تم کتنے بھٹو ماروگے
حسن مجتبیٰ
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
تم کتنا رستہ روکو گے
وہ اک ایسا جادو تھی
جو سر پر چڑہ کر بولے گی
ہر زنداں کے ہر مقفل کو
وہ چابی بن کر کھولے گی
شور ہواؤں کا بن کر
وہ آنگن آنگن ہولے گی
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
تم خاکی وردی والے ہو
یا کالی داڑھی والے ہو
تم نیلے پیلے اودے ہو
یا گورے ہو یا کالے ہو
تم ڈاکو چور لٹیرے ہو
یا قومی غنڈے سالے ہو
اپنے اور پرائے ہو
یا اندھیاروں کے پالے ہو
وہ شام شفق کی آنکھوں میں
وہ سوہنی ساکھ سویروں کی
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
وہ دیس دکھی کی کوئل تھی
یا تھر میں برکھا ساون کی
وہ پیاری ہنسی بچوں کی
یا موسم لڈیاں پاون کی
تم کالی راتیں چوروں کی
وہ پنکھ پکھیرو موروں کی
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
وہ بہن کسانوں کی پیاری
وہ بیٹی مل مزدوروں کی
وہ قیدی تھی زرداروں کی
عیاروں کی سرداروں کی
جرنیلوں کی غداروں کی
ایک نہتی لڑکی تھی
اور پیشی تھی درباروں کی
’تم کتنے بھٹو مارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلےگا‘
وہ بیٹی تھی پنج آبوں کی
خیبر کی بولانوں کی
وہ سندھ مدینے کی بیٹی
وہ نئی کہانی کربل کی
وہ خوں میں لت پت پنڈی میں
بندوقیں تھیں بم گولے تھے
وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی
اور ہر سو قاتل ٹولے تھے
اے رت چناروں سے کہنا
وہ آنی ہے، وہ آنی ہے
وہ سندر خواب حقیقت بن
چھاجانی ہے، چھا جانی ہے
وہ بھیانک سپنا آمر کا
’تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘
وہ دریا دیس سمندر تھی
جو تیرے میرے اندر تھی
وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی
وہ لڑکی لال قلندر تھی
’تم کتنے بھٹو مارو گے
ہر گھر سےبھٹو نکلے گا‘