سرخ سلام پاکستان میں – انتظار حسین
’سرخ سلام‘۔ کتاب کا عنوان اردو میں ہے۔ باقی کتاب میں جو سرخ سبز معاملات زیر بحث آئے ہیں وہ انگریزی میں بیان ہوئے ہیں۔ اردو ویسے بھی اس کتاب کی مجبوری ہے۔ دانشوروں کا جو گروہ یہاں زیر بحث ہے وہ ’اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ انگریزی میں پیدا ہوا۔ مگر جو تحریک ان کے ہاتھوں پروان چڑھی وہ کیا شاعری اور کیا افسانہ ہر اعتبار سے اردو کی مرہون منت تھی۔ سو پہلا ہی باب فیض صاحب کی اس نظم سے شروع ہوتا ہے
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
اس کے فوراً بعد ناصر کاظمی کی یہ غزل نقل کی گئی ہے ؎
او میرے مصروف خدا‘ اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے شہروں میں ہے سناٹا
کتاب کے مصنف ہیں کامران اسدر علی۔ ناشر ہے اکسفورڈ یونیورسٹی پریس (کراچی) انھوں نے کتاب کے موضوع سے ہمارا تعارف کتاب کے ذیلی عنوان میں کرایا ہے۔ وہ یوں ہے:
Communist Politics and Class Activism in Pakistan 1947-1973
ابھی تک یہ داستان باوجود اپنی اہمیت کے بکھری پڑی تھی۔ کامران اسدر علی نے بہت تحقیق و تدقیق کے بعد درون پر وہ معاملات کو کرید کر ٹکڑوں نوالوں کو جوڑا ہے اور پوری داستان کو سلیقہ سے مرتب کیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی تقسیم سے پہلے سے چلی آتی تھی۔ اس سے وابستہ ترقی پسند ادبی تحریک بھی کہ اردو میں پروان چڑھ رہی تھی اپنے عروج پر تھی۔ سید سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے اور ترقی پسند تحریک کے قائد اعلیٰ۔ مگر عین اس بیچ تقسیم کا واقعہ رونما ہوا۔ ہندو سکھ مسلمان اپنے اپنے حساب سے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ڈھلنا شروع ہوئے‘ وہ ہندو اور سکھ جن کے دم سے پاکستان کے علاقوں میں بائیں بازو والوں کی چہل پہل تھی ایک دم سے ہندوستان کی طرف منتقل ہو گئے۔ تب ادھر سے سجاد ظہیر پارٹی کی طرف سے مامور ہوئے کہ پاکستان میں جا کر بکھری ہوئی تحریک کو منظم کرو۔
مگر اکیلے سجاد ظہیر تو نہیں آئے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے اعلیٰ گھرانوں کے کتنے چشم و چراغ ہجرت کر کے پاکستان آن پہنچے۔ کوئی آئی سی ایس‘ کوئی پی سی ایل‘ کوئی پولیس کا اعلیٰ افسر‘ کوئی انجینئر۔ پھر وہ نوجوان دانشور جنہوں نے لندن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور بالعموم مارکسیت سے شغف رکھتے تھے۔ وہ بھی ایک ایک کر کے کتنے ادھر آگئے۔ کچھ تحریک کے وسیلہ سے یہاں آن موجود ہوئے۔ اور کتنی جلدی ان علاقوں کے بالخصوص پنجاب کے اعلیٰ گھرانوں کے فرزندوں سے گھل مل گئے۔ سو جو ادھر سے دانشور اشتراکی خیالات کی دولت لے کر ادھر آئے تھے انھیں یہاں شاد آباد ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ اگر کسی پر انٹیلی جنس کی نظر بھی تھی تو ہوا کرے۔ انھیں جن گھروں میں رسوخ حاصل تھا اور جہاں وہ قیام پذیر ہوئے وہ یہاں اعلیٰ عہدوں پر مامور تھے اگر کسی کے وارنٹ نکل بھی گئے تو وہ کسی اعلیٰ افسر کے بلکہ شاید پولیس افسر ہی کے گھر مہمان تھا۔
کامران اسدر علی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ایک ایک کا سراغ لگایا کہ کون کہاں سے چل کر یہاں آیا اور کس کے گھر مہمان ہوا۔ اور کس کا کس سے دوستی کا رشتہ تھا اور کس کا کس سے خاندانی رشتہ تھا۔ اس باب کا عنوان ہے ’پیاری نانی اور بنے بھائی‘۔
کامران صاحب نے اپنی تفتیش کا آغاز ایک خاتون سے کیا ہے جن کا نام انھوں نے پولیس کے ان فائلوں میں دیکھا تھا جو میاں انور علی ڈپٹی انسپکٹر جنرل کریمنل انویسٹی گیشن پنجاب کی نگرانی میں مرتب ہو ئے تھے۔ ان کا نام تھا خدیجہ عمر۔ یہی نام وہ حمید اختر سے بھی سن چکے تھے ،کمیونسٹ پارٹی کی ایک ہمدرد کے طور پر۔ انھوں نے بتایا تھا کہ وہ کامل خاں ممتاز کی والدہ ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ جو خدیجہ عمر انھیں مطلوب ہیں وہ ان کامل صاحب کے والدہ کے بھائی کی بیگم ہیں۔ اور بیٹی ہیں علی گڑھ کے خاں بہادر شیخ منہاج الدین کی اور بیوی ہیں زاہد عمر کی۔ اور زاہد عمر بیٹے ہیں نیلی چھتری والے ظفر علی کے۔ اور وہ گہرے دوست ہیں سجاد ظہیر کے۔ اور سجاد ظہیر کا اس گھر میں آنا جانا تھا۔ خدیجہ عمر وقتاً فوقتاً انھیں اپنی کار میں بٹھا کر کسی کسی گھر پہنچاتی تھیں۔ کس کے گھر۔ انھیں کبھی پتہ نہ چلا۔
