میں الفاظ ایسے ہوں کہ جذبہ یا منظر تو عام اور معمولی ہو، اور الفاظ ایسے ہوں جو منظر یا صورت حال سے بہت زیادہ بھاری ہوں، اور اس منظر، یا جذبے،یا صورت حال کو نسبتاً ہلکے اورکم لفظوں میں اسی خوبی،یا زیادہ خوبی کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہو۔ میلو ڈراما میں جو واقعہ، یا صورت حال، یا جذبہ بیان ہوتا ہے ، اس کی بھی وہی کیفیت ہوتی ہے، کہ اس کو بیان کرنے یا پیش کرنے کے لیے جس قسم کے بھاری بھرکم اور زوردار الفاظ لائے جاتے ہیں،ان سے بہت کم بھاری اور پر جوش،یا پر زور الفاظ میں وہی بات اتنی ہی خوبی، یا زیادہ خوبی سے کہی جاسکتی ہے ۔
میلوڈراما کی دوسری شرط یہ ہے کہ میلوڈرا ما عموماً کسی تاریخی یا حقیقی سلسلۂ واقعات سے منسلک کر کے بیان کیا جاتا ہے ۔
میلو ڈراما کی تیسری شرط یہ ہے کہ اس کے کردار عموماً جانے پہچانے، مختلف معروف اقسام کے، یعنی (Type) ہوتے ہیں ۔ ان کرداروں میں اپنی کوئی کیفیت یا کوئی انفرادیت نہیں ہوتی۔ علیٰ ہٰذالقیاس، میلوڈراما کے کرداروں میں کوئی پیچیدگی نہیں ہوتی، کوئی داخلی زندگی نہیں ہوتی۔ لہٰذا میلو ڈراما کے عام کردار وہی ہوتے ہیں جو بار بار لائے جا سکیں : سخت دل فوجی افسر، ظالم حاکم، بد اخلاق اور رشوت خور پولیس والا، بے ایمان سیاست داں، کسی خاص طرز کا دہشت گرد(مثلاً “اسلامی”؛،”ماؤ نواز”؛ کمیونسٹ روس کا جاسوس؛ وغیرہ)؛ مافیا کا کوئی فرد یا افراد، عادی مجرم جو کسی کسی گروہ (gang)میں شامل ہو۔ پھر،عورتوں میں کوئی بے سہارا دوشیزہ، کوئی بیوہ جس کا بیٹا جنگ سے واپس نہیں آیا، کوئی معصوم لڑکی یا عورت جسے فریب دے کر اس کے مال، یا اس کے جسم کا استحصال کیا گیا ہو، وغیرہ۔
تقسیم کے زمانے میں ہندو مسلم قتل عام اور تاراج و غارت کا موضوع بھی میلوڈراما کے طرز میں بیان کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ واقعہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اوروہاں بھی کردار بالکل سطحی اور Typeزدہ ہوتے ہیں اور بار بار لائے جاتے ہیں :مسلمان کا قاتل ہندو یا سکھ؛ہندو کا قاتل مسلمان؛ معصوم دوشیزہ جسے اس کے مذہب کے اعتبار سے ہندو،جسے سکھ، یا مسلمان اپنی بہیمانہ ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، وغیرہ۔
تم دیکھ سکتے ہو کہ اس آخری شرط کے سوا کوئی شرط ایسی نہیں جس کا اطلاق منٹو کے افسانوں پر (اور وہ بھی چند ہی افسانوں پر)ممکن ہو۔ ہاں، منٹو کے یہاں سنسنی پیدا کرنے کا رجحان ضرور نظر آتا ہے، اور وہ بھی چند افسانوں میں ۔ سنسنی پیدا کرنے، یا سنسنی خیزی کے رجحا ن کو تم انگریزی میں Sensationalismکہہ سکتے ہو۔ میں سنسنی خیزی کے رجحان کو کوئی اچھی چیز نہیں سمجھتا، اور مجھے افسوس ہے کہ منٹو کے یہاں یہ رجحان نظر آتا ہے ،کم کم ہی سہی۔ لیکن اس کی دو وجہیں ہیں،چاہے منٹو جیسے بڑے افسانہ نگار کے دفاع کے لیے یہ وجہیں ناکافی ہوں :
(1)زود نویسی
(2)مختصر نویسی
ان نکات پرگفتگو کرنے کے پہلے میں سنسنی خیزی کی تعریف بیان کر دوں ۔ سنسنی خیزی سے مراد ہے :ایسے وقوعے بیان کرناجو غیر متوقع ہوں، جن سے قاری کو حیرت محسوس ہو،اور حیرت سے بھی زیادہ، ناگوار سا دھچکا محسوس ہو۔ خاص کر اختتام ایسے وقوعے پر ہو جو غیر متوقع ہو اور جس کی بظاہر کوئی ضرورت نہ ہو۔ تم کہہ سکتے ہو،یہ کیابات ہوئی؟ کیا موپاساں (Guy de Maupassant) اور او۔ ہنری (O۔ Henry)کے افسانے اپنے غیر متوقع انجام کے لیے شہرۂ عالم نہیں ہیں ؟بات بالکل صحیح ہے، لیکن ان دونوں کے افسانوں میں انجام غیر متوقع ہونے کے باوجود افسانے کی پوری کار روائی کے بطن میں پوشیدہ رہتا ہے ۔ افسانہ نگاراس بات کا پورا خیال رکھتا ہے کہ بیانیہ اس طرح تعمیر ہو اور اس طرح آگے بڑھے کہ اس کا انجام غیر فطری نہ ہو جائے ۔ میں پلاٹ کا خلاصہ بیان کرنے کو تنقید کی حقیر ترین کارگذار ی سمجھتا ہوں ۔ لیکن آج کل یہ دونوں افسانہ نگار بچارے خارج از فیشن ہیں، اور یہ بھی ہے کہ آج کل ہم لوگ اپنی طرز کا،بلکہ اپناہی لکھا ہوا افسانہ پڑھ کر خوش ہولیتے ہیں، دوسروں کو پڑھنا اپنے لیے دون مرتبہ جانتے ہیں ۔ اس لیے غیر متوقع انجام کے افسانے کی مثال دینے کے لیے او۔ ہنری اور موپاساں کے دو مشہور ترین افسانوں کا مختصر ترین خلاصہ بیان کرتا ہوں :
او۔ ہنری کا افسانہ The Gift of the Magi(“ارمغان یوم المیلاد”)
نو جوان اور مفلس میاں بیوی، دونوں عاشق و معشوق سے کم نہیں ۔ بیوی کے بال بہت لمبے، چمکیلے اور سنہرے ہیں لیکن انھیں سنوارنے کے لیے اعلیٰ درجے کے کنگھوں کا سیٹ اسے نصیب نہیں ۔ میاں کے پاس باپ دادا کی یادگار ایک کلائی کی گھڑی ہے لیکن اس کا پٹہ نہایت معمولی، بلکہ سونے کی قیمتی گھڑی کے لیے نامناسب ہے ۔ کرسمس (یوم المیلاد مسیح)قریب ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تحفہ خریدنے کی ادھیڑبن میں ہیں ۔ (کرسمس کا تحفہ ہمیشہ چھپا کر رکھا جاتا ہے اور مقرر موقعے پر پیش کیا جاتا ہے ۔ ) سوچتے سوچتے بیوی اپنے گھنے گیسوؤں کو فروخت کر کے میاں کی گھڑی کے لیے پلاٹینم کی قیمتی زنجیر خرید لیتی ہے ۔ یہ زنجیر ایسی ہے جسے fobکہتے ہیں ،یعنی جس کے ساتھ کوئی چھوٹا سا تمغا، مثلاً کوئی سکہ بھی منسلک ہوتا ہے ۔ ادھر میاں بھی سوچتے سوچتے اپنی گھڑی فروخت کر کے اپنی بیوی کے گیسوؤں کے لیے سیپ اور کچھوے کی پشت کے بنے ہوئے تین کنگھے خرید لیتا ہے، کنگھو ں کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے جواہرات بھی ہیں اور مفلس کی بیوی انھیں دوکان کی کھڑکی میں دیکھ دیکھ کر للچاتی رہی تھی کہ کاش یہ کنگھے میرے پاس ہوتے ۔
موپاساں (Maupassant)کا افسانہThe Necklace(“ہیرے کا ہار”)
متوسط طبقے کے میاں بیوی، بیوی خوبصورت ہے اوراسے بننے سنورنے کا شوق بھی ہے ۔ اچانک شوہر کو وزیر تعلیم کا دعوت نامہ آتا ہے کہ آپ لوگ ہمارے یہاں پارٹی میں شریک ہوں ۔ بیوی کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی،کہ ایک تو اتنی بڑی عزت، اور پھر اتنے بڑے بڑے لوگوں کے سامنے اپنے حسن کو پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن وہ پہنے کیا؟ بہت غور کر نے کے بعد وہ اپنا ایک پرا ناجوڑا ڈھونڈ نکالتی ہے جس کی آب و تاب اب بھی باقی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ پہننے کے لیے اس کے پاس کوئی مناسب زیور نہیں ۔ مجبوراً وہ اپنی ایک متمول دوست سے اس کا نہایت خوبصورت ہیرے کا ہار مانگ لیتی ہے ۔ پارٹی میں کامیابی سے مسرور اور پارٹی میں شرکت کے افتخار سے مغرور جب میاں بیوی گھر لوٹتے ہیں تو بیوی اپنے گلے میں ہارنہیں دیکھتی۔ وہ ایک دو دن تک اپنی سہیلی کو بہانوں سے ٹالتی رہتی ہے اور گم شدہ ہار جیسے ہار کی تلاش میں جوہریوں کی دکانیں چھانتی رہتی ہے ۔ بالآخر بعینہ ویسا ہار اسے مل جاتا ہے ۔ لیکن اس کی قیمت چھتیس ہزار فرانک ہے ۔ شوہر کے پاس کچھ ہے نہیں، اور بیوی کے پاس جو رقم مائیکے سے ملی تھی، وہ صرف اٹھارہ ہزار فرانک ہے ۔ مجبوراً بہت بھاری سود پر اٹھارہ ہزار فرانک قرض لے کر نیا ہار خرید لیا جاتا ہے اور میاں بیوی سہیلی کے سامنے سرخرو ہوتے ہیں ۔ لیکن قر ض کی ادائیگی کا بوجھ انھیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتا ہے ۔ ان کی زندگی صرف قرض اور اس کی ادائیگی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ مدتوں بعد اتفاقاً بیوی کی ملاقات سہیلی سے ہوتی ہے تو بیوی اتنی بدل چکی ہوتی ہے کہ سہیلی اسے پہچان نہیں پاتی ۔ سہیلی سخت حیرت زدہ ہوتی ہے جب بیوی اس سے کہتی ہے کہ میرا یہ حال تمھاری وجہ سے ہے۔ سہیلی کو پوری تفصیل معلوم ہوتی ہے تو ہ سر پیٹ کر کہتی ہے، ہائے یہ تم نے کیا کیا؟ میرا ہار تو نقلی تھا، بمشکل پانچ سو فرانک کا رہا ہو گا۔
تم دیکھ سکتے ہو کہ دونوں افسانہ نگاروں نے نہایت چابک دستی اور کمال نزاکت سے ایسی فضا تیار کی ہے اور کرداروں کی خاکہ کشی اس طرح کی ہے کہ افسانوں کا اتنا غیر متوقع انجام ہمیں متحیر اور شاید کچھ رنجیدہ تو کرتا ہے، لیکن ہمیں کوئی ناگوار دھچکانہیں لگتا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے انجام غیر ممکن تھے، یا غیر ممکن نہ سہی، بہت بعید از قیاس تھے ۔
اب میری گذشتہ بات پر غور کرو۔ منٹو کی زود نویسی کا ذکر سب نے کیا ہے ۔ اوپندر ناتھ اشک مرحوم بھی(جنھیں منٹو سے کچھ خاص محبت نہ تھی)، منٹو کی اس غیر معمولی صلاحیت کے قائل تھے ۔ اسی زود نویسی کے سبب سے منٹو نے اپنی مختصر زندگی میں اتنا لکھ ڈالا جس کے لیے دوسروں کو تین نہیں تو دو عمریں درکا ر ہوں گی۔ (بیدی صاحب کے کام کی کمیت پر غور کرو۔ بیدی صاحب کو افسانہ نگاری کے سب گن آتے تھے اور عام حالات میں وہ نثر بھی منٹو سے اچھی لکھتے تھے،لیکن ان کا سارا کام منٹو کا چوتھائی بھی نہیں ۔ )عسکری صاحب نے لکھا ہے کہ منٹو کی نثر میں وہ خوبی اور چستی نہیں ہے جو موپاساں کی نثر میں ہے ۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موپاساں کے پیچھے نثر کی جو درخشاں روایت تھی، منٹو اس سے محروم تھے ۔ لیکن میں اس بات کو درست نہیں سمجھتا۔ اور مجھے یقین ہے کہ بعد میں عسکری صاحب نے اپنی رائے کی غلطی کو دل میں تسلیم کر لیا ہو گا۔ منٹو کی نثر کے پیچھے سرشار کی نثر ہے، داستان کی نثر ہے، مناظروں کی نثر ہے۔ بلکہ مجھے تو منٹو کے افسانے پڑھتے وقت جس نثر کی سب سے زیادہ یاد آتی ہے وہ داستان کے سادہ اسلوب والی نثر ہے ۔ اوریہ سب نثریں بیدی صاحب کے بھی پس منظر میں موجود تھیں ۔ دونوں نے اپنے پس منظر کی نثر کو بقدر ہمت جذب بھی کیا ہو گا۔ منٹو صاحب کی نثردر حقیقت زود نویسی اور بات کو جلد از جلد ختم کرنے کی مجبوری (یا ضرورت)کے باعث انسجام اور استعارے کی اس چمک سے محروم ہے جو ہم بیدی کی نثر میں دیکھتے ہیں ۔
لیکن اس بات پر لوگوں نے کم دھیان دیا ہے کہ منٹو کے اکثر افسانے بہت مختصر ہیں ، بمشکل ڈیڑھ سے تین ہزارا لفاظ کے ۔ منٹو کے زیادہ تر افسانے دس صفحے سے کم کے ہیں اور بیشتر افسانے پانچ سے سات صفحے کے ۔ اب ذرا منٹو کے نسبۃً طویل افسانوں کے نام لو۔ چند نام میں یوں ہی بتائے دیتا ہوں :
موذیل
بابو گوپی ناتھ
ٹوبہ ٹیک سنگھ
ہتک
جانکی
بادشاہت کا خاتمہ
میرا نام رادھا ہے
پھندنے
خوشیا
نیا قانون
شاردا
کالی شلور
لتیکا رانی
مندرجہ بالا فہرست کے ہر افسانے کی ضخامت نو صفحات سے زیادہ ہے اور کچھ تو پندرہ، بلکہ بیس صفحات تک پہنچ گئے ہیں ۔ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ یہ سب نہیں تو ان میں سے اکثر افسانے شاہکار ہیں ؟
بات یہ ہے کہ افسانہ ہزارمختصر صنف سخن سہی،لیکن اس میں افسانہ نگار کو کچھ تو میدان ملنا چاہیے کہ وہ واقعات کو اس طرح بیان کرے کہ ایک کے بعد واقعہ آپ سے آپ نکلتا جائے ۔ اور اگر افسانہ نگار اعلیٰ درجے کا فن کار ہو گا تو تمھیں احساس بھی نہ ہو گاکہ ہمارے ساتھ کوئی ایسا باریک کام کیا جا رہا ہے ۔
بیدی صاحب کے اکثر افسانوں میں تو نثر اتنی گٹھی ہوئی ہوتی کہ غزل کے عمدہ شعر کی طرح ہر ایک لفظ اگلے لفظ کی طرف لے جاتا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔ وزیر علی صبا کا ایک ذرا معمولی سا شعر سنو
سانس دیکھی تن بسمل میں جو آتے جاتے
اور چرکا دیا صیاد نے جاتے جاتے
تم خود دیکھ سکتے ہو کہ لفظ “سانس” کے بعد” تن بسمل” کتنا مناسب ہے اور “سانس “کے ساتھ “آتے ” اور پھر “جاتے ” کس قدرمناسب ہیں ۔ اگلے مصرعے میں “چرکا” کا اشارہ “تن بسمل” کی طرف راجع ہے اور “دینا”کا اشارہ “آنا/دیکھنا/دینا/جانا”کی طرف تو ہے ہی، فوراً “صیاد” کا ذکر آتا ہے، اور ان سب کے سر کا تاج “جاتے جاتے “کو کہیں تو غلط نہ ہو گا۔ “سانس دیکھی” سے لے کر “جاتے جاتے ” ہر لفظ ایک دوسرے سے گندھا ہوا ہے ۔ پڑھتے یا سنتے وقت فوراًخیال نہیں آتا لیکن جب غور کرو تو پتہ لگتا ہے کہ یہاں کس قدر ہنر مندی ہے الفاظ کے در وبست میں ۔ اور اسی دروبست کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے آج کے اکثرغزل گو اپنے اشعار کو محلے کے جوہڑکی طرح ساکت اور جامد بنائے دے رہے ہیں ۔
بیدی صاحب کے اکثر افسانوں میں اسی طرح کی کیفت ہے،اوربہت بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایک لفظ اگر کہیں ذرا کھٹکتا ہوا،یا غیر ضروری محسوس ہوا تو آئندہ چل کر اس کی معنویت کھل جاتی ہے ۔ لیکن یہ فن، یہ انسجام اتنا باریک اورنازک کام ہے کہ بعض جگہ بیدی صاحب بھی ناکام ہو جاتے ہیں ۔
وارث علوی نے “گرہن” کو اردو کا مظلوم ترین افسانہ کہا ہے، کیوں کہ میں نے کہیں یہ لکھ دیا تھا کہ ہندوستانی عورت کو بیدی نے اس افسانے میں (اور کئی اور افسانوں میں ) جس طرح پیش کیا ہے تو ان کا مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا تقدسِاسی میں ہے، یا اگر تقدس نہیں تو اس کی تقدیر میں یہی ہے کہ وہ مرد کے ہاتھوں ذلیل ہوتی رہے ۔ سب اس کا استحصال کریں اور اسے کوئی کچھ نہ دے، بلکہ وہ کسی سے کچھ توقع ہی نہ کرے ۔ بیدی کوئی اناڑی افسانہ نگار نہ تھے ۔ اگرہولی کے لیے وہ واقعی یہ انجام پسند کرتے کہ وہ میاں، بچوں اور ساس سسر کو چھوڑکر گھر واپس جائے، پھر اس کے بعد جو ہو سو ہو، تو وہ ہولی کو اسٹیمر میں بے ٹکٹ سوار کرا دینے کے بجاے اسے کچھ دن اور صبر کر لینے دیتے ۔ اگر ہولی در حقیقت اپنی آزادی چاہتی تو کوڑی کوڑی کر کے سہی،لیکن اسٹیمر کے کرائے کا انتظام تو کر ہی لیتی۔ لیکن “گرہن”کی ناکامی کی ایک اور وجہ ہے : بیدی نے ہولی کے بے ٹکٹ سفر کرنے کی ہمت مجتمع کرنے کے وقوعے کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔ وہ بس اتنا کہہ دیتے ہیں کہ “۔۔۔اور ہولی کو یاد آیا کہ اس کے پاس تو ٹکٹ کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں !” یہ بیدی صاحب کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ اتنے باریک بیں افسانہ نگار ہوتے ہوئے انھوں نے اس بات کی کوئی تیاری نہیں کی کہ ہولی ٹکٹ کے پیسوں بغیر اسٹیمر پر کیوں سوار ہو گئی؟
وارث علوی نے مجھ پر لعن طعن کیا ہے کہ میں نے بیدی کو اور “گرہن”کو چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا ۔ لیکن وارث صاحب کے پاس بھی اس شکایت کا جواب نہیں ملتا کہ “گرہن” کا جو انجام ہے ، اس کے لیے بیدی صاحب نے کوئی تیاری کیوں نہیں کی؟اس وقت تو یہی لگتا ہے وہ عورت کو ہر قیمت پر مظلوم دیوی کے روپ میں ثابت کرنا چاہتے ہیں، افسانے میں توافق (Verisimilitude)نہ پید ا ہو تو ان کی بلا سے ۔
منٹو کے جن افسانوں کو تم ناکام بتاتے ہو، ان میں سے کچھ تو ناکام نہیں ہیں ۔ ان کا ذکر بعد میں ہو گا۔ لیکن جو ناکام ہیں ان کی وجہ میلوڈراما نہیں بلکہ سنسنی خیزی کا چسکا ہے ۔ منٹو کو افسانہ جلد از جلد ختم کر کے اپنی بوتل کا انتظام کرنا ہے ۔ اب اگر انجام پھسپھسا یا بے لطف رہا تو افسانہ کا ہے کو ہوا، فضو ل قسم کے وقوعوں کا مجموعہ ہوا۔ اور اگر انجام کے لیے تیاری کرنی ہے تو اس کے لیے ذرا قلم سنبھا ل کر لکھنا ہو گا۔ بیانیہ میں باریکی یا کردار میں پیچیدگی پیدا کرنی ہو گی۔ کچھ نہیں تو نثر میں کچھ ایسا انسجام پیدا کرنا ہو گا کہ وقوعے ایک کے بعد خود بخود کھلتے اور بہتے ہوئے محسوس ہوں ۔ اکثر و بیشتر یہ اسی حال میں ممکن ہو گا جب افسانہ نگار کے سامنے بیانیہ کا میدان ذرا وسیع ہو،تاکہ کرداروں اور وقوعوں کے ساتھ انصاف ہو سکے اور انجام فطری معلوم ہو۔ اور اگر یہ سب ممکن نہیں،تو پھر منٹو کی طرح کوئی سنسنی خیز انجام بناؤ اور چلتے بنو۔
تم نے ” سرکنڈوں کے پیچھے ” کو منٹو کا ” ایک مقبول افسانہ” بتایا ہے ۔ شاید ایسا ہی ہو۔ لیکن اس افسانے کا انجام میلوڈرامائی نہیں ،صرف اورمحض سنسنی خیز ہے ۔ اب یہ اور بات ہے کہ وارث علوی کو بھی اس افسانے میں سنسنی خیزی نظر آتی ہے، اور وہ میری مکارتھی (Mary McCarthy)کی اس بات کو پسند بھی کرتے ہیں کہ سنسنی خیزی ہو تو کردار نگاری نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود وہ “سرکنڈوں کے پیچھے ” کو شاہکار افسانہ بھی قرار دیتے ہیں،تم تو اسے صرف “مقبول” کہتے ہو۔
ممتاز شیریں کی سب سے بڑی اچھائی یہ ہے کہ وہ ادب کی بے لوث طالب علم ہیں ۔ انھیں نظریاتی کوڑے کرکٹ (مثلاً ادب کی سماجی ذمہ داری،وغیرہ)سے کچھ طوع نہیں ۔ اور وہ مغربی ادب بھی بہت سا پڑھے ہوئے تھیں ۔ کلاسیکی اردو ادب تو نہیں، لیکن اپنے معاصر اردو ادب کی وہ ماہر تھیں ۔ ممتاز شیریں کے بارے میں ان کی کتاب “منٹو، نوری نہ ناری” (مرتبہ آصف فرخی،5891) میں مظفر علی سید کا مضمون بطور دیباچہ شامل ہے ۔ مظفر علی سید کہتے ہیں :
خیر، دیر آید درست آید۔ منٹو غریب کو کوئی ایسا نقاد تو ملا جس کو منٹو کے فن، افسانہ نگاری سے گہری دلچسپی ہو اور جو تنظیمی مصلحتوں اور ہنگامی سرگرمیوں سرگرمیوں کی روشنی یا تاریکی سے ذرا ہٹ کر اس کے کام کو تخلیقی ادب کی تاریخ کے تناظر میں رکھ کر دیکھ سکے ۔
“منٹو،نوری نہ ناری” میں ممتاز شیریں نے “سرکنڈوں کے پیچھے ” کی شاہینہ (یا ہلاکت، یعنی وہ نام جس سے وہ خود کو موسوم کرتی ہے جب ہم اس سے پہلی بار دوچار ہوتے ہیں ) کے بارے میں بڑی توصیفی باتیں کہی ہیں ۔ “سرکنڈوں کے پیچھے ” کے بارے میں انھوں نے احتجاج نہیں کیا کہ یہ افسانہ فحش ہے، یا اس میں خون خرابہ بہت ہے جو طبائع نازک پر بار گذر سکتا ہے ۔ وہ جانتی ہیں کہ فنکار کو ہر طریقہ، ہر ہتھ کنڈا استعمال کرنے کا حق ہے اور اس کے ذریعہ و ہ اپنے فن پارے میں علو مرتبتی حاصل کر سکتا ہے ۔ وہ یہ ضرور کہتی ہیں کہ منٹو نے اس افسانے کو “قابل یقین بنانے “پر بالکل توجہ نہیں دی ہے ۔
شاہینہ، جوہیبت خان کی معشوقہ (یا یوں کہیے کہ مالکہ) ہے،یہ نہیں چاہتی کہ ہیبت خان کو کسی دوسری عورت سے لگاؤ ہو،لہٰذا وہ اپنے مرد کی اس بات کو نا پسند کرتی ہے کہ اسے نواب نامی ایک خانگی سے بے حد عشق ہو گیا ہے ۔ ایک دن وہ اچانک ہیبت خان کے ساتھ اس خانگی کے گھر آ دھمکتی ہے اور پھر ہیبت خان کو باہرکر دیتی ہے کہ جاؤ، میں اس عورت کو خود سجاؤں بناؤں گی۔ بہت دیر بعد جب ہیبت خان واپس گھر میں داخل ہوتا ہے تو:
کچے فرش پر اس کو سب سے پہلے خون ہی خون نظر آیا۔ وہ کانپ اٹھا۔۔۔ شاہینہ۔۔۔نے ہیبت خان سے کہا،’میں نے تمھاری نواب کو سجا دیا ہے ۔ ‘ ہیبت خان ۔۔۔نے پوچھا، ‘کہاں ہے ؟’شاہینہ نے جواب دیا،’کچھ تو اس پلنگ پر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس کا بہترین حصہ باورچی خانے میں ہے ۔ ‘۔۔۔۔ہیبت خان نے دیکھا فرش پر گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی ہیں اور۔۔۔اور ایک تیز چھری بھی پڑی ہے ۔۔۔شاہینہ نے مسکرا کر کہا، ‘چادر اٹھا کر دکھاؤں ۔ ۔ ۔ ۔ تمھاری سجی بنی نواب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے سنگھار کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن تم پہلے کھانا کھا لو۔۔۔۔سردار بڑا لذیذ گوشت بھون رہی ہے ۔ اس کی بوٹیاں میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹی ہیں ۔ ‘
لاحول ولا قوۃ، یہ میلو ڈراما نہیں، سنسنی خیزی نہیں، سراسر گھناؤنا خوف انگیزافسانہ،یعنی Horror Story ہے ۔ تمھیں شاید خیال ہو گا کہ طرح طرح کی مردم خوری کے انداز Horror Story لکھنے والوں کا من بھاتا کھاجا ہیں ۔ انگریزی میں ایک صاحب آ سکر کک (Oscar Cook)اس طرح کے افسانوں کے لیے بہت مشہورہیں ۔ لیکن ہم یہ سب بھول جاتے،اگر منٹو صاحب نے ہمیں کچھ بھی تیار کر دیا ہوتا۔ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ اور مرے پر سو درے کے مصداق وہ محترمہ شاہینہ کی زبان سے یہ بھی کہلا دیتے ہیں کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ۔ میں نے اپنے شوہر کو بھی اسی طرح بوٹی بوٹی کرڈالا تھا،کیونکہ وہ بھی بے وفا تھا۔ اب یہاں آ کر منٹو صاحب کا نشہ کچھ اترتا ہے ۔ انھیں یاد آتا ہے کہ اگر رقابت کی بنا پر قتل ہونا ہی تھا تو مرد کا ہونا تھا (جیسا کہ پہلے ہو چکا ہے )، اب بچاری نواب کے قتل کا کیا جواز پیدا کریں ؟ تو وہ مختصراً شاہینہ کی زبان سے فرماتے ہیں :”تم سے مجھے پیار ہے، اس لیے میں نے تمھارے بجاے ۔۔۔”
سچ ہے، پیٹ بڑا بدکار ہے بابا۔ جیسے بھی ہو، افسانہ مکمل کرنا ہے اور کالا پانی حلق سے اتارنا اور کچھ روپئے بچ رہے تو بال بچوں کی روٹی کا بھی انتظام کرنا ہے ۔ اور یہ سب مجبوریاں نہ بھی ہوں تو تیز نویسی کی مجبوری تو ہے ہی۔ ہلاکت جیسا کردار خلق کرنے اور قائم کرنے کے لیے اتنا کہنا کافی نہ تھا کہ ہیبت خان کے بارے میں ہمیں کئی بار بتایا گیا ہے کہ وہ سنسان سڑک پر (جس پر نواب کا مکان ہے )کوئی لاری یا موٹر بھی گذر جاتی ہے تو خوف زدہ ہو جاتا ہے ۔ نواب اس سے وجہ پوچھتی ہے تو وہ اسے جھڑک دیتا ہے ۔ معاف کیجیے گا منٹو صاحب،ہلاکت جیسے غیر معمولہ (غیر معمولی نہیں ) کردار کو افسانے کے منظر میں لانے کے لیے کچھ محنت کرنی پڑتی ہے، کچھ تفصیل میں جا کر زمین تیار کرنی پڑتی ہے ۔ میں یہ تو نہ کہوں گا کہ آپ میں صلاحیت نہیں، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آ پ کو اس کی فرصت نہیں، یاآپ میں اتنا صبر نہیں ۔
احمد راہی صاحب سے کچھ باتیں اور سنو۔ انیس ناگی کا سوال تھا:
منٹو کے دوستوں اور نقادوں نے ان کے Alcoholicہونے کا بیان کیا ہے ۔ یعنی Alcoholic وہ ہوتا ہے جو نشے کے بغیر زندہ نہ رہ سکے ۔ اس سے منٹو کو بہت نقصان ہوئے ۔۔۔الکحل کی زیادتی سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں متاثرہوئی تھیں ۔۔۔کیا ان کے دوستوں نے انھیں الکحل کے جال سے محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کی؟
اس پر احمد راہی نے کیا دل ہلا دینے والی بات کہی:”پہلے تو یہ فیصلہ کریں کہ منٹو صاحب کا کوئی دوست تھا؟ “اب اس کے بعد منٹو کے طریقۂ افسانہ نگاری کا آنکھوں دیکھا حال سنو۔ احمد راہی نے مزید کہا:
جہاں تک ان کا افسانہ لکھنے کا تعلق تھا،تو وہ صبح کا اخبار پڑھتے تھے تو اس میں سے افسانہ نکال لیتے تھے ۔۔۔وہ پاؤں کے بل فرش پر بیٹھے ہوتے تھے، سامنے اخبار پھیلایا ہوا، اسے پڑھ رہے ہیں ۔ اس میں سے کہانی تلاش کی اور اپنے گھر کے چھوٹے لکھنے کے کمرے میں چلے جاتے ۔ تین چار گھنٹے میں و ہ افسانہ لکھ لیتے ۔ ان کا عام افسانہ بھی اتنے ہی وقت میں لکھا گیا ہے اور ان کا بہترین افسانہ بھی۔۔۔ادھر انھوں نے صفحہ ختم کیا،ادھر ہم نے وہ صفحہ پکڑلیا۔ ان کے ذہن میں نہیں آتا کہ پڑھتے ہوئے اس کا کیا اثر ہو گا؟آواز لگائی، مجھے اس صفحے کا آخری فقرہ سناؤ۔ وہ سن کر دوسرا صفحہ لکھنا شروع کر دیتے ۔ ہم پہلا صفحہ پڑھتے، چارپانچ، چھ صفحے کا افسانہ ہوتا ۔۔۔وہ افسانہ بیس یا پچیس روپئے پر بیچ دیا۔
اس پر اصغر ندیم سید نے کہا کہ منٹو صاحب کی”ساری کہانیوں میں کوئی ڈسپلن یا فارمولا نظر نہیں آتا۔ ” مجھے اس بات سے بالکل اتفاق نہیں ۔ عجلت نویسی اور چیز ہے اور ڈسپلن کا فقدان اور چیز۔ اب رہا “فارمولا”، تو منٹو کو فارمولے ہی سے تو بیر تھا، اور اسی بنا پر تو وہ اپنے افسانے کے انجام کو حیرت انگیز یا غیرمتوقع بناتے تھے، اس میں Verisimilitudeیعنی توافق رہے نہ رہے ۔ اور ایک بہت ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستا ن کے زمانے میں جب ان پر نکبت طاری تھی، انھوں نے زود نویسی پر زیادہ سے زیادہ عمل کیا۔ جگدیش چندر ودھا ون نے لاکھ روپئے کی بات کہی ہے :
ہندوستان میں فلمی دنیا نے منٹو کی جھولی بھر دی تھی اور انھوں نے ہزاروں نہیں لاکھوں کمائے تھے ۔ لیکن پاکستان ان کے لیے سراب ثابت ہوا۔
صہبا لکھنوی کی مرتبہ “منٹو ایک کتاب” میں ایک مضمون “منٹو اپنے ہمزاد کی نظر میں “شامل ہے، اس کے بارے میں صہبا صاحب کا بیان ہے کہ منٹو صاحب نے یہ مضمون اپنی موت کے چند ہی ماہ پہلے لکھا تھا اور یہ ان کے کسی مجموعے میں نہیں ہے ۔ اس مضمون میں منٹو نے لکھا ہے :
اس[منٹو] نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوئے ہیں ۔ حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہو گا تو وہ رات کو سوچے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کاخیال کر ے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا اور اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے، لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی توباہر پان لینے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع پھر بھی اس کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ آخرو ہ انتقامی طور پرقلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور687لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ؛ ٹوبہ ٹیک سنگھ؛ ہتک؛ممی؛ موذیل، یہ سب افسانے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں ۔
اس میں ” بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے ” کا چکر بھی ہو گا۔ لیکن بنیادی حقیقت، یعنی زود نویسی اورنظر ثانی سے احتراز، بہر حال نا قابل تردید ہے ۔
خیر،اب ممتاز شیریں کی بات بھی سن لی جائے ۔ انھوں نے یہ تو نہیں کہا کہ “سرکنڈوں کے پیچھے ” میلو ڈرامائی، اور تاثر کے لحاظ سے ناکام ہے، جیسا کہ تم کہتے ہو۔ (کم سے کم “منٹو،نوری نہ ناری” میں تو نہیں کہا، کہیں اورکہا ہو تو مجھے نہیں معلوم۔ تم نے حوالہ کوئی دیا نہیں ہے ۔ ) لیکن وہ بھی اسے سنسنی خیزی کی طرف مائل بتاتی ہیں ۔ میں تو اسے سنسنی خیز بھی نہیں، سراسرHorror Story کہتا ہوں، جیسا کہ تم نے ابھی پڑھا۔ وہ کہتی ہیں کہ “یہ افسانہ جو بہت غیرمتناسب بھی ہے،یقینامنٹو کے اچھے افسانوں میں شمار نہیں ہوتا۔ ” پھر بھی، وہ شاہینہ/ہلاکت کے کردار سے بہت متاثر ہیں :
“سرکنڈوں کے پیچھے “کی ہلاکت تو اس معاملے (سادیت، یا (Sadism میں رکما [“پڑھیے کلمہ” کی مرکزی کردار]پر بھی بازی لے گئی ہے ۔ ہلاکت میں کلونت کور کی تیز خونی رقابت اور رکما کی خونخوار سادیت،دونوں ایک ساتھ جمع ہو گئی ہیں اور دونوں جذبوں کی یکجائیت نے ہلاکت کو اور بھی زیادہ ہلاکت خیز، خونخوار اور شیطانی کردار بنا دیا ہے ۔۔۔یہ دھڑلے کی زور دار اور خوفناک عورت (جو خوبصورت بھی ہے ) ہٹے کٹے ہیبت خان پر اس طرح اپنی شخصیت طاری کیے رہتی ہے کہ اس سے بیو فائی کرنے کے بعد اس کی اچانک آمد کے خیال سے وہ اپنی نیندوں میں کانپ کانپ اٹھتا ہے ۔۔۔پھر بھی یہ واردات [نواب کا قتل اور اس کا گوشت پکایا جانا]کچھ انہونی سی معلوم ہوتی ہے ۔ ممکن ہے یہ واقعہ بالکل صحیح ہو،بلکہ یہ کوئی اخبار ی رپورٹ ہو۔ تاہم یہ واردات Improbable Possibilityکے تحت آتی ہے،یعنی وہ جس کے ہونے کا امکان نہیں ہوتا لیکن جو اتفاقاً وقوع پذیر ہو گئی ہو۔ اسے قابل یقین بنانا فن کار کے لیے خاصا کٹھن مرحلہ تھا اور منٹو نے اس افسانے میں اس پر کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔۔۔اس سے سستے اسٹنٹ اورسنسنی خیزی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔
یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ممتاز شیریں (غالباً اپنے عورت ذات ہونے کا پاس رکھتے ہوئے ) کئی غلطیوں میں مبتلا ہو گئی ہیں ۔ انھوں نے ہلاکت اور رکما دونوں کو سادیت کاشکار بتا دیا ہے ۔ وہ جگہ جگہ فروئڈ (Sigmund Freud)اور ہیویلاک ایلس (Havelock Ellis)کے حوالے دینے سے باز نہیں آتیں، لیکن وہ یہ نظر انداز کر دیتی ہیں کہ سادیت وہ رجحان ہے جس کے زیر ثر انسان جنسی لذت حاصل کرنے کے لیے کسی کو اذیت پہنچاتا ہے، چھریوں سے زخمی کرتا ہے، درے لگاتا ہے،وغیرہ۔ اس کے بغیر اسے (جنسی)تسکین نہیں ہوتی۔ تسکین تو دور رہی، اکثر اس کی شہوت بیدار بھی نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ رکما یا ہلاکت/شاہینہ، ظالم، قاتل، جو بھی ہوں، سادیت پرست نہیں ہیں ۔ ممتاز شیریں کی یہ تعبیر دونوں افسانوں کو ناکام بنا دیتی ہے، کیوں کہ اگران کا مقصد سادیت پسند عورتوں کا بیان ہے تو نہ رکما سادیت پسند ہے اور نہ ہلاکت۔
دوسری مشکل یہ ہے کہ ہلاکت/شاہینہ”دھڑلے کی زور دار عورت”شاید ہو، شاید نہ ہو۔ لیکن وہ ہیبت خان سے محبت نہیں کرتی، (“وہ ہیبت خان سے ۔۔۔اپنے انداز میں محبت کرتی ہے ۔ “)جی نہیں، وہ محبت کسی سے نہیں کرتی۔ وہ اقتدار چاہتی ہے ممتاز شیریں صاحب۔ آپ اس کی وکالت میں جتنی لسانی کریں گی، آپ کا مقدمہ اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا۔ آپ کو اس بات کے اعتراف میں سنکوچ کیوں ہے کہ منٹو صاحب بڑے افسانہ نگار تھے لیکن انھیں افسانہ بنانے کی فرصت نہیں تھی؟ وہ اپنے لکھے کو دوبارہ پڑھتے بھی نہیں تھے (جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں،اس باب میں کئی چشم دید بیانات ہیں )۔
ممتاز شیریں صاحب نہایت عالم شخص تھیں ۔ یہا ں وہ (کم و بیش تحسین کے لہجے میں ) کہتی ہیں کہ منٹو کی [ ہلاکت ]کے “خون میں آتش ہے “،(معاف کیجیے گا لیکن میں یہ جملہ سمجھ نہیں پایا۔ )”وہ خون کی پیاسی اور قاتل بن گئی ہے ۔ لیکن وہ لیڈی میکبتھ (Lady Macbeth)یا کلائیٹمنسٹرا (Clytemnestra)نہیں ہے ۔ کیونکہ قتل کے ذمہ دار محض اس کے فطری، وحشی،ہیجانی جذبات ہیں، اور اپنے تیز، وحشی،ہیجانی جذبات کے ساتھ وہ “فطری عورت “ہے ۔ ” خدا کا شکر بھیجئے ممتاز شیریں صاحب، کہ آپ کو کشور ناہید، شفیق فاطمہ شعریٰ، فہمیدہ ریاض جیسیوں کا زمانہ نہیں ملا۔ ورنہ وہ نہ جانے کیا کرتیں ۔ شاید ہلاکت جیسی عورت کوسپاری دے کر آپ کو مروا ہی دیتیں ۔
بی بی، یہ “فطری عورت”کیا ہوتی ہے ؟ اور لیڈی میکبتھ “فطری عورت”کیوں نہیں ہے ؟ وہ تو قاتلہ( یعنی قتل کی طرف اکسانے والی)ہے، اور قتل بھی اپنے مربی، اپنے مہمان، اپنے بادشاہ کا۔ لیکن وہ اماں جان بھی ہے،اس نے اپنے بچوں کو دودھ بھی پلایا ہے،بڑے لوگوں کی طرح دائی پلائی نہیں رکھی۔ ذرا سن لیجیے، وہ اپنے میاں کو ترغیب قتل دیتے وقت، اور اس کے متزلزل ارداے اور پرانے وعدے کو قوت دینے کے لیے کیا کہتی ہے :
I have given suck, and know
How tender ’tis to love the babe that milks me:
I would, while it was smiling in my face,
Have plucked my nipple from his boneless gums,
And dash’d the brains out, had I so sworn
as you have done to this۔
Macbeth, I, vii, ll۔ 54-59۔
“میکبتھ”کا اردو ترجمہ مطبوعہ اظہار سنز، لا ہور (مترجم ارشد رازی) میرے سامنے ہے ۔ وہ اس قدر کمزور ہے گویا کسی کی آنکھیں پھوڑکر اس کو موتیوں اور ہیروں سے لدے ہوئے، سونے سے لپے ہوئے لباس کی جگہ کچے سوت کی چادر اڑھا دی گئی ہو۔ اس لیے اپنا ہی ترجمہ لکھتا ہوں کہ وہ مطبوعہ ترجمے سے کچھ بہتر ہو سکتا ہے :
لیڈی میکبتھ:میں نے بچے پلائے ہیں اور میں جانتی ہوں
کہ وہ لمحہ ممتا کے مزے اورمحبت کی گرمی سے کس قدر بھر پور ہوتا ہے جب
میرے دودھ کی دھار بچے کے منھ میں گرتی ہے اور
جب وہ مجھے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا ہوتا ہو، میں
اس کے پوپلے منھ سے اپنا سر پستان کھینچ لیتی
اور دیوار پر پٹک کر اس کا بھیجا پاش پاش کر دیتی، اگر میں نے اس کام کے لئے قسم
اس طرح کھائی ہوتی جس طرح تم نے کھائی تھی۔
ہلاکت یا کسی بھی عورت کے بارے میں کہنا کہ وہ لیڈی میکبتھ نہیں ہے، صرف یہ کہنا ہے کہ وہ خارش زدہ لومڑی ہے، وہ شیرنی نہیں ہے جس کی کمر اور آنکھوں سے جنگل دمک اٹھتا ہے ۔ یہاں منٹو کی محبت میں ممتاز شیریں اس قدر غیر متوازن ہو گئی ہیں کہ وہ نقاد کے بجاے ایک جوشیلی وکیل بن گئی ہیں ۔ مگر کس خاطر؟ کلونت کور تو محض ایک سستے جذبۂ رقابت کی ماری ہوئی عورت ہے، رکما میں کچھ گرمی ہے، لیکن اس کے کردار کی گہرائیاں (اگر کچھ گہرائیاں ہیں بھی)واضح کرنے کی کچھ بھی کوشش منٹو صاحب نے نہیں کی ہے ۔ رہی بچاری ہلاکت/شاہینہ، تو وہ لیڈی میکبتھ کے دروازے پر جھاڑو لگانے کے بھی لائق نہیں ہے۔ کیا تم بھولتے ہو کہ لیڈی میکبتھ اور میکبتھ کی زبانوں سے شیکسپیئر نے وہ جملے کہلائے ہیں جو دنیا کے کسی بھی ادب میں گوہر شب چراغ کا مرتبہ رکھتے ہیں ؟ کردار نگاری کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کو الگ رکھو، ان کی زبان سے جو شاعری ادا ہوئی ہے وہی انھیں لازوال بنادیتی ہے ۔
ممتاز شیریں مرحومہ میں ایک عادت تھی،کہ وہ جگہ بے جگہ بڑے بڑے نام لے کر اپنی علمیت کا سکہ بٹھادیتی تھیں لیکن وہ ان لوگوں کے بارے میں ہمیں کچھ بتاتی نہیں تھیں ۔ ہم صرف مرعوب ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ عسکری صاحب بھی بڑے اور نامانوس لوگوں کے نام بہت لیتے تھے، لیکن وہ ان کی عبارت میں پوری طرح پیوست ہوتے تھے اور ہمیشہ نہیں تو اکثر وبیشتر قاری سمجھ لیتا تھا کہ ان ناموں کی معنویت کیا ہے ۔ لیکن ممتاز شیریں صاحب بس نام لے دیتی ہیں اور ہمیں چھوڑجاتی ہیں ۔ بھلا اس کا کیا مطلب ہوا کہ ہلاکت/شاہینہ کلائیٹمنسٹرابھی نہیں ہے، کیوں کہ ہلاکت/شاہینہ اپنے “حیوانی، وحشیانہ،فطری جذبات” کے سبب قتل کرتی ہے ۔ لیکن وہ ہمیں بتاتی نہیں ہیں کہ یہ کلائیٹمنسٹراکون تھی اور ہلاکت/شاہینہ سے اس کا کیا رشتہ تھا؟
تو ذرا ایک منٹ سن لو۔ کلائیٹمنسٹراکے حسب نسب کی بلندی سے قطع نظر کرو اور اس کے سوانح پر غور کرو۔ اس کا شوہر ایگاممنن(Agamemnon)ایتھنز کا بادشاہ ہے ۔ جب وہ ٹرائے کے خلاف فوجی مہم لے جا رہا ہوتا ہے تو راستے میں سب جہاز ایک جزیرے پر رک جاتے ہیں اور ٹلنے کا نام نہیں لیتے ۔ جہازوں کو رواں کرنے کے لیے ایگاممنن اپنی بیوی (یعنی کلائیٹمنسٹرا) سے پوچھے بغیر جوان دوشیزہ بیٹی آفیجنیا (Iphigenia)کو قتل کر کے اسے دیوتاؤں پر بھینٹ چڑھا دیتا ہے ۔ جنگی مہموں کے دوران وہ ٹرائے کی شہزادی قصندرہ (Cassandra)سے شادی کر لیتا ہے ۔ ادھر کلائیٹمنسٹرا بھی اپنے لیے ایک عاشق ایجستھس (Aegisthus)پیدا کر لیتی ہے، لیکن کلائیٹمنسٹراکا دل اپنے شوہر کے خلاف برہمی سے مملو بھی ہے کہ اس نے ایک تو میری جوان بیٹی کی جان لی اور پھر میرے اوپر ایک سوت بھی لے آیا۔ وہ بدلہ لینے کا تہیہ کر لیتی ہے ۔
ایگاممنن کی واپسی پر کلائیٹمنسٹرا اس کے استقبال کے لیے ایک نہایت قیمتی زرتار چادر بچھاتی ہے کہ اس پر ننگے پاؤں چل کر وہ محل میں داخل ہو اورواپسی کا غسل کرے اور پاک ہو۔ لیکن وہ چادر زہر میں بسائی ہوئی ہے اور اپنی مرضی کے خلاف اور قصندرہ کی پیشین گوئی کے با وجود، کہ اس میں موت ہے، ایگاممنن چادر پر قدم رکھتا ہوا اپنے انجام کو پہنچتا ہے ۔ اس پوری کہانی کو ایسکلس (Aeschylus)نے اپنے ڈرامے “ایگاممنن” میں بیان کیا ہے ۔
یونانی ڈراما نگار و ں کو ایک بڑی آسانی یہ تھی کہ ان کے ڈراموں کے تمام اہم واقعات اور کردار، مبنی بر اسطور ہوتے تھے، لہٰذا ان کے بارے میں یہ سوال اٹھتا ہی نہ تھا کہ وہ قرین قیاس ہیں کہ نہیں،یا ان میں توافق (Verisimilitude)ہے کہ نہیں ؟لیکن ڈرامانگار سے توقع پھر بھی ہوتی تھی کہ وہ ڈرامے کے واقعات کے لیے کچھ تیاری بنائے، عقلی اور جذباتی فضا قائم کرے، نہ کہ منٹو صاحب کی طرح ہمارے اوپر ہلاکت کا بغدہ مار کر (بقول داستان گو احمد حسین قمر) ہمارا شکم چاک قصہ پاک کرے ۔ ایسکلس کے “ایگاممنن” سے ایک اقتباس تم بھی سنو۔ میں نے اسے فلپ ویلاکاٹ (Phillip Vellacott)کے ترجمے سے ترجمہ کیا ہے :
[محل کا دروازہ کھلتا ہے، کلائیٹمنسٹر انظر آتی ہے ۔ ایگاممنن اس کے قدموں پر مردہ پڑا ہوا نظر آتا ہے ۔ وہ نہانے کے نقرئی ٹب میں ہے،اس کا بدن ایک بڑی اور بھاری قیمتی چادر میں لپٹا ہوا ہے ۔ اس کی لاش پر قصندر ہ پڑی ہوئی ہے ۔ قصندرہ بھی مردہ ہے ۔ ]
کلائیٹمنسٹرا:[کورس سے مخاطب ہو کر]ابھی کچھ دیر پہلے میں نے چند باتیں کہی تھیں، وقت کی مناسبت سے ۔
وہ وقت اب گذر گیا۔ میں انھیں باتوں کو ان کہی کرتی ہوں اور مجھے اس میں کچھ بھی شرم نہیں ہے ۔
کسی دوست نما دشمن کے لیے موت کا سامان کرنے کے لیے بھلا اور کیا طریقہ ممکن ہے ؟بھلا اور کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کی موت کے قاتل جال کواتنا اونچا بنایا جائے کہ جواس کی بلند ترین زقندکو بھی روک لے ؟
میں نے غور کیا، بہت دیر تک غور کیا، کہ اپنی اور اس کی قوت کے مقابلے کو کس طرح انجام دوں ۔
اور آخر کار،وہ جم کر مبارزہ، اور میری فتح!
دیکھو۔ جہاں میں کھڑی ہوں، یہ وہی جگہ ہے جہاں میں نے اپنا وار کیا اور کامگار ہوئی۔
ہاں، یہ میرا کارنامہ ہے،میرا۔ اور میں اس کارنامے پر صرف اپنا دعویٰ قائم کرتی ہوں ۔
وہ بھاگ نہ نکلے، یا موت کو مات نہ دے دے، اس غرض سے میں نے اس پر یہ حجیم وسمین جال پھینکا، ماہی گیر وں کی طرح۔
اور اس جال نے اسے ان گنت تہوں میں،بافتہ،بے مثال اور تونگر تہوں میں لپیٹ لیا۔
پھر میں نے اس پر وار کیا، ایک بار نہیں، دوبار!اور دو بار اس کی چیخ نکلی اور وہ کراہا!
اور پھر اس کے عضلات ڈھیلے پڑگئے اور وہ زمین پر گرا۔ اوراسی حالت میں میں نے اس کو تیسرا اور آخری زخم لگایا۔ میں نے زیوس کی بارگاہ میں شکرانہ ادا کیا کہ میری دعائیں قبول ہوئیں ۔
زیوس، جو پاتال کی دنیاؤں کا مالک اور انسانوں کا رکھوالا اور مستغاث ہے ۔
وہ گرا،اور گرتے گرتے اس کی جان اگل اگل کر نکلتی گئی:کھانستا ہوا اور ابکائیاں لیتا ہوا،
خون، جو اس کے بدن سے فوارے کی طرح چھوٹا،ہر طرف بوچھار گری اور۔ ۔ ۔
میرا لباس قرمزی بارش کی بوندوں کی چھینٹ سے بھر گیا۔
اور میں فخر سے بھر کر نہالوں نہال ہوتی رہی، جیسے کہ غلے کا کھیت
نہالوں نہال ہوتا ہے جب موسم بہار میں فردوسی شبنم آسمان سے گرتی ہے،
اور پودوں پر کلیاں پھوٹ نکلتی ہیں ۔
(مصرع2711 تا 2911)
بھلا سوچیے، غور کیجیے، کہاں دیوتاؤں کی بیٹی، بادشاہ کی بیوی کلائیٹمنسٹرا اور کہاں بچاری ہلاکت/ شاہینہ جسے ٹھیک سے بولنا بھی نہیں آتا، جس میں وقار اورتمکنت کا ایک شائبہ بھی نہیں ۔ ممتاز شیریں صاحب کو اگر یونانی ڈرامے ہی کی یاد کرنی تھی تو یوریپڈیز (Euripides)کا ڈراما Medeaذہن میں لائی ہوتیں کہ خاوند اور سوت سے انتقام کی ایسی مثال دنیا کے ادب میں شاید ہی ملے ۔
مڈییا( اول مکسور اوریاے مجہول کے ساتھ اس نام کو مِڈے +یا پڑھو)، ہر طرح کی صفت سے مزین ہے :خوبصورت ہے، بڑے باپ کی بیٹی ہے، مصمم ارادے کی مالک ہے اور بہت بڑی ساحرہ بھی ہے ۔ اس نے اپنے شوہر جیسن (Jason)کی دنیاو ی ترقی اور کامیابیوں کے لیے کئی خون کیے اور کرائے ہیں ۔ لیکن جیسن اس کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایگاممنن نے کلائیٹمنسٹرا کے ساتھ کیا تھا۔ (جیسن کی پہلی خدمت اور مدد وہ یہ کرتی ہے کہ جب جیسن اسے لے کر فرار ہورہا ہے تو مڈییا اپنے بھائی کو قتل کر کے اس کی لاش کے ٹکڑے راستے میں پھینکتی چلتی ہے تاکہ اس کا باپ بھاگتے ہوئے جوڑے کا تعاقب نہ کر سکے ۔ ) لیکن بالآخر جیسن اس پر سوت لاتا ہے اوراتنا ہی نہیں، مڈییا کے بطن سے اپنے دونوں بچوں کو اورخود مڈییا کو جلا وطنی کا حکم دے دیتا ہے ۔ مڈییا اسے لاکھ سمجھاتی ہے، پرانی نیکیوں کا واسطہ دیتی ہے، لیکن جیسن کا فیصلہ اٹل ہے ۔
ظاہر ہے کہ مڈییا کویہ ہرگز منظور نہ تھا۔ وہ اپنے سحر کو کام میں لاتے ہوئے اپنی سوت کے لیے ایک قاتل مگر دلکش لباس تیا رکرتی ہے۔ جیسن کی دوسری بیوی اسے پہن لیتی ہے اور سکرات موت میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ اس کا باپ اسے بچانے دوڑتا ہے لیکن وہ جادوئی لباس اس کے بدن سے چمٹ جاتا ہے اور دونوں ختم ہو جاتے ہیں ۔ یہ خبر سن کر میڈییا اپنے دونوں بیٹوں کو قتل کر دیتی ہے اور خود اپنے سحر کے زور سے اژدہوں والے رتھ پر بیٹھ کر اڑجاتی ہے اور شوہر سے کہتی ہے، تو مجھے کیا جلا وطن کرے گا؟ میں خود چلی جاتی ہوں ۔
یوریپڈیز (Euripides)کے اس ڈرامے کے کئی ترجمے ہوئے ہیں ۔ اس وقت جو میرے سامنے ہے ،وہ بالکل جدید انگریزی زبان میں اور حال کے لب و لہجہ میں کناڈا کے ایئین جانسٹن (Ian Johnston) کا کیا ہوا ہے ۔ میرے سامنے علی گڈھ کے مقبول حسن خان کا اردوترجمہ بھی ہے،لیکن انھوں نے یہ بتایا نہیں ہے کہ ان کا ترجمہ براہ راست یونانی سے ہے، یا کسی انگریزی ترجمے کے توسط سے ۔ بہر حال، میں ترجمے کا مزید کسالا کھینچنے سے بچنے کے لیے مقبول حسن خان کے ترجمے سے اقتبا س سناتا ہوں ۔ ترجمہ اس قدر سست ہے کہ لگتا ہے، انھوں نے شاید اصل یونانی کو سامنے رکھ کر لفظی ترجمہ کرڈالا:
[ایک پیغام رساں داخل ہوتا ہے ۔ ]
پیغام رساں : چلی جا، چلی جا! مڈییا تو نے ایک خوفناک کام انجام دیا ہے،ایسا کام جو ہر دستور کے خلاف ہے ۔ اپنے پیچھے سمندر میں تیرنے والا جہاز یاخشکی پر چلنے والی گاڑی مت چھوڑنا!
مڈییا:کیوں ؟ ایسی کون سی بات ہوئی ہے جس کی وجہ میرے لیے فرار ہو جانا ایسا ضروری ہو گیا ہے ؟
پیغام رساں :شہزادی مر چکی ہے ۔ بس ایک لمحہ پہلے، اور اس کا باپ کر ی اون(Creon)بھی۔ دونوں کی موت کا سبب تیری دی ہوئی دوائیں تھیں !
مڈییا: تیری لائی ہوئی خبر مسرت انگیز ہے ۔ آئندہ تجھ کو میرے خیر خوا ہوں اور ہمدردوں میں سمجھا جائے گا!
پیغام رساں :کیا!اے خاتون، ترے ہوش وحواس تو درست ہیں ؟تو نے ہمارے شاہی خاندان پر اس ظلم و ستم کی کہانی خوشی کے ساتھ سنی؟تجھ کو یہ ہولناک خبر سن کروحشت نہیں ہوئی؟
مڈییا:تیری بات کے جواب میں کہنے کے لیے میرے پاس بھی کچھ ہے ۔ لیکن دوست، اس کو سننے کی جلدی نہ کر،بلکہ یہ بتا کہ یہ موتیں کس طرح وقوع پذیر ہوئیں ؟ کیوں کہ یہ جان کر کہ ان کی موت اذیت کے ساتھ ہوئی میری خوشی دوبالا ہو جائے گی!
پیغام رساں :جب تیرے بچے اپنے باپ کے ساتھ آئے اوردلہن کے محل میں داخل ہوئے تو ہم سب خادم جو تیرے غم زدہ تھے، نہایت خوش ہوئے کیوں کہ فوری طورپرایک کان سے دوسرے کا ن تک یہ خبر پھیل گئی کہ تجھ میں اورہمارے آقا میں ایک پرانی رنجش ختم ہو گئی ہے ۔ کسی نے بچوں کے ہاتھ کو بوسے دیے ،کسی نے ان کے سنہرے بالوں کو چوما۔ میں خوشی سے پھولا ہوا زنان خانے تک گیا۔ ہماری مالکن نے ، جو کہ اب تیرے کمرے میں ہماری خدمت کی حق دار ہے،خواہش بھری نگا ہوں سے جیسن کی طرف دیکھا۔ اور اس کے بعد اس کی نگاہیں تیرے بچوں پر پڑیں ۔ ان کو دیکھتے ہی اس نے اپنا منھ پھیرلیا،جیسے کہ اس کو ان کی آمد ناگوار گذ ری ہو۔
تیرے شوہر نے اپنی نئی عروس کی ناراضگی کم کرنے کی خاطر اس سے کہا، ‘اپنے چاہنے والوں کو دیکھ کر ناراض نہ ہو۔ غصہ مت کر۔ اورایک بار پھر اپنا چہرہ اس طرف پھیر لے اور ان کو اپنا دوست سمجھ،کہ جو تیرے شوہر کے دوست ہیں ۔ اور ان کو اپنا دوست سمجھ، اورمیری خاطراپنے باپ کو رضامند کر لے کہ وہ ان بچوں کی جلا وطنی کاحکم واپس لے لے ۔ ‘
جیسے ہی اس[نئی دلہن] نے وہ آرائش کا سامان دیکھا،اس نے اپنے شوہر کا ہر حکم مان لیا۔ اور اس سے قبل کہ اس کا باپ اور بیٹے محل سے نکل کر دور گئے ہوں،اس نے نقش ونگار بنا ہوا لباس پہن لیا اور سنہرا تاج اپنے بالوں پر رکھ لیا۔ اپنے روشن آئینے میں دیکھ کر اس نے اپنے بالوں کو سنوارا اور اپنے عکس کو دیکھ کروہ بار بار مسکراتی رہی۔ پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے گورے قدموں سے آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کمرے کے دوسرے سرے تک گئی۔ وہ بار بار اپنے کپڑوں کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھی اور اپنے اٹھے ہوئے ٹخنوں کو جھک جھک کر دیکھ رہی تھی۔ اور تب،اچانک ایک دلخراش منظر سامنے آ گیا۔
ایک ہی لمحے میں اس کی رنگت پیلی پڑگئی۔ وہ چکر کھاتی ہوئی پیچھے کی طرف مڑی۔ اس کا ایک ایک عضو کانپ رہا تھا اور اس کے پہلے کہ وہ زمین پر لڑھک جائے،وہ بے سدھ ہو کر ایک کرسی پر گرپڑی۔۔۔ایک بوڑھی عورت نے یہ سوچ کر کہ شاید یہ کسی مرض کا دورہ ہے اور پین (Pan)یا کسی اور دیوتا نے اس پر طاری کر دیا ہے، دعائیں شروع کر دیں ۔ اس نے شہزادی کے منھ سے جھاگ نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور چہرے پر خون کی رمق بھی باقی نہ تھی۔
ایک خادمہ فورااًس کے باپ کے گھر کی طرف گئی اور دوسری اس کے شوہر کی طرف۔۔۔شہزادی ایک خوفناک چیخ مار کر ہوش میں آ گئی ۔ اس کی بے زبانی، بے ہوشی ختم ہو گئی۔ اور اس نے آنکھیں کھول دیں ۔۔۔اس کے سرپر رکھے ہوئے تا ج سے حیرت انگیز اور تباہ کن شعلے نکل رہے تھے ۔۔۔خوبصورت لباس گوری رنگت والے بدن کو کھائے جا رہا تھا۔۔۔اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے سر اور بالوں کو جھٹکتی رہی کہ تاج اس کے سرپر سے ہٹ جائے ۔۔۔سر ہلانے کی وجہ سے شعلے اور بھی تیزی سے بھڑکنے لگے ۔۔۔اس کی آنکھوں کی سکون آمیز چمک ختم ہو چکی تھی اور اس کا چہرہ اپنی فطری رنگت کھو بیٹھا تھا۔ سر پر رکھے ہوئے تاج سے خون اور آگ کے چشمے بہ رہے تھے ۔ اس کی ہڈیوں سے گوشت کے ٹکڑے الگ ہو ہو کر گر رہے تھے ۔۔۔تب اس کا بد نصیب باپ وہاں پہنچا۔۔۔اس نے لاش کو اپنی با ہوں میں لے لیا اور اس کو پیار کرنے لگا۔۔۔لیکن اس نے محسو س کیا کہ شاہزادی کے خوبصورت لباس نے اس کو اس طرح جکڑرکھا ہے جس طرح عشق پیچاں کی بیل تیز پات کی شاخوں کو۔۔۔اس کی ہڈیوں سے اس کا اپنا بوڑھا گوشت چھوٹ چھوٹ کر گرنے لگا۔۔۔ اور اب،بیٹی اور اس کا باپ ایک دوسرے کے پاس مردہ پڑے ہیں ۔۔۔
مڈییا:[کورس سے مخاطب ہو کر]میرے دوستو، میں اپنے ارادے پر بدستور قائم ہوں ۔ میں اپنے بچوں کی جان لینے کے بعد اس ملک کو فوراً چھوڑدوں گی، اس سے قبل کہ میری تاخیر کی بنا پر دوسروں کے ظالمانہ ہاتھ انھیں وحشیانہ طور پر مار ڈالیں ۔ موت تو ان کے لیے لازمی ہے اور چونکہ ان کو مرنا ہے ہی اس لیے میں ہی انھیں قتل کر دوں گی۔
۔۔۔
[مڈییا محل کی فصیل پر نمودار ہوتی ہے وہ ایک رتھ پر سوار ہے جسے اژدہے کھینچ رہے ہیں ۔ بچوں کی لاشیں اس کے ساتھ ہیں ۔ ]
۔۔۔
جیسن:ہمارے بیٹوں کے انتقام کی خواہشمندروحوں کی طرف سے، اور انصاف کی طرف سے،کہ جو تیرے خون کا متلاشی ہے،تجھ پر لعنت ہو!
مڈییا:اے وعدہ شکن، مہمان نواز ی کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے !کون سا ایسا خداوند ہے،کون سی ایسی الوہی قوت ہے جو تیر ی بات سننے کو رضا مند ہو؟
جیسن:تف ہے تجھ پر!ملعون ساحرہ!بچوں کی قاتلہ!
مڈییا:جا۔ اپنی گھر کی طرف جا! اپنی بیوی کو دفن کر!
جیسن:میں جاتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دونوں پیاروں سے محرومی کا داغ لیے ہوئے ۔
مڈییا:تیرے غموں کا سلسلہ لا متناہی ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ بڑھاپے کا انتظارکر، اور پھر دیکھ!
جیسن:ہائے میرے پیارے لخت جگر!
مڈییا:وہ اپنی ماں کو عزیز تھے،تجھے نہیں ۔
جیسن:اس کے باوجو دتو نے ان کا خون کر دیا؟
مڈییا:ہاں ۔ تجھے اذیت پہنچانے کی خاطر!
۔۔۔
[اژدہوں والا رتھ میڈییا کو لے کراڑا چلا جاتا ہے ۔ ]
یہ خیال رہے کہ یونانی ڈرامے نسبۃً مختصر ہوتے تھے،یعنی لکھے جائیں تو وہ بہت سے بہت بیس صفحوں میں آ جائیں گے،آج کل کے اوسط طوالت کے افسانے کی طرح۔ میں نے بہت چھوڑا ہے پھر بھی بہت لمبا اقتباس دیا ہے کہ منظر کے تمام مضمرات تمھارے سامنے آ جا ئیں ۔
جیسا کہ میں نے اوپر کہا، ترجمہ بہت اچھا نہیں ہے ۔ کہیں کہیں میں نے مجبوراً تھوڑی سی تبدیلی بھی کر دی ہے ۔ لیکن تم ذرا مکالمے کی چستی دیکھو۔ میڈییا کے زور کلام کے سامنے جیسن بالکل گونگا معلوم ہوتا ہے ۔ شاید اسی لیے یوریپڈیز نے موت کا منظر قاصد کی زبانی بیان کیا ہے ۔ جیسن صاحب ہزار تیس مار خاں رہے ہوں، وہ عقل سے پیدل تھے ۔ ورنہ مڈییاجیسی اولوا لعزم اور استقلال مزاج رکھنے والی عورت کے گھر بیعانہ نہ دیتے ۔ غور کرو، خودجیسن کو قتل کرنے سے بہت بہتر اپنی اولاد ہی کو ختم کر دینا تھا، کہ جیسن کی نسل منقطع ہو جاتی۔ دوسری بیوی کو وہ کھو ہی چکا ہے، پہلی اسے چھوڑکر آزاد نکل جاتی ہے، اب اسے اپنی نسل کو زندہ رکھنے کی کوئی راہ نہیں ۔
ذرا کلائٹمنسٹرا اور مڈییا کی قوت فیصلہ اور قدرت الفاظ دیکھو۔ بھلا ہلاکت/شاہینہ جیسی بالکل گنگ نہیں تو توتلی،چھچھوری،کم عقل عورت کو ان کے مقابلے میں لانے میں ممتاز شیریں صاحب کا بھلا کیا فائدہ تھا؟بس ہیرو پرستی، یا پھر بڑے بڑے ناموں سے تحریر کو مزین کرنے کا شوق۔ ورنہ ہلاکت/شاہینہ کے الفاظ سنو:
میں نے تمھاری نواب کو سجا بنا دیا ہے !