کامران صاحب کی تفتیش کہتی ہے کہ سجاد ظہیر جلدی جلدی ٹھکانے بدلتے رہتے تھے۔ پھر وہ کراچی چلے گئے۔ وہاں وہ سید امداد حسین کے گھر مہمان رہے اور سید امداد حسین صوبہ سندھ کی پولیس کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور وہ بھائی تھے رضیہ سجاد ظہیر کے۔
پس اسی طرح کامران صاحب کڑی سے کڑی ملاتے چلے گئے ہیں اور دانشوروں کے اس پورے گروہ کے باہمی تعلقات اور رشتہ داریوں کا کھوج لگانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
شروع شروع میں تو یہ مہمان داری خوب نبھی۔ مگر پھر حالات گمبھیر ہوتے چلے گئے۔ گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ سجاد ظہیر کی سنو۔ ان کا رازداں گرفتار ہو گیا۔ تین دن تک وہ مار کھاتا رہا۔ مگر بنے بھائی کا اس نے اتا پتہ کہیں چوتھے دن جا کر بتایا۔ پولیس وہاں پہنچی تو بنے بھائی کہیں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ کتنی آسانی سے گرفتاری دیدی۔ یہ ہم نے حمید اختر سے سنا۔ حمید اختر نے جب ان سے اس باب میں سوال کیا تو جواب دیا کہ ارے بھائی گرفتار تو اب ہمیں ہونا ہی تھا۔ سوچا کہ کسی دوست کو کیوں مشکل میں ڈالیں۔
یہ جواب ایک طرف لکھنوی مزاج کا غماز ہے۔ دوسری طرف شاید ان کے میزبان بھی اب ذرا محتاط ہو گئے تھے۔
آگے چل کر کامران صاحب نے اس ادبی تنازعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جہاں ایک طرف پوری ترقی پسند تحریک تھی۔ دوسری طرف منٹو صاحب‘ محمد حسن عسکری‘ ممتاز شیریں۔ منٹو صاحب کا ذکر اور ان کے افسانوں کا تذکرہ اتنا ہے کہ لگتا ہے کہ اس سارے تنازعہ کا مرکزی کردار کیا ترقی پسند کیا رجعت پسند سب سے بڑھ کر منٹو صاحب ہیں۔
یہاں اسدر صاحب نے کسی رسالہ سے ایک بحث نقل کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سیاہ حاشئے‘ کے شایع ہونے پر ایک جلسہ ہوا جس میں عبداللہ ملک نے اپنا مضمون پڑھا۔ پھر اس حوالے سے بحث ہوئی۔ یہ کارروائی شاید پوری نقل نہیں کی گئی ہے۔ موجودہ صورت میں وہ گمراہ کن ہے۔ یہاں تو قاسمی صاحب بھی منٹو کے حق میں بولتے نظر آ رہے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ اس کتاب کی اشاعت ہی سے تو بڑا ہنگامہ بپا ہوا تھا۔ اور ’سیاہ حاشئے‘ پر سب سے جارحانہ تنقید قاسمی صاحب نے کی تھی۔ انھیں سب سے بڑھ کر غصہ اس پر تھا کہ منٹو نے کتاب کا دیباچہ محمد حسن عسکری سے لکھوایا۔
ہاں ایک بات اور اسدر صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ قاسمی صاحب نے پاکستان ٹائمز کے نہیں صرف امروز کے اڈیٹر کے فرائض انجام دیے تھے۔
کامران صاحب نے ایک موقعہ پر ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اس سلسلہ میں فیض صاحب کو ہدف بنا رہے تھے۔ یہ کہ انھوں نے فیض صاحب کے مسز جنرل اکبر سے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے شکسپیر کے ڈرامے کا حوالہ دیا۔ اصل میں شکسپیر کے ایک ڈرامے کی طرف اشارہ اس زمانے میں کیا تو گیا تھا مگر فیض صاحب کے حوالے سے نہیں۔ انگریزی اخباروں کے کسی رپورٹر نے اس خاتون لیڈی میکبتھ کے خطاب سے نواز ڈالا۔ مقصود یہ جتانا تھا کہ اس ڈرامہ میں جو لیڈی میکبتھ کا رول تھا کچھ ویسا ہی رول یہاں نظر آ رہا ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ کسی رپورٹر نے اس رول کا تفصیل سے ذکر کیا ہو۔ سو ہم بھی اس تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ جس قاری کو اس باب میں تجسس ہوا وہ اصل ڈامہ ’میکبتھ‘ سے رجوع کرے۔ اگر کسی کو اس باب میں فیض صاحب کا شک گزرا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے یہ ڈرامہ نہیں پڑھا ہے۔