تمھاری سجی بنی نواب ہے ۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں سے سنگھار کیا ہے ۔
۔۔۔
جان من!یہ پہلی مرتبہ نہیں ۔ میرا خاوند، اللہ اسے جنت نصیب کرے،تمھاری ہی طرح بے وفا تھا۔
تم سے مجھے پیار ہے، اس لیے میں نے تمھارے بجائے ۔۔۔
اجی، ان سب سے زیادہ زور دار جملہ تو نواب بولتی ہے،حالاں کہ وہ تو بالکل ہی بیوقوف اور نا سمجھ ہے :”خان صاحب، جانے دیجیے ۔۔۔جان تو مجھے ہی دینی پڑے گی۔ “
غور کرو اورمیرے کہنے کا مطلب سمجھو۔ اگر منٹو صاحب نے ہلاکت/شاہینہ کے کردار اور فعل کے لیے کچھ بنیاد بنائی ہوتی تو افسانہ کچھ بہتر ہو جاتا،اگرچہ بڑا افسانہ پھر بھی نہ بنتا۔ (یہ بھلا کیونکر ممکن ہو سکتا جب تمھارے سامنے کلائٹمنسٹرا اورمڈییا موازنے کے لیے موجود ہیں ۔ کم سے کم کیکئی کا تو زور اور طنطنہ ہلاکت/ شاہینہ میں ہوتا۔ ) صرف نام سے کیا ہوتا ہے، اور یہ کہنے سے کیا ہوتا ہے کہ وہ بڑے “دھڑلے کی عورت ” ہے ۔ لیکن منٹو صاحب کو صبر کہاں تھا جو افسانہ اور کردار میں کچھ تو مطابقت پیدا کرتے ۔ ہلاکت/شاہینہ کے لجلجے الفاظ ہی میں کچھ قوت بھرتے، کچھ پرانا لکھا ہو ا کاٹتے، کچھ نیا لکھتے ۔
اتنا سب کچھ کہنے کے بعد میں ممتاز شیریں صاحب سے یہ پوچھنا تو بھول ہی گیا کہ “قیمے کے بجاے بوٹیاں ” کا ڈاکٹر سعید تو اور بھی ناکام کردار ہے،حالاں کہ “سر کنڈوں کے پیچھے ” اور”قیمے کے بجاے بوٹیاں ” ایک دوسرے کے عکس ہیں، وہاں مرد بے وفا ہے اور عورت قاتل، یہاں عورت بے وفا ہے اور مرد (بظاہر ) قاتل۔ لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ ڈاکٹرسعید کے پیٹ میں آگ واگ کچھ نہیں، منٹو صاحب نے شرارتاً ایسا افسانہ لکھ دیا ہے جو “سرکنڈوں کے پیچھے “کا برادر معکوس معلوم ہوتا ہے ۔ اتنا تو یقینی ہے کہ منٹو کے ہر افسانے کو اس قدر سنجیدگی سے نہ پڑھنا چاہیے جس طرح ممتاز شیریں صاحب اور وارث علوی صاحب اور تم نے “سر کنڈوں کے پیچھے ” کو پڑھا ہے ۔
اب بڑے بڑے ناموں کی تسبیح پڑھنے و الوں کے ذکر میں ایک اضافہ کر لو۔ وارث علوی نے “سر کنڈوں کے پیچھے ” کی تعریف میں یونانی، ہندوستانی، ایک کرتے ہوئے بار بار مڈییا(Medea)کا نام لیا ہے کہ اس نے انتقام کی خاطر اپنے بچوں کو قتل کر کے ان کا گوشت اپنے میاں کو کھلا دیا۔ در اصل اس واقعے (یا اسطور) کا کوئی بھی تعلق مڈییا سے نہیں ۔ یونانی دیومالا میں مڈییا نہیں ،پروکنی (Procne)وہ عورت تھی جس نے اپنے بچوں کو مار کر ان کا گوشت اپنے میاں ٹیریوس(Tereus)کو کھلا دیا تھا کہ ٹیریوس نے پروکنی کی بہن فلومیلا(Philomela)کے ساتھ زنا بالجبر کر کے اس کی زبان کاٹ ڈالی تھی تا کہ وہ افشاے راز نہ کر پائے ۔
گفتار ہشتم
آؤ تمھیں ایک کام کی بتاؤں ۔ رشید احمد صدیقی نے کسی کے بارے میں کہا کہ ان کے شعروں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہوتی، لیکن خرابی یہ ہے کہ ان میں کوئی خوبی بھی نہیں ہوتی۔ شعر میں بندش کی سستی کی یہ بہترین اور مکمل ترین تعریف ہے ۔ ظاہر ہے کہ رشید صاحب کو خبر نہ رہی ہو گی،لیکن یہ فقر ہ ایک پرانے انگریز نقاد جارج سینٹسبری (George Saintsbury) نے سترہویں صدی کے ایک شاعر راسکامن (Roscommon)کے بارے میں کہا تھا ۔ مشہور شاعر الکزنڈر پوپ (Alexander Pope) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے راسکامن کے “درست “اشعار کو بھی اپنے لیے نمونے کے طور پر سامنے رکھا تھا ۔ سترہویں صدی کے انگریز شعرا کے بارے میں کہا جاتا تھاکہ ان کی شاعری اور ان کی شہرتیں دونوں بہت خراب تھیں ۔ لیکن راسکامن کی تعریف میں پوپ نے کہا:
۔۔۔In Charles’s days,
Roscommon only boasts unspotted bays۔
(شاہ چارلس کے زمانے کے شعرا میں صرف راسکامن ہی ہے جو اس بات پر افتخار کر سکتا ہے کہ اس کی شہرت بے داغ تھی۔ )
اس پر جارج سینٹسبری نے بڑی رکھائی سے کہا کہ بے شک، ان شعرا کی بس ایک ہی خوبی ہے کہ ان میں کوئی داغ دھبہ نہیں ہے (The absence of spots is their only merit)۔ خیر، راسکامن اور اس کے معاصرین کے بارے میں سینٹسبری کی رائے ٹھیک ہی رہی ہو گی،لیکن راسکامن مجھے اپنے ایک قول کی وجہ سے یاد رہ گیا ہے اور یہی قول تمھیں سنانے کے لیے میں نے یہ تمہید باندھی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ”لکھو پوری حدت اور جوش کے ساتھ، لیکن پھر [اپنے لکھے ہوئے پر] اصلاح کرو بلغمی مزاج کے ساتھ(یعنی ٹھنڈے دل سے )” :
Write with fury but correct with phlegm۔
اب اس پر پوپ (Pope) پھر یاد آ گیا، اسے بھی سن ہی لو:
The last and greatest art, the art to blot۔
(سب سے زیادہ منتہا کا، اور سب سے بڑا فن، اپنے لکھے ہوئے کو مٹانے (یعنی درست کرنے اور دوبارہ لکھنے کا فن۔ )
منٹو صاحب کا معاملہ یہی تھا۔ جب وہ جوان تھے تو انھیں صبر اور تحمل نہ تھا کہ لکھتے، پھر اسے پڑھ کر نوک پلک نکالتے، نک سکھ سے درست کرتے ۔ بعد کے دنوں میں انھیں فرصت نہ تھی۔ انھیں جلد از جلد افسانہ لکھ کر اپنی عروق مردہ میں خون زندگی دوڑتا ہوا محسوس کرنے کا ا نتظام کرنے کی لگی رہتی تھی۔ لیکن ہو سکتا ہے یہ ان کی خود بینی اور خود پسندی کا بھی ایک تفاعل ہو اور وہ خیال کرتے ہوں کہ جو لکھ دیا ہے وہ پتھر کی سل پر حرف آخر ہے ۔ اس میں کسی قسم کے حک و اضافہ یا اصلاح کی ضرورت نہیں ۔ وجہ جو کچھ بھی ہو، لیکن “سرکنڈوں کے پیچھے “، اوراس کی طرح کے کچھ افسانوں میں منٹو صاحب نے قاری کے بارے میں ایک طرح کی عدم دلچسپی کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ زبان حال سے کہتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ میں نے افسانہ لکھ دیا،اب ایڈیٹر جانے جو اسے خرید ے ہی خریدے گا، اور قاری جانے (یا نہ جانے )۔ کبھی کبھی (جیسے “مائی جنتے ” میں )منٹو تھوڑا بہت تجسس قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انجام کی سستی پھر بھی باقی رہتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس رویے کو اختیار کر کے منٹو صاحب نے تھوڑی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ انھیں اپنے لکھے کو تھوڑا بہت blot بھی کرتے رہنا چاہیے تھا، ہمیشہ نہ سہی، کبھی کبھی سہی۔
جو لفظ blotپوپ(Alexander Pope) نے اوپر استعمال کیا ہے، اس کی بھی ایک چھوٹی سی تاریخ سن لو۔ دو صاحبان، جان ہیمنگس(John Hemmimgs)اور ولیم کانڈیل (William Condell) شیکسپیئر کے دوست اور ساتھی ایکٹر، اور شیکسپیئر کے بڑے مداح تھے، انھوں نے اس کا کلیات3261 میں چھاپا(وہی جسے ادبی دنیا میں The First Folioکہا جاتا ہے ) ۔
اس کے دیباچے میں انھوں نے لکھا:
جو کچھ اس کے ذہن میں آتا تھا وہ اسے اس قدر روانی سے کہہ جاتا تھاکہ اس کے جو کاغذات ہم تک پہنچے ہیں ان میں بمشکل ہی کوئی سطر ایسی ہو گی جسے اس نے مٹا کر پھر لکھا ہو۔
What he thought he uttered with that easiness that we have scarce received from him a blot in his papers۔
بن جانسن (Ben Jonson)،شیکسپیئر کا دوست، ڈرامانگار اور نقاد، غیر معمولی طور پر ذی علم بھی تھا۔ اس نے ہمنگس اور کانڈیل کے بیان کے بارے میں کچھ جھنجھلا کر لکھ دیا:
کاش کے اس نے ایک ہزار (سطریں ) مٹائی ہو تیں !
Would that he had blotted a thousand!
جانسن کے اس جملے کا مطلب اس کے زمانے میں لوگوں کی سمجھ میں ٹھیک سے نہ آیا ۔ یہ خیال کیا گیا کہ وہ شیکسپیئر کی برائی کر رہا ہے ۔ اس لیے اس نے وضاحت کہ “مجھے اس سے محبت تھی، اور میں اس کی حیات اور اس کی یادوں کے ا حترام میں کسی بھی شخص سے پیچھے نہیں ہوں (اس قدر کہ میں اس کی پرستش نہیں کرتا،بس)۔ “آگے اس نے کہا کہ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ انتہائی عجلت نویس ہونے کے باوجود شیکسپیئر نے اتنا اچھا لکھا تو اگر وہ قلم سنبھال کر لکھتا تو کتنا اور زیادہ اچھا لکھتا۔
گفتار نہم
عجب ہے، ممتاز شیریں نے، اور پھر تم نے “سر کنڈوں کے پیچھے ” کو زیر بحث لانے کے لائق سمجھا۔ ممتاز شیریں نے اس پر جو لکھا ہے اسے پڑھ کر (خدا مجھے معاف کرے اوران کے درجے بلند کرے ) ہنسی آتی ہے ۔ یہ تو منٹو صاحب کے ناکام افسانوں میں ہے ۔ اور وجہ، وہی جلدی،اور جلدی کے کارن سنسنی خیزی۔ تم سمجھتے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں ؟آج کل منی افسانہ، پاپ افسانہ، افسانچہ جیسے واہیات طرز کا فکشن (اگر وہ فکشن ہے )کیوں ہر آنگن میں کلبلاتا دکھائی دیتا ہے ؟ بس اسی وجہ سے کہ اس میں انجام کے لیے کوئی تیاری نہیں کرنی پڑتی،کسی وا قعے کے لیے کوئی بنیاد نہیں بنانی پڑتی۔ منٹو صاحب کے جن کئی اور افسانوں کو تم نے مطعون ٹھہرایا ہے، ان میں سے بعض بعض کا یہی حال ہے،لیکن اس فرق کے ساتھ کہ منٹو کی زبان بہت رواں اور اکثر جگہ غیر معمولی بلندیوں کو چھو لیتی تھی اور افسانے کے لیے موضوع وہ ہمیشہ اتنا تازہ، اتنا نپا اور کسا ہوا ڈھونڈلاتے تھے کہ داد دیتے ہی بنتی تھی۔
“ننگی آوازیں ” شروع میں ہر طرح بہت خوب چل رہا ہے ۔ منٹو صاحب کے سب ٹریڈ مارک اس میں موجود ہیں ۔ کھلی چھت پر کئی عورت،مرد سوتے ہیں، کچھ شادی شدہ ہیں کچھ نہیں ہیں ۔ دیوار کیا، لکڑی کے تختے بھی نہیں ہیں جو ایک “خواب گاہ” کو دوسری سے الگ کریں ۔ ایک نئی بیاہی دلہن کو لائے ہوئے شخص کو چاروں طرف سے گھرے ہوئے ٹاٹ کے پردوں اور ان کے پیچھے سے آنے والی آوازوں سے شرم آتی ہے کہ وہ اور اس کی بیوی کی کھاٹ بھی ایسی ہی آوازیں نکالے گی اور سب انھیں سنیں گے ۔
یہاں تک تو افسانہ بہت خوب ہے، اس کا مرکزی خیال انتہائی تازہ اور انسانی صورت حال کے بنیادی بازارو گندے پن (Sleaze)کی نہایت جیتی جاگتی تصویر کھینچتا ہے ۔ لیکن اس چاروں طرف سے کھلے ہوئے بیڈ روم میں رہنے والوں میں انسانیت بھی ہے ۔ یہ بات بھی ہم قبول کر لیتے ہیں ۔ لیکن جب یہ خبر اڑتی ہے کہ وہ نویلا دولہابھولو اپنی دلہن کی طرف اس لیے راغب نہیں ہوتاکہ وہ عنین ہے، اور یہ خبر بھولو تک پہنچتی ہے تو اس کے “دل میں چھری سی پیوست ہو گئی۔ “یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن:
اس کا دماغی توازن بگڑگیا۔ اٹھا اور کوٹھے پر چڑھ کر جتنے ٹاٹ لگے اکھیڑنے شروع کر دیے ۔۔۔کلن نے بانس اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ بھولو چکرا کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو اس کا دماغ چل چکا تھا۔
مگر یہ کیسے ؟ ہم پوچھتے ہیں ۔ ابھی چار جملے پہلے تو منٹو نے ہم سے بتایا تھا کہ بھولو کا “دماغی توازن بگڑگیا” تھا۔ توکیادماغ کا توازن بگڑجانے اور دماغ چل جانے میں کوئی فرق ہے ؟ اب بھولو”الف ننگا بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے، کہیں ٹاٹ لٹکتا دیکھتا ہے تو اس کو اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے ۔ “
بڑے شہر کی زندگی، شریف لیکن مفلس لوگوں کے لیے جگہ کم اور خواہشیں وہی۔ فوجیوں کو تو شرم حیا ہوتی نہیں، انھیں سب کے سامنے مبازرت کرنے،کھلے عام زنا بالجبر کرنے، میں کوئی ہچک نہیں ہوتی۔ وہاں پردہ وغیرہ کہاں، اور شرم وغیرہ کہاں ؟لیکن خدایایہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں ؟انھیں تو ایسی ہی چھت پر ٹاٹ کے پردوں کا کانا پردہ کر کے اپنی بیویوں کے ساتھ سونا پڑتا ہے ۔ غور کرو، کس قدر قوت مند موضوع تھا۔ لیکن منٹو صاحب کو افسانہ ختم کرنے کی بے حساب جلدی تھی۔ انھوں نے انجام ایسا سوچ لیا جو دھچکا پہنچائے اور یاد رہ جائے ۔ باقی رہی یہ بات کہ انھوں نے اس انجام کو وقوع پذیر کرنے کے لیے کچھ تیاری بھی کی ہے ؟ تو یہ سوال آپ ان سے کیوں پوچھتے ہیں ؟مقرر وقت کے اندر افسانہ مکمل کرنے والوں کی مجبوریوں سے پوچھیے ۔
“پڑھیے کلمہ” کو سنسنی خیز افسانہ کہا جا سکتا ہے ۔ کئی لحاظ سے اسے “سر کنڈوں کے پیچھے ” کا تتمہ کہا جاسکتا ہے ۔ یہاں بھی عورت بڑی جابر ہے اور جرم انگیز معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن یہ افسانہ میلوڈراما نہیں، سنسنی خیز نہیں،کیوں کہ اس کے سب تار مضبوط جڑے ہوئے ہیں اور سب سے بڑھ کر متکلم راوی کی نیم پاگل نیم ہوشمند گفتگو ہے۔ وہ کچھ تو اپنی ہوس کا غلام ہے اور کچھ حالات کا۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ وہ بار بار “پڑھیے کلمہ” کہتا اور اللہ رسول کا نام لیتا ہے لیکن ہے نہایت سخت اور بے ضمیر خونی۔ وہ اپنا ماضی خود ہی پولیس والے کے سامنے بیان کرتا ہے :”پچھلے ہندو مسلم فساد میں، میں نے تین ہندو مارے تھے ۔ لیکن آپ یقین مانیے وہ مارناکچھ اورہے، اوریہ مارناکچھ اور ہے ۔ ” لہٰذا یہ شخص ہندو مسلم فسادات کا تجربہ کار قاتل ہے اور ایسے لوگوں میں ضمیر، یا عقل،پچھتاوا کم ہی ہوتا ہے ۔ افسانے میں تین خون تو دوران فسادات ہوئے تھے۔ لیکن اگلے خون میں وہ عورت اور اس کا عاشق اور متکلم شامل ہیں ۔ عاشق کو مار کر متکلم نے اس کی لاش ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک ٹرنک میں بھری کہ موقع ملتے ہی کہیں پھینک آؤں گا۔ اس رات کو:
پانچ چھہ علاقوں میں خوب ماراماری ہوئی۔ گورنمنٹ نے چھتیس گھنٹے کا کر فیو لگا دیا۔ میں نے کہا۔ عبدالکریم کچھ بھی ہو، لاش آج ہی ٹھکانے لگادو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ دو بجے اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر سے ٹرنک لیا، خدا کی پناہ!کتنا وزن تھا۔ مجھے ڈر تھا رستے میں کوئی پیلی پگڑی والا ضرور ملے گا اور کرفیوآرڈر کی خلاف ورزی میں دھر لے گا۔
مگر صاحب،جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔۔۔بازار کے پاس مجھے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں نے ٹرنک کھولا اور لاش کے ٹکڑے نکال کر اندر ڈال دئیے اور واپس چلا آیا۔ قربان تیری قدرت کے !صبح پتہ چلا کہ ہندوؤں نے اس مسجد کو آگ لگا دی۔ میرا خیال ہے گردھاری اس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گیا ہو گا، کیوں کہ اخباروں میں کسی لاش کا ذکر نہ تھا۔
“کھول دو”، “ٹھنڈا گوشت” وغیرہ کے زور میں ہم اس افسانے کو بھول گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کے فسادات پر “پڑھیے کلمہ” سے بہتر افسانہ نہیں لکھا گیا۔ تم چا ہو تو میں اس کی وجہ مختصر الفاظ میں بتادوں، لیکن اس سے پہلے تم یہ بھی غور کرو کہ فسادات تقسیم پر جو افسانے ہمارے یہاں لکھے گئے، ان کے بنیادی عناصر کیا ہیں :
(1) مسلمان بھی مجرم ہیں اور ہندو اور سکھ بھی مجرم ہیں ۔ کوئی کسی سے بد ترنہیں اور بہتر تو ہرگز نہیں ۔ بہتر تو یہ ہے کہ کہا جائے کہ دونوں پاگل ہیں ۔ اپنے قول فعل کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔
(2) افسانہ نگار کو عام طور پر خوف لا حق رہتا ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کی جنبہ داری کا الزام اس پر نہ لگنے پائے ۔ لہٰذا وہ ہمیشہ حساب برابر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ دوہندو/سکھ قاتل =دو مسلمان قاتل؛ دو مسلمان لڑکیوں کا اغوا=دو ہندو/سکھ لڑکیوں کا اغوا؛ دو مسلمان لڑکیوں کے ساتھ زنا بالجبر=دو ہندو /سکھ لڑکیوں کے ساتھ زنا بالجبر۔ بقول محمد حسن عسکری:
شروع میں اگرپانچ ہندو مارے گئے تو افسانہ ختم ہوتے ہوتے پانچ مسلمانوں کا حساب پورا ہونا چاہیے ۔۔۔فسادات پر لکھنے والے افسانہ نگار سب سے پہلا دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم سچ بولیں گے،مگر ساتھ ہی انھیں یہ فکر ہوتی ہے کہ نہ ہندو ناراض ہوں نہ مسلمان۔ غیر جانب داری کے معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ ایک جماعت کو دوسری جماعت سے زیادہ قصوروارنہ ٹھہرایا جائے ۔
واضح رہے کہ یہ گنتیاں اور جرائم کے یہ اقسام محض بطور مثال ہیں، انھیں حقیقی نہ فرض کیا جائے کہ بس دو ہی دو کی بات ہورہی ہے ۔
(3) تقریباً سا را زور قتل خون، آتش زنی، تاراجی، غارت اور لاکھوں لوگوں کے نقل مکانی، یاخوف، کی بنا پر گھر گاؤں سے فرارہو جانے پر رہتا ہے ۔ اس کی فکر کم کم ہی رہتی ہے کہ تقسیم کے فسادات میں، یا ان کے پیچھے، کوئی تہذیبی، تاریخی المیہ تو نہیں ہے ؟ تقسیم کے فسادات کے نتیجے میں بعض مذہبی اور تاریخی روایات اور رسوم اور یادیں مسخ ہو کر رہ جائیں گی یا معدوم ہو جائیں گی اور نئی اقدار ان کی جگہ شاید وجود ہی میں نہ آ سکیں ۔ کئی تسلسل مٹ جائیں گے اور کئی طرح کے انقطاع پید ا ہوں گے ۔ اس طرح کی باتوں کا بھی کسی افسانہ نگار کو کو خیال نہیں آتا۔
اب ا ن باتوں کی روشنی میں “پڑھیے کلمہ” کا مختصر جائزہ بھی لے لیا جائے :
(1)اس کے “رقیب” گردھاری کی اکڑی ہوئی مقتول لاش عبدالکریم کے سامنے رات بھر رہی اور وہ ساری رات اپنی مطلوب،اورگردھاری کی قاتل، رکما سے پر جوش ہم بستری کرتا رہا۔
(2)لاش کو ٹھکانے لگانے کے پہلے دونوں نے اسے کاٹ پیٹ کر ایک ٹرنک میں ٹھونس دیا۔ خیال تھا کہ رات آئے تو اس ٹرنک کو کہیں پھینک آئیں ۔ لیکن رات کو “پانچ چھ علاقوں میں خوب مارا ماری ہوئی۔ ” رکما، یا عبدالکریم اس پر کسی خوف یا رنج کا اظہار نہیں کرتے ۔ یہ تو چلتا ہی رہتا ہے ۔ چھتیس گھنٹے کا کرفیو لگ گیا ۔ یہ سب بھی چلتا ہی رہتا ہے ۔
(3) عبدالکریم اسی رات کو دو بجے لاش کا ٹرنک لے کر نکلتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی پولیس والا پکڑنہ لے ۔ “مگر صاحب، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔۔۔مجھے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں نے ٹرنک کھولا اور لاش کے ٹکڑے نکال کراندر ڈیوڑھی میں دال دیے اور واپس چلا آیا۔ قربان اس کی قدرت کے !صبح پتہ چلاکہ ہندوؤں نے اس مسجدکو آگ لگادی۔ میرا خیال ہے گردھاری بھی اس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گیا ہو گاکیوں کہ اخباروں میں کسی لاش کا ذکر نہیں تھا۔ ” گویا کلمہ گو عبد الکریم کا ایمان ہے کہ اللہ میاں کا سارا کارخانہ اسے اور صرف اسے مصیبت سے محفوظ رکھنے کے لیے، یعنی اس کے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے، دن رات چل رہا ہے ۔
(4)رکمابھی غافل نہیں ہے ۔ وہ عبد الکریم کو بھی اپنے ایک دیگر عاشق تکارام کی مدد سے قتل کراناچاہتی ہے ۔ بات بنتی نہیں اور عبدالکریم صاحب موقع پا کر رکما کو دھکا دے کرتیسری منزل سے نیچے پھینک دیتے ہیں ۔ لیکن رکما کی لاش ملتی نہیں ۔ عبدالکریم کہتا ہے، “یا مظہر العجائب!” ممکن ہے وہ :
ڈائن زندہ ہی ہو۔ ۔ ۔ ۔ چالی میں تو یہی مشہور ہے کہ یا توکسی مسلمان نے گھر ڈال لیا ہے یا مار ڈالا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ۔ ۔ ۔ مارڈالا ہے تو اچھا کیا،گھر میں ڈال لیا ہے تو جو حشر اس غریب کا ہو گا آپ جانتے ہی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا بچائے صاحب۔
گویا اللہ میاں عبد الکریم کا ساتھ دیتے رہیں، با قی سب عبد الکریم کے ٹھینگے پر۔
(5)ایک دن تکارام کو عبدالکریم کہیں دکھائی دے جاتا ہے اور پوچھتا ہے،رکما کہاں ہے ۔ عبد الکریم کہتا ہے، “بھائی قرآن مجید کی قسم!مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ “اب گردھاری کہتا ہے کہ میں پولیس میں رپٹ لکھواؤں گا کہ تم عبدا لکریم نے پہلے گردھاری کو مارا، پھر رکما کو۔ اب ہمارا کلمہ گو پھر پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا کروں ۔ تکا رام کو قتل کرنے کے سوا اسے کوئی راستہ نہیں نظر آتا۔ افسوس کہ اس موقعے پر اللہ میاں کی چکی الٹی چلنے لگتی ہے ۔ ایک پیشاب خانے میں تکارام کو قتل کر کے عبد الکریم اس کی نبض ٹٹولتا ہے کہ مر گیا کہ نہیں ۔ عین موقعے پر پولیس والا پیشاب کرنے کے لیے :
پتلون کے بٹن کھولتے کھولتے اندر آیا اور میں دھر لیا گیا۔ بس صاحب یہ ہے پوری داستان۔ ۔ ۔ ۔ پڑھیے کلمۂ لا الٰہ الا للہ محمد رسول اللہ! جو میں نے رتی بھر جھوٹ بولا ہو۔
عبدالکریم کو کسی بھی سانحے، کسی حادثے کا درد نہیں ہے ۔ رکما جیسی طرحدار عورت کا بھی درد نہیں ۔ لیکن وہ جنونی، یا شیطان بھی نہیں ۔ وہ اپنے خیال میں سیدھا سادا مسلمان ہے جسے ہر وقت اللہ کی امداد اور اللہ کے کرم کی توقع رہتی ہے ۔ اسے بخیال خود رکما سے محبت، بلکہ محبت سے بڑھ کر عشق ہے لیکن رکما کو قتل کر دینے (یا اسے ٹھکانے لگا دینے )کا اسے کوئی غم نہیں ۔ ایک ذرا سا خدشہ اس کو ضرورہے کہ کہیں اسے پیشہ کرنے پر مجبور نہ کیا جا رہا ہو۔ فسادات تقسیم کی یہ اولاد بالکل نئے اصولوں کی روشنی میں زندگی کرتی ہے ۔ وہ کلمہ گو بھی اوربخیال خود راست گو بھی ہے، لیکن اس کی میزان حیات میں انسان کہیں نہیں ۔ عبد الکریم کا نام فسادیوں کی کسی فہرست میں نہیں ہے ۔ جوش ایمان یا جوش جہاد، یا خرابی خون کے باعث دو چار ہندوؤں کو ماردینا اس کے لیے الگ بات ہے ۔ لیکن وہ بلوائیوں کی کسی غارت گر ازدحام کا حصہ نہیں ہے ۔ وہ سیدھا سادا مسلمان بھی ہے اور سیدھا سادا قاتل بھی ہے ۔
میرا خیال ہے “کلمہ پڑھیے ” جیسا ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑادینے والا افسانہ ڈھونڈے ہی سے ملے گا۔ اس پر مستزاد افسانہ نگا ر کا بیانیہ، کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ معمولہ راوی کی بھی طرح نہیں ۔ عبد الکریم اس افسانے کا راوی ہے اور اس کا شاید مصنف بھی وہی ہے ۔
“اولاد” اور “خالد میاں ” سنسنی خیز انجام کے افسانے ہیں اور ناکام افسانے ہیں ۔ منٹو صاحب کو بات ختم کرنے کی جلدی نہ ہوتی تو ہمیں وہیں لاتے جہاں افسانہ ختم ہوتا ہے،لیکن اس وقت وہ افسانے کامیاب ہوتے، کیوں کہ انجام کے لیے زمین تیار ہو چکی ہوتی۔ “اولاد” کے آخر میں ایک بے اولاد لیکن بچے کی تمنا میں تقریباً مخبوط الحواس عورت کے پہلو میں کسی اور کا شیر خوار بچہ چپکے سے لٹادیا جاتا ہے کہ لے اب تم بچے والی ہو گئیں ۔ خدا کا شکر ادا کرو۔ لیکن صبح کو ہم دیکھتے ہیں کہ بیوی:
لہو لہان ہے ،اس کے ہاتھ میں اس [شوہر]کا کٹ تھروٹ استرا ہے ۔ اور وہ اپنی چھاتیاں کاٹ رہی ہے ۔ علم الدین نے اس کے ہاتھ سے استرا چھین لیا، ‘یہ کیا کر رہی ہوتم؟’زبیدہ نے ۔۔۔کہا،’ساری رات بلکتا رہا ہے لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا۔ لعنت ہے ایسی۔۔۔”
ہمایوں اشرف کے بیان کے مطابق یہ افسانہ1956 کا ہے ۔ اس وقت تک توا نائیوں کے سوا سب لوگ کٹ تھروٹ استرا چھوڑکر سیفٹی ریزر اپنا چکے تھے ۔ منٹو صاحب، آپ ذرا اتنا تو اہتمام کر لیتے کہ علم الدین جیسے دولت مند شخص کے یہاں کٹ تھروٹ استرے کا جواز بنا لیتے ۔ پھر آپ ابھی خود ہی فرما چکے ہیں کہ زبیدہ کی مخبوط الحواسی کے باعث اس کا میاں “سارا وقت گھر میں رہتا اورزبیدہ کی دیکھ بھال کرتا،کہ مبادا وہ کسی روز کوئی خطر ناک حرکت کر بیٹھے ۔ ” تو پھراس نے “زچگی” کے بعد زبیدہ کو اکیلا کیوں چھوڑدیا؟ علم الدین تو ہر وقت زبیدہ کے ساتھ رہتا تھا؟ اور منٹو صاحب، آپ ہمارے یہاں کی اس روایت سے ضرور واقف ہوں گے کہ اگر کوئی عورت کسی بچے کو دودھ پلانے کے لیے بے قرار ہو کر اسے گود میں لے لے تو اکثر و بیشتر اس کے دودھ اتر بھی آتا ہے، خواہ وہ رضاعت کے عالم میں نہ ہو۔ داستان امیر حمزہ میں امیر حمزہ کا بیٹا بدیع الزماں عالم شیر خوارگی میں اپنی ماں گردیہ بانو سے جدا ہو گیا تھا۔ مدتوں بعد گردیہ بانو جب اسے دیکھتی ہے تو بدیع الزماں جوان اور جنگجو پہلوان ہو چکا ہے ،لیکن ماں اسے جبلی طور پر پہچان لیتی ہے اور اس کے پستانوں سے دودھ کی بوچھار نکل پڑتی ہے ۔ اس واقعے سے نہ سہی،لیکن اصول سے واقف آپ یقینا ہیں، کیوں کہ کچھ ہی پیرا گراف پہلے آپ ہمیں بتا چکے ہیں کہ زبیدہ کو :
کئی بار یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کی چھاتیوں میں دود ھ اتر رہا ہے ۔۔۔ جب وہ اندر اپنے کمرے میں تھوڑی دیر آرام کرنے گئی تو اس نے قمیض اٹھا کر دیکھا کہ اس کی چھاتیاں ا بھری ہوئی ہیں ۔
پھر منٹو صاحب خدارا ہمیں بتائیے کہ جیتے جاگتے بچے کو بغل میں سویا ہو ادیکھ کر زبیدہ کے دودھ کیوں نہ اترا؟
اور منٹو صاحب، عورتوں کے معاملات کو آپ سے بڑھ کر کون جانتا تھا، لیکن افسانے کا انجام زبیدہ کی موت پر ہونا ہے، یہ آپ پہلے سے طے کر چکے ہیں ۔ لہٰذا آپ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ دودھ توسر پستان سے نکلتا ہے ۔ زبیدہ کے لیے اتنا ہی بہت تھا کہ وہ اپنی گھنڈیوں کو چیر چیر دیکھتی، ان کے اطراف کے سرمئی ڈھال کو چھیلتی، کہ مجھے دودھ کیوں نہیں اترتا؟ لیکن نہیں صاحب، وہ تو اپنے دونوں پستان کاٹنے میں مصروف ہے ۔ یہ کون سا پاگل پن ہے ؟نہایت عمدہ مرکزی خیال، زبیدہ کا خاصا پیچیدہ کردار، اور اس کے میاں کے بھی کردارمیں اکہرا پن نہیں ۔ وہ ایک دوست کے ناجائز بچے کو گھرمیں لے آیا ہے کہ اپنی مخبوط الحواس بیوی کو یہ خوبصورت فریب دے کہ لے، یہ تیرا بچہ ہے، کل رات پیدا ہوا ہے ۔ لیکن جلد بازی (اور جلد بازی کی وجہ سے سنسنی خیزی)نے آپ کا افسانہ بگاڑدیا۔ یہ میلوڈراما نہیں ہے، سیدھی سیدھی کاہلی ہے ۔
“خالد میاں ” میں بھی مرکزی خیال اچھا ہے : ایک باپ کو اپنے بچے کے بارے میں بیٹھے بٹھائے وہم ہو جاتا ہے کہ میرا بچہ پہلی سالگرہ نہ پار کر سکے گا۔ اور ہوتا بھی ایساہی ہے ۔ لیکن منٹو نے اس انجام کے لیے کوئی نفسیاتی یا کردار نگارانہ تیاری نہیں کی ۔ زبیدہ اپنی طرح کی مخبوط الحواس ہے ۔ اس بچے کا باپ ممتاز اپنی طرح کا مخبوط الحواس ہے ۔ کتنا عمدہ مطالعہ ان کرداروں کا ممکن تھا، خاص کر جب منٹو جیسا شخص افسانہ لکھے ۔
“بادشاہت کا خاتمہ”کا انجام تمھارے خیال میں میلو ڈرامائی ہے اورافسانہ “تاثر کے لحاظ سے ناکام ہے ۔ “تم نے غور نہیں کیا کہ انجام اگر میلو ڈرامائی ہے تو اس کا تاثر شدید ہو گا، دھچکا یا Shock پہنچانے والا ہو گا۔ منموہن کو ایک ٹیلیفونی آواز سے بالکل اتفاقاً سابقہ پڑجاتا ہے ۔ وہ مفلس اور قلاش ہے، فٹ پاتھ پر سوتا ہے ۔ لیکن فی الحال وہ اپنے ایک دوست کے خالی دفتر میں رہ رہا ہے ۔ فون بے قیمت ہے،گھر کا کرایہ کچھ نہیں، سونے کو دفتر کا فرنیچر،یہی اس کی بادشاہت ہے۔ منٹو ہمیں بتاتے ہیں کہ منموہن چاہتا تو فلم ڈائرکٹر بن سکتا تھا لیکن اسے دوستوں کے سہارے،بلکہ ان کے چندے کے بل بوتے پر زندگی گذار رہا ہے ۔ یہاں تک معاملہ ذرا واقعیت سے دور لگتا ہے،لیکن ٹیلیفونی آواز کی مالکہ سے اسے آہستہ آہستہ عشق ہو جاتا ہے ۔ کچھ ادھر کا بھی اشارہ ہے ۔ ایک دو دن میں منموہن کا دوست واپس آنے والا ہوتا ہے اور منموہن کو اپنی بادشاہی ختم ہونے کا سخت رنج بھرا احساس ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بھی ہے کہ جس دن بادشاہت ختم ہو گی، اس دن وہ لڑکی اسے اپنا فون نمبر بتادے گی، اور اس سے مل بھی لے گی۔
لیکن اس آواز کی مالکہ دو دن کے لیے باہر گئی ہوئی ہے اور اپنی بادشاہت کے آخری دن منموہن اس کی واپسی کا انتظار شدت سے کرہا ہے :
یہ اضمحلال شاید اس لیے ہے کہ اس کا ٹیلیفون نہیں آئے گا۔ لیکن دوپہر تک حرارت تیز ہو گئی،بدن تپنے لگا۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے ۔۔۔پیاس بار بار ستاتی تھی۔۔۔سینے پر بوجھ محسوس ہونے لگادوسرے روز وہ بالکل نڈھا ل تھا۔۔۔
کئی بار ہذیانی کیفیت طاری ہوئی۔ بخار کی شدت میں وہ گھنٹوں ٹیلیفون پر اپنی محبو ب آواز کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔۔۔اس کے کانوں میں عجیب و غریب آوازیں گونج رہی تھیں ۔ جیسے ہزا رہا ٹیلیفون بول رہے ہوں ۔۔۔جب ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تو۔۔۔ بہت دیر تک گھنٹی بجتی رہی۔۔۔ایک دم منموہن چونکا۔۔۔اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ریسیور اٹھایااور خشک ہونٹوں پر لکڑی جیسی زبان پھیر کر کہا:
“ہیلو۔ “
دوسری طرف سے وہ لڑکی بولی۔ “ہیلو۔ موہن؟”
۔ “ذرا اونچی بولو ۔ “
منموہن نے کچھ کہنا چاہامگر وہ اس کے حلق ہی میں خشک ہو کر رہ گیا۔
آواز آئی۔ “میں جلدی آ گئی۔۔۔بڑی دیر سے تمھیں رنگ کر رہی ہوں ۔ کہاں تھے تم؟”
من موہن کا سر گھومنے لگا۔ آواز آئی۔ “کیا ہو گیا ہے تمھیں ؟”
من موہن نے بڑی مشکل سے اتنا کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “میری بادشاہت ختم ہو گئی آج۔ “
اس کے منھ سے خون نکلا اور ایک پتلی لکیر کی صورت میں گردن تک دوڑتا چلا گیا۔
آواز آئی۔ “میرا نمبر نوٹ کر لو،فائیوناٹ تھری ون فور،فائیوناٹ تھری ون فور۔ صبح فون کرنا۔ “یہ کہہ کر اس نے ریسیور رکھ دیا۔ منموہن اوندھے منھ ٹیلفون پر گرا۔ اس کے منھ سے خون کے بلبلے پھوٹنے لگے ۔
میں نے ذرا لمبا اقتباس دیا ہے کہ اس کے بغیر بات پوری طرح واضح نہ ہوتی۔ میں ایمان سے کہتا ہوں کہ میں نے یہ افسانہ پہلے نہیں پڑھا تھا۔ اب جو تم نے توجہ دلائی تو میں نے پڑھا اور کچھ مایوس ہوا۔ اتنا عمدہ مرکزی خیال اور یہ فضول سا انجام!پھر میں نے یہ افسانہ کچھ دن کے بعد دوبارہ پڑھا۔ مجھے اس انجام کی لم اب بھی کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ منٹو نے آخرایسا انجام کیوں بنایا؟ میں نے خود سے پوچھا۔ ممکن ہے کہ وہی پرانی بات ہو: افسانہ ختم کرنے اور دام کھرے کرنے کی جلدی، وہی سنسنی خیزی کی لت، کہ افسانہ ختم اس طرح ہو گا تو لوگوں کو شاق تو گذرے گا،یاد تو رہے گا،اور اس طرح اس کی اصل کمزوری چھپی رہے گی۔
مگر مجھے اطمینا ن نہیں ہو رہا تھا۔ اس افسانے میں سنسنی خیزی بالکل بے سر وپا لگ رہی تھی۔ کئی دوسرے انجام ممکن تھے جن میں منموہن کی موت ضروری نہ ہوتی۔ تو یہاں کچھ اور معاملہ بھی ہو سکتا ہے، میں نے سوچا۔ میں نے افسانہ پھر پڑھا، اور حسب معمول غور سے پڑھا۔ اس بار مجھے ایک بات یہ سوجھی کہ اس طرح کا ڈاکٹروں والا افسانہ تو انور سجاد کا میدان تھا۔ مجھے ان کے کئی افسانے یاد آئے جن میں انھوں نے کسی مرض کو مرکزی اہمیت دی ہے : “کارڈئیک دمہ”؛ “گینگرین”؛ “مرگی”، وغیرہ۔ میں نے سوچا منٹو صاحب کہاں کے ڈاکٹر تھے کہ ایسے افسانے کے پھیر میں پڑگئے ؟یہ اچانک بیماری /اور موت والا چکر تو انور سجاد ہی کو کچھ زیب دیتا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ منٹو کی طرح کے مرکزی خیال(ٹیلیفونی عشق) پر انورسجاد تو کبھی بھی نہ افسانہ لکھتے (نہ لکھ سکتے ؟)، اور بیماریوں کی شدت پر مبنی افسانہ (مثلاً “کارڈئیک دمہ”)منٹو صاحب کبھی نہ لکھتے (نہ لکھ سکتے ؟)
تیسری بار پڑھنے کے بعد مزید غور کیا تو کچھ باتیں مجھ پر کھلنے لگیں ۔ تم کہو گے، لیجیے، اتنے غور و فکر کا تقاضا کرنے والا افسانہ سریندر پرکاش، انورسجاد، وغیرہ لکھتے تو ٹھیک تھا، کہ وہ اس کے لیے بدنام ہیں ۔ یہ سعادت حسن منٹوصاحب کون ہیں جو اپنے افسانے کے قاری سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اسے بار بار پڑھے ؟ لیکن کیا تم سمجھتے ہو کہ سعادت حسن منٹو کے بغیر انور سجاد، یا سریندر پرکاش، یا مین را،یا(شروع کے زمانے کی) خالدہ اصغر کا وجود ممکن تھا؟تم لوگوں نے منٹو کو فسادات تقسیم اور رنڈی/عورت کے ڈبے میں بند کر دیا اور سمجھ بیٹھے کہ ہم نے منٹو صاحب کا قصہ پاک کر دیا۔ کیا تمھارا خیال ہے کہ منٹو کے کئی افسانوں (مثلاً “باردہ شمالی”، “اوپر نیچے اور درمیان”، “بھنگن”، “فرشتہ”، “پھندنے “وغیرہ)، اور خود اس افسانے “بادشاہت کا خاتمہ” کے بغیر نیا افسانہ ممکن تھا؟
پھر یہ بھی ہے کہ منٹو کے افسانوں میں واقعہ یعنی Eventکی کثرت ہے ۔ ان کے یہاں طرح طرح کے کردار ہیں، لیکن باستثناے چند، سب سادہ اور اکہرے ہیں ۔ بیدی کے برخلاف منٹو کے یہاں کرداروں میں پیچیدگی کم ہے، کرداروں کا تجزیہ بھی وہ زیادہ نہیں کرتے ۔ ترقی پسند افسانے میں کردار کی بڑی اہمیت تھی۔ منٹو نے اس سے انحراف کیا۔ اور تم جانتے ہی ہو کہ نئے افسانے میں کردار نگاری پر کوئی زور نہیں ہے، سارا زور واقعے یعنی Event پر ہے ۔ بلکہ تمھیں یا د ہو گا کہ شروع میں تو بہت سے افسانوں کے نام بھی نہیں ہوتے تھے، الف۔ بے ۔ وغیرہ سے کام چل جاتا تھا۔ پھر نام بھی دیے جانے لگے تو عموماً اہمیت سے عاری ہوتے تھے ۔ انور سجاد اور سریندر پرکاش کے کسی بھی افسانے میں کوئی ایسا کردار نہیں جوروایتی افسانے کے انداز میں تجزیہ اور تفصیلی بیان سے گذارا گیا ہو۔ نئے افسانے کی یہ ادا منٹو کی مرہون منت ہے،کہ انھوں نے واقعے پرزیادہ زور دیا، کردار پر کم۔ ان کے یہاں تو کبھی تمثیلی یا علامتی نام بھی نظر آتے ہیں ۔ مثلاً “سر کنڈوں کے پیچھے ” میں ہیبت خاں، نواب، اور ہلاکت؛ “میرا نام رادھا ہے ” کی رادھا؛”ننگی آوازیں ” میں بھولو جو بڑا بھائی ہے لیکن سیدھا،بلکہ سادہ مزاج ہے ۔ “باردہ شمالی” میں کوئی انسانی نام نہیں ہے : گوگلز (Goggles)،بش شرٹ، باردہ شمالی؛”فرشتہ” میں عطا ء اللہ، وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر “کھول دو” کی سکینہ۔
خیر، میں نے “بادشاہت کا خاتمہ” پر مزید غور کیا۔ مانا کہ منٹو نے منموہن کی موت کے لیے پلاٹ، یا بیانیہ،یا کردار کی سطح پر کچھ بھی زمین نہیں تیار کی ہے،لیکن کیا خود ایسی موت قرین قیاس ہے جیسی کہ منموہن کے نصیب میں منٹو نے لکھ دی ہے ؟منموہن کے علامات مرض توجگر کے ورم اور تشنج،یعنی Cirrhosis of the liverکے ہیں، لیکن اب تک ایسا اشارہ کہیں سے نہ ملا تھاکہ منموہن کو کچھ بھی مرض ہے ۔ بظاہر وہ بے فکرا، بلکہ نکھٹو اور آساں زیست نوجوان ہے جس کی ضروریات زندگی اس کے دوست پوری کرتے ہیں ۔ وہ سگریٹ پیتا ہے، لیکن شراب خواری، جس کی کثرت سے جگر کا ورم اور تشنج پیدا ہو سکتا ہے، اس کا کوئی بھی امکان نہیں ہے ۔ توممکن ہے منٹو سے یہاں چوک ہو گئی ہو۔ انھیں افسانہ جلدی سے ختم بھی کرنا ہے اور اس کا انجام بھی ایسا بنانا ہے کہ وہ صدمہ پہنچائے تاکہ قاری کو یاد بھی رہے ۔ اشعر نجمی صاحب کو وہ “تاثر کے لحاظ سے ناکام ” نظر آئے تو منٹو صاحب کی بلا سے ۔
لیکن اس افسانے کا انجام توافق یعنی Verisimilitudeسے اس قدر عاری ہے کہ میرے حلق سے بالکل اتر نہیں رہا تھا۔ پھر میں نے خیال کیا، کیوں نہ نئے افسانے کے معمار اعظم، اور ولایت کے پڑھے ہوئے ڈاکٹر انور سجاد ایم۔ بی۔ بی۔ ایس، ڈی۔ ٹی۔ ایم، وغیرہ، سے پوچھا جائے ۔ ہر چند کہ اب وہ صرف ٹی ۔ وی۔ ڈراموں کی نبض دیکھتے ہیں اور افسانوں کے نباض اب نہیں رہ گئے، لیکن ساری ڈاکٹری تھوڑا ہی بھول گئے ہوں گے ۔ لہٰذا میں نے ان سے دو تین بار فون پر تفصیلی بات کی۔ (منٹوصاحب، دیکھیے ہم آپ کے لیے کتنے پاپڑبیلتے ہیں اور کتنی دور دور سے کوڑیاں ڈھونڈ کر لاتے ہیں،یہاں تک کہ کراچی کا ساحل بھی ہم سے باہر نہیں ہے ۔ )انور سجاد نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ شدید صدمے یعنی ڈاکٹری اصطلاح میں Shock کے باعث کسی شخص کی ناک اور منھ سے خون آنے لگے ،اور فوری طبی امداد کے بغیر وہ مر جائے ۔ میں نے ان سے کئی بار وضاحت چاہی کہ منموہن کے علامات تو Cirrhosis of the liver کے ہیں ۔ انھوں نے پھر تصدیق کی،کہ Shock میں بھی یہ ممکن ہے ۔ اب ممکن ہے ایک سید نے ایک پنڈت (اور دونوں پنجابی) کی بات رکھنے کے لیے ایسا کہہ دیا ہو، لیکن میرے لیے تو و ہ سند ہے ۔
جب یہ بات مستحکم ہو گئی کہ منموہن کی موت کتنی ہی عجیب معلوم ہوتی ہو، لیکن اس میں توافق Verisimilitude موجود ہے ۔ منموہن کی موت شدید صدمے یعنی Shock سے ہوئی۔ یعنی جو صدمہ من موہن کو پہنچا وہ اس نوعیت کا تھا کہ اس کا نتیجہ موت کی شکل میں نمودار ہو سکتا تھا۔ لہٰذادونوں معاملات میں موافقت ہے، وہ ایک دوسرے سے منقطع اور غیر متعلق نہیں ہیں ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ صدمہ کیا تھا اور کیوں وہ منموہن کے لیے جان لیوا ثابت ہوا؟لہٰذا منموہن کے بارے میں پھر غور کرتے ہیں کہ وہ ہے کیا بلا؟ یہ بات ظاہر ہے کہ منموہن کو ذمہ داری سے گریز ہے ۔ وہ اپنی روزی بھی آپ نہیں کماتا۔ اس میں قوت عمل اس قدر کم ہے، بلکہ بالکل نہیں ہے۔ اس پوری مدت میں جب وہ اپنے دوست کے دفتر میں رہا تھا، اس نے ایک ہی کتاب بیسیوں بار پڑھی،ہر چند کہ وہ نا مکمل تھی۔ نہ اسے اس بات کی کرید تھی کہ باہر جا کر کسی لائبریری میں مکمل کتاب ڈھونڈے اور وہیں بیٹھ کر اسے کئی دن میں پڑھ ڈالے،نہ اسے اس بات سے غرض تھی کہ نامکمل کتاب کا انجام معلوم کرے، اور نہ یہ فکر کہ ادھوری کتاب کو پڑھنا کار فضول ہی ہو گا، چہ جاے کہ اسی ادھوری کتاب کو بار بارپڑھنا۔ اسے اس لڑکی کے بارے میں کوئی کرید نہیں جس نے اتفاقیہ اس کے نمبر پر فون کر لیا تھا اور دونوں میں دوستانہ لیکن غائبانہ تعلقات قائم ہو گئے تھے ۔ وہ کون ہے، کہاں ہے، جوان ہے کہ بوڑھی، بد صورت ہے کہ حسین، یہ سوال اس کے دل میں اٹھتے ہی نہیں ۔
اسے عورت کی محبت حاصل کرنے کی”حسرت”ہے،لیکن وہ اس کے لیے کچھ کرتا نہیں ۔ لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ “جب مجھے کسی بات سے کوفت ہوتی ہے تو میں اپنے آپ کو سزا دینا شروع کر دیتا ہوں ۔ ” اس نے لڑکی سے اس کا نام بھی کبھی نہ پوچھا، حالاں کہ لڑکی نے اس سے ملاقات کو جشن کی طرح منانے کے لیے (جب بھی وہ ملاقات ہو سکے )اس کو تحفے میں دینے کے لیے ایک خاصا قیمتی کیمرہ خرید لیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لڑکی دولت مند ہے ۔ وہ بہت اچھا گاتی ہے،لیکن منموہن اس کو دیکھنے یا اس سے ملنے کا کچھ اشتیاق نہیں رکھتا۔ ممکن ہے منموہن نے اپنے دل کو یقین دلا دیا ہو کہ وہ گم نام خاتون نوجوان ہے، خوب صورت ہے، متمول ہے ،اور اسے پسند بھی کرتی ہے، لیکن یہ بات وہ شعوری طور پر خود سے کبھی نہیں کہتا۔ بالآخر منموہن کی “بادشاہت”ختم ہونے کا دن آ جا تا ہے، کیوں کہ اس کا دوست واپس آ رہا ہے اور وہ حسب سابق اپنے دفتر سے اپنا کا ر وبارشروع کر دے گا اور منموہن کو وہ جگہ چھوڑنی ہو گی۔ گمنام خاتون اور منموہن دو دن بعد ملنے کی طے کرتے ہیں ۔
منموہن “سارا دن دفتر ہی میں رہا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو اس نے حرارت محسوس کی، سوچا کہ یہ اضمحلال شاید اس لیے ہے کہ اس کا ٹیلیفون نہیں آئے گا۔ “مگر منموہن کو بظاہر کچھ اشتیاق ملاقات بھی نہیں ہے ۔ فون نہ آنے کا رنج ہے، اس بات کا نہیں کہ ابھی ملاقات میں دو دن باقی ہیں ۔ اس نے گمنام لڑکی سے یہ ضرور کہا ہے کہ میں نے اپنے ایک دوست سے کہا ہے کہ میرے لیے سوٹ سلوا دو، مجھے اپنی مطلوب سے ملنے جانا ہے ۔ لیکن وہ سوٹ حاصل کرنے کی بھی کچھ سعی نہیں کرتا، بس پڑا نڈھال ہوتا رہتا ہے،یہاں تک کہ اسے اپنے سینے پر بوجھ سا محسوس ہونے لگا اور پھر “کئی بار اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوئی۔ “لیکن کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرنا تو دور رہا، وہ کسی دوست کو بھی فون نہیں کرتا کہ میری طبیعت بہت خراب ہے ۔
میرا خیال ہے میں نے منموہن کے کردار کا بیان پوری دیانت داری سے کیا ہے ۔ اس کے انجام کا پورا حال میں اوپر نقل کر چکا ہوں ۔ اب یہ سوال پھر پوچھتے ہیں کہ منموہن کی موت کا سبب کیا تھا، اور میرے خیال میں اب جواب بھی آسانی سے مل سکے گا۔ شدید صدمے کے نتیجے میں منموہن کی موت کے اصل سبب یوں بیان کیے جا سکتے ہیں :
(1) منموہن اس امکان کا بوجھ نہیں سنبھال سکتا کہ مجھے اپنا طرز حیات بدلنا پڑے گا اور مجھے کسی اور ہستی کو اپنی زندگی میں شریک کرنا پڑے گا۔ میری “بادشاہت” اب ختم ہو جائے گی۔
(2) یہ خیال ہی اس کی موت کے لیے کافی ہے کہ مجھے ایک اجنبی لڑکی سے ملاقات کرنی ہے ۔ خدا جانے اس کا نتیجہ کیا ہو؟
(3) اپنے دوست کے دفتر کو اپنا گھر (عارضی ہی سہی) بنانے کے نتیجے میں منموہن کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی کا امکان ہے ۔ فٹ پاتھ پر سونے کے بجاے کسی چھت کے تلے سونا خود ہی بہت بڑی تبدیلی تھی۔ آئندہ اور کیسی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟
(4) بہت ہی سطحی پر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ منموہن کے لا شعور میں یہ خوف ہے کہ دفتر میں آرام سے سونے کی بادشاہت اور گمنام لڑکی سے محبت کی پینگ بڑھانے کی لذت، یہ دونوں ایک ہیں ۔ ایک نہ ہوتا تو دوسرا بھی نہ ہوتا۔ اب دفتر میں سونے کی بادشاہت ختم ہو رہی ہے تو لڑکی بھی باقی نہ رہے گی ۔
ظاہر ہے کہ اور بھی امکانات ہیں،لیکن اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ “بادشاہت کا خاتمہ” کا انجام سنسنی خیزی پر مبنی ہے، یاغیر منطقی ہے اور توافق سے عاری ہے ۔
مجھے احساس ہے کہ منموہن کا کردار مجھے روسی ناول نگار ایوان گنچاراف(Ivan Goncharov, 1812-1891)کے ناول “اوبلاماف”(Oblamov) مطبوعہ9581کی یاد دلاتا ہے جس کا مرکزی کردار اوبلاماف انتہائی کاہل اور نکما ہے، یہاں تک کہ اس میں اتنی بھی قوت عمل نہیں کہ اپنی معشوقہ کو اپنی بنا سکے ۔ اوبلاماف کا ایک دوست اس کی معشوقہ کو لے اڑتا ہے اور اسے پروا بھی نہیں ہوتی۔ وہ دولت مند ہے ،اس لیے وہ یوں بھی فکر معاش سے آزاد ہے ۔ دن رات پلنگ پر پڑا پڑا وہ منصوبے بنایا کرتا ہے کہ جب میں پلنگ سے اٹھوں گا تو یہ کروں گا، وہ کروں گا، وغیرہ۔ لیکن وہ پلنگ سے کبھی اٹھتاہی نہیں اور اسی حالت میں اس کی موت ہوتی ہے ۔
اوبلاماف کو “فالتو انسان “(Superfluous man)کا مثالی نمونہ کہا گیا ہے ۔ یہ فقرہ تورگنیف (Ivan Turgeniev, 1812-1883)کے افسانے “ایک فالتو شخص کی ڈائری”(The Diary of a Superfluous Man) سے اخذ کیا گیا ہے،یعنی کوئی نکما، بے عمل، اور بے مصرف زندگی گذارنے والا شخص۔ اوبلا ماف کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ اتنا کاہل ہے کہ زندگی بھی نہیں کر سکتا (too lazy to live)۔ اپنے زمانے میں اوبلاماف کوروس میں روسی زمیندار اشرافیہ اور پڑھے لکھے لیکن فضول لوگوں پر طنز کے طور پر پڑھا گیا تھا ۔ لیکن اب لوگوں میں ایک رائے یہ ہے کہ اس کے کردار میں مابعد اطبیعیاتی پہلو بھی ہیں ، حتیٰ کہ سیمیوئل بیکیٹ (Samuel Beckett)کے مشہور ڈرامے Waiting for Godot(جس کا ترجمہ کرشن چندر مرحوم نے “گوڈو کا انتظار” کے نام سے کیا تھا)اس کو بھی اوبلا ماف سے متاثر بتایا گیا تھا۔ اس ڈرامے کے کردار ولادیمیر(Vladimir) اور استراگوں (Estragon) ۔ ۔ خیال کرو، دونوں نام روسی معلوم ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ بھی بے عمل ہیں ۔ وہ کچھ کرتے نہیں، صرف انتظار کرتے ہیں ۔
روسی ادب سے منٹو کی دلچسپی کا حال ہم جانتے ہیں ۔ لیکن ان کے مجموعے “روسی افسانے ” (4391)میں گنچاراف کا کوئی ذکر نہیں ۔ ( کتاب میرے سامنے نہیں ،لیکن میں نے شمس الحق عثمانی سے تصدیق کر لی ہے ۔ ) لیکن یہ کوئی عجیب بات نہیں ۔ اس زمانے کے “فیشن ایبل ” روسی ادیبوں میں گنچاراف کا نام ہمارے یہاں نہ تھا۔ خود میں نے “اوبلاماف”اس زمانے میں پڑھا جب روسی ادب اور خاص کر مجھے بہت دلچسپی اورشغف تھا۔ اغلب ہے کہ گنچاراف منٹو کے لیے اجنبی رہا ہو۔ لیکن تم دیکھ سکتے ہو کہ منٹو کا منموہن بھی فالتو انسان ہے اور اسے صحیح معنی میں too lazy to live کہا جاسکتا ہے ۔ جب اس پر زندگی کرنے کی محنت کا امکان اپنے اوپر عائدہونے کاخو ف طاری ہوا تو صدمے سے اس کی موت ہو گئی۔
اب بھی اگر تم “بادشاہت کا خاتمہ”کو میلوڈرامائی، اور تاثر کے لحاظ سے ناکام قرار دو تو تم بھی منٹو کے ساتھ اسی قسم کی زیادتی کے مرتکب ہو گے جس کا سامنا منٹو صاحب کو موت کے بعد بھی ہو رہا ہے ۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے منٹو کے سارے افسانے نہیں پڑھے، اور اگرچہ ان کے بہت سے افسانے میں نے پڑھے ہیں،لیکن ان کے کم ہی افسانوں کو واقعی غور اور توجہ سے پڑھا ہے ۔ اگر میں یہ کر سکتا تو مجھے منٹوکی عظمت پر اور زیادہ یقین آ جاتا۔ اس وقت بھی،جیسا کہ میں نے ابھی کہا تھا، مجھے میر کے سوا کوئی شخص اردو ادب میں نہیں دکھائی دیتا کہ جسے میں منٹو کے مقابل رکھ سکوں ۔
گفتار دہم
لیکن جیسا کہ میں تم سے زور دے کر کئی بار کہہ چکا ہوں،منٹو میری نظر میں کمزوریوں سے مبرا نہ تھے ۔ انھیں لکھنے اور بیچنے کی بہت جلدی رہتی تھی، خواہ افسانہ کمزور ہی نکل جائے ۔ ویسے، وہ مصحفی کی طرح حقیقت پسند بھی تھے، جانتے تھے کہع خدا پنج انگشت یکساں نہ کر د
اے مصحفی مشکل ہے غزل ایک سی کہنا
اک بیت کہیں اچھی بھی ہو جاتی ہے دس میں
ان کے ساتھ دوسری مشکل یہ تھی کہ وہ اپنی شہرت (یا بدنامی)کے قیدی ہو گئے تھے ۔ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ وہ فحش نگار ہیں اور انھیں رنڈیوں، زنا کاریوں، اخلاقی اور سماجی طور پر پست لوگوں سے بہت دلچسپی ہے ۔ تو پھر انھوں نے سوچا ہو گا کہ میں یوں ہوں تو یوں ہی سہی
خوشی سے اپنی رسوائی گوارا ہو نہیں سکتی
گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے
انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں تو سماج کی تصویر کھینچتا ہوں، میرا کا م تشخیص مرض ہے، تجویز علاج نہیں ۔ انھوں نے “افسانہ نگار اور جنسی مسائل” میں لکھا:
مجھے معلوم نہیں مجھ سے جنسی مسائل کے متعلق بار بار کیوں پوچھا جاتا ہے ۔ شاید اس لیے کہ لوگ مجھے ترقی پسند کہتے ہیں، یا شاید اس لیے کہ میرے چند افسانے جنسی مسائل کے متعلق ہیں ۔۔۔ہم لکھنے والے ۔۔۔پیغمبر نہیں ۔۔۔ہم قانون ساز نہیں، محتسب بھی نہیں ۔ احتساب اور قانون سازی دوسروں کاکام ہے ۔ ہم حکومتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں، لیکن خود حاکم نہیں بنتے ۔ ہم عمارتوں کے نقشے بناتے ہیں لیکن معمار نہیں ۔ ہم مرض بتاتے ہیں لیکن دوا خانوں کے مہتمم نہیں ۔
یہ باتیں سطحی اور سرسری ہیں اور مدافعانہ (defensive)انداز کی ہیں،لیکن ہمیں منٹو سے افسانے کی توقع ہے، افسانے پر نظری تنقید کی نہیں ۔ وہ تنقید نہیں لکھ رہے تھے، اپنا دفاع کر رہے تھے ۔ اپنے ایک اور مضمون “سفید جھوٹ” میں انھوں نے لکھا:
ہم اگر اپنے مرمریں غسل خانوں کی باتیں کر سکتے ہیں،اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریوں اور بدروؤں کا ذکر کیوں نہیں کرتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں ؟۔۔۔اگر ویشیا کا ذکر فحش ہے تو اس کا وجود بھی فحش ہے ۔ اگر اس کا ذکر ممنوع ہے تو اس کا پیشہ بھی ممنوع ہونا چاہیے ۔ ویشیا کو مٹائیے، اس کا ذکر خود بخود مٹ جائے گا۔۔۔ویشیا کا مکان خود ایک جنازہ ہے جو سماج اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے ۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا،اس کے متعلق باتیں ہوتی ہی رہیں گی۔ یہ لاش گلی سڑی، بدبودار سہی، متعفن سہی،بھیانک سہی، گھناؤنی سہی لیکن اس کا منھ دیکھنے میں کیا ہرج ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ ہماری کچھ نہیں لگتی۔ کیا ہم اس کے عزیزو اقارب نہیں ۔
یہ آ خری جملہ زبردست ہے،لیکن یہ جملہ انسان دوستی کا مظہر ہے، ادبی نظری،یا سماجیاتی فلسفیانہ فکر کے عالم سے نہیں ۔ ہمیں افسانہ نگار منٹوسے نقاد منٹو یا فلسفۂ عمرانیات کا پروفیسر منٹو ہونے کاتقاضا نہیں کر سکتے، اور نہ ہی ان کے اقوال کو ان کے دفاع میں لا سکتے ہیں ۔ مختصراًیہی بہت ہے کہ منٹو کو یاروں نے گھیر گھار کر فحش نگار بنا دیا تو وہ بھی اپنے بارے میں یقین کرنے لگے کہ میں فحاش ہوں ۔ ورنہ کسی سنجیدہ ادبی محفل میں یہ بات زیر گفتگو لانے کے لائق ہی نہیں ہے کہ منٹو فحاش تھے کہ نہیں، اور اگر نہیں تھے توکیوں نہیں تھے ؟
(بر سبیل تذکرہ، جن دو مضامین کے اقتباس میں نے اوپر پیش کیے ہیں،وہ ہمایوں اشرف کی مرتب کردہ “منٹو کے مضامین” میں نہیں ہیں ۔ میں نے انھیں “منٹو نامہ” مطبوعہ سنگ میل پبلیکیشنز،لا ہور، 5991 سے اخذ کیا ہے ۔ )
ان باتوں کو فی الحال تہ کر کے “ٹھنڈا گوشت”، “کھول دو” اور “بو” کے بارے میں بات کر لیں ۔ اول الذکر دو افسانوں کے بارے میں تمھیں بہت شکوے ہیں،لیکن غلط بنیادوں پر۔ یہ بنیادیں تمھاری قائم کی ہوئی نہیں ہیں، اردو کے زاہد و عابد نقادوں اور سرکاری افسروں کی ہیں،لیکن ان کے تلے تم، اور تم جیسے ہزاروں سنجیدہ قاری دب کر رہ گئے ہیں ۔ اس گفتگو کی ضمن میں عسکری صاحب کی اس تحریر کا بھی ذکر ہو جائے گا جس کا تم نے حوالہ دیا ہے ۔ “بو” کو میں معرض بحث میں اس لیے لا رہا ہوں کہ اسے زیادہ تر لوگوں نے تھوڑا بہت فحش لیکن شاہکار افسانہ سمجھا ہے ۔ ممتاز شیریں،وارث علوی اور شمس الحق عثمانی اس افسانے کے خاص مداحوں میں پیش پیش ہیں ۔ اپنے اپنے وقت میں یہ تینوں افسانے بہت کثرت سے زیر گفتگو میں آئے اور اس کی وجہ ایک ہی تھی: یہ افسانے بہت فحش اور ادب کی اشرافی تہذیب کی سطح سے بہت فروتر ہیں ۔
میں یہ بات فوراً ہی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ”بو” میرے خیال میں کوئی عظیم افسانہ نہیں ہے ۔ اپنے مقصد کی حد تک وہ بڑی حد تک کامیاب ضرور ہے،یعنی اس میں یہ دعویٰ بڑی قوت سے کیا گیا ہے کہ جنس کی جبلت کی پور ی قوت اور عظمت اور حسن کا اظہار نام نہاد “اشرافی، شائستہ ” تہذیبی رویوں میں نہیں، بلکہ “فطرت سے قرب اور ہم آہنگی” میں حاصل ہو سکتا ہے ۔ مجھے اس افسانے پر سجاد ظہیر کے اس اعتراض سے کوئی دلچسپی نہیں اورنہ ہی اس کی کوئی وقعت میری نظر میں ہے کہ یہ افسانہ”بورژوا طبقے کے ایک فردکی بیکار، بے مصرف، عیاشانہ زندگی کا تجزیہ ہے ۔ ” یہ تنقید نہیں، پرانے ترقی پسند صاحبان کے اس خود کار ردعمل کی مثال ہے جسے reaction knee jerk کہتے ہیں ، کہ جہاں جنس کی لذت یا زندگی کے مزے کا ذکر آیا، ہم نے ” بورژوا طبقے کی ذہنی اور اخلاقی دیوالیہ پن “کی ہوائی چھوڑدی اور خوش ہوئے کہ وہ مارا۔ اور یہاں تو افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ “بو” میں کسی قسم کا تجزیہ وغیرہ نہیں ۔ منٹو صاحب سے اگر کہا جاتا کہ جناب، آپ کا افسانہ ہر گز فحش نہیں، بلکہ اس میں بورژوا طبقے وغیرہ کی برائیوں کا تجزیہ ہے،تو وہ بے دماغ ہوتے اور کہتے کہ میاں، ا یسی تنقید کا ہدف بننے سے تو میں فحش نگار بھلا۔
چونکہ “بو” کی تعریف اور توصیف ممتاز شیریں مرحومہ نے بڑی جرأت مندی کے ساتھ کی ہے، لہٰذا ان کے چند جملے سنتے چلو۔ یہ ان کی کتاب “منٹو نہ نوری نہ ناری”کے صفحہ126پر دیکھی جاسکتی ہے :
مارکسی تنقید، کسی نزاکت اور گہرائی کو سمجھے اور محسوس کیے بغیرہر چیز کو طبقاتی شعور کی لاٹھی سے ہانک دیتی ہے ۔ “بو” میں در اصل منٹو کو رندھیر کے بورژوا ہونے سے سروکار ہے، نہ اس کی عیاشیوں سے ۔
یہاں تک تو بہت ٹھیک ہے، لیکن اب مرحومہ بھی اسی قسم کی عمومیات پر اتر آتی ہیں جن سے ترقی پسند نقاد بھی تا حیات چھٹکارا نہ پاسکے :
“بو” میں منٹو نے وہ کیفیت بیان کی ہے جو گھاٹن لڑکی کے صحت مند مٹیالے جسم کی اس خاص بو کی بے پناہ جنسی کشش سے رندھیر پر طاری ہوتی ہے ۔۔۔اور [رندھیر کی نو بیاہتا]کے عروسی کپڑوں میں، اور جسم میں بسی ہوئی عطر حنا کی بو۔ میری نظر میں اس تضاد میں ایک اور وسیع تضاد پنہاں ہے ۔ ۔ ۔ فطرت سے قربت اور فطرت سے دوری کا تضاد،بیرونی اثرات اور بناوٹ سے پاک فطرت اور ملمع اور تصنع کا تضاد۔
وغیرہ،وغیرہ۔ یہ خطابت دور تک چلی گئی ہے ۔ ممتاز شیریں صاحب اگلے صفحے پر ڈی۔ ایچ۔ لارنس (D۔H۔Lawrence)کا ذکر کرتی ہیں اور ٹھیک کرتی ہیں، مگر وہ یہ کہنے سے گریز کرتی ہیں کہ “بو” کا سارا فلسفہ (اگر وہ فلسفہ ہے ) لارنس ہی سے مستعار ہے ۔ لیکن اس سے زیادہ بڑی غلطی ان کی یہ ہے کہ وہ گھاٹن کے جسم کی “خاص بو” اور اور اس کی بنا پر اس گھاٹن کی “بے پناہ جنسی کشش” کو اصول کا درجہ دے دیتی ہیں ۔ یعنی ان کے خیال میں وہ “خاص بو” در اصل “فطرت سے قرب”کی غماز ہے اور نو بیاہتا بچاری کا عطر میں بسا ہوا جسم تصنع کی دلیل ہے ۔ تو کیا وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ دیہات کی ہر لڑکی، خاص کر محنت کش لڑکی (خواہ وہ جہاں کی بھی ہو، بس سفید فام نہ ہو)، اس کے جسم میں وہ “خاص بو” نکلتی رہتی ہے اور جو اس لڑکی (یا عورت) میں “بے پناہ جنسی کشش” پیدا کر دیتی ہے، اور “مہذب” بنی سنوری شہری لڑکی اس “بے پناہ جنسی کشش” سے عاری ہوتی ہے ؟ اگر وہ یہ کہہ رہی ہیں تو وہ اس وکیل کی طرح ہیں جو بحث صفائی کے دوران زور بیان میں آ کراپنے موکل کے بارے میں وہ باتیں کہہ جاتا ہے جو موکل بچارے کے خواب و خیا ل میں بھی نہ تھیں ۔ خود منٹو کے افسانے میں مجھے کوئی ایسے مضمرات نظر نہیں آئے ۔ اگر منٹو نے وہ سب کہا ہے جو ممتاز شیریں کہہ رہی ہیں تو منٹو نے بے بنیاد (بلکہ احمقانہ اور بیحد عمومی اور سرسری)باتیں کہی ہیں ۔ ایسی باتیں تو منٹوکے استاد معنوی ڈی۔ ایچ۔ لارنس نے بھی نہیں کہی تھیں ۔
پھر یہ بات نہ منٹو بتاسکتے ہیں اور نہ ممتاز شیریں،کہ وہ “خاص بو” کیا شے ہے اور “بے پناہ جنسی کشش” سے کیا مراد ہے ؟ لارنس نے جنس کی قوت اورحیات بخش قوت کی بات کی تھی،وہ کوئی طبقاتی بیان نہیں دے رہا تھا کہ غریب مزدوروں میں یہ قوت حیات زیادہ ہوتی ہے اور شہر کی پڑھی لکھی لڑکی میں کم، یا معدوم ہوتی ہے ۔ ٹھیک ہے، ممکن ہے لارنس کو یہ خیال رہا ہو کہ لیڈی چیٹرلی کا مالی جنسی طور پرزیادہ صحت مند ہے،کیوں کہ”زمین سے نزدیک “ہے، اس پر شہری اور دولت مند تہذیب کی قدغن اور پابندیاں نہیں ہیں ۔ لیکن اس سے یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ لارنس کہہ رہا ہے کہ سب عورتیں لیڈی چیٹر لی ہیں اور سب مالی اور “زمینی” لوگ قوت حیات کا سرچشمہ ہیں ؟ لارنس خاصا بے وقوف تھا،لیکن اسے اتنا توضرور معلوم رہا ہو گا کہ جنسی لذت اور قوت کسی “زمینی تہذیب” یا “فطرت سے قرب” کا اظہار نہیں ۔ وہ شاید یہ نہ جانتا ہو کہ خود انگلستان کے اشرافیہ میں جنسی لذت اور قوت کے حامل مرد عورتوں کی کمی نہیں تھی، نہ کبھی پہلے اورنہ کبھی بعد میں ۔ مجھے انیسویں صدی کی ڈچس آف ویلنگٹن (Duchess of Wellington)کی ڈائری کا ایک اندراج نہیں بھولتا جس میں وہ لکھتی ہے کہ آج میرے صاحب پر مستی اس قدر سوار تھی کہ انھوں نے دن ہی کے وقت، اور وہ بھی کپڑے اتارے بغیر چار بار مجھے خوب پینگیں دیں اورمیرے مزے لوٹے (pleasured me four times) ۔
تو بھائی، جنس اور قوت حیات، یہ سب اگر بے معنی اصطلاحیں ہیں تو “خاص بو” اور بھی بے معنی ہے ۔ ہمارے لڑکپن میں ایک مشہور ناول نگار رشیدا خترندوی صاحب ہوا کرتے تھے ۔ ان کا ایک ناول ہے “رونق”۔ اس میں ایک شخص ایک بھولی بھالی کنواری لڑکی کو رام کر کے اس سے ہم بستر ہوتا ہے تو اسے ایک عجب طرح کی بو (یا ممتاز شیریں کے الفاظ میں “خاص بو”)کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ بو لذت انگیز تو ہے ہی،لیکن اس کے خیال میں یہ کنوار پنے کی بو ہے ۔ اب وہ ساری زندگی پچھتاتا بھی ہے اور اس “خاص بو” کی تلاش بھی کرتا ہے ۔ میری سمجھ میں نہ”رونق” پڑھتے وقت آیا، اور نہ بہت دن بعد منٹو کا افسانہ پڑھنے کے بعد ہی،کہ وہ “خاص بو” کیا ہو سکتی تھی؟ کیا کنوار پنے میں کوئی “بو” بھی ہوتی ہے ؟(کیا منٹو کی گھاٹن کنواری تھی؟)
ممتاز شیریں کو خیال نہ رہا ہو گا کہ جس صفت کو وہ”بے پناہ جنسی کشش “کہتی ہیں ،اسے ہمارے یہاں “ڈومنی پن” کہتے ہیں ۔ اور sex appeal کا درست ترین ترجمہ “ڈومنی پن” ہی ممکن ہے ۔ لیکن ہماری تہذیب میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ جن بیگموں میں (غالب نے بیگموں میں ڈومنی پن کا ذکر کیا ہے ) یا معمولی عورتوں، میں ڈومنی پن ہوتا ہے، ان میں کوئی “خاص بو” بھی ہوتی ہے ۔ ممتاز شیریں نے انگریزی میں Pheromone کے بارے میں سنا ہو گا؛کہ ایک طرح کی کیمیائی بو ہوتی ہے جو بعض جانور اپنے جسم سے خارج کرتے ہیں تاکہ صنف مخالف کو ان کی خبر لگ جائے اور وہ ان کو ڈھونڈ لیں ۔ ممکن ہے ممتاز شیریں اسی فیرومون کو “خاص بو ” قرار دے رہی ہوں ۔ لیکن انسانوں میں اب تک فیرومون کا وجود ثابت نہیں ہے ۔
منٹو صاحب نے جنس کے مزے اور پینگوں کا ذکر بہت خوبی سے کیا ہے،لیکن وہ سب کچھ نہیں تو زیادہ تر رندھیرہی کے احساسات اور جذباتی ہیجانات ہیں ۔ لڑکی کیا محسوس کرتی ہے، وہ ہمیں نہیں بتاتے،بجز اس کے کہ”ساری رات وہ رندھیر کے ساتھ چمٹی رہی۔ “رندھیر نے اس کی بغل کے بالوں تک کی مہک کو خوشبو سمجھا۔ لیکن کیا اس لڑکی میں قوت شامہ نہ تھی؟ یا رندھیر کے بدن سے کوئی “خاص بو” نہیں نکل رہی تھی؟منٹو صاحب نے بغل کے بالوں کاذکر تو کیا، اورخوب کیا، لیکن وہ موے زہار تک پہنچنے کی ہمت نہ کر سکے ۔ یہاں مجھے وہی بچارا لیوسا (Llosa)یاد آیا جسے ہمارے عالم آج کل بات بات پر گھسیٹ لا رہے ہیں ۔ اور جو بات یاد آئی وہ اسی ناول میں ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے ۔ ناول کے مرکزی کردارکو اپنی معشوقہ کی بو دور سے (یعنی دونوں الگ الگ گھروں میں ہیں )آتی ہے ۔ (آتش کے مصرعیع
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری
میں جلال لکھنوی قسم کے لوگوں کو پہلوے ذم کی بو آتی۔ آتش خوش نصیب تھے کہ انھوں نے ہم سے بہتر زمانہ پایا۔ ) لیوسا کے ناول میں معشوق کی زلفوں کی بو اور طرح کی ہے، اس کے موے بغل کی بو اور طرح کی، اور اس کے موے زہار کی بو اور طرح کی۔ معشوقہ کے پیشاب کی دھار گرنے کی آواز اس کے لیے لذت انگیز ہے (ہائے میرا جی)، لیکن وہ منٹو سے بہت آگے اور میرا جی سے کچھ آگے ہے،کیونکہ اسے اپنی معشوقہ کے پیشاب کی بھی بو اچھی لگتی ہے اور وہ اس بو کو “ما بعد الطبیعیاتی، روحانی انداز میں اپنی توجہ کو مرتکز کیے ہوئے سنتا ہے اور سونگھتا ہے ۔ “پیشاب کموڈ میں گر رہا ہے اور اس کی آواز اسے “راگوں اور سروں کا سیال مجموعہ”(liquid concert)معلوم ہوتی ہے ۔ وہ پابلو نرودا (Pablo Neruda)کی ایک نظم کا حوالہ دیتا ہے جس میں متکلم (یا شاعر)سنتا اور محسوس کرتا ہے کہ اس کی معشوقہ “شہد کی دھار” کو زمین پر گرا رہی ہے اور یہ دھار “چھریرے بدن کی، تھرتھراتی ہوئی، سیمیں، اور ضدی “ہے ۔
لیوسا (یا اس کے مرکزی کردار ریگوبیرتوRigoberto)کو اپنی بیوی/معشوقہ کی خوشبو اس وقت بھی اچھی لگتی ہے جب وہ کموڈ پر بیٹھتی ہے ۔ اس کی ریدگی کا ذکر ان الفاظ میں ہے :
لکریشا (Lucrecia)بھی پاخانہ خارج کرتی تھی، اور یہ عمل، اس کی وقعت اور مرتبے کو گھٹانے کے بجاے، ریگوبیرتوکی آنکھوں اورمشام میں اس کی قدر بلند کرتا تھا۔۔۔ اس کے حافظے نے ان بخارات کو ناک کے ذریعہ سینے میں اتارلیا، جو جاے ضرور میں لکریشا کے جانے اور وہاں سے واپس آنے کی یاد دلاتے تھے ۔
اچھا اسی ناول سے ایک اور طرح کی “خاص بو” کا ذکر سن لو،پھر آگے چلتے ہیں ۔ شاید تم نے آسٹریائی مصورگستاف کلمٹ (Gustav Kilmt, 1862-1918)کا نام سنا ہو۔ وہ اپنی تصویروں (خاص کر عورتوں کی تصویروں ) میں ان کے بدن کو چھوٹے چھوٹے تکونوں، چوکھٹوں وغیرہ کے ذریعہ ظاہر کرتا تھا، گویا وہ عورتیں گوشت پوست کی نہیں، سلمہ ستارے کی بنی ہوں ۔ یونانی دیومالا کے ایک اسطور میں ہے کہ دیوتاؤں کا خدا زیوس(Zeus)، دَنَئی (Dana[L:235]) نامی ایک نوعمر دوشیزہ پر عاشق ہو گیا۔ جب دَنئی نے اس کی بات کسی طرح نہ سنی تو زیوس صاحب سنہرے ذروں کی بوچھار کی طرح اس پر اترے اور اسے حاملہ کر دیا۔ کلمٹ نے دَنئی کی جو تصویر بنائی ہے (اس قدر غیر معمولی تصویر ہے کہ میں اپنے کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے کئی باراسے دیکھنے کا اتفاق ہوا)، اس پر ریگوبیرتوکا اظہار سنو:
وی آنا کے اس زوال پرست [مصور]سے بہتر طریقے پر عورتوں کی بو کی مصوری کرنا کسی کو نہ آیا۔ اس کی متحرک، جھکتی ہوئی عورتیں اس (ریگوبیرتو) کے دماغ میں بیک وقت آنکھوں اور ناک کے ذریعہ داخل ہوتی تھیں ۔
یہ تمام عبارات تم لیوسا کے محولہ بالا ناول The Note Books of Don Rigobertoکے صفحہ136 تا 138 پر دیکھ سکتے ہو۔ آخر میں یہ بھی بتا دوں کی امریکی ناول نگار فریڈرک پروکاش (Frederic Prokosch) نے بائرن کے آخری برسوں پر ایک ناول خود نوشت کے انداز میں لکھا ہے۔ ناول نگار کے بیان کے مطابق یہ ناول بائرن کی ڈائریوں پر مبنی ہے (یہ بات محض فرضی ہے ،جیسا کہ ایسے ناولوں میں ہوتا ہی رہتا ہے ۔ ) “مخطوطۂ مسولونگی”The Missolonghi Manuscript میں ناول نگار نے بائرن کی زبان سے کہلا یا ہے کہ اسے اپنی معشوقوں کی ریاح کی مہک بہت اچھی لگتی تھی۔ بائرن نے مختلف عورتوں کی ریاح کی مہک کی تفصیل بھی بتائی ہے ۔
ممکن ہے تم خیال کرو کہ پروکاش اور لیوساتوناول لکھ ر ہے تھے، گندے ذہن کے آدمی ہوں گے، کچھ بھی لکھ سکتے تھے ۔ لیکن مارکوئی دَ ساد(Marquis de Sade)تو گوشت پوست کا آدمی تھا۔ اسے عورتوں کی ریاح کی مہک (سگندھ؟)بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ اپنی عورتوں سے کہتا تھا کہ میرے منھ پر ریاح خارج کرو، آواز جتنی زور دار اور ہوا جتنی بد بو دار ہو گی، مجھے اتنا ہی مزہ آئے گا۔ ایک بار اس نے ایک طوائف کو افزائش ریاح کے لیے کچھ سخت دوائیں زبردستی کھلا دیں۔ ایک دوا اتنی تیز تھی کہ بچاری بیمار پڑگئی ۔ اسے زہر خورانی کا معاملہ قرار ددے کرطوائف کو اسپتال لے جایا گیا اور اور دَ ساد صاحب کو جیل ۔
عسکری صاحب کے محبوب ناول نگار جیمس جوائس (James Joyce)کوعورتوں کی ریاح اتنی پسند تھی کہ دورا ن مباشرت اسے سب سے زیادہ لطف اس بات میں آتا تھا کہ محترمہ اخراج النسائم کرتی رہیں۔ ایک خط میں اس نے لکھا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی مزا نہیں کہ میں [اپنی معشوقہ اور بعد میں بیوی] نورا (Nora)کو دھکے لگاؤں اور ہر دھکے کے ساتھ وہ ریاح خارج کرے ۔ جوائس کے پہلے مجموعۂ کلام کا نام تھا Chamber Music۔ تم جانتے ہی ہو کہ Chamber Music رات کی اس محفل موسیقی کو کہتے ہیں جس میں سننے والے بہت کم لوگ ہوں اور جس میں سازوں کی تعداد دس (01) سے زیادہ نہ ہو۔ لیکن جوائس صاحب کے عنوان میں Chamberکے معنی تھے Chamber Pot، “چینی کا برتن جسے رات کو پیشاب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ” اور Musicسے مراد تھی “پیشاب کی دھار کے گرنے کی آواز، خاص کر جب رنڈی رات کو اٹھ کر برتن میں پیشاب کر رہی ہو۔ “عسکری صاحب کو یہ باتیں ضرور معلوم رہی ہوں گی، لیکن وہ بھلا ہم لوگوں کو کیوں بتاتے، دل ہی دل میں لطف لیتے ہوں گے ۔
تم یہ نہ خیال کرنا کہ ایسی “زوال پذیر” اور “مائل انحطاط”باتیں صرف گندے، بے حیا مغرب والوں کے یہاں ہیں ۔ چرکین کو تم جانتے ہوکہ وہ معاملات بول و براز کے کتنے بڑے ماہر تھے ۔ اور خصوصیت سے “بو” اور “نسیم البدن” کا حال مطلوب ہو تو نظیری کے معاصر ایک ایرانی شاعر فوقی یزدی نے اس مضمون پر پانچ شعر کی لاجواب نظم لکھی ہے ۔ اس کا آخری مصرع تم بھی سن لو، اس نے ایک تیر سے دو شکار کر لیے ہیں ع
کل شیٍ من الملیح ملیح
یہ سب باتیں محض تمھاری دلچسپی یا زیب داستان کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں ۔ مقصد یہ ہے کہ منٹو صاحب کے افسانے میں گھاٹن کے بدن کی بو کا تذکرہ کوئی بہت انوکھی بات نہیں ۔ فحش؟ یہ افسانہ فحش کہاں سے ہو ا،جب منٹو صاحب نے گھاٹن کے بدن کی بو، یا اس کے موے بغل کی بو کا جو کچھ ذرا سا حال لکھا ہے تو وہ بہت معمولی ہے ۔ وہ تو موے زہار تک بھی نہیں پہنچ سکے ۔ بقیہ کے بارے میں کچھ کہنے کو ان کے پاس ہے ہی نہیں (یا ہے، لیکن وہ کہنے سے ڈرتے ہیں ۔ اور کیوں نہ ڈریں ؟عدالت، سماج، سنسر، ملا، لیڈر، سب اس بات پر متفق ہیں کہ “فحاشی” بڑی گندی بات ہے۔ )
تو میاں، “بو” اوسط درجے کا افسانہ ہے ۔ “خاص بو” اور اس کے باعث گھاٹن بٹیا کی “بے پناہ جنسی کشش”کا حال ممتاز شیریں جانیں ۔ اورجنسی عمل کی لذت کو قوت حیات کا مظہر جانیں لارنس صاحب۔ “بو” میں یہ سب کچھ نہیں ہے،یہ ایک سادہ سا، جنسی عمل کی لذت کے محتاط بیا ن کی بڑی حد تک کامیاب کوشش ہے ۔ لیکن مجھے اس کا سب سے بڑا عیب اس کی نام نہاد فحاشی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ سارا افسانہ رندھیر کے نقطۂ نظر سے لکھا گیا ہے ۔ اس گھاٹن کے رد عمل، یا رندھیر کے ساتھ لذت اندوزی، اورایک اعلیٰ درجے کے عمل میں شریک و سہیم کی حیثیت سے افسانے میں اس کی موجودگی، منٹو کے لیے یہ سب باتیں گویا وجود ہی نہیں رکھتیں ۔ تعجب ہے کہ ممتاز شیریں اس بات پر توجہ نہ دے سکیں کہ “بے پناہ جنسی کشش ” وغیرہ کی حامل اس لڑکی کو منٹو نے صرف ایک جنسی شے (Sex Object)بنا کر پیش کیا ہے ۔ خود اس گھاٹن عورت کے نقطۂ نظر سے منٹو صاحب نے ایک حرف بھی نہیں لکھا ہے ۔ بیدی صاحب اس قسم کا افسانہ نہیں لکھتے تھے جس میں جنس اور شہوت کو مرکز میں یا مرکز کے بہت پاس رکھا گیا ہو۔ انھیں جنس سے دلچسپی تو تھی، لیکن وہ منٹو کی طرح اسے مرکز میں جگہ نہیں دیتے تھے ۔ بہر حال،بیدی صاحب اگرجنس مرکزیت والے افسانے لکھتے تو وہ “بو” کی طرح کے ہوتے، کیوں کہ ان کی عورتیں بمشکل ہی کبھی فاعل (Subject)کے روپ میں نظر آتی ہیں ۔
لہٰذا میری دوسری شکایت “بو” سے یہ ہے کہ اس میں منٹو صاحب کے عام انداز کے برخلاف گھاٹن (یعنی عورت) فاعل (Subject)نہیں ہے، بلکہ سراسر منفعل ہے ۔ منٹو صاحب کے یہاں اکثر و بیشتر عورتیں ہر وقت، یا کسی نہ کسی موقعے پر، جارحانہ،یعنی فاعلانہ انداز اختیار کر لیتی ہیں، وہ مردوں کے پاؤں کی دھول بنی رہنے سے انکار کرتی ہیں ۔ “اولاد” کی زبیدہ سے کچھ نہیں بنتا تو اپنے ہی اوپر چھری پھیر لیتی ہے ۔ “میرا نام رادھا ہے “، یا “ہتک” تو اس معاملے میں غیر معمولی ہیں، لیکن “وہ لڑکی”کو خیال میں لاؤ۔ ایک شخص ایک لڑکی کو پھنسا لیتا ہے،لیکن در اصل وہ لڑکی اس کا شکار کر رہی ہے ۔ کام ختم ہونے کے بعدلڑکی پستول نکال کر اپنے عارضی عاشق کو گولی ماردیتی ہے کہ”وہ چار مسلمان جو تم نے مارے تھے،ان میں میرا باپ بھی تھا۔ ” یا پھر “شکاری عورتیں ” کو دیکھو۔ یہ بڑی حد تک عورتوں کے خلاف افسانہ ہے لیکن اس میں عورتیں بہر حال “شکاری “ہیں، “شکار “نہیں ۔ یا “سراج” کی مرکزی کردار لڑکی سراج کو دیکھو،کہ وہ کس طرح اپنے بے وفا عاشق سے بدلہ لیتی ہے ۔ وہ غائب ہو جاتا ہے تو اسے ڈھونڈ نکالتی ہے اس کے ساتھ رات بھر سوتی ہے اور پھر اپنابرقع اس کے اوپرڈال کر اسے سوتا ہو اچھوڑکر چل دیتی ہے ۔
اور یہاں ؟ یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گھاٹن بڑے شوق و ذوق سے رندھیر کے استعمال میں آ جاتی ہے لیکن خود کوئی عملی حصہ اس کام میں نہیں لیتی۔ منٹو صاحب بس یہ کہتے ہیں کہ لڑکی اور رندھیر ساری رات ایک دوسرے سے لپٹے رہے اور دونوں نے “بمشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی کہ جو کچھ انھیں کہنا سننا تھا؛ سانسوں ،ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہوتا رہا۔ ” معاف کیجئے گا منٹو صاحب، لڑکی کو فاعل بنانے، یا کم سے کم کار عشق و شہوت میں برابر کا شریک ظاہر کرنے کے لیے اتنا کافی نہیں ۔ آپ کے یہاں گھاٹن جیسی لڑکیوں کے لیے فاعل (Subject)کا کردار ممکن نہیں، وہ منفعل ہی رہیں گی۔
میری تیسری شکایت جو اس افسانے سے ہے، اس کی طرف میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں ۔ شہر کی پلی، اسکول کالج میں پڑھی،عروسی لباس سے مزین اور عروسی عطر سے معطر، کچھ اس نو بیاہتا کا بھی تو رد عمل ہو گا؟ ممکن ہے اس نے رندھیر کو نامرد سمجھ لیا ہو۔ گھاٹن لڑکی تو Sex Object کے طور پر ہمیں نظر آتی ہے،لیکن چند گھنٹوں کی بیاہی بیوی تو Sex Object کیا، چھونے اور کھیلنے کی بھی شے نہیں ۔ “فطرت” اور “شہر” کی یہ تفریق مصنوعی اور فرضی ہے،جیسا کہ میں اوپر تمھیں بتا چکا ہوں ۔ منٹو صاحب خوش نصیب تھے کہ اتنے اوسط درجے کے افسانے کو اس قدر اہمیت ملی اوراس کے باعث انھیں شہرت ملی۔
تم نے “ٹھنڈا گوشت” کے بارے میں فیض صاحب کا قول نقل کیا ہے کہ “اس افسانے کے مصنف نے فحش نگار ی نہیں کی،لیکن ادب کے اعلیٰ تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا۔ ” ادب کے “اعلیٰ تقاضوں ” کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، ہاں فیض صاحب اگر “اعلیٰ ادب کے تقاضوں ” کا ذکر کرتے تو میں سو فی صدی ان سے متفق ہوتا۔
میں بہت دیر سے تمھیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ منٹو کے کمزور افسانوں کے انجام میلو ڈرامائی نہیں ہیں ۔ لیکن تم اب ایک قدم آگے جا کر منٹو کی “دہشت پسندی”کی بات کرنے لگے ۔ “کھول دو” کے بارے میں یہ لفظ، اگر مجھے غلط یادنہیں توسب سے پہلے الطاف گوہر نے استعمال کیا تھا۔ اور یہ ان ہی جیسے سرکاری ادیبوں کو زیب بھی دیتا ہے ۔ ارے میاں، سارا معاملہ یہ ہے کہ جب افسانہ نگار کو فرصت کم ہو تو وہ “ٹھنڈا گوشت”جیسے ہی افسانے لکھ سکتا ہے ۔ اگر “بو” اوسط درجے کا افسانہ ہے تو “ٹھنڈا گوشت”اوسط سے فروتر ہے ۔ اجی تم میری بات بھول گئے ؟ کیا افسانہ نگار نے کسی خاص وقوعے،اور خاص کر افسانے کے انجام کے لیے زمین تیار کی ہے ؟ جب آپ واقعیت یا توافق یعنی Verisimilitudeکی دنیا کے افسانے لکھیں گے، آپ کو اتنا تو کرنا ہی ہو گا کہ ایشر سنگھ کے نامرد ہو جانے کے لیے کچھ نفسیاتی اشارے کرتے ۔ اس وقت تو یہ خیال ہوتا ہے کہ ایشر سنگھ کی نامردی محض بہانہ ہے، تھوڑی سی نرم فحاشی کا۔ ورنہ تم خود ہی سوچو، اس طرح کے بیان کی کیا ضرورت تھی؟ :
کلونت کور اپنے بازو پر ابھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی۔ “بڑا ظالم ہے توایشر سیاں !”
ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی موچھوں میں مسکرایا:”ہونے دے آج ظلم”، اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کیے ۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ ابھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا۔ بھرے ہوئے کولہوں پرآواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے ۔ گالوں کے منھ بھر بھر کے بوسے لیے ۔ چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑدیا۔
منٹو صاحب، ایشر سنگھ ذہنی طور پر (اور اس لیے جسمانی طور پر)نامرد ہوہی چکا ہے، پھریہ چھوٹے موٹے لذت بھرے گول گپے کس لیے ہیں ؟اس افسانے میں اور جگہ بھی آپ نے وہی وہانوی کے کان کاٹنے کی کوشش کی تھی،لیکن یہاں تو بالکل ہی کان کا صفایا کر دیا۔ جناب، یہ سب بتائے بغیر، اور کلونت کور کے بارے میں تھوڑی سی گہر افشانی کیے بغیربھی (“چوڑے چکلے کولہے،تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھر پور،کچھ زیادہ ہی اوپرکو اٹھا ہوا سینہ،تیز آنکھیں، بالائی ہونٹوں پر بالوں کا سرمئی غبار،ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑی دھڑلے کی عورت ہے “) آپ کا مقصد پورا ہو جانا چاہیے تھا۔ وہ افسانہ نگار ہی کیا جو ہلکے پھلکے کوک شاسترجیسی تفصیل کے بعد ہمیں بتائے کہ ہیرو صاحب عنین ہیں، آج شو نہیں ہو سکتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے “ٹھنڈا گوشت” پہلی بار پڑھا تو اس وقت میری عمر زیادہ نہ تھی، شایدسترہ یا اٹھارہ برس۔ اس وقت تک میں نے کیاچاہے کچھ نہ ہو، پڑھا بہت تھا۔ میں یہ افسانہ پڑھ کر حیرت میں مبتلا ہو گیا، تو پھر بات کیا بنی؟پھر میں نے سوچا،اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہو گا کہ اسے اتنے اچھے رسالے میں جگہ ملی۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایشر سنگھ کی نامردی بالکل فطری ہے،لیکن اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ یہ نامردی ناگزیر نہیں ہے ۔ فی الحال ہم فرض کیے لیتے ہیں کہ افسانہ نگار نے اپنی طرف سے ایسے حالات بیان کر دیے ہیں جن کی بنا پر ہم یقین کر سکتے ہیں کہ ایشر سنگھ نفسیاتی طور پر نامرد ہو گیا ہے ۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جو حالات افسانہ نگار نے بیان کیے ہیں، کیا ان میں توافق یعنی Verisimilitudeہے ؟ یعنی کیا ہر واقعے کو گذشتہ واقعے کا ممکن نتیجہ کہا جا سکتا ہے ؟
چلو دیکھتے ہیں کہ وہ حالات کیا ہیں ۔ کلونت کور سمجھتی ہے کہ ایشر سنگھ نے کسی اور کے ساتھ گلچھرے اڑائے ہیں اور اس قدر کہ اب اس میں قوت باقی نہیں رہی:
کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی،لیکن فوراًہی بھڑک اٹھی: ‘لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمھیں ہوا کیا۔۔۔؟اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے ۔۔۔ پر جانے ایک دم تمھیں کیا ہوا،اٹھے اور کپڑے پہن کر باہر نکل گئے ۔۔۔’
کلونت کور کو جب مناسب جواب نہیں ملتا تو وہ غصے سے بھر جاتی ہے اور ایشر سنگھ پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیتی ہے ۔ ایشر سنگھ رک رک کر اسے پورا قصہ سناتا ہے ۔ یہ آٹھ دن پہلے کا واقعہ ہے جب ایشر سنگھ نے وہ تمام زیور کلونت کور کو پہنائے جنھیں وہ لوٹ کر لایا تھا۔ پھر وہ کلونت کور کو پیار کرنے لگا تھا:
اور جب وہ بات بتانے لگا تواس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے :’کلونت میری جان!میں تمھیں بتا نہیں سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا۔۔۔؟شہر میں لوٹ مچی تومیں نے اس میں حصہ لیا۔۔۔گہنے پاتے اور روپئے پیسے جو بھی میرے ہاتھ لگے، وہ میں نے تمھیں دے دیے ۔۔۔لیکن ایک بات تمھیں نہ بتائی۔۔۔’
۔۔۔ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا:’جس مکان پر ۔۔۔میں نے دھاوا بولا تھا۔۔۔اس میں سات۔۔۔اس میں سات آدمی تھے ۔۔۔چھ میں نے قتل کر دیے ۔۔۔اسی کرپان سے ، جس سے تو نے مجھے ۔۔۔چھوڑاسے،سن ۔۔۔ایک لڑکی تھی بہت ہی سندر۔۔۔اس کو اٹھا کر میں اپنے ساتھ لے آیا۔
۔۔۔’کلونت جانی، میں تم سے کیا کہوں،کتنی سندر تھی۔۔۔میں اسے بھی مارڈالتا،پر میں نے کہا، نہیں ایشر سیاں،کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے،یہ میوہ بھی چکھ دیکھ۔۔۔’
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا:’ہوں ۔۔۔!’
‘۔۔۔اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔۔راستے میں ۔۔۔کیا کہہ رہا تھا میں ۔۔۔؟ہاں، راستے میں ۔۔۔نہر کی پٹڑی کے پاس میں تھوہر کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔۔۔پہلے سوچا کہ پھینٹوں،لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ۔۔۔’ یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا:’پھر کیا ہوا۔ ؟’
ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے :’میں نے ۔۔۔میں نے ۔۔۔پتہ پھینکا۔۔۔ لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔’اس کی آواز ڈوب گئی۔
کلونت کور نے اسے جھنجھورا:’پھر کیا ہوا؟’
ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کو رکے جسم کی طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی:’وہ ۔۔۔وہ مری ہوئی تھی۔۔۔لاش تھی۔۔۔بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔۔جانی،مجھے اپنا ہاتھ دے ۔۔۔’
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔
میں نے یہ سارا اختتام اس لیے نقل کیا کہ سب باتیں تمھارے سامنے آ جائیں ۔ اب یہ غور کرو کہ منٹو کو یہ انجام فنی طور پرقائم کرنے میں کتنی مشکل ہو رہی ہے ۔ مکالمے کس قدر بے جان اور مصنوعی ہیں ۔ مجبوراً منٹو صاحب نے بے شمار نقطے لگا لگا کر بات کو ادا کیا ہے ۔ تم جانتے ہو یہ انداز گھٹیا درجے کے افسانہ نگاروں کا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں جتنے زیادہ نقطے (یعنی۔۔۔کا نشان) لگائیں گے، مکالمہ اتنا ہی جاندار ہو گا۔ حقیقت اس کے برعکس ہے اور منٹو اسے خوب جانتے ہیں ،اسی لیے ان کے افسانوں میں یہ علت بہت کم نظر آتی ہے ۔ ہاں،وہ لمبی لکیر (۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )بہت لگاتے ہیں،لیکن مکالموں میں کم۔ بہر حال، منقولہ بالا مکالمے میں اتنے نقطے ہیں کہ جی گھبرانے لگتا ہے، اور گفتگو کا آہنگ بھی مصنوعی ہے ۔ (خیر،ممکن ہے پنجابی میں اردو کا آہنگ ایسا ہی ہوتا ہو۔ ) تاہم منٹوخود یہ سمجھ رہے ہیں کہ بات بن نہیں رہی ہے ۔ اس لیے وہ ہمیں صاف صاف بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پہلے تو وہ بتاتے ہیں کہ اس گفتگو کے دوران’ کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا’، گویا وہ بھی بیحد متاثر اور گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود دو ہی چار لمحوں کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ کلونت کور کے جسم کی ‘بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ ‘ ان کے خیال میں یہ اس لیے ضروری ہے کہ مردہ لڑکی کے جسم اور زندہ عورت کے بدن کا تضاد نمایاں ہو جائے ۔ لیکن صاحب، بوٹی بوٹی تو اس عورت کے بدن کی تھرکتی ہے جو شوخی اور غمزے کے عالم میں ہو۔ یا اگر ایسا نہ ہو تو کم سے ایسا تو عالم ہو کہ باتیں شگفتہ اور دوستانہ اور بے تکلفی کے ماحول میں ہو رہی ہو۔ لیکن افسوس منٹو صاحب، آپ دہلے پر نہلا مارنے کی کوشش میں یہ سب بھول جاتے ہیں ۔
خیر، چھوڑو۔ اب ذرا اس لمحے کو تصور میں لاؤ جب شہر میں لوٹ مار کے دوران ایشر سنگھ نے بھی ایک گھر پر دھاوا بولا ہے ۔ وہاں اسے سات شخص ملتے ہیں، چھہ کا وہ اسی گھر میں، اسی جگہ خون کر دیتا ہے ۔ ٹھیک ہے، لیکن وہ ساتواں شخص، وہ خوبصورت لڑکی، اس سارے ہنگامۂ خونریزی کے دوران کیا کر رہی تھی؟ ممکن ہے اس گھر کے سب لوگ سو رہے ہوں اور یکے بعد دیگرے قتل ہوتے رہنے میں انھوں نے چوں بھی نہ کی ہو۔ ( کیا واقعی، کیا یہ ممکن ہے ؟ لیکن منٹو صاحب پتے پھینٹ رہے ہیں، انھیں پھینٹ لینے دو۔ ابھی سارے پتے بکھرجائیں گے ۔ )چلو بھائی وہ لڑکی بھی سو رہی تھی۔ لیکن جب ایشر سنگھ اسے ‘ اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا’ تو وہ کیا کر رہی تھی؟ کیا تب بھی و ہ بالکل چپ تھی، اتنی چپ اور بے حس و حرکت کہ اس میں اور کسی لاش میں کچھ فرق نہ تھا؟بھلا کیا فضول گفتگو ہے، ایسا بھلا ممکن ہو سکتا ہے ؟اچھا اب فرض کرتے ہیں وہ لڑکی پہلے ہی سے مری ہوئی تھی اور ایشر سنگھ نے اس وقت غور نہ کیا اور اسے اپنے کندھے پر لاد کرمقتل گاہ سے نکل آیا۔
کیاکہہ رہے ہو تم؟ یہ ممکن ہے ؟
اجی کیا یہ بات واقعی قرین قیاس ہے، یا قرین قیاس نہ سہی، ممکن ہے، کہ ایک گھر میں جوان لڑکی کی موت ہو جائے (چاہے جس وجہ سے، کسی اچانک بیماری کی وجہ سے سہی) اور سارے گھر والے چپ چاپ سو جائیں ؟ یا مان لو کہ سب سو رہے تھے اس وقت لڑکی اچانک دورۂ قلب سے مر گئی، یا سوتے ہی میں مر گئی اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ لیکن گھر کوقتل گاہ بنتے وقت کسی نے تو کچھ وا ویلا کیا ہو گا اور اگر وہ لڑکی سوتی ہی رہی ہو گی تو کسی کو کچھ خیال تو آیا ہو گا کہ اس کو جگائیں اور اسے بچانے کی کوشش کریں ۔ یہی کہیں کہ بھاگ، تجھ پر موت، بلکہ اس سے بھی بدتر ایک شے منڈلا رہی ہے ! جیسا کہ میں نے ابھی کہا، چھ انسانوں کو ایک ہی ایک وار میں قتل کیا جائے پھر بھی کچھ توشور ہو گا، کوئی ایک دو توبھاگنے کی کوشش کریں گے ۔ ایشر سنگھ اگر بلونت کے ماچو (Macho) سکھ مرکزی کرداروں کی طرح انتہائی مشاق اور جری قاتل بھی رہا ہو تو وہ مومن کے معشوق کے مصداق تو نہ رہا ہو گاع
کیا تم نے قتل جہاں اک نظر میں
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ ایشر سنگھ نے چھ انسانوں کو جان سے مار دینے کے بعداس بد نصیب گھر کا سر وسامان لوٹا بھی تھا: صرف زیور نہیں، جو عورتیں ممکن ہے پہنے ہوئے ہوں، لیکن زر نقد بھی،جو مردوں کی جیبوں میں بھرا ہوا، یا عورتوں کے آنچل میں تو بندھا ہوا نہ ہو گا۔ اس سب لوٹ مار میں کچھ دیر تو لگی ہو گی۔ تو کیا ایشر سنگھ نے پھر بھی محسوس نہیں کیا کہ یہ خوبصورت لڑکی بے حس و حرکت کیوں پڑی ہوئی ہے ۔ کیا مر گئی ہے، یا بیہوش ہے ؟لیکن ایشر سنگھ نے اپنی پوری کتھا میں یہ کہیں نہیں کہا کہ میں نے لڑکی کو بیہوش پایا اور میں اسے اٹھا کر چلتا بنا۔ یہ بھی نظر میں رکھو کہ لڑکی اگر بیہوش بھی تھی تو وہ کب بیہوش ہوئی؟ کیا وہ اس وقت خود بخود بیہوش ہو گئی ہو گی جب گھر کے سارے فرد سو رہے تھے، یا اس وقت بیہوش ہوئی جب گھر والے اسے جگا نے کی کوشش کر رہے تھے ؟
تو میاں یہ باتیں میرے پلے پڑتی نہیں ہیں ۔ لیکن اگر تم بہت ضد کرو گے تو کچھ کچھ مان بھی لوں گا کہ وہ جگہیں اور تھیں، وہ وقت اور تھے ۔ اس وقت شاید یہ سب ممکن رہا ہو۔ لیکن تم یہ بھی تو سوچو کہ جب گھر کے سارے لوگ مر چکے ہیں اور سارا قبضہ بے شرکت غیرے ایشر سنگھ کا ہے تو وہ لڑکی کو لے کر بھاگا کیوں ؟ سب سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ گھر کو اندر سے بند کر لیتا، سب روشنیاں (اگر وہ جل رہی تھیں )بجھا دیتا اور پھر لڑکی کے ساتھ جو اسے کرنا تھا،اطمینا ن سے اور بے کھٹکے کرتا۔ جوان لڑکی کو کندھے پر لاد کر بھاگنے میں امکان تھا، بہت خفیف سہی، کہ کوئی پولیس والا، یا کوئی مسلمان قاتل اور غنڈہ اسے دیکھ لیتا۔
تو کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ را ت کا وقت ہے، سنسان دیہات ہے ۔ ایسے میں لوگ اپنا لوٹا ہوا مال (جس میں لڑکیاں بھی ہوتی تھیں )لے کر اپنے گاؤں بھاگتے ہی ہوں گے ۔ آخر اس زمانے میں ہزاروں لڑکیاں اغوا ہوئیں، تو وہ ایسے ہی تو ہوئی ہوں گی۔
بہت خوب، لیکن یہ واقعہ تو کسی شہر کا ہے جہاں ہوٹل ہوتے ہیں ۔ ایشر سنگھ اور کلونت کور ان میں سے کسی ہوٹل میں کمرہ لے کر داد عیش دینے کے منصوبے سے ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ افسانے کا پہلا ہی جملہ ہے : “ایشر سنگھ جوں ہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا،کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی۔۔۔رات کے بارہ بج چکے تھے ، شہر کا مضافات ایک عجیب پر اسرار خاموشی میں غرق تھا۔ “اب تم ضد کر کے کہو، یہ تو شہر کے مضافات کی بات ہے،دیہات نہ سہی۔ لیکن جاے واردات تو شہر ہی میں تھی، کیا تم ایشر سنگھ کا جملہ بھول گئے،”شہر میں لوٹ مچی تومیں نے اس میں حصہ لیا۔ “
تم مجھ سے مایوس ہو گے، لیکن” ٹھنڈا گوشت”منٹو صاحب کے ناکام ترین افسانوں میں ہے ۔ اس کے شاق انگیز انجام نے لوگوں کو افسانے کی کمزوریوں کی طرف دھیان دینے سے روک لیا، اور اب تک روکے رکھا ہے ۔ منٹو نے ٹھیک کہا تھا کہ میرا افسانہ”ٹھندا گوشت” فحش نہیں ہے ۔ لیکن وہ اس کے آگے کا جملہ کہنا بھول گئے تھے کہ “ٹھنڈا گوشت” بہت اچھا افسانہ بھی نہیں ہے ۔ فیض صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ اعلیٰ ادب کے تقاضے دور رہے، یہ افسانہ متوسط درجے کے بھی ادب کے بھی تقاضے پورے نہیں کرتا۔
“کھول دو” اردو کے مشہور افسانوں میں ہے ۔ زیادہ تر اس کی تعریف ہی ہوئی ہے، بلکہ کبھی کبھی تو اسے بڑا افسانہ بھی کہہ دیا گیا ہے، کہ فسادات تقسیم کو اس طرح سے کم ہی دیکھا گیا ہے کہ جو پاسباں تھے اور محافظ تھے، وہی اس افسانے میں راہزن اور جارح کے روپ میں نظر آتے ہیں ۔ چند دن ہوئے یوسف سرمست نے “کھول دو” کے خلاف کچھ لکھا ہے ۔ اس باعث ان پر بہت لے دی بھی ہوئی ہے اور کئی لوگ “کھول دو” کے دفاع میں سینہ سپرہوئے ہیں ۔ لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ یوسف سرمست نے جو کہا ہے وہ مجھے اس قدر الجھا ہوا محسوس ہوا کہ میں ان کا استدلال سمجھ نہیں پایا۔ اور ان کے مخالفین نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے تو بارے میں کچھ کہنا ہی فضول ہے ۔ بلکہ “کھول دو” پر تم نے جو اعتراض کیا ہے اس میں حقیقت کی کچھ جھلک موجود ہے ۔
“کھول دو” کے بارے میں تم کہتے ہو کہ “منٹو کی دہشت پسندی”کی نذر ہو جانے کے باعث اس کا “مرکزی خیال اور مرکزی کردار دونوں سطحی اور دھندلے ہو کر رہ گئے ۔ ” دہشت پسندی کے بارے میں تمھیں میں نے اوپر بتایا ہے کہ منٹوکے [خراب ]افسانوں میں سنسنی خیزی ہے، دہشت پسندی وغیرہ نہیں ۔ اس طرح کے فیصلے الطاف گوہروں کے لیے چھوڑدو۔ اسی طرح، میں نے یہ بھی تمھیں بتایا ہے کہ فسادات تقسیم کے افسانوں کو میلو ڈراما کہا جا سکتا ہے اور میلوڈراما کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس میں سارے کردار ٹائپ(Type) ہوتے ہیں، ان میں اصلیت نہیں ہوتی۔ اس لیے “کھول دو” کو ہم میلو ڈراما کہہ سکتے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ یہ نہایت ناکام اور بے اثر، بالکل فضول سا میلو ڈراما ہے ۔
ارے ، مجھے لگتا ہے کہ تم بالکل ہی ہتھے سے اکھڑجاؤگے اور اتنی محنت سے لکھا ہوا یہ میرا مکتوب نذر آتش کر دو گے ۔ ذرا ٹھنڈے دل سے میری بات پر غور کرو۔
“کھول دو” کا دار و مدار صرف ایک دولفظی فقرے “کھول دو”پر ہے ۔ ایک نوجوان لڑکی،جو فسادات کے دوران “ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی”ہسپتا ل لائی جاتی ہے ۔ اس کا باپ اس کی تلاش میں سرگرداں تھا، اس نے سنا کہ ایک بیہوش لڑکی اسپتال لائی گئی ہے ۔ وہ دوڑتا ہو ا اسپتال کے اس کمرے تک پہنچتا ہے جس میں :
کوئی بھی نہیں تھا،بس ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔
۔۔۔ڈاکٹر نے، جس نے کمرے میں روشنی کی تھی،ا س سے پوچھا :’کیا ہے ؟’
اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا :’جی میں ۔۔۔جی میں اس کا باپ ہوں ۔ ‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا:’کھڑکی کھول دو۔۔۔’
مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔ ۔ ۔
بے جان ہاتھوں نے ازار بند کھولا۔ ۔ ۔ ۔
اور شلوار نیچے سرکا دی۔ ۔ ۔ ۔
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا؛’زندہ ہے ۔۔۔میری بیٹی زندہ۔۔۔’
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو چکا تھا۔
افسانہ یہاں ختم ہو جاتا ہے ۔ ہے نہ نہایت “درد ناک اور غم انگیز اور دل دہلانے دینے والا ” انجام؟آخری جملے کی فضولیت اور لچر پن کو چھوڑدیں تو انجام اور بھی” درد ناک” ہو جاتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افسانہ نگار نے کچھ کہے بغیر ہی ہم پر سب کچھ ظاہر کر دیا ہے ۔ یہ حزم اور یہ ضبط فسادات تقسیم کے بارے میں افسانوں میں کم نظر آتا ہے اور منٹو اس کے لیے ہمارے شکریے کے حقدار ہیں ۔ سراج الدین کی بیٹی اجتماعی زنا بالجبر کا شکار ہوئی ہے ،اور بار بار ہوئی ہے ۔ اور ظلم اور تشدد کے ذریعہ اس کو جابر زناکاروں کا اس قدر پابند بنا دیا گیا ہے کہ ان کے حکم کی فوراً اور بے سوچے سمجھے تعمیل کرنا اس کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے ۔ جب ڈاکٹر کہتا ہے، “کھڑکی کھول دو” تو وہ “کھڑکی” کا لفظ سنتی ہی نہیں، اسے صرف “کھول دو” سنائی دیتا ہے۔
اب تم یہ غور کروکہ زنا بالجبر کرنے والے اسے کیا حکم دیتے ہوں گے ؟ یا کیا انھیں ضرورت بھی پڑتی ہو گی کہ اپنی شیطانی ہوس پوری کرنے کے لیے کوئی حکم بھی دیں ؟ کیا یہ زیادہ “فطری” نہیں کہ وہ اس کی شلوار کو کھنچ کر،ا ور شاید پھاڑکر پھینک دیں، اوراپنا مقصد پورا کرنے کے بعد اسے حکم دیں کہ اب تو شلوار پہن سکتی ہے ؟بلکہ اسے کپڑے پہنے رہنے دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا حالات کے زیادہ موافق یہ نہیں کہ لڑکی یوں ہی پڑی رہے اور زنا کار اس پر جب چاہیں حملہ کرتے رہیں ۔ یا بہت سے بہت “انسانیت” دکھائیں تو اس پر کوئی چادر،یا اس کی اوڑھنی کھینچ ڈال دیں اورپھر جب چاہیں اسے اتار پھینکیں ؟
یا،چلو مان لیتے ہیں کہ کسی خوف (یا کسی خیال) کی بنا پر اس کے حملہ آور اسے شلوار پہنے رہنے دیتے ہیں اور پھر جب چاہتے ہیں اس کو حکم دیتے ہیں کہ “شلوار کھول دو۔ “
مگر ٹھہرو، یہ تو کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے ۔ جس قسم کے “انسان” وہ ہیں، کیا وہ اس کی شلوار اتروانے کے لیے گفتگو کے لہجے میں یوں کہیں گے کہ “شلوار کھول دو!”؟زیادہ مناسب (اور اردو روز مرہ کے عین مطابق)تو یہ ہوتا کہ وہ تحکمانہ لہجے میں لڑکی سے کہتے، “شلوار کھول!”یا اسے گالی دے کر چیختے، “شلوار اتار!” یا شاید اس طرح کہتے، “کھول دے شلوار!” یا پھر شاید اس طرح کہتے،”ابے ننگی ہو جا!شلوار کھول!” پھر یہ “کھول دو” منٹو صاحب نے کہاں سے سوچ لیا؟ وہ ظالم جفا کار کیا کوئی “مہذب ” لوگ تھے، اور کیا وہ موقع انتہائی شائستگی کا تھا کہ کہتے، “شلوار کھول دو۔ ” اس سے تو بہتر یہ تھا کہ منٹو صاحب بات چیت کے شائستہ لہجے میں ان کی زبان سے کلام یوں ادا کراتے :”براہ کرم شلوار کھول دیجیے ۔ ہم آپ کے ساتھ زنا بالجبر کریں گے، شکریہ۔ “منٹو صاحب تو بڑے زبان شناس تھے ۔ انھیں روزمرہ کا اتنا بھی لحاظ نہ رہا کہ وہاں شیطان صفت درندوں کی زبان سے صرف “کھول!”کے بجاے “کھول دو” کہلاتے، اور وہ بھی ڈاکٹر کے لہجے اور ہلکی آواز میں ؟ معاف کیجئے گا،منٹو صاحب کی زبان شناسی کے بارے میں میری رائے اتنی پست نہیں ہے ۔
تم کچھ کسمسا رہے ہو۔ شاید تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ لڑکی کو شلوار پہنے رہنے دینا اس لیے ضروری تھا کہ شاید کوئی پولیس والا، یا کوئی اور حقیقی مدد گار رضا کاروہاں آدھمکتا تولڑکی کو برہنہ دیکھ کر اسے کچھ شک پیدا ہوتا کہ اس کے ساتھ کچھ ہوتا رہا ہے ۔ میاں، و ہ کئی لوگ تھے، اور منظم تھے ۔ وہ لڑکی کو کسی” محفوظ”جگہ پر لے گئے ہوں گے،شاید ایسی جگہ پرجہاں ایسے کام وہ پہلے بھی کرتے رہے ہوں گے ۔ اگر کوئی باہری آدمی یا پولیس والاآنکلتا تو ایسے امکان کے حفظ ماتقدم کے لیے انھوں نے کسی کو دیدبانی کے لیے بے شک مقرر کیا ہو گا۔ ایک ایک کر کے زناکاروں کو یہ “ڈیوٹی” تفویض ہوتی ہو گی۔ منٹو صاحب نے ہمیں بتا یا کہ ان درندہ صفت شیطانوں کے پاس لاری بھی تھی۔ یہ کچھ مشکل نہ تھا کہ کسی باہری شخص کے اچانک نمودار ہونے کی صورت میں وہ لڑکی کو کھینچ کھانچ کرلاری میں ڈال لیتے اور بتاتے کہ ہم نے اسے ابھی ابھی یہاں سے اسی حالت میں برآمد کیا ہے ۔ یوں بھی، جب لڑکی کو لے کر اس کے زنا کار اور اغوا کار بالآخر اسپتال پہنچتے تو اس تن پر لباس ہوناہی چاہیے تھا۔ اس کا انتظام انھوں نے پہلے سے کر لیا ہو گا۔ یہ ضروری تو نہیں کہ وہ ہربار شلوار اتارے اور ہر بار اس سے کہا جائے “شلوار کھول دو۔ “
در اصل یہاں بھی بات وہی ہے ۔ منٹوکو کبھی خیال آیا کہ فقرہ “کھول دو”اتنا معصوم نہیں جتنا نظر آتا ہے ۔ ایسے بھی موقعے ہوں گے جب اس سے کچھ شیطنت بھی سرزد ہوتی ہو گی۔ اس کے بعد پھر یہ جا، وہ جا۔ منٹو صاحب نے مزید غور کیے بغیر افسانہ تیار کر دیا۔ انھیں جلدی بھی تو بہت تھی۔ افسانہ پورا کریں اور خریدار کو دے آئیں، کچھ ضروری چیزوں کا بندو بست کریں ۔ باقی سب خیریت ہے ۔ میری اس بات کا ثبوت (اگر ثبوت اب بھی درکار ہو)یہ ہے کہ منٹو صاحب نے اس افسانے میں ایک جگہ ایک غیر معمولی کام کر دیا ہے ۔ سراج الدین کی بیوی نے مرتے ہوئے اس سے کہا تھا، “مجھے چھوڑو،فوراً سکینہ کو لے کر یہاں سے بھاگ جاؤ۔ “اب یہاں منٹو صاحب ایسا کام کر دیتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ بہت بڑے افسانہ نگار تھے اور اگر جلدی میں نہ ہوتے تو اس افسانے کو بھی کچھ نہ کچھ بنا ہی کر چھوڑتے :
سکینہ اس کے ساتھ ہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے ۔ سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ دوپٹہ اٹھانے کے لیے اس نے رکنا چاہا تھا اور سکینہ نے چلا کر کہا تھا، ‘۔۔۔ابا جی چھوڑیے ۔۔۔!’لیکن اس نے دوپٹہ اٹھا لیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ دھیان آتے ہی اس نے اپنے کوٹ کی ابھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اورجیب میں ہاتھ ڈال کر دوپٹہ نکالا،سکینہ کا وہی دوپٹہ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن سکینہ کہاں ہے ؟
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے ذہن پر بہت زورڈالا، مگر وہ کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا؟
سبحان اللہ، یہ لطافت، یہ نزاکت۔ اس پر تو شیکسپیئر بھی فدا ہو جاتا۔ لیکن منٹو کو افسانہ ختم کرنے کی جلدی ہے، لیکن وہ اسے انجام تک پہنچانے کے پہلے سکینہ کے اغوا کے واقعے سے خون کی آخری بوند بھی نچوڑلینا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ سکینہ کی مظلومیت کا احساس قاری کے منھ پر تھپڑکی طرح پڑے ۔ اس لیے وہ اچھے کام کو اچھا ہی نہیں رہنے دیتے ۔ ہماری مزید اشک باری کا انتظام وہ یوں کرتے ہیں :
[سراج الدین نے بازیافت کرنے والے نوجوانوں کو]لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔ ‘گورا رنگ ہے اس کا اور بہت ہی خوبصورت ہے وہ۔۔۔مجھ پر نہیں ہے، اپنی ماں پر ہے ۔۔۔عمر سترہ برس کے قریب ہے ۔۔۔ آنکھیں بڑی بڑی اور سیاہ،داہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔میری اکلوتی لڑکی ہے ۔۔۔’۔
لاحول ولا قوۃ۔ یہاں بس اس کی کمی ہے کہ سکینہ کا باپ ہارمونیم لے کر “جانے والے لوٹ کے آنا” کی دھن پر ایک غمگین گانا شروع کر دے ۔ سکینہ کا حلیہ پڑھ کر ہم میں سے بعض کے آنسو ضرور چھلک آئے ہوں گے،لیکن کہاں وہ شیکسپیئر کے انداز میں چھوٹا ہوا دوپٹہ جسے باپ اپنی جیب میں ٹھونس لیتا ہے اور کہاں یہ بیان، جسے انگریزی والے Tear jerkerکہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں ۔
ٍ میں شیکسپیئر کا نام کئی بار لے چکا ہوں ۔ تم سوچو گے فاروقی صاحب جب برائی کرتے ہیں تو اپنے مہجو کو جہنم ہی میں ڈال دیتے ہیں اور جب تعریف پر اتر آتے ہیں تو وہ اپنے ممدوح کو شیکسپیئر سے بھڑا آتے ہیں ۔ کیا یہ ع
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
جیسا کام نہیں ؟ نہیں ۔ واللہ نہیں ۔ میں نے کچھ دیرپہلے تم سے کہا تھا کہ”اردو ادب میں میر کے سوا اگر کوئی شخص اور ہے جس کے یہاں زندگی کی رنگا رنگیاں، دکھ درد، وجد و شوق، غم اور مسرت، انسانی وجود کا احترام اور اس کی کمزوریوں کا احسا س، یہ سب باتیں تخلیقی سطح پر بیان ہوئی ہیں تو وہ سعادت حسن منٹو ہے ۔ ” اور تم نے میر کے بارے میں میرا یہ قول بھی کہیں پڑھا ہو گا کہ ارد ومیں اگر کوئی ایسا ہے جسے اس کی دنیا کی معموری، تنوع، اور اس کے مشاہدے کی گہرائی، باریکی اور فن پر مکمل قدرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے مشابہ کہا جا سکتا ہے تو وہ میر محمد تقی میر ہیں ۔ اس طرح شیکسپیئر، میر، اور منٹو سب ہی ایک ہی زنجیر کی کڑیاں کہے جا سکتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ منٹو صاحب کی کڑی یہاں کمزور، بہت ہی کمزور ہے ۔ “کھول دو” کے آخری جملوں کو ذہن میں لاؤ:
مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔ ۔ ۔
بے جان ہاتھوں نے ازار بند کھولا۔ ۔ ۔ ۔
اور شلوار نیچے سرکا دی۔ ۔ ۔ ۔
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا؛’زندہ ہے ۔۔۔میری بیٹی زندہ۔۔۔’
اب میں تمھیں شیکسپیئر کے “کنگ لیئر” (King Lear)کی کچھ سطروں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں ۔ صورت حال تقریباً ویسی ہی ہے جیسی ہم نے ابھی”کھول دو” کے انجام میں دیکھی۔ لیئر کی بیٹی کارڈیلیا (Cordelia)قتل ہو چکی ہے، لیکن اس کے چہرے اور جسم پر موت کی کوئی علامت نہیں ۔ بوڑھا مخبوط الحواس باپ امید کرتا ہے کہ شاید میری بیٹی زندہ ہو۔ اب سنو،اور سر دھنو۔ بیٹی کی لاش ہاتھوں پرلیے ہوئے وہ اسٹیج میں داخل ہوتا ہے ۔ ناقابل بیان اور ناقابل برداشت ایک دو جملوں کے بعد وہ لاش کو زمین پر رکھ دیتا ہے ۔
Lear: She’s dead as earth۔[He lays her down۔]
Lend me a looking glass;
If that her breath will mist or stain the stone,
Why then she lives۔
Kent: Is this the promised end?
Edgar: Or image of horror?
Albany: Fall, and cease۔
Lear: This feather stirs, she lives: if it be so,
It is a chance which does redeem all sorrows
That I ever felt۔
(King Lear, V, iii, lines 259-265)
لیئر : وہ مردہ ہے، خاک کی طرح۔ [اسے زمین پر رکھ دیتا ہے ]
مجھے ذرا آئینہ دے دو۔
اگر اس کی سانس اس پارۂ سنگ کو دھندلا دے، یا اس پر کوئی نشان چھوڑدے،
تو پھرتو وہ ابھی زندہ ہے ۔
کینٹ: کیا یہی وہ انجام ہے جس کی بشارت ہمیں ملی تھی؟
ایڈگر: یا کراہت اور دہشت کی تصویر؟
آلبنی: بس،زمین پر پڑرہیں اور زیست سے کنارہ کر لیں ۔
لیئر: کچھ تھرتھراہٹ سی ہے،یہ پر لرزاں ہے ۔ وہ ابھی زندہ ہے :اور اگر ایسا ہو
تو یہ ایسا موقع ہو گا کہ میرے اس تمام دکھ، تمام درد کا تاوان ہو جائے
جو میں سہ چکا ہوں۔
(ایکٹ پنجم، منظر سوم، سطور 259تا 265)
تم یقین کرو، یہ منظر میں نے کاغذ پر بارہا پڑھا ہے اور اسٹیج پر کم سے کم ایک بار دیکھا ہے۔ لیکن اس وقت بھی ان الفاظ کو نقل کرتے وقت میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور سانس رک رک کر آ رہی ہے ۔ کاش منٹو صاحب نے “کھول دو”کی جگہ کچھ اور سوچا ہوتا، اور کاش انھوں نے ڈاکٹر کے پسینے میں غرق ہو جانے والا جملہ نہ لکھا ہوتا۔
گفتار یازدہم
تم کہتے ہو، “بقول حسن عسکری “سیاہ حاشیے “میں شامل فسادات کے موضوع پر منٹو کے تقریباً تمام افسانوں اور لطیفوں میں منٹو کا مشاہدہ ذاتی اور بلا واسطہ تھا جسے منٹو نے خام مواد کی طرح پیش کر دیا ہے ۔ “عسکری صاحب نے یہ بات اگر کہی تو کہاں کہی، یہ مجھے یاد نہیں آ رہا ہے ۔ عسکری صاحب کی تمام تحریروں کو چھاننا اس وقت میرے لیے ممکن نہیں ۔ ہاں “منٹو نما” (مطبوعہ سنگ میل پبلیکیشنز لا ہور،1991) میں عسکری صاحب کا ایک چھوٹا سا مضمون ہے جو غالباً “سیاہ حاشیے ” کا دیباچہ رہا ہو گا۔ اس چھوٹی سی تحریر میں عسکری صاحب نے ایسی ایسی بصیرت افروز اور فکر انگیز باتیں کہی ہیں کہ میں عش عش کرتا ہوں ۔ اس مضمون میں عسکری نے “سیاہ حاشیے “کے مشمولات کو دو جگہ “لطیفہ” ضرور کہا ہے ۔ لیکن ضروری ہے کہ تم ان کے اس خیال کو پورے سیاق سباق میں دیکھو۔ اور یہ تو انھوں نے کہیں نہیں کہا کہ ان تحریروں میں منٹو نے اپنے ذاتی اور بلا واسطہ مشاہدات کو خام مواد کی طرح پیش کر دیا ہے ۔ پہلے محولہ بالا مضمون سے عسکری صاحب کی یہ عبارتیں پڑھو، جہاں لفظ “لطیفہ” آیا ہے :
منٹو نے بھی فسادات کے متعلق لکھا ہے،یعنی یہ لطیفے یا چھوٹے چھوٹے افسانے جمع کیے ہیں ۔ در اصل میں نے بڑا غلط فقرہ استعمال کیا ہے۔ یہ افسانے فسادات کے متعلق نہیں ہیں،بلکہ انسانوں کے بارے میں ہیں (ص 749) ۔
۔۔۔ان لطیفوں میں انسان اپنی بنیادی بے چارگیوں،حماقتوں،نفاستوں اور پاکیزگیوں سمیت نظر آتا ہے (ص 751)۔
۔۔۔فسادات کے متعلق جتنے بھی افسانے لکھے گئے ہیں،ان میں منٹو کے یہ چھوٹے چھوٹے لطیفے سب سے زیادہ ہولناک اور سب سے زیادہ رجائیت آمیز ہیں ۔ منٹو کی دہشت اور منٹو کی رجائیت سیاسی لوگوں کی، یا انسانیت کے نیک دل خادموں کی دہشت اور رجائیت نہیں ہے،بلکہ ایک فن کار کی دہشت اور رجائیت۔ اس کا تعلق بحث تمحیص یا تفکر سے نہیں ہے بلکہ ٹھوس تخلیقی تجربے سے۔ یہی منٹو کے ان افسانوں کا واحد امتیاز ہے (ص 752)۔
تمھارے خیال کے برخلاف،کہ عسکری صاحب کی نظر میں “سیا ہ حاشیے “میں زندگی کا خام مواد ہے جس میں تخلیقی تجربہ شامل نہیں ہو سکا ہے، عسکری تو یہ کہتے ہیں کہ یہ “سچی ادبی تخلیقات ہیں ۔ ” میں عسکری صاحب کی ہر بات سے متفق نہیں ہوں،لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ لفظ “لطیفہ” سے ان کی مراد کوئی خندہ آور تحریرنہیں، بلکہ طنزیہ تحریر ہے، اور یہ طنز ایسا ہے کہ آدمی کو ہنستے بنے نہ روتے بنے ۔ ایک دومثالیں دیکھو:
کسر نفسی
چلتی گاڑی روک لی گئی ۔ جو دوسرے مذہب کے تھے ان کو نکا ل نکال کرتلواروں اور گولیوں سے ہلاک کر دیا۔ ا س سے فارغ ہو کرگاڑی کے تمام مسافروں کی حلوے، دودھ اور پھلوں سے تواضع کی گئی۔ گاڑی چلنے سے پہلے تواضع کرنے والوں کے منتظم نے مسافروں کو مخاطب کر کے کہا:’بھائیو اور بہنو!ہمیں گاڑی کی آمد کی اطلاع بہت دیر میں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح چاہتے تھے اس طرح آپ کی خدمت نہ کر سکے ۔ ‘
رعایت
“میری آنکھوں کے سامنے میری جوان بیٹی کو نہ مارو۔ “
“چلو اسی کی مان لو۔ ۔ ۔ ۔ کپڑے اتار کر ہانک دو ایک طرف۔ “
آنکھوں پر چربی
ہمار ی قوم کے لوگ بھی کیسے ہیں ۔۔۔پچاس سور اتنی مشکلوں کے بعد تلاش کر کے اس مسجد میں کاٹے ہیں ۔ وہاں مندروں میں دھڑا دھڑا گائے کاگوشت بک رہا ہے،لیکن یہاں سور کا مانس خریدنے کے لیے کوئی آتا ہی نہیں ۔
خدا کا شکر ہے کہ “سیاہ حاشیے ” جیسی کتابیں اور نہیں ہیں ۔ ورنہ اس طرح کی دو چار تحریریں پڑھ لی جائیں تو ہمیں اپنے آپ سے خوف آنے لگے ۔ عسکری صاحب نے تو بڑی رعایت سے کام لیا اور کہا کہ :
غیر معمولی حالات میں غیر معمو لی حرکتیں ہمیں انسان کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ بتا سکتی ہیں کہ حالات انسان کو حیوان کی سطح پر لے آتے ہیں ۔ لیکن غیر معمولی حرکتیں کرتے ہوئے معمولی باتوں کی طرف توجہ ہمیں انسان کے متعلق ایک زیادہ گہری اور زیادہ بنیادی بات بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ انسان ہر وقت، اور بیک وقت، انسان بھی ہوتا ہے اور حیوان بھی۔ اس میں خوف کا پہلو یہ ہے کہ انسانیت کے احساس کے باوجود انسان حیوان بننا کیسے گوارا کر سکتا ہے ۔ اور تسکین کا پہلو یہ ہے کہ وحشی سے وحشی بن جانے کے بعد بھی انسان اپنی انسانیت سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا (ص 751)۔
عسکری صاحب غیر معمولی طور پر عقلمند شخص تھے ۔ لیکن خدا معلوم کیوں یہاں انھوں نے انسان کو رعایتی نمبر دے کر پاس کر دیا۔ تمھیں حنہ آرینت(Hanna Arendt)کی وہ بات شایدیاد ہو،کہ شر (Evil) میں کوئی شاذیت یا خصوصی پن نہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص کسی نہ کسی تحریک، یعنی کسی نہ کسی ترغیب، یا موقع پرستی میں مبتلا ہو کر شر کی بدترین شکلوں پر عمل کر سکتا ہے ۔ اس خیال کو اس نے “شر کی پیش پا افتادگی، یا ابتذال”(The Banality of Evil)کا نام دیا تھا۔ ناتسی جرمنی کے ایک نہایت خونخوار اور سنگ دل اوربظاہر ضمیر یا پچھتاوے وغیرہ کے احساس سے بالکل عار ی افسر اڈولف آئکمن (Adolph Eichmann)کو اسرائیلیوں نے بہت تگ و دو کے بعد 1961میں آرجنٹینا(Argentina) سے برآمد کیا تھا (جہاں وہ1945میں جرمنی کی شکست کے بعد روپوش ہو گیا تھا۔ )اسرائیلی اسے اپنے ملک لے گئے اور جہاں اس پر مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دے دی گئی(1962)۔ یہودی نژادحنہ آرینت نے اسرائیل جا کر آئکمن کے مقدمے کی رپورٹ لکھی تھی ۔
یہ رپورٹیں بعد میں اس کی شہرۂ عالم کتاب (The Eichmann Trial: The Banality of Evil)کی شکل میں 1963میں شائع ہوئیں ۔ عسکری صاحب اس کتاب سے ضرور واقف ہوں گے، لیکن ان کا زیر بحث مضمون “سیا ہ حاشیے ” (1948) کا غالباً دیباچہ ہے ۔ اس وقت آرینٹ کی کوئی شہرت نہ تھی اور نہ وہ معاملات ہی ظہور پذیر ہوئے تھے جن کا نتیجہ اس کی محولہ بالا کتاب کی صورت میں ظاہر ہوا۔
آرینٹ کے اس خیال پر، کہ شرمحض ایک مبتذل چیز ہے، کوئی بھی کسی بھی وقت شیطنت میں مبتلا ہو سکتا ہے، اب تک بحث ہورہی ہے ۔ اس بحث کو تقویت اس وقت ملی جب مشیل فوکو (Michel Foucault)کے خیالات سا منے آئے کہ جن کی رو سے حق، یا باطل، یا شر،یا خیر، مرض، یا صحت مندی یہ سب اقتدار کی اصطلاحیں ہیں ۔ یہ کوئی آفاقی یا مطلق ا قدار نہیں ہیں ۔ صاحب اقتدار طبقہ جس کام کو اچھابتاتا ہے وہ اچھا مان لیا جاتا ہے، و قس علیٰ ہٰذا۔ ان باتوں کو مزید شہر ت تب ملی جب میاں دریدا (Jacques Derrida)نے افلاطونی تصورات پر مبنی کر کے اپنے دعوے کیے کہ معنی (یعنی حق) کچھ نہیں ہے ۔ کسی متن کے معنی کبھی حاشیے پر ہوتے ہیں، کبھی ہوتے ہیں مگر نظر نہیں آتے ۔ کسی متن کے معنی کا اس کے مرکز میں واقع ہونا لازمی نہیں ۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ مثلاًقوانین و قواعدمیں کوئی بنیادی معنی نہیں ہوتے ۔
اور جگہ تو کم، لیکن امریکہ کی یونیورسٹیوں میں یہ تصورات بہت مقبول ہوئے اور اس وقت بھی مقبول رہے جب فوکو اور دریدا دونوں کے مولد و ملجا فرانس میں تقریباً مٹ چکے تھے ۔ خیر، اب ہندوستان کے چند دانشوروں کی اکا دکا تصنیفات کے سوا یہ تصورات کہیں رہ نہیں گئے ۔ ان تصورات کے ز وال کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فوکو نے اپنے آخری دنوں میں انسانی ضمیر کے وجود اور حیات انسانی میں اس کی مرکزیت کو تسلیم کر لیا تھا۔ اسی طرح، دریدا صاحب نے اپنے آ خری دنوں میں یہ کہنا شروع کیا کہ ہر چند کہ کوئی انسانی قانون مطلق طورپر با معنی نہیں ہو سکتا، لیکن “قانون” کا ایک ما بعد الانسانی تصور بہر حال ہے ۔ یعنی چاہے قانون خود بے وجود اور باطل ہو، لیکن اس کا تصور بے وجوداور باطل نہیں ۔ ان باتوں کو عسکری صاحب کے منقولہ بالا اقوال کے سامنے رکھو تو تمھیں ان کی بصیرت اور حکمت کا اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن ان کی یہ بات (جس کی بنا پر انھوں نے انسان اور منٹو دونوں کے لیے ایک امید نجات مہیا کر دی) اگر سچی بھی ہے، کہ انسانیت کے خلاف سو گناہ کرنے کے بعد بھی انسان بہرحال اپنی بنیادی انسانیت پر واپس آ جاتا ہے، میرے لیے تو “تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود”کی سی بات معلوم ہوتی ہے ۔
یہ سب غور سے سن لو اور دوبارہ سمجھ لو۔ عسکری صاحب اور منٹو صاحب انسان سے مایوس نہیں تھے اور “سیاہ حاشیے ” بہت بڑی کتاب ہے، لیکن اگر ایسی دو چار کتابیں میں اور پڑھ لوں تو مجھے زندگی سے نفرت ہو جائے ۔
گفتار دوازدہم
ہمارے دوست اور چھوٹے بھائی اجمل کمال نے عسکری صاحب کے بارے میں، اورخاص کر منٹو پرا ن کی تنقید کے بارے میں دو نہایت سخت مضمون “نقاد کی خدائی” کے عنوان سے لکھے تھے ۔ اجمل کمال نے عسکری پر کچھ ایسی ہی فقرہ بازیاں کیں جیسی کہ عسکری صاحب ان لوگوں کے لیے روا رکھتے تھے جنھیں وہ دماغی طور پر کمزور یا اخلاقی طور پر پست قرار دیتے تھے ۔ لیکن عسکری صاحب نے کسی کی نیت پر کبھی کوئی شک نہیں کیا تھا۔ ان کے برخلاف،اجمل کمال کو عسکری صاحب کی نیت پر اگر شک نہیں بھی ہے تو وہ لکھتے کچھ ایسے لہجے میں ہیں جس سے گمان یہی گذرتا ہے کہ وہ عسکری صاحب کے خلوص نیت پر شک کر رہے ہیں ۔ دونوں مضامین میں خیال انگیز باتیں بہر حال تھیں، اور اسی بنا پر میں نے انھیں “شب خون”میں نمایاں طور پر چھاپا۔ لا ہور کے امجد طفیل نے ان کا جواب بھی لکھا، لیکن بحث زیادہ چلی نہیں ۔ میں یہاں اجمل کمال کی صرف ان باتوں سے اعتنا کروں گا، اور وہ بھی مختصراً،جو عسکری اور نقد منٹو سے تعلق رکھتی ہیں ۔
اجمل کمال کو شکایت ہے کہ فسادات تقسیم کے بارے میں منٹو کا رویہ وہ نہیں ہے جو عسکری نے سمجھا ہے، یا مختلف موقعوں پر سمجھا تھا۔ مجھے اس شکایت سے کوئی شکایت نہیں، لیکن کوئی اور شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ فسادات تقسیم کے بارے میں منٹو کا رویہ وہ نہیں ہے جو اجمل کمال نے سمجھا ہے ۔
اجمل کمال کا قول ہے،”انسانی فطرت اور مروج اخلاقیات دو مختلف چیزیں ہیں اور منٹو کا فیصلہ واضح ہے کہ یہ دونوں متضاد ہیں ۔ ” بہت سے لوگ اس فیصلے سے متفق نہ ہوں گے، میں اسے بڑی حد درست سمجھتا ہوں، لیکن پھر اجمل کمال کی طرح اس غلط فہمی میں بھی مبتلا نہیں ہوتا کہ منٹو کو ترقی پسند افسانہ نگارقرار دے لیا جائے تو یہ منٹو کی عظمت میں اضافے کا باعث ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ “ٹھنڈا گوشت”؛”کھول دو”؛ “موذیل”؛ “ٹوبہ ٹیک سنگھ” اور “موتری”سے جو” سیاسی موقف”بر آمد ہوتا ہے، وہ ترقی پسندوں کے موقف سے “بہت زیادہ مختلف نہیں “ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس کی بناپر ترقی پسندی کے سیاسی موقف میں دو چار چاند ضرور لگ جائیں گے، منٹو صاحب کی تحریروں میں کسی چمک دمک کا اضافہ نہ ہو گا۔ اگر “ٹھنڈا گوشت”؛ “کھول دو”؛”موذیل”؛ “ٹوبہ ٹیک سنگھ” اور “موتری” کا “سیاسی موقف”(واضح نہ سہی، زیر متن سہی)ترقی پسندوں کے موقف سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ، توکیا وجہ ہے کہ “مستند” یا “معتبر” ترقی پسند افسانہ نگاروں کے کسی بھی افسانے میں منٹو کے محولہ بالا افسانوں کی کمزور اور دھندلی سی بھی جھلک نہیں ہے ؟تو کیا یوں کہا جائے کہ کرشن چندر،یا احمد ندیم قاسمی،یا رامانند ساگر، “ٹھنڈا گوشت” نہ سہی، “ٹوبہ ٹیک سنگھ” یا “موتری” جیسا افسانہ لکھنے کی (فنی یا سیاسی یا اخلاقی)قدرت نہ رکھتے تھے ؟
ترقی پسندوں کے ” سیاسی موقف”سے اجمل کمال کیا سمجھتے ہیں، اس کی انھوں نے وضاحت نہیں کی ہے ۔ لیکن جس زمانے (یعنی 1940کی دہائی ) میں وہ افسانے لکھے گئے تھے جو یہاں زیر بحث ہیں، ترقی پسندوں کا سیاسی موقف پہلے تو یہ تھا کہ وہ تقسیم ملک کے حمایتی تھے اورمخدوم صاحب سے “لے کے رہیں گے پاکستان”جیسی نظمیں لکھواتے تھے ۔ بعد میں وہ تقسیم ملک کے خلاف ہو گئے (اور کہتے ہیں کہ وہ اب تک اس کے مخالف ہیں،کم سے کم ہندوستان کے “ترقی پسند”۔ )اسی زمانے میں ترقی پسندوں کا سیاسی موقف دوسری جنگ عظیم کے بارے میں یہ تھا کہ یہ “سامراجیوں “کی آپسی جنگ ہے ،جس میں دونوں طرف کے بے گناہ سپاہی بے محاباقتل ہو رہے ہیں ۔ (اس وقت مخدوم، یا شاید جاں نثار اختر، نے نظم لکھی:”جانے والے سپاہی سے پوچھو /وہ کہاں جا رہا ہے “)اس زمانے میں ہٹلر اور اسٹالن میں گاڑھی چھن رہی تھی۔ (دونوں کے درمیان انتہائی مذموم،خفیہ معاہدہ تھاجس میں دونوں نے آپس میں یورپ کی بند ر بانٹ کے منصوبے بنائے تھے ۔ ) مگر ہٹلر کو صبر کہا ں تھا؟اس نے 1941میں روس پر حملہ کر دیا۔ اب ترقی پسندوں کا “سیاسی موقف” فوراً تبدیل ہو کریہ ہو گیا کہ یہ جنگ دراصل دنیا کو سامراج سے آزاد کرانے کے لیے لڑی جا رہی ہے ۔ ( اس وقت جاں نثار اختر نے نظم لکھی :”یہ جنگ ہے جنگ آزادی/آزادی کے پرچم کے تلے “، اور ظہیرکاشمیری نے ان روسی شہیدوں کا ماتم کیا جنھوں نے جرمن فوجوں کے نرغے اور محاصرے کے دوران “آزادی” کی” محافظت ” میں جان دی تھی:”بجھ گئے کئی چراغ رات جاگ جاگ کر/السلام اے سحر۔۔۔آندھیوں کے درمیاں /ان کا رقص رقص ناز/ان کی لو جگر گداز۔۔۔” وغیرہ وغیرہ۔ )
تو صاحب زادے، “سیاسی موقف” جیسی “بھک سے اڑجانے والی” (یا افغانستان کی زبان میں “انفجاری”) چیزوں کو سیاست دانوں کے لیے چھوڑو، ادب کی بات کرو۔
یہ درست ہے کہ عسکری صاحب کے یہاں تضادات ہیں ۔ وہ خود ہی کہتے تھے کہ علمی یا فکری طور پرمیں بڑی بے شرمی سے اپنی رائے بدل لیتا ہوں، اگر نئی معلومات یا حالات کی روشنی میں اس کی ضرورت پڑے ۔ لیکن “سیاہ حاشیے ” کو موضوع بنا کر جو باتیں عسکری نے کہیں ،وہ انھیں کی تنقیدی بصیرت اور جرأت والے شخص سے ممکن تھیں ۔ عسکری صاحب کی جس بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے (اوریہاں میں اور اجمل کمال کم و بیش ایک ہی موقف پر ہیں ۔ ) وہ بات کہنے کا حق عسکری کو بہر حال ملنا چاہیے ۔ عسکری سے شدید (اندھی؟) برہمی کے باعث اجمل کمال کو رنج بھی نہیں ہوتا کہ عسکری صاحب اپنی تمام عقل و خرد کے باوجود یہاں کچھ سادہ لوح سے لگتے ہیں، کیوں کہ یہاں ان کی سادہ مزاجی، ان کوانھیں ترقی پسندوں کے نزدیک لے آتی ہے جن پر فقرے چست کرنا عسکری کا محبوب مشغلہ بن گیا تھا۔ اور ہمیں اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ “سیاہ حاشیے ” کے بارے میں عسکری کا یہ فیصلہ ہمیں ترقی پسندی اور اسی قسم کی دوسری اصطلاحوں کے آگے لے جاتا ہے کہ”فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیزانسانی دستاویزکہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں ۔ “
اجمل کمال نے “کھول دو”کا ذکر بہت تحسین کے ساتھ کیا ہے۔ وہ بیدی صاحب کے افسانے “لاجونتی”کو، اور “کھول دو”کو “المیہ”قراردیتے ہیں ۔ لیکن اگر یہTragedyکے اصطلاحی معنی میں “المیہ” ہیں تو المیوں میں ترقی پسندوں کا “سیاسی موقف” وجود ہی نہیں رکھ سکتا۔ ہاں اگر “المیہ” سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی افسوس ناک حادثہ یا سانحہ، جیسے کہ ہم اخباروں اور ٹی۔ وی۔ کے ذریعہ روز ہی پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں، تو پھر “پیشاور ایکسپریس”، یا “اور انسان مر گیا”وغیرہ کو بھی “المیہ” کہنے میں ہمیں کوئی شرم نہ ہونا چاہیے ۔ منٹوکی بڑائی اس بات میں ہے کہ وہ ہمیں (صحافیوں کے معنی میں ) “المیہ”؛”قتل و غارت گری”؛ “انسانیت کا خون”؛ “زنا بالجبر” وغیرہ اصطلاحوں سے الگ ہٹ کر سوچنے اور محسوس کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ عسکری صاحب نے منٹو کی تخلیقی قوت کے اس پہلو کو سمجھا اور ہمیں اس کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے کی ترغیب دی۔ یہاں بھی وہ ہمارے سکہ بند نقادوں (ترقی پسند یا غیر ترقی پسند)سے بہت مختلف، بہت بالا، اورخیال افروزی کی قوت سے معمور نظر آتے ہیں ۔
گفتار سیزدہم
منٹو صاحب کے بارے میں یہ بات کئی بار کہی گئی اور زور دے کر کہی گئی کہ انھیں “پست طبقے “(Low Life)والے مردوں اور عورتوں سے بہت دلچسپی ہے، (عورتوں سے تو بہت ہی زیادہ، اور یہ شاید ان کا دماغی خلل رہا ہو۔ ) یہ اصطلاح(Low Life) ڈاکٹر جانسن نے فیلڈنگ (Henry Fielding)کے کرداروں کے لیے استعما ل کی تھی۔ یہ “الزام”غلط رہا ہو یا صحیح، لیکن یہ بات تو سامنے کی ہے کہ چارلس ڈکنس کے ناولوں کے بعدیہ الزام بے معنی ہو گیا ہے،کیوں کہ ڈکنس نے اپنے ناولوں کو ہر طرح کے کرداروں سے بھر دیا، انھیں سمجھنے اور ان کے بارے میں ہمیں سمجھانے کی سعی بلیغ کی اور وقت ضرورت انھیں طنز کا ہدف بھی بنایا۔ کم لوگوں نے اس نکتے پر دھیان دیا ہے کہ منٹواس نام نہاد”پست طبقے ” والوں کو روایتی(یا ترقی پسند) معنی میں “اوپر اٹھانے ” میں تو نہیں، لیکن وہ انھیں کسی نہ کسی قسم کا اقتدار دینے میں ضرور دلچسپی رکھتے تھے ۔ یا وہ اس بات میں ضرور دلچسپی رکھتے تھے کہ “Low Life” والے بھی اقتدار کے حق دار ہیں، خواہ وہ اقتدارصرف اتنا ہی ہو کہ وہ اپنے مد مقابل کو محض طنز کا نشانہ بنا سکیں،یا اسے برابھلا کہہ کر کے اور ذلیل کر کے دل کی بھڑاس نکال لیں،یا ان کا استحصال کرنے والوں کو اپنے سے بھی زیادہ حقیر گردانیں۔ اور یہ جذبۂ حقارت محض وقتی ابا ل نہ ہو، بلکہ ان کے لیے زندگی کی بنیادی حقیقت کے معنی رکھتا ہو۔ “ہتک” کی سوگندھی اس طرح کی عورتوں میں نمایاں ہے،لیکن وہ اکیلی نہیں ہے ۔ منٹو صاحب نے بہت دل لگا کر اور دلی تیقن کے ساتھ ایسی عورتوں کواپنے اکثر افسانوں کا محور بنایا ہے ۔ “ہتک” کے علاوہ کچھ اور افسانوں کاذکرتم ابھی مجھ سے سن چکے ہو۔
لیکن میں ایک دو افسانوں کی طرف مزید تمھاری توجہ چاہتا ہوں ۔ “ہتک” کی سوگندھی پر تم نے کچھ نہیں کہا ہے ۔ شاید تمھاری رائے اس کے بارے میں اچھی ہے ۔ تم نے “خوشیا”کو بھی کچھ کہے بغیر چھوڑدیا ہے، حالانکہ خوشیا اور کانتا میں ایک طرح کی نفسیاتی برابری ہے جو سوگندھی اور مادھو کی یاد دلاتی ہے ۔ مادھو کی ریاکاریوں سے تنگ آ کر سو گندھی اسے گالیاں دے کر اپنی کھولی سے نکال دیتی ہے ۔ اس کا خارش زدہ کتا بھی “بھونک بھونک کر “مادھو کو کمرے سے باہر بھاگ جانے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ تم صاف دیکھ سکتے ہو کہ منٹو صاحب نے سو گندھی کو ایک طرح کے اقتدار کا حامل بنا دیا ہے۔ اور وہ اقتدار اس وقت مکمل ہوتا ہے جب مادھو کے دم دبا کر بھاگ نکلنے کے بعد سو گندھی اپنے کتے کو پہلو میں لٹا کر سو جاتی ہے ۔ (میں اس کتے والی بات کو یہاں کسی مطلب سے لایا ہوں ۔ وہ تم پر ابھی ظاہر ہو گا۔ )
کانتا اپنے دلال خوشیا کو مرد نہیں سمجھتی۔ دلال کو” بھڑوا”اسی لیے کہتے ہیں ۔ بھلا جو شخص عورتوں سے پیشہ کرائے اور ان سے متمتع نہ ہو نا چاہے تو وہ تو دوہرا نامرد ہی ہو گا۔ لیکن کانتا جب خوشیا کو اندر بلالیتی ہے، اس حالت میں،کہ وہ کم و بیش الف ننگی ہے تو خوشیا کو حیرت اور تھوڑی سی شرمندگی بھی ہوتی ہے ۔ پھر جب وہ کہتی ہے کہ “میں نے سوچا کیا ہرج ہے ۔ اپنا خوشیا ہی تو ہے، آنے دو۔۔۔” تو اسے ہتک کا شدید احساس ہوتا ہے ۔ “تم خوشیا ہی تو ہو۔ ۔ ۔ خوشیا نہ ہوا،سالا و ہ بلا ہواجو اس کے بستر پرہر وقت اونگھتا رہتا ہے ۔۔۔اور کیا؟”خوشیا اس “ہتک” کا” بدلہ “یوں لیتا ہے کہ کانتا کو گھر میں ڈال لیتا ہے، یا شاید اس سے شادی کر لیتا ہے ۔
ہر چند کہ اس زمانے کے بھڑوے اپنے “مال” پر خود سب سے پہلے ہاتھ صاف کرتے ہیں، اور اکثر بجبر،لیکن خوشیا جیسا کردار توافق سے خالی نہیں،جیسا کہ منٹو نے کچھ تفصیل سے کام لے کر ہمیں بتایا ہے ۔ دونوں افسانے ایک ساتھ یکے بعد دیگرے پڑھے جائیں تو یہ بصیرت ہم پر عیاں ہو سکتی ہے کہ سو گندھی اور خوشیا ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں ۔ سوگندھی میں ایک طرح کا “مردانہ پن” ہے اور خوشیا میں ایک طرح کا “زنانہ پن”، لیکن دونوں کا “شکار پن” ایک ہی طرح کا ہے ۔ ایسے موقعے پر بیدی صاحب کی یاد آ جانا غلط نہیں ہے کیوں کہ ان کے یہاں کی عورتیں کم و بیش ہمیشہ مجبور و محکوم ہی نظر آتی ہیں ۔
مجھے بیدی صاحب کے تمام افسانوں میں “سونفیا “کی سونفیا، اور “میتھن” کی کیرتی، صرف دو ہی عورتیں ایسی نظر آئی ہیں جن میں فاعلیت ہے ۔ وہ خود بھی کچھ کر گذرنے، یا کر ڈالنے کی ہمت اور قوت رکھتی ہیں ۔ لیکن بیدی صاحب ان دو افسانوں میں بھی (جو اسلوب کے لحاظ سے بیحد چست اور درست ہیں، اور زبان کی تازگی ایسی ہے کہ لگتا ہے بیدی صاحب نے زبان پہلے بنائی،لکھنا بعد میں شروع کیا)عورت کے خلاف بیان دینے،یا اشارہ کرنے سے نہیں چوکتے ۔ افسانہ نگاری کے فن کے لحاظ سے مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ “میتھن”بہت موثر افسانہ ہے ۔ میں اسے شاہکار افسانہ کہتا اگر اس کے پلاٹ میں کئی جھول نہ ہوتے ۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ فکشن ایسی صنف سخن ہے جس میں ہر قدم پر پوچھنا پڑتا ہے کہ زندگی کے بارے میں، ان واقعات کے بارے میں، جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں، مصنف ہمیں کیا بتانا چاہتا ہے ؟میرا خیال ہے، اسی قید سے آزاد ہونے کے لیے کافکا نے اپنے مبہم افسانے لکھے،کہ جن میں پڑھنے والا ہر قدم پر پوچھتا ہے :کیا ہو رہا ہے ؟ جو بھی ہورہا ہے وہ بہت معنی خیز اور میرے لیے اہم لگتا ہے لیکن کمبخت یہ بتاتا ہی نہیں کہ ہو کیا رہا ہے ؟ اسی سوال کو اپنی مملکت سے باہر کرنے کے لیے بیکیٹ (Beckett)نے اپنی بات کہیں بھی پوری نہ ہونے دی، اپنی دنیا کا ہر کام ادھورا چھوڑدیا۔ اسی بات کو چھپانے کی خاطر نیر مسعودہم پر سحر پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہے کہ ہم پوچھنا ہی بھول جائیں کہ یہاں کچھ ہو رہا ہے کہ نہیں ؟اسی بات کو مات دینے کے لیے لارنس اسٹرن (Laurence Sterne)نے تجریدی بیانیہ ایجا دکیا۔ بات کو کھول کر نہ کہیں گے تو یہ سوال اپنی موت آپ مر جائے گا کہ “تم ہمیں کیا بتانا چاہتے ہو۔ “، اورمنٹو کے کچھ افسانوں سے شروع کر کے انور سجاد، (شروع زمانے کی )خالدہ اصغر، سریندر پرکاش، منشا یا د اور رشید امجد اور سمیع آہو جا،سب یہ کہیں گے کہ “ہم بتا کچھ نہیں رہے ہیں ۔ ہم دکھا رہے ہیں ۔ “اور وہ کیا دکھا رہے تھے ؟ تجرید، علامت، بیانیے کے پیچھے بیانیہ، جو بھی کہہ لو۔
لیکن افسوس یہ کہ بیدی اور (دو تین افسانوں کو چھوڑکر)منٹو جیسے بڑے افسانہ نگار بھی اسی سوال سے الجھتے اور آپس میں دست و گریباں رہے کہ “تم اس بیانیے کے ذریعہ ہمیں دنیا کے بارے میں کیا بتانا چاہتے ہو؟۔ “ایک اکیلے انتظار حسین تھے جنھوں نے سوال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا،لیکن نہایت عیاری سے کام لے کر (آخر وہ عمرو عیار کے بڑے مداح ہیں )یہ کہہ کر چلتے بنے : “اگرمجھے معلوم ہوتا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں تو میں افسانے کیوں لکھتا؟”جواب نہایت زبردست اور مسکت ہے، اور افسانے کی شعریات میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی جواب کی بنا پر میں انتظار حسین کو جدید افسانہ نگار مانتا ہوں ۔ لیکن بیدی اور منٹو کو اس زہریلے سوال سے مفر نہ تھا کہ “آپ (یعنی بیان کنندہ نہیں، مصنف)ہمیں زندگی کے بارے میں، ان واقعات کے بارے میں، جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں،کیابتانا چاہتے ہیں ؟”اور بیدی صاحب کے افسانوں کی حد تک جواب یہ ہو گا کہ “اس دنیا میں عورت ذات وجود بے وجود ہے،یہاں مرد کی پادشاہی ہے، مرد کی بادشاہی میں قوت رجولیت کے آگے ہر قوت سلب ہو جاتی ہے،ہروجود ختم ہو جاتا ہے ۔ یہی قانون قدرت اور اصول حیات ہے ۔ “یہ جواب وارث علوی، یاکسی اور کو بہت صحیح معلوم ہو تا ہو گا، یاوہ یہ کہہ دیں گے کہ سوال تو صحیح تھا لیکن فاروقی نے بیدی صاحب کی طرف سے جو جواب دیا ہے، وہ غلط دیا ہے ۔
چلو،یہی سہی۔ اتنا تو مانو گے کہ “سونفیا” کی سونفیا” اور “میتھن” کی کیرتی، بظاہر اپنے فیصلے خود کرتی ہیں ۔ سونفیا تو کسی کے قابو ہی میں نہیں آتی،بالکل خود مختار ہے :
سونفیا بیس بائیس برس کی ایک کھلے ہاتھ پیر والی لڑکی تھی۔۔۔مطمئن بالذات۔ اس کے اس اطمینان میں فن کتنا تھا اور نیچر کتنی،اس کا اندازہ آسانی سے نہ ہو سکتا تھا۔
۔۔۔
اس کی آواز میں کئی ریزے، کئی دانے غائب تھے ۔ شاید وہ اپنے ارادے سے انھیں غائب کر دیتی تھی۔ بہر حال، اس کی آواز میں ایک انگیخت پیدا کرنے والا کھر کھرا پن،ایک اٹوٹ رکھب سا رہتا تھا جو کبھی مدھم پر نہ پہنچتا،جیسے وہ بیٹھے بیٹھے اپنی آنکھوں سے مفرور ہو جاتی،ایسے ہی گلے سے بھی۔
۔۔۔
وہ ٹھنڈی تھی؟برف کا تودہ؟پتھر میں بھی تیل ہوتا ہے ۔ شاید کسی بو،کسی لمس نے اس کے اندر کی آگ کو نہیں بھڑکایا تھا۔ اتنی لو میں بھی وہ پگھل اورپسیج نہ رہی تھی۔
خدا کی قسم کیا نثر ہے !منٹو صاحب کو بھی پسینہ آ جاتا (“جیسے وہ بیٹھے بیٹھے اپنی آنکھوں سے مفرور ہو جاتی،ایسے ہی گلے سے بھی۔ “) اور کرشن چندر، قرۃ العین حیدر کی طرح “شاعرانہ ” زبان لکھنے والوں کی تو جان ہی نکل جاتی، کہ ایک جملے میں پوری کائنات بھلا کس طرح بھر دیتے ہیں !لیکن افسوس، صد افسوس،اسی سونفیا کا قصہ لکھتے ہوئے بیدی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں :
۔۔۔لیکن کسی بھی لڑکی سے، خاص طور پر جب کہ وہ جوان ہو،یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ یوں دھڑسے باہر چلی آئے گی۔ پہلے وہ اپنا آپ ٹھیک ٹھاک کرتی ہے،گڑیا کی آنکھ سے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتی ہوئی وہ اس پر کے ایک ہی مہاسے کو پاؤڈر سے کوستی ہے اور پھرپاس پڑی کالی پنسل کو اٹھا کرٹھوڑی کے بائیں طرف،دیکھنے والے کی آنکھ کی پتلی کے برابر،ایک تل سا بناتی، اپنے قاعدے سے پٹے ہوئے بالوں میں سے چند ایک کو سرکش کرتی،آخری بار آئینے میں دیکھتی ہے کہ اس کے بدن، اس کے لبا س میں رات کا تو کچھ نہیں ؟وہ یہ سب کرتی ہے،چاہے اسے اپنے ملاقاتی سے اس ناخن برابر بھی دلچسپی نہ ہو جسے وہ ابھی ابھی مینیکیور یا پالش کرتی آئی ہے ۔
ذرا دیکھیے اور وجد کیجیے ۔ کیا تحریر ہے، کیا سحر طرازی ہے ۔ منھ سے بے ساختہ “واہ” نکلتی ہے، لیکن ساتھ ہی دل سے “آہ ” بھی نکلتی ہے ۔ تو یہ ہے عورت کے بارے میں افسانہ نگار کا تصور، خواوہ وہ عورت سونفیا جیسی مضبوط قوت ارادی اور برف جیسے سرد مزاج کی لڑکی کیوں نہ ہو؟بننے ٹھننے کے حق میں اس کی قوت ارادی اتنی ہی کمزور ہے جتنی کسی بھی عورت کی جو دنیا کو اپنی صورت شکل سے متاثر کرنا چاہتی ہو۔
اب سونفیا کے بارے میں ایک اور بیان د یکھو۔ اس سے ہر اس بات کی تصدیق ہوتی ہے جو میں نے ابھی کہی ہے ۔ بیدی صاحب ہمیں بتاتے ہیں :
سونفیا تو جیسے مندر سے نکلتی ہی نہ تھی،مقامیت کو لوٹتی ہی نہ تھی۔۔۔اور وہ کسی کی پکڑمیں نہ آتی تھی۔ وہ انیک سے ایک ہوتی تو بات بنتی۔ وہ اپنے بدن کو صحت سے بھرتی جا رہی تھی جو کہ اب قارون کا خزانہ ہو چکی تھی۔ وہ اس سیدھی سادی حقیقت کو نہ جانتی تھی کہ عورت نام ہے خرچ ہونے کا،گھٹنے اور بڑھنے کا۔ مناسب وقت کے بعد خاک اور خون میں لت پت ہونے کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ وہ عورت نہیں رہتی،لیو نارڈو کا شہکا ر ہو کر رہ جاتی ہے ۔
۔۔۔جانے اکائی عورت کو کیوں ہمیشہ پریشان کرتی ہے ۔ شاید اس لیے کہ وہ دوئی کی نمائندہ ہے اور اسے بالکل برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ ہندسوں میں دو، تین، چار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے زیادہ کی دلیل ہے،اس کے لیے جب کہیں کوئی رشتے کی بات چلتی ہے تو اس کا استمرار دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور وہ فوراً حرکت میں آ جاتی ہے ۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمع اور ضرب کی قائل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر یہ حساب کی باتیں ہیں ۔
کیا مجھے اب بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے ؟ ہاں، ہے ۔ ہمیں بتا یا گیا تھا کہ افسانہ اور فکشن نگاروں میں موپاساں اور اس کے استاد معنوی فلوبیئر (Gustave Flaubert)جیسا عورت سے نفرت کرنے والا یعنی زن بیزار (Misogynist)کوئی نہ ہوا۔ موپاساں کے افسانے کا خلاصہ میں نے تمھیں سنایا تھاکہ اس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کی زن بیزاری کی مکمل مثال ہے ۔ لیکن یہ فرانسیسی لوگ اگر بیدی صاحب کے زمانے میں ہوتے تو ان کے پاؤں پکڑکر کہتے، جاے استاد خالیست۔ ہاں مجھے اور بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے ۔ وہی سونفیا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ”مطمئن بالذات ” ہے ۔ وہ ٹھنڈی تھی،برف کا تودہ تھی۔ نہیں،پتھر میں بھی تیل ہوتا ہے ۔ “شاید کسی بو،کسی لمس نے اس کے اندر کی آگ کو نہیں بھڑکایا تھا۔ “در اصل وہ جتنی ہی برف کا تودہ دکھائی دیتی تھی، اتنی ہی آگ ہے ۔ سبحان اللہ، فیض صاحب
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
لیکن یہاں معاملہ پگھل جانے سے بہت آگے کا تھا۔ بچاری سونفیا تو انتظار کر رہی تھی۔ یہاں تو فیض صاحب کے ایک لاجواب مصرعے کا مزید سہارا لیتے ہوئیع
کیسے گلچیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخ گلاب
کی صورت متشکل ہو رہی تھی۔ اسے کوئی رام کرنے والا اب تک نہ ملا تھا،ورنہ وہ تو نرم گرم روئی کا گالا تھی ۔ ذرا سی آگ دکھاؤ تو تماشا نکلے۔ پیار سے بولو تو کتا بھی پیار کرنے لگتا ہے ۔ اور سونفیا۔۔۔سونفیا تو شایدگرمی سے بولائی ہوئی کتیا تھی:
‘پھر،’ مکندی نے کہا،ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سونفیا کے رام ہو جانے کی کوئی لمبی چوڑی وجہ بیان کرنے جا رہا ہے لیکن جبھی سامنے، برآمدے کی طرف اس[سونفیا] کا ڈاشنڈ، رکی، کوئی اجنبی بو پاتا، بھونکتا ہوا چلا آیا۔
‘رکی۔۔۔رکی۔۔۔’مکندی نے پکارا،لیکن وہ گری کے پاس پہنچ کر اسے سونگھ چکا تھا۔ پھرمکندی کے پاس آتے ہوئے اس نے اسے سونگھا،سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور دم ہلا ہلا کروہ اس کے ہاتھ اور پاؤں چاٹنے لگا۔ مکندی نے مسکراتے ہوئے گری لال کی طرف دیکھا اور پھر رکی کو اٹھا کراس کے بدن پر ہاتھ پھیرنے،اس سے پیار کرنے لگا۔
ایک منٹ کے لیے “ہتک” کی سو گندھی کو یا د کر لو۔ وہ اپنے ریا کارمعمولہ عاشق اور در اصل ایک نہایت ناکارہ گاہک مادھو کو اب تک سہارتی رہی تھی،لیکن سیٹھ نے جب اسے مسترد کر دیا تو سوگندھی اس کا بدلہ یوں لیتی ہے کہ مادھو کودتکار دیتی ہے ، اس کی ٹھکائی کرتی ہے اوراس کے دم دبا کر بھاگ نکلنے کے بعد اپنے خارش زدہ کتے کو پہلو میں لٹا کر سو جاتی ہے ۔ اب سونفیا کی طرف نظر کرو۔
ایک بات اور بتاتا چلوں :یہ افسانہ “سونفیا” سب سے پہلے “شب خون” میں شائع ہوا تھا۔ بالکل شروع کا کوئی شمارہ تھا۔ میں تم سے حلفیہ کہتا ہوں کہ چھاپنے سے پہلے میں اسے پڑھ کر دنگ ہو گیا تھا اور دیر تک اس ادھیڑبن میں رہا تھا کہ کیا اس افسانے میں اور کچھ معنی ہیں، یا یہ عورت ذات کے خلاف بیدی صاحب کے دل کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے، جو زہر بن کر ان کے قلم سے ٹپک رہی ہے ؟ظاہر ہے کہ افسانہ واپس کرنے کا خیال تو بہت دور رہا، مجھ جیسے حقیر مدیرکو یہ بھی جرأت نہ تھی کہ بیدی صاحب سے پوچھ دیتا کہ جناب آپ اس افسانے میں کیا کہنا چاہتے ہیں ؟افسانہ میں نے چھاپ دیا،لیکن مجھے یاد نہیں کہ اس پر کوئی توصیفی یا تعریضی رد عمل آیا ہو۔
یقین ہے کہ تم اب ہاتھ مل رہے ہو گے کہ کیا احمقانہ ساعت تھی جب میں نے فاروقی صاحب کو ڈیڑھ صفحے کے ہفوات لکھ بھیجے اور کہا کہ جواب میں “کچھ” لکھ دیجئے تو میرے منٹو نمبر کی رونق بڑھ جائے ۔ لیکن تمھارے استفسار نامے نے تو مجھ پر سرود بہ مستاں یاد دہانیدن والا کام کر دیا۔ تم نے اپنے ناخن تدبیر سے میری زبان کی گرہ کھول دی۔ تو لو اب اورسنو۔
میں نے “میتھن” کی کیرتی کا ذکر کیا ہے کہ اس کے کردارمیں بھی کچھ قوت فیصلہ کے جوہر نظر آتے ہیں ۔ اپنے ماہر،ہنر مند باپ کی طرح وہ بھی لکڑی کے مجسمے بناتی ہے لیکن اسے ان کی مناسب قیمت نہیں ملتی، کیوں کہ وہ مجسمے دیوی دیوتاؤں کے ہیں اور بازار میں ان چیزوں کی مانگ نہیں ۔ (مانگ تو ہے، لیکن جدید مجسموں کی نہیں ۔ کیرتی کا بیوپاری انھیں مصنوعی طریقے سے “عمر رسیدہ ” بنا کر ہزاروں وصول کر لیتا ہے لیکن کیرتی کو دس پانچ پرٹرخایا کرتا ہے ۔ )ہندوستانی فلموں کی عام رسم کے مطابق کیرتی کو رقم کی ضرورت اپنے لیے نہیں،ماں کے علاج کے لیے درکار ہے ۔ باپ پہلے ہی مرچکا ہے، وغیرہ۔ وہ اپنے بیوپاری کے تقاضوں سے تنگ آ گئی ہے، کہ کوئی نیوڈ (Nude) یا عریاں قسم کی مورتی بنا کر لاؤ تو مال اچھے داموں اٹھے گا۔ خوداس کوچے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے کیرتی ایسی مورتیاں بنانے سے قاصر ہے ۔ ماں کے مرض الموت کے آخری لمحوں سے مجبور ہو کر وہ ایک شخص کے ساتھ ہم بستری کا تجربہ کرتی ہے تا کہ براہ راست علم کی روشنی میں وہ میتھن کا مجسمہ بناسکے ۔ مجسمہ نہایت شاندار ہے، اسے دام بھی اچھے ملتے ہیں،لیکن اس اثنا میں وہ اپنی ماں کو کھو چکی ہے اور اس کا راز بھی کھل جاتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہم بستر ہوئی تھی۔ جب اس کا بیوپاری میتھن کے مجسمے میں مرد کو پہچان کر کہتا ہے کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے ۔ اور پھر:
“تم۔ ۔ ۔ ۔ “مگن نے جیسے پتہ پاتے ہو ئے کہا،”تم سراج کے ساتھ باہر گئی تھیں ؟۔ ۔ ۔ “
کیرتی نے آگے بڑھ کر زور سے ایک تھپڑمگن ٹکلے کے منھ پر لگا دیا اور نوٹ ہاتھ میں تھامے دوکان سے باہر نکل گئی۔
افسانے میں کئی جھول ہیں، تقریباً اتنے ہی جتنے “ٹھنڈا گوشت” یا “کھول دو” میں ہیں ۔ لیکن ان سے تعرض نہ کر کے میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیرتی نے جن حالات میں میتھن کو گوارا کیا تھا، کیا ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اس نے اس نئے تجربے،اوربڑی حد تک گھناؤنے تجربے سے لطف بھی اٹھایا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ ہم میں سے اکثر کا جواب نفی میں ہو گا۔ لیکن بیدی صاحب شاید انگریزی کے اس مقولے میں یقین رکھتے ہیں جو عورتوں کے حق میں انتہائی شرمناک، سنگ دل اور بے حس تصورات کا مظہر ہے :
If you cannot avoid being raped, lie back and enjoy it۔
بیدی صاحب نے میتھن کا حال یوں بیان کیا ہے :
شلپ میں کی عورت تکمیل (Orgasm)کو پہنچ رہی تھی،جب کہ مرد خود رفتگی کے عالم میں اسے دونوں کاندھوں سے پکڑے ہوئے تھا۔
یعنی کیرتی بھی lie back and enjoy itاسکول کی پڑھ ہوئی تھی۔ عام حالات میں تو اس کا چہرہ بے حس اور تاثر سے عاری ہونا چاہیے تھا(اگر میتھن کسی باعث اس کے لیے جسمانی طور پر تکلیف دہ نہ بھی رہا ہو)،لیکن یہاں تو کیرتی مزے لے رہی ہے ! بقول بیدی صاحب، وہ Orgasm کے قریب ہے ۔ بچاری کیرتی،بیدی صاحب نے اس کی آبرو بھی لے لی اور اسے پرلے درجے کی حرافہ بھی بنا دیا۔ ماں کی موت کو شایدایک ہی دو دن ہوئے ہیں،یا شاید ماں کی موت اس واقعے کے فوراً بعد ہوئی ہے، اور کیرتی بیگم لطف لے رہی ہیں اور لطف دے رہی ہیں !کیوں کہ بیدی صاحب کی کتاب میں عورت کو اکائی گوارا نہیں ۔ اس کاکام یہ ہے، اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے، اس کا دھرم یہ ہے کہ وہ ایک سے دو ہو، پھر تین۔۔۔ چار۔۔۔پانچ۔۔۔لیکن یہ حساب کی باتیں ہیں :
[عورت]دوئی کی نمائندہ ہے اور اسے [اکائی کو] بالکل برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ ہندسوں میں دو، تین، چار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے زیادہ کی دلیل ہے،اس کے لیے جب کہیں کوئی رشتے کی بات چلتی ہے تو اس کا استمرار دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور وہ فوراً حرکت میں آ جاتی ہے ۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمع اور ضرب کی قائل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر یہ حساب کی باتیں ہیں ۔
گستاخی معاف، چند الفاظ کے استعمال کی حد تک تو منٹو صاحب شاید فحش ہوں،لیکن خیالات کی حد تک بیدی صاحب سے زیادہ فحش کوئی نہیں ۔ لیکن افسوس کہ بیدی صاحب بڑے، بہت بڑے افسانہ نگار بھی ہیں ۔ اس تضاد کو حل کرنا کچھ مشکل نہیں، لیکن ہم لوگ تضاد کو پہچاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے، اسے حل کیا کریں گے ۔ میں نے تمھارے لیے کچھ اشارے اوپر درج کر دیے ہیں ۔ ایک بار پھر سن لو:
فکشن ایسی صنف سخن ہے جس میں ہر قدم پر پوچھنا پڑتا ہے کہ زندگی کے بارے میں، ان واقعات کے بارے میں، جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں، مصنف ہمیں کیا بتانا چاہتا ہے ؟
ہم منٹو صاحب کی قدر اس لیے کرتے ہیں، ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے یہاں انسان، محض انسان ہے ۔ ان کے یہاں عورت محض عورت ہے :آبرو باختہ قحبہ، جنسی لذت کے پیچھے دیوانی پھرنے والی خیلا چھتیسی، مردوں کو لبھانے کے لیے جان توڑمحنت کرنے والی،اور مردسے ایک بار پھنس جائے تو پھر تا حیات اس کی نوکرانی، اس کی رنڈی، اس کے بچوں کی ماں، وغیرہ وغیرہ نہیں ہے ۔ منٹو صاحب کی دنیا میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں،یعنی دونوں انسان ہیں ۔ دونوں فاعل (Subject)ہیں، جس حد تک انسان اس دنیا میں فاعلیت رکھ سکتا ہے ۔ اقبال کو یاد رکھو
تری دنیا جہان مرغ و ماہی
مری دنیا فغان صبحگاہی
تری دنیا میں میں مجبور و محکوم
مری دنیا میں تیری پادشاہی
کچھ دن ہوئے ایک امریکی صاحب بہادر نے فرمایا کہ اگر زنا بالجبر کے نتیجے میں عورت حاملہ ہو جائے اور وہ حمل کو منقطع کرانا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہ ہونی چاہیے، کیونکہ”اگر خدا کی مرضی نہ ہوتی تو وہ حاملہ نہ ہوتی۔ اور اب اس حمل کاسقوط،مرضی الٰہی کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ ” بیدی صاحب شاید اتنا مزید کہہ دیتے کہ کیرتی کو تو Orgasmبھی ہو گیا تھا۔ اب اگر وہ حاملہ ہو جائے تو کیا غلط ہو گا؟اسے اپنی کرنی کا پھل ملنا ہی چاہیے تھا۔
“میتھن” کے بارے میں بیدی کا قول وارث علوی نے نقل کیا ہے کہ “بہت ہی عمدہ ہے، ہیئت کے اعتبار سے،لیکن اندر کی کوئی بات رہ گئی۔ اور اب بھی جب میں اس افسانے کو پڑھتا ہوں،جستجو کرنے اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ یار کیا بات تھی جو بیچ میں رہ گئی توخود ہی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا۔ “وارث علوی صاحب فکشن کے بہت بڑے مزاج شناس ہیں اور بیدی کے بہت بڑے چاہنے والے بھی۔ انھیں تو اس نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے تھا کہ “میتھن”میں کوئی بات رہ نہیں گئی۔ وہاں کمی نہیں، زیادتی ہے، ہندوستانی فلموں کی طرز کے پلاٹ کی اور کیرتی کے (Orgasm) کی۔ مکمل افسانہ دیکھنا ہو تو “لاروے ” دیکھیے، “جو گیا ” دیکھیے ۔ لیکن کرشن چندر کو “لاروے ” میں کچھ دکھائی نہ دیا تھا،اور وارث علوی اور ان کے “احباب” کو بھی وہ افسانہ شروع شروع میں اچھا نہیں لگا تھا،لیکن اب انھیں “واقعی اچھا ا فسانہ “معلوم ہوتا ہے ۔ اس مربیانہ انداز کی کوئی کیا دا ددے ؟ پوپ صاحب(Alexander Pope) کا فقرہ Damning with faint praise ہی اس کی داد دے سکتا ہے ۔
“لاروے ” کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بیدی صاحب کا اصل مسئلہ عورت، یا عورت کی تقدیر، یا اس کا دھرم نہیں تھا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ پوری کائنات تھی جو انھیں بیمار نظر آتی تھی۔ “لاروے “کے چھوٹے سے گڑھے میں کیڑے مکوڑے اور جراثیم اور مچھر اسی وقت تک پنپ سکتے ہیں جب گڑھے کے پانی میں ہر طرح کی گندگی، ہر طرح کا تعفن، ہر طرح کی غلاظت ہو:
میں جانتا تھا کہ آسمان سے تازہ پانی پڑتے ہی یہ کیڑے ہلاک ہو جائیں گے اور جب تک یہ پانی کثافت سے پھر آلودہ اور باسی نہ ہو گا،مزید لاروے وجود میں نہیں آئیں گے ۔
افسانے کے بیان کنندہ کی دائم المرض بیوی کو “پہاڑکا تندرست پانی راس نہ آیا۔ اسے کل ہل ڈائریا و پیچش کی شکایت ہوئی اور آج اچانک صبح کے سات بجے وہ مر گئی۔ “بیان کنندہ یہ خبر پڑھ کر کہتا ہے ۔ : “اے خدا،تو اپنی بارش کو تھام لے ۔ “
یہ تصور کائنات نہیں، بلکہ بھیانک خواب ہے ،ایسا خواب جو مجھے سچا بھی معلوم ہوتا ہے ۔ میں سوچ سوچ کر لرزجاتا ہوں کہ بیدی صاحب اس خواب کے ساتھ کیسے جیے ہوں گے ۔ ایساشخص اگر “لاجونتی” اور “ہڈیاں اور پھول” جیسے افسانے لکھے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ یہ بیدی کا المیہ نہیں، یہ انسان کا المیہ ہے ۔
مجھے نہیں معلوم کہ منٹو صاحب کے تصور کائنات کو چند لفظوں میں، یا کسی ایک افسانے کے حوالے سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ نہیں،لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہزار مجبوری کے بعد منٹو صاحب کے عورت مرد کہیں نہ کہیں ٹھہر کر مد مقابل کی آنکھ سے آنکھ ملا سکتے ہیں
بارے کل ٹھہر گئے ظالم خونخوار سے ہم
منصفی کیجے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا
اقبال کا کہنا تھا کہ ادب وہی اچھا جو “زندگی کی قوتوں ‘ ‘Forces of Lifeکی تصدیق اور توثیق کرے ۔ یہ تصور کائنات شاید رومانی کہا جا سکتا ہو۔ میں بہر حال اس کا بہت زیادہ قائل نہیں ہوں ۔ لیکن بیدی صاحب کے یہاں زندگی کی قوتوں کی تصدیق نہیں، بلکہ موت کی تصدیق نظر آتی ہے اور میرا خیال ہے کہ عورت کے بارے میں ان کے خیالات (جیسے کہ وہ ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں، اور کچھ کو ہم نے ابھی “سونفیا” اور “میتھن” کے حوالے سے دیکھا بھی ہے )اسی وجہ سے اس قدر منفی ہیں کہ زندگی ہی کے بارے میں ان کے خیالات منفی ہیں ۔ (واضح رہے کہ میں لفظ “منفی” کو کسی اقداری معنی میں نہیں استعمال کر رہا ہوں ۔ )
منٹو کے یہاں بھی ہم موت کی کار فرمائی دیکھتے ہیں ۔ لیکن ان کے یہاں مقاومت، اور مد مقابل سے آنکھ ملانے کی جرأت بھی نظر آتی ہے ۔ منٹو کے یہاں کامیو(Albert Camus)کے تین کڑیوں والے زنجیرے کی ایک کڑی نہیں ہے ۔ کامیو کا زنجیرہ تھا:
Resistance, Rebellion, and Death
منٹو کے یہاں مقاومت (Resistance)اور موت(Death)تو ہیں، بغاوت (Rebellion)نہیں ہے ۔ میر اخیال ہے وہ اتنے بڑے فن کار اس لیے بھی ہیں کہ وہ انسانی حدود کو خوب سمجھتے ہیں ۔ “بو”، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنس بطورقوت حیات کا بیانیہ ہے، دراصل اس کا بھی انجام موت ہی ہے ۔ شہر کی نرم و نازک، دھان پان، ستھری معطر لڑکی جو رندھیر کی دلہن ہے، رندھیر اسے مردہ ہی سمجھتا ہے ۔ یا،کم سے کم یہ تو ہے کہ اگر گھاٹن لڑکی کاوجود زندگی خیز اور زندگی افروز تھا تو اس کی بیوی کا وجود موت کا اٹل پیغام ہے :
رندھیر نے آخری کوشش کرتے ہوئے اس لڑکی کے دودھیا جسم پر ہاتھ پھیرا مگر اسے کوئی کپکپاہٹ نہ محسوس ہوئی۔ اس کی نئی نویلی بیوی جو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی بیٹی تھی،جس نے بی۔ اے ۔ تک تعلیم پائی تھی اور جو اپنے کالج میں سینکڑوں لڑکوں کے دل کی دھڑکن تھی،رندھیر کی نبض نہ تیز کر سکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ حنا کی مرتی ہوئی خوشبو میں اس بو کی جستجو کرتا رہا جو برسات کے انھیں دنوں میں جب کھڑکی کے باہرپیپل کے پتے بارش میں نہا رہے تھے، اسے گھاٹن کے میلے جسم سے آئی تھی۔
رندھیر کی گھاٹن اسی مقاومت کی علامت ہے جو “ٹھنڈا گوشت” کی کلونت کور کے یہاں، اور “وہ لڑکی” کی بے نام قاتلہ نظر آتی ہے ۔ آخری تجزیے میں دونوں بے اثر ہیں، لیکن وہ انسان کی وقعت میں کچھ اضافے کا سبب بھی ہیں ۔
“سڑک کے کنارے ” میں مجھے اقبال کا پڑھایا ہوا سبق نظر آتا ہے کہ ادب کو “زندگی کی قوتوں ” کی تائید کرنی چاہیے ۔ یہ رومانیت ہے، اور”سڑک کے کنارے ” کی حد تک راحت انگیز تو ہے،لیکن بالکل فراڈ بھی ہے ۔ نثر کی سطح پر بہت عمدہ افسانہ ہونے کے باوجود “سڑک کے کنارے ” میں مجھے ایک طرح کی بے ایمانی نظر آتی ہے ۔ وضع حمل کے فوراً بعد”نا جائز”اور نہایت خوبصورت بچی کو اس کی ماں ٹھنڈے بھیگے کپڑے میں لپیٹ کر سڑک کے کنارے پھینک آتی ہے ۔ لیکن بچی مرتی نہیں ۔ پولیس والے اسے اٹھا لے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کی ماں، ماں بنتے ہی قاتلہ کا روپ اختیار کر لیتی ہے ۔ نو زائیدہ بچی ایک طرح کی مقاومت کا عمل کر رہی ہے، کہ وہ مرتی نہیں ۔ لیکن یہ مقاومت توہتھیارڈالنے سے بدتر ہے،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ معصوم بچی کا حشر کیا ہو گا۔ منٹو کی مشکل یہ تھی کہ اگر وہ افسانے کا انجام ایسا بناتے جس میں لڑکی جاں بحق ہو جاتی، تو افسانہ نہایت پست درجے کا “درد ناک، جذباتی” اور “بے مصرف”افسانہ بن جاتا۔ لہٰذا نو زائیدہ کو مرنے سے بچاکر انھوں نے “درد ناکی” اور” جذباتیت” سے گریز کیا اور’ ‘زندگی کی قوت” کی تصدیق بھی کر دی۔ آگے اس بے ماں باپ کی، نیلی آنکھوں والی بے حد حسین بچی پر کیا گذرے گی، اس سے انھیں بظاہر کوئی مطلب نہیں ۔ وہ تو اصغر گونڈوی کے تقریباً امتلا انگیز شعر کی شرح بیان کر کے سمجھتے ہیں کہ میں نے منصب افسانہ نگاری پورا کر دیا
کائنات دہر کیا روح الامیں بیہوش تھے
زندگی جب مسکرائی ہے قضا کے سامنے
منٹو صاحب شاید جواب میں یہ کہتے کہ میں اصغر گونڈوی کو کیا جانوں، میں تو اقبال کی ترجمانی کر رہا تھا
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
۔۔۔
الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے
تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے
ہوا جب اسے سامنا موت کا
ٹھن تھا بڑا سامنا موت کا
اتر کر جہان مکافات میں
رہی زندگی موت کی گھات میں
مذاق دوئی سے بنی زوج زوج
اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج
لیکن افسوس، کہ شاعری فراڈ ہو کر بھی عظیم شاعری ہو سکتی ہے، لیکن یہ بے حساب فضل الٰہی،یا Abounding Grace(جو بقول جان بنین(John Bunyan) بدترین گناہگاروں کو بھی نصیب ہو جاتا ہے )،افسانے کے نصیب میں نہیں ۔ بقول کامیو، افسانے کو ہمیشہ سچ بولنا پڑتا ہے ۔
مجھے “کھول دو” سے شکایت ایک اور وجہ سے بھی ہے : کلونت کور تواپنے ایشر سیاں کے گلے پر کرپان پھیر کراسے تقریباً مار ڈالتی ہے، لیکن سکینہ کو مقاومت کی ایک سانس بھی نہیں ملتی۔ مجھے منٹو صاحب سے ایسی توقع نہ تھی۔
گفتار چاردہم
تم نے ‘فرشتہ ” کے بارے میں بھی وہی ہانک لگائی، “میلوڈراما ہے صاحب، میلو ڈراما ہے ۔ ” میں تمھیں میلوڈراما اور سنسنی خیزی کا فرق سمجھا چکا ہوں ۔ جیسا کہ تم نے پڑھ ہی لیا ہو گا،میلو ڈراما ہو یا سنسنی خیزی، میں دونوں ہی کو کچھ قابل قدرنہیں سمجھتا۔ لیکن “فرشتہ” تو ایک طرح کا تجریدی افسانہ ہے ۔ اس میں جادوئی حقیقت نگاری(Magic Realism) کی جھلک تمھیں شاید نظر نہیں آئی۔ ذرا “فرشتہ” کا آغاز پھر پڑھو:
سرخ کھردرے کمبل میں عطا ء اللہ نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں ۔ کہرے کی دبیز چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں جن کے صحیح خد وخال نظر نہیں آتے تھے ۔ ایک لمبا،بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا، یا شاید کمرہ تھا جس میں دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ گیلی ہو رہی تھی۔
دور، بہت دور،جہاں شاید یہ کمرہ یا دالان ختم ہو سکتا تھا،ایک بہت بڑا بت تھا جس کادراز قد چھت کوپھاڑتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔ عطا ء اللہ کوصرف اس کا نچلا حصہ نظرآ رہا تھا جو بہت پر ہیبت تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ موت کا دیوتا ہے جو اپنی ہولناک شکل دکھانے سے قصداً گریز کر رہا ہے ۔
عطا ء اللہ نے ہونٹ گول کر کے اور زبان پیچھے کر کے اس پر ہیبت بت کی طرف دیکھا اور سیٹی بجائی، بالکل اس طرح جس طرح کتے کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی جاتی ہے ۔ سیٹی کا بجنا تھا کہ اس کمرے میں، یا دالان کی دھندلی فضامیں ان گنت دمیں لہرانے لگیں ۔ لہراتے لہراتے یہ سب ایک بہت بڑے شیشے کے مرتبان میں جمع ہو گئیں جو غالباً اسپرٹ سے بھرا ہو ا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مرتبان فضا میں بغیر کسی سہارے کے تیرتا،ڈولتا اس کی آ نکھوں کے پاس پہنچ گیا۔ اب وہ ایک چھوٹا سا مرتبان تھا جس میں اسپرٹ کے اندر اس کا دل ڈبکیاں لگا رہا تھا اور دھڑکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
میں نے اتنا طویل اقتباس اس لیے نقل کیا ہے کہ تمھیں اس افسانے کی زبان کے آہنگ اور فضا کا احساس ہو جائے ۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ اس کی زبان میں ایک شدت ہے،ایک موسیقیاتی تناؤ ہے جو سنسنی خیزی اور میلوڈراما کی نفی کرتا ہے ۔ تم یہ بھی دیکھ سکتے ہو کہ عطا ء اللہ کے سامنے موت کا فرشتہ یا موت کا بت نہیں، زندگی کی قوت ہے جس کی علامت عطا ء اللہ کا دل ہے ۔ اسپرٹ سے بھرے ہوئے ایک چھوٹے سے مرتبان میں بند،وہ دل خود ہی بہت چھوٹا ہے،لیکن وہ زندہ رہنے کے لیے ڈبکیا ں لگا رہا ہے، اسپرٹ میں ڈوب نہیں رہا ہے ۔ پھر پورا افسانہ اسی کشمکش کو نئے نئے پیرایوں میں بیان کرتا ہے ۔ لیکن یہ پیرائے مانوس بھی ہیں ۔ بھوک اور بیماری سے مرتے ہوئے بچے ؛ انھیں ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتا ہوا ان کا باپ عطا ء اللہ (اس کے نام پر بھی غور کرو)؛انھیں کھانا اور دوامہیا کرنے کے لیے اپنا جسم بیچنے پر تیار ان کی ماں ؛یہ سب روز مرہ کی زندگی سے اٹھائے ہوئے پیکر ہیں ۔ ان میں ڈاکٹر بھی ہے جو زندگی کا بیوپاری ہے اوروہ موت کا بھی فرشتہ ہے ۔ یہ سب کچھ خواب، یا واہمہ بھی ہو سکتا ہے لیکن عطا ء اللہ کی لاش،جسے ہم افسانے کے اختتام پر دیکھتے ہیں، وہ خواب یا واہمہ نہیں، حقیقت ہے ۔ عطا ء اللہ اور اس کی بیوی کی تمام مقاومت یہاں ختم ہو جاتی ہے ۔ کوئی چیز موت بھی ہے، کوئی قوت ایسی بھی ہے جسے ہم موت کا فرشتہ کہہ سکیں ۔ زینب اور عطا ء اللہ دونوں اپنے اپنے طور پر اسے مارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اس افسانے کی علامتی فضا اور اس کی زبان کا گٹھاؤ، نثری نظم کا سا انداز۔۔۔کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ انور سجاد کا جد اعلیٰ تمھارے سامنے موجود ہے ؟کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ خالدہ حسین(اصغر) اور احمد ہمیش سے لے کر شرون کمار ورما، قمر احسن، انور خان،حسین الحق، سلام بن رزاق، ا کرام باگ، عوض سعید،پھر(شروع کے زمانے کے )منشا یاد اور رشید امجد، اور آج کے محمد حمید شاہدنے نثر لکھنا کس سے سیکھا؟حتیٰ کہ ضمیر الدین احمد (“گلبیا”) بھی منٹو کے سحر سے نہ بچ سکے ۔
یہ مت گمان کرنا کہ منٹو کے افسانوں میں “فرشتہ “اپنی طرح کا اکیلا افسانہ ہے ۔ سنگ میل کے “منٹو نامہ” میں پہلا مجموعہ “پھندنے ” ہے۔ اس کا پہلا افسانہ “ٹوبہ ٹیک سنگھ” ہے ۔ پھر دوسرا افسانہ”فرشتہ” اور تیسرا افسانہ”پھندنے ” ہے ۔ ہمایوں اشرف کی اطلاع کے مطابق یہ مجموعہ پہلی بار1954میں شائع ہوا تھا۔ ایک مجموعہ “برقعے ” منٹو کے انتقال کے بعد لیکن 1955میں منظر عام پرآیا۔ افسانہ “باردہ شمالی” اس میں شامل تھا۔ لہٰذا ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ تینوں افسانے منٹوکے آخری دنوں کے افسانے ہیں ۔ اور شاید “فرشتہ”؛ “پھندنے ” اور “باردہ شمالی” میں تکنیک اور فنی اظہار کے لحاظ سے کچھ ربط بھی ہے ۔ ان افسانوں کو کسی نہ کسی معنی میں “تجریدی” یا “علامتی”، یا “نیا”کہہ سکتے ہیں،اور “نیا افسانہ” سے مراد ہو گی انور سجاد وغیرہ کا و ہ افسانہ جسے پریم چند کے افسانے (یعنی وہ افسانہ جس میں بیانیہ کو پلاٹ اور کردار کا پورا خیال رکھتے ہوئے قائم کیا جاتا ہے )سے مکمل انحراف کی سعی، اور بڑی حد تک سعی مشکور، کہا جا ئے تو غلط نہ ہو گا۔
میرا خیال ہے کہ آخری دنوں میں منٹو کا ذہن اس طرح کے افسانے کی طرف مائل ہورہا تھا جسے میں نے “تجریدی، یا علامتی” افسانہ کہا ہے ۔ کوئی ضروری نہیں کہ اس طرح کے افسانوں کی طرف ان کی توجہ ہمیشہ قائم رہتی۔ لیکن یہ دو تین افسانے انھوں نے لکھے ضرور ۔ اوروہ اس قدر باشعور افسانہ نگار تھے کہ وہ اس قسم کی کوشش فضول ہی، یا محض منھ کا مزا بدلنے کے لیے نہیں کر سکتے تھے ۔ ویسے ایک بات یہ بھی ہے کہ کوئی شخص منھ کا مزا بدلنے کے لیے کوئی کام کرتا ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی وجہ رہی ہو گی۔ مثلاً ایسا کیوں نہیں ہوا کہ انورسجاد نے منھ کا مزا بدلنے کے لیے پریم چند کی طرح کا افسانہ لکھ دیا ہو؟ یعنی کسی بھی کام کو کرنے کے لیے کوئی وجہ درکار ہوتی ہے ،خاص کر جب اس کا تعلق کسی تخلیقی کا روائی سے ہو۔ لہٰذا یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ منٹو نے تجریدی انداز کے افسانے منھ کا مزا بدلنے کے لیے بھی لکھے تو منھ کا مزا بدلنے کے لیے اس طرح کے افسانے لکھنے کا فیصلہ کرنا بہرحال ان کے تخلیقی مزاج کا فیصلہ کہا جائے گا۔
“باردہ شمالی” پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے، بلکہ شاید بالکل نہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ سہ ماہی “دانشور”، لا ہور کی مدیر عفت انیس نے اپنے ایک مضمون میں “فرشتہ”؛ “باردہ شمالی” اور “پھندنے “کو ایک سلسلے کے افسانے کہا ہے،یعنی یہ افسانے “فن اور اسلوب کے اعتبار سے اردو افسانے میں ایک نئے تخلیقی شعور کو متعارف کرتے ہیں ۔۔۔یہ کم و بیش وہی اسلوب ہے جو آج کل نئے افسانہ نگار بڑے تواتر سے استعمال کر رہے ہیں ۔ “وہ مزید کہتی ہیں کہ “باردہ شمالی”میں، اور اس سے بھی زیادہ “پھندنے ” میں منٹو نے اینٹی اسٹوری کی تکنیک استعما ل کی ہے :
“باردہ شمالی”موضوعاتی اعتبار سے دوسرے دو افسانوں [“فرشتہ” اور “پھندنے ” ] سے ہلکا ہے ۔ اس میں دو عورتوں اور ان کے دو عاشقوں کے درمیان جنسی عمل کا بیان ہے ۔ دو عورتیں دو گوگلز (Goggles)ہیں اور ان کے دو عاشق دوبش شرٹیں ہیں جو اپنے عاشق تبدیل تبدیل کر لیتی ہیں،کہ انھیں اپنی سیاہ گوگلز سے اصل حقیقت نظر نہیں آئی تھی۔
عفت انیس کے خیال میں “باردہ شمالی” میں کوئی معنوی گہرائی نہیں ہے ۔ لیکن معنوی گہرائی تو اضافی اصطلاح ہے،اس کی کوئی مطلق حیثیت نہیں متعین ہو سکتی ۔ میرا خیا ل ہے کہ “زن بدلی”(Wife swapping)کے موضوع پر یہ بہترین افسانہ ہے اور عنوان کے ذریعہ منٹو نے مغربی تہذیب پر طنز کیا ہے جہاں یہ علت ایک زمانے میں بہت مقبول تھی۔ نثر کے اعتبار سے “باردہ شمالی” بہترین افسانہ ہے کہ اس میں نثری نظم کی سی شدت ہے اور اس لیے بھی کہ اس کا بظاہر بے تعلق اور غیر شخصی اسلوب مغربی تہذیب کے خلاف افسانہ نگار کے طنزیہ اور تحقیربھرے رویے کو بڑی عمدگی سے ظاہر کرتا ہے ۔
عفت انیس نے ” پھندنے “کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک دہلا دینے والا ہے،لیکن وہ اسے “مریضانہ” (Morbid)بھی کہتی ہیں ۔ “روح کی بے پایاں تنہائی ایک عورت سے اس کا تعقل اور ہوش چھین لیتی ہیں ۔ وہ اپنی تنہائی اورمعاشرتی اور انسانی علیحدگی سے تنگ آ کر سراپا وحشت بن جاتی ہے ۔ “اس تعبیر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن ان کی یہ بات زیادہ غور طلب ہے کہ منٹو نے اس افسانے میں مظہریاتی (Phenomenological)اسلوب اختیا ر کیا ہے ۔ یہ نکتہ افتخار جالب نے بڑی تفصیل سے اپنے غیر معمولی مضمون “لسانی تشکیلات” میں بیان کیا تھا۔ ان کا طویل اقتباس یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے،کیوں کہ “پھندنے ” کی بظاہر بے ربطی اور ابہام نے کئی لوگوں کوپریشان کیا ہے :
سعادت حسن منٹونے اپنی کہانی “پھندنے ” میں کئی الفاظ کو اشیا کا درجہ دے دیا ہے ۔ ‘پھندنے ‘ اس کہانی میں فن کارانہ دست رس کے طفیل لسانی شیئت حاصل کرتے ہیں ۔ [اس کے بعد”پھندنے ” سے ایک طویل اقتباس ہے ۔ ]ازار بند کے پھندنے، بینڈ بجانے والوں کی وردیوں کے پھندنے اور گول گوتھنا لال پھندنا بچہ ہیئتی مناسبت کے سبب اکٹھے ہیں ۔ پھر پھندنوں والے ازاربند سے نوجوان ملازمہ کا قتل،گول گوتھنا لال پھندنا بچے سے ماں باپ کی موت،اور صبح کو پھندنے والی وردیوں والے سپاہیوں کا نام و نشان نہ ہونا،کہ انھیں زہر دے دیا گیا تھا،اس یگانگت میں مرگ و فنا کا رنگ بھرتے ہیں ۔۔۔کوٹھی اور ملحقہ باغ سماجی اور اخلاقی احتساب کی تردید و تکذیب کے طور پر ابھرتا ہے،جہاں بلیوں کتوں کو بچے دینے اور چھوڑنے اور من مانی کرنے کا حق ہے ۔ جہاں قتل ہوتا ہے،جہاں کتے بصدوشوق آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں ۔۔۔
یہ ایک خاندان کی شکست و ریخت کا بیان ہے،جس کی ہر عورت نے مرد کا بستر گرم کیا اور ہر گھر میں بچے دیے ۔ معاشرتی زندگی کا سب سے مضبوط عنصر خاندان ہی ہے ۔ خاندان کا داخلی شیرازہ بکھرنے کا یہ معروضی محاکمہ شدید ہیجان کو دبا کر لکھا گیا ہے ۔۔۔
یہ مستقل مقام پھندنوں کی اس شیئت کا جزو لا ینفک ہے جس میں جنسی تلذذ، آوارگی و پریشانی،سماجی رکھ رکھا ؤ کا انحطاط،ہذیانی حالت، بے اصل گردش، پناہ کی تلاش، معاشرت کی بنیادی اکائی :خاندان،کی شکست و ریخت، حقیقی اور بے نامی باپ کی حدوں پر حاوی حد ڈھونڈنا،ایسے موتیف (Motif) میں گندھے ہوئے ہیں کہ یہ تمام موتیف جمع ہو کر ایک بڑا موتیف نہیں بنتے، بلکہ اس میں جو بڑا موتیف موجود ہے،یہ اس کے شاخسانے ہیں ۔۔۔ہر حقیقی شے کا نعم البدل وہ شے خود ہے کہ کوئی ایک شے کسی دوسری شے کا حقیقی نعم البدل نہیں ہے ۔
افتخار جالب کے اس غیر معمولی طور پر درخشاں تجزیے کی روشنی میں “پھندنے ” کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں ۔ اب ہم عفت انیس کی تعبیر سے بہت آگے پہنچ گئے ہیں ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ افسانے کی سطح پر “پھندنے ” خاندانوں کے بکھراؤ اور اخلاقی انحطا ط کا افسانہ ہے اور ما بعد الطبیعیاتی سطح پر منٹو ہم سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ الفاظ کو شے کی طرح برت سکتے ہیں، لیکن ہر شے،یعنی ہر لفظ،اپنی اصل حیثیت میں عدیم المثال ہے، اور یہی وجہ ہے کہ لفظ کی مکمل توقیر کیے بغیر،اس کی گہرائیوں میں پوری طرح اترے بغیر،فن کا تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔
عام طور پراردو کے نقادوں نے “پھندنے “؛ “فرشتہ”؛ اور باردہ شمالی” کا سامنا کرنے کے بجاے کنی کاٹ کر نکل جانے میں عافیت سمجھی ہے ۔ جگدیش چندر ودھاون کی بیحد عمدہ، مفصل، اور ہمدردی سے بھر پور کتاب میں ان افسانوں کا نام نہیں ملتا۔ یہ وارث علوی کی بھی توجہ سے بھی محروم رہے ۔ انیس ناگی نے “پھندنے ” کا ذکر کیا ہے، لیکن ان کی کتاب اس وقت میرے سامنے نہیں ہے ۔ خیر، انھوں نے عفت انیس سے بڑھ کر کہا بھی کیا ہو گا؟یہ افتخار جالب ہی تھے (جنھیں وارث علوی وغیرہ نہ شاعر گردانتے ہیں اور نہ نقاد) جنھوں نے اپنے 1966 یا 1967 کے مضمون “لسانی تشکیلات” میں “پھندنے ” کا مفصل مطالعہ کیا۔ قائم چاندپوری ع
ہمیں ہیں جو یہ مگدر بھانتے ہیں
ہاں ،لیزلی فلیمنگ) (Leslie Flemmingوہ انگریزی بولنے والی، ذراسطحی سی خاتون طالب علم نے بھی مدتوں پہلے (9791)اپنی چھوٹی سی کتاب Another Lonely Voiceمیں “پھندنے ” کا ذرا تفصیلی حال لکھا تھا ۔ فلیمنگ کے خیال میں یہ افسانہ ہمارے ذہن میں “جنون کا ایک عدیم النظیر تجربہ” پیدا کرتا ہے ۔ وہ مزید کہتی ہے کہ “عمیق ترین سطح ” پر یہ افسانہ”زندگی اور موت، دونوں کی مکمل لایعنیت “کا بیان کرتا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نئے افسانہ نگاروں نے اس افسانے کو انحراف کی منزل کے طور پر قبول کیا، اور اس سے متاثر ہو کر “غیر واقعیت پسند”(Non-realistic)فکشن اور”فضول تفصیلات سے گریزاں،غیر جانب دارانہ انداز”(Spare neutral style)کو اختیار کر نے کی کوشش کی۔
انور سجاد نے لکھا ہے :
منٹو کو ہر ایک نے کیش(cash)کیا، یا کرنے کی کوشش کی۔ میں نے بھی، کہ میں نے “پھندنے ” سے کہانی لکھنا سیکھا، اور یوں انھیں کیش کیا۔
غور کرو،ا نور سجاد کہانی لکھنے کی بات کر رہے ہیں ۔ یعنی محض افسانہ نگاری کے کسی ایک یا دو چار فنی پہلوؤں کی بات نہیں کہہ رہے ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے “پھندنے ” سے کہا نی لکھنا سیکھا، جس طرح اور لوگ پریم چند،یا انتظار حسین سے سیکھتے ہیں (یا سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں )۔ اب کامیابی تو مقدر کی بات ہے ۔ شاید اسی لیے شمیم حنفی کو انور سجاد کی بات قبول نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ”پھندنے ” جیسے افسانوں میں جو تجربہ ہے وہ آگے نہیں بڑھ سکا، اور وہ تجربہ،یا وہ جدت ہی کیا، جو باقی نہ رہے ؟ یہاں مجھے اسٹرن(Sterne) کے ناول Tristram Shandyکے بارے میں ڈاکٹر جانسن کی بات آئی، کہ اس نے اسے “انوکھا، بے تکا” (Odd)کہا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ کوئی Odd چیز ٹھہرتی نہیں، یہ ناول بھی نہ ٹھہرے گا۔ لیکن ناول کی تاریخ اور تنقید میں Tristram Shandy کا جو دبدبہ ہے، تم بھی اس سے واقف ہو گے ۔ یا یہ بھی منٹو صاحب کی بہت بڑی کامیابی ہے،کہ لوگ ان کی کامیابی کو کامیابی سمجھنے سے انکار کرتے ہیں ؟
اب میں کچھ تھکنے لگا ہوں ۔ میرا خیال ہے تم تو اکتانے بھی لگے ہو گے ۔ بس اب اتنا بتا دینا باقی ہے کہ ہمارے لیے منٹو صاحب کیا ہیں ؟اور اس کے لیے محمد حسن عسکری سے بہترتعارف نویس ممکن نہیں :
اردو افسانے میں بس منٹو ایک ایسا آدمی ہے جو کسی جذبے یا احساس سے نہ ڈرتا تھا اور جس کے لیے کوئی احساس حقیر یا غیر دلچسپ نہ تھا۔ بعض حضرات نے منٹو کے کارنامے کو یہ کہہ کر اڑانے کی کوشش کی ہے کہ منٹو کے یہاں افسانے کا خام مواد تو ہے،افسانے نہیں ہیں ۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اردو کے دوسرے افسانہ نگاروں کے پا س خا م مواد تک نہیں ہے،کیونکہ خام مواد تو احساسات اور جذبات ہی فراہم کرتے ہیں ۔ جب آدمی اپنے اعصاب پر پہرے بٹھادے تونتیجہ ظاہرہے ۔ منٹو کی شخصیت اردو کے افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ آزاد تھی۔ اس معنی میں، کہ اس نے اپنے احساسات پر کسی قسم کی بندشیں نہیں لگائی تھیں ۔ جب اس کے احساسا ت ایک دوسرے سے آزاد ہونے لگے تھے تو یہی چیز اس کے افسانے کے لیے مہلک بھی بن جاتی تھی،لیکن اردو میں کوئی افسانہ نگار ایسا نہیں،جو احساسات کی آزادی سے اتنا کم ڈرتا ہو۔ احساسات اور ارتعاشات کی ہلچل میں منٹو کی شخصیت ضرور پاش پاش ہو گئی،لیکن اپنی زندگی اور موت سے منٹو نے ہمیں اتنا ضرور دکھا دیا کہ فن کار اپنا مواد کس طرح حاصل کرتا ہے،کیونکہ اس نے مواد جمع کرنے کا کام سر عام اور سب کی نظروں کے سامنے کیا۔ اسی لیے اردو میں اس کی حیثیت محض ایک ادیب سے زیادہ ہے ۔ اسی لیے اس کی موت،اس کی زندگی کی معنویت کو مکمل کرتی ہے اور اسی لیے اس کے برے افسانوں کو برا سمجھنے کے باوجود میں منٹو کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار سمجھتا ہوں ۔
یہاں عسکری صاحب کی بعض باتیں بحث طلب بھی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ منٹو نے اپنے افسانوں کے لیے خام مواد “جمع کرنے کا کام سر عام اور سب کی نظروں کے سامنے کیا۔ “یہ بات عسکری صاحب کے لیے شاید اس باعث اہم تھی کہ خود اپنے افسانوں کے “خام مواد” کے بارے میں انھوں نے بہت کم بتایا کہ انھوں نے اسے کہاں سے حاصل کیا تھا۔ تھوڑا بہت آفتاب احمد کی کتاب سے پتہ لگتا ہے، لیکن وہ باتیں بھی دو دوستوں کے درمیان تھیں ۔ عسکری صاحب نے انھیں باقاعدہ اور رسمی طور پر کہیں بیان نہیں کیا تھا۔ تو ان کے لیے اس بات کی اہمیت رہی ہو گی کہ منٹو کی پوری زندگی سب کے سامنے تھی اور انھوں نے اپنے افسانوں کی دنیا اپنی ہی دنیا کے سنگ و خشت سے تعمیر کی تھی۔
عسکری صاحب کو سب کچھ تو نہیں، لیکن تھوڑا بہت تو معلوم رہا ہو گا کہ ای۔ ایم۔ فارسٹر (E۔M۔Forster)انتہا درجے کا امرد پرست تھا اور اسے عورت مرد کے باہمی رشتوں کے بارے میں یہ بنیادی بات تیس برس کی عمرکوپہنچتے تک نہیں معلوم تھی کہ عورت مرد میں جنسی ہم بستری کیسے ہوتی ہے ؟ فارسٹر کے مشہور ناول “مارس” ( Maurice)میں مردانہ ہم جنس پرستی کے رشتے کی کامیابی اور مسرت افروزی کا تفصیلی ذکر ہے ۔ فارسٹر نے یہ ناول چھپائے رکھا تھا اور کہا تھا کہ اس کی اشاعت میری موت کے بعد ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو سکی ہو گی کہ اس ناول کا خام مواد کہاں سے آیا تھا؟مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ عسکری صاحب کے محبوب فرانسیسی ناول نگار آندرے ژید(Andre Gide)کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ وہ فارسٹر کی طرح پکا امرد پرست تھا، لیکن ژید کے اہم ترین ناولوں میں امرد پرستی کا ذکر نہیں ۔ مجھے ژید سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ۔ زمانۂ نوجوانی میں ژید کی کئی تحریریں میں نے بڑی دلچسپی سے پڑھی تھیں۔ لیکن مجھے اس کے جنسی رجحان سے کوئی دلچسپی نہ تب تھی،نہ اب ہے ۔ ہاں جب یہ بات ہم لوگوں کو معلوم ہوئی کہ دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جب ہٹلر نے فرانس پر قبضہ کیا تو اکثر بہت بڑے فرانسیسی ادیبوں نے (جن میں ژید بھی تھا) فرانس پرجرمنی کے فوجی تسلط کی تحسین کی۔ اس وقت عام خیال تھا کہ زوال آمادہ فرانس کے لیے سب سے مناسب استعارہ” عورت “ہے اور جرمنی کے لیے سب سے بہتر استعارہ “مرد ” ہے اور فرانس پر جرمنی کا تسلط،فرانس میں مردانہ قوت کی قلم کا کام کرے گا۔ اس وقت ژید نے بھی جرمنی کی تعریف، یا حمایت کی۔ بعد میں وہ اپنے موقف سے ہٹ گیا۔ اس کی کتابیں ممنوع قرار دی گئیں ۔ سنہ 1943 میں جب تیو نس کو جرمنی کے قبضے سے آزاد کرا لیا گیا تو ژیدبھاگ کر تیونس چلا گیا۔
ممکن ہے عسکری صاحب کو یہ سب بہت عجیب لگا ہو، کہ فرانس کے ممتاز ترین ادیب نے جرمن فوجی تسلط کا خیر مقدم کیا۔ انھیں فکر رہی ہو گی کہ اس کی اصل وجہ کیا ہو سکتی تھی؟ وجہ انھیں (شاید) نہ مل سکی۔ لیکن میں اس ساری کار روائی کو غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی فن کار، خاص کر فکشن نگار کے تجربے میں جو باتیں تھیں، یا رہی ہو ں گی، ان کے بارے میں فنکار ہمیں بھی بتائے ۔ ژید نے ہمیں کچھ نہیں بتایا، اور منٹو کی زندگی کھلی کتاب کی طرح تھی۔ یہ بات میرے لیے کچھ اہم نہیں ۔ لیکن اپنے مخصوص ذہنی مسائل کی بنا پر منٹو کی یہ بات عسکری صاحب کو بہت اہم لگی کہ انھوں نے اپنے افسانوں کے لیے “موادجمع کرنے کا کام سر عام اور سب کی نظروں کے سامنے کیا۔ “
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جو چیز در حقیقت منٹوکو شیکسپیئر اور میر کے سلسلے کا فن کار بناتی ہے، وہی ہے جسے عسکری صاحب نے ابھی ابھی ان الفاظ میں بیان کیا :”منٹو ایک ایسا آدمی ہے جو کسی جذبے یا احساس سے نہ ڈرتا تھا اور جس کے لیے کوئی احساس حقیر یا غیر دلچسپ نہ تھا۔ “
عسکری صاحب ہمارے ذہن کو اس قدر بر انگیخت کرتے ہیں کہ ان کا ذکر چھڑے تو بات سے بات نکلتی آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں فارسٹر اور ژید وغیرہ کے چکر میں پھنس گیا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ ژید کے لیے ملارمے کا ہونا اہم تھا،لیکن منٹو کے لیے ژید،بلکہ خود عسکری صاحب کا بھی ہونا اہم نہ تھا۔ ہم عسکری کے ممنون ہیں کہ انھوں نے ہمیں منٹو کے بارے میں بہت سی بصیرتیں سجھائیں ۔ لیکن ہمارے ادب میں منٹو پہلا آدمی ہے جسے کسی نقاد کی ضرورت نہیں ہے، خواہ وہ نقاد شمس الرحمٰن فاروقی ہی کیوں نہ ہو۔
تمھارا،
شمس الر حمن فاروقی
الٰہ آباد
Shamsur Rahman Faruqi
Shamsur Rahman Faruqi (born 1935) is an eminent Urdu critic, poet and theorist, who has nurtured a whole generation of Urdu writers since the 1960s. He is regarded as the founder of the new movement in Urdu literature and has formulated fresh models of literary appreciation.